پندرہویں صدی ہجری کی ابتدا اس حال میں ہوئی کہ امت مسلمہ تین صدیوں کی غلامی، کسمپرسی اورذلت کے بعدعزت،رفعت ،عروج اور بلندی کے سفر کو شروع کر رہی تھی۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت سے ایسا ماحول میسرہوا کہ منہج نبویؐ کے مطابق جہادو قتال کے میدان آراستہ ہونے لگے۔افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کاآغاز ہوا۔اس جہادی سفر کے مسافرشرق و غرب کے مسلمان نوجوان ٹھہرے۔قافلۂ جہاد کے نقیب شیخ عبداللہ بن عزام شہیدؒکی پرسوز دعوت اوراجلے کردار کااثر تھا کہ امت کے ابطال سرفرازیٔ دین کے لیے افغانستان کے محاذ پرجمع ہونے لگے۔اِنہی نوجوانوں میں ایک نمایاں نام شیخ اسامہ بن لادن شہیدرحمہ اللہ کا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نصرت وتائید کے ساتھ مجاہدین سرخ ریچھ کے مقابل صف آرا ہوئے اور بالآخر سوویت یونین ، افغانستان سے اس حالت میں ناک رگڑتا ہوافرارہوا کہ اُس کے اپنے حصے بخرے ہوگئے ۔عرب وعجم کے مجاہدین نے اس مبارک جہاد کے بعدبیٹھ رہنا قبول نہیں کیا بلکہ ’مصنوعی خداؤں‘ کونابودوناپیدکرنے کے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی ترتیب دی۔اُنہوں نے امریکہ کی صورت میں موجود ’واحدسپر پاور‘ کو اپنا اگلاہدف بنایا تاکہ دنیا سے طاغوت کی فرماں روائی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرسکیں اوراللہ کے دین کوکرۂ ارض پر نافذکرسکیں۔
شیخ عبداللہ عزام رحمہ اللہ کی شہادت کے بعداب اس قافلۂ سعید کے روح رواں شیخ اسامہ بن لادن قرار پائے۔آپ نے اپنی تمام صلاحیتیں اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہرطرح کے وسائل جہادوقتال کے میدانوں میں لاکرڈھیر کردیے۔یوں اللہ رب العزت نے عصرِ حاضر کے ہبل کوتوڑنے کے لیے ’جیش اسامہ‘کوکھڑا کیا۔شیخ کو یقینی طور پر محسن ِ امت قراردیا جاسکتا ہے۔ان سطورمیں ہم شیخ رحمہ اللہ کے چند نمایاں کارناموں کا اجمالی تذکرہ کریں گے۔یہاں تو شیخ کے کارہائے نمایاں کا اجمالی تذکرہ ہی ہوسکتا ہے۔شیخ رحمہ اللہ نے جو معرکے سرکیے اُن کامفصل اورجامع احوال تو اُن کے نامۂ اعمال میں ہی درج ہوگا ،جو اُن کے رب کے پاس محفوظ ہے اور کچھ عجب نہیں کہ ربِ کائنات نے اُن کا اعمال نامہ حاملین عرش اورفرشتوں کے سامنے فخریہ انداز میں نمایاں کیا ہو کہ
؏یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے
مسلمانوں کو احساس عروج دینا اور امریکہ کی بالادستی ختم کرنا:
شیخ نے اپنی جدوجہد اورتمام تر کوششوں کا محور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارک کو رکھا ،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الاسلام یعلوا ولا یُعلیٰ علیہ.‘‘
’’اسلام ہمیشہ بلند ہے ،کوئی چیز اس پر برتری نہیں رکھتی ہے ۔‘‘
مسلمان جو جہادافغانستان (اول)سے پہلے دنیا بھر میں مظلومی اورمقہوری کی زندگی بسر کر رہے تھے۔اسلام کا نام لینا خود کو نکّو بنانے کے مترادف تھا،اسلامی تعلیمات پر عمل کرناعیب سمجھاجاتا تھا،اپنے اسلاف کے ذکر سے اجتناب ہی میں عافیت جانی جاتی تھی…… لیکن جہاد افغانستان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ذہنی غلامی کے اس ماحول کو بدل کررکھ دیا۔ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد امریکہ اسلام کے مقابل آیا تو شیخ نے مسلمانوں میں یہ روح پھونکی کہ ’بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے‘۔اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے جو عزت،عروج، تمکنت، بالادستی، علو اور برتری کے وعدے کیے ہیں ……ان وعدوں کی تکمیل جہادوقتال کے میدانوں میں ہی ہوتی ہے۔لہٰذاشیخ نے امت کے نوجوانوں کویہ وعدے ازبرکروائے اور ساتھ ہی میادینِ جہاد کی جانب رخ کرنے اورقرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق قتال کے فریضے کو سرانجام دینے کی دعوت دی۔آپ فرماتے ہیں:
’’آج امت مسلمہ کو جن مصائب وآلام کا سامنا ہے،وہ اللہ کے دین اور جہاد کو چھوڑ دینے کا براہ راست نتیجہ ہے۔ایک صحیح حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’جب تم سُودی تجارت(عینہ)کرنے لگو گے اورگائے بیلوں کی دُمیں پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی (کی زندگی)میں (مگن ہوکر) مطمئن ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تمہارے اوپر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو اس وقت تک نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹ آؤ‘۔یہ حدیث بالکل واضح ہے اور ہم سب پر حجت تمام کردیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ذلت کی یہ چادر انہی وجوہات کی بناپر ہمارے اوپر تانی ہے۔اور یہ اس وقت تک نہیں اٹھائی جائے گی جب تک ہم اپنے دین کی طرف واپس پلٹ نہیں آتے۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو!یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ دین کی طرف رجوع ،کبیرہ گناہوں سے اجتناب اور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ اختیار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں!اگر ہم چاہتے ہیں کہ دین صحیح بنیادوں پر قائم ہوتو ہمیں رہ نمائی اورمنہج، قرآن و سنت ہی سے لینا ہوں گے اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمیں واضح طور پر سمجھا دی گئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں اس طرح جہادکیا کہ جہاد کا حق ادا کردیا،دین کی بھرپور تبلیغ کی اور اس بارِ امانت سے سبکدوش ہوکردنیا سے رخصت ہوئے۔‘‘
اسی طرح شیخ نے امریکی بالادستی کے خاتمہ کے لیے بھی اہم کردارادا کیا۔ایسا کردار…… جو تاریخ میں مرقوم رہے گا……جس کردار کی روشنی میں امت مسلمہ کی آنے والی نسلیں ہر طاغوت سے انکارکرنے اورفراعینِ عصرکی رعونت کو خاک میں ملانے کو اپنافرض ِاولین سمجھیں گی۔
سوویت روس کے خاتمے کے بعد امریکہ ’یک قطبی‘ دنیا (Unipolar world) کے لیڈر ہونے کادعوے دار بنا۔اسی عرصہ میں نیوورلڈ آرڈر کا نیا رُوپ متعارف کروایا گیا،جس کی رو سے دنیا میں وہی قانون چلے گا جو امریکہ چاہے گا،دنیا میں اُسی کاچلن ہوجسے امریکہ پسند کرے گا،دنیا میں وہی پنپ سکے گا جوامریکہ کی آنکھ کا تارا ہوگا…… الغرض دنیا کااوڑھنا بچھوناامریکی اشاروں ہی کے مرہونِ منت ہوگا۔لیکن خالق ِ کائنات کے سامنے سربسجودہونے والے خدائی کے اس دعوے دار کوپرِ کاہ کی حیثیت دینے کو تیار اورآمادہ نہیں تھے۔اسی لیے سوویت یونین سے فارغ ہونے کے معاًبعد مجاہدین نے اپنی تمام ترتوجہات کا مرکز امریکہ اوراُس کے باطل نظام کو بنایا۔وہ امریکہ جو ناقابلِ تسخیر گردانا جاتا تھا……مجاہدین کے حملوں کی زد میں آگیا۔شیخ کے ہاتھ میں ان مجاہدین کی قیادت تھی جو امریکہ کی خدائی کاانکار کرکے ربِ واحد کی توحیدکودنیا میں عملاًرائج و نافذ کرنا چاہتے تھے۔شیخ ؒنے ایسے وقت میں امریکہ کو للکارا جب ساری دنیا اُس کے احکامات کے آگے ’دُم ہلاؤ‘ پالیسی اپنائے ہوئے تھی۔آپ نے امریکی عوام کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ان شاء اللہ ہم امریکہ سے لڑتے رہیں گے،امریکہ کے اندر اور باہر شہیدی حملے جاری رکھیں گے یہاں تک کہ تم ظلم سے بازآجاؤ،حماقتیں ترک کردو اور اپنے کم عقل حکمرانوں کو لگام دو۔یاد رکھو!ہم اپنے شہدا کو ہرگز نہیں بھولتے،خصوصاً وہ جو فلسطین میں تمہارے حلیف یہودیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم ان کا بدلہ تمہارے ہی خون سے وصول کریں گے،اسی طرح جیسے یومِ تفریق(گیارہ ستمبر)میں ہم نے کیا تھا ۔جب تک ہمارے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھانے کی سکت ہے ہم تمہارے خلاف لڑتے رہیں گے۔اور ہمارے بعد ہماری اولاد یہ ذمہ داری سنبھالے گی۔ہماری مائیں ہم پر روئیں اگر ہم اپنی سرزمین میں تمہارے ناپاک وجود کا ایک ذرہ بھی باقی رہنے دیں!!!‘‘
شیخ ؒ امت کے نوجوانوں کو تسلسل کے ساتھ امریکہ کے مقابل آنے کے لیے ابھارتے رہے۔اسی تحریض کانتیجہ گیارہ ستمبر کے معرکوں کی صورت میں سامنے آیا۔ جب دنیا نے ’ناقابل شکست اورناقابل تسخیر امریکہ‘ کی تہذیبی عظمتوں کے نشان ورلڈ ٹریڈ سنٹرز کو زمین بوس ہوتے اور اُن کے ناقابل رسائی پنٹاگان کی عمارت کو خاک میں ملتے دیکھا۔شیخ ؒ ؒ نے اللہ تعالیٰ ہی کی مدداورنصرت کے ذریعے امریکہ کا ہوّا، جو اُس نے کئی دہائیوں کی محنتوں کے بعدپیدا کیا تھا، کو ہوا میں اڑا کررکھا دیا۔آپ ؒ نے فرمایا:
’’سوویت اتحاد کی شکست کے بعدامریکہ ’’واحد سپر پاور‘‘ کے طور پر سامنے آیا اور دیگر اقوام پر اپنا سیاسی تسلط جمانے لگا،ہمارے نام نہاد مسلمان حکمران اُس کے سامنے پہلے سے بھی زیادہ خشوع وخضوع کے ساتھ جھک گئے ،اس کی وجہ سے وہ مزید جری ہوکرصہیونی عزائم کی تکمیل کے لیے فلسطین میں مزید تباہی پھیلانے لگ گیا۔ایسے میں اس امت کے بیٹوں کی ایک مختصر سی جماعت نے اس ہٹلرِ زمانہ،ایک سینگ والے وحشی درندے کے خلاف جہاد کاعلَم بلند کیا۔ ہم نے اُس کے غرور کا سینگ توڑ ڈالا،اُس کے قلعے کو مسمار کردیااوراُس کی عظمت کے مینار کو زمین بوس کرکے رکھ دیا۔اس کے جواب میں وہ اس زعم میں کہ وہ مجاہدین کی قیادت کو زندہ یا مردہ اپنے کٹہرے میں لا کھڑ اکرے گااور دنیا کے سامنے نشان ِ عبرت بنا دے گا،ہم پر حملہ آور ہوا۔اُس وقت اس کی حالت بالکل ابوجہل جیسی تھی جو بدر کے دن اپنی جنگی اور عددی قوت پر اتراتے ہوئے نکلا تھا۔لیکن ہم نے اُس کا ہتھیار کندثابت کردکھایا،اُس کی فوج کو جہنم کا ایندھن بنا ڈالااوراُس کی جمعیت کو پارہ پارہ کردیااوربہرحال یہ سب کچھ اللہ وحدہ لاشریک کے فضل وکرم ہی سے ہوپایا۔‘‘
امریکیوں کی بزدلی اورمیدانِ جنگ سے فرار کی راہ اپنانے کے متعلق شیخ ؒنے کیا خوب فرمایا:
’’ہم نے گذشتہ عشرے میں امریکی حکومت کا زوال اور امریکی فوج کی کمزوری دیکھی ہے جو سرد جنگ لڑنے کے لیے تو تیار ہے لیکن طویل جنگیں لڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔ یہ بات بیروت میں ثابت ہوئی تھی جہاں میرینزصرف دو دھماکوں کے بعد بھاگ کھڑے ہوئے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں سے کم میں میدان چھوڑ کر بھاگ سکتے ہیں، اور یہی بات صومالیہ میں بھی دہرائی گئی۔ہم ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار ہیں۔ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں۔‘‘ (امریکی صحافی جان ملر کے ساتھ انٹرویو:۱۹۹۸ء )
دنیا بھر میں امریکیوں کے خوف سے لرزنے والوں کے لیے شیخ ؒ ؒ کے اس قول میں بہت سبق پوشیدہ ہے،اپنے اس بیان میں شیخ امریکی ’’بہادری‘‘کاتذکرہ اس طرح فرماتے ہیں:
’’تمہاری یہ جعلی جرأت بیروت میں ۱۴۰۳ھ میں ہونے والے دھماکوں کے بعد کہاں گئی جن مین تمہارے دو سو اکتالیس فوجیوں جن میں زیادہ تر میرینز تھے، کی ہلاکت نے تمہارے پرخچے اڑا دیے تھے،اورتمہاری یہ جعلی بہادری عدن میں کہاں گئی تھی جب صرف دو دھماکوں نے تمہیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چوبیس گھنٹوں کے اندر وہاں سے فرارہونے پر مجبور کردیا تھا۔
مگر تمہاری سب سے بڑی اور بدترین ذلت کا مقام صومالیہ تھا،جب امریکی طاقت اور سرد جنگ کے بعد امریکی نیوورلڈآرڈر کی سرداری کے دعووں پر کئی مہینوں تک چلنے والی بہت بڑی پراپیگنڈا مہم کے بعد تم نے بین الاقوامی فوج کے لاکھوں فوجی صومالیہ میں داخل کیے،جن میں اٹھائیس ہزار امریکی فوجی بھی شامل تھے۔مگر معمولی لڑائیوں میں کچھ درجن فوجیوں کی ہلاکت اوراپنے ایک پائلٹ کے موغادیشو کی سڑکوں پر گھسیٹے جانے کے بعد تم اپنے کندھوں پر شرمندگی،نقصان اور خوف و ہراس کابوجھ اٹھائے، مایوسیاں، ذلت اور شکست اور اپنے مردہ فوجیوں کی لاشیں اپنے دامن میں سمیٹے وہاں سے فرار ہوگئے۔ اور کلنٹن پوری دنیا کے سامنے ان دھمکیوں اور وعدوں کے ساتھ نمودار ہوا کہ وہ انتقام لے گا جبکہ یہ دھمکیاں صرف فرار کا ایک بہانہ ثابت ہوئیں،اور پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر ذلت مسلط کی اور تم وہاں سے بھاگے اور تمہاری کمزوری اور نامردی کی انتہا ہوگئی۔ان تین اسلامی شہروں بیروت،عدن اورموغادیشو میں تمہاری ذلت آمیز شکست خوردگی کے منظر نے ہر مسلمان کے دل کوراحت بخشی اور مومنوں کے سینوں کے لیے شفا بن گیا۔‘‘(دومقدس مقامات کی سرزمین پر قابض امریکیوں سے اعلان جہاد)
مسجد اقصیٰ کو دنیا کا مسئلہ نمبر ایک بنانا:
شیخ ؒنے مسجد اقصیٰ کو دنیا کا اولین مسئلہ گردانا اوربالآخر تمام دنیا سے منوایا کہ مسئلہ فلسطین سب سے اہم مسئلہ ہے۔آپ ؒ نے امت مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے امت مسلمہ!بے شک فلسطین اور اس کے باشندے تقریباً ایک صدی سے یہودو نصاریٰ کے ہاتھوں فتنہ و فساد برداشت کر رہے ہیں۔ان دونوں گروہوں نے ہم سے فلسطین مذاکرات کے ذریعے نہیں بلکہ طاقت کے زور پر حاصل کیا ہے۔لہٰذا اس کی واپسی کا راستہ بھی یہی ہے کیونکہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کفار کا زور توڑنے کا راستہ واضح کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ تُکَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اللّٰہُ أَن یَکُفَّ بَأْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَاللّٰہُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنکِیْلاً(سورۃ النساء:۸۴)
’چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی راہ میں لڑیں،آپ صرف اپنی ہی ذات کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں اور آپ مومنوں کو رغبت دلائیں،امید ہے کہ اللہ کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ بہت سخت ہے لڑائی میں اور بہت سخت ہے سزا دینے میں۔‘
اس لیے قتال اور اس کی ترغیب کے ذریعے ہی کفار کا زور ٹوٹے گا۔
بیت المقدس کے جہاد اور اُن کے مابین رکاوٹ بس اتنی سی ہے کہ وہ شرکیہ جمہوریت کے دھوکے میں غرق جماعتوں اور گروہوں کے افکار کو ترک کردیں اور برسرپیکار مجاہدین کی صفوں میں شامل ہوکر اپنے مورچے سنبھال لیں۔امداد باہمی کے اس جذبے اور اللہ پر خالص توکل کی بدولت ہی نصرت ِ الٰہی کا حصول ممکن ہے۔پھر اسی کے نتیجے میں اقصیٰ کی بابرکت سرزمین کی جانب پیش قدمی ہوگی اور باہرسے آنے والے مجاہدین اندر موجودمجاہدین کو مضبوط کریں گے۔ وہ ہمارے لیے حطین کی یاد دوبارہ سے تازہ کریں گے اور اللہ کے حکم سے اس عظیم نصرت سے مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوگی۔‘‘
شیخ ؒ ؒ نے گیارہ ستمبر کی مبارک کارروائیوں کی بنیادی وجہ بھی فلسطین ہی کو قرار دیا۔آپؒ نے ان کامیاب معرکوں کے بعد امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے تاریخی الفاظ میں قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا:
’’میں اُس اللہ عظیم و برتر کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے آسمان کو بغیر ستون کے بلند فرمایا۔ نہ تو امریکہ اور نہ ہی امریکہ والے سکون کا سانس لے سکیں گے،جب تک ہم حقیقی معنوں میں فلسطین میں امن و سکون سے نہیں رہیں گے اورجب تک ارض محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام کافر فوجیں نکل نہیں جاتیں۔‘‘ (معرکہ گیارہ ستمبرکے بعد خطاب)
اہل فلسطین کو حوصلہ دیتے ہوئے اور اُن کی ہمت بندھاتے ہوئے آپ ؒ نے یہ تاریخی الفاظ کہے:
’’ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ تمہارے بچوں کا خون ہمارے بچوں کا خون ہے اورتمہارا خون ہمارا خون ہے،پس خون کا بدلہ خون سے اور تباہی کا بدلہ تباہی سے لیا جائے گا۔ہم رب العزت کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ یا تو ہمیں فتح حاصل ہوجائے یا پھر ہم اُسی انجام کا مزہ چکھ لیں جو حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا۔ہم تمہیں یہ خوش خبری بھی سنانا چاہتے ہیں کہ اسلام کی نصرت کے لیے لشکر چل پڑے ہیں اوریمن سے آنے والی مددونصرت بھی ان شاء اللہ اب رکنے نہ پائے گی۔‘‘(جدید صلیبی جنگیں حصہ اول)
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:
’’ہم اللہ کے حکم سے فلسطین کے بالشت بھر حصے سے بھی ہرگز دست بردار نہ ہوں گے،جب تک اس زمین پر ایک بھی سچا مسلمان بستا ہے۔جو کانٹا بوئے گا وہ انگور کی فصل نہیں کاٹ سکتا۔‘‘(اسرائیلی غاصبانہ قبضے کے ساٹھ سال اورخطے میں محاذ آرائی کی وجوہات:مغربی عوام کے نام پیغام، ۱۴۲۹ھ)
بلادِ حرمین پر امریکی قبضہ کونمایاں کرنا:
مسجد اقصیٰ اور فلسطین پر قبضے کے بعد صلیبی وصہیونی اتحاد نے سرزمین حرمین کی طرف اپنے ناپاک قدم بڑھائے۔۱۹۹۰ء میں کویت پر عراق کے قبضے کوآڑ بناتے ہوئے امریکی افواج سعودی نظام حکومت کی غداری کے باعث سرزمین حرمین میں داخل ہوگئیں۔اورآج بھی حرمین شریفین کے قرب و جوار میں ناپاک امریکی موجود ہیں۔ جب کہ حال یہ ہے کہ امت مسلمہ کی اکثریت اس معاملہ سے بالکل لاتعلق ہے۔اُنہیں سرے سے احساس ہی نہیں کہ بیت اللہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزمین پر کیا بیت رہی ہے۔آل سلول (جزیرۃ العرب پر مسلط حکمران طبقہ)کا سردارآج بھی امت کے بیشتر افراد کی نظر میں ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ ہے۔شیخ ؒ ؒفرماتے ہیں:
’’آج امت کا سب سے گہر اگھاؤ وہ ہے جو دشمنوں نے اس کے مقدس ترین مقام،اللہ کے گھر……بیت عتیق……خانۂ کعبہ کی سرزمین پر لگایا ہے……اس سرزمین پر جہاں ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔اس سے پہلے ہماری ہی غفلتوں اور اغیار کی سازشوں نے ہم سے ہمارا قبلۂ اول اور واقعۂ معراج کی یادگار،مسجد اقصیٰ چھنوائی۔آج صلیبی صہیونی اتحاد ہمارے دوسرے مقدس مقام،سرچشمۂ اسلام،سرزمین حجاز میں اپنے ناپاک پنجے گاڑ چکا ہے۔اور یقیناً ہمارے پاس اللہ بزرگ و برتر کے سوا کوئی بچاؤ اور قوت نہیں۔بلاشبہ ہمارے باقی زخم بھی رِس رہے ہیں لیکن سرزمینِ مکہ و مدینہ پر لگنے والا یہ گھاؤ سب سے زیادہ تکلیف دہ اور سب سے زیادہ ہیبت ناک ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر آج تک، اس امت کی پوری تاریخ میں ہم پر کبھی اتنی بڑی مصیبت نہیں ٹوٹی۔کفارکوکبھی بھی یہ جرأت نہیں ہوئی تھی کہ وہ اللہ کے گھر کی طرف ہاتھ بڑھائیں۔آج یہ مقدس زمین امریکی فوجیوں کی چراگاہ اور یہودونصاریٰ کی خبیث عورتوں کے لیے تفریح گاہ بن چکی ہے۔ یہ ناپاک وجود اُس زمین کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں جو ہمارے محبوب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش ہے،جہاں جبرائیلِ امینؑ آسمان سے وحی لے کر،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتے تھے۔آخرکب تک مسلمان اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی نصرت اور اس کے گھر کے دفاع سے غافل ہوکر بیٹھے رہیں گے؟دنیا بھر کے اہل ایمان آخر کب اٹھیں گے؟ کب صلیبیوں اور صہیونیوں کی نجاست سے اس مقدس زمین کو پاک کریں گے؟یہ تو اللہ رب العزت کا حکم ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَـذَا(سورۃ التوبۃ:۲۸)
’’اے ایمان والو!مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں!پس وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔‘‘
کیا مسلمان بھول گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے مرض الموت میں ایسا ہی حکم صادر فرمایا تھاکہ
’’اخرِجُواالْمُشْرِکِیْنَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَب.‘‘
’’مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دو!‘‘
امریکی افواج کو سرزمین مکہ و مدینہ میں داخل ہوئے دس سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے(یاد رہے شیخ کی یہ تقریر۲۰۰۰ء کی ہے)۔اللہ کی قسم !آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی جزیرۂ عرب کے قید خانوں میں بند ہیں جب کہ امریکیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزمین میں دندنانے کی عیش اُڑانے کی کھلی چھٹی ہے؟!کیا لوگوں کے سینوں میں ایمان کی کوئی رمق باقی نہیں بچی؟کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے لیے لوگوں کی غیرت ختم ہوگئی؟‘‘ (اے اللہ صرف تیرے لیے)
حرمت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تحفظ:
آج صلیبی ممالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت جیسے جرم عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ امت مسلمہ سے متعلق ہرفرد کا دل اس حوالے سے زخمی ہے۔شیخ ؒ ؒ نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے قراردادوں،جلسوں،مظاہروں اورنعروں کے پرفریب جال کی طرف دعوت دینے کی بجائے عملی اقدامات کرنے کی طرف توجہ دلائی اور کفار کو جری انداز میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تمہاری اظہار رائے کی آزادی کا کوئی اصول نہیں تو پھر ہمارے افعال کی آزادی کے لیے بھی اپنے سینے کھلے رکھو۔ یہ بات عجیب اور اشتعال انگیز ہے کہ تم نرمی اورسلامتی کی بات کرتے ہو حالاں کہ تمہارے فوجی ہمارے ملکوں میں ناتواں لوگوں تک کا مسلسل قتلِ عام کر رہے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ تم نے یہ خاکے شائع کیے جوکہ جدید صلیبی حملے کا ایک حصہ ہیں اور ’’ویٹی کن‘‘ میں بیٹھے پوپ کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ تمام چیزیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ تم مسلمانوں سے ان کے دین پر جنگ جاری رکھنا چاہتے ہو اور یہ جاننا چاہتے ہو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اپنے جان ومال سے زیادہ محبوب ہیں یا نہیں؟ لہٰذا اب ہمارا جواب اب تم سنو گے نہیں بلکہ دیکھو گے اور ہم برباد ہوں اگر ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت نہ کریں۔ اور سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔‘‘ (یورپ کے عقل مندوں کے نام)
جہاد کو امریکہ اور اُس کے حواریوں کے اثرات سے پاک کرنا:
شیخ کا ایک بڑا کارنامہ موجودہ دور میں جہاد جیسے اہم فریضے کو تمام طواغیت کے اثرات سے پاک کرنا ہے۔سوویت یونین کے خلاف جہاد کے آخری چند سالوں میں بعض مجاہدتنظیموں کی طرف سے امریکی امداد اورپاکستانی وسعودی نظام ہائے مملکت کے تعاون کو قبول کرنے کے نتیجے میں جہاد جیسے مقدس فریضے پر بھی طعنہ زنی کی جانے لگی۔کفر کے ذرائع ابلاغ نے پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا کہ سوویت یونین کو امریکی ڈالروں اور سٹنگر میزائلوں کی مددسے شکست دی گئی۔وہ مجاہدین جنہوں نے روس کے خلاف جہاد شروع کیا اور بے سروسامانی اورفاقہ مستی کے عالم میں کامل ایک دہائی تک روسی افواج کا مقابلہ کرتے رہے‘ اُن کی سعی و جہدکو منظرِ عام سے ہٹا دیا گیا۔اب جہاد بھی ’امریکی برانڈ‘ مشہور ہونے لگا۔اسی کا نتیجہ تھا کہ جہادکشمیر کو پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے یرغمال بنا لیا۔
شیخ اور اُن کے ساتھیوں نے جہادِ اسلامی کے پاکیزہ ماتھے سے امریکی بدنما داغ مکمل طور پر دھو ڈالا۔آپ ؒ نے دنیا کو بتایا کہ جہاد افغانستان اول میں بھی عرب و عجم کے مجاہدین نے بے پناہ قربانیوں کے بعد محض اللہ تعالیٰ کی مدد،تائید اور نصرت کے سہارے دنیا کی عظیم ترین طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھااورپھرآپ نے بالفعل امریکہ کو دعوت مبارزت دے کر اس پراپیگنڈے کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی کہ امریکی ڈالروں کے بغیر جہاد ہوہی نہیں سکتا۔آپ اور آپ کے ساتھیوں نے تن تنہا ،صرف اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکہ کے خلاف جہاد کیا۔امریکہ اور نیٹو اتحاد کو آپؒ نے اللہ کی مددومعیت سے شکست کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ایک ایسا میدان جس میں ایک طرف امریکہ تھا،اُس کی ٹیکنالوجی تھی،اُس کے صلیبی اتحادی تھے،اُن کی افواجِ قاہرہ تھیں، امریکہ کے غلام ، مسلم خطوں کے مرتد حکمرانوں کا ٹولہ تھا،اُن کی خفیہ ایجنسیاں اوران کی افواج تھیں، لیکن دوسری طرف، غزوۂ احزاب کی یاد تازہ کرتے مجاہدین کامختصر سا گروہ تھا،مٹھی بھر چنوں اورچند کھجوروں پرکئی کئی دن بِتانے والے فاقہ مست تھے،پرانی بندوقوں اور دیسی بموں سے ’’لیس‘‘ مجاہدین فی سبیل اللہ تھے،سخت ترین موسم کی صعوبتیں برداشت کرنے والے مہاجرین تھے،اپنے جسموں کو بموں میں تبدیل کرلینے والی فدائی مجاہدین تھے اورپھر چشمِ عالم نے دیکھاکہ جنہوں نے سوکھی روٹی قہوہ کے ساتھ کھا کر روس کو دریائے آمو کے پار دھکیل دیا تھا ، آج وہی اللہ کے بندے امریکہ اور اُس کے پورے کفری اتحاد کو تگنی کا ناچ نچا رہے ہیں، شیخ ؒنے دنیا کو کھلی آنکھوں سے وہ منظر دکھلا دیا ،جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا
فضائے بدر پیدا کرفرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندرقطار اب بھی
امیر المجاہدین شیخ نے بدرکی فضا پیدا کی،اُحدکے میدان کا نقشہ دہراتے ہوئے اپنے قریب ترین ساتھیوں کے جسموں کے پرخچے اڑتے دیکھے اورآیت قرآنی کے مصداق جب یہ معاملہ ہوا :
الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ (سورۃ اٰل عمران:۱۷۳)
’’وہ لوگ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے میں لشکر جمع کر لیے ہیں۔ تم ان سے خوف کھاؤ ۔‘‘
تو اُن کا حال آج بھی یہی تھا
فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ(سورۃ اٰل عمران: ۱۷۳)
’’تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے ۔‘‘
احزاب کی طرح جب اُن کی نظرکفار کے اتحادی لشکروں پرپڑی توقرآنی الفاظ اُن پر صادق آئے:
وَلَمَّا رَأَی الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا ہَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَصَدَقَ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَمَا زَادَہُمْ إِلَّا إِیْمَاناً وَتَسْلِیْماً (سورۃ الاحزاب: ۲۲)
’’اور ایمان داروں نے جب (کفار کے) لشکروں کو دیکھا (تو بے ساختہ) کہہ اٹھے! کہ انہی کا وعدہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا اور اس (چیز) نے ان کے ایمان میں اور شیوۂ فرماں برداری میں اور اضافہ کر دیا۔‘‘
اس کے نتیجے میں وہ فساق وفجار جو جہاداورفلسفۂ جہادپرچاند ماری کرتے تھے ، منہ میں انگلیاں دبائے ،حیران و ششدر امریکی اتحاد کی شکست خوردگی کو دیکھ رہے ہیں۔ شیخ نے ثابت کیا کہ سابقہ افغان جہاد میں بھی امریکی مددوتعاون کے بغیر مجاہدین نے خالص اللہ کی نصرت سے فتح و کامرانی حاصل کی تھی اور موجودہ جہاد میں بھی فقط اللہ ہی کی طاقت، قوت ،مدداوربھروسے پر مجاہدین کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔
الولاء والبراء کا مفہوم امت کو سمجھانا:
عقیدہ الولاء البراء کو جس قدر شیخ ؒ ؒ نے اپنی جہادی تحریک کی بدولت عام کیا، اس کی مثال سقوطِ خلافت کے بعد ملنا محال ہے۔الولاء والبراء کے عقیدے پر مصلحتوں، عیش کوشیوں اور ہوائے نفس کی دبیز تہہ جم چکی تھی۔اس قدر حساس عقیدہ عمومی طور پر عدم توجہی اوربے اعتنائی کاشکار تھا،آپ ؒنے دوستی اور دشمنی کے معیارکے اسلامی فہم کو عام کیا۔اپنی گفتگوؤں،تقاریر اور پیغامات میں اس اہم ترین عقیدہ کی نزاکتوں اور جزیات پر سیرحاصل گفتگو فرمائی اور امت مسلمہ کواس جانب متوجہ کیا کہ وہ اپنی پسند وناپسند، دوستی و دشمنی ،موالات و معادات اورولایت وبرأت کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔آپ ؒ فرماتے ہیں:
’’عقیدہ الولاء البراء اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ہے۔یعنی ہم اسی سے دوستی کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کادوست ہو اور اسی سے دشمنی کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہو۔لیکن منافق اور درہم و دینار کے بندے،ہر حق وباطل میں بادشاہ کی پیروی کرتے ہیں۔جس سے یہ (بادشاہ)دوستی کرے وہ ان کا دوست اور جو اس کا دشمن وہ ان کا دشمن ہوتا ہے۔کیا کسی انسان میں،یوں اپنے عقل و ضمیر کے خلاف چل کر بھی کوئی انسانیت باقی رہ سکتی ہے؟کیا ’’ایک اچھا شہری‘‘ بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے دین سے ناتا توڑ لیں اور اپنی عقلوں پر پردے ڈال لیں؟‘‘(اے اللہ صرف تیرے لیے)
ایک اور جگہ آپؒ فرماتے ہیں:
’’میں اللہ رب العزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو شخص بھی بش اور اس کے منصوبے کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اُس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو رد کردیا۔اوریہ حکم اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے واضح ترین احکامات میں سے ہے۔اور میں یہ نصیحت کرتا ہوں ،جیسا کہ اس سے قبل میں نے اور بہت سے علما نے بھی یہ نصیحت کی ہے اور میرے اس دعوے کا ثبوت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے یہ الفاظ ہیں،جو اُس نے سچے مومنین کو خطاب کرکے فرمائے ہیں:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ(سورۃ المائدۃ:۵۱)
’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے۔‘‘
علمائے حق نے فرمایا ہے کہ جو کوئی بھی کفار سے دوستی کرتا ہے،اُنہیں اپنا محافظ اور سرداربناتا ہے تو وہ کفراختیار کرتا ہے۔اور اُن کے ساتھ دوستی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اُن کی جدوجہدکی حمایت منہ سے کی جائے یا بحث ومباحثہ سے اور تحریروں سے کی جائے۔پس جس کسی نے بھی مسلمانوں کے خلاف بش اور اُس کی مہم کاراستہ اختیار کیاتو اُس نے کفر کیا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ اور اُس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ اورمندرجہ بالا آیت کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیْہِمْ یَقُولُونَ نَخْشَی أَن تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ فَعَسَی اللّہُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِہِ فَیُصْبِحُواْ عَلَی مَا أَسَرُّواْ فِیْ أَنْفُسِہِمْ نَادِمِیْنَ وَیَقُولُ الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَہَـؤُلاء الَّذِیْنَ أَقْسَمُواْ بِاللّہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ إِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فَأَصْبَحُواْ خَاسِرِیْنَ (سورۃ المائدۃ۵۲،۵۳)
’’آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے ، وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں خطرہ ہے، ایسا نہ ہو کہ کوئی حادثہ ہم پر پڑ جائے ، بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح دے دے یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز لائے پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر (بے طرح) نادم ہونے لگیں گے اور ایماندار کہیں گے، کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال غارت ہوئے اور یہ ناکام ہوگئے۔‘‘
ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ ’’بہت سارے صحابہؓ کو معلوم نہ تھا کہ منافقین کا سردارعبداللہ بن اُبی کافر تھا۔جب مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان بات بڑھتے بڑھتے بگڑ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں سزا دینے کا فیصلہ کیاتو عبداللہ بن اُبی منافقین کا سردار، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے آگیااور اُس نے یہودیوں کی حمایت کی ۔اس وجہ سے یہ آیات نازل ہوئیں‘‘۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی مسلمان جب کفار کے ساتھ دوستی کرتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف ان کی مددکرتا ہے تو وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے اسلام سے خارج ہوکر کافر اور مرتد ہوجاتا ہے۔کیونکہ جس طرح وضو کے نواقض ہوتے ہیں اسی طرح ایمان کے بھی نواقض ہیں،جن کا مرتکب ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔اور کفار سے دوستی اور اہل اسلام کے خلاف ان کی مدداسلام سے خارج کردینے والے اعمال میں سے ایک ہے۔
لہٰذا جو لوگ کافروں کو اپنا سردار،دوست اور نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو وہ بلاشک وشبہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کافر ہیں اوریہ آیت اس بات کی مضبوط دلیل ہے کہ جن لوگوں نے کفار کواپنا امام بنایا وہ مرتد ہوگئے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(سورۃ المائدۃ:۵۴)
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر، سخت اور تیز ہوں گے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا بھی نہ کریں گے یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے۔‘‘
لہٰذا میں مسلمانوں پر واضح کرتا ہوں کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں سے نفرت کریں اوراس بارے میں نہایت محتاط رہیں اور جو کوئی بھی محض ایک لفظ سے اُن کی حمایت کاارتکاب کرے وہ اللہ سے سچی لگن ظاہر کرتے ہوئے توبہ کرے اور اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے ہوئے اپنے ایمان کا ازسرنواقرار کرے۔‘‘ (جدیدصلیبی جنگیں)
اسلامی خطوں میں شریعت اسلامیہ کے نفاذ کی دعوت:
شیخ اسامہ بن لادن ؒ نے اپنی پرسوز دعوت کے ذریعے اس پیغام کو عام کیا کہ اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمان اپنے اپنے ملکوں اور خطوں میں دین کو بطورنظام نافذ کرنے کے لیے جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے میدانوں کارخ کریں۔مرتدین کے خلاف قتال کی شرعی حیثیت کو مکمل شرح و بسط سے واضح فرمایا۔مسلمانوں پر مرتد حاکم کے مسلط ہونے جیسی مصیبت ِ کبریٰ کی صورت میں عملی راہوں پر نکلنے اور اُس حاکم کاتخت الٹ دینے جیسے احکامات سے آگاہ کیا۔آپؒ نے اجتماعی طور پر اس فرض کو ادا کرنے پر ابھارااور ہرفرد کو انفرادی خطاب کرکے بھی اُس کافرض یاد دلایا۔آپؒ نے فرمایا:
’’اے اللہ کے بندے!اگر تم اللہ کے دین کے خلاف لڑنے والوں کی صف میں کھڑے پائے گئے تو کل کو اپنے رب کو کیا جواب دو گے؟وہ تو طاغوت کی راہ میں قتال کررہے ہیں اور تم اپنے ہتھیاراور زبان سے ان کی نصرت کررہے ہو۔آخر اس بات کا تمہارے پاس کیا جواب ہوگا کہ تم اللہ کے دشمنوں کوتو اچھا کہو اور مجاہدین پر الزام تراشی کرو؟بالکل اسی طرح جیسے وائٹ ہاؤس میں بیٹھا اُس کا فرماں روا اُن پر دہشت گرد اور تخریب کار ہونے کا الزام لگاتا ہے۔جب تم سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا دین کیا ہے تو کیا تم اس وقت جھوٹ بولو گے؟حالاں کہ اس وقت جھوٹ تمہارے کچھ کام نہ آئے گا۔اگر آپ یہ کہیں گے کہ میرا دین اسلام ہے لیکن آپ اس کے جھنڈے کی جگہ اس کے خلا ف برسرپیکار اوبامہ اور زرداری کے جھنڈے تلے کھڑے پائے جائیں تو کیا آپ کا دعویٰ تسلیم کیا جائے گا؟لوگ تو اپنے جھنڈوں اور ان گروہوں کی نسبت سے پہچانے جاتے ہیں جن سے ان کی دوستی اور محبت ہو۔اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ آپ کس کے جھنڈے تلے کھڑے ہیں۔ مجاہدین ، روس اورا س کی آلۂ کار افغان فوج کے ساتھ بیک وقت لڑتے تھے کیونکہ دونوں کا حکم ایک جیسا تھا۔پاکستان اور دیگر ممالک کے علما نے ان کے خلاف قتال کے فتوے بھی دیے،چاہے وہ نماز پڑھتے رہیں،روزے رکھتے رہیں اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے رہیں۔اہلِ بصیرت کے لیے اس میں عبرت کی بہت نشانیاں ہیں۔آج پاکستانی فوج کا حال بالکل ویسا ہی ہے۔ یہ فوج اور امریکہ ایک ہی صف میں کھڑے اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ ایمان کے سچے دعوے داروں پر فرض ہے کہ وہ ان کے خلاف عَلَمِ قتال بلند کریں۔‘‘ (پاکستانی قوم کے نام پیغام:’’شریعت یا شہادت‘‘)
آپؒ نے مزید فرمایا:
’’مفتی نظام الدین شامزئی ؒ نے (گیارہ ستمبرکو)نیویارک پر ہونے والےمبارک حملوں کے بعدجاری کردہ اپنے مشہور فتوے میں لکھا:
’اگر ایک اسلامی ملک کا حاکم بلادِ اسلامیہ پر حملے میں کسی کافر کی مدد کرے تو شریعت کی رو سے مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اسے حکومت سے بزور ہٹائیں اور اسے شرعاًاسلام اور مسلمانوں کا غدارگردانیں۔‘
پس اے اسلامیان پاکستان!بلاشبہ مفتی نظام الدین شامزئیؒ نے اپنے کاندھے پر موجود بھاری ذمہ داری کا حق اداکردیا تھا۔آپؒ نے ڈنکے کی چوٹ پر کلمۂ حق کہا اور مخلوق کی ناراضی کی کچھ پروا نہ کی اور اپنی جان و مال کو خطرے میں ڈالتے ہوئے پرویز مشرف کے بارے میں اللہ کا حکم پوری وضاحت سے بیان کرڈالا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا غدار ہے اور اسے ہٹانا واجب ہے۔یہی وہ فتویٰ ہے جس نے پرویز اور اس کے امریکی آقاؤں کو غصہ دلایا اور میرے خیال میں مفتی صاحبؒ کا قاتل بھی ان کے سوا کوئی نہیں۔مفتی نظام الدین شامزئیؒ اپنا فرض اداکرکے چلے گئے اور بہت سے علمائے سُو کے رویے کے برعکس حق بات کو باطل سے نہیں بدلا۔لیکن ہمارے حصے کا فرض اب بھی ہم پرباقی ہے۔اس فرض کی ادائیگی میں پہلے ہی ہم سے بہت تاخیر ہوچکی ہے کیونکہ یہ فتویٰ صادر ہوئے تو اب چھ سال گزر چکے ہیں (یہ بیان ۲۰۰۷ء کا ہے)۔پس ہمیں چاہیے کہ اب ہم اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں امید ہے کہ یوں اللہ میری اور آپ کی کوتاہی معاف فرمادیں گے۔‘‘(لال مسجد کی شہادت کے بعد بیان)
شیخ کے چند نمایاں کارناموں کایہ مختصر بیان ہے، وگرنہ شیخ کاشمارتاریخ انسانی کی اُن باوقارہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کیا اور پھر چاروں اطراف کی مخالفتوں کے باوجود اپنے لشکر کو فتح و کامرانی کے دروازوں پر چھوڑکراپنے رب کے ہاں پہنچ گئے۔اسلام کا یہ شیر، ربِ رحمن کی جنتوں میں پہنچ چکا ہے۔ اب وہاں اُس کی ضیافت کا انتظام خالق کائنات خود فرمائیں گے۔ اللہ کے اس غریب الوطن،غریب الدیاراورفی سبیل اللہ مہاجرکاابدی ٹھکانہ کیساہوگا؟ ہماری محدود سوچ اور ناقص عقل اُس کا تصور اوراحاطہ کرنے سے قطعی قاصر ہے ! اورپھر اُس ٹھکانے پر پہنچنے سے بھی پہلے اُس کا استقبال کرنے کوکون کون موجود نہیں ہوگا۔جسدخاکی سمندر میں بہا دیا گیا تو کیاغم ہے، اُس کی پاکیزہ روح کووصول کرنے کے لیے کس مرتبے کے فرشتے حاضر ہوئے ہوں گے۔پھر عرشِ الٰہی کے سائے تلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس سچے محب کے اوردین کے لیے سب کچھ لُٹا دینے والے اسلام کے بیٹے کااستقبال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جلو میں کریں گے،ان شاء اللہ !
میرے اللہ نے چاہا تو عنقریب ہمارے شیخ جنت کے بالاخانوں سے اپنے لشکر کی فتوحات کانظارہ کریں گے اور اللہ رب العزت اُن کی سعی و جہد کی حتمی کامیابی ، مجاہدین اسلام کی فتح یابی اورکفار کی ذلت وشکست کے مناظردکھا کر اُن کی آنکھیں مزید ٹھندی فرمائے گا،ان شاء اللہ۔
٭٭٭٭٭