اسرائیلی کمپنی کی تشہیر میں نہتے فلسطینی کے قتل کی ویڈیو فوٹیج کا استعمال |
دفاعی سازوسامان بنانے والی ایک اسرائیلی کمپنی رافائل نے اپنے ڈرون کی تشہیر کے لیے ایک نہتے فلسطینی کو نشانہ بنانے کی ویڈیو اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ سے شئیر کی ہے۔ مارکیٹنگ کی ایسی مثال شاید ہی پہلے کبھی دیکھی گئی ہو۔ رافائل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز لمیٹڈ اسرائیل کی ایک بڑی دفاعی کمپنی ہے جو ایئر ڈیفنس سسٹمز، میزائلوں، اور دیگر ہائی ٹیک ہتھیاروں کی تیاری کے لیے مشہور ہے۔ 2024ء میں رافائل کی سیلز 4.8 بلین ڈالر تک پہنچیں، جو کہ 2023ء کے مقابلے میں 27 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ رافائل کا آرڈر بیک لاگ (Order Backlog) ۲۰۲۴ء میں 17.76 بلین ڈالر تک پہنچ گیا، جو اس کی مضبوط عالمی مانگ کو ظاہر کرتا ہے۔ رافائل کی جانب سے حال ہی میں انڈین ائیر فورس کو فضائی برتری دلوانے لیے کے لیے ہندوستان کو اسکائی اسٹنگ 6thجنریشن لانگ رینج میزائل کی پیشکش بھی کی گئی ہے ۔ نیٹو ممبر رومانیہ جس کی یوکرین کے ساتھ قریبا 650 کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے ، اسے بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی حکومت کے دباؤ کے سبب رافائل سے دفاعی نظام کے 2.3 بلین ڈالر کا سات سالہ معاہدہ کرنا پڑا ہے۔ یورپ اسرائیلی دفاعی سامان کا سب سے بڑا خریدار تھا، جس نے 2024ء میں کل برآمدات کا 54 فیصد خریدا، اور وزارت کے حکام نے یوکرین پر روس کے جاری حملے کو یورپی ممالک کی طرف سے مانگ میں اضافے کی وجہ قرار دیا۔ اسرائیلی وزارت کے حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں کچھ حکومتوں کی طرف سے تشویش بڑھ رہی ہے، خاص طور پر مغربی یورپ میں، جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ ہتھیاروں کے سودے منسوخ کر دیے ہیں یا دوسری صورت میں جنگ کے حوالے سے اسرائیلی دفاعی فرموں پر پابندیاں لگا دی ہیں۔
اسرائیلی فوج میں خود کشیوں کے بڑھتے واقعات |
اسرائیلی اخبار Haaretz کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اب تک ڈیوٹی کے دوران کم از کم 15 فوجی اپنی جانیں لے چکے ہیں۔ اخبار میں بتایا گیا کہ ان فوجیوں میں سے زیادہ تر ریزرو فوجی تھے جنہیں جاری جنگ کے دوران فعال خدمات کے لیے بلایا گیا تھا۔ ان میں سے اکثر کو شدید جنگی حالات کا سامنا کرنا پڑا جس کا ان کی ذہنی صحت پر شدید اثر پڑا۔ اکتوبر 2023ء میں جنگ کے پھیلاؤ کے بعد سے اسرائیلی فوجی محصور غزہ کی پٹی میں طویل لڑائی کے بعد شدید نفسیاتی اور جسمانی تھکن کا شکار ہیں۔ اسرائیل کی والہ نیوز سائٹ کی رپورٹس فوجیوں میں خودکشیوں میں پریشان کن اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں، جس کی وجہ ان کارروائیوں سے وابستہ شدید تناؤ ہے۔ رپورٹ کے حوالے سے بیان کردہ فوجی اعداد و شمار کے مطابق، کچھ فوجیوں نے 300 سے زائد دنوں تک بغیر چھٹیوں کے جنگ لڑی ہے۔ 2024ء میں ریکارڈ کی گئی خودکشیوں کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 38 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 28 غزہ میں جنگ کے بعد پیش آئے۔ اس کے بالکل برعکس، 2022ء میں صرف 14 خودکشیاں ریکارڈ کی گئیں، اور 2011ء میں صرف 11، جو کہ صرف دو سالوں میں تقریباً چار گنا بڑھنے میں خطرناک حد تک نمایاں ہیں۔ خودکشیوں میں اضافہ تین لاکھ سے زیادہ ریزرو فوجیوں کو متحرک کیے جانے سے منسلک ہے، جن میں سے اکثر نے غزہ میں فوجی کارروائیوں میں اپنی شمولیت کی وجہ سے دائمی نفسیاتی دباؤ کا سامنا کیا ہے۔ فوج کے ہیومن ریسورس ڈویژن کے ایک ذریعے نے بتایا کہ لڑائی کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد خودکشی فوجیوں میں موت کی دوسری بڑی وجہ بن گئی ہے۔ 2023ء میں، 558 اموات ریکارڈ کی گئیں، جن میں 512 فوجی آپریشنز کے دوران، 17 خودکشیاں، اور دس طبی وجوہات کی وجہ سے ہوئیں۔ 2024 تک، 363 اموات نوٹ کی گئیں، جن میں 295 آپریشنل سرگرمیوں، 21 خودکشیاں، اور 13 صحت سے متعلق مسائل سے ہوئیں۔
یورپ، فلسطینی ریاست چاہتا ہے یا فلسطینی مغلوبیت وخواب کی تدفین؟ |
عرب تجزیہ نگار مالک الخوری یورپ کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کیے جانے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اسرائیل نے آٹھ دہائیوں سے اپنی حدود متعین کرنے سے انکار کر رکھا ہے کیونکہ اس کی شناخت نوآبادیاتی عزائم میں پیوست ہے جو کبھی ختم نہیں ہوئی۔ فلسطینی ریاست کو یورپ کی جانب سے دیر سے تسلیم کرنا، کھلم کھلی جیوپالیٹکل چال اور وسیع پیمانے پر نارملائزیشن کا حصہ ہے، جو فلسطینیوں کی آزادی کو پس پشت ڈالتی اور شکست کو سفارتی پیشرفت کے جھانسے میں دہراتی ہے۔ ہم ریاست کی پیدائش کا مشاہدہ کر رہے ہیں یا اپنی شکست کا اعلان؟ فرانس اور برطانیہ، بالکل اسی وقت ’’فلسطینی ریاست‘‘ کو تسلیم کرنے کی تیاری کررہےہیں جب فلسطینی سیاسی جغرافیہ سب سے زیادہ بکھرا ہوا اور صہیونی منصوبہ انتہائی جارحانہ ہے۔ اسرائیل کا کوئی باقاعدہ رسمی اور جامع تحریری ’آئین ودستور‘ نہیں۔صہیونی نظریے نے حتمی سرحدوں کو تسلیم نہیں کیا، بجائے اس کے ایک ایسی ریاست قائم کی جس کی کوئی سرکاری سرحد نہیں کیونکہ اس کے عزائم فلسطینی جغرافیہ سے باہر اردن، شام، لبنان اور مصر کے حصوں کوضم کرلینے تک پھیلے ہیں۔
فرانسیسی صدر کہتا ہے :
’ہمیں حماس کو ضرور غیر مسلح کرنا ہوگا ،فلسطین (غزہ و مغربی کنارہ)کی غیر فوجی حیثیت کو قبول کرنااور اسرائیل کو مکمل طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔‘
ترکیہ، جو اسرائیل کا ایک اہم تجارتی شراکت دار اور حماس کا سیاسی حمایتی ہے، فلسطین کو اس کے علاقائی قد اور توانائی سے فائدہ اٹھانے کے ایک آلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ فرانس،سعودیہ، ترکیہ اور برطانیہ کے تعلق کو ایک دوسرے سے ملایا جا رہا ہے، ان میں سے کوئی بھی فلسطینی حقوق (یا مذہبی مسئلہ) کے اصولی موقف سے نہیں بلکہ طاقت، اثر و رسوخ اور سیاست کی عینک سے ہی اسے دیکھتا ہے۔ ایک ریاست جو مقبوضہ و بکھری ہوئی زمین پر، مسلسل محاصرے میں اور خودمختاری سے محروم ہو،کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ اگر اسرائیل توسیع اور تسخیر کر رہا ہےاور دوسری طرف فلسطینی تحریک کے مطالبات کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے اور علاقائی ریاستیں اسرائیل سے تعلقات معمول پر لا رہی ہیں، تو اصل میں کیا حاصل ہوا؟
یورپ کا ’بغیر دانتوں والے‘ فلسطین کو تسلیم کرناہے۔ صہیونی بستیاں بڑھ رہیں اور نقل مکانی جاری ہے، یہ آزادی نہیں بلکہ سفارت کاری کی آڑ میں خواب کی تدفین ہے۔‘‘
اسرائیل کے حامی نک ایڈمز کی ملائیشیا میں بطور امریکی سفیر تعیناتی کے خلاف مظاہرے |
اسرائیل کے حامی قدامت پسند مصنف اور سیاسی مبصر نک ایڈمز کی بطور امریکی سفیر کے ملائیشیا میں مجوزہ تقرری کے خلاف درجنوں مظاہرین ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں امریکی سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے۔ایڈمز جسے اسلام مخالف بیانات کے لیے جانا جاتا ہے، کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ مظاہرین نے ملائیشیا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایڈمز کی مجوزہ تقرری کو مسترد کرنے کے لیے بین الاقوامی اصولوں کے تحت اپنا حق استعمال کرے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے صحافیوں کو بتایا کہ ایڈمز کی تقرری کے بارے میں فیصلہ کرنا ابھی بہت جلد ہے، لیکن ان کی حکومت اس معاملے پر مناسب غور کرے گی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انور نے کہا، ’’اس کے ساتھ ساتھ، ہم ملائیشیا اور امریکہ کے درمیان اچھے تعلقات کے تحفظ کی کوشش کریں گے۔‘‘
غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کی حمایت ظاہر کرنے والے نک ایڈمز کی سوشل میڈیا پوسٹوں نے ملائیشیا میں مسلمانوں کو مشتعل کیا ہے، جس سے جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں غیر ملکی سفارتی تقرری کے خلاف ایک غیر معمولی ردعمل کو ہوا ملی ہے۔ ملائیشیا مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے جو طویل عرصے سے فلسطینی کاز کا مضبوط حامی رہا ہے۔ انور کی پیپلز جسٹس پارٹی کے رکن محمد ایزوان احمد قاسم نے رائٹرز کو بتایا کہ ایک سفیر کا کام دو ملکوں کے درمیان پل بننا ہے، اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ شخص کوئی ایسا ہو جو اس پل کو تباہ کر دے۔
ملائیشیا کے سیاسی منظر نامے میں اسلام پسندوں کی حمایت میں اضافہ |
جرمن نشریاتی ادارے ڈی بلیو کی رپورٹ کے مطابق ملائیشیا کے سیاسی منظر نامے میں حالیہ برسوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جس کا ثبوت اسلام پسند جماعتوں کا عروج ہے۔ اگرچہ یہ جنوب مشرقی ایشیا کے سب سے زیادہ نسلی اعتبار سے متنوع ممالک میں سے ایک ہے، لیکن حکمران اتحاد کے مبینہ لبرل ایجنڈے کے خلاف بڑھتا ہوا عوامی عدم اطمینان وزیر اعظم انور ابراہیم کی اقتدار پر گرفت کے لیے ایک اہم چیلنج بن گیا ہے۔ اپوزیشن ’پریکتان نیشنل‘ (پی این) یا نیشنل الائنس، پانچ جماعتی گروپ کا ایک اتحاد ہے، جس میں ملائیشین اسلامک پارٹی (پی اے ایس) بھی شامل ہے۔ گزشتہ دہائی میں اس نے کافی مقبولیت حاصل کی اور انتخابی میدان میں بھی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ اس نے 2023ء کے ریاستی انتخابات میں حیران کن انتخابی کامیابی حاصل کی، اور 245 میں سے 146 سیٹیں جیت کر کئی ریاستوں میں حکومتیں بنائیں۔ یہ انتخابات ایک اہم موڑ ثابت ہوئے، کیونکہ انہوں نے شمالی اور مشرقی ساحلی ریاستوں میں پی این کے کنٹرول کو مضبوط کیا اور خاص طور پر نوجوان اور اسلام پسند ووٹروں میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ظاہر کیا۔ جن ریاستوں، مثلاً کیلن تان، تیرین گانو، کیداہ اور پرلیس میں پی اے ایس کی حکومتیں ہیں، یہ وہاں اپنے اسلام پسند نظریے سے ہم آہنگ پالیسیوں پر زور دے رہی ہے۔ کچھ لوگ اسے اکثر ’’سبز لہر‘‘ کہتے ہیں، جو اسلام پسند پالیسیوں کی حمایت میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک سیاست دان اور رکن پارلیمان وان سیف وان جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اسلام ہماری قومی شناخت کا مرکز ہے۔ اس لیے اسلامی اقدار کو تھامے رکھنا، یا معاشرے کو اسلامی نظریات کے مطابق ڈھالنا کوئی نئی بات نہیں۔‘‘ لیکن وان جان اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ ’’کچھ لوگوں‘‘ کی طرف سے پالیسیوں کی تشکیل میں ملک کی کثیر المذہبی اور کثیر النسلی تاریخ، ورثے اور شناخت کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’انور ابراہیم انتظامیہ حکمرانی اور اصلاحات کرنے میں اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے نام نہاد ’اسلامائزیشن‘ کو ایک واہمے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ہمیں اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ انور ہمارے اصل مسئلے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ جرمن نشریاتی ادارے کی اس خبر میں ایک جھلک مغرب کی اس پریشانی کی بھی ملتی ہے جو ویسے تو دنیا بھر میں بشمول مسلم ممالک میں جمہوریت کے فروغ کا خواہاں ہے لیکن اگر اسلام پسند جماعتیں اسی جمہوری نظام میں رہتے ہوئے اکٹریت اور غلبہ حاصل کرنے لگیں تو ان کے لیے جیسے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں۔
روس کی جانب سے ویگنر گروپ کی جگہ مالی میں افریقن کور کی تعیناتی |
روس کی وزارت دفاع نے مالی میں ویگنر گروپ کے جنگجوؤں کی جگہ اپنی افریقن کور کو تعینات کر دیا ہے۔ ویگنر گروپ کے وہاں تقریباً ڈھائی ہزار اہلکار تعینات تھے جبکہ افریقن کور کے پاس اس وقت مالی میں تقریباً دو ہزار اہلکار تعینات ہیں۔ افریقن کور نے 100 سے زیادہ بڑے جنگی سازوسامان مالی میں منتقل کیے ہیں، جن میں اہم جنگی ٹینک، متعدد راکٹ لانچنگ سسٹمز اور ٹیکٹیکل بمبار طیارے شامل ہیں، جس سے ملک میں روسی افواج کے لیے دستیاب فائر پاور میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ویگنر گروپ نے اس سے قبل روس کی جیلوں سے تقریباً پچاس ہزار قیدیوں کو استعمال کرتے ہوئے یوکرین کے خلاف روس کی فرنٹ لائن کے ایک اہم حصے کے ساتھ کام کیا تھا۔ 2023ء کے دوران، ویگنر روسی حکومت کے لیے خطرے میں اس وقت تبدیل ہو گیا جب اس گروپ نے جون 2023ء میں بغاوت کی کوشش کی۔ اسی لیے روس بیرون ملک روسی سکیورٹی کی تعیناتیوں پر کنٹرول کو مرکزی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روسی وزارت کی جانب سے 2023ء کے آخر میں شام میں ویگنر گروپ کو ہٹا لیا گیا، 2024ء کے اوائل میں لیبیا اور اب مالی سے ہٹانےکے باوجود، ویگنر گروپ وسطی افریقی جمہوریہ اور بیلاروس دونوں میں آزادانہ طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں بالترتیب تقریباً دو ہزار اور تین سو ویگنر اہلکار تعینات ہیں۔ نئی تعینات ہونے والی افریقن کور بھی ایک روسی نیم فوجی گروپ ہے جو روسی حکومت کے براہ راست کنٹرول اور انتظام کے تحت کام کرتا ہے، خاص طور پر روسی وزارت دفاع کے۔ اس فوجی ادارے کو روس نے مختلف افریقی ممالک میں تعینات کیا ہے۔ افریقن کور روس کی وسیع حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ افریقہ میں اپنے اثر و رسوخ اور موجودگی کو بڑھایا جائے، خاص طور پر ساحل کے خطے میں۔ افریقن کور نے مالی، برکینا فاسو اور نائجر جیسے ممالک میں اپنے بہت سے آپریشنز اور اہلکاروں کو سنبھالا ہے۔ افریقہ میں گروپ کی سرگرمیوں میں حکومتوں کو سکیورٹی امداد، تربیت اور سازوسامان کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر جنگی کارروائیوں میں حصہ لینا بھی شامل ہے۔ بعض مبصرین کی رائے میں افریقن کور کا مقصد ویگنر کے مقابلے میں اپنی موجودگی کم ظاہر کرنا اور براہ راست لڑائی کے بجائے تربیت اور مدد پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہے۔ روس افریقن کور کا استعمال اثر و رسوخ، وسائل تک محفوظ رسائی (جیسے نائجر میں یورینیم) اور افریقہ میں نقل مکانی کے راستوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کرتا ہے۔
امریکہ کا آسٹریلیا اور جاپان پر دباؤ، ہمیں بتائیں کہ امریکہ-چین جنگ کی صورت میں آپ کی حکمت عملی کیا ہو گی: پینٹاگون |
پینٹاگون، تائیوان کے موضوع پر امریکہ،چین جنگ کی صورت میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی وضاحت کے لئے،جاپان اور آسٹریلیا پر دباو ڈال رہا ہے۔ روزنامہ فنانشیل ٹائمز نے مذاکرات کی تفصیلات سے باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکی وزارت دفاع کے سیکرٹری برائے امورِ سیاست ’ایلبریج کولبی‘ نے دونوں ممالک کے دفاعی حکام کے ساتھ مذاکرات میں اس معاملے کو آگے بڑھایا ہے۔ اخبار کے مطابق، یہ درخواست جاپان اور کینبرا دونوں کے لیے غیر متوقع تھی کیونکہ خود امریکہ، تائیوان کے دفاع کے لیے، غیر مشروط ضمانت فراہم نہیں کرتا۔ رائٹرز نے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی اور امریکی محکمہ دفاع نے بھی اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ امریکہ اور تائیوان کے درمیان سرکاری سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی کے باوجود امریکہ تائیوان کو اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے اہم ملک ہے۔ تائیوان ، چینی حاکمیت کے دعوے کو رد کرتا ہے لیکن بیجنگ نے اپنی حاکمیت کے دعوے کو تقویت دینے کے لئے بعض فوجی مشقوں سمیت جزیرے پر عسکری دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ ’ایلبریج کولبی‘ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں حکمت عملی اور قوّت میں اضافے جیسے موضوعات پر بحیثیت نائب وزیرِ دفاع کے خدمات سرانجام دی تھیں۔ کولبی ، امریکی فوج کے چین کے ساتھ مقابلے کو ترجیح دینے اور مشرق وسطیٰ اور یورپ سے توجہ ہٹانے کے مؤقف کی وجہ سے، شہرت رکھتے ہیں۔
وہ امریکہ جو کبھی مسلم ممالک سے کہتا تھا کہ تم یا ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف، آج اپنے اتحادیوں کو دھمکانے پر مجبور ہے کہ وہ اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کریں۔
کیا تاجکستان ایک اور مشرقی ترکستان بن رہا ہے؟
|
تاجکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک تاجک مسلمان نے برطانیہ میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کو اپنے ایک پیغام میں بتایا:
’’تاجکستان کی موجودہ صورتحال مشرقی ترکستان سے مختلف نہیں ہے۔ اگر کوئی حجاب پہنتا ہے یا داڑھی رکھتا ہے تو اسے پہلی بار جرمانہ اور دوسری بار قید ہو گی۔ مساجد موجود ہیں لیکن وہ خالی ہیں۔ اگر کسی مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہوں تو اسے بند کر دیا جاتا ہے یا وہاں موجود ہر شخص کو انفرادی طور پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اگر آپ مسجد یا اپنے گھر کے علاوہ کہیں اور نماز پڑھتے ہیں تو آپ کو فوراً طلب کیا جاتا ہے۔ آپ بس چلتے رہیں اور جرمانے ادا کرتے رہیں۔ میرے کچھ رشتہ داروں کو صرف گیس اسٹیشن پر نماز پڑھنے پر جرمانہ کیا گیا۔ جب میں تاجکستان پہنچا تو میرے رشتہ داروں میں سے ایک کو ابھی گرفتار کیا گیا تھا ، وجہ مضحکہ خیز تھی، وہ ازبکستان گئے تھے اور ازبکستان کے شاہی محل کے عالم صوفی سولیخون ڈوملا کے ساتھ تصویر کھینچ کر کسی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی تھی۔ اس کی وجہ سے اسے بیس ہزار ڈالر ادا کرنے پڑے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ان کا کہنا تھا کہ اسے 15 سال قید کی سزا سنائی جاتی۔ ہمارے گھر کے بالکل سامنے ایک مسجد ہے، محل کا مقرر کردہ امام وہاں نماز پڑھاتا تھا۔ اگرچہ وہ مطیع تھا، پھر بھی وہ اسے وقتاً فوقتاً طلب کرتے، مارتے، اس کے پیسے لے لیتے اور پھر اسے چھوڑ دیتے۔ اس مسجد میں زیادہ سے زیادہ 4 یا 5 بزرگ نماز کے لیے آتے ہیں۔ میرا ایک عزیز جو جرمنی میں ہےاور ان حالات سے واقف ہے، اس نے واپس آنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے اس کے والد کو طلب کیا، اس پر تشدد کیا اور ہزاروں ڈالر نکلوا لیے۔ اس کے پاس کئی مویشی اور کاریں تھیں، وہ سب پیسے بٹورنے کے لیے بیچ دی گئیں۔ ایک بار جب انہوں نے دیکھا کہ پیسے باقی نہیں ہیں تو انہوں نے اسے جانے دیا۔ انہوں نے یہاں تک کہا، ’آپ ابھی جا سکتے ہیں، اگر ہم بور ہوئے تو ہم آپ کو دوبارہ بلائیں گے‘۔ تاجکستان میں، اگر کوئی شخص غیر مذہبی ہے، تو وہ کسی حد تک سکون سے رہ سکتا ہے۔ لیکن مسلمان امن سے نہیں رہ سکتا۔ جلد یا بدیر، انہیں طلب کیا جائے گا، تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا، جرمانہ یا قید کی سزا دی جائے گی۔ عوام شدید خوفزدہ ہو چکے ہیں۔ جب مجھے بلایا گیا تو محلے کے سربراہ نے میرے کچھ رشتہ داروں سے کہا: ’’وہ اوپر سے آپ کے بھانجے کو بلا رہے ہیں‘‘۔ میرے چچا ڈر گئے اور بولے: ’ہمیں کچھ نہیں معلوم، براہ کرم ہمیں اس میں شامل نہ کریں‘۔
لوگوں میں خوف بنی اسرائیل کی طرح ہے جس نے فرعون کے زیر سایہ برسوں کے ظلم و ستم کو برداشت کیا۔ یہاں تک کہ جب ایک نبی ان کے سامنے کھڑا ہوتا تو وہ لڑنے سے بھی ڈرتے تھے۔ انہوں نے کہا تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو، ہم یہیں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ تاجکستان میں دینی درس سننے پر جرمانہ یا جیل ہو سکتی ہے۔ اگر آپ کے فون پر کوئی درس ملتا ہے، تو آپ کو فی ریکارڈنگ تین سو ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ زیادہ دروس کا مطلب زیادہ جرمانہ ہے۔ اگر آپ ادائیگی نہیں کر سکتے تو آپ جیل جائیں گے۔ میرے گھر واپس آنے سے پہلے ایک گمراہ آدمی تھا جس نے درس سنا اور اللہ کے حکم سے نماز پڑھنا شروع کر دی اور شراب چھوڑ دی۔ دینی دروس سننے کے بعد، انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور 8 سال قید کی سزا سنائی۔ جب وہ شراب پی رہا تھا تو کسی نے اسے پریشان نہیں کیا، لیکن جب اس نے اسلام پر عمل کرنا شروع کیا، انہوں نے اسے جیل میں ڈال دیا۔ظلم کا اس سے زیادہ ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے؟ میں جیل کے اندر ہونے والی اذیت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حیرت ہوتی ہے کہ کیا اس حکومت کے لیے کام کرنے والے بھی انسان ہیں؟‘‘
تاجکستان اس وقت سیاسی اور دفاعی لحاظ سے روس پر انحصار کرتا ہے لیکن معاشی منصوبوں اور معاہدوں میں چین کی عملداری بڑھی ہے۔
ملک بھر میں پولیس اہلکاروں کے جرائم میں ملوث ہونے کی بڑھتی شرح |
تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال گجر خان کے خواتین کے باتھ روم میں خفیہ طور پر ویڈیوز بنانے والے پنجاب پولیس کے حاضر سروس ہیڈ کانسٹیبل کو شہریوں کی بروقت کارروائی پر رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ انگریزی اخبار سے وابستہ رپورٹر صالح مغل نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ گرفتار ملزم عقیل عباس لاہور میں پولیس ٹریننگ ونگ سے وابستہ ہے اور وقوعہ کے وقت سول کپڑوں میں ملبوس تھا۔ ابتدائی رپورٹ کے مطابق وہ ہسپتال میں بھی خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز بنا رہا تھا۔ شہری بلال حسین نے ہسپتال میں طبی معائنے کے دوران مشتبہ حرکات دیکھ کر ملزم کو روکا، اس کا موبائل فون چیک کیا جس میں خواتین کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیوز موجود تھیں۔ بلال نے ملزم کو فوراً قابو میں لے کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ پولیس نے ملزم کے خلاف باضابطہ مقدمہ درج کر لیا ہے، جس میں دفعہ 354 (عصمت دری کی کوشش)، دفعہ 292 (فحش مواد)، اور دفعہ 509 (خواتین کی توہین و ہراسانی) شامل کی گئی ہیں۔ ایس پی صدر نبیل کھوکھر اور اے ایس پی سید دانیال کے مطابق ملزم ماضی میں ایک بیوہ خاتون کے ساتھ زیادتی کے مقدمے میں بھی ملوث رہ چکا ہے، تاہم متاثرہ خاتون سے راضی نامہ کے بعد وہ کیس خارج کر دیا گیا تھا۔
وی نیوز کی ایک خبر کے مطابق راولپنڈی پولیس کے دو اہلکار بھتہ خوری اور شہری پر تشدد میں ملوث نکلے۔ دونوں اہلکاروں نے ایک ڈاکٹر کو چاندنی چوک میں تشدد کا نشانہ بنایا اور منشیات کے مقدمے میں پھنسانے کی دھمکی دے کر 25 ہزار روپے چھین لیے۔
ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق راولپنڈی پولیس کے اہلکار وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اغوا برائے تاوان میں ملوث نکلے ہیں جن کے خلاف تھانہ سنگجانی پولیس نے مقدمہ درج کرکے ایک اغوا کار کو گرفتار کرلیا ہے۔
جیو نیوز کی ایک خبر کے مطابق کراچی کے علاقے بلاول جوکھوں گوٹھ سے اغوا ہونے والے شہری کے کیس میں 5 پولیس اہلکار ملوث نکلے جنہیں حراست میں لیا گیا۔
پبلک نیوز کی ایک خبر کے مطابق صرف لاہور میں سال 2025ء میں چھ ماہ کے دوران پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف 46 مقدمات کا اندراج ہوا، درج شدہ مقدمات میں کانسٹیبل سے لے کر سب انسپکٹرز تک 73 پولیس اہلکار نامزد کیے گئے۔
ملک بھر میں پولیس اہلکاروں کے جرائم میں ملوث ہونے کی بڑھتی شرح پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈیپینڈنٹ اردو کے ایک مضمون میں ارشد چوہدری لکھتے ہیں :
’’جتنے بھی پولیس ملازمین کے خلاف مقدمے درج ہوتے ہیں یا محکمانہ کارروائیاں ہوتی ہیں، ان کے بعد کسی کو سزا نہیں ملتی۔ وہ اعلیٰ افسران یا عدالتوں کے ذریعے دوبارہ بحال ہوجاتے ہیں یا کم از کم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ کارروائی بھی انہی پولیس اہلکاروں کے خلاف دیکھنے میں آتی ہے جن کا کیس میڈیا پر یا سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہوتا ہے۔ پھر اپنے ہی محکمے کے افسران ملازمین کے خلاف سخت کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔ منشیات سمگلنگ میں پولیس اہلکاروں کے ملوث ہونے کی شرح میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ہوتی بھی ہے تو وہ منشیات فروشوں سے تعلقات کی بنیاد پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ سب انسپکٹر، حوالدار رینک کے اہلکار بھی کروڑوں پتی بن چکے ہیں۔ سیاسی سرپرستی بھی ایک اہم ترین پہلو ہے جس سے کارروائی کا خوف ملازمین میں کم ہوجاتا ہے۔‘‘
لاہور ہائی کورٹ ججز ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار اور خدماتی عملے کے خلاف کیس |
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شروع کی جانے والی اندرونی انکوائری میں ججز ریسٹ ہاؤس، GOR-I کے چوکیدار اور خدماتی عملے کے چار ارکان پر کراکری استعمال کرنے پر معمولی جرمانے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ ان میں سے ایک مسیحی ویٹر کو ایک اور بدتمیزی کے الزام میں سروس سے برخاست کر دیا گیا ہے۔ یہ الزامات 3 دسمبر 2024ء کو پیش آنے والے ایک واقعے سے ہیں، جہاں ملزم عملہ ریسٹ ہاؤس کے سویٹ نمبر 6 میں لنچ کرتے ہوئے ’’معزز ججوں‘‘ کے لیے مخصوص کراکری کا استعمال کرتے ہوئے پایا گیا۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق، جب یہ معاملہ پیش آیا تو ویٹر نے بھی اپنے سینئرز کے ساتھ نامناسب اور اہانت آمیز رویے کا مظاہرہ کیا۔رپورٹ میں عملے کے خلاف بدانتظامی کے الزامات کی حمایت کے لیے گواہوں کے بیانات اور ویڈیو شواہد کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایسی ہی ایک اور مضحکہ خیز خبر نظر سے گزری جس کے مطابق ایک جج کی گاڑی کو ان کے سکیورٹی قافلے میں شامل ایک گاڑی نے اوور ٹیک کیا جو جج کو ناگوار گزرا اور انہوں نے اس گاڑی کے ڈرائیور کو شو کاز نوٹس ایشو کروادیا تھا۔
پروجیکشن کی ہوس نے پنڈورا باکس کھول دیا |
پنجاب میں حالیہ سیلاب کے دوران فوج کی جانب سے بظاہر ایک مضحکہ خیز ریسکیو کرتب دکھایا گیا جس نے ایک ایسا پنڈورا باکس کھولا کہ اللہ کی پناہ۔ ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پانی میں گھرے ایک مکان کی چھت پر کھڑے چند افراد کو فوجی ہیلی کاپٹر ریسکیو کر رہا ہے۔ ابتدا میں تو فوج کے پروپیگنڈا اکاونٹس نے اسے پروجیکشن کی نیت سے ہی شئیر کیا لیکن جلد ہی تفصیلات آنا شروع ہوئیں کہ یہ ویڈیو فوٹیج بلیو ورلڈ سٹی ہاوسنگ سوسائٹی کی تھی۔ وسیع رقبے پر قائم اس سوسائٹی کو آبی گزرگاہ پر قبضہ کرکے قائم کیا گیا تھا اور اسے غیرقانونی بھی قرار دیا گیا۔ پھر اس میں اتنے بڑے پیمانے پر پلاٹوں کی فائلیں بیچ دی گئیں کہ جتنے پلاٹ موجود ہی نہیں تھے، یعنی یہ سیدھا سادہ فراڈ کیس تھا۔ کمپنی کے مالکوں پر سو سے زائد مقدمات بنتے ہیں۔ صحافی شاہد اسلم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کمپنی کے فراڈ میں میں اعلیٰ فوجی افسران کی شمولیت بھی تھی۔ پھر چند مزید چیزیں بھی نوٹ کرنے کے قابل ہیں جو اس جرنیلی مافیا کی نفسیات اور ان کے طریقہ واردات کو سمجھنے میں مدد دیں گی۔ اس کیس کو بطور ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں ۔ ملک بھر میں مختلف شعبوں میں موجود مافیاز کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ اسی قسم کا ہے۔ یہ ان مافیاز کو قابو کرنے کے لیے پہلے نمائشی قسم کے کیس بنواتے ہیں، پھر جب یہ مافیاز ان کے سامنے سرنڈر کرجائیں پھر انہیں استعمال کیا جاتا ہے۔ اب سنتے جائیں صرف اسی ایک کمپنی کے کرتوت ۔ یہی کمپنی جو آبی راستے پر قبضے کرکے دریا کا راستہ کاٹ کر اس پر سکیمیں بناتی ہے، یہی کمپنی سنو ٹی وی کے نام سے چینل بھی چلارہی ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جعلی ڈگری سکینڈل میں ملوث کمپنی مالکان نے بعد میں بول ٹی وی چینل کھولا تھا۔ اسی بلیو ورلڈ کمپنی نے گزشتہ سال پی آئی اے کی خریداری کے لیے فقط دس ارب بولی لگائی۔ صرف یہی نہیں بلکہ صحافی اشرف ملخم کے مطابق بلیو ورلڈ سٹی کے ذمہ داران نے نجکاری سیکرٹری سے سوال کیا کہ اگر ہم پی آئی اے کی بولی جیت جائیں تو کیا دس ارب روپے کی مد میں اپنی سوسائٹی کے پلاٹ ایڈجسٹ کروا سکیں گے؟ یعنی ان کا ارادہ دس ارب دینے کا بھی نہیں تھا بلکہ قبضے کے پلاٹ حوالے کرنے کا تھا۔ اسی کمپنی نے ارطغرل کو پاکستان بلانے کا معاہدہ بھی کیا۔ بلیو ورلڈ سٹی کے مالک چوہدری سعد نذیر نے گولڈ میڈل حاصل کرنے والے ایتھلیٹ ارشد ندیم کو ساتھ کھڑا کر کے انہیں اپنی سوسائٹی بلیو ورلڈ سٹی کا برینڈ ایمبسڈر بنایا اور لیجنڈ ایونیو میں پلاٹ دینے کا اعلان کیا لیکن اپنی تشہیر کروانے کے بعد انعامات دینے سے مکر گیا۔ پھر اقصی میوزیم کا افتتاح کرکے اسے بھی کیش کروانے کی کوشش کی۔ اس کا ڈائریکٹر چوہدری نعیم اعجاز مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا ممبر بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ پاکستان میں صہیونی مشروبات کے بائیکاٹ کے وقت جب نیکسٹ کولا مارکیٹ میں جگہ بنارہی تھی تو نیکسٹ کولا کے مالک کو اغوا کیا گیا تاکہ اس سے فارمولا حاصل کیا جاسکے ۔ بعد میں اسی گروپ کی جانب سے خلافت کولا لانچ کی گئی۔ لیکن اس مذہبی اصطلاح کے اس طرح تجارتی مقاصد کے استعمال کو لوگوں نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ البتہ اس الزام کی تصدیق نہ ہوسکی کہ نیکسٹ کولا کے مالک کے اغوا اور پھر رہائی کے پیچھے یہی عوامل تھے ۔ سکیورٹی اداروں نے بھی اس بابت معلومات دینے سے گریز کیا جس نے صورتحال کو مزید مشکوک بنا دیا۔ جب عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا عہدہ ملا تو بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے اخبارات میں عاصم منیر کے لیے بڑے اشتہارات شائع کیے گئے۔ یہ خوشامدی اشتہارات عموماً مراعات حاصل کرنے کی ایک تکنیک ہوتے ہیں۔
فوج کی تجارتی دفاعی کمپنیوں کے لیے سہولت کاری پر مبنی امپورٹ پالیسی میں ترامیم |
وزارت تجارت نے امپورٹ پالیسی آرڈر 2022ء میں ترمیم کرتے ہوئے ریاستی دفاعی اداروں اور ان کی ملکیتی کمرشل ذیلی کمپنیوں کو دفاعی نوعیت کی گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور ان کے پرزہ جات کی درآمد اور بعد ازاں برآمد کی اجازت دے دی ہے۔ جون 2025ء میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کی سفارش پر وزارت تجارت کی اس تجویز کی منظوری دی تھی۔
ایس آئی ایف سی نے وزارت تجارت سے درخواست کی تھی کہ امپورٹ پالیسی آرڈر 2022ء میں ترمیم کی جائے تاکہ ریاستی دفاعی اداروں اور ان کی ملکیتی کمرشل ذیلی کمپنیوں کو دفاعی نوعیت کی گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور اسمبلیز کی درآمد اور بعد ازاں برآمد کی اجازت دی جا سکے۔ اس ضمن میں ایس آئی ایف سی میں دو کمپنیوں، ایرو سلوشنز اور مارگلہ ہیوی انڈسٹریز لمیٹڈ، کی درخواست پر اجلاس منعقد ہوئے جن میں وزارت دفاع، وزارت دفاعی پیداوار، وزارت صنعت و پیداوار، ایف بی آر اور وزارت تجارت کے نمائندگان نے شرکت کی اور اس تجویز کی حمایت کی تاکہ دفاعی برآمدات کے امکانات کو فروغ دیا جا سکے۔
پاکستان میں فوج کے قائم کردہ تجارتی اداروں کو جو مراعات حاصل ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن جو تجارتی ادارے دفاع سے منسلک ہیں ان کے متعلق کسی سوال اور احتساب کا تو امکان ہی نہیں ہے کہ ایسا کرنا آپ کو غداروں کی فہرست میں لا کھڑا کرے گا۔ فوجی افسران دفاعی ساز و سامان کی خرید و فروخت میں کتنے بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں اور یہ کرپشن سامنے آنے پر بھی عدالتیں کس قسم کا احتساب کرپاتی ہیں اسے سمجھنے کے لیے آگستا سکینڈل کی تفصیلات پڑھ لیجئے ۔
ایڈمرل منصور الحق 1994ء سے 1997ء تک نیول چیف رہے۔ ان پر فرانس سے خریدی جانے والی آگستا آبدوز میں کمیشن لینے کا الزام لگا۔ 1997ء میں نوکری سے برخاست ہوئے ۔ان کے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں 1998ء میں امریکہ فرار ہو گئے۔ ان کے خلاف مقدمات نیب میں منتقل ہو گئے امریکہ میں اس دوران اینٹی کرپشن قوانین پاس ہو گئے جس کی زد میں موصوف بھی آئے اور گرفتار ہوئے۔ امریکہ کی جیل میں عام قیدیوں جیسا سلوک دیکھ کر انہوں نے امریکی حکومت کو لکھ کر دے دیا کہ ’’مجھے پاکستان کے حوالے کر دیا جائے، میں اپنے ملک میں مقدمات کا سامنا کروں گا۔‘‘ امریکی جج نے یہ درخواست منظور کر لی۔ کالم نگار جاوید چوہدری لکھتے ہیں :
’’منصور الحق کو ہتھکڑی لگا کر جہاز میں سوار کر دیا گیا، سفر کے دوران ان کے ہاتھ سیٹ سے بندھے ہوئے تھے مگر یہ جہاز جوں ہی پاکستانی حدود میں داخل ہوا، منصور الحق کے ہاتھ کھول دیے گئے، انھیں وی آئی پی لائونج کے ذریعے ائیر پورٹ سے باہر لایا گیا، نیوی کی شاندار گاڑی میں بٹھایا گیا، پولیس، ایف آئی اے اور نیب کے افسروں نے انہیں سیلوٹ کیا، یہ سہالہ لائے گئے، سہالہ کے ریسٹ ہاؤس کو سب جیل قرار دیا گیا اور منصور الحق کو اس ’جیل‘ میں ’قید‘ کر دیا گیا۔ منصور الحق کی ’جیل‘ میں اے سی کی سہولت بھی تھی، انہیں خانساماں بھی دیا گیا۔ بیگم صاحبہ اور دوسرے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت بھی تھی اورمنصور الحق لان میں چہل قدمی بھی کر سکتے تھے۔ یہ نیب اور ایف آئی اے کے دفتر نہیں جاتے تھے۔ تفتیشی ٹیم ان سے تفتیش کے لیے ریسٹ ہاؤس آتی تھی۔ یہ عدالت بھی تشریف نہیں لے جاتے تھے، عدالت چل کر ان کے ریسٹ ہاؤس آتی تھی اور ان کے وکیل کی صفائی سنتی تھی۔ منصور الحق نے کرپشن کی دولت کا 25فیصد سرکار کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا، صدر مشرف نے ان کی ’پلی بارگیننگ‘ منظور کر لی اور یوں منصور الحق کو75 فیصد کرپشن کے ساتھ رہا کر دیا گیا۔ موصوف کی خود اعتمادی دیکھیے کہ 2013ء میں پنشن اور دیگر مراعات کی بحالی کے لیے حکومت پاکستان کے نام مقدمہ بھی دائر کیا۔
رینجرز کے ونگ کمانڈر کے گارڈ کا کراچی یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر پر تشدد |
جولائی 2025ء میں جامعہ کراچی کیمپس اسٹاف ٹاؤن میں مقیم جامعہ کراچی کے سینئر پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے سامنے والے مکان میں ناجائز طور پر رینجرز نے قبضہ کیا ہوا ہے وہاں آج کل جامعہ کراچی میں تعینات ونگ کمانڈر مقیم ہیں انہوں نے اپنے عملے کو ہدایت کی ہے کہ کیونکہ ان کی بکریوں کو مچھر کاٹتے ہیں لہذا اس سے بچاؤ کے لیے روانہ کچرا جلایا جائے تاکہ دھویں سے مچھر بھاگ جائیں۔ سامنے مکان میں مقیم پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی نماز مغرب کے بعد گھر آئے تو دیکھا کہ آج پھر کچرا جلایا جارہا ہے انہوں نے وہاں موجود گارڈ کو کہا کہ بھائی اس کو نہ جلاؤ میں کل بھی اس دھویں کی وجہ سے نہیں سو سکا کیونکہ دھواں کمرے میں بھر جاتا ہے اور سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ گارڈ جوکہ رینجرز اہلکار تھا، اس نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو ان سے بد تمیزی کی اور منہ پر زور دار تھپڑ رسید کردیا جس سے پروفیسر آفاق صدیقی کا چشمہ ٹوٹ گیا ان کی آنکھ میں خون بھی جم گیا۔ ان کو دیکھ کر اہل محلہ جمع ہوئے اور بات یونیورسٹی انتظامیہ تک چلی گئی۔ ونگ کمانڈر آئے اور انہوں نے پروفیسر آفاق پر رینجرز اہلکار کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا الزام عائد کردیا۔ ونگ کمانڈر کے گارڈ نے جو کچھ کیا وہ نہ ہی پہلا واقعہ تھا اور نہ ہی انوکھا۔ آرمڈ فورسز کے اہلکار جب موٹر وے، ٹریفک اور شہری پولیس کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اور انہیں بارہا تشدد کا نشانہ بنا چکے ہیں تو ایسے میں کسی استاد ، کسی ڈاکٹر ، یا کسی بھی عام سویلین کی کیا اوقات کہ وہ ان کے شر سے بچ سکے۔ کراچی میں رینجرز کی آمد تین دہائی قبل امن و امان کی بحالی کے لیے عارضی بنیادوں پر ہوئی تھی اور ہر سال حکومت سندھ ان کی مدت میں اضافہ کرتی رہی ہے، تاہم رینجرز نے شہر میں اپنے قیام کے مستقل ٹھکانے بھی بنائے ہیں۔ کراچی میں رینجرز کو پولیس اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت خصوصی اختیارات حاصل ہیں، جن میں بغیر وارنٹ چھاپے اور گرفتاریوں کے علاوہ مشکوک افراد کو 90 دن تک حراست میں رکھنے کے اختیارات بھی شامل ہیں۔ ان اختیارات میں وقتاً فوقتاً وفاقی حکومت کی جانب سے توسیع کی جاتی ہے۔ پولیس کے ساتھ رینجرز کے اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود جرائم میں غیرمعمولی اضافہ و تسلسل یہ ظاہر کرتا ہے کہ فورسز کا فوکس جرائم پیشہ عناصر کی بجائے کچھ اور ہی رہتا ہے اور جن کی حفاظت کے نام پر ان کو تعینات کیا گیا ہوتا ہے ان عام شہریوں کو یہ آئے روز ذلیل کرتے ہیں اور ظلم کا نشانہ بناتے ہیں۔
٭٭٭٭٭