اَلقاعِدہ کیوں؟ | پانچویں قسط

میں القاعدہ میں کیوں شامل ہوا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ وکفیٰ والصلاۃ والسلام علیٰ أشرف الأنبیاء.

اللّٰھم وفقني کما تحب وترضی والطف بنا في تیسیر کل عسیر فإن تیسیر کل عسیر علیك یسیر، آمین!

(۶) ……کیونکہ وہ تمام اسلامی جماعتوں میں سب سے زیادہ یہود، نصاریٰ اور منافقین کے نزدیک قابلِ نفرت و ناپسندیدہ ہیں

میں نے خود سے سوال کیا: مسلمانوں کی کون سی جماعت یہود، نصاریٰ اور منافقین کے نزدیک سب سے زیادہ قابلِ نفرت اور ناپسندیدہ ہے؟ تو مجھے ایک عادلانہ جواب ملا: القاعدہ۔ یہ ایک ایسا جواب ہے جسے ہر صحیح العقل انسان تسلیم کرے گا۔ پھر میں نے خود سے پوچھا: ’آخر کیوں القاعدہ کو اس نفرت و بغض سے اتنا وافر حصہ ملا ہے؟‘، تو جواب ملا: اس لیے کہ وہ حق پر ہیں۔

اس لیے کہ انہوں نے حد سے بڑھ جانے والے کافروں کے خلاف ’سختی‘ سے متعلق شرعی احکام پر عمل کیا، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (سورة التوبۃ۷۳)

’’اے نبیکافروں اور منافقوں سے جہاد کرو، اور ان پر سختی کرو۔‘‘

پس جو نہ جھکا، نہ اس نے سودا کیا، نہ مداہنت اختیار کی اور جو اپنے عقیدے، نظریے اور فکر و منہج پر ڈٹا رہا، وہ طاغوتی نظاموں کے حلق میں کانٹے کی مانند ہوگا ، اور اسی سبب سے کفار اسے سب سے زیادہ ناپسند کریں گے۔

اس کے برعکس، جن مجاہدین نے زندگیوں اور جد و جہد کا ایک حصہ جہاد کی سختیوں اور کٹھنائیوں میں گزارا اور پھر جمہوری عمل کا راستہ اپنایا اور اپنی عقیدے میں ولاء و براء جیسے اصولوں پر کچھ سمجھوتے کیے(جیسے وہ لوگ جو واضح نفاق رکھنے والے منافقوں کو اپنا بھائی کہہ دیتے ہیں ، صرف اس لیے کہ وہ سیاسی مصلحت کو شرعی دلائل پر ترجیح دیتے ہیں ) تو حق بات یہ ہے کہ جس نے کفار کے ساتھ مداہنت کی، وہ کفار کو اپنے ساتھ مداہنت کرتا پائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ ؀ (سورة القلم:9)

’’وہ چاہتے ہیں کہ تم نرمی اختیار کرو، تو وہ بھی نرمی کریں ۔‘‘

لیکن جس نے عقیدۂ ولاء و براء کا کھل کر اظہار کیا اور مداہنت کو ترک کیا، وہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہوگا۔ یہود و نصاریٰ اور منافقین کے میڈیا میں القاعدہ کو بدنام کرنے کی مہم کسی صاحبِ بصارت سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔

یہاں ایک اصولی بات سمجھنا لازمی ہے

القاعدہ کوئی دودھ سے دھلی، آسمان سے اتری تنظیم نہیں ہے۔ اگر القاعدہ کو اللہ نے کفار کے یہاں سب سے زیادہ قابلِ نفرت بنا کر اپنے یہاں اور اپنے بندوں کے یہاں عزت بخشی ہے تو اس کا سبب یہ نہیں کہ القاعدہ کو کوئی سُرخاب کے پر لگے ہیں، نہیں! بلکہ القاعدہ کو کفار کی نفرت کی صورت میں عزت، القاعدہ کے شرعی عقائد و منہجِ نبوی (علی صاحبہ ألف صلاۃ وسلام) اختیار کرنے کے سبب ملی ہے۔ ہم امتِ محمدؐ ہیں، ہم بنی اسرائیل نہیں کہ اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا جان کر جھوٹی آسوں اور امیدوں کے سہارے جئیں، نہیں! جب تک یہ امت، اس امت سے وابستہ کوئی بھی گروہ، جماعت یا طائفہ ، اس دین کے مبادی سے جڑا رہے گا، صاحبِ عزت (یعنی کفار کے نزدیک قابلِ نفرت) رہے گا، جس دن یہ اپنے منہج و نظریے سے ہٹ گیا توعرش تا فرش ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہو گی۔ آج ہم ’تمسک بالجہاد‘ کے سبب القدس کے نواح میں موجود مجاہدینِ ’حماس‘ اور مجاہدینِ ’جہادِ اسلامی‘ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اللہ ﷻ اور بندگانِ اللہ ﷻ کے یہاں انتہائی مقبول و معزز اور کفار کے یہاں شدید قابلِ نفرت ہیں (نحسبه كذلك)۔ ہمارے یہاں عند اللہ، عند الرسول اور عند المؤمنین عزت اور عند الکافرین نفرت کا معیار کسی قصرِ ابیض، کسی قصر الحمراء، کسی قصر الشعب میں بیٹھنا نہیں ہے۔ ہمارے یہاں جنگ ہارے ہوئے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، سیّد احمد شہید، عمر مختار، اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، احمد یاسین اور یحیی السنوار قابلِ عزت اور میر صادق، میر جعفر، خوانینِ سرحد، آلِ سعود، سیسی، محمود عباس و کیانی و عاصم منیر قابلِ نفرت ہیں اور وہ نئے حکمران بھی کوئی قابلِ تعریف وتقلید نہیں جنہوں نے جہاد کا نام استعمال کیا، مجاہدین کو دھوکہ دینے کی خاطر القاعدہ کے امراء کی بیعت کی اور اپنے ہم رازوں کو کہا کہ یہ تو محض ایک چال (tactic) ہے ، ایسے لوگ کہاں اہلِ ایمان کے یہاں اصحابِ عزت اور اور کافروں کے یہاں قابلِ نفرت ہوتے ہیں۔1یہاں یہ اہم نکتہ بھی مدنظر رہے کہ کفار کا کسی جماعت سے دشمنی کرنا یا اسے بدنام کرنے کی کوشش ، اس کا حق پر ہونا ثابت نہیں کرتا۔ بلکہ کسی کے بھی حق پر ہونے کا اول و اہم پیمانہ ، اس کا شریعتِ مطہرہ کے موافق مطابق ہونا ہے، پھر اس کے بعد یہ بات اپنی جگہ ایک اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ جو بھی دینِ اسلام پر صحیح طرح عمل کی کوشش کرے گا تو دشمنانِ دین اس کے ساتھ نرمی و رعایت نہیں کریں گے، بلکہ اس کو گرانے و ختم کرنے کی بھر پوری سعی کریں گے۔ خیر القرون کے زمانے سے ملا عمر کے زمانے تک چشمِ فلک اس پر شاہد ہے! ہمارے سامنے تو اس دورِ انحطاط میں مشعلِ راہ ملا عمر ہے، جس نے کفار کے نمائندے سے ملاقات بھی یہ کہہ کر ترک کر دی2یہ ایک نکتۂ ایمانی ہے۔ یہاں کوئی فقہی بحث نہیں کی جا رہی کہ کفار سے ملاقات جائز ہے یا ناجائز، بلکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ ایک جائز امر ہے۔ یہاں اس دورِ انحطاط میں نکتۂ ایمانی کے طور پر یہ بات ذکر کی گئی ہے۔، کہ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ، ’بے شك كافر تو گندگی کا ڈھیر ہیں‘۔3حضرت مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ اس آیت کا ترجمہ یونہی فرمایا کرتے تھے۔

اب ایک ایمان افروز نکتہ

یہاں میں القاعدہ سے شدید نفرت رکھنے والے بعض مسلمانوں کو، جن کا تعلق کچھ دینی جماعتوں ہی سے ہے کو پیغام دینا چاہتا ہوں خواہ وہ عوام ہوں، یا عوام سے مشابہ افراد، یا کچھ طلبۂ علم بلکہ بعض ’علماء‘۔ تو ہم ان سے کہتے ہیں:

تم اس مسئلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے متفق ہو گئے ہو! امریکہ القاعدہ سے سب سے زیادہ بغض رکھتا ہے ،اور تم بھی؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟کیا تم نے خود سے کبھی یہ سوال کیا کہ کیوں تمہاری رائے دشمنوں سے ہم آہنگ ہو گئی؟ذرا دل سے اس بات کی جانب غور کرو اور سوچو کہ تم القاعدہ پر کیوں اعتراض کرتے ہو؟ کیا القاعدہ نے اہل السنۃ والجماعۃ کے اصولوں سے ہٹ کر کوئی اصول اپنایا ہے؟ تم اگر تحقیق کرو گے تو پاؤ گے کہ اللہ کے فضل سے ایسا کچھ نہیں ہے۔ القاعدہ ان امور میں اہل السنۃ کے منہج پر ہے، مثلاً جو جان بوجھ کر اللہ کی نازل کردہ شریعت کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق فیصلے کرے تو وہ کافر ہے۔ جو مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے اور شریعت کو معطل کرنے کے لیے اور خلافتِ اسلامیہ کے خاتمے کے لیے کفار کی نصرت کرے تووہ کافر ہے۔

میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم دشمن کے میڈیا کو دیکھتے سنتے ہو، تو مجاہدین کے میڈیا کو کیوں نہیں دیکھتے اور سنتے؟بلکہ تم تو کئی بار دانستہ اور کئی بار نادانستہ مجاہدین کی دعوت اور ان کے میڈیا و اعلام کو روکنے کا سبب بن جاتے ہوں۔ تمہارے ہی زبان و قلم مجاہدین پر طعن و تشنیع کے لیے استعمال ہو جاتے ہیں۔ اللہ کے لیے، ذرا سوچو تو سہی! اگر امریکی تمہیں دیکھ رہے ہوں کہ تم مجاہدین کے دعوت و اعلام کے محاذ کے خلاف لگے ہوئے ہو ، تو کیا امریکی اس پر خوش نہیں ہوں گے؟

ذرا تصور کرو ان مسلمانوں کا جن کے بیٹے، باپ شہید ہو گئے، عورتیں اغوا ہو کر اڈیالہ تا باگرام و ابو غریب و ٹیکساس پہنچا دی گئی اور وہ پکارتی رہیں’وامعتصماه!‘…… اور جو مجاہد داعی و اعلامی انہی مظلوموں کی آواز کو آگے پہنچانے میں جتے ہوئے تھے تم انہی سے جنگ آزما ہو گئے …… جب ان مظلوموں کو تمہارا یہ عمل معلوم ہو گا تو تو کیا وہ خوش ہوں گے؟

سچ یہ ہے کہ اس بات کا جواب تو صرف منصف و متقی دل ہی دے سکتا ہے۔ اور انصاف؟ وہ تو اب نایاب ہو چکا ہے۔

(۷) ……کیونکہ وہ ’اللہ کی خاطر بھائی چارے‘کے پہلو کو
بہت اہمیت دیتے ہیں

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاد کا حکم اس وقت دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے درمیان ’فی اللہ بھائی چارے‘ کو قائم فرما چکے تھے۔ یہاں تک کہ صحابہؓ نے اس اخوت میں بے نظیر مثالیں قائم کیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو آپ کے ابتدائی اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ آپؐ نے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات (بھائی چارہ) قائم فرمایا۔ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرما کر باہمی اجتماع اور میل و محبت کے ایک مرکز کو وجود بخشا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخِ انسانی کا ایک اور نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا جسے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دا جاتا ہے۔ ابنِ قیمؒ لکھتے ہیں:

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ کُل نوّے آدمی تھے، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار۔ بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ ایک دوسرے کے غم خوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبتی قرابت داروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ وراثت کا یہ حکم جنگِ بدر تک قائم رہا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ

وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ (سورۃ الاحزاب۶)

’’ اس کے باوجود اللہ کی کتاب کے مطابق پیٹ کے رشتہ دار دوسرے مومنوں اور مہاجرین کے مقابلے میں ایک دوسرے پر (میراث کے معاملے میںزیادہ حق رکھتے ہیں۔ ‘‘

تو انصار و مہاجرین میں باہمی توارُث کا حکم ختم کر دیا گیا لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا‘۔‘‘ [الرحیق المختوم(اردو)، ص ۲۵۵، ۲۵۶]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روايت كرتےہیں کہ :

’’جب مکہ سے مہاجرین مدینہ آئے تو انصار یعنی مدینہ کے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ’ہمارے کھجوروں کے درختوں کو ہمارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم فرما دیجیے‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’میں درختوں کو تقسیم نہیں کروں گا تم ہی لوگ ہماری یعنی مہاجرین کی طرف سے بھی محنت کرلیا کرو، ہم پیداوار میں تمہارے شریک رہیں گے‘۔ انصار نے کہا کہ ’ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو بسروچشم قبول کرتے ہیں‘۔‘‘ (صحیح بخاری)

جب میں نے اسلامی جماعتوں کے اندر ’اللہ کی خاطر بھائی چارے‘ کے پہلو کو دیکھا، تو مجھے دو جماعتیں نمایاں نظر آئیں:تبلیغی جماعت اور القاعدہ۔ جب میں نے دونوں کا تقابلی مطالعہ کیا، تو مجھے القاعدہ اس میدان میں زیادہ نمایاں نظر آئی، کیونکہ جیسا کہ ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے، وہ میدانِ جنگ میں ایک دوسرے کی جان بچانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کبھی کبھی امیر اپنے ساتھیوں کو انخلا کا حکم دیتا ہے اور خود ان کے دفاع میں پیچھے رہتا ہے یہاں تک کہ شہید ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات عام مجاہد سپاہی اپنے امیر کے حکم کو محض محبت و وفاداری کی بنا پر قبول نہیں کرتے تاکہ وہ انہیں نہ چھوڑیں، یعنی وہ بھی اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں۔4یہاں مکرر وہی نکتہ دوبارہ عرض ہے جو ہم اس اردو تحریر میں بار بار بیان کرتے رہتے ہیں، اور وہ یہ کہ اس تحریر کا مقصد القاعدہ کی برتری ثابت کرنا ہرگز ہرگز نہیں ہے، اور القاعدہ میں جو صفات پائی جاتی ہیں، سچ یہ ہے کہ ان صفات میں سے ایک کثیر حصہ دیگر جماعتوں میں موجود مجاہدین میں بھی موجود ہے۔

یہ ایسے واقعات ہیں جو تاریخ میں صرف مجاہدین ہی کے درمیان ملتے ہیں۔ میں نے کچھ دینی جماعتوں کو قریب سے دیکھا، مگر ’اللہ کی خاطر بھائی چارے‘ کا وہ درجہ کہیں نہیں پایا جو القاعدہ میں نظر آیا۔ میں نے علمی مراکز میں تعلیم حاصل کی، جن میں خیر و علم تھا، لیکن وہاں طلبہ میں اس اخوت کی کیفیت کم نظر آئی۔ جب ہم سیرتِ نبوی پڑھتے ہیں اور طلبہ کا حال دیکھتے ہیں تو ایک واضح فرق محسوس کرتے ہیں۔ میں برسوں اس کمی کو محسوس کرتا رہا، لیکن جب میں القاعدہ سے جڑ گیا تو مجھے یہ پہلو بہت نمایاں محسوس ہوا۔ ان کے باہمی تعلقات محبت، اکرام اور قربانی پر مبنی تھے، حتیٰ کہ وہ اپنی جماعت سے باہر کے لوگوں سے بھی محبت رکھتے ہیں ۔

اے نصرتِ الٰہی کے خواہاں شخص! جان لو کہ جو جماعت ’اللہ کی خاطر اخوت‘ کو قائم نہیں کرے گی، وہ ہرگز فتح حاصل نہ کر سکے گی ، کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کے طریقے کے خلاف ہوگا۔ کیونکہ عملاً معرکوں میں اترنے سے قبل ہی ان میں یہ فی اللہ اخوت موجود تھی۔

بھلا وہ جماعت کیسے فتح حاصل کرے گی جس کے لوگ آپس میں بخل کرتے ہوں؟ جن میں ایثار کم دکھائی دیتا ہو؟

ایک ایمان افروز واقعہ

شیخ ابو مصعب العولقی لکھتے ہیں کہ ایک بار میں، یمن میں ایک شیخ سے علم حاصل کرنے جا رہا تھا۔ وہاں عدن سے آنے والے کچھ طلبہ ملے، جو انہی شیخ کے پاس جا رہے تھے۔ ان کے پاس سامان اور کتب تھیں۔ راستے میں انہیں اپنی گاڑی پر جاتا ہوا ایک طالبِ علم ملا جو خود ان مذکورہ شیخ کی عدم موجودگی میں تدریس بھی کرتا تھا۔ ان طلبہ نے سامان گاڑی پر رکھا، لیکن جب صاحبِ گاڑی کو معلوم ہوا کہ ان طلبہ کے پاس کرائے کی رقم کچھ کم ہے تو اس نے ان طلبہ کو بٹھانے سے انکار کر دیا۔ پس مجبوراً ان طلبہ نے اپنا سامان اتارا اور دوسری سواری تلاش کی۔ سبحان اللہ، ایسی شخصیت اور ایسا رویہ! اگر یہ کوئی استثنائی واقعہ ہوتا تو میں ذکر نہ کرتا، مگر یہ ’اللہ کی خاطر بھائی چارے‘میں کمزوری کی علامت ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ طلبہ میں میں اخوت کا خیال رکھنے والے بالکل نہیں ،ہرگز نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مجاہدین کی جماعتیں اس پہلو میں کہیں بہتر ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں اس کام کی توفیق دی ہے اور اس راہ پر وہی چلتے ہیں جو دلیر اور شجاع ہوتے ہیں اور دلیر آدمی عموماً فیاض اور بااخلاق ہوتا ہے۔

حضرت الأمیر مولانا عاصم عمر شہید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بہادر آدمی سخی بھی ہوتا ہے۔ مترجم نے بہت سے افغانوں اور چند عربوں کے ساتھ بعض جگہوں پر طویل اور بعض جگہوں پر مختصر وقت گزارا ہے اور یہ عام مشاہدہ کیا ہے کہ ان دونوں اقوام میں شجاعت اور سخاوت دونوں بہت زیادہ ہیں۔ خاص کر افغانوں میں، میں نے دیکھا کہ ان کے مرد تو مرد ان کی عورتیں بھی بہت سخی ہوتی ہیں۔ شاید شجاعت کو سخاوت سے اور سخاوت کو شجاعت سے بہت نسبت ہوتی ہے۔ مجاہدینِ عالم میں عموماً اور تنظیم القاعدہ سے وابستہ مجاہدین میں شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی بے نظیر سخاوت مشہور و معروف ہے۔ وانا (جنوبی وزیرستان) میں مقیم ایک عرب شیخ، ابو تراب رحمہ اللہ نے ایک مجلس میں یہ واقعہ بیان کیا کہ شیخ اسامہ رحمہ اللہ تنظیم القاعدہ کے مخالف لوگوں کو بھی خوب خوب عطا کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شیخ اسامہ کی قمیض کی سامنے والی جیب میں محض چند سو پاکستانی روپے تھے (اور اس وقت شیخ کے پاس یہی کُل دولت تھی، اگرچہ بعد میں پیسے آ گئے ہوں گے) اور وہ بھی کسی طلب کرنے والے کو شیخ نے اسی لمحے دے دیے۔ اسی طرح ظہیر بھائی (اسامہ ابراہیم غوری شہیدؒ) نے مجھے بتایا کہ شیخ احسن عزیز اور ان کی شہیدہ اہلیہ عذراء ترابی (رحمہما اللہ)دونوں بہت زیادہ سخی تھے۔ ہمارے بڑے بھائی برادر داود غوری سے میں نے سنا کہ حضرت الأمیرمولانا عاصم عمر صاحب بھی بہت فیاض آدمی تھے اور ان کا دسترخوان مہمانوں کے لیے مختلف انواعِ نوش سے سجا رہتا تھا۔

مزید برآں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جتنا زیادہ مجاہدین دشمن سے خوف زدہ ہوتے ہیں، اتنا ہی ان کے درمیان محبت اور ایثار بڑھ جاتا ہے۔

ایک لطیف نکتہ

شیخ ابو مصعب لکھتے ہیں کہ میں آپ کو اپنا حال بتاتا ہوں کہ میں اور میرے کچھ اور ساتھی ایک جماعت سے وابستہ تھے، پھر اللہ نے ہمیں مجاہدین سے جوڑ دیا اور سب کچھ بدل گیا۔ اخوت جو پہلے کمزور تھی، بڑھ گئی۔ ایثار جو ناپید تھا، پیدا ہو گیا۔ رابطہ جو شاذ تھا، مسلسل ہو گیا ، اور ہم لوگ وہی لوگ تھے،بس ہمارا تعلق القاعدہ سے جڑ گیا تھا، اور اس تعلق کے سبب ہمارے آپسی تعلقات خوبصورت ہو گئے۔

جان لیجیے، اللہ آپ پر رحم کرے، کہ القاعدہ نے ’اللہ کی خاطر بھائی چارے‘کے پہلو کو اس قیامت سے پہلے قیامت کے نفسی نفسی والے دور میں عظیم سطح تک پہنچایا۔ میں نے ان جیسے محبت کرنے والے نہ دیکھے، اور مجھے کسی نے ویسی محبت نہ دی جیسی انہوں نے دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ جب آدمی اپنے کسی بھائی سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ اسے بتلادے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘ (ابو داود و الترمذی)

القاعدہ کا دنیا بھر کے مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہنا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسلامی اخوت کو اہمیت دیتے ہیں۔

اللھم اجعلنا هادين مهتدين، غير ضالّين ولا مضلّين، سلماً لأوليائك، وحرباً علی أعدائك، نحب من أحبك، ونعادي بعداوتك من خالفك. اللهم هذا الدعاء ومنك الإجابة، اللهم هذا الجهد وعليك التكلان، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، آمين!

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version