مری ہچکیاں کسی دیس سے کسی مردِ حُر کو نہ لا سکیں!

اہل غزہ جس آزمائش سے گزر رہے ہیں اس کی چند جھلکیاں

غزہ میں ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کرنے والے برطانوی ڈاکٹر، Nick Maynard کہتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھ کام کرنے والے سب ہی لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ نام نہاد امدادی مراکز (جی ایچ ایف) کی طرف امداد لینے جانے والے نہتے شہریوں کو اسرائیلی فوج باقاعدہ تاک تاک کر نشانہ بنا رہی ہے اور ان افراد میں بھی بالخصوص بچوں، نوجوان لڑکوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس گواہی کی بنیاد ہمارے پاس علاج کے لیے آنے والے زخمیوں کے زخم، ان زخمیوں کے لواحقین کی گفتگو اور ہمارے اپنے ساتھیوں میں سے بھی ان لوگوں کی بتائی گئی باتیں ہیں جو امداد لینے جی ایچ ایف مراکز گئے۔ بیشتر زخمی بندوق کی گولی کھا کر زخمی ہوئے ہوتے ہیں یا پھر کواڈکاپٹر ڈرونز کی مدد سے ان پر فائرنگ کی گئی ہوتی ہے۔ اور ہم سب ساتھیوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہر روز آنے والے زخمی بچوں میں ایک ہی طرح کے زخم ہوتے ہیں۔ یعنی ایک دن سب کے سر یا گردن میں گولی لگی ہوتی ہے تو اگلے دن سب پیٹ کے زخموں کے ساتھ لائے جاتے ہیں اور اس سے اگلے دن سینے کے زخموں کے ساتھ اور اس سے اگلے دن خصیوں کے زخم کے ساتھ۔ واضح نظر آتا ہے کہ ہر روز انہوں نے ایک خاص ہدف بنایا ہوتا ہے کہ آج اس جگہ مارنا ہے اور کل اس جگہ گویا ان کے لیے معصوم بچوں کے جسم کے مخصوص کردہ حصوں پر نشانہ لگانا ایک ویڈیو گیم کی طرح ہے۔

ایک نہایت دلخراش حکایت امریکی و اسرائیلی حمایت یافتہ جی ایچ ایف مراکز میں کام کرنے والے ایک امریکی مستاجر انتھونی ایگولر نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک معصوم فلسطینی بچے کے حوالے سے بیان کی جو امداد لینے آیا اور قتل ہوگیا۔ اور اسی کی موت نے ایگولر کو اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کیا۔ وہ کہتا ہے:

’’۲۸ مئی کو امدادی تقسیم کے مقام پر یہ معصوم چھوٹا سا بچہ کہ جس کا نام عامر تھا میرے پاس آیا، اور اس نے اپنا ہاتھ میری جانب بڑھایا۔ میں سمجھا کہ وہ مزید امداد کا خواہش مند ہے، میں خجل ہوگیا کیونکہ میرے پاس اسے دینے کو مزید کچھ نہیں تھا اور میں نے اسے یہی کہا مگر پھر بھی اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔

اس کے پاس امدادی ڈبہ نہیں تھا بلکہ گرے پڑے سامان میں سے اسے چاولوں کا ایک پھٹا ہوا تھیلا ملا تھا اور دال کا آدھا تھیلا، یہ اس کی کل متاع تھی۔ وہ میرے پاس آیا اور میرے ہاتھ کو چوما اور کہا شکریہ۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ تم انسان ہو، تمہارا کوئی قصور نہیں، دنیا کو تمہاری پروا ہے۔ اس پر اس نے اپنے کمزور اور نحیف ہاتھوں میں موجود سامان زمین پر رکھا، میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تھاما اور پھر مجھے پیار کیا اور انگریزی میں کہا شکریہ۔ یہ بچہ ننگے پاؤں تھا۔ اس کے کپڑے اس کے جسم پر بہت کھلے تھے کیونکہ وہ بہت ہی کمزور تھا۔ اسے امدادی ڈبہ بھی نہیں مل سکا تھا، فقط چاولوں کا آدھا تھیلا اور چند دالیں اسے ملی تھیں او روہ اس کے لیے بھی ہمارا شکریہ ادا کررہا تھا۔

وہ ننھا معصوم بچہ ننگے پاؤں بارہ کلومیٹر چل کر اس جگہ تک پہنچا تھا۔ امداد کے نام پر اسے گرا پڑا ہی کچھ سامان ملا تھا، پھر بھی اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور پھر اس نے اپنا سامان اکٹھا کیا اور لوگوں کے ہجوم کی جانب پلٹا اور اسی وقت اس پر مرچوں کے سپرے، آنسو گیس ،سٹن گرنیڈ اور گولیاں داغی گئیں،گولیاں ہوا میں اور لوگوں کے پاؤں کی طرف داغی گئیں، عامر ڈر کر بھاگا۔

اسرائیلی فوجی مشین گنوں سے ہجوم کی طرف گولیاں چلا رہے تھے۔ وہ نہتے فلسطینی شہریوں پر گولیاں چلا رہے تھے اور انسان، ہاں انسان تھے جو زمین پر زخمی ہو ہو کر گرتے جارہے تھے اور انہی گرنے والوں میں عامر بھی تھا۔ عامر نے ننگے پاؤں بارہ کلومیٹر کا سفر خوراک کے حصول کے لیے کیا، خوراک کے نام پر اسے چند ٹکڑے ہی ملے اس کے لیے بھی اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور پھر وہ قتل کردیا گیا ۔‘‘

یاد رہے کہ انتھونی ایگولر کی گواہی بہت طویل ہے جس میں وہ غزہ میں ہونے والی منظم نسل کشی کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہے۔ یہ واقعہ اس کے بیان میں سے ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔

غزہ میں ہمارے بچوں کے خون کے ساتھ کھیلا جارہا ہے، ان پر نشانہ بازی کی مشق کی جارہی ہے، انہیں بھوکا مارا جارہا ہے اور ہم اپنے گھروں میں چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ آج اگر وہ آزمائے جارہے ہیں تو کل ہم بھی آزمائے جائیں گے، وہ وقت دور نہیں!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version