تم سمجھتے ہو یہ شب آپ ہی ڈھل جائے گی؟

اس دسمبر بابری مسجد کی شہادت کو پورے تیس برس بِیت گئے۔ بابری مسجد کے کھنڈر پر رام مندر قائم ہے۔ بت ہیں، مورتیاں ہیں، شرک ہے، مشرکین کی پوجا پاٹ ہے اور دلی تا کلکتہ انہی مشرکوں کی حکومت۔ بلکہ کلکتہ سے ڈھاکہ کو جائیے تو انہی جے شری رام کہنے والوں کی بالواسطہ حکومت ہے۔ اہلِ توحید دبائے جا رہے ہیں، لا شریک لہٗ کی اذانوں کی جگہ بھجن گائے جا رہے ہیں۔ لیکن کسی درد رکھنے والے نے بڑی حوصلہ افزا بات کہی کہ’ کعبۃ اللّٰہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، لیکن خانہ کعبہ پھر بھی خانہ کعبہ ہی تھا، پھر وہ بت گرائے گئے اور کعبے کو اللّٰہ کی عبادت کے لیے خالص و پاک کر لیا گیا‘۔ کیا ہوا جو بابری مسجد کی بنیادوں پر رام مندر کھڑا ہے، یہ بھی ڈھایا جائے گا ، ہندوستان جو آج بت خانہ بنا ہوا ہے یہاں رضائے اللّٰہ وحدہٗ لا شریک سے پھر مسجدِ بابری کی بنیادیں اٹھائی جائیں گی۔ ابراہیم و اسماعیل كے وارث اور خاتم الانبیاء محمد رسول اللّٰہ (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کے سچے امتی وہی کم و بیش پانچ ہزار سال قبل والا، مکۂ مکرمہ کا منظر یہاں دہرائیں گے ’ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ1۔ ليكن بقولِ شاعر:

تم سمجھتے ہو یہ شب آپ ہی ڈھل جائے گی؟
خود ہی ابھرے گا نئی صبح کا زرّیں پرچم؟

نہیں! یہ سب قربانی مانگتا ہے، عزم و ارادہ، بدن کا پسینہ، جگر کا خون اور بازو کی قوت۔ اہلِ ہندوستان بخوبی واقف ہیں کہ ہندوستان کا مستقبل کس سمت گامزن ہے۔ ہندوستان کا ہر کلمہ گو،سبزی فروش، دیہاڑی دار مزدور سے لے کرودھان سبھا (ریاستی اسمبلی) و لوک سبھا (قومی اسمبلی) و راجیا سبھا (سینیٹ) کے رکن تک، جامعہ ملیہ و علی گڑھ سے لے کر جامعہ عثمانیہ و دیوبند تک سبھی کے سامنے ہندو چھریاں، بھالے، تلواریں تیز کر رہے ہیں۔ سبھی ہندوؤں کو لاٹھی چلانا سکھایا جا رہا ہے۔ سبزی کاٹنے والے چاقوؤں سے میاؤں (مسلمانوں) کے منہ اور سر کاٹنے کی باتیں ہندوؤں کی عورتوں کے مونہوں سنائی دے رہی ہیں۔ یہ سب محض باتیں نہیں ہیں، تیس سال پہلے بابری مسجد گرائی گئی تھی، بیس سال پہلے حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کر کے ان کے بچوں کو ان کے ساتھ تیل چھڑک کر احمد آباد میں جلایا گیا تھا، آج ہر جگہ بلڈوزر ہیں، ’جے شری رام کہہ ورنہ سر مُنڈی سے اتار دیں گے‘ اور پھر اتار بھی دیے، گاؤ راکھی میں کتنے نوجوان امرتسر تا راجستھان اگر روز کٹتے نہیں تو پیٹے جاتے ہیں، بے چارے کتنے ہی ہر روز Love Jihad کی دیوی کی بھینٹ چڑھتے ہیں؟ یہ اہلِ ہندوستان تو مظلوم ہیں اور ہم بھی باہر سے بیٹھ کر یہ رونا نہیں رو رہے، ہمارے آباؤ اجداد جے پور و اودے پور میں سونا اگلتی زمینیں چھوڑ کر آئے تھے، لکھنؤ میں بستے مکان تھے، بانس بریلی کی رونقیں تھیں، آج بھی وہاں ہمارے کتنے خونی رشتے والے رہتے ہیں۔ لیکن لا الٰہ الا اللّٰہ ایک ایسا رشتہ ہے جو خون و قوم کے رشتے سے بڑھ کر ہے، یہی رشتہ ہمیں آپ کی محبت میں بار بار آپ کی جانب کھینچتا ہے۔ آپ سبھی اپنے من میں آج یہ مان جائیے کہ ہندو مسلم بھائی بھائی کا نعرہ فریب ہے، دھوکہ ہے، سراب ہے۔ ہر ’ازم‘ اسلام و اہلِ اسلام کا دشمن ہے، سیکولر ازم کی چھاؤں ہند کے اہلِ اسلام کے لیے جنت نہیں جہنم ہے(وہ جہنم جس کی مثال احمدآباد دنگے سے دلی فسادات تک ہے)، کیا سیکولر ملحد روسیوں کے مظالم ہم نے نہیں دیکھے، کیا سیکولر ملحد چینیوں کا جبر ہم مشرقی ترکستان کے ایغور مسلمانوں پر ہوتا نہیں دیکھ رہے، کیا آج کی دنیا میں امریکہ و فرانس سے بھی بڑھ کر کہیں سیکولرازم نافذ ہے؟ آج تک اسی سیکولر ازم اور جمہوریت، ’ڈیموکریسی‘ کی خاطر کابل تا دمشق امریکی و یورپی ہیل فائر میزائل گرتے ہیں۔ سیکولرازم ہی کا عالمی ٹھیکے دار امریکہ Howdy Modi‘ کہتا ہے۔ اپنے ملکوں میں سیکولرازم نافذ کرنے والے یورپی و امریکی ہی برما کی آنگ سان سُوچی کو امن کا نوبیل انعام دیتے ہیں۔ ماضی و حال پوری دنیا میں گواہ ہے کہ ان نعروں کا انجام گھر واپسی ہے یا قبر اور یہ نعرے خدانخواستہ اعتقادی ہو جائیں تو عاقبت بھی ہاتھ سے جانے کا اندیشہ ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حامی سول سوسائٹی نوّے فیصد ہو یا ستّر یا ساٹھ فیصد رہ جائے، یہ اگر آپ کی ہتھیا نہیں چاہتی تو آپ کے قتل و ہتھیا پر خاموش تماشائی ضرور ہے اور اصل بات یہ ہے کہ ہندوستان کہ ہر ہر شعبے پر حتیٰ کہ سول سوسائٹی پر بھی آر ایس ایس ہی کا فکری غلبہ ہے۔ این آر سی اور سی اے اے نے منظور ہونا ہی ہے۔ ’انڈیا ٹوڈے‘ پر احمد آباد کی ان خاتون کا انٹرویو دیکھیے جو کہتی ہیں کہ ’ہماری ماں ان کو کھلاتی تھی، پلاتی تھی، جب فساد (۲۰۰۲ء میں قتلِ عام)ہوا تو انہی نے ہماری ماں کو کاٹ دیا، جلا دیا‘۔ اندلس میں یہی ہوا، بوسنیا میں تو کافر مرد مسلمان گرل فرینڈز (مغربی تعبیر میں بنا نکاح کے تعلقات کے ساتھ) بھی رکھتے تھے، مشرقی تیمور میں یہی ہوا، جن کو اپنا سمجھتے تھے انہی نے پہلے پہل ’اپنوں‘ ہی کی گردنیں کاٹیں یا کٹوائیں یا بوسنیا کی طرح گولیوں سے بھنوا دیا۔

جسے لوگ القاعدہ یا ’دہشت گردوں‘ کی دین کی تعبیر کہتے ہیں اس کو چھوڑیے۔ قرآن سے پوچھیے کہ وہ کیا کہتا ہے، سادے سے ترجمے والا کوئی نسخۂ قرآن اٹھائیے اور اس کی تفسیر و تعبیر خود اپنی آنکھوں سے ارد گرد دیکھیے’ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُواْ2، ’وَالَّذينَ كَفَرُواْ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ3، ’ وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلاَ النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ4۔ وہ آپ سے کہتے ہیں کہ اپنی ملت میں لوٹ آؤ، گھر واپسی کر لو۔ چودہ سو برس قبل یہود و نصاریٰ بھی یہی کہتے تھے کہ یا یہودی ہو جاؤ یا نصرانی، گھر واپسی کر لو، قرآن نے کہا ’ وَقَالُوْا كُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰھٖمَ حَنِيْفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ 5‘۔اہالیانِ ہند کے لیے عمل کی راہ پرہم ماضی میں کئی بار گفتگو كر چکے ہیں۔6

اہلِ مشرقی بنگال نے آج سے ۷۵برس قبل جب قیامِ پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا اور مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللّٰہ نے سلہٹ کا محاذ سنبھالا، تو ان کے سامنے حاجی شریعت اللّٰہؒ والی تحریک کا منظر تھا کہ قرآن و سنت حاکم ہوں گے اور حقوق ملیں گے۔ پاکستان کے خائن اور اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے غدار حکمرانوں نے قرآن و سنت کی بیان کی گئی شریعت کو پامال کیا، سیکولر آمریت اور دھوکہ باز جمہوریت سے، بنگالیوں سے دین بھی چھینا، ان کو حقوق بھی نہ دیے بلکہ انہیں کے وسائل کو لوٹا، پاکستان فوج مشرقی پاکستان پر یوں حاکم ہوئی جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی برِّ صغیر پر حاکم تھی، ان سے ان کا زرّیں پٹسن بھی چھینا اور ان کی عورتوں کی عزت بھی۔ یوں اہلِ مشرقی پاکستان نے اپنے حقوق کے حصول کی خاطر ’جوئے بنگلہ‘ کا نعرہ لگانے والوں کا ساتھ دیا، لیکن اس نعرے کے حاملین نے اہلِ بنگلہ دیش کو ہندوستان کا غلام بنا دیا۔ ابھی سولہ دسمبر ۲۰۲۲ء کو کانگریس سے تعلق رکھنے والے بھارتی سیاست دان ششی تھرور نے بنگلہ دیش کی آزادی کا جشن اندرا گاندھی کی تصویر کے ساتھ یہ کہہ کر منایا کہ ’ (آج سے ) اکاون (۵۱) برس قبل اندرا گاندھی نے برِّ صغیر کے جغرافیائیسیاسی نقشے کی تشکیلِ نو کی‘۔ بھارت نے سنہ ۴۷ء سے ۷۱ء تک اور ۷۱ء سے آج تک مشرقی پاکستان ثم بنگلہ دیش میں وہی کیا جو ایک دشمن کو کرنا چاہیے۔ یحییٰ خان و ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب یہ سبھی اقتدار میں کسی بڑی طاقت کے سامنے جھکتے رہے اور ان سب کی سب سے بڑی خیانت اپنے عوام کو اللّٰہ کے دین سے ہٹانے کی کوششیں اور نظامِ کفر (وہ اشتراکی ہو یا سرمایہ دارانہ یا ہندتوائی )کا غلام بنا دینا تھا۔ نتیجہ آج یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی پولیس زبردستی ہماری ایک نو مسلم بہن ’فاطمہ رحمان‘ (سابقاً اورپا ساھا) کو اس کے ہندو ماں باپ کے حوالے کر دیتی ہے جو دینِ بر حق سے دلی میں نہیں ڈھاکہ میں اس کی گھر واپسی کروانا چاہتے اور ہماری اس بہن کے قتل کے درپے ہیں۔ بنگلہ دیش کے حکمرانوں نے ہندوؤں سے مل کر بنگلہ دیش میں ایک ایسا گھناؤنا کھیل کھیلا جس سےوہاں کے اہالیان کا دین تو گیا ہی بنیادی حقوق بھی سلب ہو گئے۔ ہمارے بنگلہ دیش کی بیٹیاں سب سے سستے داموں دنیا بھر میں آج نیلام ہو رہی ہیں، وہاں چار کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، إنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون!

پاکستانی وردی و بے وردی اسٹیبلشمنٹ کی دین و وطن دشمن پالیسیوں کے سبب کشمیر میں آج مٹھی بھر مجاہدین رہ گئے ہیں، بارڈر بند ہے، نہ مجاہدین داخل ہو سکتے ہیں اور نہ اسلحہ و اموال، سپلائی لائن بند ہے۔پاکستانی وزیرِ خارجہ کا اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں مودی کو ’گجرات کا قصائی‘ کہنا ایک سیاسی چال ہے ورنہ اسی کی پارٹی کی پہلے حکومت میں وزیرِ خارجہ اور اسی کی آج نائب، وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ ہندوستان کو Most Favourite Nation قرار دے چکی ہے، بس اس زمانے اور آج میں فرق یہ ہے کہ تب کانگریس کے پنڈتوں کی میٹھی چھری تھی اور آج شیوا کا ترشول۔ پاکستان کی خارجہ و دفاع پالیسی ہمیشہ جی ایچ کیو اور آبپارہ سے ہی ’ڈکٹیٹ‘ کروائی جاتی ہے۔ جب پالیسی ہو تو کشمیر میں لانچنگ ہوتی ہے اور جب پالیسی نہ ہو تو مجاہدین کو قید کر دیا جاتا ہے، بلکہ جموں بارڈر سے مشرک ہندو فوج پر راکٹ چلانے والے مجاہدین پر اپنی ’محسن‘ فوج ہی کے جوان واہ کینٹ کی نیٹو سٹینڈرڈ پر بنی MG 3 المعروف ایل ایم جی سے گولیاں چلاتے ہیں۔ اہلِ پاکستان کے ذمے بہت سے واجبات ہیں۔ سنہ ۴۷ء کا کہ وعدہ قیامِ نظامِ اسلام کا ہوا جو پورا نہ ہوا۔ سنہ ۷۱ء کا جب دین فروشی کے سبب اندرونی و بیرونی سازش سےملک دو لخت کیا گیا۔ نظامِ مصطفیٰ تحریک جس کانتیجہ ضیاء الحق کی آمد کے ساتھ بے ثمر ہوا اور اسٹیبلشمنٹ نے اہلِ دین کو دھوکہ دیا۔ عالمی وار آن ٹیرر میں امریکہ کا عسکری طور سے صفِ اول کا اتحادی بننا اور امریکہ ہی کے عالمی آرڈر و ایجنڈے پر ۲۰۰۴ء تا حال قبائل و علاقہ سرحد میں آپریشن در آپریشن کرنا۔ پاکستان کے اہلِ دین کے لیے ایک ایسی دعوتی جہادی تحریک کی ضرورت ہے جو تب تک سکون سے نہ بیٹھے یہاں تک کہ ملک میں امریکی ڈکٹیشن کا خاتمہ اور نفاذِ شریعتِ محمدی نہ ہو جائے(علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام)۔ اپنی ذات، اپنی جماعتوں اور تنظیموں، اور معاشرے و ملک میں نفاذِ شریعت ماضی کی غلطیوں کا تدارک ہے، غموں کا مداوا ہے اور اہالیانِ برِّ صغیر کی نصرت کی راہ (اور کشمیر تا برما اہلِ ایمان کی نصرت ’فرضِ عین‘ جہاد کا حصہ ہے)۔ غزوۂ ہند تو حقیقت ہے، اس نے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ برپا ہونا ہے کہ اس کے پیش آنے کو صادق و مصدوق (علیہ ألف صلاۃ وسلام) نے بیان فرمایا ہے۔ فیصلہ اہلِ برِّ صغیر کو کرنا ہے کہ وہ اس غزوے کے لیے کتنا خون پسینہ بہانے کو تیار ہیں اور آج اس کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنے برِّ صغیر میں رہ کر کس قدر اس کی تیاری زبان و قلم اور کلاشن کوف و تفنگ سے کر رہے ہیں یا بس ہمارے یہاں ابنِ قاسم کو پکارنے اور الٰہی بھیج دے محمود کوئی ہی کی صدا ہے؟

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

یوگی ادتیا ناتھ کو خبر ہو کہ غزوۂ ہند کوئی سپنا نہیں، حقیقت ہے، پچھلے جنم میں ہاتھی، گھوڑے اور ہنومان رہنے والے کیا جانیں کہ حقیقی دنیا کیا ہوتی ہے اور سپنا کیا؟ موذی و ناگ، مودی و ادتیا ناتھ غزوۂ ہند اور پورے برِّ صغیر میں نفاذِ شریعت کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا پتہ و پروپیگنڈہ نہ سمجھیں، ان کا واسطہ ۷۱ء میں پلٹن والے نیازی اور ۹۹ء میں کارگل والے پرویز سے نہیں ،رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیٔ غزوۂ ہند کی خاطر آہن و بارود میں لپٹ کر توحید و رسالت کے دشمنوں کو بھسم کر دینے والوں سے ہے، سیّد احمد شہید کی جماعتِ مجاہدین کے جانثاروں سے، حاجی شریعت اللّٰہ کے بیٹوں سے، فتح علی ٹیپو کے فرزندوں سے اور حضرت نانوتوی و شیخ الہند کے وارثوں سے ۔ اگر یوگی و مودی اور ان کے ہندو پنڈت و جوگی تلواریں تیز کر رہے ہیں تو مجاہدینِ برِّ صغیر نے اپنی کلاشن کوفوں میں حارقہ و خارقہ7 گولیاں بھر رکھی ہیں۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد کسی شاعر نے کہا تھا:

غیرتِ جہاد اپنی زخم کھا کے جاگے گی
پہلا وار تم کر لو، دوسرا ہمارا ہے!

اللھم وفقنا كما تحب و ترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وأرضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی
اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!




1 ’’اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اللّٰہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے، اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار ! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے۔ بے شک تو اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۱۲۷)

2 ’’ تم یہ بات ضرورپاؤگے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔ ‘‘سورۃ المائدۃ: ۸۲

3 ’’اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کے والی وارث ہیں۔ ‘‘سورۃ الانفال: ۷۳

4 ’’ اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔‘‘سورۃ البقرۃ: ۱۲۰

5 ’’ اور یہ (یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ : تم یہودی یا عیسائی ہوجاؤ راہ راست پر آجاؤ گے۔ کہہ دو کہ : نہیں بلکہ (ہم تو) ابراہیم کے دین کی پیروی کریں گے جو ٹھیک ٹھیک سیدھی راہ پر تھے، اور وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اللّٰہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ ‘‘سورۃ البقرۃ: ۱۳۵

6 دیکھیے استاد اسامہ محمود کا مسلمانانِ ہند کی خدمت میں محبت و اخوت کا پیغام ’اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے‘۔ [اس بیان کا متن مجلّہ ’نوائے افغان جہاد‘(نوائے غزوۂ ہند کا سابقہ نام) کے فروری ۲۰۲۰ء کے شمارے میں دیکھا جا سکتا ہے اور شمارۂ ہٰذا میں بھی اس کو مکرر شائع کیا جا رہا ہے۔]

7 گولیوں کی قسمیں، حارقہ: جلا دینے والی گولی، خارقہ: پھاڑ دینے والی گولی۔

Exit mobile version