گزشتہ قسط میں ایک تمہیدی گفتگو پیش کی گئی تھی،تاہم وہ کافی محدود و سطحی تھی لیکن چونکہ مقصود تعارف و تقدیم نہیں تھا بلکہ چند بنیادی امور کی یاد دہانی کرانا تھا اس لیے بحیثیت اعدادِ خاطر کے ان باتوں کا تذکرہ مناسب سمجھ آیا۔
اصل مقصود تعمیرِ فکر کے حربۂ باطنی کے نادر العلم حقائق،الحاد پروری میں اس کے پینترے اور دجالی فوج سازی میں اس کے کردار و پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے، جس کا آغاز اس قسط سے ہو رہا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ فکری جنگ کے اساسی طور پر دو بنیادی اور اہم اور شہرۂ آفاق ہتھیار ہیں:
- جدید تعلیمی نظام (Modern Education System)
- جدید اعلام (Modern Media Platforms)
جدید تعلیمی نظام (Modern Education System)
تاریخی پس منظر
عرصۂ دراز تک مختلف عالمی گوشوں میں عالمی پیمانے پر اپنا اپنا فردی انداز کا قدیم تعلیمی نظام رائج تھا جس کی اصل روحانیت،اخلاق اور مذہبی تعلیم سے آشنائی پر مبنی ہوا کرتی تھی بشمول تعلیمِ معقولات و عصریات۔
مسلمانوں کے لیے تعلیمی سینٹر مدارس عربیہ؍مدارس عصریہ ہوا کرتے تھے جہاں دماغ اور دل دونوں کی بساط طیبہ کی آبیاری پر توجہ دی جاتی تھی۔ ہندؤوں کی اپنی درس گاہیں ہوتی تھیں جنہیں ’’گروکل‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، اسی طرح عیسائیوں کی اپنے ’’چرچ اسکولز‘‘ ہوا کرتے تھے، اور چینیوں کے یہاں ’’کنفیوشس اکیڈمی‘‘ کے عنوان سے اپنا نظام ہوتا تھا۔
غرض ہر صاحب ملت و دین کا برسوں سے اپنے انداز میں ایک روایتی طرز تعلیم ہوا کرتا تھا۔پھر آتا ہے مشہور ظالمانہ فرانسیسی انقلاب کا علمبردار کہلانے والا جابر و سفاک اطالوی حاکم نپولین بوناپارٹ (Napolean Bonaparte) کا زمانہ،1نپولین بوناپارٹ (1769–1821): فرانس کے جزیرہ کورسیکا میں پیدا ہوا، اور فرانسیسی انقلاب (1789) کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا سے فائدہ اٹھا کر تیزی سے ایک طاقتور فوجی رہنما بن کر ابھرا۔ 1799ء میں اس نے اقتدار پر قبضہ کیا اور 1804ء میں خود کو “شہنشاہ فرانس” قرار دیا۔ نپولین نے تقریباً پورے یورپ میں جنگیں لڑیں، جنہیں ’’نپولینک وارز‘‘کہا جاتا ہے (1803–1815)۔ اس نے نپولین کوڈ (قانونی نظام) نافذ کیا، جو آج بھی بعض ممالک کے قوانین کی بنیاد ہے،اس نے 1798ء میں خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت مصر پر حملہ کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام دوست ہے اور فرانسیسی انقلاب کے اصول (آزادی، مساوات) اہلِ مصر کے لیے لایا ہے، لیکن یہ محض ایک سیاسی چال تھی،پھر جب قاہرہ کے عوام نے فرانسیسی قبضے کے خلاف بغاوت کی، تو نپولین نے جامعہ الازہر پر توپوں سے گولہ باری کروائی، درجنوں علماء کو شہید کیا، اور مسجد کی حرمت پامال کی یہ اہلِ اسلام کے خلاف اس کا بدترین جرم تھا،نپولین نے صرف مصر پر ہی نہیں بلکہ خلافت عثمانیہ کے شام و فلسطین کے علاقوں پر بھی حملے کیے عکا کی جنگ (Siege of Acre) میں، عثمانی افواج کے ہاتھوں شکست کھائی، لیکن ہزاروں مسلمانوں کی جانیں اس کی جنگی ہوس کی نذر ہوئیں،نپولین نے اپنی ’’اسلام دوستی‘‘کے جھوٹے اعلانات کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی، حتیٰ کہ اُس نے عربی میں منشور جاری کیا جس میں خود کو ’’اسلام کا محافظ‘‘کہا، لیکن عملی طور پر وہ صرف اپنے سامراجی مفادات کے لیے مسلمانوں کو استعمال کر رہا تھا،اس کی زیرِ قیادت فرانسیسی عساکر نے بہت سارے فرنگستانی علاقوں پر قبضہ کرکے فرانس کو فرنگستان کا سب سے طاقتور مُلک بنایا اور برطانیہ کا سب سے بڑا دشمن رہا۔ لیکن بالآخر اسے 1815ء میں بلجیئم میں واٹرلو کا معرکہ میں شکست ہوئی اور اسے برطانویوں نے ایک جزیرے پر قید کر دیا گیا جہاں 1821ء میں اس کی موت ہو گئی۔ جب اس نے ۱۷۸۹ء میں فرانس پر غلبہ حاصل کر کے اقتدار سنبھالا،اس نے ابتدائی یا کم از کم اہم ترین ہدف کے طور پر تعلیمی انقلاب کو نشانہ بنایا، چناچہ اس نے قدیم طرزِ تعلیم کے سلسلے میں اساسی تبدیلیاں انجام دیں تعلیمی اصلاحات (Reformation of Education) کے طور پر، اور کرتے کرتے اس نے انداز و نظامِ تعلیم کا ایک ایسا نیا خاکہ ڈیزائن کر دیا جو اس سے قبل متعارف نہیں تھا۔
اس نے یہ محسوس کیا کہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ اپنی فوج سازی کا بہترین آلہ ہے اور اپنے نظریات کے مطابق تعمیرِ نسل کا لطیف راستہ ہے،اور اس کی آمرانہ حکومت کو فروغ دینے کا طاقتور بازو ہے۔ لہذا اس نے سوچا کہ اس سے ایک مضبوط فوجی حکومت قائم کی جا سکے گی،فرماں بردار اور ملک پسند و قومیت پسند شہری تیار کیے جا سکیں گے،مذہب کو پس پشت ڈال کر ریاست کے مقتضیات و مطلوبات کے خیر خواہ افراد حاصل کیے جا سکیں گے۔ ان کا ظاہراً کوئی مذہب نہیں ہوگا،ملک کی وفاداری اور اس کی محدود و مقبوض سرحدوں کے فرامین یہی مذہبی احکام ہوں گے،اس دائرے کے باشندے ان کے اصل ہم مذہب ہوں گے گویا برادرانِ ملک اور برادران ملت کا یکساں درجہ ہوگا بلکہ بعض وجوہ سے برادران ملک اعلی سمجھے جائیں گے۔ جی حضوری کرنے والے ملازمین کھڑے کیے جا سکیں گے (یعنی ایک پیرائے سے اس نے صنعتی انقلاب industrialization کی سینچائی کی)۔
بطور جملۂ معترضہ کے عرض ہے کہ اگر آج کے نظامِ تعلیم پر بھی آپ غور کریں، چاہے وہ کسی بھی ملک (مسلم و غیر مسلم) کا ہو یہ باتیں ذہنیت میں یکساں ملیں گی:
- قوم پرستی،وطنی تعصب:کہ nation state کا مسئلہ اس کے لیے سب سے اہم مقدمہ ہوگا۔
- ملازمانہ و نوکرانہ سوچ:کہ ایک پڑھے لکھے educated کہلانے والے کو خیال نہیں آتا ہو گا کہ وہ اپنا کوئی نیا ایسا کاروبار قائم کرے،کمپنی و فیکٹری کی بنیاد رکھے جس کے ذریعے دیگر Multinational کمپنیوں سے استغنا حاصل ہو، ان کمپنیوں سے چھٹکارا ملے جن کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ مسلم سرزمینوں پر بالخصوص غزہ و فلسطین میں سفاکیت ڈھانے میں باقاعدہ صرف ہو رہا ہے جس کی حقیقت اب بعد از معرکہ طوفان الاقصیٰ عیاناً سب پر کھل کر واضح ہو چکی ہے، تو بس اگر کوئی سوچ ان تعلیم یافتہ لوگوں کی بنتی ہو تو وہ یہی کہ کہیں کسی بڑی کمپنی میں چھوٹی سی نوکری (اچھی Job) مل جائے،اسی کو روشن مستقبل جانا جاتا ہے، کریئر بلڈنگ سمجھا جاتا ہے۔
جب ایک اسکول کالج والے بچے سے جو سائنس؍انجینئرنگ وغیرہ کر رہا ہو اگر پوچھا جاتا ہے کہ تم یہ کورسز کس لیے کر رہے ہو ؟ آگے تمہیں کیا کرنا ہے؟ تو اس کا یہی جواب ہوتا ہے کہ اچھی Qualification حاصل کر کے اچھی Job حاصل کروں گا،یہاں تک کہ کامرس،اقتصادیات (economics) وغیرہ جیسے فنون تجارت کی پڑھائی کرنے والے کا بھی اکثر یہی رجحان ہوتا ہے۔ ہندوستان میں کامرس کی عظیم درجے کی ڈگری جیسے سی اے (Chartered Accountant)، ایم بی اے (Master of Business Administration) کی ڈگری پانے والے کا بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اب مجھے فلاں بڑی کمپنی میں ہائی پوسٹ پر نوکری مل جائے گی، حالانکہ وہ خود مختار اپنی کمپنی قائم کر سکتا ہے، ہائی کلاس بزنس شروع کر سکتا ہے، لیکن چونکہ سوچ نوکرانہ بنا دی جاتی ہے اس کے سبب یہ عزائم نہیں ہو پاتے۔ (یہ عمومی صورت حال ہے اگرچہ کچھ مستثنیات بھی ہوں گے)
بلکہ عجیب یہ نظر آتا ہے کہ اس سوچ سے اعلیٰ ان لوگوں کی سوچ ہوتی ہے جو اتنے High level educated نہیں ہوتے،چند مہینے کسی کے کام کاروبار پر سیکھنے کی غرض سے کام کرتے ہیں اور پھر اپنا کاروبار قائم (setup) کر لیتے ہیں۔
بیشک اسلام نے تجارت،زراعت، ملازمت سب کو اہمیت دی اور سب کی فضیلت بیان کی، لیکن سب میں توازن برقرار رکھا،بلکہ بعض اندازوں سے ایسا بھی محسوس ہوا کہ تجارت کو زیادہ پسند کیا۔2بایں طور کہ خود قرآن کریم نے مکاسب معاش میں سے اگر کسی ذریعے کا ذکر کیا ہے تو وہ تجارت ہے جیسے سورۃ الصف میں جہاد کی ترغیب کے طور پر آیت ١٠ میں تجارت کا ذکر فرمایا بحیثیتِ مثال،اسی طرح سرور کونین ﷺ نے اگر کوئی پیشہ بغرض معاش اختیار کیا تو وہ تجارتی پیشہ اختیار کیا،پھر افضل الناس بعد النبیین سیدنا صدیق اکبر سے بھی جو پیشہ منقول ہے وہ تجارت ہی ہے، نیز نبی ﷺ نے سچے امانت دار تاجر کو افضل ترین مرتبے کی حامل شخصیات کے ساتھ ہونے کی بشارت دی (رواہ الترمذی: 1209، وقال حدیث حسن) یہ راقم الحروف بندۂ عاجز کا خیال ہے،باقی اس میں علماء کا اختلاف ہے،واللہ اعلم۔ یہ عام حالتوں کی بات ہے ورنہ حاجات و ضروریات کے اعتبار سے پیشوں کے سلسلے میں فضیلت و اہمیت مختلف ہوگی۔ غالباً حکمت یہ ہوگی کہ تجارت کے ذریعے خود مختاری آتی ہے،ذہنی توسع حاصل ہوتا ہے، مختلف اقوام و علاقوں سے روابط قائم ہوتے ہیں جس سے دعوتی امور میں مدد ملتی ہے،دیگر قوموں پر معاشی غلبہ حاصل ہوتا ہے جیسے آج صلیبیوں اور صہیونیوں نے حاصل کر رکھا ہے،شاید یہی سارے اہم ثمرات کو دیکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے ٹھیکیداروں نے عام اقوام میں غالبیت پسند جذبے یعنی تجارتی و زراعتی عزم کو مغلوب کر دیا اور مغلوبیت پسند جذبے یعنی نوکری و خدمتی حوصلوں کو ذہن و دماغ پرغالب کر دیا ۔
- سیکولر خیالات:جس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ مذہب بے زار یا مذہب سے کافی حد تک بے تعلق۔ سیکولرزم کا یہی خلاصہ ہے،ایک سیکولر انسان کا اپنے آپ میں کوئی مذہب نہیں ہوتا،اس کے نزدیک سب مذاہب برابر ہوتے ہیں،وہ کہتا ہے انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے وغیرہ،اسی بنا پر وہ کسی مذہب کی طرف انتساب کو ناگوار سمجھتا ہے۔
تو بہر حال نپولین نے مذکورہ (تعلیمی انقلاب کے) سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے:
- غیر رسمی طور پر بے ترتیب انداز میں ایک طرح سے ماڈرنزم کی بنیاد رکھی۔ جس کا رکنی عنصر مذہب اور تعلیم کے درمیان تفریق ہے، یعنی دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے ہی حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے لائق ہوں گے، مذہبی تعلیم سے تعلق رکھنے والوں کا سیاست،سائنس،جدید ترقیات،قانون سازی،نظام معیشت وغیرہ جیسے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، کیونکہ زمانہ بدلے گا، ضرورتیں بدلیں گی، افراد بدلیں گے تو افکار بھی بدلنے چاہییں اور تبدیلئ فکر میں مذہبی سوچ و تعلیم بہت سنجیدہ رکاوٹ کا کام کرتی ہے، کیونکہ مذہبی فکر قدامت پسندی conservative mindset کو تقویت دیتی ہے جبکہ ہمیں پیش آمدہ ایام کے لیے تجدد پسندی والی ذہنیت Modernist mindset کی اصل ضرورت ہے۔ پس اس نے اسی تناظر میں چرچ سے تعلیم کو علیحدہ کر دیا،اور پھر یہ تغیر ایک آیڈیل بن گیا،جس کا مرور زمانہ کے ساتھ عیسائیوں کے علاوہ دیگر قوموں نے بھی رنگ اختیار کر لیا کہ مذہب کا جوڑ درس گاہوں سے توڑ دیا گیا،روحانیت اور مادیت سے مرکب نشوونما میں خلا پیدا کر دیا گیا۔
- نظام تعلیم کو ریاستی و مرکزی قیادت کے حوالے کر دیا یعنی centralized national education کا دستور پاس کیا گیا،اب کسی نجی اور فردی انداز پر تعلیم نہیں ہوگی بلکہ حکومتی منشا اور نظریات کے مطابق تعلیم ہوگی،اس کے لیے باضابطہ وزارتِ تعلیم (Ministry of Education) ترتیب دی گئی جو اپنے اعتبار سے نصاب کا تعین اور اندازِ تقریر و تدریس کا انتخاب کرنے کی ذمہ داریاں انجام دیتی۔پھر اسی ضمن میں یونیورسٹی کا نظم قائم کیا گیا جو شہروں اور علاقوں کے تعلیمی پیمانوں اور معیاروں کو پرکھنے کے بعد سندِ اعتبار سے نوازتی (انہیں جو منشائے نپولین کے مطابق تعلیم و تربیت یافتہ ہوتے) جیسے کہ اس نے ۱۸۰۶ء میں امپیریل یونیورسٹی قائم کی،جو محض ایک یونیورسٹی نہیں تھی بلکہ تعلیمی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے والا حکومتی ادارہ تھا۔
- تعلیم کی درجہ بندی (Hierarchical school structure) یعنی اب سب پڑھنے والے یکساں نہیں ہوں گے بحیثیت نصاب و صلاحیت ہر ایک کا درجہ ہوگا۔ یہ بظاہر ایک اچھی تبدیلی تھی جو ترتیب و تنسیق سے متعلق تھی، لیکن اس میں پیش نظر ملٹری انداز کی تربیت فراہم کرنا تھا اور اسی اعتبار سے گریڈز قائم کیے گئے تھے،مبتدئین کا شعبہ الگ متوسطین کا الگ اور اعلی معیار والوں کا الگPrimary, Secondary, Advance Schools۔ اس انداز کا خاکہ پہلی بار متعارف ہوا تھا۔
- نصاب میں سائنس،ریاضی (Maths) اور تاریخ پر اصل توجہ تھی اور اسی کے ساتھ ساتھ وطنی سوچ،ملکی تہذیب کا وفادار شہری تیار کرنے کے لیے فرینچ زبان اور اس کے قواعد بھی نصاب میں شامل کیے گئے، البتہ مذہبی کتابوں اور تعلیمی سرگرمیوں کو ختم کردیا گیا، جیسے کہ اس سے پہلے ذکر ہوا کہ یہ سیکولرزم اور ماڈرن ازم والی ذہنیت دینا چاہتا تھا۔ اس کا ماننا تھا:
’’ہمارے تمام اداروں میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل عوامی تعلیمی ادارے ہیں، جو قومی اقدار کے حصول میں ہمارے لیے ابتدائی اوزار کا کام دیں گے۔‘‘
“Of all our institutions, public education is the most important. It is the first object of national attention.”
تو یہ تھے کچھ نپولین کے اقدامات،نظریات اور انقلابات،اس نے جس ڈھانچے اور خاکے کو قائم کیا اس کا تاثر غیر محسوس طریقے سے بہت پھیلا اور اس حد تک پہنچا کہ آگے چل کر اب یہ اندازِ تعلیم رسمی (Official) طور پر مرتب ہو کر پروشیا (حالیہ جرمنی) میں باقاعدہ عملی شکل کے ساتھ مختلف چھوٹے موٹے (غیر استعماری) یورپی علاقوں و قوموں میں آنے والے زمانے کے اعتبار سے ایک مستقل تعلیمی نظام طے پا گیا،جس کو باضابطگی کے ساتھ اصطلاحی طرز میں یوحنا فچٹے (Johanna fichte) نامی فلسفی نے کچھ نئے انداز سے تدوین کرنے کے بعد جدید تعلیمی نظام (Modern education system) کے نام سے موسوم کیا۔ اصولی ڈھانچہ (نصاب و نظریات،ترتیب و مقاصد وغیرہ) تو وہی تھا جس کو نپولین نے وضع کیا تھا البتہ فروعی تبدیلیاں تھوڑی بہت ضرورت کے اعتبار سے کی گئی تھیں۔
بعد میں دو امور کا مزید اِضافہ کیا گیا:
- سرکاری سطح پر اس تعلیم کو جبری و لازمی قرار دے دیا گیا،یہاں تک کہ اس تعلیم سے Qualified نہ ہونے والا شخص ملک اور سماج وغیرہ میں اجنبی بھی سمجھا جاتا تھا،اس کی قدر و قیمت کو بھی لغو گردانا جاتا تھا اور سرکاری اسکیموں میں اس کی کوئی حیثیت بھی نہیں ہوتی تھی۔
- سرکاری سطح سے فکری آزادی (Free thinking) پر پابندی عائد کرنا آگے چل کر اس نظام کا حصہ بنا،شہریوں کی عموماً اور اس نظام سے وابستہ لوگوں کی خصوصاً سوچ و فکر اب وہی ہوگی جو حکومت چاہے گی،چنانچہ فچٹے کہتا ہے:
’’اگر ہم اپنے لوگوں کو مکمل طور پر متاثر کرنا چاہتے ہیں تو تعلیمی ذرائع اس بات کو ہدف بنائیں کہ لوگوں کی فکری آزادی کو تباہ کیا جائے۔‘‘
“Education should aim at destroying free will if we want to influence them at all.”
پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس تعلیمی ماڈل کو دیگر چھوٹی موٹی یورپی مغربی اقوام کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور اس جیسی دوسری استعماری قوتوں نے بھی اپنے یہاں رائج کر دیا،جب برطانوی اشرافیہ (Elites) نے فرانسیسی اقوام کو آگے بڑھتے دیکھا اور جدید تعلیم کا پیکر ہوتے پایا تو یہ خوف ہونے لگا کہ کہیں ہم پیچھے نہ رہ جائیں،لہذا پھر برطانیہ نے اپنے تعلیمی ادارے مثلاً Oxford, Cambridge وغیرہ کی بھی ساخت بدلی جو در حقیقت مذہبی تعلیمی طرز پر قائم کیے گئے تھے، انہیں مقاصد کے ساتھ چلتے تھے اور انگریزی چرچوں کی وضع کردہ حدود اور متعین کردہ نقشوں پر گامزن تھے۔ لیکن برطانیہ نے نپولین ماڈل سے متاثر ہو کر یا خوف کھا کر ان مذہبی انداز کی جامعات کا حلیہ بدل دیا اور پھر بعد میں ان اداروں کی حیثیت بھی بدل گئی، جس کا آج فکری جنگ میں بڑا عظیم کردار و دخل ہے۔ چنانچہ اب یہ ادارے بھی ریاستی بیورو کریسی، قانون اور انتظامی تعلیم کا مرکز بن گئے، یہاں بھی سائنس، قانون، ریاضی، ریاست، مادیت پسندی، خالص ترقیاتی فکر، سیکولر نظریات وغیرہ کو ترجیح دی گئی، اور اس سے پھر پورے یورپ و مغرب میں نپولین ماڈل ایک اساس اور اصولِ تعلیم بن گیا،پورا مغرب گویا اب نپولین وژن اور فکر کا دلدادہ ہوگیا۔ مزید برآں یہ نظام اب استعماری قوتوں نے جہاں جہاں تسلط حاصل کیا وہاں وہاں بھی نافذ کیا یعنی برصغیر،امریکی مغصوبہ ریاستوں،افریقی ممالک کے ابھرتے خطوں وغیرہ میں،جس کی وجہ سے یہ نظام ایک عالمی تعلیمی نظام (Global education system) بن گیا۔
ہندوستان میں بھی برطانیہ کا مقصد اس نظام سے تقریباً ویسا ہی تھا جیسا نپولین کا فرانس پر قبضہ کرنے کے بعد تھا، کہ ایسے ’بابو‘ اور ’کلرک‘ پیدا ہوں جو رنگ و نسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہوں لیکن سوچ و خیال،روح و دل کے اعتبار سے انگریزی ہوں، ان کے تابع، وفادار شہری اور ذہنی غلام ہوں۔
بر بنایں انہوں نے مختلف کالجوں کی بنیاد رکھی:
- فورٹ ولیم کالج، کلکتہ (۱۸۰۰ء)
- ہندو کالج، کلکتہ (۱۸۱۷ء)
- دہلی کالج (۱۸۲۵ء)
- علی گڑھ کالج (۱۸۷۵ء)
ان اداروں میں نپولین ماڈل کو فروغ دینا مطمح نظر تھا۔
الحاصل نپولین کے تعلیمی وژن سے پیدا ہونے والا ’’ریاستی کنٹرولڈ سیکولر نظام‘‘ برطانیہ نے اپنایا اور پھر برطانوی سامراج نے اسے ہندوستان میں نافذ کر کے ہماری علمی روح کو مغربی نظام میں ڈھال دیا۔ جہاں یہ نظام سائنس، آرگنائزیشن اور مینجمنٹ میں ترقی کا ذریعہ تھا، وہیں روحانی، دینی، اور اخلاقی اقدار کی بیخ کنی کا سبب بھی بنا۔
اسی لیے علامہ اقبالؒ، مولانا شبلی، مولانا سندھی، اور دیگر مفکرین نے اس نظام پر تنقید کی اور اسلامی تعلیم کے احیاء کی کوشش کی۔
اور جیسا کہ عرض کیا گیا کہ تعلیمی نظام کی یہ حالت و کیفیت پوری دنیا میں ظاہر ہونے لگی۔
یہ تھا ایک مختصراً جدید تعلیمی نظام کا تلخیصی جائزہ،اگر مزید تفصیل درکار ہو اور گہرائی جاننا ہو تو مندرجہ ذیل کتابوں کا رخ کیا جا سکتا ہے:
-
The Idea of University by John Henry Newman
-
The Making of Modern University by Julie Reuben
- ان کے علاوہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم کا بھی ’’غلبہ مغرب کا فکری و تہذیبی تجزیہ‘‘ کے عنوان سے مغربی استعمار،تعلیم اور فکری یلغار پر بہت جامع تبصرہ موجود ہے ۔
پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس تعلیمی نظام کو جب امریکہ نے اپنے سنجیدہ اہداف کا حصہ بنانا شروع کیا، تب اس نظام کی دنیا میں عالمی برادی اور خفیہ تنظیموں (Secret Societies) کی اینٹری ہوتی ہے،جنہوں نے 19ویں صدی میں اس نظام کو اپنی امداد و اشارات سے کسی قدر ترمیمی نوعیت سے آگے بڑھایا اور اپنے منصوبے One World Vision کو تقویت پہنچانے میں اس نظام کا بھرپور استعمال کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ بعد میں اس کی لگام کن لوگوں سے جاکر جڑتی ہے ؟
جواب سادہ ہے لیکن وضاحت پیچیدہ ہے،جواب یہی کہ پھر اس نظام کی باگ ڈور صرف اسلام نہیں بلکہ انسانیت دشمن برادریوں سے جاکر جڑتی ہے،جو یہ مانتے ہیں کہ عروج و ترقی صرف ان کا ذاتی حق ہونا چاہیے،جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں بحیثیت قوم سب سے افضل ترین گروہ ہیں،جو بنی آدم کو رحمانی غلامی کے آغوش سے نکال کر بعنوان آزادی شیطانی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا چاہتے ہیں، وہی جنہیں کبھی الومیناٹی، کبھی فری میسن اور کبھی سیکریٹ سوسائٹیز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
جب مغربی جامعات کا اثر و رسوخ دنیا بھر میں بڑھتا چلا گیا اور لوگ اس کو صرف قبول ہی نہیں بلکہ اپنے لیے گنجینۂ حیات بناتے چلے گئے، تو عالمی خفیہ برادریوں نے سسٹم کو اپنے قابو میں لے کر اس میں اپنا رنگ چڑھانا چاہا۔ ان برادریوں نے 3 ایسے اہم کام کیے کہ جن کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’عموماً و تقریباً تمام عالمی اداروں کی سَنَد خواہ وہ پالیسی سے متعلق ہو یا نصاب سازی سے یا اندازِ تربیت سے سب جاکر ان خفیہ تنظیموں کی ذہنیت سے جڑتی ہے‘‘۔
پہلا کام: سرمایہ کاری کے ذریعے قبضہ (Control with Funding)
خفیہ سوسائٹیز سے منسلک خاندانوں (مثلاً راک فیلر اور روتھ چائلڈ) نے سب سے پہلے بڑی مغربی یونیورسٹیوں (جیسے ہاروَرڈ، آکسفورڈ، کیمبرج، ییل، سٹین فورڈ) میں خطیر فنڈنگ، اسکالرشپس، ریسرچ گرانٹس، چیئرز اور بلڈنگ فنڈز کی شکل میں پیسہ لگایا۔اس سرمایہ کاری کے بدلے وہ نصاب (curriculum) اور فیکلٹی کی ہائرنگ میں اپنی مرضی مسلط کرنے لگے۔
مثلاً راک فیلر فاؤنڈیشن نے 20ویں صدی کے آغاز میں کارنیگی فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر امریکہ میں “General Education Board” قائم کیا جس کا مقصد اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب کو صنعتی (Industrial)، سرمایہ دارانہ (Capitalist)، اور لادین (Secular) بنانا تھا۔
دوسرا کام: پالیسی میکنگ میں مداخلت (Policy Manipulation)
جب سرمایہ داری کے ذریعے جامعات پر گرفت ہو گئی، تب خفیہ سوسائٹیز نے تعلیمی پالیسیوں، ریسرچ ایجنڈوں، اور عمرانیات و معاشیات جیسے مضامین میں اپنی خاص فکر داخل کرنا شروع کی۔تعلیم کا مقصد تعمیرِ کردار (Character Building) یا ربانی علم سے ہٹ کر معاشی افادیت (Economic Utility)، پیداواریت (Productivity)، اور ریاست و نظام کی اطاعت بن گیا۔
نصاب میں مذہب کی جگہ سیکولر ازم، انسان پرستی، ڈارونزم، فیمنزم، اور نیو ورلڈ آرڈر کی سوچ کو داخل کیا گیا۔
تیسرا کام: مغربی جامعات کو عالمی تعلیمی معیار (Global Academic Benchmark) بنانا
پھر انہوں نے انہی یونیورسٹیوں کو ’’دنیا کی بہترین جامعات‘‘ کے طور پر عالمی سطح پر مشہور کیا۔ نتیجہ ؟ ساری دنیا کے طلباء، اسکالرز، گورنمنٹس انہی یونیورسٹیوں کے ریسرچ اسٹینڈرڈ، رینکنگ، نصاب اور ڈگریز کو مرکزی حوالہ (global reference) ماننے لگے۔
آج بھی اگر کوئی اسلامی ملک، افریقی ملک یا ایشیائی ملک تعلیمی ادارہ قائم کرے تو وہ مغربی یونیورسٹیوں جیسے نصاب اور اسٹائل کی نقل کرتا ہے تاکہ ’’عالمی معیار‘‘ پر پورا اُتر سکے۔
نتیجہ اور خلاصہ
آج کے اسکول،کالجز اور یونیورسٹیز (چاہے کسی بھی ملک میں ہوں) بنیادی طور پر وہی علم، سوچ،اور مقاصد دیتے ہیں جو مغربی خفیہ برادریوں نے متعین کیے۔
بھارت میں رائج تعلیمی نصاب بورڈز جیسے آئی بی (International Baccalaureate)، IGCSE (Cambridge)، سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (CBSE)، انڈین سرٹیفیکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن (ICSE)، HSC، SSC، NIOS وغیرہ۔
یہ تمام تعلیمی بورڈز مختلف شکلوں،انداز،اور سطحوں پر اسی عالمی تعلیمی ایجنڈے کے مطابق کام کر رہے ہیں جس کی بنیاد ان امور پر ہے:
- لا دین انسانیت پرستی (Secular Humanism)
- سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی پیداواریت (Capitalism oriented Productivity)
- مغرب زدہ علمیات (Western Epistemology) یعنی علم کی بنیاد وحی نہیں، بلکہ تجربہ و عقل ہو۔
- عالمی شہریت (Global Citizenship) اور اقوام متحدہ کا ایجنڈہ ۲۰۳۰ء (UN Agenda 2030)
- وحی سے کٹی ہوئی تنقیدی سوچ (Critical Thinking)
تعلیمی سند (degree) درحقیقت ایک ذہنی و فکری وفاداری (Intellectual Allegiance) کی تصدیق بن گئی ہے کہ آپ اُن کے بنائے ہوئے نظریات،نظام اور ڈھانچے کو سمجھتے،مانتے، اور اُس میں کام کرنے کے قابل ہو چکے ہیں۔
الغرض، بات یہ ثابت ہوئی کہ موجودہ جدید تعلیمی نظام کی لگام دراصل Rockefellers اور Rothschild جیسی پسِ پردہ رہنے والی ناپاک ترین قومیں سنبھال رہی ہیں اور یہ بدیہی بات ہے کہ یہ خاندان بھی خود ساختہ طور پر کوئی اقدام نہیں کرتے بلکہ ان کے ماوراء بھی ایک عقل و نظام کام کر رہا ہے جس کے اشاروں کے وہ سر تا پا تابع ہیں۔ اب چونکہ ’’كل حق لا يقال‘‘ (ہر حق بات کہی نہیں جاتی ) کیونکہ ہر حق بات ہضم نہیں ہوتی لہذا ہم اس پر صراحۃ کلام کو بہت اہم نہیں سمجھتے۔
مذکورہ بالا حقائق اور مغربی تعلیمی نظام کے روشن اندھیروں کا اگر تفصیلی مطالعہ کوئی کرنا چاہے تو ذیل میں ذکر کیے جانے والے حوالے مفید ہوں گے ان شاء اللہ:
اردو کتابیں:
- نظام تعلیم اور مغربی رجحانات مؤلفہ مولانا علی میاں ندوی
- اسلام اور مشرق و مغرب کی کشمکش مؤلفہ علی عزت بیگووچ
انگریزی کتابیں:
-
Education and the Cult of Efficiency by Raymond Challahan
-
The Rockefeller File by 11Gary Allen
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
- 1نپولین بوناپارٹ (1769–1821): فرانس کے جزیرہ کورسیکا میں پیدا ہوا، اور فرانسیسی انقلاب (1789) کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا سے فائدہ اٹھا کر تیزی سے ایک طاقتور فوجی رہنما بن کر ابھرا۔ 1799ء میں اس نے اقتدار پر قبضہ کیا اور 1804ء میں خود کو “شہنشاہ فرانس” قرار دیا۔ نپولین نے تقریباً پورے یورپ میں جنگیں لڑیں، جنہیں ’’نپولینک وارز‘‘کہا جاتا ہے (1803–1815)۔ اس نے نپولین کوڈ (قانونی نظام) نافذ کیا، جو آج بھی بعض ممالک کے قوانین کی بنیاد ہے،اس نے 1798ء میں خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت مصر پر حملہ کیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام دوست ہے اور فرانسیسی انقلاب کے اصول (آزادی، مساوات) اہلِ مصر کے لیے لایا ہے، لیکن یہ محض ایک سیاسی چال تھی،پھر جب قاہرہ کے عوام نے فرانسیسی قبضے کے خلاف بغاوت کی، تو نپولین نے جامعہ الازہر پر توپوں سے گولہ باری کروائی، درجنوں علماء کو شہید کیا، اور مسجد کی حرمت پامال کی یہ اہلِ اسلام کے خلاف اس کا بدترین جرم تھا،نپولین نے صرف مصر پر ہی نہیں بلکہ خلافت عثمانیہ کے شام و فلسطین کے علاقوں پر بھی حملے کیے عکا کی جنگ (Siege of Acre) میں، عثمانی افواج کے ہاتھوں شکست کھائی، لیکن ہزاروں مسلمانوں کی جانیں اس کی جنگی ہوس کی نذر ہوئیں،نپولین نے اپنی ’’اسلام دوستی‘‘کے جھوٹے اعلانات کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی، حتیٰ کہ اُس نے عربی میں منشور جاری کیا جس میں خود کو ’’اسلام کا محافظ‘‘کہا، لیکن عملی طور پر وہ صرف اپنے سامراجی مفادات کے لیے مسلمانوں کو استعمال کر رہا تھا،اس کی زیرِ قیادت فرانسیسی عساکر نے بہت سارے فرنگستانی علاقوں پر قبضہ کرکے فرانس کو فرنگستان کا سب سے طاقتور مُلک بنایا اور برطانیہ کا سب سے بڑا دشمن رہا۔ لیکن بالآخر اسے 1815ء میں بلجیئم میں واٹرلو کا معرکہ میں شکست ہوئی اور اسے برطانویوں نے ایک جزیرے پر قید کر دیا گیا جہاں 1821ء میں اس کی موت ہو گئی۔
- 2بایں طور کہ خود قرآن کریم نے مکاسب معاش میں سے اگر کسی ذریعے کا ذکر کیا ہے تو وہ تجارت ہے جیسے سورۃ الصف میں جہاد کی ترغیب کے طور پر آیت ١٠ میں تجارت کا ذکر فرمایا بحیثیتِ مثال،اسی طرح سرور کونین ﷺ نے اگر کوئی پیشہ بغرض معاش اختیار کیا تو وہ تجارتی پیشہ اختیار کیا،پھر افضل الناس بعد النبیین سیدنا صدیق اکبر سے بھی جو پیشہ منقول ہے وہ تجارت ہی ہے، نیز نبی ﷺ نے سچے امانت دار تاجر کو افضل ترین مرتبے کی حامل شخصیات کے ساتھ ہونے کی بشارت دی (رواہ الترمذی: 1209، وقال حدیث حسن) یہ راقم الحروف بندۂ عاجز کا خیال ہے،باقی اس میں علماء کا اختلاف ہے،واللہ اعلم۔