انہیں گھیرو!

دو دہائیوں سے زائد عرصے سے مسلمانوں کو یہ بتایا جا رہا ہےکہ فلسطین پر یہودی قبضے کا مناسب اور عادلانہ حل مغرب کی مدد و حمایت سےعربوں کے لیے ایک انتہائی لاغر، بے کس اور برائے نام خود مختاری کی حامل علیحدہ ریاست بنانے میں پنہاں ہے جو فلسطین کے کل رقبے کے ایک جزوِ حقیر پر مشتمل ہو گی، جبکہ زمین کا بڑا حصّہ یہود ہی کے ہاتھ میں رہے گا جس میں وہ اپنی مرضی سے حکومت کریں اور جیسے چاہیں بگاڑا ور فساد پیدا کریں۔وہ نام نہاد ’دو ریاستی حل‘ جو کہ در حقیقت ’ڈیڑھ ریاستی حل‘ (یا شاید ’ایک اور ایک تہائی ریاستی حل‘)ہے، نہ صرف یہ کہ فلسطینیوں کی اکثریت کے لیے ناقابلِ قبول ہے بلکہ اسلام کے اصول وقواعد کے بھی خلاف ہے، اور اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتا ہے کہ فلسطین ایک اسلامی علاقہ تھا اور ہمیشہ اسلامی علاقہ ہی رہے گا۔ اور یہی وجہ ہے کہ فلسطینی ’ مسئلے‘ (کے حل کے لیے) پیشرفت کا راستہ اور اس کا واحد عادلانہ حل ’اسرائیل ‘ کو مکمل طور پر ختم کرنا اور مسلمانوں کے ہاتھوں ، مسلمانوں ہی کے لیے پورے مسلم فلسطین کو آزاد و بازیاب کرانا ہے۔ فلسطین مسلمانوں کی زمین ہے، کیونکہ فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے اور مسلمان……نہ کہ یہود……انبیاء علیہم السلام کے حقیقی وارث و جانشین ہیں۔

جب تورات، انجیل اور قرآن مجید……تینوں میں صراحتاً یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کا وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہےچاہے وہ اولادِ انبیاء ہی کیوں نہ ہوں، تو پھر یہود کے اس دعوے میں کیسے کوئی صداقت ہو سکتی ہے کہ فلسطین پر ان کا پیدائشی حق ہے؟ بنی اسرائیل……کہ جس میں سے یہود (کی نسل) برآمد ہوئی، نہ صرف یہ کہ ان فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہی جو ان پر عائد کیےگئے تھے کہ وہ صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کریں گے ، اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نیک اعمال کریں گے، نیکی کی تلقین کریں گے اور بدی سے روکیں گے اور اس کا دین پھیلائیں گے……بلکہ انہوں نے اپنی ہدایت و رہنمائی کے لیےمبعوث کیے گئے بعض انبیاء و رسل کا بھی انکار کیا، اور اس حد تک چلے گئے کہ ان میں سے بعض کو قتل کیا اور بعض کو خدا کا شریک بنا لیا۔تو پھر انبیاء کی قاتل اور ان کے پیغام کو مسخ کرنے والی نسلِ یہود، کس عدل کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ سرزمینِ انبیاء پر اس کا بھی کوئی حق ہے……ماسوائے اسلامی ریاست کی پُرامن اور مطیع فرمان رعایا کی حیثیت سے؟

صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق، القدس میں واقع مسجدِ اقصیٰ زمین پر بننے والی اوّلین مسجد، مکّہ کی مسجد الحرام کی تعمیر کے چالیس سال بعد بنائی گئی۔اگرچہ مؤرخین کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ کب اور کس نبیؑ نے سب سے پہلے انہیں تعمیر کیا، مگر اس حقیقت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ ان دونوں مساجد کی تعمیر اور مرمت انبیاءؑ ہی کے ہاتھوں ہوئی۔ مسجد الحرام کی بنیادیں ابو الانبیاء حضرت ابراہیم اور آپ کے بیٹے اور نبی حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اٹھائیں۔ وہی اسماعیلؑ کہ جن کی یہود و نصاریٰ اپنی مقدس کتابوں میں اپنے راہبوں، ربّیوں اور کاتبوں کی جانب سے گھٹائی بڑھائی اوراللہ کی جانب منسوب کی ہوئی باتوں کی بنیاد پر تحقیر و تذلیل کرتے ہیں۔ بعد ازاں مسجدِ اقصیٰ کی تعمیر و توسیع کا کام عظیم المرتبت نبی سیدنا سلیمانؑ نے کیا، جن پر یہود و نصاریٰ نہ صرف بت پرستی اور جادو گری کے الزامات لگاتے ہیں ، اور ان کے والد پر زنا اور دیگر مکروہ و معیوب افعال کی تہمتیں لگاتے ہیں بلکہ وہ تو سرے سے اسی بات کے انکاری ہیں کہ سیدنا سلیمانؑ اور سیدنا داؤد ؑ اللہ کے نبی تھے، اور تضحیک آمیز انداز میں ان کا تذکرہ ’بادشاہ سلیمان ‘اور ’بادشاہ داؤد‘ کے طور پر کرتے ہیں۔ تو کیسے ممکن ہے کہ انبیاء کے ایسے دشمنوں کو انہی انبیاء کی زمین اور علاقے سے کوئی نسبت ہو یا اس پر ان کا کوئی حق ہو؟!

عبرانی انبیاء کے زمانے سے لے کر زمانہ قبل از مسیح ؑ تک، اور ان کے بعد آنے والی صدیوں میں بھی فلسطین……بعض استثناءات کے علاوہ …… زیادہ تر ظالم و جابر اور مشرک حکمرانوں کے قبضے میں رہا۔ یہاں تک کہ ۶۳۷ء میں ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے خلیفۂ دوم، ہمارے سردار و سیّد عمرؓ بن الخطاب کی قیادت میں مسلمانوں نے اسے آزاد کرایا۔عمرؓ نے مسجدِ اقصیٰ کی بحالی اور صفائی کا کام شروع کیا جسے ان سے پہلے نصاریٰ ……(کہ اس وقت القدس میں کوئی یہودی نہیں تھے)…… ایک کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ کے طور پر استعمال کرتے رہے تھے۔

مسلمانوں کے تحت فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ پھلتے پھولتے رہے یہاں تک کہ القدس پر نصاریٰ کا قبضہ ہو گیا اور کتابِ مقدس (بائبل) پر ایمان لانے والے،عیسائی پاپا کے متبعین ……بلکہ اس کی عبادت و پرستش کرنے والے بنیاد پرست عیسائیوں نے ۱۰۹۹ء میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران القدس کے سقوط کے بعد ایسی غارت گری مچائی کہ القدس کے تمام باسیوں (جن میں یہودی بھی شامل تھے، کہ اسلامی حکومت کے تحت القدس میں یہودی بھی آباد تھے) کا قتلِ عام کیا۔

۸۸ سال بعد ۱۱۸۷ء میں عظیم مسلمان قائد صلاح الدین ایوبی ؒ نے القدس کو بازیاب کرایا اور اس پر اسلامی تسلّط بحال کیا۔ انہوں نے ایک بار پھر مسجدِ اقصی کی صفائی اور تعمیرِ نو کا کام کیا، جسے صلیبی اپنے گھوڑوں کے لیے اصطبل کے طور پر استعمال کرتے رہے تھے۔اس کے بعد القدس پر اسلامی حکومت قائم رہی یہاں تک کہ ۱۹۱۶ء میں ایک بار پھر ہم یہودیوں اور صلیبیوں کے ہاتھوں فلسطین کھو بیٹھے، اس دفعہ یہ سانحہ قراردادِ بالفور اور سائیکس پیکو معاہدے کے ذریعے پیش آیا۔

بعض قارئین کے ذہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ میں نے فلسطین اور الاقصیٰ کی یہ مختصر تاریخ کیوں بیان کی ہے۔میرا جواب یہ ہے کہ آپ ان مسلمانوں کی تعداد جان کر حیران ہوں گے جو فلسطین کی اسلامی تاریخ سے ناواقف ہیں اور اس حوالے سے بآسانی صہیونی پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فلسطین پر یہودی قبضے اور فلسطینیوں کی باقاعدہ نسل کشی اور ان پر مظالم و ایذا رسانی ……جس کا تازہ ترین مظہر غزہ کے خلاف حال ہی میں جاری اسرائیلی جارحیت ہے جس میں اب تک ۲۰۰۰ سے زائد مسلمانوں کی جانیں جا چکی ہیں اور ۸۰۰۰ سے زائد زخمی ہیں1……سائیکس پیکو معاہدے کا لابدی نتیجہ ہیں۔ یہ وہی معاہدہ ہے جس کا مسوّدہ ۱۹۱۶ء میں برطانیہ، فرانس اور روس نے رازداری سے تیار کیا اور ۱۹۱۷ء میں دنیا پر عیاں کیا۔ اسی منحوس معاہدے کی بدولت وہ مسلم قوم جو کبھی عظیم الشان قوت کی حامل اور متحد و متفق ہوا کرتی تھی، درجنوں کمزور و لاچار چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئی جن پر مغرب ہی کے ٹوڈی اور ایجنٹ حاکم تھے۔ یہودیوں کے لیے فلسطین پر اپنے قبضے کو دوام دینا اور کسی سزا و پکڑ یا اپنے جرائم کے لیے جوابدہی کی فکر کے بغیراور ہر قسم کی انتقامی کارروائی سے بے خوف ہو کر فلسطین کی آبادی کو مستقلاً اور انتہائی بے رحمی سے اپنی اطاعت پر مجبور کرنا اوران کی تذلیل کرنا بھی براہ راست انہی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا ’کارنامہ‘ ہے اور ان کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے اساسی چارٹر کو منظور کرنے اور اس کی تصدیق و توثیق کرنے کا لازمی نتیجہ ہے۔ کہ یہ چارٹر تمام رکن ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ امریکی قیادت میں چلنے والی اوراسرائیلی رسوخ سے متاثر سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کریں گی اور تمام ممبر ریاستوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دیگر ممبر ریاستوں کی خود مختاری اورعلاقائی سالمیت کا دفاع کریں گی اور انہیں قائم رکھیں گی، بالخصوص اسرائیل ۔ سائیکس پیکو معاہدے، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور اس قسم کے دیگر تمام معاہدوں کو ردّ کر کے ہی ممکن ہے کہ فلسطین سمیت مسلمانوں کےتمام مقبوضہ علاقوں ، اندلس تا مشرقی ترکستان ، کو بازیاب کرایا جائے تاکہ ان علاقوں کی مسلم آبادی امن و سلامتی اور عزت و وقار کے ساتھ خلافتِ اسلامی کے سائے میں اپنی زندگی گزار سکے۔

اور یہاں میں امیر المومنین ملّا محمد عمر مجاہد ﷬کے ۱۴۳۵ھ کے پیغامِ عید کے الفاظ نقل کروں ، جس میں انہوں نے کہا کہ

’’ہم مظلوم فلسطینیوں کے خلاف قابض اسرائیل کی بہیمانہ جارحیت کی مذمت کرتے ہیں جس نے رمضان کے مبارک مہینے میں سینکڑوں اور ہزاروں فلسطینیوں کو قتل، زخمی اور بے گھر کیا ہے۔ ہم دنیا سے کہتے ہیں……اور بالخصوص عالم ِ اسلام سے استدعا کرتے ہیں ……کہ ان جرائم پر خاموش نہ رہیں، کیونکہ ا ن پر خاموش رہنا ظلم ہے اور اس میں ہم سب کی شکست ہے۔ اس ظلم اور جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اور عملی اقدام اٹھانا نہایت ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ اس علاقے اور پورے عالم کا امن و امان مزیدخراب ہو جائے۔ ‘‘

آج ہمارا پالا ایک ایسے وحشی دشمن اتحاد سے پڑا ہے جس کے افعال (مذہبِ) انسانیت، بقائے باہمی اور منطقی مذاکرات کے ان دروس کی کلیتاً مخالف ہیں جن کا وہ منافقانہ پرچار کرتا رہتا ہے۔ باقی دنیا سے ان اقدار کا پابند رہنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھی وہ خود انسانیت اور بقائے باہمی کے ہر اصول اور قاعدے کو جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہے۔

غزہ میں شہری املاک ، سکولوں، پناہ گاہوں ، ہسپتالوں اور بچوں کے کھیل کے میدانوں پر وحشیانہ اور سنگدلانہ بمباری اور غزہ کی پٹی پر یہود و نصاریٰ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے عائد کردہ سخت گیر اور کبھی نہ ختم ہونے والا (معاشی)محاصرہ، پابندیاں اور بندشیں ایسے مظالم ہیں جو ظالم ہی کے دفاع کی خاطر ، اور یہودیوں کے فلسطین پر باطل دعوے کے دفاع کی خاطر ڈھائے جا رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان ان سے صرفِ نظر یا اغماض نہیں کر سکتا۔ اگرچہ اقتصادی محاصرے اور تجارتی بندشیں وغیرہ جائز اور مؤثر عسکری تدبیریں؍ حکمت عملیاں ہیں، مگر تب جب ان کا متناسب استعمال کیا جائے اور حق اور اہلِ حق کے دفاع میں کیا جائے۔مسلمان جیوش تاریخ میں بے شمار مواقع پر ان تدابیر کو بروئے کار لائے ہیں؛ یہودِ بنو قریظہ پر رسول اللہ ﷺ کی جانب سے عائد کردہ معاشی بندشوں سے لے کر عثمانیوں کی جانب سے قسطنطنیہ کے محاصرے تک؛ اور وہاں سے لے کر دورِ حاضر میں عراقی مجاہدین کی جانب سے بغداد میں صلیبیوں اور ان کے اتحادیوں کے محاصرے تک، بالخصوص گرین زون کے محاصرے میں کہ جس نے اس اتحاد کو کمزور کرنے اور بالآخر شکست دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مگر فلسطینی شہروں اور دیہات کے خلاف اسرائیل کی بار بار دہرائی جانے والی جارحیت اور غزہ کی بے کس آبادی پر مسلّط معاشی محاصرہ اس بے عملی کی روش سے ختم نہیں ہو گا جس پر بدقسمتی سے عالمِ اسلام گامزن ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے اور یہودیوں اور صلیبیوں کو وہاں ضرب لگانے کے لیے کہ جہاں وہ تکلیف سے بلبلا اٹھیں، چاہیے کہ ہم ان پر اپنی جانب سے اقتصادی رکاوٹیں اور بندشیں نافذ کریں۔بین الاقوامی تجارت و مالیات کو نشانہ و ہدف بنا کر ان کےاقتصادی قلب و شہ رگ پر حملہ کریں۔

مجاہدین کو چاہیے کہ دشمن ریاستوں کے لیے بین الاقوامی تجارت کو مفلوج کرنے کی سعی کریں۔ یا اگر یہ نہ کر سکیں تو کم ازکم ان کے لیے اس کے اخراجات بڑھا دیں۔ اسلامی پانیوں میں موجود ان کے تجارتی جہازوں اور مال سے لدے بیڑوں کو نشانہ بنا ئیں، بندرگاہوں، آبی گزر گاہوں ، آبناؤں ، کھلے سمندر اور ان کے اپنے علاقائی پانیوں میں انہیں ہدف بنائیں۔ جب او رجیسے ممکن ہو ان کے سمندری راستوں میں خلل ڈالیں۔ یوں تو ان کا کوئی بھی جہاز ایک جائز ہدف ہو سکتا ہے، لیکن مغرب سمیت کسی بھی ملک کی معیشت کی اصل کلید اس کی برآمدات ہوتی ہیں۔

مجاہدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی زمینوں میں صلیبیوں کے زیرِ انتظام تیل کے کنوؤں اور کانوں کو تباہ و خراب کر کے اور پائپ لائنوں کو تباہ کر کے تیل کو ساحل اور وہاں سے دشمن کے ہاتھوں میں پہنچنے سے روکیں اور اس طرح دشمن کو اس قیمتی تیل اور ان معدنی وسائل سے محروم کرنے کی بھرپور کوشش کریں جنہیں وہ ہم سے لوٹ کر ہم ہی پر مسلّط اپنی جنگی مشین کے لیے بطور ایندھن استعمال کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ دشمن کے پانیوں میں موجود ان کے آئل رِگز کو سبوتاژ کریں، ان کے سوپر ٹینکروں کو ڈبوئیں اور دریں اثناء ان کی انتہائی منافع بخش صنعتِ ماہی گیری کو اسی طرح تباہ و برباد کر دیں جیسے انہوں نے غزہ، صومالیہ اور دیگر جگہوں پر ہماری صنعتوں کو تباہ کیا۔

اس دوران،مسلمانوں کو چاہیےکہ امریکی، صلیبی اور یہودی کاروباروں اور مصنوعات کا بائیکاٹ اور مقاطعہ جاری رکھیں۔ گاڑیوں سے لے کر کمپیوٹروں تک اور ٹافیوں سے لے کر کپڑے تک، ہمیں چاہیے کہ جہاں اور جس قدر ممکن ہو، ان چیزوں کو خود تیار کریں اور مقامی طور پر دستیاب متبادل اشیاء کی خرید و فروخت اور استعمال کو ترویج دیں۔ وال مارٹ ، مکڈونلڈز، پراکٹر اینڈ گیمبل، مائیکرو سافٹ، نیسلے اور یونی لیور جیسی بڑی مغربی کمپنیاں اور کثیر الملل شراکتیں پوری دنیا پر چھائی ہوئی صلیبی گلوبَلائزیشن کی علامات ہیں جس کی خصلت ہی یہ ہے کہ وہ غریب، کمزور اور درماندہ کا استحصال کرتی ہے اور مقامی منڈیوں اور معیشت کو تباہ کرتی ہے۔ بحیثیت مسلمان و مجاہد یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر قیمت پر اس کی روک تھام کریں۔

اسی طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ حتی المقدور بینکوں اور مالیاتی منڈیوں سے بچیں، کہ وہ نہ صرف سود پر کھڑی ہیں ( سود بھی وہ جو بد ترین قسم کا بھاری سود ہے، جس کو استعمال کرنے والوں، اس میں شریک ہونے والوں اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں سب کے خلاف من جانب اللہ اعلانِ جنگ ہے …… (البقرۃ: ۲۷۵تا ۲۸۱) بلکہ بینک مغرب کے قائم کردہ عالمی اقتصادی نظام کا ایک جزو لا ینفک ہیں، جو آج مسلمانوں اور دنیا کی دیگر مظلوم و مقہور قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے کام آتے ہیں۔

اس کے بجائے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سونے اور چاندی کو زرِ مبادلہ کے طور پر بحال کرنے کی کوشش کریں۔صنعتی پیداوار کو مقامی اسلامی اقتصادیات سے جوڑنے کی ابتدائی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اجناس کے ادل بدل کے قدیم نظام (بارٹر سسٹم) کے ساتھ تجربہ کیا جائے تاکہ دشمن کی قومی اور عالمی معیشتوں سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ سونے کو زرِ مبادلہ کے طور پر بحال کرنا اس لیے بھی ناگزیر ہے تاکہ ہم خود کو اس سودی بینکاری نظام کی بندشوں سے آزاد کرا سکیں جو لا شئی سے پیسہ بناتا ہے، ہماری منڈیوں اور صنعتوں کو مغرب کی معیشت سے جوڑتا ہے، ہمیں ورلڈ بینک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کےرحم و کرم پر چھوڑتا ہے، ہمیں بین الاقوامی پابندیوں اورمعاشی و اقتصادی جال میں گھیرتا ہے ،اور پھر ہماری حکومت اور ثقافت و معاشرت میں دخل اندازی کے ان گنت نت نئے طریقوں کے ذریعے ہمیں لاچار و بے بس کر دیتا ہے۔

یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ’’کیا عالمی کفر کی شکست اور ایک بڑی (عالمی )اسلامی امارت کے قیام سے پہلے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرنا مناسب ہے کہ وہ خود کو بین الاقوامی اقتصادی نظام کی بندشوں سے آزاد کرانے کی کوشش کریں؟ ‘‘۔

میرا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی خودکو معاشی و اقتصادی طور پر اسلام کی فتح کے لیے تیار کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا بالکل مناسب اور انتہائی معقول بات ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم ان کی خود کو تیار ومنظّم کرنے اور اپنی دینی، عسکری اور سیاسی تربیت کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تاکہ اسلامی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جا سکے! آج ہمیشہ سے زیادہ مسلمان اس فہم میں پختہ ہو تے جا رہے ہیں کہ جب تک وہ اپنے ملکوں کو عالمی سودی مالیاتی نظام اور بین الاقوامی ڈونرز (عطیہ کنندگان)کے انتہائی غیر متوازن حد تک بڑھے ہوئے اثر اور دباؤ سے آزاد نہیں کرا لیتے، وہ کبھی بھی اس اقتصادی خوشحالی اور سیاسی خود مختاری کا ہدف حاصل نہیں کر سکتے جس کی وہ تمنا کرتے ہیں۔

دی گارڈین‘ میں تین سال قبل 2مشہور عرب بہارکے آغاز ہی میں چھپنے والے ایک مضمون بعنوان ’پسِ پردہ، کاروبارِ دنیا حسبِ معمول رواں ہے‘ (Backstage, it’s business as usual) میں سمیّہ غنّوشی نے علاقےمیں اس حقیقت سے بڑھتی ہوئی آگہی کا اور ساتھ ساتھ انہی نظاموں اور اداروں کو استعمال کرتے ہوئے جن کی طرف میں نے گزشتہ گفتگو میں اشارہ کیا، مغرب کی عالم ِ عرب میں اٹھنے والے ان نوخیز انقلابات کی بیخ کنی کرنے اور انہیں سبوتاژ کرنے کی کوششوں کا تذکرہ کیا۔ یہاں میں سمیّہ غنوشی کے مضمون سے بعض متعلقہ اقتباسات نقل کروں گا ، خصوصی اہمیت کے حامل جملوں کو میں نے نمایاں کر دیا ہے:

انقلاب کے عمل کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں مغرب محض مضبوط عسکری قوت لے کر میدان میں نہیں اترا بلکہ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ اپنا بھرپور اقتصادی زور بھی آزما رہا ہے، یعنی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے۔ حال ہی میں ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ زویلِک نے عرب فعالیت پسندوں کے ایک گروہ سے مخاطب ہوتے ہوئے علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی ان الفاظ میں توصیف کی کہ یہ ’’ اپنی قوتِ رفتار آپ پیدا کرنے (اور بڑھانے) والے ایک زبردست دور ‘‘ ہے۔

شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ کے لوگوں کو درپیش مسائل کے بارے میں اسے گفتگو کرتا سن کر کوئی بھی بآسانی اس مغالطے کا شکار ہو سکتا ہے کہ وہ تو محض ایک معصوم اور غیر جانبدار تجزیہ کار ہے اور ان علاقوں کو جن معاشی بحرانوں کا سامنا ہے ان سے اس کا کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ۔

یہ ایک باقاعدہ مہم کا حصّہ ہے کہ لوگوں سے یہ بنیادی حقیقت چھپائی جائے کہ در حقیقت ہو کیا رہا ہے:’’یعنی لوگ محض ایک عالمی حمایت یافتہ سیاسی استبداد کے خلاف بغاوت نہیں کر رہے بلکہ اس اقتصادی نمونے کے خلاف بھی بغاوت اور جدوجہد کر رہے ہیں جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور (مصر و تیونس کے معاملے میں ) یورپی یونین کے سٹرکچرل ریفارم پروگرامز کی صورت میں ہم پر مسلّط کیا گیا ہے۔‘‘

’’۱۹۹۵ء میں یورو مڈیٹرینین ایسوسیشن اگریمنٹ پر دستخط کرنے والے پہلے عرب ملک، تیونس میں سرکاری ملکیت میں موجود کمپنیوں میں سے ۶۷ فیصدسے زائد کمپنیوں کی نجکاری کی جا چکی ہے۔ جبکہ مصر میں یہ تعداد ۳۱۴ میں سے ۱۶۴ پر کھڑی ہے۔ اور اس کے ساتھ ان ممالک کی معیشت قرض میں ڈوبی ہوئی ہے، نتیجتاً یہ ممالک یورپی یونین اور امریکہ کی دی گئی بخشش و خیرات کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔‘‘

اور یہ تو اس شیطانی چکر کی ابتدا ہے جو عالمِ اسلام کو مغرب کے تابع رکھنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ حکومتی ملکیت میں موجود کمپنیوں کی نجکاری درحقیقت کیا معنی رکھتی ہے اور یہ جاننے کے لیے کہ اس قسم کی دیگر نو سامراجی پالیسیاں کس قدر ظالمانہ و جابرانہ ہیں، میں جان پَرکنز کی کتاب ’امریکی ایمپائر کی خفیہ تاریخ‘(The Secret History of the American Empire)اور ’ایک اقتصادی قاتل کے اعترافات‘ (Confessions of an Economic Hit Man) کا مطالعہ تجویز کرتا ہوں۔

مگر یہ کہنے کی ضرورت پھر بھی باقی ہے کہ مخالفت کی وہ بڑھتی ہوئی لہر جس کی جانب غنّوشی نے اشارہ کیا، اس کے باوجود سمیّہ کے والد راشد الغنّوشی اور شوہر رفیق عبدالسلام کی رہنمائی میں چلنے والی بظاہر ’اسلامی‘حزب النہضۃ کی قیادت میں قائم ہوئی تیونس کی نام نہاد ’انقلابی ‘ حکومت……اور مصر، لیبیا اور یمن میں قائم نئے و پرانے آرڈرز (نظام و دستور) نے پچھلی حکومتوں کے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے اور امریکہ و یورپ اور دیگر خیراتی ممالک کی جانب سے مزید شرائط و پابندیوں میں لپٹی ہوئی خیرات وصول کرنے کے پرانے طور طریقوں کو جاری رکھنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے گزشتہ حکومتوں کی انسدادِ دہشت گردی کی جو پالیسیاں جاری و برقرار رکھی ہیں ان کا تو تذکرہ ہی نہیں، کہ یہ موضوع فی الحال کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ اور یوں انہوں نے عوام الناس کی ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو ایک حقیقی تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ درحقیقت انہوں نے محض اسی حاکم اشرافیہ کی واپسی اور انہی مخصوص اغراض و مفادات کے حصول کی راہ ہموار کی ہے کہ جن کو ڈھانے کی خاطر یہ بغاوتیں اٹھی تھیں۔

تاہم مغرب کے ایوان ہائے اقتدار میں اس امر پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ عالمی معاشی نظام فی الوقت اپنی تاریخ کے سب سے نازک مقام اورگھائل ہونے کی حالت میں ہے۔ بالخصوص عرب اور مسلم دنیا کے تغییر پذیر، زیر و زبر ہوتے حالات اور یورپ و امریکہ کے بے تحاشا اور مستقل بڑھتے ہوئے حکومتی قرضوں اور بجٹ کے بحران کی روشنی میں، کہ جن کے سبب مغرب بھی آج بڑے پیمانےپر سیاسی و معاشی انقلاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی قائدین آج مستقبل کی مغربی تہذیب پر اس نظام کے منفی اثرات مرتب ہونے کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں ، حتیٰ کہ بعض تو اس حد تک چلے گئے کہ اس نظام کو اساسی اعتبار سے ہی ناقص و خراب قرار دے دیا اور زمانہ قبل از بریٹن وُڈز3 کے اقتصادی نمونے کی طرف لوٹنے کی تجویز پیش کی۔ظاہر ہے کہ نئے سرے سے پورے اقتصادی نظام کی تعمیر و اصلاح کرنے کی اس تجویز پر عمل کرنے کا مطلب ہے مغرب کی عالمی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے استعمال کیے جانے والےبہت سے ایسےہتھکنڈوں سے ہاتھ دھولینا کہ جن کا نعم البدل ملنا ناممکن ہے، اور امریکہ اور اس کے حواری اس پر آمادہ ہوتے نظر نہیں آتے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ تھکا کر مارنے والی یہ جنگ جاری رہے گی اور ان شاء اللہ ان کے معاشی نظام کے ساتھ ساتھ ان کی عالمی سلطنت کی تباہی و بربادی پر منتج ہو گی۔

سب ہتھیاروں کی طرح معاشی ہتھیار بھی ایک دو دھاری تلوار ہے ، اور مغرب بھی اس تلوار کی اتنی ہی زد میں ہے جتنا کہ عالمِ اسلام۔تاریخی بے یقینی اور عدم استحکام کا یہ دور ہر مسلمان سے متقاضی ہے کہ وہ……چاہے وہ مرد ہو یا عورت…… اس لڑائی میں شامل ہو اور صلیبیوں اور صہیونیوں کے لیے زندگی کو تھوڑا سا مزید مشکل بنانے، زمین کو ان پر مزید تنگ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور یوں بالآخر ان کو آخری و قطعی شکست سے دوچار کرنے میں اپنا حصّہ ڈالے۔

آج اللہ رب العالمین کے فضل و کرم اور مجاہدین اور ان کے صاحبِ بصیرت قائدین جیسے امیر المؤمنین ملّا محمد عمر مجاہدؒ، شہید شیخ اسامہ بن لادنؒ اور ہمارے مجاہد امیرشیخ ایمن الظواہری کی قربانیوں اور ان کی استقامت کی بدولت عالمی کفر کا سربراہ امریکہ کمزوری و ضعف کے ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی اور جو اس سلطنتِ بد کی بنیادوں تک کے لیے ایک واضح خطرہ بن گیا ہے۔

اللہ کے فضل و احسان سے مسلمانوں نے امریکہ اور اس کے فسادیوں کے اتحاد کو کم از کم دو اہم معرکوں میں شکست سے دوچار کیا ہے۔ لیکن ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ عراق سے انخلا اور دریں سال افغانستان سے متوقع انخلا پوری دنیا میں جاری عالمی جنگ کا اختتام ہے4۔ پابندیوں اور مقاطعات میں جکڑی آفت رسیدہ امّتِ مسلمہ کے بے شمار علاقے آج کفار کے مقبوضات ہیں، فلسطین پنجۂ یہود میں جکڑا ہوا یہود کے رحم و کرم پر ہے، اور متبعینِ نبئ عربی محمدﷺ مغرب میں مالی، نائیجیریا اور سنٹرل افریقن ریپبلک سے لے کر مشرق میں شام و عراق، برما اور تھائی لینڈ تک…… کفار کی یلغار کی زد میں ہیں۔ مسلمان ہر طرف نو سامراجیت و آمریت، غربت ، جہالت و بے دینی اور کافروں اور مشرکوں کی اندھی تقلید اور اتباع میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں ہمارے سامنے جو راستہ منتظر ہے وہ کسی بھی اعتبار سے آسان یا سہل نہیں۔ لیکن اگر ہم میں سے ہر ایک دشمنانِ اسلام اور مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے والے ان جابروں کے خلاف جاری اس جنگ میں خلوصِ نیت کے ساتھ شریک ہو اور اس جدو جہد میں حصّہ ڈالے، اور اسی کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی میں پورے اخلاص کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرنے اور اپنے ارد گرد کے افراد کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کرنے کی کوشش کرے تو ان شاء اللہ ربّ العزت ہماری کوششوں کو قبول فرمائے گا، ان میں برکت عطا فرمائے گااور ہمیں ہمارے نفس کے شر پر اور کفار پر فتح عطا فرمائے گا، ہمیں متحد و متفق کر دے گا اور اس خلافۃ اسلامیہ کو قائم کرے گا کہ جس کی خاطر ہم سرگرم و کوشاں ہیں۔

اے مسلمِ عزیز! دشمن پر فتح اور خلافت کے قیام کا راستہ محض مسلّح عمل تک محدود نہیں، بلکہ یہ ان تمام جائز طریقوں اور راستوں پر مشتمل ہے کہ جن کے ذریعے عسکری جدو جہد کو طاقت، نصرت اور مہمیز ملتی ہے اور جو مستقبل میں امّتِ مسلمہ کی فتح کی طرف لے جاتے ہیں۔ تو تاخیر مت کیجیے ، آج ہی سے جہاد میں اپنا کردار ادا کیجیے، چاہے وہ کردار عسکری ہو، مالی و اقتصادی ہو، تعلیمی و تربیتی ہو ،ترغیبی و تحریضی ہو یا کسی اور قسم کا۔ صابر اور ثابت قدم رہیے، اپنے ارد گرد اپنے بھائیوں اور ساتھیوں میں بھی صبر اور استقلال پیدا کیجیے کیونکہ یہ جنگ ابھی اپنے عہدِ طفولیت میں ہے۔

والحمد للہ ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭


1 شیخ عزام الامریکی نے یہ مضمون ۲۰۱۳ میں ضبطِ تحریر میں لایا تھا۔ للاسف پچھلے دس سالوں میں فلسطین کی حالت میں تبدیلی کے بجائے ابتری واقع ہوئی اور ابھی ۱۴۴۴ھ کے رمضان و شوال میں القدس اور غزہ پر ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ (ادارہ)

2 ۲۰۱۳ء میں تین سال قبل۔

3 بریٹن وُڈز کانفرنس : ۱۹۴۴ء میں اقوامِ متحدہ کی اقتصادی و مالیاتی کانفرنس جس میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف قائم کرنے کافیصلہ کیا گیا۔

4 سبحان اللہ وبحمدہ وسبحان اللہ العظیم، الحمد للہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ، آج افغانستان میں امریکہ مکمل شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔

Exit mobile version