کیا ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی پرسان حال ہے؟

ہزاروں مسلمان مرد، عورتیں، بچے کھلے آسمان تلے اپنے رب سے مناجات کرتے، روتے بلکتے سسکتے، دعائیں مانگتے اور بددعائیں دیتے دکھائی دیتے ہیں؛ کاش کسی کا دردمند دل ان کی حالت زار پر موم ہوجائے، کوئی ان مستضعفین کی مدد کے لیے اٹھے، کوئی ان پر ظلم کرنے والے ہاتھوں کو کاٹ ڈالنے والا پیدا ہو…… کوئی تو ہو جو ان مظلوموں کی دادرسی کرے، کوئی ان کو ظالم کے سامنے ڈٹنے کی ہمت دلائے، مظلومیت اور بے بسی سے بہنے والے ان کے آنسوؤں کو خشک کرکے ان کے دلوں میں غیرت دین کا الاؤ بھڑکائے جس کی تپش کفار کو تہس نہس کردے…… کوئی تو ہو!

بھارت میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں سے ان کی دینی شناخت چھینی جارہی ہے، مساجد ڈھائی جارہی ہیں، حجاب پر پابندی لگائی جارہی ہے، مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے، سالہا سال کی محنت سے بنائے گئے ان کے مکانات ڈھائے جارہے ہیں، ان کی شہریت منسوخ کی جارہی ہے اور مسلمان جان کو اس قدر ارزاں کردیا گیا ہے کہ ہر گلی محلے میں جہاں چند ہندو غنڈے اکٹھے ہوجاتے ہیں، کسی نہ کسی مسلمان بزرگ، نوجوان یا خاتون کو پکڑ کر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، ان سے کفریہ نعرے لگواتے ہیں اور انہیں سرعام بے عزت کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت اسلام اور مسلم مخالف ان اقدامات پر خاموش ہے بلکہ کبھی علانیہ اور کبھی ڈھکے چھپے ان کی بھرپور تائید ہی کرتی نظر آتی ہے اور یہ بات بہرحال ڈھکی چھپی نہیں کہ پورے ملک میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ، مارپیٹ، تشدد، املاک کی تباہی…… کے یہ واقعات حکومتی سرپرستی ہی کی وجہ سے ممکن ہیں۔

ہندوستان میں بسنے والے بیشتر مسلمانوں کی حالتِ زار مالی لحاظ سے بھی بہت کمزور ہے اور معاشرتی لحاظ سے بھی یہ معاشرے کا دبا پسا طبقہ ہیں۔ان کی کوئی مضبوط قیادت میدان میں موجود نہیں ہے جو ان کے حقوق کی جنگ لڑے اور جس کی آواز پر کان دھرے جائیں۔ کان تو انہی کی آوازوں پر دھرے جاتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ہتھیار ہوں اور جن کے پاس قوت و طاقت ہو، جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور جو اپنے دین اپنے عقیدے اپنی شناخت اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے مرنے مارنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ہندوستان کے مظلوم مسلمان عوام اگر یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی مدد و نصرت و حمایت کے لیے باہر سے کوئی آئے گا تو یہ درست ہے کہ ان کے پڑوس میں بسنے والے ان کے مسلمان بھائیوں کو ان کی مدد کے لیے یقیناً اٹھنا چاہیےاور یہ ان پر فرض ہے، مگر خود انہیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ بیرونی مدد اسی وقت فائدہ دے سکتی ہے کہ جب مظلوم طبقہ خود بھی ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ ہو اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ یہ مظلومین خود کو مظلوم سمجھنا چھوڑ کر اپنی قوت و طاقت کا ادراک کریں اور یہ یاد رکھیں کہ وہ چند سو نہیں، چند لاکھ بھی نہیں بلکہ ان کی آبادی کروڑوں میں ہے۔ گر ایک ایک فرد ایک ایک ظالم ہی کو مزا چکھائے تو کیا حالات ایسے ہی رہیں گے جیسا کہ آج ہیں؟ انٹرنیٹ پر موجود کچھ مواد جو نگاہوں سے گزرا اس میں ہمیشہ مسلمان نوجوان (بزرگوں اور خواتین کی بات تو چھوڑ دیں) بے بس اور بے کس ہی نظر آتا ہے؛ دسیوں غنڈوں کی موجودگی میں ایک نہتا نوجوان کربھی کیا سکتا ہے، مگر کیا وہ اپنے اندر اتنی بھی قوت اور طاقت نہیں پیدا کرسکتا کہ وہ اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرکے ہندوؤں کے جتھے میں سے ایک آدھ کو ہی ایک گھونسا رسید کردے؟ ایسا نہ کرنے سے اور مظلومیت میں پٹتے رہنے سے وہ بچ تو نہیں جاتا، پھر بھی اس مظلوم کی ہڈیوں کا سرمہ بنا دیا جاتا ہے ، تو گر وہ دو چار کو گرا کرمرے تو اس کا اپنا ضمیر بھی مطمئن ہوگا کہ اس نے اپنا بدلہ چکا دیا ہے۔ ذاتی دفاع کے ہتھیار اگر ہندو کے لیے رکھنا روا ہے تو مسلمان کے ہر گھر میں بھی کم از کم چھری چاقو تو موجود ہی ہوتا ہے۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے سر سے پہلے ہی پانی کافی اونچا ہوچکا ہے، اگر اب بھی انہوں نے تیرنے کے لیے ہاتھ پیر نہ مارے تو پھر انہیں ڈوبنے سے بچانے والی کیا چیز ہوگی؟

بھارت میں مسلمانوں کی قیادت سے منسوب کوئی طبقہ گر یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہندو جارحیت کے جواب میں مسلمانوں کو پرامن رہنے کا درس دے کر اپنی جان بچا لے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے؛ ان کی نجات اسی میں ہے کہ وہ مسلمان عوام کو غیرت دین، جہاد اور ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیں، یوں دنیا میں وہ مارے بھی گئے تو عند اللہ تو سرخرو ہوں گے مگر دوسری صورت میں گر دنیا میں ان کی جان بچ بھی گئی تو اللہ رب العزت کو کیا جواب دیں گے؟

پاکستان کے عوام پر اپنے پڑوس میں بسنے والے جسد امت کے زخم خوردہ ٹکڑوں کی مدد و نصرت کی پوری پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔پاکستانی عوام یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا نہیں سکتے کہ ہم تو مہنگائی اور غربت کی چکی تلے پستے نہتے عوام ہیں، ہم کیا کرسکتے ہیں؟ عوام کے اندر قوت اور طاقت کا ایک طوفان چھپا ہوتا ہے جو حکومتوں کو بنانے ، گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومتوں کی ترجیحات متعین کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اپنی اسی قوت کو آزمانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس وہ سب کچھ ہے جو کسی ملک کے دفاع اور ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم کے لیے، دشمن پر قوت و طاقت کا رعب ڈالنے کے لیے ضروری ہے، ہاں اگر کمی ہے تو ایمان و تقوی کی اور یہ کمی پوری ہو تو جہاد فی سبیل اللہ کچھ ناممکن تو نہیں!

پاکستان کے جید علمائے دین کو بھی بھارتی مسلمانوں کے حق میں پاکستانی عوام میں آگاہی پھیلانے کی اور انہیں ان کی مدد و نصرت پر ابھارنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ان کے دینی فرائض کا فہم علمائے حق ہی دے سکتے ہیں، پس علمائے حق کو یہ ذمہ داری نبھانے میں ہرگز دیر نہیں کرنی چاہیے۔

یقیناً دعاؤں کی طاقت سے تقدیر بھی بدل سکتی ہے مگر قوموں کی تقدیر محض دعاؤں سے نہیں بدلتی، یہ اللہ رب العزت کی سنت ہے۔ جہاں یہ امتحان مظلوم قوم کا ہے وہیں یہ اس کے نزدیک بسنے والی ان قوموں کی آزمائش بھی ہے جو ایمان اور اسلام کے رشتے سے ایک امت کی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ زیادہ وقت تو نہیں گزرا کہ ہم یونہی دیکھتے رہ گئے اور روہنگیا قوم کو مارا کاٹا جلایا اور جلاوطن کیا گیا، ہم دیکھتے ہی رہے اور پاکستانی حکومت و فوج نے کشمیری مجاہدین سے، کشمیری عوام سے اپنا ناتا کاٹ ڈالا، ہم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہمالیہ سے اونچی دوستی کو تکتے رہے اور ترکستانی مسلمان بدترین ظلم سہتے رہے……ہماری عافیہ گئی ہم چپ رہے، ریمنڈ ڈیوس رہا ہوا ہم چپ رہے، شیخ اسامہ شہید کردیے گئے ہم چپ رہے، ہماری فوج نے درانداز ہونے والے انڈین پائلٹ کو چائے پلا کر رخصت کردیا، ہم چپ رہے…… اب کس وقت کا انتظار ہے؟ کیا ہماری یہ چپ روز قیامت ٹوٹے گی؟

احساس عنایت کر آثار مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے

٭٭٭٭٭

Exit mobile version