اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)
’عافیہ صدیقی کیس اور حکومتی بے حسی |
پاکستان میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ان کے وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ ، عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور سابق سینٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت کے خلاف مقدمہ زیر سماعت ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے عافیہ صدیقی کیس میں امریکی عدالت میں معاونت کرنے اور فریق بننے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت سے امریکہ میں کیس کا فریق نہ بننے کی وجوہات طلب کی تھیں لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی جواب جمع نہ کروانے پر وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا۔عافیہ صدیقی کے وکیل اور ان کی بہن نے امریکی عدالت میں درخواست دی ہے کہ عافیہ کو انسانی ہمدردی کی بنا پر رہا کیا جائے۔ اس کیس میں معاونت کے لیے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’’ایمائکس بریف‘‘ پر دستخط کر دے۔ (ایمائکس بریف ایک قانونی دستاویز ہے جو کوئی فرد یا گروہ جو براہ راست کیس کا فریق نہیں ہوتا، عدالت میں پیش کرتا ہے تاکہ کیس کے بارے میں اضافی معلومات، دلائل یا تبصرہ پیش کیا جا سکے۔) یعنی جینوا کنونشن کے تحت ہر ملک اپنے باشندے کو دوسرے ملک میں معاونت فراہم کرنے کے لیے Amicus Brief کا پابند ہے۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہماری ایک بہن بنا کسی جرم کے بدنام زمانہ امریکی جیل میں بائیس سال سےانتہائی تکلیف دہ تشدد کی سزا کاٹ رہی ہے ۔ ایک آرمی چیف نے اسے امریکہ کو فروخت کیا اور اب دوسرا آرمی چیف ٹرمپ سے تعلقات اور دوستیاں تو بڑھا رہا ہے لیکن مجال ہے کہ ’’حافظ‘‘ کہلانے والے فیلڈ مارشل کے منہ سے امریکی مطالبات کے جواب میں امت کی بیٹی عافیہ صدیقی کی آزادی کا مطالبہ نکل آتا۔ طاقت کے نشے میں بدمست یہ حکمران اپنے سے پہلے گزرے ہوئے حکمرانوں کا انجام کیوں بھول جاتے ہیں؟ انہیں خوف ہے اس بےبس اور لاچار عورت سے کہ وہ آزاد ہو کر ان کے کرتوتوں پر سے پردہ اٹھائے گی۔ اس عدالتی کاروائی کے چند روز بعد ہی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے دورۂ امریکہ میں عافیہ صدیقی کے حق میں آواز اٹھانے کے بجائےامریکی ادارے کو ایک انٹرویو میں عمران خان کے خلاف عدالتی کاروائی کو عافیہ صدیقی کے کیس کی عدالتی کاروائی سے تشبیہ دے کر اسے قانون کے مطابق قرار دیا۔ اس انٹرویو کے بعد نہ صرف اخبارات میں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اسحاق ڈار پر تنقید کی گئی۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
عافیہ صدیقی سے عمران خان تک: قید کا جواز؟ | خالد شہزاد فاروقی
’’ جب کسی قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے والا اس کا حکمران ہو تو شفا کے خواب بھی گناہ بن جاتے ہیں۔ جب مظلوم کی فریاد کو اقتدار کی میز پر تمسخر بنا دیا جائے تو عدل کا ترازو زمین پر گر جاتا ہے۔ ابھی کل ہی قوم نے یہ خبر سنی تھی کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، یہ اعلان بظاہر ایک امید کی کرن تھا،ایک برسوں سے جلتے دل کے لیے مرہم جیسا لیکن اُس سے اگلے ہی لمحے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واشنگٹن میں بیٹھ کر جو کہا، وہ صرف ایک بیان نہیں تھا، یہ قوم کے شعور کی توہین،قربانیوں کی تذلیل اور مظلومیت کا قتل تھا۔ اسحاق ڈار نے اٹلانٹک کونسل میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”میں اگر کہوں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس میں ناانصافی ہوئی تو یہ غلط ہو گا کیونکہ یہ سب ’ڈیو پروسیس‘ یعنی قانونی طریقے سے ہوا‘‘۔ موجودہ حکمرانوں کے نزدیک مظلوم صرف وہی ہوتا ہے جو ان کے مفادات کے تابع ہو۔ عافیہ صدیقی جیسے قومی وقار کی علامت کا دفاع کرنا تو درکنار،اُسے ظالم کے حق میں جواز بنا کر عمران خان جیسے مقبول رہنما کی غیر قانونی قید کو درست قرار دینا، دراصل غلامی کی انتہا ہے۔ اگر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر بولنا ”ناانصافی“ ہے تو پھر انصاف کس کو کہتے ہیں؟ گویا امریکہ کی عدالت کا فیصلہ شریعت سے بڑا، انسانیت سے برتر اور مظلوم کی چیخوں سے مقدس قرار دے دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ عافیہ صدیقی جسے اغوا کیا گیا،جس پر پانچ سال تک کسی عدالت میں مقدمہ نہیں چلا،جس کے معصوم بچوں کا آج تک کوئی اتا پتا نہیں،جس نے امریکی جیل میں ظلم، جنسی درندگی اور اذیت کا وہ دوزخ سہا جو شاید دوزخ کے باسی بھی نہ سہیں، اسے قانونی طریقہ کار کہنا کیا مظلومیت کی توہین نہیں؟ کیا اسحاق ڈار نے اس قوم کو اتنا ہی سادہ لوح سمجھا ہے کہ وہ حقیقت اور فریب میں تمیز نہ کر سکے؟ عافیہ صدیقی صرف ایک عورت نہیں،وہ پاکستانی ریاست کی غیرت کا استعارہ ہیں۔‘‘
[روزنامہ پاکستان]
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خلاف بیہودہ بیان بازی | متین فکری
’’ہمارے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم محترم اسحاق ڈار نے پاکستان کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وحشیانہ سزا کے بارے میں جو بیان دیا ہے وہ انتہائی بیہودہ ہی نہیں نہایت شرمناک بھی ہے۔ آخر وزیر خارجہ کس نظام انصاف کے تحت عافیہ کی سزا کو جائز اور قانونی عمل کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ کیا امریکا کا قانون اور نظام انصاف اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک عورت کو بچوں سمیت پاکستان سے اغوا کیا جائے اور افغانستان کی بدنام جیل میں اس پر وحشیانہ تشدد کیا جائے۔ جب یہ خبر عالمی میڈیا میں پھیلے تو اسے امریکا لے جا کر ایک نہایت مضحکہ خیز مقدمے میں کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر ایک کنگرو کورٹ کے ذریعے اس عورت کو چھیاسی برس قید کی سزا دی جائے۔ اگر یہی امریکا کا نظام انصاف ہے تو اس پر ہزار بار لعنت بھیجنا بھی کم ہے، کجا کہ اسے درست قرار دینا۔ یہ اسحاق ڈار کا ہی حوصلہ ہے کہ انہوں نے اسے درست قرار دیا ہے ورنہ پوری دنیا میں اس پر لعنت ملامت کی جارہی ہے۔‘‘
[روزنامہ جسارت]
سزائیں، صدائیں اور عافیہ صدیقی | بابر اعوان
’’ تاریخِ آمریت کی بے شمار سزائیں اور صدائیں اندرونِ ملک اور سات سمندر پار ہمارا پیچھا کر رہی ہیں۔ ان میں عافیہ صدیقی کی سزا بھی شامل ہے۔ جسے پاکستان سے اغوا کرکے امریکہ کے مقبوضہ بگرام ائیر بیس کے ٹارچر سیل میں رکھا گیا، جہاں سے ایک ٹرانسپورٹ طیارے کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کو اسحاق ڈار کے بقول ‘Due Process’ کے تحت امریکہ لے جا کر سزا دینے کا ایکشن کیا گیا۔
……کیا اسحاق ڈار قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ عافیہ صدیقی کی گرفتاری کے لیے پاکستان کے قانون کے مطابق کس عدالت نے فیئر ٹرائل کیا اور کس ڈپٹی کمشنر نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کے بعد اور حوالگی سے پہلے ’ڈیو پراسس‘ دیا تھا؟ دراصل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری ڈیو پراسس والی نہیں تھی بلکہ بے شرمی سے ہونے والی اغواکاری تھی۔ ایسی اغوا کاریوں کا تحریری اعتراف اُس وقت کے آمرِ مطلق نے لکھ کر اپنی کتاب In the line of fire میں بھی کر رکھا ہے۔ ‘‘
[روزنامہ دنیا]
غزہ کے بچے |
غزہ کے تباہ حال کھنڈرات میں ہر طرف موت رقصاں ہے۔ آسمان سے آتش و آہن کی برسات ہے، زمیں پر صہیونی کتے غزہ کے معصوم و بےبس لوگوں کی بوٹیاں نوچ لینے کے لیے ہر لمحہ تیار، اور پانی کے چند گھونٹ اور کھانے کے چند لقموں کو ترستے بچے، بوڑھے اور جوان آہستہ آہستہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ غزہ کے باسی اس وقت جس کرب، تکلیف اور بھوک سے جس حال میں ہیں، ہم پیٹ بھرے اپنے آرام دہ گھروں میں اپنے پیاروں کے ساتھ امن سے بیٹھے وہ کبھی تصور ہی نہیں کر سکتے۔ اس وقت عملی طور پر پورا غزہ کھنڈرات کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ لوگ عارضی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، انہیں بھی قابض صہیونی روزآنہ کی بنیاد پر تباہ کر رہے ہیں۔ صہیونیوں کے مسلط کردہ قحط سے یوں تو سب ہی جان کی بازی ہار رہے ہیں لیکن اس سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور ہر روز غزہ کے یہ معصوم بچے کبھی بھوک سے اور کبھی صہیونیوں کی گولی کا نشانہ بن کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ یونیسف کے مطابق ۲۸ بچے ہر روز لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ قریب دو سال کی اس مسلط کردہ جنگ نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شہید ہونے والے اکثر بچوں کے سر اور سینے میں گولیاں مار کر صہیونی انہیں شہید کر رہے ہیں۔ اور اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق اٹھارہ ہزار بچے شہید اور اس سے کہیں زیادہ زخمی و معذور ہوئے ہیں۔
روزنامہ نئی بات میں محمد عرفان ندیم لکھتے ہیں:
غزہ کے بچے | محمد عرفان ندیم
’’اقوام متحدہ کے انسانی امور کے کوآرڈینیشن آفس نے جون کے آخری ہفتے میں رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق غزہ کی ستر فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا شکار ہے اور دو لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو روزانہ بھوکے سوتے ہیں۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر امداد کا راستہ نہ کھولا گیا تو صرف چند ہفتوں میں غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اے ایف پی کی جون کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہسپتالوں کے بچوں کے وارڈز بھر چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کچھ بچوں کا وزن دو ماہ کے بچے کے برابر ہے حالانکہ ان کی عمر چھ ماہ سے زیادہ ہے۔
……یہ محض رپورٹس نہیں یہ آٹھ ارب انسانوں کی بے حسی کی اجتماعی داستان ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں ان کے پیچھے ان ماؤں کی چیخیں ہیں جو پانچ پانچ دن سے بھوکی پیاسی اپنے بچوں کو بانہوں میں لیے بیٹھی ہیں اور ان کے لیے ایک گھونٹ دودھ تک میسر نہیں۔ ان کے پیچھے ان باپوں کی ٹوٹتی ہوئی امیدیں ہیں جو روزانہ کسی معجزے کی آس میں ہسپتالوں کے دروازوں پر کھڑے رہتے ہیں مگر خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں۔ یہ صرف اخبار کے صفحات پر لکھے ہوئے ہندسے نہیں ہیں بلکہ یہ ان بچوں کی رکی ہوئے سانسوں کی گنتی ہے جو دودھ اور دوا کے انتظار میں ماؤں کی بانہوں میں سسک سسک کر جان دے رہے ہیں۔ یہ ان قبروں کے اعداد و شمار ہیں جو غزہ کی زمین پر ہر روز تازہ کھو دی جا رہی ہیں اور ان میں پھول جیسے معصوم بچوں کو دفن کیا جا رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار وہ ننگی حقیقت ہیں جوچیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ انسانیت کا زوال کتابوں میں لکھی ہوئی کوئی کہانی نہیں رہا بلکہ یہ غزہ کی گلیوں میں کھلی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اور یہ اعداد و شمار خبردار کر رہے ہیں اگر آٹھ ارب انسانوں کے ضمیر نہ جاگے تو عنقریب یہ زمینی سیارہ کسی بہت بڑے حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘
[روزنامہ جسارت]
اپریل و مئی ۲۰۲۵ء کے شمارے میں ہم نے ایک کالم ’’غزہ مجھے معاف کر دو‘‘ سے ایک اقتباس پیش کیا تھا۔ وہی کالم نگار جمال کنج مڈل ایسٹ مانیٹر میں لکھتے ہیں:؎
Forgive them not, Gaza… | Jamal Kanj
’’عرب دنیا؟ مکمل اور سراسر شرم کا مقام ہے۔ غزہ قحط میں ڈوب گیا اور حکمران تماشائی بنے کھڑے رہے گویا کسی افسانوی ڈرامے کے غیر متحرک ناظر ہوں، لاتعلق اور بے حس۔ یمن کے سوا عرب، حکمران ہوں یا عوام، یا تو شرمناک خاموشی اختیار کیے رہے یا پھر اسرائیل کے ساتھ معمول کے کاروبار میں مصروف رہے، حالانکہ غزہ بھوک سے مر رہا ہے۔
……اسی دوران، یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ قحط میں دی گئی حالیہ محدود نرمی ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے، غزہ میں یرغمالیوں کو آزاد کروانے کی کوشش کی خاطر، ٹرمپ کی مستقبل میں غزہ میں مشترکہ فوجی کاروائی کی حمایت کے بدلے نیتن یاہو کی جانب سے محدود امداد کی اجازت۔ بھوک کے بدترین مناظر کو عارضی طور پر دبا دینے سے، ٹرمپ کے لیے امریکی فوجیوں کو ایک اور اسرائیل کے لیے گھڑی گئی جنگ میں بھیجنا آسان ہو جائے گا۔
……دریں اثناء، آبادی کا سب سے کمزور حصہ، ایک ملین بچے، آہستہ آہستہ نڈھال ہو رہے ہیں، جو بچ جائیں گے وہ صحت کے ناقابلِ بحالی مسائل اور گہرے نفسیاتی زخموں کا بوجھ اٹھائیں گے، جو کبھی نہیں بھریں گے۔ اپنے بچپن سے محروم وہ اپنے جسمانی اور جذباتی صدمات کو ہمیشہ کے لیے اٹھائیں گے۔ وہ نہ بھولیں گے اور نہ کبھی معاف کریں گے۔
انہیں کبھی معاف نہ کرنا، غزہ!
نہ اس یورپ کو جو تمہارے بچوں کو کھانا دینے سے انکار کرتا ہے،
نہ ان عربوں کو جو نظریں پھیر لیتے ہیں،
نہ ٹرمپ انتظامیہ کو جو تمہاری قحط کو فنڈ فراہم کر رہی ہے،
نہ ہی اس دنیا کو جو تمہیں بے سود تکلیف میں مبتلا دیکھتی رہتی ہے۔‘‘
[Middle East Monitor]
اہل غزہ اور عربوں کی بے حسی! |
عرب ممالک کا جہاں ذکر چھڑا ہے تو ذکر ہو جائے سعودی عرب اور فرانس کے توسط سے غزہ کے حالات پر ہوئی کانفرنس کا جو ۲۸ جولائی ۲۰۲۵ء کو نیو یارک میں منعقد ہوئی۔ جس میں سعودی عرب، قطر، مصر،اردن، ترکیہ سمیت ۲۲ عرب لیگ کے ممالک، پوری یورپی یونین، اور مزید ۱۷ ممالک نے ایک اعلامیہ جاری کیا۔ جس میں نہ صرف ۷ اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ کے حملوں کی مذمت کی گئی بلکہ پہلی مرتبہ مسلم ممالک نے مشترکہ طور پر حماس سے ہتھیار ڈالنے اور حکومت فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی امید ظاہر کی ہے کہ اس طرح نہ صرف جنگ کا خاتمہ ہوگا بلکہ دو ریاستی حل کی طرف معاملہ بڑھے گا۔ قطر نے حماس کے راہنماؤں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ کس قدر بے غیرتی اور ڈھٹائی سے یہ مسلمان حکمران ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہی حکمران ہیں جنہیں مخاطب کر کے حماس کے ترجمان ابو عبیدہ نے کہا:
’’اے مسلم اور عرب اقوام کےرہنماؤ! اور اس کے اشرافیہ، اس کی بڑی جماعتیں اور اس کے علماء: آپ خدا کےاسامنے ہمارے مد مقابل ( حریف) ہیں۔ آپ ہر یتیم بچے، ہر بیوہ عورت، ہر بے گھر، بے سہارہ، غمگین،زخمی اور بھوکے شخص کے مد مقابل ہیں۔ آپ کی گردنوں پر ہزاروں بے گناہوں کا خون ہے جنہیں آپ کی خاموشی نے مایوس کیا۔ یہ مجرم نازی دشمن آپ کی موجودگی اور نظروں کے سامنے یہ نسل کشی نہ کرتا اگر اسے سزا سے تحفظ، خاموشی کی ضمانت اور غداری کی خریداری نہ ملتی۔ ہم اس بہتے خون کے کسی ذمہ دار کو معاف نہیں کرتےاور نہ ہی ایسے شخص کو مستثنیٰ ٹھہراتے ہیں جو اپنی صلاحیت اور اثرورسوخ کے مطابق عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔‘‘
لیکن یہ وہ آستین کے سانپ ہیں جن کے گلے میں انہی صہیونی طاقتوں کا پٹہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک ایک کر کے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، کیونکہ ان کے ہاتھ بھی غزہ کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور یہ بھی فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔
Gaza is starving and the world looks away | Adnan Hmidan
’’اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے مطابق:
- غزائی بحران تباہ کن سطح پر پہنچ چکا ہے۔
- غزہ کے ۹۰ فیصد سے زیادہ بچے غزائی قلت کا شکار ہیں۔
- بھوک اور پانی کی کمی سے شیر خوار بچوں کی اموات اب روزمرہ کا معمول ہیں۔
پھر بھی دنیا خاموش ہے!
اس سے بھی بد تر یہ ہے کہ بعض حکومتیں اسرائیل کے اقدامات کو’’ذاتی دفاع‘‘ کا نام دے کر جواز پیش کرتی ہیں، جیسے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بالکل جائز ہو۔
لیکن ذمہ داری صرف مغرب پر عائد نہیں ہوتی!
مصر کو بھی اپنے کردار پر جواب دہ ہونا پڑے گا۔ رفح کراسنگ، غزہ کا واحد راستہ جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں، مہینوں سے بند ہے۔ قاہرہ امداد اندر بھیجنے یا مریضوں کو باہر نکالنے کے لیے اجازت تل ابیب سے طلب کرتا ہے۔ ہم کب تک یہ بہانہ تراشتے رہیں گے کہ یہ غیر جانبداری ہے؟
یہ جرم میں شرکت ہے!
اور ان عرب حکومتوں کا کیا جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے؟ کچھ خاموش رہیں، کچھ اس سے بھی دو ہاتھ آگے بڑھیں اور اس وقت جب غزہ بھوک سے مر رہا تھا انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کیے۔ کم از کم مغرب (اہل غزہ سے) تعلق کا دعویٰ تو نہیں کرتا۔ لیکن یہ حکومتیں کرتی ہیں، لیکن اپنے فلسطینی بھائیوں کے دکھ کا مداوا کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتیں۔
……تو غزہ کے ساتھ پھر درحقیقت کون کھڑا ہے؟
کوئی حکومت نہیں، کوئی ادارہ نہیں، بلکہ عام لوگ۔ مظاہرین، عام شہری۔ وہ جو اب بھی ضمیر رکھتے ہیں اور آنکھیں پھیر لینے سے انکاری ہیں۔
غزہ کو کسی کے ترس کی ضرورت نہیں، اسے انصاف چاہیے۔ یہ نسل کشی کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، اور ان کے احتساب کا جنہوں نے اسے ممکن بنایا ہے۔
اب سوال یہ نہیں رہا کہ : ہو کیا رہا ہے؟
ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ: عمل کون کرے گا؟
اور جب تاریخ لکھی جائے گی، تو کون اپنی خاموشی کی وجہ سے جانا جائے گا۔
کیونکہ خاموشی، اس بھوک کے سامنے، غیر جانبداری نہیں!
یہ جرم میں شرکت ہے!‘‘
[Middle East Monitor]
غربِ اردن کے کنارے بڑھتا ہوا صہیونی قبضہ! |
اکتوبر ۲۰۲۳ء میں ہونے والے معرکہ طوفان الاقصیٰ کے بعد مغربی کنارے پر اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں بھی تیزی سے بڑھیں، اور صہیونی انتہا پسندوں نے قابض فوج کی سرپرستی میں تیزی سے فلسطینیوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنانا اور ان پر قبضہ کرناشروع کر دیا اور۷ اکتوبر کے حملوں سے اب تک ۱۸۵۰۰ سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کر کے اسرائیلی جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ حال ہی میں مزید ۳ ہزار ایکڑ فلسطینی زمین پرحکومتی قبضے کی منظوری دی گئی ہے۔ اسی طرح مشرقی یروشلم میں بھی قبضہ بڑھایا جا رہا ہے۔ وسعت اللہ خان نے بھی، جن کی فلسطینی قضیہ پر بہت گہری نظر ہے، اپنی تحریر میں اس حوالے سے بہت اچھے طریقے سے توجہ دلائی ہے:
غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے | وسعت اللہ خان
’’ غزہ کے المیے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔
۱۹۹۴ء کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔
اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دہشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔
مسجدِ اقصیٰ کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔
مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔‘‘
[روزنامہ ایکسپریس]
اسی طرح ایک انسانی حقوق کے ایک کارکن(جن کا، لب کشائی کرنے کی پاداش میں، ویزا کینسل کر دیا گیا) اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
I saw many atrocities as a senior aid official in Gaza. Now Israeli authorities are trying to silence us | Jonathan Whittall
’’ یہ انتقامی کارروائیاں اس حقیقت کو مٹا نہیں سکتیں جو ہم نے روزانہ دیکھی ہے، نہ صرف غزہ میں بلکہ مغربی کنارے میں بھی۔ جو میں نے وہاں دیکھا وہ غزہ میں ہونے والے واقعات سے مختلف نظر آتا ہے، لیکن اسک کا ایک متحدہ مقصد ہے: علاقائی تسلسل کو توڑنا اور فلسطینیوں کو مسلسل سکڑتے ہوئے محصور لاقوں میں دھکیلنا۔ مغربی کنارے کےفلسطینیوں کو روزانہ جبر و استبداد کا سامنا ہے، انہیں آباد کاروں کے تشدد اور املاک کو مسمار کرنے کے ذریعے ان علاقوں سے باہر دھکیلا جا رہا ہے جہاں بستیاں پھیل رہی ہیں اور نقل و حرکت پر پابندیوں کے جال کے ذریعے انہیں منقطع شدہ اور خصوصی تعمیر کر دہ علاقوں میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں فوجی آپریشنز بڑھ رہے ہیں۔
غزہ کو بھی ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس کے ۲۱ لاکھ لوگوں کو اب پٹی کے صرف ۱۲ فیصد رقبے میں دھکیلا جا رہا ہے۔ مجھے ۱۳ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو وہ خوفناک کال موصول ہونا یاد ہے جس میں شمالی غزہ کی مکمل جبری نقل مکانی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس ظالمانہ ابتدائی عمل کے بعد سے، غزہ کے تقریباً تمام لوگوں کو، ایک بار نہیں بلکہ بار بار، بغیر مناسب پناہ، خوراک یا تحفظ کے جبری طور پر بے گھر کیا گیا ہے۔میں نے خود دیکھا کہ کہ فلسطینی زندگی کو برقرار رکھنے کے وسائل کو منظم طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔
ہم نے دیگر ہسپتالوں کے صحنوں میں موجود اجتماعی قبروں کو کھولنے میں مدد کی جہاں خاندان بکھرے ہوئے کپڑوں میں اپنے پیاروں کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں مارنے یا غائب کرنے سے پہلے برہنہ کیا گیا تھا۔ ہم نے فوجیوں سے بحث کی جو ایک چیختے ہوئے ریڑھ کی ہڈی کے زخمی مریض کو زبردستی ایمبولینس سے ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے، جب اسے ہسپتال سے نکالا جا رہا تھا۔ ہم نے ڈرون حملوں اور ٹینک کے گولوں سے ہلاک ہونے والے امدادی کارکنوں کی لاشوں کو واپس بھیجا جو امداد فراہم کرنے کی کو شش کر رہے تھے، اور این جی اوز کے کارکنوں کے خاندان کے افراد کی لاشمیں جمع کیں جو ان مقامات پر ہلاک ہوئے جنہیں اسرائیلی فوج نے ’انسانی‘ مقامات کے طور پر تسلیم کیا تھا۔‘‘
[The Guardian]
آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے دعوے ایک ایسا سراب ہیں جو کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔ ایک طرف یہ مغربی طاقتیں نام نہاد ’’تشویش‘‘ کے کھوکھلے بیانات جاری کرتی ہیں، اسرائیل کو فلسطینی ریاست ’’تسلیم‘‘ کرنے کی دھمکی دیتی ہیں تو پس پردہاس بات کا خاص خیال رکھتی ہیں کہ اسرائیل کو خفیہ معلومات، ہتھیاروں اور تجارتی اشیاء کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ امریکہ اور یہ یورپی اقوام فلسطینیوں کی اس نسل کشی میں پوری طرح شریک جرم ہیں۔ اور نہ ان سے اور نہ ہی ان کے کٹھ پتلی غدار مسلم حکمرانوں سے کسی بھی قسم کی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالی کی ذات ، اس کی خدائی اور اس کا اختیار ان تمام طاقتوں پر بھاری ہے۔
اللہ تعالی نے غزہ میں بے سروسامانی کے عالم میں لڑنے والے ان مٹھی بھر جوانوں کا ایسا رعب اور ایسی ہیبت دشمن پر طاری کی ہے کہ اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگائیں جو اسرائیلی نشریاتی ادارہ کان(KAN) نے شائع کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۵ء کے شروع سے اب تک ۱۶ فوجیوں نے خود کشی کی جبکہ یہ تعداد ۲۰۲۴ء میں ۲۱ اور ۲۰۲۳ء میں ۱۷ تھی۔ دوسری طرف انیس ہزار فوجی جو اب تک زخمی ہوئے ہیں ان میں سے دس ہزار اب بھی نفسیاتی علاج کے اداروں میں ٹریٹمنٹ لے رہے ہیں۔ بے شک یہ تعداد حقیقت میں اس سے بھی بڑھ کر ہوگی۔ اور دشمن کے ’’ناقابل شکست‘‘ ہونے کے مفروضے کی بھی نفی کرتی ہے۔ بے شک اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ ان گنتی کے چند لٹے پٹے بندوں کے سامنے کھڑے دشمن کو شکست کی دھول چٹا دے۔ نیتن یاہو نے جو پورے غزہ پر قبضے کا اعلان کیا ہے، یہ اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارا ہے۔ کیونکہ قابض فوج اس قدر بزدل ہے کہ بچوں بوڑھوں اور خواتین کو تو تاک تاک کر نشانہ بنا سکتی ہے لیکن فلسطینی بہادر نوجوانوں سے دو بدو لڑائی کی سکت نہیں رکھتی۔ ایسے میں ہمیں، جو دین و جہاد کے علمبردار کہلاتے ہیں، غزہ اور قبلہ اول کو بچانے کے لیے تدبیر کر لینی چاہیے اور اللہ کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہیے:
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا ڌ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا
’’ اور (اے مسلمانو) تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال لایئے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمار لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔ ‘‘
٭٭٭٭٭