حوا، ہالہ اور حریم

اس نے اپنی آنکھیں زور سے میچ کر دوبارہ کھولیں۔ تاریکی میں مسلسل ایک ہی آواز آ رہی تھی۔ کھانسنے کی……پہلے وقفے وقفے سے……اور پھر مستقل زور پکڑتی کھانسی ۔ وہ چوپٹ کھلی آنکھوں کے ساتھ بے حس و حرکت لیٹی رہی…… کھانسی کا زور کچھ کم ہوتا……اور اسے لگتا کہ شاید اب کھانسی کا دورہ ختم ہوا ہی چاہتا ہے، کہ وہ یکدم پھر زور پکڑ لیتا۔ جیسے حلق میں کوئی ذرّہ اٹک گیا ہو، اور کھانس کھانس کر ادھ موا ہو جانے کے باوجود نکلتا نہ ہو۔ وہ کھانسنے والے وجود کو دیکھنے کے لیے پلٹی نہ تھی، مگر اس کے باوجود وہ جانتی تھی کہ تکلیف کی شدت سے اس کا ننھا سا چہرہ سرخ ہو گیا ہو گا،اور اس کی بڑی بڑی سرمئی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اس کے گال بھگو رہے ہوں گے۔ اب کھانسنے کے ساتھ ساتھ حلق سے پھنسی پھنسی سسکیاں بھی نکل رہی تھیں۔ شاید درد ناقابلِ برداشت ہو رہا تھا، گھٹی گھٹی تکلیف دہ اور حلق رگڑتی سانسیں اندر کھینچے جانے کی آواز بہت بلند محسوس ہو رہی تھی۔ وہ سونا چاہتی تھی، مگر سو نہیں پا رہی تھی۔

سونے کی کوشش میں اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔کاش کہ حریم کی کھانسی رک جائے۔ کاش کہ وہ آرام سے پر سکون نیند سو جائے۔ اپنی جگہ خاموش و ساکت لیٹے لیٹے اس نے دل کی گہرائیوں سے دعا مانگی ۔ شاید قبولیت کا لمحہ تھا، چند ثانیے مزید کھانسنے کے بعد رفتہ رفتہ مدھم ہوتے ہوتے حریم کی کھانسی تھم گئی۔ اب بس ایک ہی ہلکی سی آواز رہ گئی تھی، امّاں کے ہاتھ کی، جو نرمی سے حریم کو تھپک تھپک کر سُلا رہا تھا۔ کچھ دیر مزید گزری اور آہستہ آہستہ امّاں کے ہاتھ کی حرکت بھی رک گئی ، شاید بالآخر وہ بھی سو گئی تھیں۔ اس نے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہ کی۔ اپنی جگہ لیٹے لیٹے اس نے احتیاط سے اپنے سینے سے جڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کیں اور اپنے جوڑ جوڑ میں بیٹھے تھکاوٹ بھرے درد کو نکالنے کے لیے خوب زور سے پھیلائیں۔

طرق……قڑق…… اس کے چٹختے ہوئے جوڑوں سے احتجاجی صدائیں بلند ہوئیں، اور اس کی لمبی ٹانگیں اس ننھے سے بے بی بلینکٹ سے باہر نکل گئیں جس میں اس نے نہایت احتیاط سے اپنے سکڑے سمٹے وجود کو لپیٹ رکھا تھا۔ مگر ٹانگیں لمبی کرنےسے جو راحت اس کے جسم کو ملی، تو ایک ننھی سی اطمینان بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر بکھر گئی ۔ وہ یونہی لیٹے رہنا چاہتی تھی۔ ترپال کے ٹھنڈے فرش پر وہ یوں پھیل کر لیٹی تھی جیسے پھولوں کی کوئی مسند ہو۔ مگرٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا آیا اور خیمے کا وہ پلّو جو کبھی زِپ کے ذریعے بند کیا جا تا تھا، اور اب مختلف قسم کے رنگا رنگ کپڑوں سے کئی بار مرمت کیا جا چکا تھا، اس ٹھنڈے جھونکے کو اندر داخل ہونے سے روکنے کی اپنی کوشش میں ناکام ہوتے ہوئے پھڑ پھڑا کر رہ گیا۔

سرد ہوا کے اس جھونکے نے اچانک ہی پورے خیمے کا درجۂ حرارت گھٹا دیا تھا۔ دو یخ ہاتھوں نے گویا اس کے پاؤں اپنی گرفت میں لے لیے تھے، اور آدھی پنڈلیوں تک وہ ان بے شمار، لا تعداد ننھی ننھی باریک سوئیوں کی چبھن محسوس کر سکتی تھی، جو اس کے پیروں میں سے زندگی کی رمق چوس رہی تھیں۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر حریم نے شاید کروٹ بدلی، یا ٹھنڈی ہوا کسی کونے کھدرے سے ہوتے ہوئے اس کے کمبل میں گھس گئی تھی اور اس سے بغل گیر ہو گئی تھی۔ حریم کھانسی، وہی حلق کو چھیلتی ہوئی ، سینے کی دیواریں کوٹتی ہوئی کھانسی۔ امّاں اپنی جگہ سے ہلی تھیں، انہوں نے اپنا بازو یوں حریم کے اوپر رکھا گویا سردی سمیت ہر آفت سے اسے محفوظ کر لیں گی۔امّاں کو جاگتا دیکھ کر حوا تیزی سے دوبارہ اپنے خول نما کمبل میں دبک گئی تھی۔کیسی سردی تھی کہ جانے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ اپریل کا وسط آ گیا تھامگربرف پوش چوٹیوں پر منڈلاتے گہرے گہرے بادل پوری وادی پر ٹھنڈ کی ایک چادر تانے ہوئے تھے۔

اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ رات بھر کچھ زیادہ دیر نہیں سوئی تھی، کسی وقت ذ رادیر کے لیے نیند مہربان ہو گئی تو ہو گئی، ورنہ ٹھنڈے فرش پر کروٹیں بدلتے، اپنے اوپر اوڑھے مہین سے کمبل میں سکڑی سمٹی ٹانگیں سینے سے جوڑے ، وہ سردی سے مسلسل بر سرِ جنگ رہی تھی۔ اسے اپنے پیچھے امّاں کے حرکت کرنے کی آواز آئی، وہ احتیاط سے حریم کے اوپر کمبل ڈالتےہوئے اٹھ رہی تھیں۔ اس کے پاس سے گزرتے ہوئے انہوں نے ذرا سا کمبل کھینچ کر اس کے پاوؤں پر ڈالا، جو ایک بار پھر باہر جھانک رہے تھے۔وہ آنکھیں بند کیے سوتی بنی رہی۔ امّاں کونے میں رکھا کوزہ اٹھا کر خیمے سے باہر نکل گئیں تو اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں۔ شکر ہے……اس نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ امّاں جاگ گئی تھیں،یعنی مزید سوتے رہنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ان سے پہلے اٹھ کر بیٹھ جاتی تو وہ سوچتیں کہ وہ رات بھر سو نہیں پائی۔ اپنی چھوٹی سی اوڑھنی سر اور کندھوں کے گرد لپیٹتے ہوئے وہ بے آواز اٹھ کر بیٹھ گئی۔

وہ کونے میں رکھی بوری ٹٹول کر خشک گھاس نکال رہی تھیں۔ ’لکڑی بالکل ختم ہو گئی ہے……‘، امّاں نے مڑ کر اس کی طرف دیکھے بغیر آہستہ سے کہا۔ لکڑی سے ان کی مراد وہ ننھی ٹہنیاں اور جھاڑیاں تھیں جو وہ اور ہالہ سردیوں سے پہلے اکٹھی کرتی رہی تھیں۔ ورنہ حکومت اور خیراتی تنظیموں کی جانب سے ملنے والی وہ تھوڑی سی لکڑی، جسے انہوں نے بخیلی کی حد کو چھوتی ہوئی کفایت شعاری سے استعمال کیا تھا، وہ تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔ ’آج حمودۃ کی طرف جاؤں گی……‘، اس کی ہلکی سی بڑبڑاہٹ کے جواب میں امّاں نے سر ہلایا ’……پھر جلدی جانا، کیونکہ واپس آتے آتے بہت دیر ہو جاتی ہے……‘۔ وہ سر ہلاتے ہوئے امّاں کے پاس ہی بیٹھ گئی جو ٹین کی بخاری میں چند لفافوں اور کاغذوں پر مشتمل کچرے کے ساتھ اب خشک گھاس بھر رہی تھیں۔ وہ دونوں جانتی تھیں کہ اس حقیر سے ایندھن سے بخاری نہیں جلے گی، ہاں شاید ہلکی سی تپش پیدا ہو جائے۔ ہلکی سی تپش……اور بہت سارا دھواں، جس کے نتیجے میں پھر امّاں کی کھانسی شروع ہو جاتی اور دیر تک وہ کمر پکڑے کھانستی رہتیں۔ روز کی طرح اس کا دل چاہا کہ امّاں کو بخاری جلانے کی کوشش سے روک دے۔ مگروہ یہ بھی جانتی تھی کہ امّاں کیا کہیں گی۔ حریم بیمار ہے، حریم کو گرم رکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ حریم کے لیے دوا نہیں خرید سکتے تھے، وہ اسے اچھی خوراک بھی نہ دے سکتے تھے۔ وہ اسے سردی سے بھی نہ بچا سکتے تھے، مگر بخاری جلانے کی اپنی سی کوشش دل کو یہ تسلّی تو دیتی تھی کہ وہ کم از کم اسے گرم رکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں۔

امّاں نے چند ٹہنیوں کو آگ پکڑتے دیکھ کر بخاری کا ڈھکن بند کر دیا، اور پاس رکھی پانی کی کیتلی اس کے اوپر رکھ دی ۔ وہ چند لمحے پنجوں کے بل بیٹھی بخاری کو گھورتی رہی، پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی نظر کونے میں امّاں کے بستر کے ساتھ لیٹی ہالہ پر پڑی۔ امّاں نے اٹھتے ہوئے حریم کو اس کے ساتھ لٹا کر اپنا کمبل بھی ان دونوں پر ڈال دیا تھا، وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی اس وقت پر سکون نیند سو رہی تھیں۔ہالہ اس سے محض سال بھر ہی چھوٹی تھی ، مگر اس کے باوجود وہ رات کو امّاں کی بغل میں گھس کر سوتی تھی۔ آج انہیں حمودۃ جانا تھا، پتہ نہیں ہالہ جانے پر تیار ہو گی یا نہیں……وہ سوچ رہی تھی۔ چند دن پہلے وہ لکڑیاں چننے گئیں تو ہالہ ایک جگہ پھسل کر گر گئی تھی۔ اس کے گھٹنے چھِل گئے تھے اور پنڈلی پر بھی چوٹ لگی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی چوٹ کا درد ابھی تک ختم نہیں ہوا ……مگر حمودۃ جانا بھی ضروری تھا، قریب کی سب پہاڑیوں میں جلانے کے قابل لکڑی کا نام و نشان نہ رہا تھا۔ آٹھ ماہ پر محیط سردی میں اس چھوٹی سی خیمہ بستی کے لوگوں نے قرب و جوار میں موجود ہر حرارت پیدا کرنے والی چیز پھونک ڈالی تھی۔ حمودۃ دور تھا…… اس جیسی گیارہ سال کی بچی کے لیے تو بہت ہی دور تھا،مگر وہاں لکڑی ملنے کی امید تھی۔ کیونکہ القطیعۃ الحمودۃ جس پہاڑ کے دامن میں تھا اس کی چوٹی پر فوج کا مورچہ تھا۔ لوگ وہاں جانے سے کتراتے تھے لہٰذا امید کی جا سکتی تھی کہ القطیع میں اب بھی کچھ جھاڑیاں یا بوٹیا ں مل جائیں گی جو چند دن ان کے خیمے کو گرم کرنے کے کام آ سکیں۔

’حوا!……کچھ کھا لو……!‘، امّاں کی آواز نے اسے اس کی سوچوں سے نکالا۔ وہ اپنے سامنے دسترخوان پھیلائے، ٹھنڈی اور سخت روٹی کے ٹکڑے توڑ رہی تھیں۔’……یا آج روزہ مت رکھو……‘، ان کے لہجے میں ہلکی سی امید جھلکی۔ مگر حوا کے سختی سے نفی میں ہلتے سر کو دیکھ کر وہیں دم توڑ گئی۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے انہوں نے اسے قریب آ کر بیٹھنے کااشارہ کیا ۔ ’ہالہ……!!‘، امّاں کےقریب بیٹھتے ہوئے اس نے ہلکے سے ہالہ کو پکارا۔

’اونہوں!!… …مت جگاؤ اسے……‘،امّاں نے اسے خفگی سے گھورا۔

’’……امّاں ……وہ ناراض ہو گی……‘‘، اس نے منّت بھرے انداز میں کہا۔

’’ابھی نہیں حوا……وہ پہلے ہی بہت کمزور ہے، ……ابھی اسے روزہ نہیں رکھنا چاہیے……‘‘۔

امّاں نے اس کے سامنے شوربے کا کٹورا سِرکایا۔ اس نے امّاں سے یہ نہیں کہا کہ آپ بھی کھائیں۔ کہنے کا فائدہ ہی نہ تھا، وہ جانتی تھی وہ نہیں کھائیں گی۔ وہ روٹی میں سے نرم حصّے توڑ توڑ کر اس کے سامنے رکھ رہی تھیں، اور وہ ایک دو نوالے جو انہوں نے اپنے منہ میں رکھے تھے، وہی ان کی سحری تھی۔ بچی ہوئی روٹی دوبارہ اسی طرح سنبھال کر دسترخوان میں لپیٹ دیں گی، تاکہ جب ہالہ اور حریم اٹھیں تو ان کو کھانے کے لیے مل جائے۔ امّاں کب سیر ہو کر کھاتی تھیں…… اس کو سوچنے کی ضرورت نہ تھی۔ آخری دفعہ اس نے کب امّاں کو اچھی طرح کھاتے دیکھا، وہ تب تھا جب بابا ایک روز چند خرگوش شکار کر کے لائے تھے۔

حریم نے کھانسنا شروع کر دیا۔ امّاں اسے اچھی طرح کھانے کی ہدایت کرتے ہوئے اٹھ گئیں۔ حریم کو گود میں لے کر وہ نرمی سے اس کا سینہ سہلا رہی تھیں کہ کسی طرح اس کی کھانسی کو کچھ آرام آ جائے۔ مگر اس کی بگڑتی ہوئی کھانسی بتا رہی تھی کہ وہ ایک پورے دورے کی شکل اختیار کرنے والی ہے۔ امّاں نے جلدی سے سرہانے کے پا س رکھی دوا کی شیشی اٹھائی اور حریم کے منہ میں چند قطرے ٹپکا دیے۔

’’حوا…! دیکھوپانی گرم ہو گیا؟‘‘، حریم کا سینہ سہلاتے ہوئے انہوں نے اسے آواز دی۔

حوا منہ پونچھتے ہوئے اٹھی اور بخاری کے اوپر رکھی کیتلی کا ڈھکن اٹھا کر اندر جھانکا، اندر موجود پانی اگرچہ پوری طرح گرم تو نہیں تھا، پھر بھی اس سے تھوڑی سی بھاپ اٹھ رہی تھی۔ وہ احتیاط سے کیتلی اٹھا کر ماں کےپاس لے گئی۔ امّاں نے ایک دوسری شیشی سے تھوڑی سی دوا نکال کر حریم کے گلے اور سینے پر لگائی، اور پھر اسے کیتلی سے بھاپ دینے کی کوشش کرنے لگیں۔ حریم کی کھانسی سے ہالہ بھی جاگ گئی تھی، مگر اپنی جگہ خاموشی سے لیٹی رہی۔ حوا وہاں سے اٹھ گئی اور ایک موٹے کپڑے کا ٹکڑا بخاری کے ساتھ رکھ کر گرم کرنے لگی، کپڑا مناسب گرم ہو گیا تو وہ اسے تہہ لگاتے ہوئے امّاں کے پاس لے گئی۔ حریم کی کھانسی مزید بگڑ گئی تھی۔ تکلیف کی شدت سے اس کی آواز بیٹھ گئی تھی اور آنکھوں کے لبالب بھرے کٹورے چھلک رہے تھے۔

’بس……بس میری جان!……‘، امّاں نے حوا کے ہاتھ سے کپڑا لے کر حریم کے سینے پر رکھا۔ کھانسی کی شدت سے لرزتے اس کے وجود کو محبت سے اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا۔ ’’……بس! سردیاں جا رہی ہیں……اور گرمیوں میں میری حریم بالکل ٹھیک ہو جائے گی……‘‘۔

حوا نے حریم کی طرف دیکھا۔ اس کے بیمار و لاغر چہرے پر آنکھوں کے سوا کچھ دِکھتا نہ تھا۔ بڑی بڑی خوفزدہ آنکھیں جو اس وقت تکلیف کے آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔امّاں نے اس کے بال بہت چھوٹے چھوٹے کاٹ دیے تھے، یہ کہتے ہوئے کہ بال اس کی ساری طاقت نچوڑ لیتے ہیں۔ وہ سانس بھی انتہائی احتیاط سے کھینچتی تھی، کہ کہیں کھانسی دوبارہ شروع نہ ہو جائے۔اس نے دونوں مٹھیوں میں امّاں کی قمیص دبوچ رکھی تھی اور اپنے چھوٹے چھوٹے بالوں کے ساتھ ، امّاں کی گود میں چھپی ہوئی وہ بالکل سہمی ہوئی کبوتری لگ رہی تھی۔

کیا گرمیاں آنے سے حریم ٹھیک ہو جائے گی؟ حوا کی نظر حریم کے ننھے سے چہرے سے ہوتے ہوئے اس کے کپڑوں پر ٹھہر گئی ۔اس نے پیلے رنگ کی ایک ڈھیلی سی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس پر بنی بڑی سی گاڑی کے رنگ دھل دھل کے اڑ چکے تھے۔ حریم ہمیشہ اپنے ناپ سے بڑے کپڑے پہنتی تھی، شاید اس لیے بھی وہ اور بھی زیادہ کمزور نظر آتی تھی۔ امّاں کہتی تھیں حریم کا مرض دور ہو جائے تو وہ موٹی بھی ہو جائے گی، اتنی کہ اپنے کپڑوں میں پھنسنا شروع ہو جائے۔ اور ……

’امّاں……!‘، ہالہ کی آواز پر حوا کی سوچ کی ڈوری ٹوٹی۔ ’امّاں عید میں کتنے دن رہ گئے؟……‘۔

’ہوں……؟پتہ نہیں……شاید دس……یا گیارہ!‘، امّاں نے بے دھیانی سے جواب دیا۔ حوا کے چہرے پر مسکراہٹ چمکی۔ ابھی رمضان شروع بھی نہ ہوا تھا جب سے ہالہ کو عید کا انتظار تھا۔ ہر روز وہ کوئی نئی بات سوچتی، پرانے منصوبے میں ردّو بدل کرتی اور عید کا دن کیسے گزارنا ہے، نئے خواب بُن بُن کر حوا کو سناتی، اور اس کے مشورے حاصل کرتی۔ اب بھی صبح ہوتے ہی اس کا انجن گرم ہونا شروع ہو گیا تھا، شاید رات کو خواب بھی عید ہی کے دیکھتی رہی تھی۔

’امّاں ……!عید پر میں اپنا پھولوں والا جوڑا پہنوں گی…… اور حوا وہ فیری والا فراک……اور حریم……امّاں! حریم کیا پہنے گی؟!……‘، ہالہ جو بڑے پُر جوش انداز میں اپنی عید کی پلاننگ بتا رہی تھی، ٹھٹک کر رکی۔ اس سوال پر حریم نے بھی امّاں کی گود سے سر نکالااور اپنی بڑی بڑی سرمئی آنکھوں میں فکر مندی لیے امّاں کی طرف دیکھنے لگی۔

’حریم کیا پہنے گی؟……حسّان کا ایک جوڑا رکھا ہے……جو اس نے بہت ہی کم پہنا تھا……‘، امّاں نے سوچتے ہوئے بولنا شروع کیا، مگر ان کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ حوا اور ہالہ دونوں کے شدید احتجاج پر انہیں خاموش ہونا پڑا۔

’نہیں امّاں……حریم حسّان کے کپڑے نہیں پہنے گی……‘

’……عید پر حریم لڑکیوں والے کپڑے پہنے گی……‘ ۔

’امّاں…!آیۃ کے بابا کہہ رہے تھے آج یا کل ’ایڈ‘ والے لوگ آئیں گے، عید کا سامان لے کر……‘ حوا نے کہنا شروع کیا، اس تذکرے پر ہالہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور حریم بھی دلچسپی سے دونوں بہنوں کے چہرے دیکھنے لگی ۔

’ان کے پاس تو سب کچھ ہوتا ہے……پیارے پیارے کپڑے، رنگین دوپٹے، چوڑیاں……پِنیں، پونیاں، بالوں میں لگانے کے لیے کلِپ……فوم والے جوتے……ہے ناں حوا؟……‘، بولتے بولتے ہالہ کی آنکھیں پھیل گئیں، جیسے وہ چشمِ تصور سے یہ سب دیکھ رہی ہو……

’ہاں……بلکہ ہار اور بُندے، اور جیولری اور……‘، حوا نے اضافہ کیا۔

’……اور کھلونے……‘، ان کا ننھا سا خیمہ یکدم چہکنے لگا تھا۔’ گڑیائیں……سنہری، بھورے اور کالے بالوں والی پیاری پیاری گڑیائیں……جن کے کانوں میں موتیوں کے بندے بھی ہوتے ہیں……اور جن کے اپنے پیارے پیارے چھوٹے چھوٹے گھر بھی ہوتے ہیں……‘، وہ مارے جوش کے اٹھ کھڑی ہوئی اور حوا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی۔

’ہاں……اور رِبن بھی ہوتے ہیں……سرخ، گلابی، جامنی……ہر رنگ میں……تمہیں یاد ہے، جیسے خیام عمّو لایا کرتے تھے، جب ہم حَلَب والے گھر میں رہتے تھے……‘حوا نے یاد دلایا۔

’ہاں……ہاں ……بالکل یاد ہے……نورۃ بھی تو ہوتی تھی ناں……پھر وہ ہم سب کے بالوں میں رِبن لگاتے تو حسّان رونے لگتا اور کہتا کہ مجھے بھی رِبن چاہیے……‘،

’’…تو عمّو اس کے ماتھے پر سرخ ربن باندھ دیتے تھے…‘، حوا نے اس کی بات مکمل کی، اس پرانی یاد نے دونوں بہنوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی تھی،’ …اور کہتے تھے کہ تم ننِجا ہو……اور پھر بابا سب کو عیدی دیتے تھے اور……‘، یادوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، اب یہ محفل تا دیر چلنی تھی۔ حریم اتنی دلچسپی سے دونوں بڑی بہنوں کی باتیں سن رہی تھی کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کب خاموشی سے امّاں اسے گود سے اتار کر اٹھ گئیں۔ یہ باتیں سنتے ہوئے اسے نہ کھانسی کا دورہ پڑتا تھا، نہ سینے میں تکلیف کا احساس ہوتا ۔ وہ ایسے ہمہ تن گوش ہو کر بہنوں کی باتیں سنتی جیسے وہ کسی اور دنیا کی باتیں کر رہی ہوں۔ اور اس کے لیے وہ کوئی اور ہی دنیا تھی۔ جہاں سے اس کی بہنیں آئی تھیں…… جہاں حسان رہا کرتا تھا……وہ حسان جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا، لیکن جس سے اس کی ہر بات جوڑی جاتی تھی۔ اس نے اپنی زندگی کے مختصر سے چار سال جس خیمہ بستی میں گزارے تھے، اس سے بہت مختلف…بہت حسین دنیا… …اتنی حسین……اتنی حسین……جیسے جنّت!

’ہاں مگر ……حسام عمّو کہتے تھے کہ حسان ننجا نہیں ہے!‘، ہالہ کو سب تفصیل یاد تھی۔’وہ کہتے تھے کہ حسان تو ابو دجانہؓ ہے……جو سب کافروں سے لڑے گا اور ہماری زمین آزاد کرائے گا اور پھر ہم سب واپس دادا والے بڑے گھر میں جا کر رہیں گے…… حوا! کیا تم نے دادا والا گھر دیکھا ہے؟……‘۔

’……نہیں دیکھا تو نہیں……یا اگر دیکھا ہے تو مجھے یاد نہیں کہ کیسا تھا……‘، حوا نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

’امّاں……! کیا آپ نے دادا والا گھر دیکھا ہے……؟‘، ہالہ نے اس بار امّاں سے رجوع کیا۔

’ہاں ……کیوں نہیں!……ہم وہیں رہا کرتے تھے جنگ سے پہلے ……‘۔

’……وہ کیسا تھا؟……‘، امّاں نے اپنا کام چھوڑ کر سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ حوا کا سنجیدہ و متین چہرہ، جس کی آنکھوں میں عموماً کوئی نہ کوئی فکر ہلکورے لیتی رہتی اور ہالہ کا تازہ گلاب کی طرح کھِلا ہوا چہرہ، جس کی ستارہ آنکھیں بچپنے کی ہزاروں تمناؤں اور خواہشوں سے چمکتی رہتی تھیں……اور ان دونوں کے ساتھ کمبل میں لپٹا ہوا حریم کا ننھا سا کمزور وجود……بیماری اور تکلیف نے جس کے چہرے کی تمامتر شادابی نچوڑ دی تھی……گہرے گہرے حلقوں میں دھنسی ہوئی سبز سرمئی سی آنکھیں……جن میں ایک مستقل تکلیف اور خوف کا تاثر رچ بس گیا تھا……مگر اس وقت یہ سب آنکھیں ایک سا اشتیاق لیے ان کی طرف دیکھ رہی تھیں……’ہمارا گھر کیسا تھا…؟‘۔

’……بہت اچھا……بہت پیارا ……اور بہت بڑا سا گھر تھا دادا ابّا کا……‘۔

______________________

سورج نکلتے ہی وہ دونوں اپنی خیمہ بستی سے نکل کر حمودۃ کی جانب چل پڑیں۔ ہالہ نے کندھوں پر کسی قبا کی طرح وہ بڑی سی نارنجی بوری اوڑھ رکھی تھی، جسے وہ لکڑیاں جمع کرنے کی خاطر اپنے ساتھ لائی تھیں۔ بوری کے دو کونوں کے ساتھ انہوں نے کھینچنے کے لیے ڈوری باندھ لی تھی، یوں لکڑیاں گھسیٹ کر لانا آسان ہو جاتا۔وہ ابھی پوری طرح بستی کی حدود سے نکلی بھی نہ تھیں، کہ اپنی پشت پر چمکتے سورج کی تپش نے انہیں اپنے چھوٹے چھوٹے دوپٹے ڈھیلے کرنے اور وہ ہلکے ہلکے سویٹر جو وہ گھر سے پہن کر نکلی تھیں، اتار کر کمر سے باندھنے پر مجبور کر دیا۔

’حوا……اتنی گرمی ہے! اور پھر بھی ہم لکڑیاں ڈھونڈنے جا رہے ہیں……میرا دل چاہتا ہے دن کی یہ ساری گرمی کسی بوتل میں جمع کر لوں، اور رات کو جب ٹھنڈ لگے تو بوتل سے نکال کر اپنے اوپر مَل لیا کروں……پھر لکڑیاں جلانے کی ضرورت ہی نہ رہے گی……‘، ہالہ اپنی گردن پر آیا پسینہ ہاتھ سے صاف کرتے ہوئے بولی۔

’مجھے مت بتاؤ کہ تمہارا کیا دل چاہتا ہے……تمہارا دل تو ہر وقت کچھ نہ کچھ چاہتا رہتا ہے…… تیز چلو……! ابھی وہاں پہنچ کر لکڑیاں جمع کرنی ہیں اور پھر جلدی واپس بھی آنا ہے‘، حوا جواباً خفگی سے بولی۔ اس نے اپنی رفتار بھی بڑھا دی۔ نکلنے سے پہلے امّاں نے اسے دوبارہ جلدی واپس آنے کی تاکید کی تھی۔ یوں تو اب دن کافی لمبے ہو گئے تھے اور بستی کے آس پاس مغرب تک، بلکہ اس کے بعد بھی کافی دیر تک لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا، مگر حوا جانتی تھی کہ جتنی دیر وہ اور ہالہ بستی سے باہر رہتے، امّاں کا دل انہی میں اٹکا رہتا۔

پہلے تو امّاں ہی لکڑیاں اکٹھی کر کے لایا کرتی تھیں، مگر پھر جب حسّان بیمار ہو گیا، اور امّاں کو اس کو ان کے پاس خیمے میں چھوڑ کر جانا پڑتا……اور اگر کبھی ان کی غیر موجودگی میں حسّان کو کھانسی کا دورہ پڑ جاتا تو……اس نے جلدی سے سر جھٹکا۔ وہ یہ باتیں بھول جانا چاہتی تھی مگر بھولنا اتنا آسان کب ہوتا ہے۔ وہ تو رات میں بھی حریم کی کھانسی کی آوازسن کر اٹھ جایا کرتی تھی، ہر لمحہ وہ اسی خوف میں مبتلا رہتی تھی کہ کہیں حریم کی کھانسی بگڑ نہ جائے……جیسے حسّان کی بگڑ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ کھانستے کھانستے بے دم سا ہو جاتا، اور پھر اس کے حلق سے کھانسی کے ساتھ خون آنے لگتا…… اس نے گھبرا کر اپنی آنکھیں زور سے بند کیں اور پھر کھولیں۔ ہالہ اسی طرح مست مگن سی اس کے ساتھ چل رہی تھی، اس کی سوچوں اور فکروں سے بے خبر……

’……حوا !……تمہیں پتہ ہے میں کیا سوچ رہی ہوں؟‘، اس نے اس کے جواب کا انتظار نہیں کیا، وہ کرتی بھی نہ تھی، اسے حوا کو اپنے خیالات میں شریک کرنے کی اتنی جلدی ہوتی تھی کہ رک کر یہ سوچنے کی زحمت کرنے کی فرصت ہی نہ ہوتی کہ حوا اس کے خیالات سننے میں دلچسپی رکھتی بھی ہے یا نہیں۔’……میں جب بڑی ہو جاؤں گی تو ضرور دادا کے گھر واپس جاؤں گی…… ہو سکتا ہے نورۃ اور خیام عمّو اور حسام عمّو سب وہیں چلے گئے ہوں…… ‘۔

’مجھے نہیں لگتا ہالہ……اگر وہ وہاں جاتے تو ہمیں بھی لے جاتے…‘، حوا نے حقیقت پسندی سے جواب دیا۔

وہ بستی کو شہر سے جوڑنے والی بڑی سڑک پر چڑھیں تو پیچھے سے آتی ایک سائیکل اپنی رفتار آہستہ کرتے ہوئے ان کے پاس آ کر رک گئی۔انہی کے برابر کی دو چوٹیوں والی ایک بچی سائیکل کے کیرئیر پر بیٹھی تھی۔’حوا……! ہالہ……! تم دونوں کہاں جا رہی ہو……؟‘،آیۃ نے انتہائی خوشی کے عالم میں ہاتھ ہلا کر ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے پوچھا۔وہ اور اس کے باباشاید شہر کی طرف جا رہے تھے۔

آیۃ کے بابا انہیں حمودۃ کے قریب چھوڑنا چاہتے تھے، مگر مسئلہ یہ تھا کہ ایک سائیکل پر وہ اتنے سارے افراد نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ حوا اور ہالہ نے خوشدلی سے ان کی یہ پیشکش سنی اور ردّ کی۔ وہ خود بآسانی چلی جائیں گی۔انہیں یوں بھی پیدل بھاگنے میں زیادہ مزہ آتاتھا۔ چند منٹ بعدآیۃ اور اس کے بابا اپنے راستے پر جا رہے تھے، مگر جانے سے پہلے آیۃ یہ یاددہانی کرانا نہ بھولی کہ آج ایڈ والے لوگوں نے آنا تھا، سو وہ دونوں بہنیں بھی جلد از جلد واپس بستی میں پہنچنے کی کوشش کریں۔

قطیعۃ الحمودۃ پہنچ کر وہ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر لکڑیاں چننے میں مصروف ہو گئیں۔ اگرچہ یہاں ایسے درختوں کی بہتات تھی جن کی پتلی پتلی خشک شاخیں جلانے کے لیے اچھی لکڑی فراہم کر سکتی تھیں۔ مگر یہ سب شاخیں یا تو ان کی پہنچ سے باہر تھیں یا ان کی قوّت سے۔ درختوں سے یہ پتلی پتلی شاخیں توڑنے کے لیے بھی کم از کم ایک مناسب آری اور طاقتور بازو درکار تھے۔ ان کے بس میں اگر کچھ تھا تو زمین پر پڑی خشک ٹہنیاں اور جھاڑ پھونس تھی۔ اور اس وقت وہ دونوں گھوم پھِر کر وہی اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ یا زمین سے اگنے والی وہ کانٹے دار جھاڑی جسے وہ اکھاڑ کر چند دن خشک ہونے کے لیے اپنے خیمے کے باہر پھیلا دیتی تھیں۔ خشک ہونے کے بعد یہ بُوٹی بہت اچھا ایندھن ثابت ہوتی تھی۔

چند گھنٹوں کی محنتِ شاقہ کے بعد وہ اتنی ٹہنیاں جمع کر چکی تھیں کہ جس سے چند دن بخاری جلتی رہتی۔ ابھی وقت تھااور وہ مزید بھی اکٹھی کر سکتی تھیں، مگر اب تک تو یقیناً بستی میں ایڈ والے لوگ پہنچ چکے ہوں گے۔ہالہ کی آنکھوں میں مچلتا عجلت کا پیغام وہ بخوبی پڑھ سکتی تھی۔ اور دل تو اس کا بھی اسی جانب کھِنچ رہا تھا۔

’حوا……اگر یہ لکڑی کم پڑ گئی تو عید سے پہلے ضرور دوبارہ یہاں آ کر اکٹھی کر لیں گے……‘ ، ہالہ نے اسے یقین دلایا۔

انہوں نے بوری کو ایک گٹھڑی کی صورت باندھا اور اس کے دو سِروں سے بندھی رسّی کی مدد سے اسے گھسیٹنے لگیں۔ یہ لکڑیاں جمع کرنے کا مشکل ترین مرحلہ ہوتا تھا۔ سارا دن بھاگ دوڑ کر کے لکڑیاں اکٹھی کرنا اتنا مشکل نہ ہوتا جتنا آخر میں جمع شدہ لکڑیوں کے ڈھیر کو گھسیٹ کر منزلِ مقصود تک پہنچانا۔ بعض اوقات بوری رگڑ کھا کر یا زمین پر کسی نوکیلی چیز کے ساتھ اٹک کر پھٹ جاتی تو اندر موجود بہت سی ٹہنیاں اور جھاڑ پھونس راستے میں ہی نکل نکل کر بکھرنے لگتیں۔ یہ کام توجہ اور احتیاط کے ساتھ ساتھ مہارت طلب بھی تھا۔

وہ بوری گھسیٹتے ہوئے آہستہ آہستہ پہاڑ سے نیچے اترنے لگیں، بڑی سڑک تک پہنچنے کا یہ راستہ اگرچہ سارا ہی ڈھلوان تھا، پھر بھی انہیں وہاں پہنچنے میں کم و بیش ایک گھنٹہ لگ گیا۔ایک بار سڑک پر چڑھ جانے کے بعد ان کا کام کافی حد تک آسان ہو گیا تھا۔ کیونکہ سڑک پر مستقل کانٹوں اور نوکیلی چیزوں سے بچ بچا کر چلنے کی ضرور ت نہ رہتی تھی۔ سیدھی سخت سڑک پر پہنچ کر دونوں ہی کے پاؤوں کو بھی قدرے آرام ملا۔ بالخصوص ہالہ کے، جس کی ربڑ کی چپلیں ہمیشہ ہی اس کے پنجوں اور ایڑیوں تلے سے گِھس جاتیں اور اکثر محض اس کےتلوے کے نیچے ہی برائے نام چپل کا ٹکڑا بچتا تھا۔ آج بھی اس کے پاؤں میں جگہ جگہ خراشیں پڑ گئی تھیں، مگر اس وقت اسے ان کی پروا نہ تھی۔ اسے کوئی پروا تھی تو ان ایڈ والے لوگوں کی، جو اب تک تو یقیناً بستی کے لوگوں میں عید کا سامان تقسیم کر رہے ہوں گے۔

ہالہ کے ذہن میں پوری فہرست تیار تھی، اسے عید کے لیے کیا کچھ چاہیے تھا۔ حریم کے لیے کپڑے، امّاں کے لیے کوئی چادر، گرم چادر ہو تو کیا ہی اچھا ہو، اپنے اور حوا کے لیے رنگا رنگ پونیاں، پِنیں اور چوڑیاں، اور ڈھیر سارے کھلونے……اور خیمے میں جلانے کے لیے تھوڑی سی لکڑی، اور شاید حریم کو ٹھیک کرنے والی کوئی دوا بھی ان کے پاس ہوتی، یا ہو سکتا ہے ان کے پاس کوئی دوسرا خیمہ ہو جو وہ انہیں دے سکیں، جیسے پہلے ایک دفعہ جب وہ اپنا حلب والا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تب اسی طرح بابا کسی خیراتی تنظیم کی جانب سے تقسیم ہونے والے خیموں میں سے ایک خیمہ لے کر آئے تھے، اور پھر وہی ان کا گھر بن گیا۔

وہ بستی سے چند منٹ کے فاصلے پر تھیں جب فضا میں انہیں ایک غیر معمولی شور کا احساس ہوا۔ وہ دونوں چلتے چلتے رک گئیں اور کسی پرانی عادت کی طرح سر اٹھا کر آسمان پر کچھ تلاشنے لگیں۔ انہیں زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا۔ ذرا ہی دیر میں وہ ننھے ننھے کالے نقطے جن کے انجنوں کی گڑگڑاہٹ ان کے آنے سے پہلےان کی آمد کا اعلان کر رہی تھی، نمایاں ہوتے ہوتے بڑے بڑے جنگی طیاروں میں تبدیل ہو گئے۔ حوا اور ہالہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، دونوں کے چہرے سپید پڑ گئے تھے۔ ان کے دل جس خوف اور اندیشے سے سہمے جا رہے تھے، اس کا عکس وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ سکتی تھیں۔

’ہالہ!……امریکی طیارے ہیں ……جلدی کرو، جلدی سے خیمے میں پہنچیں……‘، حوا نے سنگینی کا احساس کرتے ہوئےاپنے آپ پر قابو پایا اورتیزی سے بوری گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھی۔ اس کی دیکھا دیکھی ہالہ بھی پوری قوت سے بوری کھینچنے لگی۔

اپنے خیمے تک پہنچنے سے پہلے یہ مختصر سا فاصلہ انہوں نے برق رفتاری سے طے کیا تھا۔ وہ جتنا زور لگا سکتی تھیں، لگاتے ہوئے وہ تیزی سے بوری گھسیٹتے ہوئے اپنے خیمے کی طرف دوڑ رہی تھیں۔ جلدی میں ایک طرف سے بوری پھٹ گئی تھی اور اس میں سے ننھی ننھی ٹہنیاں نکل رہی تھیں، مگر انہیں پروا نہیں تھی۔ پروا تھی تو اپنے پیچھے آتے ان چار جنگی طیاروں کی جو تیزی سے ان کے سر پر پہنچ گئے تھے ۔

خیمہ ابھی دور تھا، کم از کم بھی آدھا کلو میٹر مزید……حوا اور ہالہ اپنی پوری قوت صرف کر رہی تھیں۔ وہ بھاگتے بھاگتے بار بار سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھتیں جس پر موجود وہ کالی کالی بلائیں اب بہت قریب آ گئی تھیں۔ شاید وہ گزر جائیں……ان کی بستی کو چھوڑ کر کہیں اور چلی جائیں ، یہ وہ دعا تھی جو الفاظ کا لبادہ اوڑھے بغیر دل سے نکل کر سیدھی عرشِ الٰہی پر دستک دے رہی تھی۔

دھماکے کی آواز سے یکایک زمین کانپ اٹھی تھی، یہ پہلا میزائل تھا جو آ کر لگا۔ ہالہ لڑکھڑائی اور گر پڑی، حوا نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھنے میں مدد کرائی۔ انہیں جلد از جلد اپنے خیمے تک پہنچنا تھا، حریم کے پاس……امّاں کے پاس۔

’حوا……خیمہ ابھی بہت دور ہے…‘، ہالہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکتے ہوئے بولی۔ اس کی آنکھیں خوف و ہراس اور پریشانی سے پھیل گئی تھیں، چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔

حوا نے پریشانی اور بےقراری سے چاروں طرف دیکھا۔ ذرا سے فاصلے پر ایک درخت تھا۔ ایک دبلا پتلا کمزور شاخوں والا درخت……اس نے تیزی سے اپنا ذہن بنایا،’ہالہ……! یہ بوری اس درخت کے ساتھ رکھ دیتے ہیں……جلدی کرو…! ‘۔

جتنی دیر میں انہوں نے اپنی بوری درخت کے ناتواں تنے کے ساتھ باندھنے کے بعد اپنے خیمے کی طرف دوڑ لگائی، بمبار طیارے دو مزید بم گرا چکے تھے۔ وہ خیمے کے سامنے پہنچیں تو دور ہی سے خیمے کاپلّا اٹھائے ، بے چینی سے ان کی راہ تکتی امّاں نظر آئیں۔ انہیں دیکھ کر امّاں باہر نکل آئیں، وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں اور تیز دوڑنے کا اشارہ کر رہی تھیں۔ حریم ان کے کپڑوں کا دامن پکڑے ان کی ٹانگ کے ساتھ چمٹی کھڑی تھی۔

اپنے سروں کے اوپر انہیں ایک ہلکی سی ’ٹک‘ کی آواز آئی۔ تجربے سے وہ جانتی تھیں کہ یہ میزائل چلنے کی آواز تھی۔یہ میزائل کہاں آ کر لگنا تھا، چند لمحوں میں یہ معلوم ہونے والا تھا۔ لحظے دو لحظے کو حوا رک گئی ۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔’حوا……جلدی کرو!‘، ہالہ اس سے چند قدم آگے تھی، اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بدقت اسے آواز دے رہی تھی۔’……بوم……!!!!!‘۔

میزائل کہیں قریب آ کر لگا تھا۔ دھواں……بارود……جلنے کی تیز بدبو ان کے نتھنوں سے آ کر ٹکرائی۔ فضا میں دھول اور دھواں پھیل گیا تھا جس کے پار کچھ بھی دیکھنا محال تھا۔

’……حوا……!‘، حوا کو ہالہ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے امّا ں اور حریم کے پکارنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ نجانے کیوں وہ رک گئی تھی، وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اب دھماکہ کہاں ہوا ہے، میزائل کہاں آ کر لگا ہے۔ ذرا دھول چھٹی تو اسے اپنے پیچھے کچھ فاصلے پر ہوا میں کچھ نارنجی سے رنگ کی چمک دکھائی دی۔ جیسے ہوا میں کچھ اڑ رہا ہو۔

’……حوا! جلدی کرو……! ادھر آؤ، ہماری طرف……‘، ہالہ چیخ رہی تھی، وہ امّاں اور حریم تک پہنچ گئی تھی۔

وہ کیوں رک گئی تھی، اسے خود بھی سمجھ نہ آ رہی تھی۔ اس کے سر کے اوپر موجود وہ کالی کالی امریکی بلائیں، جو کسی بھی وقت اسے بھی اسی طرح بھسم کر سکتی تھیں جیسے انہوں نے اس سے پہلے بہت سوں کو کیا، جیسے اس کے بابا کے ٹکڑے اڑائے…… جیسے اس کے خیام عمّو اور حسام عمّو کو جلا ڈالا…… مگر اس وقت اسے ان باتوں کی فکر نہ تھی۔ فکر تھی تو اس نارنجی سی لپک کی……وہ کیا تھی؟

گرد بیٹھنے لگی تھی۔ غبار چھٹا تو اس نے دیکھا۔ وہ ناتواں سا درخت جس کے ساتھ انہوں نے اپنی لکڑیوں کی بوری باندھی تھی، کسی ماچس کی تیلی کی طرح جل رہا تھا۔ اور اس کے ساتھ ان کا تمام تر جمع شدہ ایندھن بھی۔ وہ ساری قیمتی لکڑی جو ان کے خیمے کو گرم رکھنے کے کام آنا تھی……جو حریم کو گرمائش و حرارت دینے کا کام آنا تھی۔

انتہا درجے کی پریشانی کی ایک لہر تھی جو اس کے دل سے اٹھی۔ اور اس لہر کے بعد جو دوسرا جذبہ اس نے محسوس کیا وہ غیض و غضب تھا۔ شدید غصہ کی لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جیسے مفلوج ہو گئی تھی۔ اس نے قہر بھری نظریں اٹھا کر اپنے سر پر منڈلاتے بمبار طیاروں کی طرف دیکھا، اور تیزی سے باقی کا ایندھن بچانے کے لیے جلتے ہوئے درخت کی طرف بھاگی۔

اسے اپنے پیچھے اپنی امّاں اور بہنوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مگر وہ جانتی تھی کہ یہ ایندھن بچانا ضروری ہے۔ حریم کو گرم رکھنا ضروری تھا۔ اس کی کھانسی اسے تب ہی زیادہ پریشان کرتی تھی جب اسے ٹھنڈ لگتی۔ اور وہ جانتی تھی کہ کھانسی کتنی بے رحم ہو سکتی ہے۔ کیا اس نے حسان کو نہیں دیکھا تھا، یہ ذرا سی کھانسی ہی تو تھی جو حسان کو ان سے چھین کر لے گئی۔ وہ گویا اڑتی ہوئی درخت تک پہنچی۔ آگ کی حدّت اس قدر تھی کہ کئی قدم کے فاصلے سے بھی اسے اپنی جلد جلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ تیز کالا دھواں اس کی آنکھوں ، ناک اور منہ کے ذریعے اس کے پھیپھڑوں میں اتر رہا تھا، اسے اندر سے جلا رہا تھا۔ مگر اسے پروا نہیں تھی۔ پروا تھی تو اس نارنجی بوری کی، جس کے اندر جمع ایندھن اسے بچانا تھا، ہر قیمت پر……اسی حالت میں دوڑتے ہوئے ایک شدید چیخ جیسی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی…… وہ دھماکے کی تیز دہلا دینے والی آواز تھی، جس کے بعد اس نے مزید کچھ نہ سنا۔ دنیا اندھیرے میں ڈوب گئی تھی……

……اس کے ہر طرف اندھیرا تھا۔اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ اس کو اپنے جسم میں کہیں درد محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس کے باوجود ایک بہت گہرا سا احساس تھا درد کا۔ جیسے وہ یہیں کہیں چھپ کر بیٹھا تھا، اور منتظر تھا کہ وہ کوئی غلط حرکت کرے…… کوئی تیز جنبش، کسی عضو کی ایسی حرکت جو نہیں کرنی چاہیے………اور وہ گھات میں بیٹھا درد چنگھاڑتا ہوا نکل آئے اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ہر چیز بہت روشن، بہت اجلی اجلی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید اس کے ارد گرد روشنیاں بہت تیز تھیں۔ اس نے محض آنکھیں گھما کر ادھر اُدھر دیکھنے کی کوشش کی کہ گردن کو جنبش دینے کا حوصلہ نہیں تھا۔ اس کے جسم کے نیچے ایک بستر تھا۔ سفید چادر میں لپٹا گدّا…… اس کی ٹانگوں پر شاید کوئی کمبل بھی تھا۔ اگرچہ وہ اسے دیکھ نہیں سکتی تھی، لیکن ایک نرم گرم حرارت کا احساس اسے اپنے نچلے دھڑ پر محسوس ہو رہا تھا۔’’حوّا!……‘‘، کسی مہربان آواز پر اس نے آہستہ سے گردن موڑی۔ وہ نرس کے سفید یونیفارم میں ملبوس کوئی عورت تھی۔ سر پر رکھی ٹوپی پر بنا سرخ کراس……وہی اس کا تعارف تھا۔

’’……حوا! تم کیسا محسوس کر رہی ہو؟……تم بہت دنوں بعد جاگی ہو۔ تمہیں معلوم ہے تم کتنے دنوں سے آرام کر رہی ہو، اب اٹھ جاؤ، دیکھو……عید آ گئی ہے…… عید مبارک!‘‘، وہ عورت اپنائیت سے مسکراتے ہوئے اسے کہہ رہی تھی۔

’’عید……؟‘‘، حوّا کی آنکھوں میں فہم کی چمک ابھری، عید سے اسے کچھ یاد آیا تھا۔ عید آنے والی تھی، اور عید کے لیے اسے بہت کچھ چاہیے تھا۔ حریم کے لیے اچھے کپڑے، ہالہ نے چوڑیاں اور پِنیں لینا تھیں، جنگ سے متاثر لوگوں کی مدد کے لیے ’ایڈ‘ آنا تھی۔ اور اس ایڈ میں سے انہوں نے حریم کے لیے دوا بھی لینی تھی، اور اپنے خیمے میں جلانے کے لیے لکڑی، اور امّاں کے لیے ایک چادر……’’عید آ گئی ہے؟؟……‘‘، اس نے بدقت چند الفاظ جوڑے۔

عید میں اس کی دلچسپی دیکھ کر وہ عورت مسکرائی،’’ ہاں……تم بتاؤ! تمہیں عیدی میں کیا چاہیے؟‘‘۔

’’عید آ گئی ہے……!‘‘، حوّا کو کچھ غلط ہونے کا بالآخر احساس ہو گیا تھا۔ اس کے چہرے پر الجھن کا تاثر صاف واضح تھا۔’’……تو کیا……ایڈ والے لوگ نہیں آئے؟……چیزیں لے کر؟؟‘‘۔

’’…تمہیں کیا چیز چاہیے پیاری گڑیا؟……تم مجھے بتاؤ گی؟ ……میں تمہاری دوست ہوں……‘‘، اس عورت نے پیار سے اس کے بال سہلائے۔ اور یکایک……بالکل اچانک ……حوّا سمجھ گئی تھی، کیا تھا جو ٹھیک نہیں تھا۔

’’حریم…امّاں اور ہالہ کہاں ہیں؟……‘‘، ہلکی سی آواز میں کیے گئے اس سوال کے جواب میں اس مہربان نرس نے ایک بار پھر پیار سے اس کے بال سہلائے، اس کی مسکراہٹ چہرے سے مزید چپک سی گئی تھی، ’’……وہ بالکل ٹھیک ہیں، اور تمہارا انتظار کر رہی ہیں کہ تم کب اٹھو گی……‘‘، اس نے اسے یقین دلایا۔

’’حریم……حریم بھی ٹھیک ہے؟‘‘، حوّا نے بے یقین لہجے میں پوچھا۔

’’بالکل……اورجیسے ہی تم ٹھیک ہو جاؤ گی تو میں تمہیں ان کے پاس لے جاؤں گی، تاکہ تم خود دیکھ لو کہ وہ سب عید منا رہے ہیں اور بہت خوش ہیں…… ‘‘، وہ رکی، شاید اس کے بولنے کا ، کچھ کہنے کا انتظار کر رہی تھی۔ مگر حوا نے اور کچھ نہیں کہنا تھا۔ اس کے پاس اور کچھ کہنے کے لیے تھا ہی نہیں۔

’’……تم نے بتایا نہیں کہ عیدی میں کیا لو گی……؟‘‘، خاموشی کے مختصر سے وقفے کے بعد وہ عورت دوبارہ پوچھ رہی تھی۔ شاید وہ اس سے باتیں کرتے رہنا چاہتی تھی۔ مگر اس سوال پر حوّا ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئی ۔

’’……کیا تمہیں گڑیا پسند ہے؟……یا کوئی کتاب؟……یا کھانے کی کوئی چیز؟ چاکلیٹ؟……‘‘، وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔

’’نہیں……بس صرف ایک چیز چاہیے……‘‘، حوّا قدرے جھجکتے ہوئے بولی۔

’’……ہاں ہاں بولو……وہ کیا چیز ہے؟‘‘، وہ حوصلہ افزا نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔

’’رِبن……سرخ رِبن……‘‘، حوّا نے شرماتے ہوئے فرمائش کی۔

تھوڑی دیر بعد وہ بہت نرمی سے اسے سہارا دے کر اٹھا رہی تھی۔ حوّا کی گود میں وہ خوبصورت ریشمیں اور گلاب کی طرح سرخ رِبن رکھا تھا جو وہ اس کے لیے لائی تھی، وہ اتنا نرم تھا جیسے کسی پھول کی پنکھڑی ہو، وہ اپنے ہاتھ اس پر پھیر کر اس کی خوبصورتی محسوس کر رہی تھی، اور رِبن بار بار اس کے ہاتھ کی سخت اور کھردری جلد سے الجھنے لگتا۔’’……ابھی میں تمہارے بال سلجھا کر ان میں یہ رِبن لگاؤں گی تو دیکھنا تم کتنی پیاری لگو گی…… بالکل ننھی سی شہزادی……‘‘۔

’’……میں یہ بالوں میں نہیں لگاؤں گی……‘‘، حوّا اچانک بولی۔

’’……نہیں؟……کیوں؟؟‘‘، نرس اس اچانک فیصلے پر حیران ہوئی تھی۔

’’……یہ میرے ماتھے پر باندھ دیں……‘‘، اس نے رِبن اٹھا کر نرس کی طرف بڑھایا۔ اگر اس فرمائش پر نرس حیران ہوئی تھی تو بھی اس نے اپنی حیرت ظاہر نہیں ہونے دی۔ اس کے ہاتھ سے رِبن لے کر اس کی پیشانی پر باندھ دیا۔ اس کے گہرے بھورے بال رِبن کے دونوں طرف سے نکل کر اس کے کندھوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے بال سلجھانے کا ارادہ مؤخر کرتے ہوئے وہ اس کے سامنے آ بیٹھی، نجانے کیوں اسے لگا کہ یہ ننھی سی بچی اتنی ننھی نہیں رہی جتنا وہ اسے سمجھ رہی ہے۔

’’…حوا……؟‘‘۔

’’……میں حوا نہیں ہوں!…میں حسّان ہوں…! ……میں ابو دجانہؓ ہوں……!‘‘۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version