ہِندُتوا کیا ہے؟ | پانچویں قسط

اکھِل بھارتیہ ودیارتھی پرشاد (Akhil Bhartiya Vidiyarthi Parishad)

اکھل بھارتیہ ودیارتھی پرشاد (All India Student Organisation) آر ایس ایس کا سٹوڈنٹ ونگ ہے۔ اور تیس لاکھ سے زیادہ ارکان کے ساتھ یہ انڈیا کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ اسے ۱۹۴۸ء میں آر ایس ایس کے اہم پرچارک بلراج مدھوک1 (Balraj Madhok) نے قائم کیا۔ ۱۹۵۸ء میں آر ایس ایس کا ایک اور اہم پرچارک بمبئی یونیورسٹی کا پروفیسر یشونت راؤ کیلکر (Yashwant Rao Kelkar) اس کا مرکزی منتظم بنا۔ کیلکر کو ودیارتھی پرشاد کا اصل معمار مانا جاتا ہے۔

اپنے قیام کے بعد سے ہی یہ تنظیم ہندو مسلم فسادات میں ملوث رہی اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں ہندو مسلم فسادات میں اس کا اہم کردار رہاہے۔سیاسی تحریکات میں شرکت اور مسلم مخالف موقف ہندو طلبہ میں اس کی شہرت کی بنیاد ی وجہ بنا۔ ۱۹۷۴ء تک اس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ اس کی شاخیں ۷۹۰ یونیورسٹی کیمپسوں میں بن چکی تھیں اور بہت سی اہم یونیورسٹیوں بشمول دہلی یونیورسٹی میں اس نے طلبہ یونین انتخابات کے ذریعے سے اپنا کنٹرول قائم کر لیا تھا۔بابری مسجد کے انہدام میں اس تنظیم نے بھی حصہ لیا جس کی وجہ سے اس کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ ۲۰۱۴ء میں مودی کے حکومت میں آنے تک اس کے ارکان کی تعداد ۳۱ لاکھ ۷۵ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔

یونیورسٹیوں میں مسلمان طلبہ کو ہجوم زنی کا نشانہ بنانے میں زیادہ تر اسی تنظیم کے غنڈے ملوث ہوتے ہیں، جبکہ پچھلے عرصے میں کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں حجاب کے خلاف مظاہروں اور باحجاب طالبات کو ہراساں کرنے میں بجرنگ دل اور درگاواہنی کے ساتھ اس تنظیم کے غنڈے بھی ملوث رہے ہیں۔

سنگھ پریوار سے منسلک غیر ہندو تنظیمیں


مسلم راشٹریہ منچ (National Front of Muslims)

مسلم راشٹریہ منچ آر ایس ایس کی طرف سے مسلمانوں میں ہندُتوا کے نظریات کی ترویج کے لیے بنائی گئی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کا قیام ۲۰۰۲ء میں اُس وقت کے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک ’کے ایس سدرشن‘ نے عمل میں لایا۔ تنظیم کا قومی کنوینر محمد افضل نامی شخص کو بنایا گیا جبکہ آر ایس ایس کی طرف سے تنظیم کی’رہنمائی‘ کرنے کے لیے ایک پرچارک ’اندریش کمار‘ کو ساتھ شامل کیا گیا۔

اس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ آر ایس ایس اور اس سے منسلک تنظیموں کے حوالوں سے مسلمانوں کے خدشات بے بنیاد ہیں، اور ہندوستان میں مسلمان برادری کے اندر قیادت کے فقدان کی اصل ذمہ دار انڈین نیشنل کانگرس ہے2۔

یہ تنظیم آر ایس ایس کی طرف سے شروع کی گئی بہت سی تحریکات اور مہمات کی مکمل حمایت کرتی ہے جس میں گائے ذبح کرنے پر پابندی بھی شامل ہے3۔

نومبر ۲۰۰۹ء میں جمیعت علمائے ہند نے ایک قرارداد منظور کی جس میں ’وندے ماترم‘ کو غیر اسلامی نغمہ قرار دیا۔ مسلم راشٹریہ منچ نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ اس کے کنوینر محمد افضل نے کہا:

’’ہمارے مسلمان بھائیوں کو اس فتوے کی پیروی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ وندے ماترم ملک کا قومی نغمہ ہے اور ہر ہندوستانی شہری کو اسے پڑھنا اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔‘‘

اس نے یہ بھی کہا کہ جو مسلمان وندے ماترم پڑھنے سے انکار کرتے ہیں وہ اسلام اور ہندوستان دونوں کے مخالف ہیں4۔

اگست ۲۰۰۸ء میں مسلم راشٹریہ منچ نے ’پیغام امن یاترا‘ کے نام سے ایک ریلی کا انعقاد کیا جو لال قلعہ، دہلی سے کشمیر تک تھی جس کا مقصد کشمیر میں ’امرناتھ یاترا‘ کے لیے جگہ فراہم کرنے کی حمایت کرنا تھا۔ اس ریلی کی قیادت جھارکھنڈ کے شاہی امام مولانا حذب الرحمان میرٹھی نے کی ، لیکن اس ’ریلی‘ کے شرکاء کی تعداد پچاس تھی۔

نومبر ۲۰۰۹ء میں اس تنظیم نے ممبئی میں انڈیا گیٹ کی طرف ترنگا یاترا(ہندوستان کے قومی جھنڈے کے اعزاز میں مارچ) کا انعقاد کیا، جس میں دہشتگردی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ ایک ہزار شرکاء نے دہشت گردی کی مخالفت کرنے کا اور اپنے اپنے علاقوں میں اس کے خلاف کام کرنے کا عہد کیا5۔

ستمبر ۲۰۱۲ء میں اس تنظیم نے آئینِ ہند سے آرٹیکل ۳۷۰ (ریاست جموں و کشمیر کو اختیارات دینے کا قانون) کی منسوخی کے لیے دستخط لینے کی مہم کا آغاز کیا۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ منسوخی کی حمایت میں اس نے سات لاکھ مسلمانوں سے دستخط حاصل کیے6۔

۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں اس تنظیم نے نریندر مودی کے حق میں انتخابی مہم چلائی۔محمد افضل نے اعلان کیا کہ اس کی تنظیم اس مہم کے دوران انتخابات سے پہلے پہلے پانچ کروڑ مسلمانوں تک پہنچنے کی کوشش کرے گی7۔

۲۰۱۵ء میں اس تنظیم کی طرف سے ’یوگا اور اسلام‘ کے نام سے ایک کتاب نشر کی گئی۔ تنظیم کی طرف سے کتاب کو نشر کرنے کی تقریب کے دوران کہا گیا کہ یوگا کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔ ساتھ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ’نماز بھی یوگا کی ورزش کا ایک طریقہ ہے‘8۔

راشٹریہ سکھ سنگت(National Sikh Association)

۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کی طرف سے سکھوں کے خلاف کیے گئے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے نتیجے میں سکھوں میں ہندوؤں کے حوالے سے نفرت میں اضافہ ہوا تھا۔ اس کے سدباب کے لیے اور سکھوں میں ہندتوا نظریات کی ترویج کے لیے آر ایس ایس نے ۲۴ نومبر ۱۹۸۶ء کو راشٹریہ سکھ سنگت قائم کی۔آر ایس ایس مستقل سکھوں کو ہندو ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے اور اس تنظیم کو قائم کرنے کا اہم مقصد سکھوں میں ’ہندو شناخت‘ کو عام تھا۔ ۲۰۰۲ء میں آر ایس ایس کی طرف سے کیے گئے تبصرے کہ ’سکھ اصل میں ہندو ہیں‘ پر سکھوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک ’کے ایس سدھرشن‘ نے وہی دعویٰ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ دہرایا اور کہا کہ ’’سکھ حقیقت میں اصلاح شدہ ہندو ہیں‘‘۔

۲۰۰۴ء میں ’اکل تخت‘9 کی طرف سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ راشٹریہ سکھ سنگت ایک سکھ مخالف تنظیم ہے اور تمام سکھوں پر اس تنظیم سے تعلق رکھنے پر پابندی لگا دی۔ یہ پابندی ابھی تک قائم ہے۔10 ’اکل تخت‘ کے مطابق یہ تنظیم آر ایس ایس کی طرف سے سکھوں میں ہندُتوا کی ترویج کی ایک کوشش ہے اور آر ایس ایس سکھوں کو ہندو مت میں ضم کرنا چاہتی ہے11۔

سنگھ پریوار سے منسلک تھنک ٹینک ادارے


ہندو ویویک کیندر(Hindu Vivek Kendra)

ہندو ویویک کیندر آر ایس ایس سے منسلک تحقیقی ادارہ ہے جو خاص ہندُتوا کے موضوعات پر تحقیق کرتا ہے۔ اس ادارے کے پانچ بنیادی کام ہیں:

  1. ہندُتوا کی حمایت کرنے والی اور مخالفت کرنے والی کتابوں کی لائبریری بنانا۔

  2. ان لوگوں کی نشاندہی جنہوں نے ہندُتوا کے مختلف پہلوؤں پر علمی طور پر حصہ ڈالا ہو، انہیں اس موضوع پر لکھنے کے لیے دعوت دینا ، اور ان کے خیالات کو وسیع شہرت دینا۔

  3. لوگوں کو اس موضوع پر تحقیق کرنے پر ابھارنا، انہیں مواد فراہم کر کے ان کی اس معاملے میں رہنمائی کرنا اور انہیں مختلف ماہرین کے ساتھ رابطے میں لانا۔

  4. ہندُتوا سے متعلق مواد کو انڈیا اور بیرون ملک علمی حلقوں تک پہنچانا۔

  5. بین الاقوامی سطح پر ہندُتوا کی حمایت اور مخالفت میں لکھی گئی تحریروں پر نظر رکھنا۔

وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن (Vivekananda International Foundation)

۱۹۷۲ء میں آر ایس ایس کے پرچارک ’ایکناتھ رانادے‘ نے ایک تحقیقی ادارہ ’وویکانند کیندر‘ قائم کیا جس کے بنیادی موضوعات دیہی ترقی، تعلیم اور قدرتی وسائل کی ترقی تھے۔ ۲۰۰۹ء میں اس ادارے نے ایک پبلک پالیسی تھنک ٹینک ادارے ’’وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اس کا ڈائریکٹر سابق انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) سربراہ ’اجیت دووَل‘ 12کو بنایا گیا۔ اس ادارے کے ممبران سابق بیوروکریٹس، سابق انٹیلی جنس افسران اور سابق فوجی افسران ہوتے ہیں۔ اجیت دووّل کے علاوہ اس ادارے کے دیگر انٹیلی جنس اور فوج سے تعلق رکھنے والے مشہور ممبران میں سابق را چیف ’سی ڈی ساہے‘، سابق چیف آف ائیر سٹاف ’شری نِواساپُرم کرشن سوامی‘، اور سابق وائس چیف آف ائیر سٹاف ’ایس جی انامدار‘ شامل ہیں۔ اس ادارے کا موجودہ چیف ’اروند گپتا‘ ہے جبکہ اس کا چئیر پرسن آر ایس ایس کا وچارک (مفکر) ’سوامی ناتھن گرو مورتھی‘ ہے۔

۲۰۱۱،۱۲ء میں ’انّا ہزارے‘ کی طرف سے کانگرس کے خلاف تحریک شروع کی گئی ۔ جو آنے والے انتخابات میں کانگرس کی بری طرح شکست کی بنیادی وجہ بنی ۔ اس تحریک کو کھڑا کرنے میں اس ادارے کا بنیادی کردار رہا۔

۲۰۱۴ء میں نریندر مودی نے حکومت میں آنے کے بعد اس ادارے کے بہت سے ارکان کو اپنی حکومت میں شامل کیا۔ اجیت دووَل کو اپنا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جبکہ ’اروِند گپتا‘ کو ڈپٹی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنایا۔ اس کے علاوہ ادارے کے دیگر بہت سے ارکان کو حکومت میں عہدے دیے گئے۔

اکھِل بھارتیہ اِتّہاس سَنکَلن یوجنا (Akhil Bharatiya Itihas Sankalan Yojana)

اکھِل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا یعنی (All-India History Reform Project) کا منصوبہ آر ایس ایس کے ایک پرچارک موروپنت پنگلے نے ۱۹۷۳ء میں پیش کیا جسے آر ایس ایس نے۱۹۷۸ء میں قائم کیا۔ اس ادارے کا مقصد ہندوستان کی تاریخ کو ہندو قوم پرستانہ نقطۂ نظر سے دوبارہ تحریر کرنا ہے، تاکہ ہندوستان کی تاریخ کو ہندُتوا نظریے کے مطابق پیش کیا جا سکے۔

اس تنظیم کے مطابق ہندوستانی تاریخ کا سب سے اہم مصدر ’پرانے‘ ہیں۔ یہ ’پرانے‘ ہندوؤں کی دیوی دیوتاؤں سے متعلق قصے کہانیوں پر مشتمل ۱۸ بڑی اور ۱۸ چھوٹی کتابیں ہیں جنہیں تیسری سے دسویں صدی عیسوی کے درمیان لکھا گیا۔ تنظیم کے مطابق برطانوی راج کے دوران ہندوستانی تاریخ میں تحریفات کی گئیں اور اس میں ثقافتی تنوّع دکھایا گیا حالانکہ حقیقت میں ہندوستان کی ثقافت ایک متحد ہندو ثقافت ہے۔

اس تنظیم کی سب سے زیادہ توجہ یہ ثابت کرنے پر ہے کہ آریائی نسل کہیں باہر سے ہندوستان ہجرت کر کے نہیں آئی تھی بلکہ ہندوستان کے اصل باشندے ہیں۔ ان میں سے بعض بعد میں ہندوستان سے نکل کر دیگر خطوں میں پھیل گئے اور انہیں متمدن کیا۔ تنظیم کا موقف ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو اور ’آدی واسی13‘ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن آدی واسیوں کی ذہنی سطح پست تھی جب کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی ذہنی سطح بلند تھی اور وہ ہندوستان سے نکل کر دیگر دنیا میں پھیلے۔

ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں تاریخ پڑھانے والے پروفیسروں میں سے ۵۰۰ پروفیسروں کا تعلق اس تنظیم سے ہے۔ نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء میں حکومت میں آنے کے بعد ہندوستان میں تاریخ پر تحقیق کرنے والے سب سے معتبر ادارے ’انڈین کاؤنسل آف ہسٹوریکل ریسرچ‘ (Indian Council of Historical Research) ICHR کا چیئر پرسن اس تنظیم کے آندھرا پردیش کے سربراہ ’ییلا پرگاد سُدھرشن راؤ‘ کو مقرر کیا۔ اس کے علاوہ ۲۰۱۵ء میں اس تنظیم کے نائب صدر نارائین راؤ، تنظیم کے جنرل سیکریٹری ’ایشوَر شَرَن ویشوْکرم‘ اور تنظیم کے بنگال کے سربراہ ’نکلیش گوہا‘ کو بھی ’آئی سی ایچ آر‘ میں شامل کیا گیا۔ آنے والے عرصے میں اس تنظیم کے مزید ارکان کو ’آئی سی ایچ آر‘ اور نیشنل کاؤنسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ‘ (NCERT) میں شامل کیا گیا۔ NCERT انڈیا میں تعلیمی اداروں کا نصاب مرتب کرنے کا ادارہ ہے۔ اس ادارے میں آر ایس ایس کے افراد کی شمولیت کے بعد سے اب بڑے پیمانے پر تعلیمی اداروں کے نصاب کو ہندُتوا نظریے کے مطابق ڈھالنے کا کام جاری ہے۔

سنگھ پریوار سے الگ ہندُتوا نظریہ رکھنے والی تنظیمیں


سنگھ پریوار سے الگ ہندُتوا نظریہ رکھنے والی جماعتوں میں سب سے اہم نام ہندو مہاسبھا کا ہے لیکن چونکہ وہ ہندو قوم پرستوں کی اوّلین اور ہندُتوا نظریے کی بانی جماعت ہے اس لیے اس کا ذکراس باب میں سب سے پہلے کر دیا گیا تھا۔ ذیل میں اس کے علاوہ دیگر جماعتوں کا ذکر ہے جو ہندُتوا نظریہ رکھتی ہیں یا اس کی حمایت کرتی ہیں لیکن سَنگھ پریوار میں شامل نہیں۔

شِیوْ سینا(Shiv Sena)

شیوْ سینا (شیواجی14 کی فوج) مہاراشٹر کی ایک مراٹھا ہندو قوم پرست جماعت ہے۔ اس کا قیام ۱۹۶۶ء میں طنزیہ کارٹون نگار ’بال ٹھاکرے‘ نے کیا۔ ابتدائی طور پر اس تنظیم کا بنیادی مقصد مراٹھا قوم کو مہاراشٹر میں دیگر خطوں خاص طور پر شمالی ہند سے آئے ہوئے لوگوں پر نوکریوں اور مواقع میں ترجیح دلانا تھا۔ تنظیم کا موقف تھا کہ شمالی ہند سے آئے ہوئے لوگ مقامی مراٹھوں کے حق پر قبضہ جما رہے ہیں۔

۱۹۶۰ء میں بال ٹھاکرے نے طنزیہ کارٹونوں پر مبنی ہفت روزہ ’مارمک‘ نشر کرنا شروع کیا اور اس کی مدد سے مہاراشٹر خاص طور پر ممبئی میں دیگر علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے لوگوں کے خلاف مقامی مراٹھوں کے جذبات کو بھڑکانا شروع کیا۔ ۱۹۶۶ء میں بال ٹھاکرے نے اسی مقصد کی خاطر شیوْ سینا کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کا آغاز کیا۔

ہجرت کر کے آنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے بال ٹھاکرے نے بہت سے بے روزگار مراٹھا نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ یہ کارکنان مہاراشٹر میں بسنے والی بہت سی شمالی ہند کی برادریوں پر حملوں میں ملوث ہوئے اور انہوں نے شمالی ہند کے ہوٹلوں میں بھی توڑ پھوڑ کی اور ان کے مالکان پر دباؤ ڈالا کہ وہ صرف مراٹھوں کو نوکریاں دیں۔

لیکن ابتدائی چند سالوں میں ہی مراٹھوں کے حقوق کا نعرہ اور ’بھومی پتر‘ (دھرتی کے بیٹے) تحریک ماند پڑنا شروع ہو گئی اور اس نے اپنی کشش کھو دی۔ جس کے نتیجے میں شیوْ سینا نے ۱۹۷۰ء کی دہائی کے آغاز سے ہندُتوا نظریہ اپنا لیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قیام کے بعد ۱۹۸۹ء کے انتخابات میں شیوْ سینا نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر لیا۔

۲۰۰۴ء میں بال ٹھاکرے نے پارٹی کا سربراہ اپنے بیٹے اُدھاوْ ٹھاکرے کو بنا دیا۔ ۲۰۰۵ء میں شیوْ سینا نے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور شیوْ سینا کے اہم رہنما نارائن رانے کو پارٹی سے بے دخل کر دیا جس کی وجہ سے پارٹی میں داخلی اختلاف پیدا ہو گیا۔ اس اختلاف کے نتیجے میں بال ٹھاکرے کے بھتیجے ’راج ٹھاکرے‘ نے پارٹی چھوڑ دی اور اپنی نئی تنظیم ’مہاراشٹر نوْنرمان سینا‘ کی بنیاد رکھی۔ نومبر ۲۰۱۲ء میں بال ٹھاکرے کے مرنے کے بعد شیوْ سینا کی قیادت مکمل طور پر ادھوْ ٹھاکرے کے ہاتھ میں آ گئی۔

۲۰۱۴ء کے انتخابات میں شیوْ سینا اور بی جے پی کے درمیان نشستوں کے معاملے میں اختلاف پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے ان کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ اور ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں دونوں جماعتوں میں علیحدہ علیحدہ حصہ لیا۔ بی جے پی انتخابات میں جیت گئی اور شیوْ سینا نے اپوزیشن کا کردار اپنانے کا اعلان کیا لیکن بعد میں دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جس کے بعد شیوْ سینا دوبارہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو گئی۔

جنوری ۲۰۱۸ء کو شیوْ سینا نے پھر بی جے پی سے علیحدگی اختیار کر لی لیکن فروری ۲۰۱۹ء میں انتخابات سے قبل دوبارہ اتحاد میں شامل ہو گئی۔ شیوْ سینا کو انتخابات میں کم ووٹ ملے اور بی جے پی نے اس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں شیوْ سینا پھر اتحاد سے باہر ہو گئی۔ اس کے اتحاد سے باہر ہونے کی وجہ سے مہاراشٹر میں سیاسی انتشار پیدا ہوا ، اور شیوْ سینا نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کر لیا ۔ جس کے نتیجے میں شیوْ سینا کا سربراہ ادھوْ ٹھاکرے مہاراشٹر کا وزیر اعلیٰ مقرر ہو گیا۔ شیوْ سینا کے کانگریس کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے کیے گئے اتحاد کا نام ’مہا وکاس اگھاڑی‘ رکھا گیا۔

ادھوْ ٹھاکرے نے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کے بعد اپنی تنظیم کو ’ہندُتوا‘ نظریے سے دور کر لیا اور سیکولر نظریے کے قریب ہو گئی۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کی طرف سے مہاراشٹر کی قیادت دوبارہ اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے کوششیں تیز کر دی گئیں کیونکہ مہاراشٹر نظریاتی طور پر سنگھ پریوار کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بی جے پی نے شیوْ سینا کے ارکان کو خریدنے کی کوشیں شروع کیں۔جس کی وجہ سے تنظیم کے اندر اختلاف پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ تنظیم کا ایک دھڑا ہندُتوا نظریے پر اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں واپس جانا چاہتا تھا۔ تنظیم کے اہم رکن ’ایکناتھ شنڈے‘ نے بغاوت کی اور شیوْ سینا کے ۱۹ میں سے ۱۲ اسمبلی ارکان کو اپنے ساتھ ادھوُ ٹھاکرے کے خلاف شامل کر لیا۔

۲۹ جون ۲۰۲۲ء کو ادھوْ ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایکناتھ شنڈے نے مہاراشٹر کے نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھا لیا۔

ہندو مسلم فسادات میں کردار

متنازع بیانات اور اقدامات

مہاراشٹر نوْنِرمان سینا(Maharashtra Navnirman Sena)

مہاراشٹر نوْنِرمان سینا (Maharashtra Reformation Army) کو بال ٹھاکرے کے بھتیجے راج ٹھاکرے نے ۲۰۰۶ء میں شیوْ سینا سے علیحدہ ہو کر بنایا۔ راج ٹھاکرے نے اس اقدام کی وجہ یہ بیان کی کہ شیوْ سینا اپنی سابقہ عظمت کھو چکی ہے اور اب اسے دو کوڑی کے کلرک چلا رہے ہیں۔

راج ٹھاکرے نے اپنی تنظیم کو شیوْ سیناکے ابتدائی نظریے یعنی بھومی پُتر (دھرتی کے بیٹے) اور مراٹھا حقوق پر کھڑا کیا۔ اس لیے آنے والے سالوں میں یہ تنظیم شمالی ہند کے باشندوں کو ہراساں کرنے، ان پر تشدد کرنے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث رہے۔ اس کے علاوہ اس تنظیم کی کئی بار شیوْ سینا کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

۲۰۱۹ء میں شیوْ سینا کے ہندُتوا نظریے سے علیحدہ ہونے اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کے بعد جنوری ۲۰۲۰ء میں راج ٹھاکرے نے اپنی تنظیم کا نظریہ ’بھومی پُتر‘ سے بدل کر ہندُتوا کر دیا اور اپنی پارٹی کا جھنڈے کا رنگ بھی ’بھگوا دھواج کے جھنڈے جیسا یعنی زعفرانی کر دیا۔ اس موقع پر راج ٹھاکرے نے مسلمانوں کے خلاف بیان دیتے ہوئے کہا کہ سارے فساد کی وجہ سے مسلمانوں کی نمازیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے ’شہریت ترمیمی بل‘ کی حمایت بھی کی اور کہا کہ میرے ملک میں صرف ہندوستانی رہ سکتے ہیں، دیگر ملکوں کے لوگ پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔ تو پھر اس بِل میں کیا برائی ہے؟ اس نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیشیوں اور پاکستانیوں کو واپس اپنے اپنے ملکوں میں چلے جانا چاہیے ورنہ انہیں زبردستی اٹھا پھینکا جائے گا۔

شرومنی اکالی دَل(Shiromani Akali Dal)

شرومنی اکالی دَل (Supreme Akali Party) پوری دنیا میں سکھوں کی سب سے بڑی اور سب سے بااثر سیاسی جماعت ہے۔ سکھوں کے بنیادی مذہبی ادارے ، ’شرومنی گردوارا پربندھک کمیٹی اور دہلی سکھ گردوارا مینجمنٹ کمیٹی کو یہی جماعت چلاتی ہے۔ یہ جماعت خود کو سکھوں کا بنیادی نمائندہ تصور کرتی ہے اور اس کے قیام کا مقصد بھی سکھوں کے مسائل کو سیاسی آواز دینا تھا۔

اس جماعت کا قیام ۱۴ دسمبر ۱۹۲۰ء کو آیا اور اس کا پہلا صدر سردار سرمکھ سنگھ چبھل تھا جو بعد میں ’ماسٹر تارا سنگھ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ دیگر سکھ جماعتوں کی طرح اکالی دل نے بھی تقسیمِ ہند کی سخت مخالفت کی تھی۔

۱۹۵۰ء میں اکالی دل نے ’پنجابی صوبہ تحریک‘ شروع کی اور پنجابی بولنے والوں کے لیے علیحدہ صوبہ کا مطالبہ کیا۔ اس تحریک کی قیادت سنت فتح سنگھ کر رہا تھا۔ اس تحریک کے نتیجے میں ۱۹۶۶ء موجودہ پنجاب قیام میں آیا اور وہاں اکالی دل کی حکومت آگئی۔

اکالی دل نے تقسیمِ ہند کے بعد جلد ہی اپنا وزن آر ایس ایس کے پلڑے میں ہی ڈال دیا۔ ۱۹۶۷ء کے انتخابات سے اکالی دل پنجاب میں حکومت پہلے بھارتیہ جَن سَنگھ کے ساتھ اور پھر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے بناتی رہی ہے۔ اکالی دل کا موجودہ سربراہ سکھبیر سنگھ بادل ہے۔

اکالی دل ایک لمبے عرصے سے مستقل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کے بےشمار دھڑے وجود میں آ چکے ہیں۔ جولائی ۲۰۲۰ء میں شرومنی اکالی دل کے بعض اہم ارکان نے اکالی دل کے ایک سابق دھڑے شرومنی اکالی دل (ٹکسالی) کے ساتھ اتحاد کر کے ایک نیادھڑا شرومنی اکالی دل (ڈیموکریٹک) بنایا۔ اسی مہینے کے اختتام تک دیگر جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل ہوئیں اور اکالی دل کا ایک اور دھڑا ’یونائٹڈ اکالی دل‘ بھی اس میں ضم ہو گیا جس کے بعد اس نئی جماعت کا نام پھر بدل کر ’شرومنی اکالی دل (سنیوکت) رکھ دیا گیا۔اس نئی جماعت کا دعویٰ ہے کہ اصلی اکالی دل یہ ہے اور اس نے بی جے پی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ’بادل‘ کی اکالی دل کی بجائے اس اکالی دل کو اپنے اتحاد میں شامل کرے۔

ستمبر ۲۰۲۰ء میں اکالی دل کا بی جے پی کے ساتھ زرعی اصلاحات کے بل پر اختلاف ہو گیا جس کے بعد وہ ’این ڈی اے‘ کے اتحاد سے باہر ہو گئی۔ اس کے بعد اس نے دلِتوں اور دیگر نچلی ذات والوں کی نمائندہ جماعت ’بہوجن سماج پارٹی‘ کے ساتھ اتحاد کر لیا جو تادم تحریر قائم ہے۔

اکالی دل کا نظریہ اگرچہ براہ راست ہندُتوا تو نہیں ہے لیکن تقسیمِ ہند کے بعد سے یہ مستقل ہندُتوا نظریے کی علمبردار آر ایس ایس کے ساتھ اتحاد میں رہی ہے اور ملکی سطح پر اس کی مکمل حمایت کرتی رہی ہے۔اسی لیے اسے ہندتوا تنظیموں کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔ اگرچہ ۲۰۲۰ء سے یہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد سے باہر ہو چکی ہے لیکن یہ اختلاف نظریاتی بنیادوں کی بجائے خالص سیاسی بنیادوں پر ہے اس لیے بعید نہیں کہ مستقبل میں یہ جماعت واپس بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو جائے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ بھی بعید نہیں کہ اکالی دل (سنیوکت) اس کی جگہ حقیقت میں اصل ’اکالی دل‘ کی شکل اختیار کر جائے۔

ابھیناوْ بھارت(Abhinav Bharat)

ابھیناوْ بھارت ہندُتوا سے منسلک ایک جنگجوتنظیم ہے جو اسلحے کے ذریعے اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گرد حملوں کے ذریعے سے ہندُتوا کے اہداف کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس تنظیم کو ۲۰۰۶ء میں ہندوستانی فوج کے ریٹائرڈ میجر ’رمیش اپادھیائے‘ نے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پرشاد شریکانت پروہت کے ساتھ مل کر مہاراشٹر کے شہر پونے میں قائم کیا۔ ۲۰۰۸ء میں ’ناتھورام گوڈسے‘ کی بھتیجی اور ’ونائک دامودر ساورکر‘ کے بھتیجے کی بیوی ’ہیمانی ساورکر‘ کو اس تنظیم کا سربراہ منتخب کیا گیا۔

ابھیناوْ بھارت کا نام ’ساورکر‘ کی گرفتاری سے قبل بنائی گئی ’ابھیناوْ بھارت سوسائٹی‘ کے نام پر رکھا گیا ہے جوکہ مسلح انقلاب پر یقین رکھتی تھی۔

سَنگھ پریوار کی تنظیموں کے ساتھ اس تنظیم کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ ویشوا ہندو پریشاد میں موجود زیادہ متشدد لوگوں کو اس تنظیم میں زیادہ کشش محسوس ہوئی اور بہت سے وی ایچ پی کو چھوڑ کر اس تنظیم میں شامل ہوئے۔ اس تنظیم پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدے داران بشمول اس کے سرسنگھ چالک ’موہن بھاگوت‘ کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا تھا۔ اس تنظیم کا موقف تھا کہ موہن بھاگوت ہندُتوا کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر رہا۔

یہ تنظیم ۲۰۰۶ء میں مالی گاؤں بم حملے میں ملوث تھی جس میں مہاراشٹر کے علاقے مالی گاؤں کی ایک مسجد کے ساتھ منسلک مقبرے میں دو بم دھماکے کیے گئے۔ ان دھماکوں میں ۳۹ مسلمان شہید جبکہ ۱۲۵ سے زائد مسلمان زخمی ہوئے۔

اس کے علاوہ ۲۰۰۷ءمیں ہونے والے تین مختلف بم حملوں میں بھی یہ تنظیم ملوث تھی۔

۲۰۰۶ء میں ہونے والے مالی گاؤں بم حملے اور ۲۰۰۷ء میں ہونے والے ان تینوں بم حملوں کے الزام میں اس تنظیم کے اہم رکن ’سوامی اسیمانند‘ کو گرفتار کیا گیا۔ اس سے کی گئی تفتیش کے دوران اس نے انکشاف کیا کہ ان حملوں میں اس تنظیم کو آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی طرف سے مکمل تعاون حاصل تھا۔ شواہد کی بنیاد پر ابھیناوْ بھارت کے ارکان کے ساتھ ساتھ کچھ آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدے داران کو بھی گرفتار کیا گیا اور ان پر کیس چلایا گیا۔ لیکن مودی کے حکومت میں آنے کے بعد تمام گرفتار افراد کو ’شک کا فائدہ دے کر ‘ بری کر دیا گیا۔

ہندُتوا سے منسلک دیگر تنظیمیں

اندرا گاندھی کی لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف مختلف سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے قائم ہونے والی جنتا پارٹی جب زوال کا شکار ہوئی تو اس کے کئی دھڑے بن گئے۔ ان میں سے ایک سبرامانین سوامی کی قیادت میں جنتا پارٹی تھی جس نے ہندُتوا کو اپنے نظریے کے طور پر اپنایا۔ جس کی ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں معمولی موجودگی رہی ہے۔ ۲۰۱۳ء میں سبرامانین سوامی نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی۔

بھارتیہ جن سنگھ کے شریک بانی اور ۱۹۶۶ء میں اس کا صدر رہنے والے ’بلراج مدھوک‘ کے پارٹی کے اندر ’اٹل بہاری واجپائی‘ اور ’لال کرشن ایڈوانی ‘ کے ساتھ اختلافات تھے۔ ۱۹۷۳ء میں جب لال کرشن ایڈوانی پارٹی کا صدر بنا تو اس نے مدھوک کی پارٹی رکنیت تین سال کے لیے معطل کر دی۔ بعد میں جب بھارتیہ جن سنگھ ، ’جنتا پارٹی‘ میں ضم ہو گئی تو مدھوک بھی اس میں شامل تھا لیکن ۱۹۷۹ء میں اختلافات کی وجہ سے اس سے علیحدہ ہو گیا اور اس نے ’اکھل بھارتیہ جن سنگھ‘ کے نام سے جن سنگھ کو دوبارہ سے کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن یہ پارٹی زیادہ چل نہ پائی اور اس کی ہندوستان میں موجودگی نہ ہونے کے برابر ہی رہی۔ ۲۰۰۴ء میں بی جے پی کے ایک رکن پرافل گورادیہ نے بی جے پی سے اختلافات کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا اور اس نے اکھل بھارتیہ جن سنگھ کی صدارت سنبھال لی ۔ اگرچہ یہ تنظیم بھی ہندُتوا نظریے سے منسلک ہے لیکن اس کا سیاسی کردار غیر اہم ہے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 بلراج مدھوک کا شمار آر ایس ایس کے اہم کریاکرتاؤں میں ہوتا ہے۔ اس کا تعلق جموں سے تھا اور اسی نے جموں و کشمیر میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی۔جب گولوالکر نے شیام پرشاد مکھرجی کو بھارتیہ جن سنگھ بنانے کا کہا تو آر ایس ایس کی طرف سے بلراج مدھوک کو بھی دیگر کے ساتھ پارٹی میں آر ایس ایس کی طرف سے شامل کیا گیا۔۱۹۶۶ء میں یہ بھارتیہ جن سنگھ کا صدر بنا اور ۱۹۶۷ء کے انتخابات تک جن سنگھ کا صدر رہا۔

2 The Saffron Muslims by Danish Raza, Hindustan Times, 18 January 2014

3 Ibid.

4 Muslim organisation slams Vande Mataram fatwa, The Indian Express, 9 November, 2009.

5 Pro-RSS Muslims take anti-terror vow, Hindustan Times, 19 November 2009

6 7 Lakh Muslims have signed up for revoking Art. 370: RSS outfit, Indian Express, 29 December 2012.

7 Follow your conscience: RSS to appeal to Muslims by Pavan Dahat, The Hindu, 3 March 2014

8 Govt. pushes yoga’s universal appeal, Ministry releases book, The Hindu, 18 June 2015

9 اکل تخت سکھوں کے پانچ تختوں میں سے ایک ہے جہاں سے ساری دنیا میں موجود سکھوں کے لیے احکامات جاری کیے جاتے ہیں۔ ان تختوں سے جاری کیے گیے احکامات کی پابندی ہر سکھ پر لازم ہے۔ اکل تخت امرتسر میں مشہور ’گولڈن ٹیمپل‘ُ کی حدود میں بنایا گیا ہے۔

10 Akal Takht asks Sikh community to keep distance from RSS event, OutlookIndia.com

11 Akal Takht Chief calls for RSS to be banned, The Wire

12 اجیت کمار دووَل (Ajit Kumar Doval) ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۵ء تک انڈیا کے انٹیلی جنس ادارے ’انٹیلی جنس بیورو‘ (ٓئی بی) کا ڈائریکٹر رہا۔ جبکہ ۲۰۱۴ء سے یہ نریندر مودی کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر (این ایس اے) ہے۔۱۹۹۹ء میں قندھار میں ہندوستانی طیارہ ہائی جیک کرنے والوں سے مذاکرات کرنے والی تین رکنی ٹیم میں اجیت دووَل بھی شامل تھا۔

13 ہندوستان کے اصل قبائلی باشندے

14شیواجی بھونسالے‘ (۱۶۳۰ء تا ۱۶۸۰ء) جو کہ چترپتی شیواجی کے نام سے مشہور ہے، جنوبی ہند میں مراٹھا سلطنت کا بانی تھا۔ اس نے سترہویں صدی عیسوی کے نصف میں دکن میں بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے جنگ کی اور اس کے علاقے قبضہ میں کر کے ۱۶۴۵ءمیں مراٹھا سلطنت کی بنیاد ڈالی۔۱۶۷۴ء میں وہ مراٹھا سلطنت کا پہلا باقاعدہ چترپتی بنا۔ مراٹھا سلطنت اپنے عروج کے دور میں جنوب میں تامل ناڈو سے شمال میں پشاور اور مشرق میں مغربی بنگال تک پھیل چکی تھی اور برطانوی راج سے قبل مراٹھا سلطنت نے ہی مغل سلطنت کا زیادہ تر برصغیر سے خاتمہ کیا۔ تمام ہندو قوم پرست شیواجی کو اپنا ہیرو تصور کرتے ہیں اور ہندتوا تنظیمیں شیوا جی کے ہی جھنڈے ’بھگوا دھواج‘ کو ہندوستان کا قومی جھنڈا بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔

Exit mobile version