اہلِ حق اور اہلِ باطل کے درمیان دورانِ معرکہ مشاورت نہیں ہوتی!

إن الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونعوذ باللّٰہ من شرور أنفسنا وسیئات أعمالنا من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ وأشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریکَ لہ وأشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ!

ہر تعریف اللہ کے لیے ہے ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور اس سے بخشش طلب کرتے ہیں، اور ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں!

میری امّتِ مسلمہ!

آج ہم (مسلم دنیا میں تبدیلی کے واقعات کے )اس عظیم تاریخی واقعے کا مشاہدہ کررہے ہیں اور اس خوشی ، سرور وتازگی اور فرحت میں آپ کے ساتھ شریک ہیں، آپ کی خوشی سے ہی ہماری خوشی اور آپ کے دکھ سے ہی ہمارا دکھ وابستہ ہے۔ یہ کامیابیاں آپ کو مبارک ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ کے شہداء پر رحمت نازل کرے اور زخمیوں کو صحت دے اور اسیروں کو رہا کرائے۔

ھلت بمجدبنی الإسلام أیام
واختفی عن بلاد العرب حکام

طوت عروش حتی جاءنا خبر
فیہ مخایل للبشری وأعلام

’’فرزندانِ اسلام کی عظمت کے ایام چمکنے لگے اور عرب ممالک سے وہ حکام غائب ہونے لگے جنہوں نے مسندیں سنبھالی ہوئی تھیں، حتیٰ کہ ہمارے سامنے ایسی علامتیں ظاہر ہونے لگیں جن میں خوش خبری کے پیغامات ہیں۔‘‘

مشرق سے آنے والی فتح کے آثار واضح تھے اور امت اس فتح کے لیے سراپاانتظار تھی ……اسی دوران ایک عجیب انقلاب کا سورج مغرب سے طلوع ہوگیا، اس کی کرنیں تیونس سے روشن ہوئیں تو اُنہوں نے امت کی آنکھوں میں اپنے لیے مانوسیت پائی ، لوگوں کے چہرے چمک اْٹھے، حکمران غصے میں لال پیلے ہونے لگے اور یہودبے بہبود، آنے والے خطرات سے دہشت زدہ ہو گئے…… طاغوت کے گرنے سے مسلمانوں پر چھائی ذلت، غلامی اور خوف وپسپائی کی تمام نشانیاں بھی مٹ گئیں ……اوراُنہوں نے حریت و عزت ، جرأت اورپیش قدمی کے اسباق دہرانا شروع کیے۔طواغیت سے آزادی کی چاہت لیے تبدیلی کی ہوائیں چل پڑیں۔ تیونس اس معاملے میں بازی لے گیا۔پھر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ کنعانہ (مصر) کے شاہ سوارتیونس کے باسیوں سے شمعِ آزادی کی ایک چنگاری تحریر سکوائر میں لے آئے،یہاں بھی ایک عظیم تبدیلی رونما ہوئی، اورتبدیلی بھی کیسی! یہ تبدیلی مصر اور تمام امت کے لیے اس شرط پر عطا ہوئی ہے کہ یہ اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ یہ تبدیلی طعام و لباس کی تبدیلی نہیں بلکہ یہ عزت وغیرت کی تبدیلی تھی، جودوسخاکی تبدیلی تھی، جس نے نیل کے شہروں اور دیہاتوں کو زمین تافلک روشن کردیا، فرزندانِ اسلام کے سامنے ان کی عظمتوں کو آشکارا کردیا اور انہیں اپنے آباؤ اجداد کی تاریخ یاد دلا دی۔ وہ قاہرہ کے تحریر سکوائر میں مشعلیں تھامے کھڑے رہے تا کہ وہ ظالم حکومتوں پر قہر ڈھائیں ، انہوں نے باطل کے سامنے کھڑے ہوکر اسے مقابلے کے لیے دعوت مبارزت دی ، اس کے سپاہیوں سے ڈرے نہیں، انہوں نے عہد کیا اور پھر اسے پورا کیا۔اب حوصلے بڑھ رہے ہیں اور بازوؤں میں نئی قوت انگڑائیاں لے رہی ہے۔

ہر خطے میں طاغوت سے آزادی کے متوالوں کے لیے پیغام……

فتح کی طرف اٹھتے قدم رکنے نہ پائیں، مذاکرات کے جال میں پھنسنے سے بچیے اس لیے کہ اہل حق اور اہل باطل کے درمیان دورانِ معرکہ مشاورت نہیں ہوتی، ایساکبھی سوچیے بھی نہیں! یادرکھیے اللہ نے ان دنوں میں ملنے والی کامیابیوں کی صورت میں آپ پر احسان کیا ہے ،جن کے بعد آپ ہی ان کامیابیوں کے ثمرات کو سمیٹنے والے ہوں گے اورحالات کی لگام آپ کے ہاتھ میں ہی ہوگی ، امت نے آپ کواسی عظیم فتح کے لیے بچا رکھا ہے سواب بڑھتے رہیے اور تنگی ٔ حالات سے مت گھبرائیے۔

بدأ المسیر إلی الھدف
والحرفی عزم زحف

والحران بدأ المسیر
فلن یکل ولن یقف

’’ہدف کی جانب پیش قدمی شروع ہوچکی اور مردِحُرپختہ عزم کے ساتھ پیش قدمی کرنے لگا ہے۔اور جب مردِ حُر پیش قدمی کرنے لگے تو پھر نہ وہ تھکتا ہے اور نہ ہی وہ رکتا ہے ۔‘‘

یہ قافلہ نہیں رکے گا جب تک کہ اللہ کے اذن سے مطلوبہ اہداف حاصل نہ ہوجائیں اور امت کی امیدیں برنہ آئیں ۔ یہ تبدیلی سنگِ میل کی حیثیت کی حامل ہے ، مجروحوں اور زخمیوں کی امیدوں کا مرکز ہے ، آپ نے امت سے ایک بڑی مصیبت دور کی ہے اللہ آپ کےمصائب دور کرے ، آپ امیدوں کے محور ہیں، اللہ آپ کی امیدیں برلائے۔

وقف السبیل بکم کوقفۃ طارق
الیأس خلف والرجزء أمام

وترد بالدم عزہ أخذت بہ
ویموت دون عرینہ الضرغام

من یبذل الروح الکریم لربہ
دفعا لباطلھم فکیف یلام

’’تم رات کے مسافر کی مانند ہو،جو مایوسی پیچھے چھوڑ آیا ہے اورجسے صبح کی امید ہے ۔خون بہے گا تبھی کھوئی ہوئی عزت واپس ملے گی ۔ شیراپنی کچھارکے بچاؤ میں جان دے دیتا ہے تو جو اپنی پاکیزہ جان اپنے رب کی رضا کے حصول میں باطل کو پیچھے دھکیلنے میں کھپادے، اُسے کیوں کرملامت کی جا سکتی ہے؟‘‘

اے فرزندانِ امت!

تمہارے سامنے پر خطر راستوں کا چوراہا ہے، اور امت کی یہ بیداری، اسے اللہ سے باغی حکمرانوں کی خواہشات ، اُن کے وضع کردہ قوانین اورصلیبی تسلط کی غلامی سے آزادی دلانے کا تاریخی اور نادر موقع ہے۔ اس موقع کو ضائع کردینا بڑا گناہ اوربہت بڑی نادانی ہوگی کیونکہ امت اس موقع کی کئی دہائیوں سے منتظر تھی لہٰذا اس موقع کو غنیمت جانو، سارے بت توڑ ڈالو اور عدل وایمان کو قائم کردو۔

میں مخلص ساتھیوں کو یاد دہانی کراتا ہوں کہ ایسی مجلس کا قیام جوعامۃ المسلمین کو تمام اہم امور پر رائے اور مشورہ فراہم کرے ، شرعی طور پرواجب ہے۔ یہ مجلس اُن غیرت مند افراد کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے جنہوں نے بہت پہلے اِن ظالم حکومتوں کا جڑ سے خاتمہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا، ایسے افراد جنہیں عامۃ المسلمین کاوسیع تر اعتماد حاصل ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ ظالم حکام کے تسلط سے بچتے ہوئے اس منصوبے کو شروع کریں، اس پر فوری عمل درآمد کی سبیل نکالیں اورایسے گروہ ہمہ وقت موجود رہیں جوموجودہ واقعات کے تسلسل کو برقراررکھیں ۔اس کا مقصد یہ ہو کہ ایسے ہمہ جہت اقدام کیے جاسکیں جس کے ذریعے امت کے تمام مسائل حل ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ امت کے عالی دماغوں کی تجاویز سے استفادہ کیا جائے، اہلیت کے حامل تحقیقی مراکزاور اہلِ علم و معرفت میں سے فکر و فہم رکھنے والوں کی مدد حاصل کی جائے۔ اسی طرح اُن لوگوں کی نصرت کی جاسکتی ہے جوامت پر مسلط طواغیت کو زوال سے دوچار کرنے کی جدوجہد میں شریک ہیں، جن کے جگر گوشے قتل و غارت گری کا شکار ہو رہے ہیں۔اسی نہج پر کئی عشروں سے مسلط حکمرانوں اور ان کے قریبی افراد سے گلوخلاصی حاصل کرنے والی اقوام اس تبدیلی کے ثمرات کو سمیٹ سکتی ہیں اوراُنہیں اس کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات کی راہ نمائی فراہم کی جاسکتی ہے۔

ایسے ہی جن خطوں میں عامۃ المسلمین ابھی تک بیدار نہیں ہوئے اُنہیں بیداری کے لیے تیار کرنے،وہاں تبدیلی کے عمل کی ابتدا کرنے اور اس سے پہلے ضروری تیاریوں کے سلسلے میں ان کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ تاخیرسے موقع کھودینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جب کہ درست اورمناسب وقت سے پہلے پیش قدمی کی صورت میں زیادہ قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کی یہ ہوائیں باذن اللہ سارے ہی عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ چنانچہ نوجوانوں کوچاہیے کہ وہ اپنے اندرپیش آمدہ حالات سے پیدا ہونے والی صورت حال کے مطابق حکمتِ عملی وضع کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ کسی بھی حتمی اقدام سے قبل ایسے مخلص ماہرین سے ضرور مشورہ کرلیں جو نہ بیچ کی راہیں تلاش کرنے کے متمنی ہوں اور نہ ہی ظالم حکمرانوں کی چاپلوسی کرتے ہوں۔

الرأی قبل شجاعۃ الشجعان
ھو أول وھی المحل الثانی

’’بہادروں کی بہادری کے جوہر دکھانے سے پہلے مشورہ اہم ہے، کہ پہلے رائے یعنی مشاورت اور پھر بہادری کا مرحلہ آتاہے۔‘‘

اے میری محبوب امّتِ مسلمہ!

یقیناً آپ نہیں بھولے ہوں گے کہ چند دہائیوں قبل بھی کئی انقلابی مظاہرے ہوئے تھے ، لوگ ان سے بہت مسرور ہوئے مگرپھر کچھ ہی عرصے بعد انہیں ان کے ہولناک نتائج بھگتنا پڑے ، چنانچہ آج امّت کے اندر آنے والی تبدیلیوں کو بہکنے ،زائل ہونے اور ظلم سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ بنیادی حیثیت کے حامل تمام میدانوں میں شعوری کوشش کرکے طاغوت سے آزادی اور نظام کی تبدیلی کے درست مفاہیم زیادہ سے زیادہ اجاگرکیے جائیں۔ اُن میں سب سے اہم اسلام کا پہلا رکن توحیدہے، اور اس موضوع پر لکھی جانے والی اچھی کتابوں میں سے یہ کتاب ، جو استاذ محمد قطب کی تصنیف ہے ’’مفاہیم ینبغي أن تصحح‘‘ (وہ مفاہیم جن کی تصحیح ہونی چاہیے) کا مطالعہ از حد ضروری ہے1۔

ماضی میں فرزندان امت کی اکثریت کی طرف سے ہی وہ شعوری کوتاہی برتی گئی جس کے نتیجے میں یہ فسادزدہ تہذیب ہم پر مسلط ہوگئی اور اس تہذیب کی اقدار کو کئی دہائیوں سے ہمارے اوپر مسلط حکمران مستحکم کررہے ہیں ۔یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اور امت کے دیگر مصائب محض اسی المیے کے کڑوے پھل ہیں۔مغرب کی طرف سے مسلط کردہ اس تہذیب کے نتائج ہمارے حق میں بہت ہی بھیانک نکلے ہیں،ان نتائج میں ذلت ورسوائی، عاجزی و بے بسی ، اپنے اوپر مسلط حکمرانوں کی مکمل غلامی ، جو درحقیقت اللہ کے بجائے اُن کی عبادت کے مترادف ہے، اُن کے حق میں اہم دینی و دنیاوی حقوق سے دست برداری، تمام اعلیٰ اقدار ، اصول وضوابط اور شخصیات کو انہی حکمرانوں کے ذاتی محور کے گرد گھماناشامل ہیں۔چنانچہ یہ سب باتیں توانسان سے اس کی انسانیت تک چھین لیتی ہیں اور اسے حکمران اور اُس کی خواہش کے پیچھے بلاادراک و بصیرت بگ ٹٹ دوڑنے والابنا دیتی ہیں ۔نتیجتاً ہرفرد ایسا چاپلوس بن جاتا ہے،’اگر لوگ اچھا کریں گے تو وہ بھی اچھا کرے گا اور اگر لوگ براکریں گے تو وہ بھی برا کرے گا‘یہ فلسفہ اُس کی فطرتِ ثانیہ بن جاتا ہے۔ یہی چیز اُسے اُس پتھر جیسابنا دیتی ہے جو ٹھوکروں کی زد میں ہوکہ جس کے ساتھ حکمران جیسا چاہیں سلوک کرے۔ ہمارے ملکوں میں اسی قسم کے لوگ ظلم واستبدادکی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں، جنہیں حکمران اس لیے سڑکوں پر نکال لاتے ہیں کہ وہ اُن کے ناموں کے نعرے بلند کریں ،اُن کی حفاظت کے لیے مورچے مضبوط کریں۔ ان حکمرانوں کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ لوگ اپنے ان بنیادی حقوق سے بھی دست بردار ہوجائیں جو انہیں اللہ تعالیٰ نے عطافرمائے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کرلیں اور اہم امورِ عامہ میں ان کے کردار کومحدود کرنے کے لیے سرکاری دینی اداروں اور ذرائع ابلاغ کی باہم کوششوں کے ذریعے ایسا نظام وضع کیاجواُن (حکمرانوں کے افعال) کو قانونی رنگ دے۔ اُن کی چالوں نے لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں،اُن کی عقلوں کو ماؤف کردیا،’بلندعزائم‘ جیسے الفاظ کو اُن کے لیے اجنبی بنا دیا، ان میں حکمرانی کے بت کی عبادت کو رائج کیا ۔پھر جھوٹ اور بہتان سے کام لیتے ہوئے اپنے ان کریہہ افعال کو دین کا لبادہ بھی اوڑھا دیا اور وطن کے نام کی بنیاد بھی فراہم کی تاکہ لوگ ان کا احترام کریں ، انہیں اپنے دلوں کی گہرائیوں میں بٹھالیں،قوم کے اکابر انہیں مقدس قرار دیں،حتیٰ کہ وہ اطفالِ نوعمر بھی اس فتنہ سے محفوظ نہیں جو ہمارے ذمے امانت ہیں اور جو فطرت پر پیدا ہوئے ، اُنہوں نے شقاوت قلبی اوربے رحمی کے ساتھ اُن کی فطرت کو بھی چھین لیا۔انہی حالات کی ستم ظریفیوں میں جوان بوڑھا ہوگیا اوربچہ جوان ہو گیاجبکہ سرکش اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے، اور کمزور اپنی کمزوری میں اور بڑھ گئے۔

اب تم کس بات کا انتظار کررہے ہو؟! اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بچالو کہ اب موقع میسر ہے، خصوصاً اس لیے بھی کہ جوانان امت انقلابات کی تکالیف ومشکلات اور طاغوتوں کی گولیوں اور تشدد کو برداشت کررہے ہیں،پس انہوں نے قربانیاں دے کر راہ ہموار کردی ہے اور اپنے لہو کے ذریعے طاغوت سے آزادی کا پل قائم کردیا ہے۔ عمر کے بہترین حصے میں ان جوانوں نے ذلت اور مغلوبیت کی دنیا کو طلاق دے دی ، عزت یا قبر سے رشتہ جوڑ لیا۔ کیا جابر حکمران اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ اب عوام نکل کھڑی ہوئی ہے اوراب اس وقت تک نہیں لوٹے گی جب تک سارے وعدے پورے نہ ہوجائیں ،باذن اللہ تعالیٰ۔

آخر میں کہوں گا کہ ہمارے ممالک میں ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا اور ہم نے اس کا انکار اور مقابلہ کرنے میں بہت تاخیر کردی ہے لہٰذا اب جو شروع کرے تو اسے پوراکرے ، اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گااورجس نے اب تک شروع نہیں کیا تو وہ حالات کے مطابق تیاری کرے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صحیح حدیث میں غور کریں جس میں انہوں نے فرمایا:

«مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ، وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ» رواه مسلمٌ في صحيحه

’’مجھ سے پہلے اللہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کی امت میں سے ان کے حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوئے، جو ایسی باتیں کہتے، جن پر عمل نہیں کرتے تھے اور وہ کام کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، جو ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے اور جو ان سے دل سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

’’سیدالشھداء حمزہ بن عبدالمطلب ،ورجل قام إلی إمام جائر فأمرہ ونھاہ فقتلہ.‘‘

’’شہداء کے سردار حمزہ بن عبد المطلب ہیں اور وہ شخص بھی جو جابر حکمران کے سامنے کھڑا ہواور اسے (نیکی کا ) حکم دیا اور (برائی سے ) منع کیااوراس (حکمران) نے اُسے قتل کر دیا۔‘‘

جو اس عظیم ارادے سے نکلا اسے مبارک باد، کہ اگر وہ قتل کیا گیا تو سید الشہداء ہے اور اگر وہ زندہ رہا تو عزت وآبرو اور غیرت وحمیت کے ساتھ رہا، لہٰذا حق کی مدد کریں اورذرا بھی پریشان نہ ہوں۔

فقول الحق للطاغی
ھو العز ھو البشری

ھو الدرب إلی الدنیا
ھو الدرب إلی الأخری

فإن شئت فمت عبدا
وإن شئت فمت حرا

’’طاغوت کے سامنے کلمۂ حق کہنا …… یہی عزت ہے اسی میں خوش خبری ہے! یہی دنیا میں عزت سے جینے کا راستہ ہے اور یہی آخرت کی کامیابیوں طرف جانے کا بھی راستہ ہے۔ سو اب چاہو تو غلامی کی موت اختیار کر لو اور اگر چاہو تو حریت اورآزاد ی کی موت پا لو!‘‘

یااللہ! اپنے دین کی مدد کرنے والوں کو فتح مبین عطافرمااور انہیں صبر، سیدھی راہ اوریقین عطافرما۔یا اللہ! اس امت کو ہدایت کا ایسا معاملہ عطا فرما جس میں تیرے فرماں بردار معزز اور نافرمان رسواہوجائیں، جس میں نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے۔اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں حسنات دے اور آخرت میں بھی حسنات دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔اے اللہ! ہماری کمزوری کو قوت سے بدل دے اور ہماری کوتاہی دور فرما اور ہمارے قدم جمادے۔اے اللہ! مقامی اور عالمی ظالم حکمرانوں کو پکڑ اور کافرو مشرک اقوام کے خلاف ہماری مدد فرما۔

وآخردعوانا أن الحمد للہ رب العالمین !

٭٭٭٭٭


1 پاکستانی عالمِ دین شیخ حامد کمال الدین صاحب نے اس کتاب کا ترجمہ ’مفہومات‘ کے نام سے کیا ہے۔ (ادارہ)

Exit mobile version