سلطان ٹیپو کی وصیت

تشریح و ترجمانی: محمد عفّان عثمان جے پوری

سلطان فتح علی ٹیپو رحمۃ اللہ علیہ نے عین شہادت سے پہلے ایک ایسا جملہ کہا جو شہرۂ آفاق ہوا، اس نے کہا ’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘۔ اقبالؒ اپنی اس نظم میں دراصل سلطان شہیدؒ کی اسی وصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔

سلطان ٹیپو شیروں سے بڑھ کر بہادر تھا، اس نے کافر انگریزوں کی غلامی پر لڑتے ہوئے شہادت کی موت کو ترجیح دی۔ سلطان نے اپنی زندگی اور موت سے یہ پیغام دیا کہ راہِ عشق کے مسافر تو کبھی رکا نہیں کرتے، وہ تو عقبہ بن نافع کی مانند اپنے گھوڑے کو سمندر میں ڈال دیتے ہیں، ان کے سامنے کوئی کنارا کوئی دنیوی منزل، ’منزل‘ نہیں ہوا کرتی۔ عاشق کو اگر اس کی محبوبہ ’لیلیٰ‘ بھی اپنے کجاوے میں آکر ہم نشینی و تسکینِ وصل کی دعوت دے، تو حقیقی عشق کا مسافر اس دعوت کو قبول نہیں کیا کرتا۔ اگر سچا عاشق لیلیٰ جیسی کی ہم نشینی کو ٹھکرا سکتا ہے تو دنیا کے تخت و تاج، اموال و سواریاں تو بالکل ہیچ ہیں۔

اے مردِ مسلماں! مانا کہ تُو ابھی کمزور ہے، لیکن اپنے مالک پر بھروسہ کر۔ مانا کہ تُو ایک پر سکون ندی ہے، لیکن ندیاں تو جغرافیہ و تاریخ رقم نہیں کیا کرتیں۔ تُو اس پر سکون زندگی کو لات مار، آگے بڑھ اور دریائے تند و تیز کی مانند چٹانوں اور پہاڑوں سے ٹکرا، ان کو ریزہ ریزہ کر اور دنیا کا نقشہ بدل دے۔ تُو اس طوفانی دریا کی مانند ہو جا، کہ جب اسے ساحل میسر ہو تو وہ ساحل کا سینہ چاک کر کے آگے بڑھے اور سمندر سے مل جائے۔

اے مجاہدِ عشق، اے عارفِ حق! اس دنیائے آب و خاک میں غرق نہ ہو جائیو۔ اس دنیا کی لیلاؤں اور شہر بانوؤں کے عشق میں مبتلا ہو کر اپنے مقصدِ حقیقی سے غافل نہ ہو جائیو۔ یہ زندگی تو چند روزہ ہے، مکڑی کا جالا ہے، مچھر کا پر!

جب خاک و گِل سے آدم کی پیدائش ہوئی تو آدم کو یہ بات القا کر دی گئی کہ ’عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ‘،عقل بے شک بوصلۂ سود و زیاں ہے، لیکن عشق کا قبلہ نما، دل ہے۔ اپنے دل کو عقل کی غلامی سے آزاد رکھیو۔ اہلِ عقل کو دنیا کہاں جانتی ہے، دنیا میں چرچے تو اہلِ دل کے ہوتے ہیں۔ بقول سلطان باہو، عشق و دل انسان کو جن منازل پر پہنچاتے ہیں، عقل اس کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہے۔

یہ تو باطل کی خصلت ہے کہ اس میں شرک کی آمیزش ہے، حق اور الحق کا پیغام، اس کا دین، یہ سب تو توحید کے داعی ہیں، ایک مالک سے ہونے اور اس کے غیر سے کچھ نہ ہونے کے قائل، حقیقی داتا ہے تو وہی، سچا مشکل کشا ہے تو وہی! اب تیری یہ ناقص عقل تجھے لاکھ سمجھائے، لیکن اے مردِ مجاہد، اے عاشقِ با صفا! عقل کے دامِ فریب میں نہ آئیو، دنیا کے نئے نئے نظاموں میں ضم ہو کر اپنی جان و اقتدار بچانے کی فکر نہ کریو۔ خدا کی حاکمیت میں کسی کو شریک نہ کریو، جب دنیا کے پادشاہ تجھے حکمرانی کی پیش کش کریں اور تجھ سے بس ذرا سی مداہنت کا مطالبہ کریں تو یاد رکھیو:

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version