عجیب دہرے معیار ہوگئے ہیں بلکہ بنا لیے ہیں دنیا والوں نے! طالبان افغانستان جب چودہ صدیاں قبل نازل شدہ اللہ رب العزت کی شریعت اپنی سرزمین پر نافذکرنا چاہیں تو وہ بیک ورڈ، جاہل، قدامت پرست، پسماندہ…… اور وژن ۲۰۳۰ جب سعودی عرب کو اس دور کی جاہلیت کی طرف لوٹائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کی تہذیب اور ثقافت سمجھی جاتی تھی تو یہ جدیدیت، روشن خیالی، ترقی پسندی…… قومیں ترقی کرتی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں تو آگے کی جانب بڑھتی ہیں،لیکن اگر ترقی کے نام پر ڈیڑھ صدی قبل کی جاہلی تہذیب و ثقافت کو زندہ کیا جائے اور اسی کے گن گائے جائیں اور اسی کے مظاہر کو اپنی کامیابی گردانا جائے تو یہ اسی طرح ہے گویا سپر سونک ہوائی جہازوں کی موجودگی میں گدھا گاڑی کے استعمال کو فروغ دینا ۔ سعودی عرب پر قابض شاہی خاندان اور وہاں لاگو شاہی نظام خواہ ہمیشہ سے کتنی ہی خامیوں اور برائیوں کا مرقع رہا ہے مگر اہل ایمان، بالخصوص عام سادہ مسلمان کے لیے سعودی عرب حرمین شریفین کی وجہ سے ہمیشہ قابل احترام رہا ہے اور شاہانِ سعودیہ محض خدام حرمین کہلانے کی وجہ سے ۔ نیز حرم کعبہ اور حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اور کچھ عرصہ پہلے تک سعودی عرب میں بعض اسلامی شعائر کے علانیہ اظہار ہی نے سعودی عرب کے ساتھ ساتھ وہاں بسنے والوں کے لیے بھی غیر عرب مسلمانوں کے دلوں میں احترام کے جذبات اجاگر کیے رکھے ہیں۔ مگر یہ ملمع سازی آخر کب تک چلتی؟ کبھی تو سعودی شاہی نظام کا اصل، ان کی دین دشمنی، ان کی یہود اور اسرائیل سے محبت اور لگاؤ، ان کا تکبر اور ان کا وہن واضح ہوکر رہنا تھا۔ اللہ رب العزت کی سنت ہے کہ وہ سونے سے جھاگ کو جدا کر ڈالتا ہے، پھر جو کندن ہوتا ہے وہ نگاہوں کو خیرہ کرتا دکھائی دیتا ہے اور جو جھاگ ہے اسے بے مول بھی کوئی لینے کو تیار نہیں ہوتا۔
یہودی آیاؤں کی گود میں پلنے والا ابن سلمان (جسے محمد کہنے پر زبان اٹکتی ہے، اور نہ ہی وہ محمد کہلائے جانا پسند کرتا ہے اور نہ ہی وہ اس کے قابل ہے) کے وژن ۲۰۳۰ کے تحت جو کچھ تبدیلیاں سعودی عرب کے سیاسی و معاشرتی نظام میں نہایت تیزی سے لائی جارہی ہیں وہ اہل ایمان کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ درد دل رکھنے والے اہل ایمان کی روحیں تک عین حرم کعبہ اور حرم نبوی کے قرب و جوار میں فحاشی اور عریانی کے علانیہ مظاہر پر چیخ اٹھی ہیں؛ وہ مقامات جہاں ہمارے سروں کے تاج، ہمارے محبوب نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے قدم مبارک پڑے، جہاں آپ کے عالی قدر صحابہ کا خون گرا، جہاں سے غزوات و سرایا کے قافلے روانہ ہوتے رہے، جہاں ایمان سے بھری مجالس منعقد ہوتی رہیں، جہاں اصحاب صفہ نے پیٹ پر پتھر باندھ کر، ہر سرد و گرم جھیل کر اللہ کے دین کا علم حاصل کیا، جہاں سےقال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی رہیں، جہاں صحاح ستہ مرتب ہوئیں اور جہاں ان کے حفاظ نے زانوئے تلمذ تہہ کیے…… ان تمام مقدس مقامات (جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبین رضی اللہ عنہما کے جسد ہائے مبارک عین مسجد نبوی میں مدفون ہیں) کفار، فساق اور فجار اپنے غلیظ قدموں سے روند رہے ہیں، اپنے ناپاک وجود سے اس مقدس سرزمین پر ناچ رہے ہیں، بدترین فحاشی اس سرزمین کے باسیوں میں پھیلا رہے ہیں اور ان مزامیر کی آوازیں یہاں گونج رہی ہیں جنہیں توڑنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا۔ وہ مقامات کہ جہاں اسلام کی اولین شہیدہ حضرت سمیہؓ اور ان کے شوہر حضرت یاسرؓ کا خون گرا وہاں، جہاں بلال حبشیؓ ’احد‘ ’احد‘ کی پکار کے جرم میں تپتی ریت پر گھسیٹے گئے، جہاں خبابؓ بن ارت کی پیٹھ کو لوہے کی انگارہ سلاخوں سے داغا گیا…… وہاں آج سعودی مرد اور عورتیں، کافر فاحشاؤں کے ننگے ناچ سے ’محظوظ‘ ہورہے ہیں، اپنے گھر کی عزت سربازار نیلام کرنے کو بےقرار ہیں، ابلیس ان کے شانہ بشانہ کبھی ہیلووین کی بھینٹ وصول کرکے خود کو تھپکی دیتا ہے تو کبھی ناچتی تھرکتی بہکتی بہکاتی ان سعودی لڑکیوں کی حالت زار پر قہقہے لگاتا ہے جو چار سال قبل تک عبایا کے بغیر گھر سے باہر نہ نکل سکتی تھیں، تو کبھی حرمین کی اس مقدس سرزمین پر ہم جنس پرستوں کا راج دیکھ کر فخر سے مزید اکڑ جاتاہے۔ وہ کیا ہے جو سعودی عرب نے اسلام اور شعائر اسلام سے منسوب ہر چیز کو سعودی معاشرے سے کھرچنے کے لیے نہیں کیا؟ ذرا چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:
جدہ میں ’سینما زندگی ہے‘ کے عنوان سے ’Red Sea Film Festival‘ کا انعقاد جس میں فحاشی اور ہم جنس پرستی کی ترویج کے حوالے سے معروف، فلم سازی کی صنعت سے وابستہ، دنیا بھر کے پروڈیوسر، ہدایت کاروں اور اداکاروں کو سنہری موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اس سرزمین کی حرمت پامال کریں جہاں اللہ رب العزت کا گھر ہے اور جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں مدفون ہیں۔ اس میلے میں ۱۳ فلمیں بغیر سینسر کے دکھائی گئیں جن میں کئی ایسی معروف فلمیں بھی شامل ہیں جو ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والی ہیں۔ شہوت انگیز لباس اور بے لگام اجتماعات سے مزین اس میلے کے صدر نے فخریہ کہا: ’’ہم ہر حد سے تجاوز کررہے ہیں، ہر قسم کی فلمیں دکھا رہے ہیں، کوئی سینسر شپ نہیں ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم اس مقام تک پہنچنے کے قابل ہوگئے ‘‘۔
ریاض میں سرکاری دعوت پر جنوبی کوریا کی فاحشات کے، ہم جنس پرستی کو فروغ دینے والے ’بلیک پنک‘ نامی میوزیکل بینڈ نے آکر غل مچایا۔ ا س کے ’اعزاز‘ میں ریاض کی اہم عمارتوں کو گلابی رنگ دیا گیا۔ ریاض میں اب تک منعقد ہونے والی محافل ہائے موسیقی میں فحاشی، عریانی، بازاری تک بندی، بے باکی اور حکومتی حمایت کے لحاظ سے یہ محفل سب پر سبقت لے گئی۔
سعودی سکولوں میں تفریحی سرگرمیوں کے فروغ کے نام پر باقاعدہ ناچ گانے کی تربیت دی جارہی ہے جس میں لڑکوں لڑکیوں کا اختلاط واضح نظر آتا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ایک ویڈیو میں کسی سکول میں اسی قسم کی تربیت دی جاتی نظر آتی ہے اور اسی ویڈیو میں انہی میں سے ایک بے حجاب لڑکی کی قمیض پر لکھا ہے، ’school ruined my life‘ ’سکول نے میری زندگی تباہ کردی‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایسے سکول جو امت کی بیٹیوں کو بتول سے ببول بنا دیں، وہی تباہی و بربادی کے اڈے ہیں۔ یونہی تو افغانستان میں امارت اسلامی نے عورتوں کی ’اعلیٰ‘ تعلیم پر پابندی نہیں لگائی۔ پوری دنیا میں سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں سے برآمد ہونے والی نسلوں کی بےدینی، بدکرداری اور بے راہ روی یقیناً ان کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے، جب کہ ان میں سے کتنے ہیں جو ایمان کی پختگی، کردار کی بلندی اور اعلیٰ علمی و عملی صلاحیتوں کے ساتھ فارغ التحصیل ہوتے ہیں؟ ــ ملاحظہ ہو پاکستان کے ایک تعلیمی ادارے میں’اعلیٰ تعلیم یافتہ‘، ’ماڈرن‘، ’آزاد‘ لڑکیوں کا نشہ آور اشیاء کے استعمال کے معاملے پر ایک اور لڑکی پر تشدد ۔
خیر بات سعودی عرب کی ہورہی تھی کہ اس روشن خیالی نے سعودی معاشرے کو کیا دیا؟ کون سے ایسے سرخاب کے پر تھے جو سعودی معاشرے میں مفقود تھے اور اب سعودی مردوں اور عورتوں نے اپنے سروں پر سجا لیے ہیں؟ سعودیہ کی وہ نئی نسل جسے ’Generation Z‘ کا نام دیا جارہا ہے بدترین بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے۔ سعودیہ کی سڑکوں پر کھلے عام بے حجاب، فحش لباس میں ملبوس سعودی نوجوان لڑکیاں گاتی بجاتی نظر آتی ہیں ، بے ہنگم و بے باک موسیقی کی محفلوں میں لڑکیاں لڑکے ایک دوسرے میں خلط ملط ہو کر ناچتے تھرکتے دکھائی دیتے ہیں، قابل غور بات یہ ہے کہ اس قسم کے میلوں ٹھیلوں میں نشہ آور اشیاء اور شراب کے استعمال پر بھی کچھ کڑی پابندی نہیں ہوتی لہٰذا ہلڑ بازی کی جس حد سے بھی تجاوز کیا جائے عجب نہیں۔ پھر اس سب کی وجہ سے معاشرتی اور خاندانی نظام جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور یہ سعودی حکومت کے ایجنڈوں میں سے اہم ایجنڈا ہے۔
اس بے حیائی، مادر پدر آزادی اور فحاشی کے نتیجے میں لڑکیوں کے گھروں سے بھاگنے کے واقعات میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ لڑکیاں اب والدین کے ساتھ رہنے کی بجائے تنہا رہنے کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ ہر قسم کی روک ٹوک سے آزاد رہیں، اور اس راہ میں معاون سعودی حکومت کے ’عورتوں کی آزادی‘ کے عنوان کے تحت اس قسم کے اقدامات ہیں کہ جن کے تحت عورت ناصرف بغیر محرم کے سفر کرسکتی ہے بلکہ بغیر ولی کے نکاح بھی کرسکتی ہے نیز اگر لڑکا لڑکی کسی ہوٹل میں جا ٹھہریں تو ان سے ان کا رشتہ نہیں پوچھا جائے گا۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ سن ۲۰۱۰ میں سعودیہ میں لگ بھگ نو ہزار طلاقیں ہوئیں، جن کی تعداد ۲۰۲۰ میں تقریباً ۵۸ ہزار تک پہنچ چکی ہے اور سعودی اخبار الوطن کے مطابق ان طلاقوں کی ایسی وجوہات بیان کی گئی ہیں کہ عقل جن کا احاطہ کرسکتی ہے نہ دلیل؛ مثلاً شوہر نے بیوی کو اپنا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنے کا کہہ دیا تو بیوی نے طلاق لے لی۔ سعودی حکومت تو چاہتی ہی مادر پدر آزاد معاشرہ ہے، جس میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات رکھیں، مگر جائز ازدواجی زندگی کو لوگوں کے لیے نکو بنا دیا جائے۔اسی مقصد کے تحت فٹ بالر رونالڈو کو سعودی عرب لایا گیا ہے جو ریاض کے ایک محل میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رہ رہا ہے اور سعودی مال پر مزے کررہا ہے۔ یہ وہ رول ماڈل ہے جو سعودی حکومت اپنے عوام کے سامنے پیش کررہی ہے۔ طلاقوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے؛ یعنی اوسطاً ایک گھنٹے میں ۷طلاقوں کی درج ذیل وجوہات الوطن اخبار نے بیان کیں:
- طلاق کا حصول اس قدر سہل بنا دیا گیا ہے کہ سب کچھ گھر بیٹھے الیکٹرانک طریقے سے مکمل ہوجائے، نہ کسی کو عدالت میں پیش ہونا پڑے نہ کسی گواہ اور وکیل کی ضرورت (استثنائی صورت حال کے علاوہ)۔
- عوام کی کمزور مالی حالت…… سبحان اللہ! رونالڈو کو اس کی عیاشیوں کے لیے سالانہ دو سو ملین ڈالر کی خطیر رقم ادا کرنے والی سعودی حکومت کے پاس اپنے عوام کے لیے اس قدر پیسہ بھی نہیں کہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں!
- سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا کا کردار؛ جو بالارادہ ایسا مواد دکھا رہا ہے جو معاشرے اور خاندان کی اقدار کو مجروح کرے۔
امت مسلمہ میں کی اکثریت کی عقل پر گویا پتھر پڑ گئے ہیں، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ یہ ’کالانعام‘ ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔ وہ جنہیں عزتوں کا محافظ بننا تھا، سربازار اپنی عزتیں لٹانے پر تلے ہیں اور اس پر راضی ہیں، اسی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ایک ویڈیو کلپ میں دیکھا کہ سر تا پا ملبوس ایک سعودی مرد اپنی نیم برہنہ بیوی کو لوگوں کے پرشہوت نعرے لگاتے ہجوم سے بمشکل نکال کر لے جارہا ہے۔ کوئی اس شخص سے پوچھے کہ تم اس لباس میں اپنی بیوی کو سربازار لائے ہی کیوں تھے اگر تمہیں اس کے اوپر انگلیاں اٹھائے جانا پسند نہ تھا؟ وہ عورتیں جو ان میلوں ٹھیلوں میں شرکت کے بعد یہ دہائی دیتی ہیں کہ ہمیں ان میلوں میں جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا اور کئی مردوں نے ہماری عزت پامال کی…… کیا وہ اسی مقصد کے لیے وہاں نہیں گئی تھیں؟ شہوت کو بھڑکانے والے لباس، مردوں عورتوں کے اختلاط، بےباک موسیقی اور شراب اور نشہ آور اشیاء کے استعمال کے یک جا ہونے کے بعد کیا اس کے سوا بھی کوئی نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے؟ اور تری سادگی پہ کون نہ مرجائے کہ ایسے واقعات پر نقد کرنے والے کہتے ہیں کہ سعودی حکومت کی جنسی ہراسگی کے خلاف آگاہی مہم کے باوجود یہ واقعات رونما ہوئے…… سبحان اللہ! ننگے ناچ کی محفل بپا ہو، بھڑکیلے لباس، خوشبوئیں، مرد و زن کا اختلاط، ساز و شراب یک جا ہو اور باہر نازیبا حرکتوں سے گریز کا اشتہار آویزاں ہو تو اس کی حیثیت وہی ہے جو سگریٹ کی ڈبی پر لکھے ’خبردار! سگریٹ نوشی مضر صحت ہے‘ کے پیغام کی۔
ایک وقت تھا کہ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان، بالخصوص سچے نومسلم، حسرت سے مسلمان ممالک کے مسلمان عوام کو دیکھا کرتے تھے کہ یہ لوگ کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت ایک صاف ستھرے اسلامی معاشرے میں کررہے ہیں۔ ان کے لیے اپنے بچوں کو اسلامی اقدار سکھانا اور شعائر اسلام کی قدر اور ان پر فخر ان کے دلوں میں پیدا کرنا کس قدر آسان ہے۔ مگر آج مسلم معاشروں کا حال دیکھ کر غیر مسلم دیار کے باسی یہ نومسلم بھی انگشت بدنداں ہیں اور ان کے ملکوں کی حکومتوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اچھا موقع ہاتھ آیا ہے۔ غیر مسلم ممالک کی باحجاب خواتین حجاب پر پابندی کے خلاف جگہ جگہ صف آرا ہیں۔ انڈیا میں تعلیمی اداروں کے اندر حجاب پر پابندی کے خلاف طالبات کے احتجاج سے کون واقف نہیں۔ مگر آج سعودی حکومت کی لگائے جانے والی کمرہ ہائے امتحان میں حجاب پر پابندی نے غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان خواتین کی تحریک کو بری طرح دھچکا پہنچایا ہے۔ انڈیا میں برسرعام یہ کہا جارہا ہے کہ جب سعودی (جو چاہے نہ چاہے دنیا بھر میں اسلام کی علامت گردانا جاتا تھا) حجاب پر پابندی لگا رہا ہے تو ہمارے یہاں یہ واویلا کیوں؟ کون انہیں بتائے اور سمجھائے کہ سعودی عرب تو حرمین کی وجہ سے اب تک اسلام کا ڈھونگ رچانے پر مجبور تھا اور اب یہ قلادہ بھی اس نے اتار پھینکا اور علانیہ یہوددوستی اور فلسطین دشمنی کا اظہار شروع کیا۔ سعودی شاہی خاندان کے لیے رول ماڈل کبھی بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی لائی شریعت اور اسلامی تہذیب نہیں رہی۔ وہ تو فارسیوں کی طرح قدیم عرب ثقافت کے دلدادہ ہیں، ترقی کے نام پر جاہلیت کے مظاہر پر جان دینے کو فخر سمجھتے ہیں ۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ دور جاہلیت میں سرخ جھنڈوں والیاں بھی غالباً حرم کعبہ کی حرمت کا پاس کیا کرتی ہوں گی اور اپنے غلیظ کردار کا اظہار عین حرم کعبہ کے سامنے نہیں کرتی ہوں گی۔ اب تو حال یہ ہے کہ سعودی حکومت کے وژن ۲۰۳۰نے فاحشات کے حوصلے اس قدر بلند کردیے کہ وہ نیم برہنہ لباس میں سونے کے لیے عین ایسی جگہ پہاڑ پر منتخب کرتی ہیں جہاں سے حرم کعبہ واضح دکھائی دیتا ہے اور پورے سعودی عرب میں کوئی اس فاحشہ کو روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ کون ہے جو اس فاحشہ کو یہاں تک لایا اور کس نے اس کو اس حسا س مقام تک رسائی دی؟ اللہ کی لعنت ہو سعودی شاہی خاندان اور سب سے بڑھ کر ابن سلمان پر۔
ہم مسلمانوں کو بحیثیت امت اٹھ کھڑا ہونے کے لیے کیا مزید کچھ مہمیز درکار ہے؟ امت کے نوجوانوں کے لیے کیا آج کے خیری علقم اور ابراہیم نابلسی رول ماڈل نہیں؟کیا وہ جو آج فتنہ دجال کے تمام مظاہر پر جان چھڑکتے نظر آتے ہیں، کل یک دم (بزعم خود) امام مہدی کی صف میں جاکھڑے ہونے کے قابل ہوں گے یا دجال کے ایک اشارے پر جہنم میں چھلانگ لگانے پر؟
ابھی یہ امت بانجھ نہیں ہوئی، ابھی اس کے دامن میں چند خیرہ کن ہیرے باقی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق وہ تاقیامت باقی رہیں گے جو حق پرست ہوں گے اور حق ہی کی خاطر لڑتے رہیں گے اور اللہ رب العزت انہیں فتح یاب فرمائیں گے۔ سعودی عرب کے نوجوان اگر جہنم کی گہرائیوں میں گرنے سے بچنا چاہیں اور زمین پر چلتے پھرتے اہل ایمان کو دیکھنا چاہیں اور ان سا بننا چاہیں تو عین ان کے پڑوس میں یمنی مجاہدین سعودی امریکی اتحاد اور حوثیوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ یہ حوثی بھی شامی نُصیری حکومت اور لبنانی حزب اللہ کی طرح وہی ہیں جنہیں ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ لڑ رہے ہیں۔ ہمارے یہ حق پرست مجاہدین ہی امت کے لیے امید کی کرن ہیں۔ یہی وہ گوہر، وہ گدڑی کے لعل ہیں جن کے دم سے امت کا وجود سلامت ہے۔اور صرف یمن ہی کیوں؟ پوری دنیا میں اہل حق مجاہدین جگہ جگہ اپنے دین کے دفاع کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ آج وہ کمزور دکھائی دیتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ مسلمانوں کی اکثریت کا خواب غفلت میں پڑا ہونا ہے۔ امت کے اموال ورلڈ کپ کے انعقاد، کافر کھلاڑیوں کی پذیرائی اور فاحشات کے مجرے منعقد کروانے؛ نوجوانوں کی قوت ناچنے گانے اور ان کی فکر کا مرکز ومحور سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ فالورز اکٹھے کرنے سے فارغ ہو تو جہاد اور اہل جہاد کی طرف بھی توجہ مبذول ہو۔ ایک طرف سعودی عرب ہے جو پردے سے بےپردگی اور آبرو سے بے آبروئی کی جانب نہایت تیزی سے گامزن ہے اور کفار، فساق اور فجار مستقل اس کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں، اور دوسری جانب سرزمین افغانستان پر نافذ اللہ کی شریعت ہے جس کے رکھوالے اپنے وطن کی عورتوں کے سر ڈھانپنے کے لیے، ان کی عزت، ایمان اور کردار کی رکھوالی کے لیے پوری دنیا سے ٹکر لے بیٹھے ہیں۔ نمونہ ہائے عمل کی تو کمی نہیں بس دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا دردمند دل درکار ہے۔
انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے؛ آج ایمان، اسلام، بلند نگاہی و بلند کرداری، غیرت ایمانی، بہادری، جانفشانی، سرفروشی کے جذبات دل کی زمین میں بوئیں گے، آج اہل ایمان کا ساتھ دامے درمے قدمے سخنے دیں گے تو کل ہم اور ہماری اولاد مثل ابوبکر و عمر بن کر دجال کے سامنے کھڑے ہوں گے لیکن آج اہل ایمان کے مصائب دیکھ کر، امت کی زبوں حالی دیکھ کر ان سے اپنا دامن بچائیں گے تو کل انہی کی صف میں کھڑے ہوں گے جن پر اللہ کا غضب ہوگا۔ فیصلے کی گھڑی بس آہی لگی ہے!!!
٭٭٭٭٭