قیامت کی دس بڑی نشانیاں ہیں۔ اس سے پہلے جو ہم نے بات کی وہ تمام علامات صغری کے حوالے سے تھی، بڑی نشانیاں دس ہیں ۔ علامات صغری کا ظہور صدیوں پر محیط ہے اور ان میں سے پہلی نشانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے۔جبکہ قیامت کی بڑی نشانیاں اس وقت ظاہر ہوں گی جب کہ قیامت بالکل قریب آچکی ہوگی اور جب ان میں سے کوئی ایک ظاہر ہوجائے گی تو باقی نشانیوں کا ظہور بھی جلد ہی ہوجائے گا۔جبکہ علامات صغری کا معاملہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک کے بعد دوسری علامت کے ظہور میں دہائیوں یا صدیوں کا فاصلہ بھی ہوسکتا ہے۔ علاماتِ کبری کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْآيَاتُ خَرَزَاتٌ مَنْظُومَاتٌ فِي سِلْكٍ فَإِنْ يُقْطَعْ السِّلْكُ يَتْبَعْ بَعْضُهَا بَعْضًا (مسند احمد)
’’ علامات قیامت لڑی کے دانوں کی طرح جڑی ہوئی ہیں، جوں ہی لڑی ٹوٹے گی تو پے در پے ایک کے بعد دوسری علامت آجائے گی۔‘‘
اگر کسی ڈوری میں موتی پروئے ہوئے ہوں، جیسے تسبیح کے دانے، تواگر آپ ڈوری کاٹ دیں تو پہلا موتی گرنے کے ساتھ ہی باقی سارے بھی گرتے چلے جائیں گے، پس دس علامات کبری کی مثال بھی اسی طرح ہے۔ یہ دس علامات کون کون سی ہیں؟
عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ الْغِفَارِيِّ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ فَقَالَ مَا تَذَاکَرُونَ قَالُوا نَذْکُرُ السَّاعَةَ قَالَ إِنَّهَا لَنْ تَقُومَ حَتَّی تَرَوْنَ قَبْلَهَا عَشْرَ آيَاتٍ فَذَکَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّةَ وَطُلُوعَ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَنُزُولَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأَجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلَاثَةَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بِالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنْ الْيَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَی مَحْشَرِهِمْ (مسلم)
’’ حضرت حذیفہ بن اسید غفاری ؓ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم باہم گفتگو کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کس بات کا تذکرہ کر رہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: ہم قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ہرگز قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم اس سے پہلے دس علامات دیکھ لوگے۔ پھر دھوئیں، دجال، دابۃ الارض، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے اور سیدنا عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کے نازل ہونے اور یاجوج وماجوج اور تین جگہوں کے دھنسنے، ایک دھنسنا مشرق میں اور ایک دھنسنا مغرب میں، ایک دھنسنا جزیرہ العرب میں ہونے اور آخر میں یمن سے آگ نکلنے کا ذکر فرمایا جو لوگوں کو ان کے جمع ہونے کی جگہ (محشر) کی طرف لے جائے گی۔‘‘
یہ حدیث صحیح ہے مگر یہ نہ سمجھا جائے کہ علامات کے ظاہر ہونے کی ترتیب بھی یہی ہوگی۔ پھر سوال یہ ہے کہ قیامت کی سب سے پہلی بڑی نشانی کیا ہوگی؟ دجال؟ جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کی پہلی بڑی نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے! کون سی نشانی پہلے ہوگی، دجال یا سورج کا مغرب سے طلوع ہونا؟ علمائے حدیث فرماتے ہیں کہ دجال کا ظہور پہلے ہوگا۔ وہ کیونکر یہ فرماتے ہیں جبکہ ایک حدیث میں قیامت کی پہلی نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے؟ اس کی وجہ وہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ قیامت کی بعض نشانیاں ایسی ہیں جو کائنات کی تبدیلی سے متعلق ہیں اور ان میں سورج کا مغرب سے طلوع ہونا پہلی نشانی ہے کیونکہ تکوینی طور پر یہ کائنات کے نظام میں تبدیلی ہے۔ جب کہ دیگر نشانیاں جیسے کہ دھواں، زمین کا دھنسنا، دجال کا ظہور وغیرہ یہ زمین پر واقع ہونے والی نشانیاں ہیں اور یہ نشانیاں کائنات میں تبدیلی سے متعلق نشانیوں کے ظہور سے پہلے ظاہر ہوں گی۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا کائنات کے نظام میں پہلی تبدیلی ہوگی اور پھر اس کے بعد تمام چیزیں بے ترتیب اور غیر منظم ہوتی چلی جائیں گی، چاند ستارے گرجائیں گے، آسمان شق ہوجائے گا وغیرہ اور اس سب خرابی کا آغاز سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے ہوگا۔ مگر ان دس نشانیوں میں سے پہلی نشانی جو ظاہر ہوگی وہ دجال ہے۔
پہلی نشانی: دجال
فی الوقت ہم لفظ دجال کے معنی پر بات کرتے ہیں۔ اس کا نام المسیح الدجال ہے۔ یہ نام دو الفاظ کا مجموعہ ہے، المسیح اور الدجال۔ ان دونوں الفاظ کے کیا معنی ہیں؟ قاموس المحیط کے مصنف کہتے ہیں کہ ’المسیح‘ وسیع المعنی الفاظ میں سے ہے اور اس کے پچاس معنی ہوسکتے ہیں۔ جن میں سے بعض معنی یہ ہیں:
ایسی چیز جو مٹا ڈالی گئی ہو اور دجال کو المسیح اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ایک آنکھ مٹا دی گئی ہے۔
مسیح کا معنی پوری دنیا کا سفر کرنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال چالیس دن میں پوری دنیا کا چکر لگائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ المسیح کا ایک معنی کذاب ہے اور دوسرا صدیق۔ صدیق یعنی سچا اور کذاب یعنی جھوٹا ۔ایک ہی لفظ کے دو بالکل متضاد معنی ہوسکتے ہیں۔ عربی زبان میں ایسے الفاظ ہیں جو بیک وقت یکسر متضاد معنی رکھتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے کہ لفظ ’آدم‘ کے دو معنی ہیں۔ ایک اس کا اصل یا ابتدائی معنی ہے اور دوسرا بعد میں آنے والا معنی ہے۔ اس کا اصل معنی ’گہرا‘ ہے، کوئی چیز جو گہرے رنگ کی ہو۔ جبکہ اس کا دوسرا معنی ’ہلکا ‘ ہے، کوئی چیز جو ہلکے رنگ کی، صاف رنگ کی ہو۔لہٰذا آپ گہری رنگت کے لیے بھی لفظ آدم استعمال کرسکتے ہیں اور گوری رنگت کے لیے بھی۔اور احادیث میں یہ لفظ اسی طرح بالکل متضاد معنی میں استعمال ہوا ہے۔جب یہی لفظ آدم حضرت آدم علیہ السلام کے لیے استعمال کیا گیا تو اس کا معنی گہری رنگت کا ہے اور جب حضرت عیسٰی علیہ السلام کے لیے استعمال کیا گیا تو اس کا معنی گوری رنگت کا ہے۔ یہی معاملہ لفظ المسیح کا بھی ہے، اس کامعنی سچا بھی ہے اور جھوٹا بھی۔اور اللہ رب العزت نے دو مسیح پیدا کیے ہیں، ایک مسیح دجال اور دوسرے مسیح عیسی بن مریم علیہما السلام۔ ان میں سے ایک سچے مسیح ہیں یعنی مسیح عیسی ابن مریم علیہما السلام اور دوسرا جھوٹا مسیح ہے یعنی مسیح دجال۔
اور المسیح کا ایک معنی تیل ڈالنا یا مالش کرنا بھی ہے اور یہ عیسی ابن مریم علیہ السلام پر منطبق ہوتا ہے۔
اب ہم لفظ دجال پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ عربی زبان میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو بالاصل کسی جسمانی یا طبعی چیز کو بیان کرتے ہیں، مگر پھر کسی اور معنی اور مفہوم میں بھی استعمال ہونے لگتے ہیں۔ ’دجل البعیر‘ کا معنی ہے اونٹ کو قَطِران سے رنگنا۔ قطران سیاہ رنگ میں رنگنے والا ایک رنگ ہوتا ہے۔ بعض عرب اونٹوں کو اس رنگ سے رنگتے ہیں، اللہ اعلم کسی بیماری کے علاج کے لیے یا کسی اور وجہ سے، بہرحال اس کی وجہ سے اونٹ کا رنگ تبدیل ہوجاتا ہے، یعنی یہ اس کی رنگت کو چھپا دیتا ہےاور یہ معنی دجال پر منطبق ہوتا ہے کیونکہ وہ سچ نہیں ظاہر کر رہا ہوتا، وہ کچھ چھپا رہا ہوتا ہے، وہ سچ کو تبدیل کررہا ہوتا ہے۔
جب آپ دَجَّل کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا معنی ہے کسی چیز پر سونے کا ملمع چڑھانا۔ مثلاً ملمع شدہ گھڑیاں، جب آپ کسی سستی سی دھات پر سونے کی ملمع کاری کردیتے ہیں تو اسے دجّل کہتے ہیں۔لہٰذا دیکھنے میں وہ چیز سونے کی نظر آتی ہے، بظاہر خوبصورت مگر اندر سے بےکار۔ اور یہی دجال ہے۔ جو وہ ظاہر کرتا ہے وہ نہیں ہے بلکہ دراصل وہ مضر اور برا ہے۔ وہ کہے گا کہ وہ خدا ہے، وہ کہے گا کہ وہ دنیا میں امن لائے گا، وہ کہے گا کہ وہی صالح ہے مگر بالاصل وہی سب سے بدکار ہےاور وہ کافر ہے۔
نیز لفظ دجال کا معنی دھوکہ دینا، جھوٹ بولنا اور فریبی اور مکار بھی ہے اور یہ تمام معنی دجال پر منطبق ہوتے ہیں۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اس ایک لفظ میں یہ تمام معنی سموئے ہوئے ہیں اور اللہ رب العزت نے یہ نام اپنے نبی پر وحی کیا۔اب ہم اس کے حلیے کی کچھ تفصیل ملاحظہ کرتے ہیں۔
دجال کا حلیہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي قَدْ حَدَّثْتُکُمْ عَنْ الدَّجَّالِ حَتَّی خَشِيتُ أَنْ لَا تَعْقِلُوا إِنَّ مَسِيحَ الدَّجَّالِ رَجُلٌ قَصِيرٌ أَفْحَجُ جَعْدٌ أَعْوَرُ مَطْمُوسُ الْعَيْنِ لَيْسَ بِنَاتِئَةٍ وَلَا حَجْرَائَ فَإِنْ أُلْبِسَ عَلَيْکُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ رَبَّکُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ (ابو داود)
’’ میں دجال کے متعلق تمہیں اتنی باتیں بتاچکا ہوں کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم اسے یاد نہ رکھ سکو گے (تو یاد رکھو) مسیح دجال پستہ قد ہوگا، چلنے میں اس کے دونوں پاؤں کے بیچ فاصلہ رہے گا، اس کے بال گھونگھریالے ہوں گے، کانا ہوگا، آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، نہ ابھری ہوئی اور نہ اندر گھسی ہوئی، پھر اس پر بھی اگر تمہیں اشتباہ ہوجائے تو یاد رکھو تمہارا رب کانا نہیں ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر دجال کا ذکر کیا کرتے تھے اور اس کے بارے میں بیان فرمایا کرتے تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَمْ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ مُنْذُ ذَرَأَ اللَّهُ ذُرِّيَّةَ آدَمَ أَعْظَمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا إِلَّا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّال (ابن ماجہ)
’’ کوئی فتنہ، جب سے اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو پیدا کیا، زمین میں دجال کے فتنے سے بڑھ کر نہیں ہوا، اور اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نوحؑ نے بھی اپنی قوم کو فتنۂ دجال سے ڈرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دجال کا اس قدر تذکرہ فرماتے تھے اور اتنی تفصیل سے اپنے صحابہ کو اس کے بارے میں بتاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ شاید لوگ آپ کی باتوں کو یاد نہ رکھ پائیں گے لہٰذا اس حدیث مبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی کچھ واضح نشانیاں بیان فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی آنکھ کے بارے میں بتایا کہ نہ تو اس کی آنکھ پوری طرح خانۂ چشم کے اندر ہوگی اور نہ پوری باہر، بس اپنی جگہ پر ٹکی ہوئی ہوگی، اسے اس آنکھ سے کچھ دکھائی نہ دیتا ہوگا، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا؟ کیونکہ دجال بالآخر یہ دعوی کرے گا کہ وہی خدا ہے۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے۔ اس کا کانا ہونا اس کی پہچان کے لیے بہت اہم نشانی ہے۔بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے:
مَا بُعِثَ نَبِيٌّ إِلَّا أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الْأَعْوَرَ الْکَذَّابَ أَلَا إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ رَبَّکُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ وَإِنَّ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَکْتُوبٌ کَافِرٌ (بخاری)
’’ جو نبی بھی مبعوث کیا گیا تو انہوں نے اپنی قوم کو کانے جھوٹے سے ڈرایا، آگاہ رہو کہ وہ کانا ہے اور تمہارا رب کانا نہیں ہے اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہے۔‘‘
اور مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوا ہے جسے پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب پڑھ سکیں گے۔‘‘
یعنی یہ زبان اور خواندگی کی حد سے اوپر کی چیز ہے۔مومن اس نشانی کو دیکھ کر جان لے گا کہ یہ شخص کافر ہے۔اور درج ذیل حدیث، جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توثیق فرمائی ہے، ہم اس حدیث کو تفصیل سے دیکھیں گے مگر فی الوقت اس کا ایک حصہ دیکھتے ہیں جو یہ ہے:
فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّی دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا
’’ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی) ڈیرے میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے، ہم نے اتنا بڑا آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
تمیم داری جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی ہیں نے دجال کو دیکھا ہے۔یہ حدیث مسلم شریف میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ایسا آدمی دیکھا کہ جس سے بڑے جثّے والا شخص ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔یعنی وہ بہت عظیم الجثّہ تھا۔ جب کہ ابو داود کی حدیث جو ہم نے دیکھی، اس میں ہے کہ وہ پستہ قد ہوگا۔ جب ہم دجال کے خدوخال کے بارے میں پڑھتے ہیں تو بعض مرتبہ یہ باتیں مبہم ہوجاتی ہیں اور پھر اگر ہم مسیحیات کودیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اتنا سادہ اور آسان بھی نہیں ہے جتنا ہم گمان کرتے ہیں اور جیسا ہم سمجھتے ہیں، اس میں بعض پیچیدگیاں ہیں مگر جب وہ ظاہر ہوجائے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس کو پہچاننے کے لیے کافی شافی ہوں گی۔ فی الوقت وہ کون اور کیسا ہے؟ممکن ہے کہ آج اس کے بارے میں کوئی یقینی بات نہ کی جاسکے مگر جب وہ آجائےگا، ظاہر ہوجائے گا تو چیزیں واضح ہوجائیں گی۔ جب آپ مختلف احادیث کو دیکھتے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے درمیان تناقض ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان میں دجال کے بارے میں مختلف باتیں بیان کی جارہی ہوتی ہیں ۔
دجال بے اولاد ہوگا
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ صَحِبْتُ ابْنَ صَائِدٍ إِلَی مَکَّةَ فَقَالَ لِي أَمَا قَدْ لَقِيتُ مِنْ النَّاسِ يَزْعُمُونَ أَنِّي الدَّجَّالُ أَلَسْتَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ لَا يُولَدُ لَهُ قَالَ قُلْتُ بَلَی قَالَ فَقَدْ وُلِدَ لِي (مسلم)
’’ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ میں مکہ میں ابن صائد کے ساتھ رہا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں جن لوگوں سے ملا ہوں وہ گمان کرتے ہیں کہ میں دجال ہوں، کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا کہ آپ فرماتے ہیں کہ دجال کی کوئی اولاد نہ ہوگی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! اس نے کہا حالانکہ میری تو اولاد ہے ۔‘‘
پس دجال کی ایک اورعلامت یہ ہے کہ اس کی اولاد نہیں ہوگی۔ اس کے بارے میں یہ ایک اور بات ہمیں معلوم ہوئی۔
کیا دجال زندہ ہے؟
اب ایک سوال ہے کہ کیا دجال زندہ ہے؟ کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زندہ تھا اور کیا اب وہ زندہ ہے؟ اور اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں وہ زندہ ہے۔ اور اب وہ کہاں ہے؟ تو اس کے بارے میں اب ہم بات کریں گے، نیز ہم ایک یہودی ابن صیاد کا ذکر بھی کریں گے۔ ابن صیاد مدینہ کا ایک یہودی تھا۔ وہ بہت کم عمری سے جنات ،شیاطین، جن ، جادو اور نجوم کا کام کرتا تھا۔ ابن صیاد دجال تھا یا نہیں؟پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سوال پیدا ہی کیوں ہوا اور اس سوال کا مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ بعض صحابہ کا خیال تھا کہ وہ دجال ہے حتی کہ وہ اس پر قسم کھانے تک کو تیار تھے۔مثلاً عمرؓ بن خطاب اور جابرؓ بن عبداللہ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! ابن صیاد ہی دجال ہے۔اس شخص کی کچھ بات کرتے ہیں۔جیسا کہ ہم نے کہا کہ وہ مدینہ کا ایک یہودی تھا۔ وہ مسلمان ہوگیا تھا یا نہیں؟ اس کا اپنا دعوی تو یہ ہے کہ وہ مسلمان ہے مگر یہ سچ ہے یا نہیں، اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ البتہ اس کے ایک بیٹے کا نام عِمارہ تھا اور وہ عالم تھے۔ علامہ ذہبی ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس (ابن صیاد) کے ایک بیٹے یا اس کی اولاد میں سے کسی کا نام عِمارہ تھا جوصالح مسلمان تھے اور تابعین میں کے بڑے عالم سعید بن مسیب کے شاگرد تھے۔ نیز امام مالکؒ نے ان سے بعض احادیث روایت کی ہیں اور امام مالکؒ ان کی بہت عزت کرتے تھے۔پس اس کا بیٹا عِمارہ تو مسلمان تھا مگر خود اس شخص کےبارے میں جاننے کے لیے ہم اس کے معاملے کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں۔ابن صیاد کی بات ہم نے اس لیے شروع کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی اس پر شک تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرما سکے کہ یہ شخص دجال ہے یا نہیں ۔
’’ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا۔ ان دنوں ابن صیاد بلوغت کے قریب تھا۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خبر نہیں ہوئی لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن صیاد ! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولا: ہاں! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں[یعنی ہم یہودیوں کے لیے آپ رسول نہیں ہیں۔ یہودی غیر یہودی اقوام کو ان پڑھ گردانتے تھے کہ ان کے پاس کتاب اللہ کا علم نہیں تھا]۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں ؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا: میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ [کیونکہ یہ بات معروف تھی کہ ابن صیاد پر جنات وحی کرتے ہیں] وہ بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں [ابن صیاد کنایوں میں بات کرتا تھا اور سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس چیز کی بات کررہا ہے]۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اچھا! میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا۔[آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آزمانا چاہتے تھے کہ یہ شخص جنات کے ساتھ معاملہ کررہا ہے یا کچھ اور کررہا ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورة الدخان کا تصور کیا] اس نے کہا کہ وہ «دخ» ہے۔ [دخ آدھا لفظ ہے۔ اب یا تو ابن صیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے رہا تھا اس لیے اس نے آدھا لفظ بتایا اور یا جن اسے جو بات القا کررہا تھا وہ نامکمل تھی] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چل دور ہو! تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔ عمر ؓ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اسے قتل کردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ دجال ہے تو تُو اس پر غالب نہ ہوگا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مار ڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہوگا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ دجال ہے تو آپ اس کے قتل پر قادر نہیں ہوسکتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں اگر کوئی دجال پر قدرت پاسکتا ہے تو وہ عیسی بن مریم علیہ السلام ہیں۔ اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو یہ ویسے بھی اپنی حد سے باہر نہیں نکل سکتا لہٰذا اسے قتل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس شخص کی حقیقت کے بارے میں یقین نہیں تھے اور اس کی آزمائش فرما رہے تھے۔
اور ایک دوسری حدیث میں ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ لَقِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ هُوَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ مَا تَرَی قَالَ أَرَی عَرْشًا عَلَی الْمَائِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَی عَرْشَ إِبْلِيسَ عَلَی الْبَحْرِ وَمَا تَرَی قَالَ أَرَی صَادِقَيْنِ وَکَاذِبًا أَوْ کَاذِبَيْنِ وَصَادِقًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لُبِسَ عَلَيْهِ دَعُوهُ (مسلم)
’’حضرت ابوسعید ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستہ میں ابن صیاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات ابوبکرؓ وعمر ؓ کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس سے فرمایا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایمان لایا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ )تو نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا: میں نے پانی پر تخت دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے سمندر پر ابلیس کا تخت دیکھا ہے، اور کیا دیکھا؟ اس نے کہا میں نے دو سچوں اور ایک جھوٹے یا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو دیکھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر اس کا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے اس لیے اسے چھوڑ دو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں مزید تحقیق کرنا چاہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپکے سے سننا چاہتے تھے کہ وہ اپنے آپ سے کیا باتیں کرتا ہے۔
قَالَ ابْنُ عُمَرَ انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ يَأْتِيَانِ النَّخْلَ الَّذِي فِيهِ ابْنُ صَيَّادٍ حَتَّی إِذَا دَخَلَ النَّخْلَ طَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ ابْنَ صَيَّادٍ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَی فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ أَيْ صَافِ وَهُوَ اسْمُهُ فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَرَکَتْهُ بَيَّنَ (بخاری)
’’ عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) ابی بن کعب ؓ کو ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کھجور کے باغ میں تشریف لائے جس میں ابن صیاد موجود تھا۔ جب آپ باغ میں داخل ہوگئے تو کھجور کے تنوں کی آڑ لیتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آپ چاہتے یہ تھے کہ اسے آپ کی موجودگی کا احساس نہ ہو سکے اور آپ اس کی باتیں سن لیں۔ ابن صیاد اس وقت اپنے بستر پر ایک چادر اوڑھے پڑا تھا اور کچھ گنگنا / بڑبڑا رہا تھا۔اتنے میں اس کی ماں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا کہ آپ کھجور کے تنوں کی آڑ لے کر آگے آ رہے ہیں اور اسے (آگاہ کرنے کے لیے) پکارا، اے صاف ! یہ اس کا نام تھا۔ ابن صیاد یہ سنتے ہی اچھل پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس کی ماں نے اسے یوں ہی رہنے دیا ہوتا تو حقیقت کھل جاتی۔‘‘
ابن صیاد کی ماں کے اسے پکارنے اور ابن صیاد کے ہوشیار ہوجانے کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی حقیقت نہیں جان پائے۔
ابن صیاد دجال تھا یا نہیں؟
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْکَدِرِ قَالَ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَحْلِفُ بِاللَّهِ أَنَّ ابْنَ الصَّائِدِ الدَّجَّالُ قُلْتُ تَحْلِفُ بِاللَّهِ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يَحْلِفُ عَلَی ذَلِکَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْکِرْهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (متفق عليه)
’’ محمد ابن منکدر (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابرؓ بن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں ! ( حالانکہ ابن صیاد کا دجال ہونا صرف ظنی ہے نہ کہ یقینی) انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروقؓ کو سنا، وہ اس بات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھاتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار نہیں فرمایا۔‘‘
عَنْ نَافِعٍ قَالَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَشُکُّ أَنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ ابْنُ صَيَّادٍ (سنن ابو داؤد)
’’حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے :اللہ کی قسم ! مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال ( یہی ) ابن صیاد ہی ہے۔‘‘
عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَقِيَ ابْنُ عُمَرَ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ لَهُ قَوْلًا أَغْضَبَهُ فَانْتَفَخَ حَتَّی مَلَأَ السِّکَّةَ فَدَخَلَ ابْنُ عُمَرَ عَلَی حَفْصَةَ وَقَدْ بَلَغَهَا فَقَالَتْ لَهُ رَحِمَکَ اللَّهُ مَا أَرَدْتَ مِنْ ابْنِ صَائِدٍ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا يَخْرُجُ مِنْ غَضْبَةٍ يَغْضَبُهَا (مسلم)
’’ حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مدینہ کے ایک راستے میں ابن صیاد سے ملے۔ انہوں نے اس سے کوئی ایسی بات کہی جس نے اسے غصہ دلادیا تو وہ اتنا پھول گیا کہ اس نے (پوری) گلی کو بھر دیا۔ پھر وہ حضرت حفصہ ؓ کے پاس گئے۔ ان کو یہ خبر مل چکی تھی لہٰذا انہوں نے ان سے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ! تم ابن صیاد سے کیا چاہتے تھے ؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : دجال غصہ آجانے کی وجہ سے ہی (اپنی حقیقی صورت میں ) برآمد ہوگا۔‘‘
ابن صیاد کو جب غصہ آیا تو وہ غبارے کی طرح پھول گیا اور پورا راستہ اس کے وجود سے بھر گیا۔ دجال زندہ ہے مگر وہ پوشیدہ ہے اور معاملات دنیا میں اعلانیہ دخیل نہیں مگر جو چیز اس کےباہر نکلنے کا، اس کے ظاہر ہونے کا سبب بنے گی وہ شدید غصہ ہوگا۔ یہی بات ام المؤمنین حفصہؓ نے کی۔ پس بہت سے صحابہ سمیت ام المؤمنین حفصہؓ کو شک تھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے۔
ابن صیاد کوپسند نہیں تھا کہ لوگ اس کے بارے میں باتیں کریں اور اس پر دجال ہونے کا شک رکھیں ۔ جس دور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں شک تھا اس وقت تو وہ مسلمان نہیں تھا، بعد میں جب وہ مسلمان ہوگیا تووہ لوگوں کی اپنے دجال ہونے کے حوالے سے تشویش کو پسند نہیں کرتا تھا۔
’’ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ہم حج یا عمرہ کرنے کی غرض سے چلے اور ابن صائد ہمارے ساتھ تھا۔ ہم ایک جگہ اترے تو لوگ منتشر ہوگئے، میں اور وہ باقی رہ گئے ۔ اس کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا تھا اس کی وجہ سے مجھے اس سے سخت وحشت و خوف آیا ۔ اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا کہ گرمی سخت ہے، اگر تو اپنا سامان درخت کے نیچے رکھ دے ( تو بہتر ہے)۔ پس اس نے ایسا ہی کیا پھر ہمیں کچھ بکریاں نظر آئیں تو وہ گیا اور ایک (دودھ کا) بھرا ہوا پیالہ لے آیا اور کہنے لگا: اے ابوسعید! پیو۔ میں نے کہا: گرمی بہت سخت ہے اور دودھ بھی گرم ہے ،اور میں صرف اس کے ہاتھ سے دودھ لینا یا اس کے ہاتھ سے پینا نہیں چاہتا تھا اس لیے دودھ کا انکار کیا ورنہ اس انکار کی اور کوئی وجہ نہ تھی۔ اس پر اس نے کہا: اے ابوسعید! لوگ جو میرے بارے میں باتیں کرتے ہیں ان کی وجہ سے میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی لے کر درخت کے ساتھ لٹکاؤں پھر اپنا گلا گھونٹ لوں۔ اے ابوسعید! جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مخفی ہے (ان کی تو الگ بات ہے)، اے انصار کی جماعت ! تجھ پر تو پوشیدہ نہیں ہے، کیا تو لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ کی حدیث کو جاننے والا نہیں ؟حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال کافر ہوگا اور میں مسلمان ہوں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا: وہ بانجھ ہوگا ، اس کی کوئی اولاد نہ ہوگی، حالانکہ میں اپنی اولاد مدینہ میں چھوڑ کر آیا ہوں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہ ہوگا ،حالانکہ میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کا ارادہ ہے۔ حضرت ابوسعید خدری نے کہا کہ قریب تھا کہ میں اس کے عذر قبول کرلیتا مگر پھر اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں اسے پہچانتا ہوں اور اس کی جائے پیدائش سے بھی واقف ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔ میں نے اس سے کہا: تیرے لیے سارے دن کی ہلاکت و بربادی ہو۔‘‘
یہ اگلی حدیث بھی مسلم ہی کی ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے، صحابہ کی حدیث ہے کہ ابو سعید خدریؓ نے ابن صیاد سے کہا:
أَيَسُرُّکَ أَنَّکَ ذَاکَ الرَّجُلُ قَالَ فَقَالَ لَوْ عُرِضَ عَلَيَّ مَا کَرِهْتُ
’’ کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ تو ہی وہ آدمی(دجال) ہو؟ اس نے کہا: اگر یہ بات مجھ پر پیش کی گئی تو میں اسے ناپسند نہ کروں گا۔‘‘
ابن صیاد کا معاملہ ابھی تک گڈ مڈ ہی ہے اور یہ مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔
اس کے مخالف دلائل بھی موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن صیاد دجال نہیں تھا۔ یہ ایک طویل حدیث ہے اور طویل احادیث میں سے ایک ہے اور اسے مسلم نے روایت کیا ہے:
’’ فاطمہ بنت قیس جو ضحاک بن قیس کی بہن ہیں اور اولین مہاجرات میں سے ہیں فرماتی ہیں کہ میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی تھا، وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لیے جمع ہوجاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپ ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے ؟ صحابہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لیے جمع نہیں کیا، بلکہ اس لیے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوگیا اور مجھ سے ایک بات بیان کی جو اس بات کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام [جو نصرانی عربوں کے قبیلے ہیں] کی قوم میں سے تھے۔ پس ان سے مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں، ڈوبتے سورج کی طرف، ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہوگئے۔ وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم اور اس قدر بالوں والا تھا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا [گویا بالوں کی ایک گیند ہو]۔ لوگوں نے اس سے کہا: اے کمبخت! تو کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میں جسّاسہ ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جسّاسہ کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو ڈیرے میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی) ڈیرے میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے، ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانو سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت ! تو کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو (یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہوجائے گا) ، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو ؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہریں ہم سے کھیلتی رہیں، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے۔ پس ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا۔ ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت ! تو کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا کہ میں جساسہ ہوں۔ ہم نے کہا کہ جساسہ کیا ؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو ڈیرے میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان [شام کا ایک علاقہ ہے] کے نخلستان کی خبر دو ۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال پوچھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے ؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عن قریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا [جو فلسطین میں ہے] کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کون سا حال پوچھتا ہے ؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ا س میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عن قریب ختم ہوجائے گا[اللہ اعلم یہود اسے ختم کردیں گے]۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زُغَر کے چشمے کے بارے میں خبر دو ۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے ؟ اس نے کہا کہ کیا اس چشمے میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں ؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں ! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امّیین کے پیغمبر [یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو خود بھی اُمّی تھے اور امّی قوم ہی کی طرف مبعوث کیے گئے تھے] کے بارے میں خبر دو کہ ان کا کیا معاملہ رہا؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور یثرب [یہ مدینہ کا قدیم نام ہے]گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے ؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ [وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عربوں کے مابین جنگوں کا حال جاننا چاہتا تھا]، ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہوچکی ؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو! یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہوگی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں، سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہوگی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ (داخلی راستے) پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔( سیدہ فاطمہؓ نے کہا کہ) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو ! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں ؟ تو صحابہ نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمیم کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہے جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے بارے میں بیان کی تھی۔ خبردار رہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے [شام کا سمندر بحر روم اور یمن کا سمندر بحر احمر یا بحر عرب] ۔ نہیں !بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا[یعنی دجال مدینہ کے مشرق کی سمت ہے، کہاں؟ یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں] ۔‘‘
اس حدیث میں ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے، اس میں سے ایک یہ کہ دجال زندہ ہے اور تمیم داری رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات کی تصدیق کی۔ نیز یہ کہ دجال پوری دنیا کا چکر چالیس دن میں لگائے گا اور یہ کہ وہ پوری دنیا پر قبضہ کرلے گا، سوائے مکہ، مدینہ اور القدس کے۔
اب ہم دوبارہ ابن صیاد کے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ابن صیاد کیسے دجال ہوسکتا ہے جب کہ تمیم داریؓ نے اسے مذکورہ جزیرے میں دیکھا تھا؟ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں یا انہوں نے کہا کہ میں نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اور یہ ناممکن نہیں کہ وہ اس وقت اس جزیرے پر موجود ہو جب اور جہاں تمیم داری نے اسے دیکھا اور دیگر اوقات میں وہ مدینہ میں ہوتا ہو۔ مگر بعض علماء نے اس پر جرح کی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابن صیاد مدینہ میں ایک چھوٹا بچہ ہو اور پھر جزیرے میں ایک بوڑھے آدمی کی شکل میں ہو؟ امام شوکانیؒ نے ان تمام آراء کو جمع کیا اور پھر ان میں سے کچھ آراء کو بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ابن صیاد کے بارے میں لوگوں کی بہت سی آراء ہیں کیونکہ لوگ اس کے بارے میں شبہے کا شکار ہیں اور ہر ایک اس بارے میں ایک علیحدہ نقطۂ نظر رکھتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی متردد تھے کہ ابن صیاد دجال ہے یا نہیں۔لہٰذا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس بارے میں پریقین نہیں تھے تو ہم کیسے ہوسکتے ہیں؟ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ ابن صیاد کا قصہ پیچیدہ اور مشتبہ ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دجالوں میں سے ایک دجال ہے۔ ممکن ہے کہ وہ الدجال (المسیح الدجال) نہ ہو مگر وہ دجالوں میں سے ایک ہوسکتا ہے کیونکہ دجال کا معنی ہے جھوٹا، تو وہ ان میں سے ایک جھوٹا ہوسکتا ہے، لیکن کیا وہ المسیح الدجال ہے یا نہیں، یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔ ضمنی طور پر، عیسائی مذہب میں المسیح الدجال کو مسیح دشمن (Antichrist) کہتے ہیں جو کچھ غلط بھی نہیں ہے کیونکہ وہ مسیح دشمن ہے۔ کیونکہ وہ جس معنی میں مسیح کا لفظ استعمال کرتے ہیں اسی میں عربی زبان میں بھی استعمال ہوا ہے یعنی اس کا ایک معنی ممسوح (جس پر روغن وغیرہ ملا گیا ہو) ہے۔ پس ایک مسیح صادق ہیں یعنی عیسی ابن مریم علیہ السلام اور ایک جھوٹا مسیح ہے جسے مسیح دشمن کہتے ہیں اور جو دجال ہے۔ابن حجر عسقلانیؒ ایک دلچسپ قصہ بیان کرتے ہیں مگر راویوں کی کڑی میں ایک راوی سے ابن حجر واقف نہیں ہیں۔ روایت بیان کرنے والے کو راویوں کے سلسلے میں ایک ایک راوی کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے کہ وہ سچا ہے یا نہیں۔ اگر پورے سلسلے میں ایک راوی بھی نامعلوم ہو تو وہ حدیث ضعیف سمجھی جاتی ہے۔پس ابن حجر کی روایت میں ایک ہی فرد ہے کہ جو نامعلوم ہے باقی سب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بااعتماد اور سچے ہیں۔
ابو نعیم اصفہانی، اصفہان میں ہونے والا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ ابن صیاد ہی دجال ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم نے اصفہان فتح کیا (اصفہان وسطی ایشیا میں ہے) تو ہمارے اور (اصفہان میں بسنے والے) یہود کے مابین تھوڑا سا ہی فاصلہ تھا۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ یہود جشن منا رہے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ یہ جشن کس سلسلے میں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا بادشاہ، جو عربوں کو شکست دے گا، آج یہاں آیا ہے۔ میں ایک مکان کی چھت پر سوگیا اور صبح میں نے اس چھت سے دیکھنا چاہا کہ ان کا بادشاہ کون ہے تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کا بادشاہ تو ابن صیاد ہے۔وہ مدینہ سے اصفہان آیا تھا، پھر وہ شہر میں داخل ہوگیا اور پھر کبھی وہاں سے نہیں نکلا۔یہ واقعہ اس وقت مزید دلچسپی کا حامل ہوجاتا ہے جب ہم اس حدیث پر نظر ڈالتے ہیں کہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال خراسان سے نکلے گا (اور خراسان اصفہان سے بہت قریب ہے) اور اس کے ساتھ اصفہان کے ستّر ہزار یہودی ہوں گے۔یہ قصہ بہت دلچسپ ہے کہ ابن صیاد مدینہ سے اصفہان گیا اور پھر کبھی وہاں سے نہیں نکلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال اس علاقے سے نکلے گا۔البتہ ہم اس قصے کو بعینہ نہیں قبول کرسکتے کیونکہ اس کے راویوں کے سلسلے میں سے ایک راوی نامعلوم ہے۔
ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ ابن صیاد کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ بعض صحابہ کرامؓ کا خیال تھا کہ وہ دجال ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں فرمایا حتی کہ آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح ہوگیا کہ وہ دجال نہیں ہے مگر وہ جھوٹا اور جادوگر ضرور ہے جو شیاطین سے تعلقات رکھتا ہے (یا ان کی عبادت کرتا ہے)۔
ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ یہ تو واضح ہے کہ ابن صیاد وہ دجال نہیں ہے جو آخر الزمان میں نکلے گا اور اس کا ثبوت فاطمہ بنت قیسؓ کی حدیث ہے جو اس معاملے میں قاطع ہے۔پس ابن کثیر کے مطابق ابن صیاد دجال نہیں ہے۔ سو آپ نے دیکھا کہ علماء اس بارے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں، واللہ اعلم۔
ابن صیاد کے ساتھ کیا ہوا؟
ابو داود کی روایت ہے کہ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ
فَقَدْنَا ابْنَ صَيَّادٍ يَوْمَ الْحَرَّةِ
’’ ہم نے آخری مرتبہ ابن صیاد کو یوم الحرۃ میں دیکھا۔‘‘
یوم الحرۃ وہ جنگ تھی جو بنو امیہ کے دور میں مدینہ میں ہوئی۔ ابن صیاد کہاں چلا گیا، یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں۔
دجال کہاں سے نکلے گا؟
ترمذی، ابن ماجہ اور مسند احمد کی حدیث ہے جسے علماء نے صحیح قرار دیا ہے،
عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الدَّجَّالُ يَخْرُجُ مِنْ أَرْضٍ بِالْمَشْرِقِ يُقَالُ لَهَا خُرَاسَانُ
’’ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دجال مشرق کی ایک زمین سے نکلے گا جسے خراسان کہا جاتا ہے ۔‘‘
واللہ اعلم خراسان یا ایران میں ہے اور یا وسطی ایشیا میں ۔موجودہ ایران میں ایک علاقے کا نام خراسان ہے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خراسان ایک بڑے علاقے کو کہا جاتا تھا جس میں وسطی ایشیا کے بہت سے علاقے شامل ہوجاتے تھے۔
دجال کہاں کہاں جائےگا؟
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ وہ پوری دنیا گھومے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے۔
فتنۂ دجال
مسند احمد کی ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا بَيْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أَمْرٌ أَكْبَرُ مِنْ الدَّجَّالِ
’’ حضرت آدم کی پیدائش سے قیامت کے درمیانی وقفہ میں دجال سے زیادہ کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے۔‘‘
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَعَهُ جَنَّةٌ وَنَارٌ فَنَارُهُ جَنَّةٌ وَجَنَّتُهُ نَارٌ (مسلم)
’’ اس کے ساتھ جنت اور دوزخ ہوگی اور (در حقیقت) اس کی دوزخ جنت اور اس کی جنت جہنم ہے۔‘‘
وہ ایسی نعمتیں پیش کرے گا جو دنیا میں جنت جیسی معلوم ہوں گی اور ایسی ایسی تعذیب دے گا جو مثل جہنم معلوم ہوگی اور اس طریقے سے بھی وہ لوگوں کو گمراہ کرے گا۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ حدیث میں فرمارہے ہیں کہ اس سے دھوکہ نہ کھانا کہ اس کی جنت جہنم اور اس کی جہنم جنت ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت ذیل کی حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا مَعَ الدَّجَّالِ مِنْهُ مَعَهُ نَهْرَانِ يَجْرِيَانِ أَحَدُهُمَا رَأْيَ الْعَيْنِ مَائٌ أَبْيَضُ وَالْآخَرُ رَأْيَ الْعَيْنِ نَارٌ تَأَجَّجُ فَإِمَّا أَدْرَکَنَّ أَحَدٌ فَلْيَأْتِ النَّهْرَ الَّذِي يَرَاهُ نَارًا وَلْيُغَمِّضْ ثُمَّ لْيُطَأْطِئْ رَأْسَهُ فَيَشْرَبَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مَائٌ بَارِدٌ (مسلم)
’’ جو کچھ دجال کے ساتھ ہوگا اسے میں خود اس کی نسبت بھی زیادہ اچھی طرح جانتاہوں۔ اس کے ساتھ دوبہتی ہوئی نہریں ہوں گی۔ دونوں میں سے ایک میں بظاہر سفید رنگ کا پانی ہوگا اور دوسری بظاہر بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔ اگر کوئی شخص اس کو پالے تو اس نہر کی طرف آئے جسے وہ آگ (کی طرح ) دیکھ رہا ہے اور اپنی آنکھ بند کرے پھر اپنا سر جھکائے اور اس میں سے پیے تو وہ ٹھنڈا پانی ہوگا۔‘‘
فتنۂ دجال کی مثالیں
ذیل کی حدیث میں اس کا فتنہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور سبحان اللہ! انسان غور کرے تو احساس ہوتا ہے کہ کس قدر شدید فتنہ ہوگا جس سے اس دور کے لوگ آزمائے جائیں گے۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا۔ آپ نے (اس کے ذکر کے دوران) کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی، یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ جب شام کو ہم آپ کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ نے ہم میں اس (شدید تاثر) کو بھانپ لیا۔ آپ نے ہم سے پوچھا: ’’ تم لوگوں کو کیا ہوا ہے‘‘؟ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایا تو آپ کی آواز میں (ایسا) اتارچڑھاؤتھا کہ ہم نے سمجھا کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’مجھے تم لوگوں (حاضرین ) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں) کا زیادہ خوف ہے، اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمہارے درمیان موجود ہوں تو تمہاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجودنہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والاخود ہوگا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان ) ہوگا ۔ وہ گچھے دار بالوں والاایک جوان شخص ہے، اس کی ایک آنکھ بےنور ہے[ہم نے پہلے ایک حدیث پڑھی جس میں یہ تذکرہ تھا کہ اس کی ایک آنکھ جلد سے ڈھکی ہوئی ہوگی اور دوسری آنکھ اس کے چہرے پر باہر کی طرف ابھری ہوئی ہوگی]۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں، تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورة کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔ وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہوگا اور بائیں طرف بھی [یعنی پوری دنیا میں تباہی پھیرے گا]۔ اے اللہ کے بندو ! تم ثابت قدم رہنا‘‘ ۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” چالیس دن تک۔ ایک دن ان میں سے ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا ایک مہینے کے اور تیسرا ایک ہفتے کے اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں۔‘‘ ( تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن تک رہے گا ) [اس موقع پر جب کہ نبی کریم صحابہ کرام سے دجال کے بارے میں بات فرما رہے تھے، صحابہ کرام نے ایک دلچسپ سوال پوچھا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ انہوں نے کیا پوچھا ہوگا جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک دن سال، دوسرا مہینے اور تیسرا ایک ہفتے کے برابر ہوگا؟ انہیں کس بات کا خیال اس وقت آیا ہوگا؟ انہیں اپنی نمازوں کی فکر ہوئی۔ دجال کے فتنے کی شدت کے بارے میں سنتے ہوئے بھی انہیں اپنی نماز کی فکر ہوئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ان کے لیے کس قدر اہم تھی اور وہ اپنی نمازوں کی ادائیگی کی کس قدر پروا کرتے تھے] ۔ اصحاب نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس دن ہم کو ایک ہی دن کی نماز کفایت کرے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں! تم اندازہ کر لینا اس دن میں بقدر اس کے یعنی جتنی دیر کے بعد ان دنوں میں نماز پڑھتے ہو اسی طرح اس دن بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا۔‘‘ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : ’’ بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۔ [اس بات سے میں نے اندازہ کیا کہ اس کی رفتار بہت تیز ہوگی]۔ وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا، وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے تو وہ آسمان (کے بادل ) کو حکم دے گا، وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائے گی۔ شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچے اور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی(پیٹ بھرے ہونے کی وجہ سے)۔[اسے دنیاوی مال ومتاع اور رزق کے خزانوں پر قدرت حاصل ہوگی ۔ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا اور زمین پیداوار اگائے گی۔ یہ دجال کا فتنہ ہے۔لوگ متاع دنیا سے محبت کرتے ہیں اور دجال اسی رستے سے ان کے پاس آئے گا اور اسی کے ذریعے ان کو دھوکہ دے گا] پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انہیں (بھی) دعوت دے گا۔ وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے۔ [تو وہ آسمان کو ان کے اوپر بارش برسانے سے اور زمین کو ان کے لیے پیداوار اگانے سے روک دے گا اور ان کے مویشی مر جائیں گے] تو وہ قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا (اس حال میں کہ) ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کے ہاتھ میں نہیں ہوگی۔ وہ (دجال) بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہے گا: اپنے خزانے نکال! تو اس (بنجر زمین ) کے خزانے اس طرح (نکل کر) اس کے پیچھے لگ جائیں گے جس طرح شہد کی مکھیاں بڑی مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں[اس کے محض ایک اشارے سے زمین کے خزانے اس طرح اس کے پیچھے چل پڑیں گے جس طرح جب ملکہ مکھی اپنے چھتے سے نکلتی ہے تو باقی مکھیاں اس کے پیچھے ہجوم کرتی ہیں]۔ پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر ( یکبارگی) دو حصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف (یکدم ٹکڑے ہوگیا) ہو۔ پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ (زندہ ہو کر) دیکھتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔‘‘[وہ ایک انسان کو قتل کرے گا، اسے دو حصوں میں تقسیم کردے گا اور پھر اسے بلائے گا تو وہ اللہ کے حکم سے دوبارہ زندہ ہوکر اس کے پاس چلا آئے گا] ۔‘‘
یہ اللہ کی مشیت اور دجال کا فتنہ ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہے کہ اللہ اس شخص کو مافوق الفطرت قوتیں عطا کرے گا تاکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو آزمائے اور یہی فتنہ دجال ہے۔ ہمیں کبھی بھی دجال کے فتنے کو ہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اور میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ اس فتنے کی شدت کو سمجھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے اوپر منطبق کرکے سوچیں۔ مثلاً ایک عبادت باجماعت نماز ہے۔ ہم بہت سی دیگر مثالیں بھی لے سکتے ہیں مگر فی الوقت یہ مثال دیکھتے ہیں۔ ہم اکثر باجماعت نماز میں سستی دکھاتے ہیں اور ہمیشہ ہی ہمارے پاس اسے چھوڑنے کا کوئی نہ کوئی عذر موجو د ہوتا ہے۔ اب اپنے آپ سے سوال پوچھیں کہ اگر ہر مرتبہ نماز باجماعت میں شرکت کرنے پر آپ کو پچاس ڈالر ملیں، جیسے ہی آپ مسجد میں داخل ہوں آپ کو پچاس ڈالر کا نوٹ تھما دیا جائے تو کیا آپ اتنی ہی باجماعت نمازیں قضا کریں گے جتنی ابھی کرتے ہیں؟ اپنے آپ سے سوال پوچھیں کہ پچاس ڈالر کا نوٹ آپ کو باجماعت نماز پر مجبور کرے گا یا نہیں؟ ہم تو صرف نماز باجماعت کے لیے پچاس ڈالر کی بات کررہے ہیں جبکہ دجال کے ساتھ تو دنیا بھر کے سونے چاندی کے خزانے ہوں گے۔ اور جو شخص اس کی پیروی کرے گا اسے وہ ہر اس چیز سے نوازے گا جس کی اسے خواہش ہوگی اور جو اس کی پیروی سے انکار کرے گا اس سے وہ اس کے پاس موجود تمام نعمتیں چھین لے گا۔ ہمیں عبادت سے کیا چیز روکتی ہے؟ دنیا کی محبت۔ چند روپے فی گھنٹہ کمانے کی محبت ہمیں اللہ کی عبادت سے روکتی ہے جبکہ یہ رقم ان خزانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے جو دجال اپنی پیروی کے بدلے پیش کرے گا ۔ ہم تو بہت تھوڑی قیمت پر عبادات چھوڑ بیٹھتے ہیں، پس غور کریں تب کیا ہوگا جب دجال عبادات کے چھوڑنے پر منہ مانگی نعمتیں پیش کرے گا اور جو اس کی بات نہیں مانے گا اسے قلاش کرکے رکھ دے گا؟ لہٰذا فتنہ دجال نا صرف مال و دولت کے لحاظ سے بڑا فتنہ ہے بلکہ اس کی سحر انگیزی اور اس کے پاس موجود شان و شوکت، قوت، اور اختیار بھی بہت بڑا فتنہ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ تمام نادان اور جاہل لوگوں کو اپنا گرویدہ بنائے گا نیز جن لوگوں کا ایمان کمزور ہوگا وہ اس کے اس فتنے کی وجہ سے اس کی پیروی کریں گے۔ بخاری کی ایک حدیث ہےجسے سیدنا ابو سعیدؓ نے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
’’ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان فرمائی۔ آپ کے ارشادات میں سے یہ بھی تھا کہ: دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہوگا کہ وہ مدینہ کے راستوں میں داخل ہو، چنانچہ مدینہ کے قریب کسی شور یلی زمین پر قیام کرے گا۔ اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا جو سب لوگوں سے بہتر ہوگا۔ وہ کہے گا : میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی۔ اس پر دجال (وہاں موجود لوگوں سے) کہے گا : تم ہی بتاؤ اگر میں اسے قتل کردوں، پھر اسے زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملے میں کوئی شک وشبہ باقی رہے گا ؟ لوگ کہیں گے : نہیں ، چنانچہ دجال اس کو قتل کردے گا، پھر اسے زندہ کرے گا۔ اب وہ آدمی کہے گا : اللہ کی قسم ! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت کبھی حاصل نہیں تھی۔ اس کے بعد دجال اسے قتل کرنے کا ارادہ کرے گا لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔[اللہ رب العزت اس کی حفاظت فرمائیں گے کیونکہ اس نے اپنے ایمان اور اللہ پر اپنے توکل کا ثبوت دے دیا پس اللہ رب العزت مارنے اور دوبارہ زندہ کرنے کی قوت رکھنے والے دجال کو اس پر غلبہ نہیں دیں گے اور دجال اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا ]۔‘‘
اس حصے کی آخری حدیث :
وَإِنَّ مِنْ فِتْنَتِهِ أَنْ يَقُولَ لِأَعْرَابِيٍّ أَرَأَيْتَ إِنْ بَعَثْتُ لَکَ أَبَاکَ وَأُمَّکَ أَتَشْهَدُ أَنِّي رَبُّکَ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيَتَمَثَّلُ لَهُ شَيْطَانَانِ فِي صُورَةِ أَبِيهِ وَأُمِّهِ فَيَقُولَانِ يَا بُنَيَّ اتَّبِعْهُ فَإِنَّهُ رَبُّکَ (ابن ماجہ)
’’ اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ وہ ایک اعرابی سے کہے گا کہ اگر میں تیرے والدین کو زندہ کردوں تو کیا تو تسلیم کرلے گا کہ میں تیرا رب ہوں ؟ وہ کہے گا : ہاں ۔ (فوراً ) دو شیطان اس کے ماں باپ کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور اسے کہیں گے : بیٹا ! اس کی پیروی کر، یہ تیرا رب ہے ۔‘‘
فتنۂ دجال بہت بڑا فتنہ ہے۔ دجال سے متعلق ہمارا موضوع تقریباً مکمل ہوچلا ہے۔
فتنۂ دجال سے حفاظت کیسے ممکن ہے؟
ایمان: یہ انتظار نہ کریں کہ جب دجال آجائے گا تو ہم اپنے ایمان پر محنت کریں گے، آپ نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ تین چیزیں جب ظاہر ہوجائیں گی تو جس کے دل میں پہلے سے ایمان نہیں ہوگا، اس وقت ایمان لانا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا اور ان میں سے ایک دجال ہے۔لہٰذا جب دجال ظاہر ہوجائے گا تو اس کے ظہور کے بعد انسان جس قدر بھی اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کرے گا وہ اسے فائدہ نہیں دے گی اگر اس کے ظہور سے قبل اس شخص کے دل میں ایمان نہیں تھا۔ تب پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ایمان کو دجال کے آنے سے پہلے ہی قوی ہونا چاہیے۔ایک مرتبہ جب دجال ظاہر ہوجائے گا تو ایمان کے حصول اور اس کے بڑھوتری کی کوشش بے کار ہوگی۔ ہمیں پہلے ہی خبردار کردیا گیا ہے۔
استعاذہ: اللہ رب العزت سے دجال کے فتنے سے پناہ مانگنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد ایک دعا فرمایا کرتے تھے، اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ دعا نماز کے واجبات میں سے ہے، بعض علماء یہ کہتے ہیں سب کے سب نہیں، اور ان کا کہنا یہ ہے کہ اس دعا کے وجوب کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں تشہد کے بعد، سلام پھیرنے سے قبل یہ دعافرمانا شامل تھا:
اللَّهُمَّ إِنَّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ
’’ اے اللہ ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا مانگنے کا معمول تھا، لہٰذا ہمیں بھی اس کی عادت ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سورۂ کہف کی ابتدائی یا آخری آیات کی تلاوت کرنا: مسلم کی حدیث جو ہم نے پڑھی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے:
فَمَنْ أَدْرَکَهُ مِنْکُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْکَهْفِ
’’جو اسے پائے تو اس پر سورۂ کہف کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرے۔‘‘
سورۂ کہف کی ابتدائی آیات ہی کیوں؟ اس کی تفصیل میں کوئی حدیث نہیں ہے، میں صرف آپ کے خیالات جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ سورۂ کہف کی ابتدائی آیات کیوں پڑھی جانی چاہیے ہیں؟ اس بارے میں چونکہ کوئی حدیث نہیں ہے اس لیے یقین سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر میرا یہ خیال ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سورۂ کہف کی ابتدائی آیات اصحاب کہف کے بارے میں ہیں اور اصحاب کہف وہ تھے جنہوں نے فتنے کا مقابلہ کرنے کی بجائے فتنے کے مقام کو چھوڑ دیا۔عمومی طور پر مسلمانوں کو برائی کا مقابلہ کرنے اور اسے ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یہ جہاد فی الاسلام کی بنیاد ہے مگر اصحاب کہف نے اس فتنے کا سامنا نہیں کیا بلکہ اس سے فرار کی راہ اختیار کی۔ انہوں نے اپنی پوری قوم اپنے پورے معاشرے کو چھوڑ دیا، کیوں؟ کیونکہ وہ فتنہ اتنا بڑا تھا کہ ان کے لیے اس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس قدر بڑے فتنے کا سامنا کرنے میں انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں وہ اپنے ایمان سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ اگر انسان کو کسی جگہ اپنا آپ ہی خطرے میں نظر آنے لگے تو اسے وہاں سے بھاگ جانا چاہیے اور اپنی حفاظت سب سے پہلے کرنی چاہیے۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی حفاظت کو سب سے پہلے یقینی بنائیں۔ اصحاب کہف اپنا ملک چھوڑ گئے کیونکہ ان کا بادشاہ اور تمام عوام کافر تھے اور ان کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لہٰذا انہوں نے اپنی قوم کو چھوڑا اور ایک پہاڑی غار میں جاٹھکانہ کیا۔ سبحان اللہ! آپ مماثلت ملاحظہ فرمائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی بھی دجال کے بارے میں سنے تو کبھی اس سے ملنے نہ جائے۔ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان اپنے آپ کو مومن سمجھتے ہوئے اس سے ملنے جائے گا اور جب واپس آئے گا تو کافر ہوچکا ہوگا، ان شبہات کی وجہ سے جو دجال اس کے دل میں ڈالے گا۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر خود کو اس سے بچائیں گے۔ یہ قصہ اصحاب کہف کے قصے سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اصحاب کہف چند تھے اور پوری قوم کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے لہٰذا فتنے کی جگہ سے نکل گئے اور فتنہ دجال ایسا ہوگا کہ پوری دنیا دجال کی پیروکار بن جائے گی، تو آپ کس کس کا سامنا کریں گے، مقابلہ تو اور دور کی بات ہے؟ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سامنا کرنے کی بجائے ہر ممکن حد تک اس سے پہلوتہی کی جائے اور اپنے آپ کو بچایا جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے دیکھنے اس سے ملنے نہ جاؤ، اس دجل کی وجہ سے، دھوکے اور فتنے کے اس ساز و سامان کی وجہ سے جو اس کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ الدجال ہے، دغاباز، مکار، فریبی، دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا، اس کے پاس فریب میں مبتلا کرنے کے لیے اس قدر طاقت اور صلاحیت ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامنا کرنے سے منع فرما دیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پھر وہ شخص کہ جس کا حدیث میں تذکرہ ہے کہ وہ دجال کے سامنے گیا…… تو ہر شخص اس پائے کا ایمان نہیں رکھتا جیسا اس شخص کا ہوگا۔ وہ قوی ایمان والوں کی ایک مثال ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اس دور کے لوگوں میں بہترین ہوگا، مگر ہر ایک اس قدر پختہ ایمان نہیں رکھتا لہٰذا لوگ دجال کے جھانسے میں آجائیں گے ، لہٰذا اگر آپ کو اپنی حفاظت کی فکر ہے تو اس مقام سے چلے جائیں۔
ایک اور حدیث میں سورۂ کہف کی آخری آیات کا تذکرہ ہے۔ یہ مختلف روایات ہیں۔
دجال کا سامنا کرنے سے گریز کرنا: اس بارے میں ہم بات کرچکے ہیں۔سنن ابی داؤد کی حدیث ہے:
مَنْ سَمِعَ بِالدَّجَّالِ فَلْيَنْأَ عَنْهُ فَوَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَأْتِيهِ وَهُوَ يَحْسِبُ أَنَّهُ مُؤْمِنٌ فَيَتَّبِعُهُ مِمَّا يَبْعَثُ بِهِ مِنْ الشُّبُهَاتِ أَوْ لِمَا يَبْعَثُ بِهِ مِنْ الشُّبُهَاتِ
” جو شخص دجال کے متعلق سنے تو اس سے دور رہے ، اللہ کی قسم ! آدمی اس کے پاس آئے گا جب کہ وہ سمجھتا ہوگا کہ وہ صاحب ایمان ہے ، مگر ان شبہات کی بنا پر جو اس کی طرف سے اٹھائے جائیں گے ،اس کی اتباع کر بیٹھے گا ۔‘‘
ہمارے پاس دجال سے حفاظت کے چار طریقے ہیں: ایمان، استعاذہ، سورۂ کہف کی تلاوت اور دجال سے گریز۔ سورۂ کہف کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت دجال سے حفاظت کے لیے مسنون ہے، لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ یہ دس آیات یا پوری سورت ہی حفظ کرلی جائے۔
دجال کا خاتمہ
بے شک دجال کا فتنہ اس قدر بڑا ہوگا مگر جھوٹ کی زندگی جتنی بھی طویل ہو بہرحال اس کا پول کھل کر رہتا ہے۔جھوٹ کو دوام نہیں ہے۔الدجال محض جھوٹ اور فریب سے عبارت ہے اور اس کا فریب اور فتنہ ایک حد تک اس کے کام آئے گا، اس کے بعد نہیں۔ آخر میں وہ ڈھے جائے گا اور یہی اس کا اختتام ہوگا۔ مگر وہ دنیا میں اس قدر تباہی مچانے کے بعد ہی ختم ہوگا کہ قریباً تمام دنیا اس کی پیروکار ہوگی۔ اسے کوئی روک نہیں سکے گا اور نہ ہی کوئی اس کا مقابلہ کرسکے گا۔ اس دور میں مہدی موجود ہوں گے مگر وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ وہ مومنین کے ساتھ القدس میں اپنے قلعوں میں دجال سے چھپے ہوئے ہوں گے۔ ان کے پاس اس سے مقابلے کی قوت نہیں ہوگی حتی کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام نازل ہوجائیں گے۔ جس طرح اللہ رب العزت نے دجال کو مافوق الفطرت قوتیں عطا فرمائیں، اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی یہ قوت عطا فرمائیں گے کہ وہ محض اپنی نظر کے ذریعے ہی دجال کو قتل کرنے پر قادر ہوں گے۔ایک حدیث میں ان کی نظر اور دوسری میں ان کے سانس کا ذکر ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی نظر اور ان کا سانس دجال کو برف کی طرح پگھلانے کے لیے کافی ہوگا۔اور یہ وہ معجزہ ہوگا جو اللہ رب العزت حضرت عیسی علیہ السلام کو عطا فرمائیں گے۔
مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْکُثُ أَرْبَعِينَ لَا أَدْرِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا فَيَبْعَثُ اللَّهُ عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ کَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِکُهُ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ میں نہیں جانتا چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس برس۔پھر اللہ تعالیٰ عیسٰی بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجیں گے، ان کی شکل عروہ بن مسعود کی سی ہے۔ وہ دجال کو ڈھونڈیں گے اور اس کو ماریں گے۔‘‘
مسند احمد کی حدیث ہے:
يَقْتُلُ ابْنُ مَرْيَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ
’’ دجال کو حضرت عیسیٰ باب لد نامی جگہ پر قتل کریں گے۔‘‘
باب لد فلسطین میں ہے جہاں دجال قتل ہوگا۔دجال کا قصہ یہاں ختم ہوا۔
٭٭٭٭٭