کہاوت ہے کہ شرک اور تثلیث کی علامت، گول مٹول سانٹا، جسے عرف عام میں سانٹا کلاز (Santa Claus)اور عرب دنیا میں بابا نویل کہا جاتا ہے، قطب شمالی میں رہتا ہے اور وہاں کھلونے اور شیرینی تیار کرنے کی ایک بڑی سی فیکٹری چلاتا ہے ۔ کرسمس کی رات سانٹا اپنی بگھی پر سوار ہوکر دنیا کے سفر پر نکلتا ہے۔ اس کی بگھی کو اڑنے والے آٹھ رین ڈیئر( قطبی ہرن یا بارہ سنگے) کھینچتے ہیں۔ اپنی اس بڑی سے بگھی پر سوار ہوکر وہ ہر گھر کی چھت پر اترتا ہے اور اپنی مخصوص سرخ ٹوپی پہنے چمنی سے گھر کے لاؤنج میں اترتا ہے اور آتش دان کے ساتھ بچوں کے لیے خاص طور پر بنایا ہوا شیرینی اور کھلونوں کا تھیلا لٹکا دیتا ہے۔
ممکن ہے کہ مغربی دنیا میں والدین کو بچوں کے معصوم جذبات کے ساتھ کھیلنے کی عادت ہو، اسی لیے کرسمس کی شام جب بچے سونے چلے جاتے ہیں تو والدین آتش دان کے ساتھ ان کے لیے کھلونے وغیرہ رکھ دیتے ہیں اور بچے جب صبح بیدار ہوکر یہ سب دیکھتے ہیں تو ان کے تصور میں موجود یہ الف لیلوی داستان ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
بچوں کے نگران بزرگ سانٹا کلاز کی لوک کہانی نے بڑوں کی دنیا میں داخل ہوکر اس وقت ایک دلچسپ موڑ اختیار کیا جب اس فرضی کردار نے افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کے محافظ کا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ لہٰذا کرسمس کی رات سانٹا کلاز اپنی لمبی سفید داڑھی اور مخصوص سرخ ٹوپی کے ساتھ اکثر افغانستان میں موجود امریکی کیمپوں میں مہمان خصوصی (guest of honour) بننے لگا۔ کبھی کبھار وہ خط اول پر بھی نمودار ہوتا تاکہ ان فوجیوں کے حوصلے بلند کرسکے جن کے اعصاب مسلسل جنگ کی وجہ سے چٹخ چکے تھے۔
اسی سلسلے میں کرسمس کی را ت افغانستان میں صلیبی غاصب فوج کے بعض افراد سانٹا کا بے چینی سے انتظار کرتے تاکہ وہ چپکے سے ان کی چھاؤنی میں گھس آئے اور ان کے لیے تحائف، شیرینی اور مشروبات لائے۔
شومئی قسمت کہ بجائے سانٹا کلاز کے محمد بن مسلمہؓ کے بیٹے نئے سال کی رات اکثر امریکی چھاؤنیوں کا دورہ کرتے ہیں تاکہ امریکیوں کو سانٹا کے پسندیدہ سرخ رنگ میں رنگ سکیں۔ پس کیا سانٹا نے القاعدہ کی بیعت کرلی ہے اور وہ نئے سال کی رات القاعدہ کے لیے جاسوس کا کردار ادا کرتا ہے؟ یا سانٹا القاعدہ اور غاصب صلیبی فوجوں کا ڈبل ایجنٹ ہے؟
گزشتہ سالوں میں مسلسل جاری جنگ کی وجہ سے ہم محمد بن مسلمہؓ کے بیٹوں کی قربانیوں اور ان کی دلچسپ کہانیوں پر کما حقہ روشنی نہیں ڈال سکے۔ جنگ کی فطرت ہے کہ اس میں وقت، قوت اور زندگیاں سب کھپ جاتی ہیں۔ تاہم اب ہم موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تاکہ ان واقعات کی برسی کے موقع پر آنے والی نسلوں کو تحریض دلانے اور ان کے اندر قربانی کا جذبہ اجاگر کرنے کے لیے اس امت میں موجود صلاحیت اور قابلیت واضح کرسکیں ۔
ماہ دسمبر میں کی گئی ان تابناک کارروائیوں کی یاد مناکر ہم ابطال اسلام کے کارناموں اور ان کی قیمتی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں، جو انہوں نے ان جرائم اور مظالم کے رد عمل میں پیش کیں جن میں مغربی دنیا میں ہونے والے ہر جشن کے موقع پر اضافہ ہوجاتا ہے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ کرسمس کی شام اور نئے سال کی رات غاصب فوجیں ضرور بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتی ہیں۔
اسلام کی معاصر عسکری تاریخ میں وہ زمینی کارروائیاں جو مغربی دنیا میں کرسمس اور نئے سال کی تیاریوں کے موقع پر کی گئیں، بہترین کارناموں میں شمار ہوتی ہیں۔ زمانی ترتیب کے اعتبار سے بھی ان حملوں اور پہلے کیے گئے فضائی اور بحری حملوں میں مطابقت ہے، مثلاً یو ایس ایس کول کارروائی اکتوبر ۲۰۰۰ء میں کی گئی اور فضائی حملے ستمبر ۲۰۰۱ء میں۔
معاصر جہاد کا ایک امتیازی نشان یہ ہے کہ یہ مستقل مسلمانوں کو متحرک رکھتا ہے اور اہل ایمان کو جنگ میں اور صف اول کے مجاہدین میں شامل ہونے کی تحریض دلاتا ہے ۔ تحریک کا یہ عمل لڑائی کے موسم میں خاص اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے اور ایسے وقت میں مجاہدین عموماً فرضیت جہاد کی ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں، اسی طریقے سے جیسے اللہ نے اسے واجب کیا ہے اور جس طریقے سے اللہ کی رضا حاصل ہوسکتی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب قطر اور امارات کے گمراہ کن اور مخرب فورمز سے ملحق بوتی، رئیسونی اور ابن بیّاہ جیسے جدت پسند، نام نہاد علماء پھسلواں فقہ تیسیر کی جانب مائل کرنے میں مصروف تھے، اس کوشش میں کہ قرآن و حدیث کے متون کی وسعت کو محدود کرسکیں اور ان کی حیثیت متن کی بجائے حاشیے کی سی کردیں ، اور جب وہ شہریت کی بنیاد پر مساوی حقوق کی فقہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور عیسائیوں کو ’خدا کے بیٹے‘ کی سالگرہ کے موقع پر مبارکباد کے پیغام دینے کے جواز کے بارے میں فتاویٰ جاری کررہے تھے (اور ہم اس گستاخی پر اللہ ہی کی پناہ چاہتے ہیں) تاکہ بزعم خود ،بدلتے ہوئے دور کے ساتھ قدم ملا کر چلا جاسکے اور اسلام کی روشن تر تصویر پیش کی جائے…… عین اسی وقت میدان جہاد سے وابستہ فقہاء اور علماء کی رائے ان کی رائے سے یکسر مختلف تھی اس بارے میں کہ امریکہ نواز علماء کے فتاوی کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے اور کس طرح امریکی اسلام کے حامیوں کو خاموش کروایا جاسکتا ہے۔ اہم تر یہ ہے کہ بنیادی طور پر کرسمس اور نئے سال کی رات منانے کے صحیح طریقے کے بارے میں ان کا ایک مختلف نقطۂ نظر ہے ۔
افغانستان کے مجاہد کمان دان ملا داد اللہ مجاہدین کو حکم دیتے تھے کہ صلیبیوں پر حملے کرکے، غنیم کفار کا خون بہا کر اور کرسمس کے جشن کو ان کے لیے ایک بھیانک خواب بنا کر دسمبر کے آخری دس دن منائیں۔ مجاہدین افغانستان میں یہ ایک معروف روایت بن گئی تھی۔ جنگ کے پورے دور میں نئے سال کی رات صلیبیوں کے خلاف حملوں کا ایک خاص اہتمام ہوتا تھا۔ مجاہدین اس موقع کو دشمن کے دلوں میں خوف بٹھا کر اور ان کی صفوں میں عدم تحفظ اور دہشت کا احساس پیدا کرکے مناتے تھے۔
جس وقت غنیم بوکھلایا ہوا نئے سال کی تقریبات منا رہا ہوتا، مجاہدین اپنے حملوں کی کامیابی اور صلیبیوں کی ممکنہ اموات کا جشن منا رہے ہوتے۔ تاہم نئے سال کی ایک رات ایسی ہے جو ہماری یادداشتوں میں ہمیشہ ثبت رہے گی، وہ رات جو خراسان میں ایک انوکھے طریقے سے منائی گئی، اور وہ ہے اکتیس دسمبر ۲۰۰۹ء کی رات۔
۲۰۱۰ء کا رسمی آغاز ہونے سے پہلے کے چند دن ایسی جہادی استخباراتی کارروائیوں سے مزین تھے ، جن کی جاسوسی کی پیشہ ورانہ دنیا میں نظیر کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اوائل جنوری میں سی آئی اے نے تسلیم کیا کہ دو فدائی مجاہدین کامیابی کے ساتھ امریکہ کے دفاعی نظام میں نقب لگا کر داخل ہوگئے۔ ان میں سے پہلے ایک نائیجیرین شہری عمر فاروق ہیں (اللہ انہیں رہائی عطا فرمائے) جو امریکی ہوائی اڈوں کے سخت حفاظتی اقدامات سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ ڈیلٹا ائیر لائن کے ایک جہاز کو فضا میں تباہ کرنے کی کوشش کے مراحل میں وہ ہوائی اڈوں کے حفاظتی اقدامات سے بچ نکلے، عسکری معیار کا بارود جہاز کے اندر لے جانے میں کامیاب ہوگئے اور اس سے پہلے کہ جہاز ڈیٹرائٹ (Detroit) کے ہوائی اڈے پر اترتا، وہ بارود کو کامیابی سے پھاڑ چکے تھے۔ گو کہ یہ کارروائی اپنا اصل مقصد حاصل نہ کرسکی، یعنی جہاز کو فضا ہی میں تباہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تاہم اس سے امریکی معیشت، بالخصوص ائیر لائن کی صنعت کو بہت بڑا دھچکا ضرور لگا۔ نقصانات کا تخمینہ ۴۱ملین ڈالر تک لگایا گیا، علاوہ اس نقصان کے جو امریکہ میں عدم تحفظ کی ایک نئی لہر کی صورت میں سامنے آیا۔
دوسرے فدائی مجاہد ابو دجانہ خراسانی (تقبلہ اللہ) خوست افغانستان میں سی آئی اے کی Forward Operating Base میں اپنی بارودی جیکٹ کے ساتھ داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ نیز سی آئی اے کے بہترین دماغوں کو بے تاثیر کرنے اور ایجنسی کو اس کے اسلام کے خلاف جنگ میں اس کے بہترین ماہرین سے محروم کرنے کے قابل بھی ہوئے۔ یہ حملہ اس طویل جنگ کا آخری معرکہ تھا جو القاعدہ نے سی آئی اے کے اعلیٰ ترین حکام کے خلاف دھوکے کی چال سے لڑی۔ قریباً سال بھر سے زیادہ عرصہ تک القاعدہ سی آئی اے کے بعض بہترین دماغوں کو مہارت سے تیار کردہ اپنے شکنجے میں کسنے کے لیے مستقل دھوکہ دیتی رہی اور اسے بے وقوف بناتی رہی۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ پینساکولا فضائی اڈے فلوریڈا میں کیا گیا نڈر محمد الشمرانی کا حملہ بھی دسمبر (۲۰۱۹)کے مہینے میں ہی ہوا۔ یہ اولوالعزمی، محنت، سوچے سمجھے منصوبے اور غیر معمولی جرأت سے عبارت ایک شاندار کارروائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم محمد الشمرانی کی جتنی بھی تعریف کریں، وہ ان کے جواں مردانہ اور بے لوث عمل کی عظمت کا احاطہ نہیں کرسکتی۔
کرسمس کے قریب ہونے والی زمینی کارروائیوں کا خاتمہ ایک ایسی کارروائی پر ہوا جو معاصر جہاد میں قریباً بے نظیر ہے۔ یہ کارروائی بحر ہند میں سمبا کیمپ پر حملے کی کارروائی ہے جو الشباب سے منسلک پانچ فدائی مجاہدین نے کی اور اس کے نتیجے میں ہوائی اڈے پر ہینگروں (hangars) میں کھڑے سات امریکی جہاز تباہ ہوئے۔ پس اللہ رب العزت ان پانچ ابطال کو بہترین اجر سے نوازے کہ اس کارروائی کی درخشندگی لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔
اس تحریضی مقالے میں ہم دور حاضر میں امت مسلمہ کی ایک یادگار جنگ کی متاثر کن یادوں میں آپ کو شریک کریں گے۔
بالکل اسی طرح جیسے ۱۱/۹ امریکہ کی تاریخ میں انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے، اسی طرح ۱۲/۳۱ کی کارروائی سی آئی اے کی تاریخ میں نقطۂ تغییر ہے۔ اس کارروائی کے روح رواں ڈاکٹر ابو ہمام البلاوی کی زندگی کی کہانی بہت منفرد ہے۔ یہ ہمیں فرعون کے دربار میں پرورش پانے والے موسیٰ علیہ السلام کی یاد دلاتی ہے۔ ہمام کو پہلے اردنی اور پھر امریکی استخباراتی اداروں نے بھانپا اور پھر انہیں القاعدہ میں نقب لگانے کے لیے تیار کیا۔ اس کہانی کا انجام البتہ دشمن کے لیے چشم کشا بھی ہے اور عبرت انگیز بھی اور جو اللہ رب العزت کے اس فرمان کی یاد دلاتا ہے:
فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوّاً وَحَزَناً إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ (سورة القصص:۸)
’’ تو اسے اٹھا لیا فرعون کے گھر والوں نے تاکہ وہ بن جائے ان کے لیے دشمن اور پریشانی (کا باعث) یقیناً فرعون ، ہامان اور ان کے سب لشکر (اپنی تدبیر میں) خطاکار تھے ۔‘‘
آخر کار آخری حملہ جو انہوں FOB Chapman میں کیا اورجو کشت وخون اس میں ہوا، سی آئی اے اسے کبھی نہیں بھلاسکتی۔ سی آئی اے کے سابق افسر جیک رائس کے مطابق اس حملے کا شکار ہونے والا افسروں کا ایک چنیدہ گروہ تھا جن میں سے ہر ایک اپنے فن کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ایک لمحے کے لیے اس حملے کے کامیابی کے پہلو کو نظر انداز کریں، مبادا کوئی ہمیں دشمن پر جنگوں کے دوران ہونے والے معمول کے ایک چھوٹے سے حملے پر غایت مبالغے اور بناوٹی جشن منانے کا سزاوار نہ ٹھہرائے، اور دشمن ہمیں یہی یقین دلانا چاہے گا۔
فی الوقت ماضی کو ایک طرف رکھتے ہیں تاکہ معاملے کی اصل سے توجہ بٹانے والے ہمیں گئے دور کے ستمبر اور دسمبر کی یادوں میں زندہ رہنے اور ان حملوں کی عام سی یادوں پر آنسو بہانے کا الزام نہ دے سکیں۔ ہمارا پہلا اور اولین مقصد یہاں یہ ہے کہ نوجوانوں کو تحریض دلائی جائے اور یہ سادہ سا پیغام انہیں پہنچایا جائے کہ امت کو بلند عزائم رکھنے والے رجال کی ضرورت ہے۔ امت کو ضرورت ہے صالح، زیرک اور ہوشیار نوجوانوں کے لشکر کی جن کے مقام و مرتبہ کا تعین ان کے جہادی فہم کا معیار اور ان کی عسکری ذکاوت و فراست کی تیزی کرتی ہو۔ ایسے لوگ جو اپنے ساتھیوں میں ایمان اور عزم کی آگ بھڑکا سکیں۔ اس جنگ کے ہر میدان میں یہی وہ عسکری دماغ ہیں جو دشمن کی صفوں کے عقب میں کام کرتے ہوئے اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔
ابودجانہ ہمام البلاوی شہید (تقبلہ اللہ) ان تمام اور کئی دیگر صفات سے متصف تھے۔ اس عالی ہمت فدائی کارروائی کے پیچھے انہی کا دماغ تھا؛ وہی اس شاندار کارروائی کے منصوبہ ساز، مرتب اور عامل تھے۔ یہ ایک انوکھی تجارت تھی جو انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کی۔ بلند ہمت لوگوں کی یہ قسم، جو ناممکن کے حصول کا خواب دیکھتے ہیں اور پھر ثابت کرتے ہیں کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا، یقیناً بہت قیمتی اور کسی بھی قوم کے لیے نادر روزگار ہوتی ہے۔
إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقّاً فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورة التوبۃ: ۱۱۱)
’’ یقیناً اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ جنگ کرتے ہیں اللہ کی راہ میں ‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں، یہ وعدہ اللہ کے ذمے ہے سچا ، تورات ، انجیل اور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو وفا کرنے والا کون ہے ؟ پس خوشیاں مناؤ اپنی اس بیع پر جس کا سودا تم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ اور یہی ہے بڑی کامیابی۔ ‘‘
ابودجانہ جیسے کرداروں کے ممتاز ہونے کی وجہ دشمن کو اس کے اپنے کھیل میں بار بار دھوکہ دینے، جُل دینے اور ہرانے کی کامل صلاحیت ہے۔ ان کی کہانی کو جو چیز مزید خاص بناتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے دشمن کا مکمل اعتماد حاصل کیا اور اسے قائل کیا کہ وہ ان کے لیے اس سفر کا انتظام کرے اور اس کے تمام اخراجات بھی برداشت کرے جس کی خواہش کب سے ان کے سینے میں پل رہی تھی، یعنی وزیرستان کا سفر۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اردنی استخبارات اور ان کے امریکی آقاؤں کو دو مرتبہ اس حماقت کی قیمت چکانے پر مجبور کیا جس کا ارتکاب انہوں نے کیا۔ پہلی مرتبہ اس دام کی تیاری کے لیے نقد کی شکل میں جو انہوں نے انہی (دشمن کے استخبارات) کے لیے تیار کیا اور دوسرا ان کی زندگیوں کی صورت میں۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ کس طرح ہوشیاری سے انہوں نے اردنی استخبارات کا اعتماد حاصل کیا اور انہیں ایک پل کے طور پر اپنے اصل ہدف، یعنی سی آئی اے کی انسداد دہشت گردی ٹیم کے بڑے افسران تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔
ابودجانہ نے ثابت کیا کہ وہ دشمن کو دھوکہ دینے اور انہیں اپنے دام میں پھنسانے کا خوب تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے واشنگٹن سے خوست تک سی آئی اے کے ان بہترین دماغوں کو کامیابی سے ورغلایا جن کا کام ہی اسلام کے خلاف جنگ لڑنا ہے۔ اللہ سے کیے ہوئے اپنے عہد کے تکمیلی مراحل تک وہ دشمن کو دھوکہ دیتے رہنے میں کامیاب رہے۔انہوں نے امریکیوں کے ساتھ شطرنج کے اس طویل کھیل میں آخری چال چلنے کے لیے درست وقت اور درست جگہ کا انتخاب کیا۔ کارروائی کا منصوبہ انہوں نے اس طرح سے بنایا کہ وہ نئے سال کی رات سے متصل ہوگیا۔یوں دشمن کے نئے سال کے جشن کو انہوں نے ایک عظیم جنازے میں تبدیل کردیا۔
دسمبر کی کارروائیوں کو سرانجام دینے والوں کی کچھ نمایاں مشترک صفات ہیں۔ ممکن ہے کہ آنے والی نسلیں ان دلیر ابطال کی مثالوں سے سبق حاصل کریں۔ ابودجانہ جیسوں کو افتخار عطا کرنے والی چیز ان کے ایمان کی قوت اور گہرائی ، اللہ کے ساتھ ان کا اخلاص، غیر معمولی ذکاوت اور بذلہ سنج طبیعت ہے۔ اسی وجہ سے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ان کارروائیوں کے کرنے والے اکثر افراد ڈاکٹر، انجنیئر یا پائلٹ تھے ؛ اور یہ شعبے عموماً بہترین صلاحیتوں کے مالک افراد ہی اختیار کرتے ہیں۔
ان کارروائیوں کے مرد میدان ثبات، حوصلہ و ہمت، بہادری اور قوی دل رکھنے والے تھے۔ انہیں اللہ رب العزت نے دقت نظر اور ذہانت کا اعلیٰ درجہ عطا کیا تھا۔ انہوں نے خود کو ایسا باہمت ثابت کیا جو جان جوکھوں میں ڈالنے میں بھی تامل نہیں کرتا، جو ایسے مقام پر پیش قدمی کرتا ہے جہاں دوسرے جھجک کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اہم تر یہ کہ یہ سب کے سب جانتے تھے کہ راز کی حفاظت کیسے کرنی ہے، کس طرح اپنے آپ کو نمایاں ہونے سے بچانا ہے اور اپنے کام کے دوران حفاظتی اصولوں کی پاسداری کس طرح کرنی ہے۔ انہوں نے اہداف کے چناؤ سے اپنے کام کا آغاز کیا اور پھر منصوبہ سازی کے تمام مراحل سے ہموار طریقے سے گزرتے ہوئے فدائی کارروائی کو سرانجام دیا۔ مواقع کو پہچاننے کی صلاحیت، اس کے لیے پیش قدمی کا حوصلہ اور موجود مواقع کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا کامیابی اور جہادی عمل کی اثر پذیری کی ضمانت ہے۔ حضرت سلیمانؑ کے ہدہد کی طرح یہ تنہا مجاہد کی سنت ہے جس نے حضرت سلیمانؑ کو مطلع کرنے سے بھی پہلے از خود ایک جہادی کام کا بیڑا اٹھایا۔
یہ ابطال مجاہد کی بہترین اور اہم ترین صفات عطا کیے گئے تھے، یعنی وہ جو اپنے آپ میں ایک امت ہو، تنہا ہی ایک چڑھائی کرنے والے لشکر کی مانند ہو، دشمن کو دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، دشمن کے دماغ میں داخل ہوکر اس کی سوچ کی گہرائی کو پہنچ سکتا ہو، دشمن کا مکمل اعتماد حاصل کرے، وسیع معاشرتی تعلقات بنائے، دشمن کے معاشرتی ماحول سے ہم آہنگ ہوجائے اورتفویض کردہ کردار کو اس طرح سے نبھائے کہ آخر تک کسی کو شک بھی نہ ہوسکے۔استخبارات کی عالمگیریت کے اس دور میں یقیناً یہ تنہا مجاہد کے لیے اہم ترین صفات ہیں۔
یہاں یہ بتانا بے فائدہ نہیں ہے کہ آج دنیا کے تمام ممالک سمیت اپنے استخباراتی اداروں کے اسلام کے خلاف جنگ میں متحد ہوچکے ہیں۔ اس تمام عمل کی رہنمائی اور نگرانی سی آئی اے کرتا ہے جس نے عالمگیریت کے اس دور میں از خود معلومات کا ٹھیکہ اٹھایا ہے ۔ گزشتہ تین دہائیوں میں ہم نے استخبارات اور محافظت کی دنیا میں انقلاب کا مشاہدہ کیا ہے۔ اہل کفر کی فوجوں کے خلاف ہماری سعی کسی ایک ملک کی سیکورٹی، یعنی ہر ملک کے جداگانہ استخبارات اور حفاظتی اصولوں کے خلاف مزاحمت سے منتقل ہو کر عالمی سیکورٹی کے خلاف ہوچکی ہے۔بیشتر عالمی قوتوں اور ان کے مقامی گماشتوں کے استخبارات اور حفاظتی نظام ایک ہی زنجیر سے مربوط ہوگئے ہیں۔ اس نئے مشترکہ نیٹ ورک کے پیچھے عالمی سرمایہ داری کی سلطنت ہے۔ یہ سلطنت کی نئی اور انوکھی قسم ہے، تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس سلطنت کے ایک رکن کی حیثیت سے سی آئی اے قومی استخباراتی ادارے سے نیم عسکری مشترکہ عملے کے ادارے میں تبدیل ہوگیا ہے جو عالمی سطح پر کام کرتا ہے۔ آج سی آئی اے خفیہ جنگوں میں ملوث ہے، ملکی اور غیرملکی (نان سٹیٹ) کرداروں سےمعاملات طے کرتی ہے، خفیہ جیلوں کا نظام چلاتی ہے اور حتی کہ اپنی ماتحت حکومتوں کے معاملات بھی دیکھتی ہے۔ یہ ایسا واشنگٹن میں ہونے والے سیاسی فیصلوں کی بنیاد پر نہیں کرتی نہ ہی امریکی صدر کی ہدایات پر ایسا کرتی ہے، بلکہ یہ ان کے حکم پر ایسا کرتی ہے جو اس نئی عالمی سرمایہ دارانہ سلطنت کے ڈوریں ہلانے والے ہیں۔
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اس نئے چیلنج کا سامنا تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ کیا جائے۔ محض اللہ رب العزت کی توفیق سے تنظیم القاعدہ میں ایمان کے لشکر دور حاضر میں ان حفاظتی چیلنجوں پر قابو پانے، دنیا کے مضبوط ترین استخباراتی گڑھ میں داخل ہونے اور ایک پیچیدہ ترین جہادی استخباراتی کارروائی کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ہماری جنگ کے لیے معیاری نمونہ جس کا امتیازی نشان جدت اور اختراع ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی محافظ، مجاہد صحابی محمد بن مسلمہؓ کا مدرسہ ہے۔ اس مدرسے کی روایت دھوکے اور فریب کی حکمت عملی استعمال کرنا ہے اور پیچیدہ عملیات کی تکمیل کے لیے کاٹھ کے گھوڑے (ٹروجان ہارس) پر اعتماد ہے جس کے ذریعے دشمن کی کمر اس جگہ اور اس وقت توڑی جائے جہاں اسے بالکل توقع نہ ہو۔ القاعدہ نے اب تک اس حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے جتنی کارروائیاں کی ہیں وہ زمینی حملوں تک محدود نہیں ہیں، مثلاً جیسی کارروائی ابو دجانہ خراسانی اور محمد الشمرانی نے کی یا ۱۹۹۸ میں سفارت خانے میں کی جانے والی بمباری…… بلکہ اس قسم کی کارروائیاں فضائی اور بحری حملوں کو بھی مشتمل ہیں، جن میں سے اہم ترین ۱۱/۹ کارروائی اور یو ایس ایس کول کارروائی ہے جس کے نتیجے میں سترہ امریکی بحری ملاح ہلاک ہوئے۔ معاصر تاریخ میں الا ماشاء اللہ ہی کوئی مسلح تحریک ایسی ملتی ہے جو اس قدر مختلف النوع عملیات پر فخر کرسکے۔ ایک سابقہ سینئر روسی افسر نے اپنی کتاب ’The World after 9/11‘، میں درست تجزیہ کیا ہے کہ القاعدہ نے معاصر اسلامی تحریکوں کی تاریخ میں کامیابی کے ساتھ ایک اہم تاریخی تبدیلی کی ہے۔اس نے گول پوسٹ(ہدف) کو افسران اور سربراہان مملکت کے قتل سے خود مملکت کے قتل کی طرف منتقل کردیا ہے۔ اس کے مطابق القاعدہ پہلے غیر ملکی (نان سٹیٹ) کردار کی حیثیت سے عالمی جنگ میں داخل ہوئی۔ اس نے کہا کہ حفاظتی چیلنجوں پر قابو پانے میں تنظیم کی کامیابی کا سہرا اس کی معاشی خود مختاری اور ملکی اداروں سے کم سے کم تعلق کے سر پر ہےجس کی وجہ سے معلومات فاش نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ استخباراتی ادارے جن کی تاریخ ہی اسلامی تحریکوں میں دخول کی ہے، عموماً القاعدہ کے منصوبوں اور اہداف سے مکمل طور پر بے خبر ہی رہتے رہے ہیں(وللہ الحمد)۔
اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں، ہمارے شہید ہمام البلاوی کی نمایاں ترین صفت اللہ کے ساتھ کیے گئے ان کے عہد میں ان کے منصوبے کا معیار تھا۔ انہوں نے پہلے جہادی حلقوں میں اپنی ساکھ ایک زرخیز دماغ لکھاری اور نامور مفکر کی حیثیت سے بنائی۔ اس نے اردنی استخبارات کی توجہ کھینچی اور یہی ان کی گرفتاری اور قید کی وجہ بنی۔ تاہم ہمام نے جہاد کی خدمت میں اپنے بلند ترین عزم کا ادراک کرتے ہوئے قید کی آزمائش کو ایک انوکھے موقع میں تبدیل کرلیا۔ ان کی قید اس عہد کا پہلا مرحلہ تھی جو وہ اللہ سے کرنے چلے تھے۔ ٹارچر سیلوں میں یہ ذکی شخص اردنی استخبارات کو دھوکے سے یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کے پاس ان کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی اہم چیز ہے جو ان کے امریکی آقاؤں کی نگاہ میں ان کے مرتبے اور مقام میں بہت اضافہ کردے گی ۔ انہوں نے اپنی شخصیت، صلاحیتوں اور عزائم کے بارے میں جان بوجھ کر ایک خاص تاثر چھوڑا۔ محض اللہ رب العزت کی توفیق سے اردنی استخبارات نے اس تاثر کا مثبت جواب دیا جو ان کے ذہنوں میں ابودجانہ نے قائم کیا تھا۔وہ قائل ہوگئے کہ ابودجانہ ان کے ساتھ غدار کی حیثیت سے نہیں بلکہ بعض جہادی مفادات کے حصول کے لیےباہمی دلچسپی کے امور میں تعاون کریں گے۔
اردنی استخبارات کے سربراہ، شریف علی بن زید، نے اپنی ایک ای میل میں ابودجانہ کو بتایا، جب کہ ابودجانہ وزیرستان میں تھے، ’’اے ہمام! اے شیر اسلام!میری پیشہ ورانہ زندگی کا مستقبل، میری ترقی اور میری زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے۔ شاہ عبداللہ ذاتی طور پر تمہارے کام اور تفصیلات پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔تم نے ہمارا سر امریکیوں کے سامنے فخر سے بلند کردیا ہے اور ہمیں تمہاری کامیابیوں پر فخر ہے‘‘۔ ابو دجانہ نے اسے یقین دہانی کرائی اور تسلی دی۔ بن زید کیا جانتا تھا کہ اس نے اپنی زندگی واقعی ابودجانہ کے ہاتھ میں دے دی ہے!
اردنی افسران کو قائل کرنے کے بعد کہ انہوں نے اسے اپنے مقصد کے لیے بھرتی کرلیا ہے، انہوں نے خراسان کے لیے ایک ڈاکٹر کے طور پر ٹکٹ خریدا جو زخمیوں اور بیماروں کے علاج میں تعاون کرنا چاہتا ہے۔ مجھے میادین جہاد میں انہیں دیکھنا یاد ہے، معسکرات میں تربیت لیتے ہوئے، مریضوں کا علاج کرتے اور انہیں طبی مشورے فراہم کرتے ہوئے۔ وزیرستان میں ان کی آمد کے بعد ابودجانہ نے اپنے اصل پراجیکٹ (یعنی اللہ سے اپنے عہد)پر کام شروع کیا؛ مرحلہ وار، نہایت ذہانت، سرگرمی اور مکمل رازداری کے ساتھ۔ انہوں نے القاعدہ کی مرکزی قیادت کو اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا اور ایک استخباراتی ٹاسک فورس ترتیب دی ، تاکہ سی آئی اے کی اہم معلومات تک رسائی کی حرص سےبھرپور طریقے سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور یوں سی آئی اے کے بہترین دماغوں کو ان کی خلافِ قیاس قسمت کی طرف ورغلا کر FOB Chapman لایا جائے ۔
سی آئی اے کے ان دماغوں کو بے اثر کرنے اور میدان سے ان کی غیر حاضری سے توقع تھی کہ افغانستان میں ایجنسی کا کام تعطل کا شکار ہوگا اور یہ افغانستان سے امریکہ کی جلد واپسی میں معاون ثابت ہوگا۔ ابو دجانہ نے جس اہم بات کا بہت زیادہ خیال رکھا وہ یہ کہ بیک وقت ایجنسی کے دو افسران سے زیادہ لوگوں کا اپنے بھرتی کردہ ایجنٹ کے ساتھ اکٹھا ہونا سی آئی اے کے اصولوں کے خلاف تھا۔ ۱۹۸۲ء میں بیروت حملے کے بعد سے ایجنسی ان اصولوں کی سختی سے پابندی کررہی تھی۔ پس اس پورے منصوبے میں سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ کس طرح سی آئی اے کے بڑے اور ماہر افسران کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو ابودجانہ کے ساتھ ملاقات میں اکٹھا کیا جائے۔یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اسلام کے خلاف جنگ میں ان کی اہم معلومات کے حصول کی حرص کا اس قدر بھرپور طریقے سے استحصال کیا جائے کہ وہ اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز ان معلومات کو بنا لیں جو ابو دجانہ نے انہیں فراہم کرنی ہیں۔
محض اللہ رب العزت کی مدد و رہنمائی کے ذریعے ایک انتہائی گمراہ کن کھیل کی بساط نہایت احتیاط کے ساتھ بچھائی گئی۔ اگر یہ کامیاب ہوگیا تو یہ امریکہ کا خود پر سے اعتماد ختم کردے گا۔ ایک ایسے دام کے لیے تیاریاں کی گئیں جس میں سی آئی اے کے چند بڑے افسران کو ورغلا کر پھانسنا تھا ، بالکل اسی طرح جیسے امریکی فوجوں کو ورغلا کر موت کے شکنجے افغانستان میں گھیر کر لایا گیا۔اللہ کی رحمت سے معاملات اسی طرح ہموار طریقے سے چلتے گئے جیسا کہ منصوبہ تھا۔ ابودجانہ نے اپنے رب سے کیا اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنی روح اپنے خالق کے سپرد کردی۔ انہوں نے اپنی زندگی پر ان الفاظ کی مہر لگا دی جو وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ گفتگو میں اکثر دہرایا کرتے تھے کہ ’کب میرے الفاظ میرے خون سے سیراب ہوں گے؟‘۔
مکمل سکون، اطمینان اور پرفریب مسکراہٹ کے ساتھ وہ FOB خوست کے لیے روانہ ہوئے۔سال بھر انہوں نے خود کو مکمل طور پر پرسکون ، مجتمع اور خود پر مکمل طور پر قابو رکھا۔ ان کی جسمانی حرکات نے کبھی بھی ان کے اصل مقصد کو اردنیوں یا امریکیوں پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ ان کے ساتھ تعامل کے پورے دور میں کہیں بھی انہیں کسی اضطراب یا جھجک کی علامت ان کے اندر نظر نہیں آئی جس سے انہیں ان کے اصل عزائم کے بارے میں شک بھی گزرتا۔ ان کی شخصیت، ان کے ذہن اور ان کے ارادوں کو پرکھنے میں یہ سی آئی اے کی بدترین ناکامی تھی۔ اور اسی ناکامی نے ان کے منہ پر Chapman مرکز میں بھرپور طمانچہ مارا۔
یہ ذکر بھی یہاں بےفائدہ نہیں کہ حملے کے دن جس لمحے انہوں نے دشمن کے ساتھ تعامل شروع کیا اس وقت سے لے کر سی آئے اے کے ان غیر مشکوک افسران کے ساتھ بیٹھنے تک، جو واشنگٹن سے بالخصوص ان سے ملاقات کی خاطر آئے تھے، ان کی کسی جسمانی حرکت سے ان کے اصل ارادوں کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ غیر معمولی استقلال، جرأت اورعزم کے ساتھ انہوں نے وہ کارروائی سرانجام دی جسے اس بدترین بھیانک خواب کی طرح ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس سے ایجنسی کو اپنی پوری تاریخ میں واسطہ پڑا۔
حملے کے بعدبہت سی فلموں اور خبروں نے سی آئی اے کے منہ پر پڑنے والے اس بلند آہنگ طمانچے کی تفصیلات نشر کیں ۔ تاہم امریکیوں نے بعض اہم چیزوں سے جان بوجھ کر صرف نظر کرنے کی کوشش کی اور وہ یہ کہ ابودجانہ نے اس کارروائی کو سرانجام دینے کے لیے سب سے حساس وقت چنا تھا۔ نہایت احتیاط کے ساتھ ایسے موزوں وقت کا چناؤ کیا گیا جس سے درانداز غاصبوں اور پیچھے ان کے خاندانوں کو بے انتہا دکھ اور تکلیف پہنچے۔ ’نیویارک ٹائمز‘ کے الفاظ میں ’یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ تھا‘۔ یہ پورا معاملہ ہی وائٹ ہاؤس کے چہرے پر بدترین تھپڑ اور اوباما، اس کے نائب بائیڈن اور موساد کے ایجنٹ شاہ اردن کے لیے انتہائی شرمناک تھا ، جو نہایت بے چینی کے ساتھ اس قیمتی معلومات کے منتظر تھے جو نئے سال کی رات ابودجانہ نے انہیں فراہم کرنی تھیں ۔اس کے بجائے وہ ہوا جس کی توقع انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہ کی تھی۔
اپنے تصورات کے گھوڑوں کی باگیں ڈھیلی کرتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے ابودجانہ کے جذبات کا تصور کرتے ہیں جب کہ وہ ان فیصلہ کن لمحات میں دشمن کے سامنے کھڑے تھے۔ پس ان آخری لمحات میں، جس کے بعد سی آئی اے نے اس مبارک حملے میں اپنے بہترین دماغوں کو کھویا، کیا افشا ہوا؟
ہمارے شہید، ہمام ایک خاندانی شخص تھے۔ ان کے بھائی بہنیں اور والدین تھے۔ پس ایسا شخص کس طرح اپنی زندگی ایک فدائی کارروائی کی نذر کرسکتا ہے؟ اور انہوں نے اپنی بارودی جیکٹ پھاڑنے سے پہلے امریکیوں سے کیا کہا؟ اپنے خالق کے سپرد اپنی روح کرنے سے پہلے ان کے آخری الفاظ کیا تھے؟
یہ وہ سوال ہیں کہ شاید ان کا کوئی یقینی جواب نہیں ہے اور صرف وہ لوگ جنہوں نے ابودجانہ کی جہادی زندگی میں ان کے ساتھ وقت گزارا ہے، وہی کچھ اندازہ کرسکتے ہیں۔ اس مضمون کے لکھاری کے لیے ابودجانہ جیسے شخص کی دوستی ایک اعزاز کی بات ہے۔ اور ان کی شخصیت سے واقفیت کی بنیاد پر ہی مجھے اس بات پر کوئی شک نہیں کہ ان آخری لمحات میں ان کی اپنے رب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جنت سے محبت دنیا کی ہر محبت پر غالب آگئی ہوگی۔ انہیں یقین تھا کہ کہ وہ اس دنیا کی عارضی زندگی سے ایک بہتر زندگی کے طرف سبقت کررہے ہیں اور دشمن کے بیچوں بیچ اپنی بارودی جیکٹ پھاڑ کر وہ اپنی روح کو اس کی عارضی قیام گاہ سے، اس جسم سے آزاد کردیں گے اور اللہ اس کے رسول اور اہل ایمان کی رضا حاصل کرکے ہمیشگی کی زندگی اختیار کریں گے۔ پس اللہ ابودجانہ پر ابدی زندگی میں رحمتیں نازل فرمائیں!
سیاسی تجزیہ کار، عسکری ماہرین اور بڑے استخباراتی افسران سب کا ہی اس بات پر اتفاق ہے کہ ابودجانہ نے جو کارروائی کی وہ پیشہ ورانہ مہارت رکھتی تھی اور اس نے سی آئی اے کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔اس کے نتیجے میں امریکہ میں سی آئی اے کی عملی صلاحیتوں پر اعتماد متزلزل ہوگیا اور یہی وہ بات ہے جس نے اس کارروائی کو کامیابی کی ایک مکمل تصویر بنا دیا۔اس حملے کے مابعد اثرات نے سی آئی اے کا اپنے گماشتوں (ایجنٹس) اور جواسیس پر سے اعتماد اٹھا دیا۔ دیگر استخباراتی ایجنسیوں مثلاً اردنی استخبارات کے ساتھ شراکت کے بارے میں تحفظات کھڑے ہونے لگے۔
اس پورے مرحلے کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ القاعدہ کا ایک مجاہد پورے ایک سال سے زیادہ عرصے تک دنیا کے بہترین آزمودہ کار استخباراتی افسران کے ساتھ تنہا تعامل کرتا رہا۔ وہ تنہا ہی انہیں دھوکہ دینے اور ورغلانے میں کامیاب رہا۔ محض ایک بٹن دبا کر نہ صرف اس نے ان کی اس پوری ٹیم کو اڑا دیا جسے وہ دھوکہ دیتا رہا بلکہ اہم تر یہ کہ عالمی اکھاڑے میں امریکہ کی ساکھ کو بھی بری طرح تباہ کیا۔ اس کے نتیجے میں ایجنسی میں بہت سوں نے استعفی دیا جس کی وجہ سے ادارے کا کام تعطل کا شکار ہوا اور ایجنسی کا اپنے جواسیس اور ملحقہ اداروں کے ساتھ تعامل میں اعتماد ختم ہوگیا۔
سی آئی اے کا ایک سابقہ افسر، گیری برنٹسن کہتا ہے:
’’پرانے دور میں جب ہم روسی عملیات کررہے تھے، اگر آپ کا کوئی ڈبل ایجنٹ ہوتا تو زیادہ سے زیادہ برا یہ ہوسکتا تھا کہ وہ آپ کو غلط معلومات فراہم کرے۔ لیکن آج اگر آپ کا کوئی ڈبل ایجنٹ ہوتا ہے تو وہ آپ کے منہ پر بارود پھاڑ دیتا ہے۔‘‘
سی آئی اے کے بن لادن یونٹ کاسابق سربراہ مائیکل شوئیر اس کارروائی کو استخباراتی معیار سے انتہائی شاندار قرار دیتا ہے۔ اس نے نشاندہی کی کہ مرنے والوں میں پانچ سی آئی اے کے بہترین افسران تھے جو القاعدہ کے موضوع پر ماہر تھے اور مستقبل قریب میں اس نقصان کا بھرنا تقریباً ناممکن ہے۔
نیٹو کے ایک بلند منصب ذریعے کے حوالے سے نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ اس حملے کے فوراً بعد افغانستان میں وہ FOB بند کردیا گیا جسے طویل عرصے سے سی آئی اے کے گماشتے استعمال کررہے تھے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس کارروائی سے جو نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔اوباما نے سی آئی اے کے عملے کو تعزیتی پیغامات بھیجے۔ گارڈین اخبار کے مطابق اس نے اس حملے کو ایجنسی کے لیے ایک غیر معمولی سانحہ قرار دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایجنسی کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا حادثہ ہے۔ اول و آخر اس عظیم کامیابی کا سہرا تنہا اللہ رب العزت کے سر ہے اور پھر دلیر مجاہد بھائی ڈاکٹر ہمام خلیل البلاوی اور القاعدہ کے ان حلقوں کے سر ہے جنہوں نے اس کارروائی کے انتظامی امور سنبھالے۔ہم اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان مخلصانہ کوششوں کو قبول فرمائے اور شہید ہمام البلاوی کو روز قیامت بلند مقام عطا فرمائے۔
اس کارروائی اور اس میں سی آئی اے کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال ہونے والی تکتیک کی بیشتر تفصیلات راز ہیں کہ یہ تنظیم کے استخباراتی ریکارڈ کا حصہ ہے اور اگر اللہ نےچاہا تو آئندہ بھی اسی قسم کی کارروائیوں کے سلسلے میں اس مواد کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ابودجانہ اور امریکیوں اور ان کے اردنی گماشتوں کے درمیان مراسلت ہے، ابودجانہ کی امریکیوں کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات پر مبنی ویڈیوز ہیں اور کارروائی کے لیے ان کی تیاریوں کی تفصیلات شامل ہیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں کسی مناسب وقت پر ہم اس میں سے کچھ مواد نشر بھی کردیں۔
یہاں ہمارا مقصد نئی نسل کے ایمان کو جلا بخشنے کے لیے انہیں جرأت اور بے غرضی کے ان متاثر کن افعال کی یاددہانی کرانا ہے۔ ان کے دینی بھائیوں کی سچی کہانیاں بیان کرکے ہم اپنی نوجوان نسل کے دلوں میں اعتماد انڈیلنا چاہتے ہیں اور انہیں شجاعت اور بہادری کے اعمال کی تحریض دینا چاہتے ہیں ۔ اللہ رب العزت کے درج ذیل حکم کی پیروی کرتے ہوئے اہل ایمان کو ظلم اور ناانصافی کے خلاف لڑنے اور اس کا مقابلہ کرنے پر اکسانے کے ساتھ ساتھ کفار کو بھڑکانا اور غصہ دلانا بھی ہماری یکساں ذمہ داری ہے:
فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَسَى اللّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ (سورۃ النساء: ۸۴)
’’ پس (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ جنگ کریں اللہ کی راہ میں! آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے سوائے اپنی ذات کے البتہ اہل ایمان کو آپ اس کے لیے اکسائیں، بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کافروں کی قوت کو روک دے …… ‘‘
مسلمانوں کی نوجوان نسل سے ہم کہتے ہیں: تمہارے دینی بھائیوں نے پچھلی نشستوں کی زندگی قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ جامد طرز زندگی اہل ایمان، باصلاحیت اور باہمت لوگوں کو سزاوار نہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کے قصے اپنے خون سے تحریر کرتے ہیں۔ پس ان کے الفاظ اور افعال کی وراثت کا حق ادا کرو۔وہ کہاں ہیں جو اپنے رب کے ساتھ سود مند تجارت کریں اور ایسی شاندار کارروائیاں کرکے اپنی جان اور اپنا مال اللہ رب العزت کے ہاتھ بیچ دیں جنہیں آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں؟ کہاں ہے مستقبل کی قیادت جو اپنے اجداد کی وراثت کا حق ادا کرے؟
آج امت کو پھر ایک بار ضرورت ہے اس پائلٹ اور انجینیر کی فراست و ذکاوت کی، وہ شہید جس نے ۱۱/۹ کارروائیوں کی سربراہی کی، محمد عطا (اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے اور آخرت میں ان کے درجات بلند فرمائے)۔ ضمناً اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ محمد عطا نے امریکہ کے نسلی مسئلے اورنسلی امتیاز سے متعلق اس کی لامتناہی مصیبت کو ایک عملی اور مؤثر حل عطا کیا۔ ۱۱/۹ کی صبح انہوں نے تمام امریکیوں کو گرد اور دھوئیں کے سرمئی بادلوں سے ڈھک دیا جس سے گورے اور کالے کے درمیان تفریق ختم ہوگئی۔
ہماری امت کو نڈر بطل، عبداللہ العسیری کی مانند ہوشیار عامل کی ضرورت ہے ، جس نے امریکہ کے لے پالک محمد بن نائف پر اس کے محل کے اندر حملہ کیا جبکہ وہ اپنے محافظین اور ملازمین کی حفاظت میں تھا۔ بے لوث قربانی کے اس عمل نے ناصرف آل سعود کے دلوں میں خوف کا بیج بودیا بلکہ اہم تر یہ کہ انہیں ان کے اپنے محلوں کے اندر بھی مکمل طور پر غیر محفوظ ہونے کا احساس دیا۔ اللہ نے چاہا تو ہم سعودی عرب کے دیوثوں، جن میں سرفہرست محمد بن سلمان خود ہے، کے محلوں میں بھی ایسے ابطال کو پائیں گے۔
ہماری امت کو ضرورت ہے شہید ڈاکٹر ہمام البلاوی (تقبلہ اللہ)جیسے ذہین افراد کی، جنہوں نے قلم اور تلوار دونوں سے جہاد کیا اور ایسا حملہ کیا جس نے امریکہ کی تمام کی تما م استخباراتی یادداشتوں کو محو کردیا۔ انہوں نے دشمن کے معلومات کے خزانے اور اسلام کے خلاف جنگ کے میدان میں اس کے ماہر ترین افراد کو مؤثر طریقے سے تباہ کردیا ۔ سی آئی اے اور اس کے شریکوں نے جوتے کھا کر جو سبق حاصل کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ مسلمانوں کا جہادی ذہن، کفری دنیا اور ان کے حلفاء کے تمام اذہان کو بیک وقت شکست دے سکتا ہے ۔
اسلام کو آج ضرورت ہے زندان میں قید نضال حسن جیسے بطل کی، جنہوں نے امریکی فوج کو وہ سبق سکھایا جو وہ کبھی نہ بھولیں گے۔ امت کو ضرورت ہے آج نائیجیریا کے دلیر فدائی مجاہد عمر فاروق (اللہ انہیں جلد رہائی عطافرمائیں) جیسوں کی جن کی کارروائی نے امریکہ کو بہت بڑے معاشی نقصان سے دوچار کیا۔ یہ نقصانات نہ ہوتے اگر اللہ مجاہدین کے منصوبے کو پورا ہونے دیتا۔ اللہ رب العزت نے اپنی کامل حکمت سے چاہا کہ بارودی مواد صحیح طریقے سے نہ پھٹے، کیونکہ اگر کارروائی اسی طرح مکمل ہوجاتی جیسا کہ منصوبہ تھا تو امریکی بہت آرام سے یہ کہتے کہ یہ جہاز کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے تباہ ہوگیا۔ بظاہر جو کارروائی کی کامیابی نظر آتی وہ دراصل اس کی ناکامی ہوتی۔ یہ محض اللہ رب العزت کی حکمت بالغہ ہی تھی کہ یہ کارروائی اپنے منصوبے کے مطابق مکمل نہ ہوسکی۔ اس نے دنیا کو دکھا دیا کہ مجاہدین امریکی دفاعی نظام میں کس حد تک داخل ہوسکتے ہیں۔
اس رسوائی نے امریکیوں کو مجبور کیا کہ وہ ناصرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں اپنے حفاظتی اصولوں پر نظر ثانی کریں جس کے لیے انہیں کئی بلین ڈالرز کا خرچہ اٹھانا پڑا۔ اہم تر یہ کہ دنیا نے یہ دیکھا کہ اب بھی ایمان اور حکمت کی سرزمین یمن میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ ستمبر ۲۰۰۱ کی کارروائی کے مثل کارروائیاں دسمبر کے مہینے میں کرسکتے ہیں۔ ’’اور اللہ اپنے ارادے کی تنفیذ پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘ ۔
اسلام کو یکساں ضرورت ہے محمد الشمرانی (تقبلہ اللہ) جیسے پائلٹ اور شہید کی جس نے امریکی فضائیہ کو زبردست مزا چکھایا اور ان سے افغانستان، عراق، شام اور صومالیہ میں گھروں اور مساجد میں مسلمانوں پر کی گئی بمباریوں کا ویسا ہی تلخ انتقام لیا جیسا ان کا حق بنتا تھا۔
نسل اسلامی اور موحد نوجوانوں سے ہم کہتے ہیں: ابطال اسلام کو ایک مرتبہ پھر امریکہ کا رخ کرنا چاہیے تاکہ ظلم کی اس سلطنت کو تہذیب سکھا سکیں ا ور اسے وہ سبق سکھا سکیں جو تاحال اس نے نہیں سیکھا۔ (امریکہ کی طرف) واپسی کا یہ سفر ضرور ہوائی جہازوں کے ذریعے ہی ہونا چاہیے مگر غیر متوقع طریقے سے، مختلف ذائقے اور رنگ کا ایک اور طمانچہ۔ ہماری آئندہ کارروائیوں کو امریکہ اور وسیع تر مغربی صہیونی صلیبی دنیا کو مجاہد اسلامی قوم کی نفسیاتی اور ذہنی ساخت کو سمجھنے کاایک اور موقع دینا چاہیے۔ اہم تر یہ کہ امریکہ کے ظالموں اور مغربی صہیونی صلیبی دنیا کو اسلامی دنیا پر قبضے اور اس کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کا خمیازہ بھگتنا چاہیے۔
امریکہ اور اس کے حواریوں سے ہم یہ کہتے ہیں: یہ ہیں القاعدہ کے سپاہی۔ یہ تمہارے لیے اجنبی نہیں ہیں کیونکہ تم نے ان کا مشاہدہ کیا ہے اور تم ان سے واقف ہو…… یہ معتدل، قدامت پسند، شادی شدہ ہنستی بستی زندگیاں رکھنے والے نوجوان ہیں…… مردان جنگ اور بچوں کے والدین ہیں۔ تمہارے جھوٹے دعووں کے برعکس ان میں سے کوئی بھی شکستہ حال اور مصیبت زدہ پس منظر سے نہیں ہے۔ یہ محبت، رحم، جرأت، اولوالعزمی اور عالی اخلاق رکھنے والے ہیں۔ ہر ایک ان کی علو استعدا د اور ذہانت کی گواہی دیتا ہے۔ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو مشہور ومعروف یونیورسٹیوں کے سند یافتہ ہیں۔ یہ غور وفکر کرنے والے،انتہائی شائستہ اور مہذب لوگ ہیں۔ ان کی مثال اس چشمے کی سی ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا، ایسا زرخیز ذخیرہ جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور مستقل صف اول کے جہاد کے تسلسل میں اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہے۔
دشمن بھی یہ تسلیم کرتا ہے۔combating terrorism center (دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے مرکز) کی تحقیق جسے ویسٹ پوائنٹ میں امریکی ملٹری اکیڈمی، جسے امریکہ میں سب سے جدید تصور کیا جاتا ہے، نے نشر کیا۔
’’پال گل اور اس کے معاون لکھاریوں نے تنہا کام کرنے والے دہشت گردوں کے معاشرتی آبادیاتی (sociodemographic) اوصاف اور سابقہ رویوں کی نظریاتی طیف (spectrum ideological ) کے آرپار سے پڑتال کی اور یہ پایاکہ القاعدہ سے متاثر ہونے والے تنہا عاملین میں دائیں بازو کے شدت پسندوں (۵۰فیصد) کے مقابلے میں مجرمانہ رسوخ کم ہے (۹ء۲۶ فیصد)، اور یہ ان سے عمر میں دس سال چھوٹے اور بہتر تعلیم یافتہ ہیں، اور ان کے پیشہ ورانہ نوکریوں سے منسلک ہونے کا امکان قوی تر ہے۔ تنہا دہشت گردوں سے متعلق ایک تجزیے میں مارک ہیم اور ریمن سپیج نے ثابت کیا کہ گوروں کے تفوق کی تحریکوں نے تاریخی طور پر نچلے طبقے کے دہشت گرد پیدا کیے، جبکہ ’’مذہبی‘‘ دہشت گرد گروہوں جیسا کہ القاعدہ نے ہر درجے سے لوگ لیے اور وہ ممکنہ طور پر زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی شدت پسندوں اور دائیں بازو کے شدت پسندوں کے مابین سماجی، اقتصادی اور تعلیمی تفاوق سابقہ مجرمانہ تاریخ کی ترویج پر اثر رکھتا ہے۔‘‘
اے دشمنان اسلام! اگر امت اسلام اور اس کے معزز نوجوانوں کے خلاف تمہاری سعی کی فطرت سمجھنے کے لیے تمہاری محدود ذہنی صلاحیتیں کافی نہیں ہیں تو جان لو کہ اس امت کی پہنچ بہت وسیع ہےاور اب بھی ہمارے درمیان وہ موجود ہیں جو تمہارے صریح دشمن ہیں۔ اللہ نے چاہا تو ہم پہلے والے کام دوبارہ کریں گے کیونکہ تم ہماری پہنچ سے دور نہیں ہو۔
تمہارے ایک تجزیہ کار نے صحیح مشاہدہ کیا کہ اسلامی دہشت گردی ملکی دہشت گردی پر پلتی ہے، اور جب دوسرا ختم ہوتا ہے تو پہلا خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔ اللہ نے چاہا تو ستمبر اور دسمبر کی کارروائیاں نہ اس قبیل کی پہلی تھیں اور نہ آخری۔ ہم مستقل عزم اور پکے ارادے کے ساتھ اپنی سعی جاری رکھیں گے ۔ تم ان چیزوں کو بہتر جانتے ہو جنہیں ہم نے چھپا رکھا ہے اور جان بوجھ کر جن کی ذمہ داری قبول نہیں کی؛ اور تم نے خود بھی خاموشی اور انکار کو ہی اقرار پر ترجیح دی۔ پس انتظار کرو اس کا جو ہم نے سنبھال رکھا ہے اورجو اللہ کی مدد اور اذن سے آنے والا ہے اور جو پہلے سے بھی زیادہ تلخ ہے۔
بطور اختتامیہ، ڈیوڈ کک نے اپنے مختصر مشاہدے میں ہماری تمام تر سعی کا نچوڑ فصاحت کے ساتھ بیان کیا ، ’جہاد اسلامی میں کوئی ناکامی نہیں ہے، بس کامیابی مؤخر ہوسکتی ہے‘۔ پس اللہ شہدائے اسلام پر رحم فرمائے اور امت کو ان کی مثل مزید ابطال عطا فرمائے۔ اور ہماری آخری دعا یہی ہے کہ تمام تر تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
٭٭٭٭٭