اجنبی ___ کل اور آج | پہلی قسط

الشیخ المجاہد احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ کی آج سے بیس سال قبل تصنیف کردہ نابغہ تحریر ’ اجنبی ___ کل اور آج ‘، آنکھوں کو رلاتی، دلوں کو نرماتی، گرماتی ، آسان و سہل انداز میں فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین سمجھانے کا ذریعہ ہے۔ جو فرضیتِ جہاد اور اقامتِ دین( گھر تا ایوانِ حکومت) کا منہج سمجھ جائیں تو یہ تحریر ان کو اس راہ میں جتے رہنے اور ڈٹے رہنے کا عزم عطا کرتی ہے، یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہادت ان کو اپنے آغوش میں لے لے(اللھم ارزقنا شہادۃ في سبیلک واجعل موتنا في بلد رسولک صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ!)۔ ایمان کو جِلا بخشتی یہ تحریر مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں قسط وار شائع کی جا رہی ہے۔(ادارہ)


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی اِمَامِ الْمُتَّقِیْنَ وَسَیِّدِ الْاَنْبِیَاءِ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَ الصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا.

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’بَدَءَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَءَ غَرِیْبًا فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ.‘‘ (مسلم ،کتاب الایمان)

’’اسلام کی ابتدا اس حال میں ہوئی کہ یہ اجنبی (نا مانوس ) تھا ا ور عنقریب یہ پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جس طرح شروع میں تھا،پس بھلائی کی خوشخبری ہے اجنبیوں کے لیے۔‘‘

اسلام اور اہلِ اسلام کے ماضی و مستقبل کے بارے میں یہ الفاظ آج سے قریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے اُس مبارک دہن سے ادا ہوئے تھے، سننے والوں نے جس سے حق کے سوا کبھی کچھ نہ سنا تھا۔ دل وجاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں۔

یہ غرباء ___اجنبی مسافر کون تھے؟ کیا چاہتے تھے؟ اور اپنوں ہی میں انجان کیوں بن گئے تھے؟

تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جو جاہلیت کے اُس سمندر میں اپنے ساحلِ مراد کو،اپنے ربّ کی حقیقی معرفت کو پا گئے تھے۔یہ جان گئے تھے کہ ایک ا للہ کی عبادت کے سوا زندگی کا کوئی اور مقصد نہیں۔عبادت اس ذات کی،جس نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے،جو مسلسل ہمارا امتحان لے رہا ہے اور جس کی طرف ہمیں بالآخر لوٹ کر جانا ہے۔یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ سوچ کے ہر زاویے پر،پسندو ناپسند کے ہر معیار پر ، ترجیحات کی ہر ترتیب پر،انداز و عمل کی تمام باریکیوں پر ، حتیٰ کہ چہروں، ملبوسات اور کھانے پینے کے آداب تک پر اس عقیدے کا ایک گہرا رنگ جم گیا تھا:

صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ (سورۃ البقرۃ:۱۳۸)

’’ ( ہم نے) اللہ کا رنگ (اختیار کرلیا ہے) اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہوسکتا ہے اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘

دینِ فطرت کا یہ رنگ،نورِہدایت کی یہ کرنیں وحی کے اسی منبع سے پھوٹی تھیں،اپنے اپنے زمانے میں جس سے تاریخِ انسانی کی عالی مرتبت ہستیوں ___ نوح وابراہیم ، موسیٰ و عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام نے روشنی سمیٹی تھی اوردنیاوالوں میں بانٹ دی تھی۔اب اسی سلسلۂ ذہب کی آخری کڑی سراجِ منیر کی صورت میں،آ نکھوں کی ٹھنڈک اور آرامِ جاں بن کرانؓ کے درمیان تھی۔زہے نصیب اے اجنبیوؓ ___زہے نصیب!

ان غرباء نے اللہ کو اس طور اپنا ربّ مانا کہ پھر اپنی ہر چیز کے ساتھ اپنے مالک کے سامنے تسلیم ہو گئے ۔اسلام کے دین ہونے پر راضی وہ اس انداز سے ہوئے کہ آسمان سے بار بار ان کے لیے یہ پیغام اترا ___ کہ تمہارا ربّ تم سے راضی ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کے اقرار کا عالم یہ تھا کہ ظاہروباطن کی کوئی ادا ایسی نہ رہی جو اپنے محبوبؐ کے نمونے پر ڈھل نہ گئی ہو۔ایسا کیوں نہ ہوتا؟یہی تو وہ ہستی تھی جس کی دائمی صحبت میں رہنے کے خواب وہ ہمیشہ دیکھتے تھے۔وہ یہ جانتے تھے کہ اگر آج اپنے اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں مان لیں گے تو کل آخرت میں نبیؐ کے ساتھ جائیں گے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہو گی کہ جس کا تصور،ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے بنا ہوا یہ انسان کر سکتا ہے:

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِینَ وَحَسُنَ اُو لٰٓئِکَ رَفِیْقًا (سورۃ النساء: ۶۹)

’’ا ور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ (روزِقیامت) اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے بڑا انعام فرمایاہے یعنی انبیاء اور صدیقین ا ور شہداء اور صالحین اوریہ بہترین رفیق ہیں۔‘‘

جو شکستہ نہ ہو ایسا گھر چاہیے!

یہ اطاعت بالیقین ایسی تھی کہ آرزوؤں کا ہروہ محل ،جس کی جبین پر ’علٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘ نہ لکھا ہوتا ، اس کی زد میں آ کر تباہ ہو جاتا تھا۔یہ صرف ان کے ذوق کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد بھی تھی:

’’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ‘‘ (رواہ البغوي في شرح السنۃ)

’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس (شریعت) کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کر آیا ہوں۔‘‘

دلوں کی جب دنیا بدلتی ہے تو نگاہوں کے زاویے بھی بدل جاتے ہیں۔اور جب نگاہ ٹھیک سے دیکھنے لگے تو دنیا ___ جو ہے وہی نظر آتی ہے! ’دنیا‘ کو اس کے صحیح مقام پر رکھے بغیر بھلا اپنے ربّ کو،اپنے دین کو اور اپنے رسول کے مقام کو آج تک کسی نے پہچانا ہے؟نہیں ___ کبھی نہیں ! اگر ایسا ہو سکتا تو انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں حبِّ دنیا کے ترک اور فکرِآخرت کے اختیار پر اتنا زور ہرگزنہ دیا جاتا۔چنانچہ ان مسافروں کوبھی یہ بتایا گیا کہ : وَمَا ا لْحَیٰوۃُ الدُّ نْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ، ’’دنیا کی یہ زندگی دھوکے کے سامان کے سوا اور کچھ نہیں‘‘۔پھراس حقیقت کے تقاضے کے طور پر انہیں سمجھایا گیا (اور وہ سمجھ بھی گئے )کہ: ’’کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُسَبِیْلٍ‘‘ (البخاري ، کتاب الرّقاق)’’ اس دنیا میں بس ایسے ہو جاؤگویا کہ تم (اپنے وطن سے دور) ایک اجنبی ہو یا راہ چلتے مسافر‘‘۔اب ان مسافروں کے دل بھلا راستوں میں کہاں لگنے تھے؟یہ توبس اپنے آخری گھر میں اٹکے رہتے تھے،چنانچہ جب ان کی سفری کیفیت اور گھروں کی حالت دیکھ کر کوئی حیران ہوتا تو وہ صاف کہہ دیتے تھے ’’وہاں آخرت میں ہمارا ایک گھر ہے ہم اپنے اچھے اور بیش قیمت سامان وہیں بھیج دیتے ہیں‘‘۔ یہ جواب دینے والے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ تھے، اسی قافلۂ غرباء کے ایک معزز شریک !

مسا فروں سے جھلکتاہے منزلوں کا یقیں

لیکن اس کم سامانی کے باوجود بھی وہ اپنے سفر کے حقیقی سامان سے کبھی غافل نہ رہے۔دلوں میں یہ یقین بیٹھ چکا تھا کہ: فَاِنَّ خَیْرَالزَّادِ التَّقْویٰ (سورۃ البقرۃ:۱۹۷ )’’پس بے شک سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے‘‘ ___ لہٰذا تقویٰ کے اس توشے کو ساتھ لے کر انہوں نے اپنے ابدی گھرکی طرف چلنا نہیں دوڑنا شروع کردیا۔ منزل بہت واضح تھی،اور جب منزل واضح ہو تو پھر تردّد کیسا؟

وَ سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ(سورۃ اٰلِ عمران:۱۳۳)

’’اور دوڑو اپنے ربّ کی مغفرت اوراس جنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابرہے،جوپرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘

سعادت کی اس شاہراہ پر وہ ایسی احتیاط سے آگے بڑھے گویا اس دنیا ہی میں پُلِ صراط پر چل رہے ہیں کہ ذرا سا بھی قدم اِدھر اُدھر ہوا تو منزل کھوٹی ہو جائے گی۔زبانوں نے جھوٹ بولنا، ہاتھوں نے ظلم کرنا، آنکھوں نے خیانت کرنا، کانوں نے بے جا سننا، ذہنوں نے برا سوچنا اور دلوں نے بغض اور کینہ رکھنا چھوڑ دیا۔ اس کی جگہ عدل واحسان، صلہ رحمی،عفوو درگزر، الفت و غمگساری اور ایثار جیسے کریمانہ اخلاق نے لے لی ۔ ہر عمل سے پہلے یہ دیکھنا کہ’’ شریعت میں اس کا کیا مقام ہے؟ ‘‘اور تمام حالات میں یہ سوچنا کہ ’’اس موقع اور وقت کا حکم کیا ہے؟‘‘___ یہ بات ان کی عادتِ ثانیہ بن چکی تھی۔ادنیٰ نیکیوں کو بھی وہ حقیر نہ جانتے تھے اور حقیر سمجھی جانے والی برائیوں کو اپنے حق میں ہلاکت آفرین سمجھتے تھے۔ زندگی کا ہر لمحہ عبادت سمجھ کر گزارتے تھے اوراس عبادت کی کیفیت بھی ایسی ہوتی جیسی انہیںؓ سکھائی گئی تھی: ’’……اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘(مسلم،کتاب الایمان) ’’ کہ تم اللہ کی عبادت ا س طرح کرو ،گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگرچہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو(خیال رکھو کہ) وہ تو تمھیں دیکھ ہی رہا ہے‘‘ ۔ اخلاص کا عالم یہ تھا کہ اپنی نیکیوں کو ،ریا کے ڈر سے ایسے چھپاتے تھے جیسے لوگ اپنی برائیاں چھپاتے ہیں۔ ایسا تھا ان کا تقویٰ اور یونہی وہ گناہوں اور جہنم کے عذاب سے ڈرتے بچتے دوڑتے رہے۔ اس دن کے خوف سے جو ہم سب پر آنا ہے،جس دن دل پاش پاش ہو جائیں گے،لیکن نظر بہت تیز ہو جائے گی،اپنا ماضی اور مستقبل صاف دکھائی دے گا کہ ___ کیا تھا اور کیا ہو نے والا ہے:

وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَہُمْ بِمَا کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَظْلِمُوْنَ} (سورۃ الأعراف:۸-۹)

’’ اور اس روز(اعمال کا) تلنا برحق ہے، تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہیں اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا ،بسبب اس کے کہ ہماری آیات کی حق تلفی کرتے تھے ۔‘‘

اپنی نیکیوں کے عوض___ آخرت سے پہلے ،اس دنیا میں بھی ___وہ عرش و کرسی کے مالک سے ایک ایسی دولت لے کر اپنی جھولی میں بھرتے تھے کہ ساری دنیا کے بازار بھی جس کی قیمت چکانے سے عاجز ہیں۔ ایسی متاعِ بے بہا کہ اگر کو ئی ہفت اقلیم کی سلطنت کے عوض بھی اسے خریدنا چاہے تو نہیں ملتی۔اور اگر کبھی مل جائے تو دو پھٹی پرانی چادروں میں ملبوس کسی شخص کے پاس بھی اتنی کثرت سے ہوتی ہے کہ اگر وہ اللہ کے اعتماد پر کسی بات کی قسم کھا بیٹھے تو’’ لَاَبَرَّہٗ ‘‘___ اللہ ضرور ہی اس کی قسم کو سچاکر دیتا ہے۔یہ دولت ’ایمان‘ کی دولت تھی اور اس کی وہاں فراوانی تھی۔ ایمان ___ جو چھن جائے تو زندگی موت ہے، جو داؤ پر لگ جائے توکوئی نفع،نفع نہیں،کوئی خوشی ، خوشی نہیں ! ایمان ___ جو ہر نیکی سے بڑھتا ہے اور ہر بدی سے گھٹ جاتا ہے !ایمان جسے ہمیشہ تازگی کی ضرورت رہتی ہے!یہ ایمان کبھی خود ان کے لیے بھی اجنبی تھا، لیکن اب وہ اس کا منبعِ نور پہچان چکے تھے :

وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(سوۃ الأنفال:۲)

’’ا ور جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان کواور زیادہ کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں۔‘‘

ان آیات کو سیکھنے سکھانے کے لیے وہ کبھی ارقم ؓکے گھر میں چھپ کے بیٹھے، کبھی صفہ کے آنگن میں اترے اور کبھی مسجد ِ نبوی ؐ کے حلقوں میں اکٹھے ہوئے۔یہاں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلاوتِ آیات، تزکیۂ نفس او ر کتاب و حکمت کی تعلیم اور عمل کا ایک ایسا نصاب و نظام ملا، جس نے انہیں متقین کا امام بنا دیا۔ آج اگر دنیا میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو اس کا ذریعہ یہی پاکیزہ لوگ بنے جو کل اپنی زندگیوں کو اس پیغام کی تبلیغ ___اور اپنی جانوں کو اس کی حفاظت کی خاطرقربان کر گئے۔

شرفِ صحابیت سے فیضیاب ان ہستیوں کا ایمان جتنا بلند تھا،اسی قدر شدید محبت انہیں اپنے اللہ سے تھی۔ یوں تویہ محبت ہر مومن کا خاصہ ہے :وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ(سورۃ البقرہ:۱۶۵) ’’ا ور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں‘‘ لیکن وہاں اس کا رنگ ہی جدا تھا۔جس ؐنے انہیں ایمان کی دعوت دی تھی ،اس نے آدابِ محبت بھی سکھائے تھے: ’’رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ شَکَّارًا، لَکَ ذَکَّارًا، لَکَ رَہَّابًا، لَکَ مِطْوَاعًا لَکَ مُخْبِتًا، اِلَیْکَ اَوَّاہًا مُّنِیْبًا‘‘ (الترمذي،کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ ؐ ) ’’ میرے مالک،مجھے اپنا خوب شکر کرنے والا،خوب ذکر کرنے والا،خوب ڈرنے والا،بہت فرمانبردار،اپنے آگے جھکنے والااور خوب آہیں بھرتے ہوئے اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا دے‘‘۔ خودداعی ؐ کی محبت ورفاقت کے خواب بھی دعاؤں کے قالب میں ڈھلتے رہتے تھے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَ سْاَلُکَ اِیْمَانًا لَا یَرْتَدُّ وَنَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَمُرَافَقَۃَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ اَعْلٰی جَنَّۃِ الْخُلْدِ‘‘(احمد۔عن عبد اللّٰہ بن مسعودؓ موقوفًا)’’اے اللہ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جو کبھی واپس نہ پھرے، اور ایسی خوشحالی اور آرام جو کبھی ختم نہ ہو،اورہمیشہ کی جنت کے بلند ترین درجے میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور رفاقت مانگتا ہوں‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ حلاوتِ ایمانی کی حرص کے سبب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم انؓ کے لیے ہر ماسوا سے زیادہ محبوب بن گئے تھے۔

حالات جیسے بھی رہے،دلوں میں پیوست یہ محبت کبھی کمزور نہ ہوئی کہ اس کا محل بہت مضبوط بنیادوں پر قائم تھا! دل ،جو محبت کا محل ہے ___آنکھ اورکان جو اس محل کی راہداریاں ہیں،ان سب کی حفاظت وہ کرنا جانتے تھے :اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا(سورۃ الفاطر:۶ ) ’’بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن ہی جاننا۔‘‘

طبعاًبے تکلف اور خوش مزاج تھے لیکن سنجیدگی ایسی تھی کہ مالک کی یاداور اس سے منسوب چیزوں کو چھوڑ کر ___ غیر ضروری باتوں میں منہمک ہو جانا انہیں ؓ قطعاً پسند نہ تھا۔ اسی کی انہیں ہدایت کی گئی تھی:

’’لَا تُکْثِرِالْکَلَامَ بِغَیْرِذِکْرِاللّٰہِ فَاِنَّ کَثْرَۃَالْکَلَامِ بغَیْرِذِکْرِاللّٰہِ قَسْوَۃٌ لِلْقَلْبِ وَاِنَّ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللّٰہِ الْقَلْبُ الْقَاسِیْ.‘‘ ( الترمذي،ابواب الزھد)

’’ا للہ کے ذکر کے سوا دوسری باتوں کی کثرت سے بچو، اس لیے کہ یقینا ذکر الٰہی کے سوا کثرتِ کلام دل کی سختی کا سبب ہے ا ور بے شک لوگوں میں سے اللہ سے سب سے زیادہ دُور سخت دل والا ہوتا ہے۔‘‘

ایک طر ف فرائض کی پابندی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع ___اور ساتھ میں تقویٰ و احسان، محبت و ذکرِ الٰہی ، انابت الی اللہ،صبر و توکل ،تسلیم و رضا،قناعت وشکراور ایسی دیگر ایمانی صفات نے انہیںؓ ایسا بنا دیا تھا کہ آج پندرہویں صدی ہجری میں ہمارے لیے انؓ کی شخصیت اور مزاج کاکما حقہ ٗ تصور بھی غالباً ممکن نہ ہو، یا اگر ممکن ہو تو شاید ’’قابلِ فہم‘‘ نہ ہو!تبع تابعین میں سے ایک شخص نے حضرت سفیان ثوریؒ سے کہا:’’صحابہ ؓ اور ہماری کیا نسبت ہے؟‘‘ فرمایا: ’’اگر تم ان کو دیکھتے تو دیوانہ سمجھتے اور اگر وہ تم کو دیکھیں تو کافر و منافق سمجھیں اور تمہارے سلام کا جواب دینے کے روادار نہ ہوں‘‘۔ (تاریخِ دعوت و عزیمت از ندویؒ :۶؍ ۱۲۲)

ایک اور محرمِ حال نے ان صحابہؓ کے بارے میں کچھ یوں گواہی دی: ’’کہاں ہیں وہ گروہ جنہیں اسلام کی طرف بلایا جاتا تھا تو وہ اسے قبول کر لیتے تھے؟ وہ قرآن کو پڑھتے تھے اور اپنے اعتقادات کو اس کے ساتھ مضبوط کرتے تھے۔ جہاد کے لیے برانگیختہ ہوتے تھے۔ (اللہ کے خوف سے) روتے روتے ان کی آنکھیں تباہ ہوگئی تھیں۔ ان کے شکم روزہ رکھتے رکھتے لاغر ہوگئے تھے ، دعائیں کرتے کرتے ان کے ہونٹ سوکھ گئے تھے۔ شب بیداریوں سے ان پر زردیاں چھاگئی تھیں ۔ سجدوں کا غبار ان کے چہروں پر موجود رہتا تھا۔ وہ لوگ میرے بھائی تھے جو چلے گئے‘‘۔

غرباء کے حق میں یہ گواہی دینے والے خود اسی قافلے کے اوّلین شرکاء میں سے ایک___ علی المرتضی رضی اللہ عنہ تھے۔

اے کاش یہ بچ جائیں جہنّم کی آگ سے

آخرت کی یہ حرص اپنی اپنی ذات تک محدود نہ تھی بلکہ یہ تو وہ درد تھا جو صبح و شام دنیا والوں میں بانٹا جاتا تھا___ کاش بستیوں والے جہنّم کی آگ سے بچ جائیں! اے کاش کہ بات ان کی سمجھ میں آ جائے ! کیسے ممکن ہو کہ انہیں جنت کے راستے پر ڈال دیا جائے؟ ’’یَومًا اَوْ بَعْضَ یومٍ‘‘___ دن یا دن کے کچھ حصے کے اندر کیا کچھ نہ ہو جائے گا ؟جہنم انسانوں سے بھر دی جائے گی ، جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی،کچھ بھی دور نہ ہو گی،’’یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ‘‘ کاش میری قوم کو معلوم ہوجاتا ! کچھ اسی لب ولہجے میں ،ٹوٹے دلوں اور برستی آنکھوں کے ساتھ یہ مصلحین اپنے لوگوں کو سمجھاتے رہے۔بتاتے رہے کہ دیکھو ہم تمہیں ایک اللہ کا بندہ بنا کر ،دنیا کی تنگنائیوں سے نکال کر، آخرت کی وسعتوں میں پہنچانا چاہتے ہیں۔ قبر کی آزمائش اور پھر ایک سخت دن کے عذاب سے بچا کرایسے گھر ( جناتِ عدن) کی راہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ربّ نے جس کے بارے میں اپنے نبی ؐ کے ذریعے ہم سے یہ سچے وعدے کر رکھے ہیں :

’’اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ، فَاقْرَؤُا اِنْ شِئْتُمْ ’فَلاَ تَعْلَمُ نفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ‘(سورۃ السجدۃ :۱۷).‘‘ (البخاري،کتاب بدء الخلق)

’’میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے (جنت میں) وہ وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں،کسی کان نے نہیں سُنیں اور نہ کسی آدمی کے خیال میں وہ گزریں۔اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو:’ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے‘۔‘‘

دعوت و اصلاح کا کام انہوںؓ نے جس سوزِ دل اور خیر خواہی کے جذبے سے کیا وہ انہیں ؓاپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تعلیم میں ملا تھا۔ آپ ؐ کی دعوت کی تڑپ ،اور صحبت کی تاثیر کا عالم یہ ہوتا تھا کہ صبح کو ایک شخص محض اپنی دنیا بنانے کے خیال سے آپؐ کے پاس آتا مگر شام نہ گزرتی کہ اس آدمی کی محبوب ترین چیز اس کا دین ہوتی تھی ۔آپ ایسے داعیؐ ،ایسے محسنؐ تھے جو فرماتے تھے:

((اِنَّمَا مَثَلِیْ وَمَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَجَعَلَتِ الدَّ وَابُّ وَالْفَرَاشُ یَقَعْنَ فِیْہِ، فَاَنَا آخِذٌ بِحُجَزِکُمْ وَاَنْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْہِ)) (مسلم،کتاب الفضائل)

’’بے شک میری مثال اور میری امت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی، تو حشرات اور پتنگے اس میں گرنے لگے، پس میں (اسی طرح) تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ ے ہوئے ہوں (اور آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں) مگر تم ہو کہ اس میں گھسے جا رہے ہو۔‘‘

لیکن اس قدر بے لوثی اور خیر خواہی کے باوجود بھی تھے تو یہ اجنبی ہی___ اس لیے جواباً انگاروں پر لٹائے گئے، کانٹوں پر چلائے گئے، گلیوں میں گھسیٹے اور دھوپوں میں جلائے گئے اور جلتی سلاخوں تک سے انہیں داغا گیا۔ایسے میں یہ بے حال تو ہوئے لیکن بے یقین کبھی نہیں رہے ،دُکھی تو ہوئے لیکن اطمینان کی دولت بھی صرف انہی کے حصے میں آئی۔ ایسے داعی اور ایسے مصلح دنیا والوں کے نصیب میں پھر کہاں؟

دلوں میں جل اُٹھے یہ کس کی محبت کے چراغ؟

ان کٹنے پِٹنے والوں کے پاس’’ حق ‘‘تھا جو کبھی فنا نہیں ہوتا ، جب کہ دو سری طرف دنیا پرستوں کی ساری عمارت’’ باطل‘‘ پر قائم تھی جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی ۔اُدھر سے ستم کی ہر رُت آئی اور گزر گئی لیکن اِدھرچراغ سے چراغ جلتے گئے اور ایمان کی روشنی پھیلتی گئی۔بالآخر صبر جیت گیااور ظلمت ہار گئی،اخلاص کو فتح ملی اور دنیا پرستی مغلوب ہو گئی ۔شکستہ دلوں سے نکلنے والی دعاؤں ،اور اخلاص و بے غرضی سے دی جانے والی دعوت نے کتنی ہی سنگلاخ چٹانوں کو توڑ کر رکھ دیا۔اب یہ اجنبی، اجنبی نہ رہے بلکہ ایسے بہت سے دلوں کے مکین بن گئے جن کے دروازے کل تک ان پر بند تھے، اسی کا ان سے وعدہ تھا:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(سورۃ مریم:۹۶)

’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے عنقریب رحمن ان کے لیے( دلوں میں) محبت پیدا فرما دے گا۔‘‘

وقت کی سعید روحوں نے اپنے خیر خواہوں کو پہچان لیا تھا ۔ اللہ عزوجل کی سنّت یہی ہے کہ تاریخ کے ایسے ہردور میں اہلِ سعادت اپنے محسنوں کو پہچان لیتے ہیں۔

اللہ کو اپنے سے محبت کرنے والے لوگ اتنے پسند ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو وہ ان کے درجے بڑھانے اور خطائیں مٹانے کے لیے انہیں آزما ئشوں سے ہلا مارتا ہے تودو سری طرف وہ انہیں زمانے کے سلیم الفطرت لوگوں کا بھی محبوب بنا دیتا ہے۔ صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مُصعب بن سعد ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :

(( قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ! اَیُّ النَّاسِ اَشَدُّ بَلَائً؟ قَالَ: ’’الْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ؛ یُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِیْنِہٖ، فَاِنْ کَانَ فِیْ دِیْنِہٖ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُہٗ، وَاِنْ کَانَ فِیْ دِیْنِہٖ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلٰی قَدْرِ دِیْنِہٖ، فَمَا یَبْرَحُ الْبَلَائُ بِالْعَبْدِحَتّٰی یَتْرُکَہٗ یَمْشِیْ عَلَی الْاَرْضِ وَمَا عَلَیْہِ خَطِیْئَۃٌ)) (الترمذي،ابواب الزھد)

’’میں نے پوچھا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کن لوگوں پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہیں؟آپؐ نے فرمایا: انبیاء ؑ پر۔ پھردرجہ بدرجہ جو جتنا عالی مرتبہ ہوتا ہے (اتنی ہی شدید اس کی آزمائش ہوتی ہے) آدمی کو اپنی دینداری کے مطابق ہی آزمایا جاتا ہے۔پس اگر اس کی وابستگی دین سے مضبوط ہو گی، توآزمائش بھی اتنی ہی سخت ہو جائے گی۔اور اگراس کی دین سے وابستگی کمزور ہو گی توبس اسی قدر اس کی آزمائش ہو گی۔پس اس طرح مصیبت ہمیشہ بندے کے ساتھ (چمٹی )رہتی ہے یہاں تک کہ وہ اسے زمین پر اس حال میں چلتا ہوا چھوڑتی ہے کہ اس کے ذمے کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔‘‘

اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے بارے میں نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوشخبری بھی موجود ہے:

((اِنَّ اللّٰہَ اِذَا اَحَبَّ عَبْدًا،دَعَا جِبْرِیْلَ فَقَالَ :اِنِّیْ اُحِبُّ فُلاَ نًا فَاَحِبَّہٗ )) قَالَ:(( فَیُحِبُّہٗ جِبْرِیْلُ، ثُمَّ یُنَادِیْ فِی السَّمَآئِ فَیَقُوْلُ : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلاَ نًا فَاَحِبُّوْہُ،فَیُحِبُّہٗ اَہْلُ السَّمَآئِ)) قَالَ: (( ثُمَّ یُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِی الْاَرْضِ،وَ اِذَا اَ بْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیْلَ فَیَقُوْلُ اِنِّیْ اُبْغِضُ فُلاَ نًا فَاَبْغِضْہُ))،قَالَ ((فَیُبْغِضُہٗ جِبْرِیْلُ،ثُمَّ یُنَادِیْ فِیْ اَہْلِ السَّمَآئِ اِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ فُلاَ نًا فَاَبْغِضُوْہُ)) قَالَ:((فَیُبْغِضُوْنَہٗ، ثُمَّ تُوْضَعُ لَہُ الْبَغْضَآئُ فِی الْاَرْضِ)) (مسلم،کتاب البروصلۃ والآداب)

’’بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت کر۔پھر جبریل ؑاس سے محبت کرتے ہیں ا ور آسمان میں منا دی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے،تم بھی اس سے محبت کرو۔توآسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں۔پھر اس کے بعد زمین والوں میں اس کے لیے قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے دشمنی رکھتا ہے تو جبریل ؑ کو بلاتا ہے ا ور فرماتا ہے کہ میں فلاں کا دشمن ہوں، توبھی اس کا دشمن ہوپھر وہ بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ آسمان والوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے دشمنی رکھتا ہے تم بھی اس سے دشمنی ر کھو تو وہ بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد زمین والوں میں اس کی دشمنی ڈال دی جاتی ہے۔‘‘

ہاتفِ غیبی اُد ھر بھی دلوں میں ایسی ہی منادی کر چکا تھا۔یہ اعلانِ محبت ایک دن یثرب کی چھوٹی سی بستی میں بھی سنا گیا ۔ اُس روز جہاں مکہ کی گلیاں اپنے سے بچھڑنے والوں کے غم میں اداس تھیں تو دوسری طرف مدینے کی فضائیں خوشی کے گیتوں سے مترنم تھیں:

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ

فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہونے والا چاند ، جن ستاروں (اور کواکب ) کے ساتھ طیبہ میں طلوع ہوا یہ وہی مرد و زن تھے جنہیں اپنوں نے دھتکار دیا تھا ، لیکن آج انہیں پرایوں میں محبت کرنے والے مل رہے تھے۔ میزبانوں کے دل شکر ِ ہدایت سے لبریز تھے کہ مہمان اکیلے نہیں، ایمان کی دعوت کے ساتھ آئے تھے:

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَا دَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ

دلوں میں صرف خدمت کا نہیں بلکہ اس پیغام اور صاحبِ پیغامؐ کی کامل اطاعت کا جذبہ بھی موجزن تھا جس کی خاطر ___دراصل آنے والے آئے تھے:

اَیُّہَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا جِئْتَ بِالْاَمْرِ مُطَاعٖ

نصرت کرنے والوں نے ا ہلِ ہجرت کوایسے ہاتھوں ہاتھ لیاکہ کوئی مہاجر کسی انصاری کے گھر ، بغیرقرعہ اندازی کے نہ جا سکا۔ تعلیمِ دین جو تیرہ سال ام القریٰ کے خوش بختوں کے نصیب میں (براہِ راست) رہی مواخات کی برکت سے نئے گھروں میں بھی سرعت کے ساتھ منتقل ہو گئی۔ مسلمان اب ایک سیسہ پلائی ہوئی عمارت تھے۔ نیکی کا حکم دینے،برائی سے روکنے اور اللہ پر ایمان رکھنے والی بہترین امت ،اظہارِ دین کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی۔

اس دورمیں جہاں شریعت کے دیگر مفصل احکامات جاری ہوئے وہیں کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ(سورۃ البقرۃ:۲۱۶) ’’(مسلمانو) تم پر قتال فرض کر دیا گیا ہے‘‘ کی آیاتِ بیّنات بھی نازل ہوئیں ،جواُن ؓپر اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں پر قتال فرض کر گئیں ___ ایک ایسا حکم جسے کسی ظالم کا ظلم اور کسی عادل کا عدل ساقط نہیں کر سکے گا۔ وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ کے احکام سننے کے بعدوہ بغیر کسی انتظاراوربہانے کے، (ممکنہ) استطاعت کی(آخری)حد تک اپنی تیاری کرتے رہے ___ قوت اور رباط الخیل کے ذریعے ___تاکہ اپنے اور اللہ کے دشمنوں کو دہشت زدہ رکھا جا سکے : تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وہ جان گئے تھے کہ مسلسل ’’اعداد‘‘ (تیاری) کا یہ فریضہ___ پوری امت کے لیے ایک تاحیات لائحۂ عمل ہے،اور ایک ایسی عبادت کے لیے ہے جو حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آباد کاری سے بھی زیادہ افضل ہے۔دین کے دیگرا حکام کی طرح اس فریضے کے معاملے میں بھی وہ کبھی کسی ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرے۔ مصلحت اور تاویل کے قیدی بننے سے تو وہ سرے سے نا آشنا تھے،خصوصاً جب کہ وحی ٔ الٰہی یہ اعلان بھی سنا چکی تھی:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُواالْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ (سورۃ اٰلِ عمران:۱۴۲)

’’کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں؟‘‘

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Exit mobile version