مع الأستاذ فاروق | ستائیسویں نشست

ہدایات برائے اعلام اور امنیت کی اہمیت

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء.

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

پچھلی محفلِ مع الأستاذ فاروق میں پاکستان میں تبدیلی لانے کے لیے انٹرنیٹ کے منصوبوں کے حوالے سے کچھ گفتگو کی تھی اور حضرت الأستاذ کے ایک خط سے چند اقتباسات اور ترشید و ہدایات تحریر کی تھیں۔ محفلِ ہٰذا میں بھی حضرت الأستاذ کے اسی خط سے چند اور باتیں پیش کرنے کی خواہش ہے۔حضرت کے اس خط میں کئی ایک قیمتی باتیں ہیں، لیکن چونکہ پہلے سے اعلام کا موضوع چل رہا ہے تو وہیں سے آغاز کرتا ہوں۔

ہمارے مرشد، ظہیر بھائی (اسامہ ابراہیم غوری شہید رحمۃ اللہ علیہ) نے اعلام کے حوالے سے چند شرعی سوالات استاذ سے پوچھے تھے۔ مرشد کا خط اور سوال تو میرے سامنے موجود نہیں، لیکن جوابوں کے مطابق اور پھر اس وقت چونکہ راقم مرشد کے ساتھ تھا تو اپنی یادداشت و حالات کے مطابق راقم یہاں اولاً سوال درج کرتا ہے ثم جواب جو استاذ نے لکھا۔ یہ سوالات استاذ نے ایک عالم (جن کا نام استاذ نے نہیں بتایا) اور اس وقت مرکزی تنظیم القاعدہ کے مسئولِ شعبۂ اعلام شیخ ابو عبد الرحمٰن المغربی سے پوچھے تھے اور استاذ شہید کی بھی اپنی رائے یہی تھی، فلہٰذا یہ جوابات ایک فتویٰ ہیں جو من و عن نقل کیے جا رہے ہیں ، البتہ پروف کی غلطیاں درست کر دی گئی ہیں ، جوابات واوین میں درج کر دیے گئے ہیں اور قوسین میں وضاحتی اضافے راقم کے ہیں۔

سوال: کیا اعلامی مقاصد کے لیے ہاتھ سے تصویر بنانا جائز ہے؟

جواب: ’’اعلامی مقاصد کے لیے خود ہاتھ سے تصاویر مت بنائی جائیں۔‘‘

سوال: ہاتھ سے بنی ہوئی ایسی تصاویر جو ہم نے نہ بنائی ہوں بلکہ کسی اور نے بنائی ہوں (مثلاً امریکی ڈالر کے نوٹ پر مختلف شخصیات کی تصویریں بنی ہوئی ہوتی ہیں) ان کا استعمال کیسا ہے؟

جواب: ’’ پہلے سے بنی ہوئی تصاویر کو استعمال کر لیجیے، خواہ سوفٹ فارم میں موجود تصاویر ہوں یا پھر ہارڈ کاپی میں موجود کسی تصویر کو سکین کر کے یا کیمرے سے اس کی تصویر کھینچ کر اسے استعمال کر لیا جائے۔ یاد رہے کہ (مرکزی)السحاب سے نشر ہونے والی چیزوں میں (مرکزی)السحاب کی پالیسی یہی ہے کہ وہ ہاتھ کی تصویر کے استعمال سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ دروازہ کھولیں گے تو باقی جہادی سٹوڈیو ان کی اتباع کریں گے اور نجانے وسعت اختیار کرتے کرتے کہاں تک جائیں۔ نیز اگر مجبوراً کہیں استعمال کرنی پڑے تو (مرکزی) السحاب کے بھائی اس میں چہرے مٹا کر استعمال کرتے ہیں۔ البتہ آپ کو آپ کے کام کے لیے جو اجازت دی ہے وہ اس لیے ہے کہ السحاب کا نام نہیں آ رہا۔ نیز آپ لوگوں کو یہ جواز دینے کا ایک شرعی پس منظر یہ ہے کہ عرب دنیا کا ’المجد ‘ اسلامی ٹی وی چینل علماء کی ایک لجنہ سے باقاعدہ فتاویٰ لے کر چلتا ہے اور وہ تصاویر استعمال کرتا ہے۔ نیز شیخ محمود رحمہ اللہ (شیخ عطیۃ اللہ اللیبی شہید) بھی ایک بھائی کو کارٹون فلمیں بنانے کی اجازت دے چکے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ‘‘

سوال: کیا اپنی اعلامی اصدارت (productions: ویڈیو، آڈیو، پوسٹر سازی و تحریر)میں دشمنانِ دین کا تمسخر اڑانا، پھبتی کسنا، تذلیل کرنا، ہجو کہنا جائز ہے؟

جواب: ’’ رہی بات دشمنان ِدین کا تمسخر اڑانے، پھبتی کسنے، تذلیل کرنے، ہجو کہنے کی تو تین آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی اجازت ہے کیونکہ اصلاً کفر کرنے کے بعد کفار کی کوئی کرامت و حرمت باقی نہیں بچتی، خواہ وہ کفارِ اصلی ہوں یا مرتدین۔ یہ تین آداب درج ذیل ہیں:

أ۔  ان کا مذاق اڑانے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہ لیا جائے، یعنی جھوٹی بات کہہ کر ان پر ہنسانے کی کوشش نہ کی جائے۔ وہی بات کہیں جو حقیقت پہ مبنی ہو۔

ب۔  نہ خود سے ان کے متعلق کوئی فحش بات کہیں، نہ ان کی کوئی فحش بات یا فعل تفصیل سے نقل کریں کہ اسے نقل کرنا خود فحاشی پھیلانے میں داخل ہو جائے۔

ج۔  تغییر خلق اللہ کے مرتکب نہ ہوں یعنی ان کی تصاویر، چہرے وغیرہ نہ بگاڑیں…… یعنی چہرے کو لمبا چھوٹا چوڑا وغیرہ نہ کریں…… البتہ کسی مکمل عضو کو بدل کر اس کی جگہ کسی جانور کا عضو لگا دینا اس سے خارج ہے، جیسے پرویز (مشرف)کا سر کتے پر لگانا یا کتے کا سر پرویز پر…… اس کا جواز شیخ محمود رحمہ اللہ (شیخ عطیۃ اللہ اللیبی شہید)دے چکے ہیں کیونکہ یہ جانور ان انسان نما چوپایوں سے افضل ہیں اور ہم ان انسانوں کی ساخت سے چھیڑ چھار نہیں کر رہے بلکہ عملاً اسے تصویری طور پہ کتا قرار دے رہے ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم۔

باقی، یہ بات فرق (مختلف)ہے کہ جب بات خالصتاً مجاہدین کی طرف سے یا ان کے کسی آفیشل سٹوڈیو (رسمی ادارے)سے آ رہی ہو تو ہم مصلحتاً کس انداز کو اختیار کرنا نامناسب سمجھیں یا اپنے اخلاق سے پست تر سمجھیں۔ آپ کے موجودہ پراجیکٹ1 میں بہرحال اس کام کی گنجائش ذرا زیادہ ہے۔‘‘

حضرت الأستاذ نے جب ’الطریق إلی التغییر‘ کے منصوبے کو اساسی طور پر تبدیل کرنے کا حکم دیا2 تو ساتھ ہی استاذ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں تبدیلیٔ منصوبہ کا سن کر ظہیر بھائی فوراً واپس قبائل کی طرف آنے کا نہ سوچیں۔ اس لیے دو اسباب سے استاذ نے ظہیر بھائی کو قبائل کی طرف آنے سے منع کیا۔ پہلا تو یہ کہ منصوبے کو بدلا جا رہا ہے لیکن جس نئے نہج پر منصوبے کو چلانے کی بات کی جا رہی ہے تو یہ نہج کی تبدیلی ہے انٹرنیٹ و سوشل میڈیا پر مجاہدین کی اعلامی فعالیت کو ختم کرنے کی بات نہیں، بلکہ اس کی تو اشد ضرورت ہے۔ اس امر کی ۲۰۱۲ء میں بھی شدید ضرورت تھی کہ انٹرنیٹ پر خصوصاً سوشل میڈیا پر مجاہدین جو عالمی جہاد کے فکر و منہج سے واقف ہوں تو وہ عالمی جہاد کے فکر و منہج کے مطابق نئے اور غیر رسمی ناموں سے بھی دعوت چلائیں تا کہ

اس نہج و اسلوب پر صائب دعوت کی ضرورت و اہمیت کس قدر ہے سمجھنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ جس وقت ان منصوبہ جات کے لیے اعلامی ساتھیوں کی تشکیلات کی گئیں تو شعبۂ اعلام کی مرکزی ٹیم میں کل پانچ ساتھی تھے، ظہیر بھائی خود(بطورِ امیر)، داود غوری بھائی(حفظہ اللہ)، ہشام گل بھائی، ابو محمد بھائی (حفظہ اللہ)اور راقم اور ان میں سے تین افراد کو اس کام کے لیے وقف کر دیا گیا جو کہ غیر رسمی تھا۔

جس طرح اس انداز و اسلوبِ دعوت کی ضرورت ۲۰۱۲ء میں ’شدید‘تھی تو آج ۲۰۲۳ء میں اس انداز و اسلوب کی عالمی جہاد کے فکر ومنہج کے مطابق ضرورت ’اشد‘ ہے۔

سبحان اللہ! عجیب بات ہے کہ انتہا کی کوکھ سے انتہا ہی جنم لیتی ہے۔ کل اگر افراط تھا تو بعد میں یہ تفریط میں بدلنا شروع ہو گیا۔ کل اس افراط سے داعشی خوارج پیدا ہوئے جن سےناحق قتلِ مسلم، بھتہ خوری اور غیر صائب و غیرِ مصلحت افعال سرزد ہوئے تو بعد میں بعض ایسے لوگ پیدا ہوئے جو جا جا کر عالمی کفر کی اتحادی فوج کے سامنے تسلیم ہو گئے، انہوں نے اپنے شہید ساتھیوں کے خون اور اسیر ساتھیوں کی قربانیوں سے بے وفائی کی اور پشاور و ملتان میں خفیہ ایجنسیوں سے سیف ہاؤس وصول کیے اور منہجِ جہاد سے ایسے دستبردار ہوئے کہ عزیمت و عظیمت کے راہیوں کے متعلق بری زبان استعمال کرنے لگے اور مجاہدین کی صفیں توڑنے کی بھی کوشش کی، اور ایسے لوگ ان کی صفوں سے برآمد ہوئے جنہوں نے جہادی دعوت و اعلام کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گویا باطل کے ہم رکاب ہو گئے۔

اعلام جہاد کا حساس ترین شعبہ ہے کہ اعلام بیک وقت دعوت و قتال دونوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ ایک عرب عالمِ دین کا قول ہے کہ ’اعلام کے مجاہد کا رباط، خطرناک ترین رباط ہے کہ ذرا یہ راہ سے پھسلا تو ساری دعوت بھی ساتھ ہی راہ سے پھسل گئی‘۔ اعلامی مجاہد کے زبان و قلم سے ایک بات نکلتی ہے اور مقاتل ساتھی کی گولی وہیں جا کر لگتی ہے جسے اعلامی کے زبان و قلم نے ہدف بنایا ہوتا ہے ۔ ۲۰۱۳ء کی بات ہے کہ راقم السطور ’الطریق إلی التغییر‘ سے وابستہ تھا اور ظہیر بھائی کے ساتھ تھا تو ایک ماہ کے لیے راقم کا قبائل و افغانستان کی طرف جانا ہوا۔ وہاں ایک محترم شہید ساتھی سے اس بات پر بحث ہو گئی کہ بعض عسکری ساتھی قتال وغیرہ میں احتیاط نہیں کرتے۔ جواباً ان ساتھی نے مجھے کہا کہ عسکریت کے لیے ایک خاص عسکری یا فوجی مزاج کی ضرورت ہوتی ہے اب آپ جیسے اور سراقہ بھائی3 جیسے لوگوں تو کارروائی کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا ناں! راقم یہ سن کر خاموش ہو گیا اور جب ظہیر بھائی کے پاس واپسی ہوئی تو یہ واقعہ میں نے ظہیر بھائی کو سنایا۔ جواباً مرشد ظہیر بھائی کہنے لگے کہ میں سمجھتا ہوں کہ سراقہ بھائی جیسے لوگوں کو میدانِ قتال میں ایسے لوگوں کی نسبت اتارنا چاہیے جن کے سامنے مفاہیمِ جہاد اور قتلِ ناحق کے مسائل واضح نہ ہوں کہ اگر محض عسکریت کی بنیاد پر ساتھیوں کو اتارا جائے اور وہ فکر و منہج اور ہدایاتِ شریعت سے مبرا ہوں تو پھر وہی ہوتا ہے جو ہو رہا ہے (غالباً مرشد شہید نے اس گفتگو کے بعد داتا دربار دھماکوں کی بات کی جن میں پچاس سے زیادہ عام لوگوں کو جاں بحق کردیا گیا)۔

بہر کیف، بات یہ ہورہی تھی کہ استاذ نے ظہیر بھائی کو پاکستان میں ہی رہنے کی تاکید اس لیے کی تا کہ دعوت کا کام آگے چلتا رہے۔ جبکہ دوسرا سبب امنیات تھا۔ استاذ مشائخ کی ہدایات کی روشنی میں چاہتے تھے کہ جس قدر ساتھی قبائل خصوصاً وزیرستان سے باہر محفوظ رہ سکیں اچھا ہے۔ حضرت الأستاذ نے ظہیر بھائی کو لکھا:

’’ آپ چنددن گزارنے کے لیے برائے مشاورت یہاں آنا چاہیں جیسا کہ آپ نے پہلے ذکر کیا تھا تو اور بات ہے [گو کہ ایسا کرنا بھی ضروری نہیں]لیکن مکمل واپس منتقلی کا ابھی فوری نہ سوچیں تو اچھا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکی انتخابات میں بس چھ ماہ باقی ہیں، اور پاکستانی انتخابات میں بھی تقریباً آٹھ ماہ ۔ یہ چند ماہ بہت ہی نازک ہیں۔ اوباما جانے سے قبل زیادہ سے زیادہ بڑے کارنامے دکھا کر اور ہمارا مکمل علاج کر کے جانا چاہتا ہے تاکہ انتخابات میں کامیاب ہونے کے لیے اس کے پاس کوئی پتے موجود ہوں اور اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرے گا۔ نیز یہ خدشہ اسے بھی ہے اور شاید پاکستانی فوج کو بھی ہو کہ نئے پاکستانی انتخابات کے بعد آنے والی حکومت اور انتخابات کے بعد کی فضا کسی فوجی آپریشن اور امریکہ سے تعاون کے معاملے میں کتنی سازگاریا ناساز گار ہوگی؟ اس لیے فوج بھی شاید اس مرحلے پہ کچھ کرنا چاہے اور بظاہر اطلاعات بھی اسی امر کی تصدیق کرتی ہیں کہ فوج کم ازکم محدود پیمانے کا آپریشن تو چاہتی ہے۔ اس اعتبار سے بھی میری خواہش ہے کہ اگر آپ کے لیے اگلے چند ماہ نیچے محفوظ انداز سے گزارنا ممکن ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ کام چاہے ٹکے کا نہ ہو، لیکن آپ محفوظ رہیں، یہ اس مرحلے میں میرے نزدیک زیادہ اہم ہے۔ امید ہے آپ ناراض ہوئے بغیر میری اس درخواست پہ غور کریں گے۔ صاحبِ صبح و قندیل (شیخ ایمن الظواہری)نے بھی یہاں سے رش کم کرنے اور ساتھی اِدھر اُدھر تقسیم کرنے کا پیغام دیا ہے ۔ یہاں باہمی ربط، ملاقاتیں، نقل و حرکت کافی مشکل ہو چکی ہے۔ (میران شاہ)بازار اب ہر دوسری جگہ سے زیادہ خطرناک ہو چکا ہے جس کے سبب بازار کو بڑی حد تک چھوڑ دیا ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ باہمی ربط کو مشکل بناتا ہے۔ ایسے میں اگر آپ کے لیے وہاں ہی کچھ عرصہ اپنی ٹیم سمیت اطمینان و امنیت سے گزارنا ممکن ہو تو بہت اچھی بات ہے۔ شیخ اسامہ رحمہ اللہ کے خطوط پر اگر آپ کی نگاہ پڑی ہو تو شاید وہ بھی آپ کے دل کو اس آپشن پہ مزید جما دیں۔ شیخ کا اصرار رہا کہ ساتھیوں کو یہاں سے نکال کر نیچے اتارا جائے اور یہ مفروضہ نہ قائم کیا جائے کہ نیچے اترنا لازماً گرفتاری کے مترادف ہے ، بلکہ احتیاط کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی رہا جا سکتا ہے اور بے احتیاطی کے ساتھ انسان جنگلوں و پہاڑوں میں بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اور اصل حفاظت تو رب تعالیٰ کی ہے۔ اللہ آپ کی ہر شر سے حفاظت فرمائے، محفو ظ رکھے، اپنے دین کی مزید خدمت آپ سے لے اور آپ کی صحبت و رہنمائی سے مجھے محروم نہ کرے، آمین۔ ‘‘

درج بالا اقتباس میں اس جملے ’ کام چاہے ٹکے کا نہ ہو، لیکن آپ محفوظ رہیں، یہ اس مرحلے میں میرے نزدیک زیادہ اہم ہے ‘کو جلی الفاظ میں لکھنا اور اس کے نیچے کشیدہ گیا خط، استاذ ہی کی جانب سے ہے۔ تحریکات کی زندگی میں بعض مواقع ایسے آتے ہیں جہاں افراد کا محض بچ جانا، تحریک کے فعال ہونے سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ تحریکِ مجاہدین کو سیّد احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بعد مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی رحمہما اللہ کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو عَلَمِ جہاد کو گرنے نہ دیں، اس دعوت و تحریک اور فکرو منہج کی حفاظت کریں جو ان کے اسلاف نے چھوڑا ہوتا ہے اور اگلی نسل کے اہل وارثوں کو منتقل کر دیں ۔ راقم کی دانست میں استاذ کا اشارہ بھی اسی جانب ہے اور مشائخِ القاعدہ نے ہمیشہ اس نقطے کو ملحوظ رکھا ہے اور اسی نقطے کے حصول و اتمام کے لیے مختلف صلاحیتوں کے حامل ساتھیوں کو دنیا بھر میں بکھیر رکھا ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے دین کا ولی و ناصر اللہ ﷻ ہے، اصل کامیابی اس کی رضا کا حصول ہے اور اسی کو اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کس قدر خوبصورتی سے بیان کیا ہے:

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

اب اس کشور کشائی کو ظاہری معنیٰ میں لیں کہ سرزمینیں فتح کرنا یا معنوی معنیٰ میں لیں کہ سرزمنیوں پر شریعت اور اللہ کے دین کو نافذ کر دینا، یہ دونوں مقاصد اللہ کی رضا اور اللہ کے بتائے دین و منہج کے مطابق محنت کرنے کے بعد کےہیں۔

البتہ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تحریکاتِ اسلامی کا اصل ایندھن قربانی ہوتا ہے خصوصاً شہادتیں اور خون، جس قدر یہ زیادہ ہوں اس قدر تحریکِ اسلامی آگے بڑھتی ہے، جو تحریکات اور ان میں موجود افراد اپنا اس قدر بچاؤ کریں کہ خون بچا بچا کر رکھیں تو یہ خون مثلِ فاسد خون ہو جاتا ہے جو تحریک کو ایک ساکت تالاب میں بدل دیتا ہے، دِل مردہ کی مانند جو وینٹی لیٹر سے زندگی حاصل کرتا ہو۔

محفلِ استاذ کو یہیں روکتے ہیں، اللہ پاک اس سلسلے کو راقم سمیت تمام امت کے لیے نافع بنائیں، ہمیں گناہوں سے محفوظ رکھیں اور عمداً و خطاءً جو گناہ ہم سے سرزد ہو جائیں تو انہیں اپنے فضلِ خاص سے معاف فرما دیں، آمین یا ربّ العالمین!

وما توفیقي إلّا بالله. وآخر دعوانا أن الحمد للہ ربّ العالمین.

وصلی اللہ علی نبینا وقرۃ أعیننا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین.

(جاری ہے، ان شاء اللہ)


1 موجودہ پراجیکٹ سے مراد ’الطریق إلی التغییر‘ ہے جس کے متعلق پچھلی نشستِ استاذ میں بات ہو چکی ہے۔

2 پچھلا حاشیہ ملاحظہ ہو۔

3 مولوی حافظ محمد سعد شہید رحمۃ اللہ علیہ جو دار العلوم کراچی کے فاضل عالمِ دین، ایک ہونہار اور عبقری طالبِ عالم اور مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔ آپ کو میدانِ جہاد سراقہ کے نام سے جانتا ہے، حضرت الأستاذ کے محبوب شاگرد اور راقم کے بلا تکلف دوست و ساتھی تھے۔ ۲۰۱۵ء میں قندھار، افغانستان میں امریکی و امریکی غلام مرتد افغان فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

Exit mobile version