پاکستان میں مئی ۲۰۲۳ء کے نصفِ اول میں ہونے والے واقعات اس بات کے عکاس ہیں کہ یہاں اندھیر نگری ہے۔ وردی و بے وردی حکمران دین و شریعت سے تو پہلے ہی ہاتھ دھو چکے ہیں، حالیہ واقعات نے ایک اور حقیقت پورے جزم سے تکراراً ثابت کی کہ یہاں کے اہلِ اقتدار کو اس ملک اور وطن سے بھی کچھ تعلق نہیں، ہر ایک کو بس اقتدار کی دھن ہے، اور اقتدار کے ان دھنیوں میں ہمیشہ کی طرح صفِ اول میں، امریکہ کی صفِ اول کی اتحادی فوج کے جرنیل کھڑے ہیں۔ پاکستان میں یہ حقیقت ہے کہ سبھی حکمران یا تو اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر آئے یا پھر اسٹبلشمنٹ کی آشیرباد سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے۔ بیوروکریٹک کاموں کے سوا زمامِ کار فوج نے ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھی، پارلیمان میں بیٹھے عوامی نمائندوں کو بطور منشی رکھا البتہ ان کو رائیونڈ سے سرے محل و بنی گالا و زمان پارک محلات بنانے یا ان میں بستے رہنے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔ وقت کے وزراء آئی ایس آئی کے کرنل ہینڈل کرتے اور وزیرِ اعظموں کو بریگیڈئیر لیول کے افسر۔ پاکستان کے سبھی حکمرانوں نے اپنے طرز سے ثابت کیا کہ وہ عوام و ملک دشمن ہیں، ملک و قوم اور وطن و عوام کا نام اگر لیتے ہیں تو اس لیے کہ ان کے ذاتی مفادات انہی عناوین و entities سے وابستہ ہیں ۔ انہی حکمرانوں میں سے ایک عمران خان ہے۔ عمران خان کو جنرل پاشا نے لانچ کیا اور اس امر کے دسیوں گواہ ہیں اور سب سے بڑا گواہ زمانہ ہے جو بڑے اچھے انداز سے سبھی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ پھر باجوہ و فیض حمید نے اسے کندھا دیا ، شیروانی عمران خان نے خود سلوائی یا عادتاً کسی سے ہدیہ کروا لی باقی سبھی انتظام جی ایچ کیو اور آبپارہ میں سرانجام دیا گیا۔
جمہوریت کے غیر اسلامی نظام ہونے پر تو آدم تا عیسیٰ کے دوبارہ دنیا میں لوٹنے تک سبھی انبیاء اور سبھی انبیاء کے مقتدیوں کا عمل اور سب سے بڑھ کر اللّٰہ کا دین اور وہ شریعت جو محمد رسول اللّٰہ (علیہ ألف صلاۃ وسلام) لے کر آئے گواہ ہے۔ بہر کیف، اس جمہوریت نے جو خالص شکل میں یورپ میں نافذ ہوئی، اہلِ یورپ کی دنیوی زندگی تو سنواری لیکن، اپنی جمہوریت…… یہ تو دنیا نہ آخرت! اس جمہوریت کی شان دیکھیے کہ ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے بعد جنرل باجوہ عمران خان سے بھی ملتا ہے اور شہباز شریف سے بھی۔ پھر چند فوجی جرنیل مل کر عمران خان کے حامی ہو جاتے ہیں اور وہ مسندِ اقتدار پر بیٹھ جاتا ہے (عمران خان بھی صرف بشریٰ بی بی کی عملیات پر بھروسہ کرتے ہوئے پاکپتن کی درگاہ پر سجدے نہیں کرتا بلکہ جی ایچ کیو اور آبپارہ کے عاملوں اور جنّات کے در پر بھی سربسجود ہوتا ہے)۔ لیکن سوچیے اگر بشریٰ بی بی کی عملیات کام نہ کرتیں اور اس سے بڑھ کر جنرل باجوہ کی نظرِ کرم عمران خان کے بجائے شہباز شریف پر پڑتی [گو کہ اس پر بھی یہ نظر پڑی تھی، لیکن شہباز شریف نے بڑے بھیا سے بے وفائی کو (سیاستاً)اچھا نہیں جانا] تو کیا ۲۰۱۸ء میں بھی شہباز شریف ہی وزیرِ اعظم نہ ہوتا؟ کیا جمہوریت اسی کا نام ہے کہ وقت کا آرمی چیف لوگوں کا انٹرویو کرے اور جو اس کو بھائے اس کو وزیرِ اعظم بنا دے؟
بھٹو حد سے بڑھا تو تختۂ دار پر پہنچا، لاکھ کہتا رہا کہ ’اگر مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ روئے گا‘، لیکن وہ قتل کیا گیا۔ بے نظیر کا دو بار دھڑن تختہ ہوا۔ نواز شریف کا تین بار دھڑن تختہ ہوا، پھر چیختا رہا کہ مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو، پھر عمران خان کو بھی نکالا گیا، وہ بھی کہتا رہا کہ اگر مجھے نکالا تو میں اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا ، پھر نواز شریف کا نعرہ آج کل عمران خان کا نعرہ ہے، مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت کو دو۔
پاکستان میں قوت کا سرچشمہ فوج ہے، دنیا کا قانون ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، بیلَٹ نہیں بُلٹ ہی حاکم ہوتی ہے، فیصلے کہیں اسٹبلشمنٹ کرتی ہے تو کہیں اسی کا نام ڈِیپ سٹیٹ ہوتا ہے، ورنہ کیا نیم ڈمنشیا کا مریض بائیڈن امریکی نظام چلا سکتا ہے؟ پاکستان فوج نظریاتی طور پر امریکہ کی غلام ہے، مالکوں کو ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ کہہ دینے سے غلاموں کا رتبہ نہیں بڑھتا، بلکہ مالک حالات کے موافق تادیب یا درگزر کرتے ہیں۔ پھر بعد میں آنے والے ماسٹرز کی ایک فون کال پر ’اِن دی لائن آف فائر‘ میں اتر جاتے ہیں۔ ۱۹۹۶ء میں مالکوں کو مطلوب تھا کہ پاکستان امارتِ اسلامیہ افغانستان کی رسمیت تسلیم کرے تو یہی کیا گیا، پھر ۲۰۰۱ء میں امریکی پالیسی بدلی تو بے پیندے والوں کا رخ بھی بدل گیا، اپنی فضا و سرزمین ستّاون ہزار دفعہ افغانوں پر بمباری کے لیے پیش کی، ۲۰۲۱ء میں تھک کر امریکہ افغانستان سے نکلا تو پھر پاکستان کو امارتِ اسلامیہ افغانستان (زید مجدھا وأیدھا اللّٰہ) سے ڈپلومیسی پر لگا دیا، یہ شطرنج کی بساط پر دو تین چالیں ہیں اور کچھ نہیں۔
آج پاکستان کے سیاست اور عدلیہ کے میدانوں اور ایوانوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی اصل ذمہ دار فوج ہے۔ اسکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، امیر عبد اللّٰہ خان نیازی، ضیاء الحق، اسلم بیگ، پرویز مشرف، پرویز کیانی اور آج تک یہ سارےراحیل، باجوہ، عاصم منیر وغیرہ وغیرہ سبھی کے لہجے میں فرعون جیسی کھنک رہی ہے، سبھی اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد نہیں شاید……
تم سے پہلے بھی جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اُس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
ان ’خداؤں‘ کا مقدر دنیا میں دیکھنا ہو تو ابھی مثلِ ایریل شیرون پرویز مشرف کی موت سب کے لیے ایک عبرت ہے، جو اس سے بچ گیا تو وہ امت کے مجاہد بیٹوں کے ہاتھوں مثلِ قذافی دم توڑے گا ورنہ آخرت میں اللّٰہ نے ان سبھی فرعونوں اور پرویزوں کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد
صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
مذمت و اظہارِ تعزیت
جس وقت مجلّۂ ہٰذا شائع ہونے کے لیے جا رہا تھا تو ہمیں یہ نہایت افسوس ناک اطلاع موصول ہوئی کہ امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کے قافلے پر بلوچستان کے ضلع ژوب میں ایک قاتلانہ حملہ کیا گیا جس میں ایک انتحاری حملہ آور نے اپنے آپ کو بارود سے اڑا لیا اور نتیجتاً عام مسلمان زخمی ہوئے۔ یہ ایک مجرمانہ، غیر شرعی اور حرام فعل ہے اور اس طرح کی کارروائیوں میں ماضی میں الجزائر تا پاکستان دشمنِ دین انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث رہی ہیں تا کہ مجاہدین کو بدنام کیا جا سکے اور مجاہدین و دیگر اہلِ دین کے مابین اختلافات کے بیج بوئے جا سکیں۔ ہم ایسے غیر شرعی افعال کی پر زور مذمت کرتے ہیں اور حملے کے نتیجے میں زخمی ہونے والے حضرات اور ان کے اہلِ خانہ (یا ممکنہ طور پر شہید ہونے والوں کے لواحقین)سے اظہارِ ہمدردی و تعزیت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زخمیوں کو شفائے کاملہ و عاجلہ و مستمرہ عطا کرے اور ظالموں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے، آمین!