خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

ذہن میں گزرنے والے چند خیالات

دُرودوں کی، سلاموں کی ہو بارش ذاتِ اطہرؐ پر
اور اُنؐ کی آل پر، اصحابؓ پر، امت کی ماؤںؓ پر
جنہوں نے غم پہ غم سہہ کر عَلَم دِیں کا اُٹھا رکھا
جنہیں فُسّاق نے گرچہ مسلسل ہی ستا رکھا
مگر غافل ہوئے ہر گز نہ وہ، دِیں کی حفاظت سے
کہ بڑھتی ہی گئی شمع کی لو، خوں کی تمازت سے1 اشعار: شاعرِ جہاد شیخ احسن عزیز شہید رحمۃ اللہ علیہ

اللّٰھــــــــــــــــــــــــم اجعلــــــــــــنا معھـــــــــم، وصلی اللہ علـــــــــــــی النــــــــــــبی، آمیــــــــن!

حکمرانوں کی دیدہ دلیری!

بڑے بڑے اولیاء اللہ کو سنا، پڑھا، دیکھا کہ آخرت کی جواب دہی پر لزراں و ترساں رہتے۔ بلکہ مختلف احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ ”جس سے حساب لیا گیا تو وہ مارا گیا“۔

جبکہ ہمارے بے دین، لا دین، دین فروش حکمران جو اللہ کی شریعت کی جگہ انگریزوں کا بنایا نظام نافذ کرتے ہیں، جن کا نظام سود کو معیشت، زنا کو (حقوقِ نسواں بل، ٹرانس جینڈر ایکٹ، اٹھارہ سال سے کم عمر کے نکاح پر پابندی کی صورت) معاشرت اور حدود اللہ کی جگہ انگریز کے کالے قوانین کو ”شریعت“ قرار دیتا ہے۔

یہ حکمران اپنے خود ساختہ ریاست و جمہوریت و آئین کے بھی منافی ”ہائبرڈ“ نظام کو نافذ کرتے ہیں۔

پھر اس سب کے بعد ان رندوں اور بدکاروں کی جرأت ملاحظہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ کو یہ جواب دوں گا کہ ”میرٹ پر کام کیا“!قاتلھم اللہ!

جہاد کے فرضِ عین ہونے میں پہلے کہاں کوئی شک تھا؟!

ابو عبیدہ کے آخری بیان کے بعد اگر کوئی تردد تھا، کسی کو کوئی شک تھا، کوئی سمجھتا تھا کہ وہ زندگی کے دھندوں میں رہ کر ہی قدس و فلسطین کا حق ادا کر رہا ہے، تو……

جان لیجیے! کسی نے کوئی حق ادا نہیں کیا!

فرض کی ادائیگی کے لیے وہ قدم اٹھائیے جس کا تقاضا اللہ کی شریعت آپ سے کر رہی ہے، وہ نہیں جو ہماری عقلوں نے ہمیں بتایا ہے۔ اب جو بھی ہو بس اس کا نتیجہ ابو عبیدہ اور ان کے ساتھیوں کے میدان میں قدم جمنے کی صورت میں اور کم از کم اہلِ غزہ کی ناکہ بندی ختم ہونے کی صورت میں ظاہر ہو۔ یہ ہماری جہد کا پہلا کامیاب نتیجہ ہو گا اور آخری فلپین و اندلس، کشمیر و فلسطین کی آزادی!

اپنے پیشوں، دفتروں، کاروباروں، گھروں، اہلِ خانہ، مدرسوں، خانقاہوں سے نکلیے اور رسمِ شبیریؓ ادا کیجیے، اس سے کم پر اب بخشش خدا ہی جانے کہ ہو پائے یا نہیں!

ہم بندگانِ خدا شریعت کے پابند ہیں!

ہمارے یہاں برِّ صغیر ہند و پاک میں شریعت، طریقت اور سیاست کی اصطلاحیں عام ہیں اور اس پر حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی (نوّر اللہ مرقدہ) کا ایک خطبہ بھی موجود ہے۔

برِّ صغیر میں یہ تصور بڑے زمانے تک چلا کہ طریقت ایک جدا چیز ہے اور شریعت جدا چیز۔ حضرت مجدد الفِ ثانیؒ نے طریقت کو شریعت کے تابع قرار دیا کہ یہ کوئی جدا چیز نہیں ہے بلکہ شریعت کے تابع ہے۔ مکتوباتِ امام ربانی میں ہے:

طریقت اور شریعت عین ایک ہی چیز ہیں، ان کے درمیان بال برابر بھی کوئی مخالفت نہیں پائی جاتی… ہر وہ چیز جو شریعت کے خلاف ہو، مردود ہے۔“

طریقت کے متعلق ہمارے اکابرینِ اہل السنۃ کی یہی رائے ہے، اسی کی توثیق حضرت تھانویؒ اور مولانا علی میاںؒ نے بھی کی ہے۔

جس طرح طریقت شریعت کے تابع ہے بالکل اسی طرح سیاست بھی شریعت کے تابع ہے۔

کوئی صوفی ہو یا مُلّا ہو یا مجاہد ہو یا حاکم ہو، یہ سب شریعت کے تابع ہیں، ان کے اقوال و اعمال کو شریعت ہی پر پرکھا جائے گا۔

صوفی کی طریقت میں اگر پیرویٔ سنت اور اتباعِ سلف کا تقاضا ہے تو مُلّا کے بیان کردہ فتوے میں بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ اللہ کی شریعت سے حکم بیان کرے۔ مجاہد کا جہاد بھی تابعِ شریعت ہونا چاہیے ورنہ بندوق بردار تو ڈاکو بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی شریعت حکمران کے لیے بھی کچھ اصول و ضوابط و ثوابت (constants) بیان کرتی ہے۔ اگر کوئی حکمران اللہ کی شریعت کے علاوہ کوئی امر بیان کرے تو پھر بھلے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ راست، امیر المومنین، سیّدنا فاروقِ اعظمؓ ہی کیوں نہ ہوں ان کو مسلمان عوام میں سے ایک عورت بھی کہہ سکتی ہے کہ آپ سے سہو ہوا اور وہ بھی کشادگیٔ صدر سے کہتے ہیں کہ ”أصابت امرأة وأخطأ عمر“، عورت نے ٹھیک کہا اور (میں) عمر غلط ہو گیا (رضوان اللہ علیہم أجمعین)۔

یاد رکھیے حکمرانوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں ہی پر تنبیہ و نصیحت کرنے کے جرم میں امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام ابنِ تیمیہ سے مجدد الفِ ثانی ﷭تک کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں!

پس اگر آج کے فاتح مسلمان حکمرانوں سے کوئی شرعاً واضح قابلِ گرفت خطا ہو اور اس پر امت کے اصحابِ خیر علماء و داعیان رد و نصیحت نہ کریں تو ہمارے ان فاتح مسلمان حکمرانوں کو ہم اپنے ہاتھوں سے ہی شہباز شریف، ابنِ سلمان اور اردگان بنا دیں گے!

Evolution of a Chicken

آج ایک مختصر ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا، عنوان تھا: Evolution of a Chicken، اس ویڈیو میں دکھایا گیا کہ کیسے ایک خلیے سے چوزے کا سفر شروع ہوا، وہ کیسے پہلے ایک آبی مخلوق تھی، پھر کیسے وہ خشکی کا جانور بنا، کیسے اس نے ’سیکھا‘ کہ اب وہ پانی میں نہیں خشکی پر ہے تو اب انڈوں کو ایک خول؍چھلکے کی ضرورت ہے، وغیرہ۔ خیال آیا:

کیا ملحدین کبھی کسی چوراہے پر ٹریفک جام میں پھنسے ہیں؟

ایسا چوک جہاں ٹریفک اشارے کام نہ کرتے ہوں۔

اگر وہ پھنسے ہیں تو یقیناً انہوں نے دیکھا ہو گا کہ ایک ٹریفک وارڈن آ کر ٹریفک کو منظم کرتا ہے اور گاڑیاں اپنی اپنی سمت روانہ ہو جاتی ہیں۔

لیکن جب تک ٹریفک پولیس کا اہلکار نہیں آتا، ٹریفک جام، ہارن، گالم گلوچ، ایک دوسرے کو گھور گھور کر دیکھنا اور سڑک کو ذاتی جائیداد سمجھ کر، ’میں نہ مانوں‘ اور ’میں کسی اور کو کیوں جانے دوں‘ پر سبھی اڑے رہتے ہیں۔

ذرا سوچیے! عظیم الشان کائنات کی ایک galaxy، اور اس کا ایک چھوٹا سا نظامِ شمسی اور اس نظامِ شمسی میں چھوٹی سی دنیا کے ایک ملک کے ایک شہر کا، کائنات کے مقابلے میں microscopic چوک چوراہا۔

اس چوک کا نظام ٹریفک وارڈن کی غیابت میں درہم برہم ہو جاتا ہے، تو کیا یہ کائنات بنا خدا کے خود ہی سے چلتی چلی جا رہی ہے؟!

جوانیاں!

عمير بن ابی وقاص، سعد بن خيثمہ، صفوان بن وہب، حارثہ بن سراقہ، مبشر بن عبد المنذر، ذو الشمالين بن عبد عمرو، مہجع بن صالح، عاقل بن البكير، رافع بن المعلى، عمير بن الحمام، يزيد بن الحارث، عوف بن الحارث، معوذ بن الحارث، عبيدہ بن الحارث……رضی اللہ عنہم!

ہم نے ابھی چودہ (۱۴) نام پڑھے ہیں۔ یہ چودہ نام، شہدائے بدر کے نام ہیں۔ ایسی جوانیوں کے نام کہ جب یہ مدینہ سے نکلے تو ان کا ارادہ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجارتی قافلے کو بطورِ غنیمت پکڑنے کا تھا۔ لیکن جب قافلہ دسترس سے نکل گیا اور اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم کفار سے میدانِ بدر میں ٹکرانے کا ہوا تو ان خوبصورت، زندگی سے پر امید، روشن مستقبل والی جوانیوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہم یہاں جانیں تو دے دیں گے، لیکن اس کا حاصل کیا ہو گا؟

یہ چودہ لوگ ایک ایسی جنگ میں کٹ گئے تھے، جس کا (ظاہری دنیا میں سلطنت و غلبے کی صورت) حاصل کچھ بھی نہیں تھا، دور دور تک اسبابِ ظاہری میں کوئی امکان نہ تھا کہ اس جنگ کے بعد کبھی مستقبل میں مکہ فتح ہو سکے گا۔ یہ چودہ تو باقی سب چھوڑیے بدر کی فتح، سردارانِ قریش خصوصاً فرعونِ امت ابو جہل کا قتل، ستر قیدی، مالِ غنیمت، مسلمانوں کی خوشی، کچھ بھی نہ دیکھ سکے تھے۔

اسی جنگ میں ایک ماں نے اپنے سات بیٹے بھی بھیجے تھے، اس ماں کا نام اُمِ عفراء تھا (رضی اللہ عنہا)۔ پھر اس ام عفراءؓ کے دو بیٹے عوفؓ اور معوذؓ اسی جنگ میں کٹ بھی گئے۔ یہ مشہور معاذؓ و معوذؓ کی ماں ہیں۔ ان کو جب اپنے گھبرو جوانوں کی شہادت کی خبر ملی تو بولیں:

الحمد لله الذي شرفني باستشهاد أبنائي مع رسول الله ﷺ.‘ (طبقات ابن سعد)

اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے یہ شرف عطا کیا کہ میرے بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (دورانِ جنگشہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔‘

ام عفراءؓ نے نہیں سوچا کہ یہ گھبرو جوانوں کی شہادتیں اس دنیا میں ’تحریکی‘ طور پر کس قدر فائدہ مند ہوں گی؟

حقیقت یہ ہے کہ ہم ہی کچھ زیادہ سمجھ دار ہو گئے ہیں۔ فرزانگی نے عشق و دیوانگی ہم سے چھین لی ہے، اور اہلِ معرفت جانتے ہیں کہ عاشق تو کبھی فرزانے نہیں ہوا کرتے، وہ تو شمعِ محبت پر جانیں وار دیتے ہیں۔

جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی پکار ہو، کہ جس میں زندگی ہے تو پھر میرا کارواں جیتے یا ہارے، مجھے فتح و شکست سے کیا مطلب؟

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

اسی لیے مالک نے اگر کسی کے ایمان کو معیار قرار دیا تو صحابہ کے ایمان کو کہ جو دیوانے نہیں تھے بلکہ زمانے بھر کے فرزانے تھے! فرزانگی تو مالک کی خاطر جان وارنے کی دیوانگی کا نام ہے!

کہا کس نے نبھایا ہے؟

ائمۂ امت و فقہائے امت کا یہی اجماع ہم کو معلوم ہے کہ جہاد کی دو ہی حالتیں ہیں، ’فرضِ عین‘ یا ’فرضِ کفایہ‘۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ جہاد آج فرضِ عین نہیں ہے!مان لیا کہ جہاد فرضِ عین نہیں ہے۔

آئیے فرضِ کفایہ ادا کرتے ہیں کہ اہلِ غزہ تو جو کٹ گئے سو کٹ گئے، جو بچ گئے وہ بچ جائیں!

نہیں! اہلِ غزہ جو بچ گئے ہیں وہ بچ نہ جائیں، وہ تو ان شاء اللہ یومِ آخرت کو بچ ہی جائیں گے!

بات ہماری ہے کہ ہم جو ’بچ‘ گئے ہیں، یومِ آخرت کو فرضِ کفایہ ادا نہ کرنے کے جرم میں ’کٹ‘ نہ جائیں!

دشمن ہمیں کاٹنے کے طریقے سوچ رہا ہے!

(اوائلِ اگست میں)جب ہمارے کچھ بھائی سوشل میڈیا پر امام ابن تیمیہؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے رد و مخالفت میں مصروف ہیں، تو مجھے کسی کا یہ قول یاد آ رہا ہے:

جب ہم اس بات پر جھگڑ رہے ہوتے ہیں کہ نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں یا پیٹ پر، تو ہمارا دشمن یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھوں کو کاٹنا کیسے ہے!“

حسبنا اللہ! غزہ میں مسلمان بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور مردوں کا قتلِ عام جاری ہے …… اور ہم ایسے مباحث میں الجھے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے، آمین۔

سچوں کے ساتھ ہو جاؤ!

صرف میرا اور آپ کا سچا ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ اہلِ حق و سچ کا حصہ بننا بھی لازمی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔“

اس آیت کے تحت علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ صرف خود سچا ہونا کافی نہیں، بلکہ سچوں کے ساتھ رہنا اور ان کی جماعت میں شامل ہونا بھی ضروری ہے۔“

مسجدیں گراتی ”اسلامی ریاست“ اور ہماری ذمہ داری!

اب سبھی کے علم میں آ چکا ہے کہ اسلام آباد میں انتظامیہ نے راول ڈیم کے قریب ایک مسجد کو ”غیر قانونی“ قرار دے کر شہید کر دیا ہے۔

یہ سطور لکھنے کا مقصد پاکستان کی ریاست، ریاستی اداروں یا حکومت و انتظامیہ کی مذمت کرنا یا ان کی برائی اور ان میں موجود فساد کی نشاندہی کرنا نہیں ہے، ان سب کی حقیقت تو لال مسجد کی شہادت اور اس سے قبل اسلام آباد کی دیگر درجنوں مساجد و مدارس کی شہادت کے وقت افشا ہو چکی تھی۔

ان سطور کا مقصد اپنے آپ کو اور آپ کو متوجہ کرنا ہے۔

اوراقِ کلام اللہ کو شہید کر کے گندے نالوں میں بہانا، مساجد کو گرانا، علماء کو قتل کرنا شیوۂ کفر ہے، یہ یہود کی نمایاں خصلت تھی اور ہے۔ اب قیامت تک جو بھی شخص، ریاست، ریاستی ادارہ، حکومت وغیرہ یہ خسیس حرکت کرے گا تو اس کے ایمان کا جائزہ تو ایک عام مسلمان بچہ بھی لے سکتا ہے۔

مدنی مسجد کی شہادت اور اس کی جگہ درختوں کا لگا دینا، اس منظر نے ہمارے دل کو بھی دہلایا۔ کچھ معزز لوگوں کو مدنی مسجد کی جگہ پر بیٹھا روتے دیکھ کر ہمارا بھی دل بھر آیا کہ اللہ کا گھر گرا دیا گیا، ان محترم و معزز لوگوں کے آنسو، احتجاج اور قرار دادیں لائقِ قدر اور ان کا جذبہ لائقِ صد احترام ہے۔

ہم نے پنجاب، سرحد، بلوچستان و سندھ میں دہائیوں چلنے والی دشمنیوں کی کہانیاں سنی ہیں، زمینوں پر قبضوں کے نتیجے میں نسل در نسل چلنے والی جنگیں۔ یعنی اگر کوئی ہماری زمین ہتھیا لے تو ہم اس سے جنگ پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

لیکن یہ اللہ کے گھروں کے لیے ہماری عجیب غیرت ہے کہ جو آنسوؤں، احتجاجوں اور قرار دادوں کے بعد سو جاتی ہے۔

حق تو یہ ہے کہ اللہ کے گھروں کو گرانے کے واقعے پر ہم آنسو نہ بہائیں، بلکہ اُن کو خون کے آنسو رلائیں جنہوں نے اللہ کے گھروں کو گرایا اور ایسا طاغوتی نظام ہم پر مسلط کیا جو مسجدوں کو گرانا ناک پر بیٹھی مکھی کو اڑانے جیسا آسان سمجھتا ہے۔

#أنس_الشريف

کسی نے #أنس_الشريف کی شہادت پر پوچھا، آپ نے کچھ لکھا نہیں؟

جواب دیا، کچھ واقعات انسان سے لکھنے بولنے کی سکت چھین لیتے ہیں۔ انس الشریف کی شہادت اور پھر اس کی وصیت پڑھ کر ایسی ہی حالت ہے۔

بقولِ شخصے اب باتیں کرنے کا وقت گزر چکا ہے، غزہ کا داغ جگر کے خون سے ہی دھویا جا سکتا ہے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version