مشہور جرمن فلسفی نطشے (Fridrich Nietzsche) کا قول ہے:
’’جو شخص عفریتوں سے لڑتا ہے، اسے خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ خود ہی عفریت نہ بن جائے۔ اور جب تم پاتال میں دیر تک جھانکتے ہو تو پاتال بھی تم میں جھانکنے لگتا ہے۔‘‘
“He who fights with monsters should look to it that he himself does not become a monster. And if you gaze long into an abyss, the abyss also gazes into you.”
اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ جب انسان کا مقابلہ منفی قوتوں سے ہوتا ہے تو ان کے منفی اثرات انسان پر غیر محسوس طور پر مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی قاعدہ کُلیہ ہرگز نہیں ہے، لیکن اس کی واقعیت سے انکار کرنا بھی مشکل ہے۔ اس لیے کہ عام طور پر باطل قوتوں سے برسرپیکار افراد یا جماعتوں کو عموماً غیر محسوس انداز میں اسی باطل سے متاثر ہونے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، اور بدقسمتی سے اسلامی سرزمینوں پر اسلامی انقلاب کی داعی جماعتیں اور تحریکات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اِلا یہ کہ ان میں فکری پختگی، حالاتِ زمانہ سے گہری واقفیت اور تزکیے و رجوع الیٰ اللہ کے مضبوط رجحانات موجود ہوں۔
اس لیے کہ غلبۂ دین کی جدوجہد کرنے والے حضرات کو مغرب کی معاشی و عسکری طاقت سے ہی نہیں ، فکری و نظریاتی سطح پر بھی مغرب سےمقابلہ درپیش ہے، بلکہ اس طرح کہنا بھی بجا ہوگا کہ مغرب سے حقیقی جنگ ہی فکری و نظریاتی ہے، عسکری میدان تو اس فکری جنگ کا فقط ایک میدان ہے، ہاں البتہ بہت اہم میدان!۔ اسی لیے غلبۂ دین کی جدوجہد سے وابستہ حضرات فکری میدان میں بھی مغربی نظریات کی تنقید میں سرگرم رہے اور مغربی معاشی و سیاسی نظریات کی سنگینی واضح کی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں جہادی حلقوں میں مغربی سیاسی تصورات، بالخصوص جمہوری نظام پر کافی تنقیدات سامنے آئیں۔ تاہم جمہوریت پر تمام تر تنقیدات کے ساتھ ہمیں مغربی سیاسی نظریات کی بنیادی اکائی، ’ریاست‘ (State) پر کوئی قابل ذکر تنقید دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بادی النظر میں اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ مغربی نظریات کا سب سے بڑا فریب یہی ہے کہ ان پراڈکٹس کو عین ’فطری‘ ارتقاء کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جدید ’ریاست‘ (State) اور ریاستی ادارہ جاتی صف بندیوں یا اجتماعیت کو دیگر سیاسی اجتماعیتوں مثلاً خلافت، امارت، بادشاہت وغیرہ کی ارتقائی شکل سمجھنے کا ایک عمومی تصور پایا جاتا ہے جو نہ صرف غلط بلکہ کافی خطرناک بھی ہے۔یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ عصر حاضر میں جب بھی ’ریاست‘ (State) اور ریاستی اداروں (State Institutions) کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد صرف ”جدید مغربی قومی وطنی ریاست“ (Modern Western Nation State) اور اس کے سماجی، انتظامی و معاشی ادارے (Institutions)ہی ہوتے ہیں۔ جدید ریاست قطعاً قدیم حکومتی انتظام کی جدید شکل نہیں بلکہ یورپ کے لادین سیاسی، سماجی و معاشی نظم میں پروان چڑھنے والا خالصتاًمغربی ادارہ ہے۔ کسی بھی تہذیب کی مخصوص ما بعد الطبیعات کے زیراثر وجود پذیر ہونے والے ہمہ قسمی ادارے، خواہ وہ سیاسی ہوں، مثلاً ریاست، یا سماجی و معاشی ادارے نہ صرف اس مخصوص مابعد الطبیعات کے تحت کام کرتے ہیں بلکہ اُسی مخصوص مابعد الطبیعات کے فروغ کا باعث بھی بنتے ہیں۔جیسا کہ اسلام کاری (Islamization) کے نام پر اسلامی بینکاری کے فروغ سے اسلامی معاشی اصولوں کی ترویج کی بجائے معاشرے میں سرمایہ دارانہ طرزِ معاشرت اور سرمایہ دارانہ اخلاقیات ہی فروغ پارہی ہیں۔ انہی وجوہات کے باعث ضروری ہے کہ غلبۂ دین سے وابستہ افراد ریاستی صف بندی کو بھی اسی ادارہ جاتی نقطۂ نگاہ سے سمجھتے ہوئے اپنی غلبۂ دین کی جدوجہد کا مقصدِ اصلی کسی نام نہاد ’اسلامی ریاست‘ نہیں بلکہ صرف ’’خلافت علی منہاج النبوۃ‘‘ کا قیام متعین کریں۔ اسی ضرورت کے پیش نظر اس مضمون میں مختصراً ’ریاست‘ کی امتیازی خصوصیات کے بیان کے ذریعے اسلامی حکومت اور ’ریاست‘ کے درمیان فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ریاست (State) کی امتیازی خصوصیات
متعدد مفکرین نے جدید ریاست کی ساخت کے بیان میں ریاست کے مختلف امتیازی اوصاف ذکر کیے ہیں۔ اسلامی علوم کے معروف مغربی مفکر اور فلسفی، وائل حلاق (Wael Hallaq) نے اپنی کتاب Impossible State میں ریاست کے درج ذیل امتیازی اوصاف ذکر کیے ہیں:1Wael Hallaq, Impossible State, 26; مندرجہ بالا خصوصیات فاضل مصنف سے مع معمولی ترمیم منقول ہیں۔
- تاریخیت(Historicity)
- حاکمیت (Sovereignty)
- قانون سازی و جبر (Legislation & Violence)
- بیوروکریٹک انتظامیہ (Bureaucratic Administration)
- مخصوص انفرادیت (Citizenship)
تاریخیت(Historicity)
ریاست (State) سیاسی صف بندی کی ایک مخصوص شکل ہے جو یورپ کے ساتھ خاص ہے۔ یورپ کے ساتھ خاص سیاسی صف بندی کا مطلب یہ ہے کہ ریاست (State) بحیثیت ادارہ، یورپ کے ایک خاص سیاسی، سماجی و معاشی سیاق میں وجود میں آئی۔جس میں تحریکِ تنویر (Enlightenment) کے زیرِ اثر رونما ہونے والی غیر معمولی تبدیلیاں خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ جن کے نتیجے میں بادشاہت اور کلیسا کی علیحدگی ہوئی اور اس کے نتیجے میں قومی ریاست کی ابتدائی صورت وجود میں آئی۔نیز تحریکِ تنویر کے ذریعے ہی اس نئی سیاسی صف بندی، یعنی ریاست کےلیے درکار نظریاتی تائید بھی فراہم ہوئی۔ اس لیے یہ کہنا کہ ”جدید مغربی ریاست بلاشبہ تاریخی حالات کی پیداوار ہے‘‘، بطور ادارہ ریاست کی جوہری صفت (یعنی تاریخیت) کی درست وضاحت ہے۔ اسی طرح سرمایہ داری (Capitalism) کے فروغ کا بھی ریاست کی تشکیل میں اہم کردار ہے، تاہم ریاست سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، جیسا کہ بہت سی ریاستیں کمیونسٹ یا سوشلسٹ بھی ہیں۔
اسی تاریخیت پر مبنی مشروعیت کے باعث سیاسیات (Political Sciences)کے مباحث میں ریاست کو ایک مجرد (abstract) اور آفاقی (universal) وجود باور کروائے جانے کا رجحان اٹھارہویں صدی میں پیدا ہوا کہ جب ریاست (State)کے تصور کو عقلیت (rationality)، ترقی اور تہذیب یافتہ ہونے سے جوڑا جانے لگا۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں یورپ میں ریاستی حدود میں رہنے والے انسانوں کو ہی صحیح معنوں میں تہذیبِ یافتہ انسان گردانا جاتا تھا، ریاستی صف بندی کے علاوہ دیگر سیاسی صف بندیوں میں رہنے والے انسانوں کو قبائلی معاشروں میں رہنے والے کمتر اور وحشی انسان سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے مغربی استعماری حکومتوں نے اپنی نوآبادیوں میں بسنے والے ’اجڈ‘ اور ’وحشی‘ انسانوں کو ’تہذیبِ یافتہ‘ بنانے کےلیے نوآبادیاتی معاشروں میں یورپی انتظامی، سیاسی و معاشی ادارہ جات بزورِ قوت متعارف کروائے۔
حاکمیت (Sovereignty)
حاکمیت (Sovereignty) کا تصور ریاست کی ایسی جوہری صفت ہے جسے پچھلی دوصدیوں میں ریاست میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود ریاست کا امتیازی نشان کہا جاسکتا ہے۔ ما قبل جدید دور میں اقتدار مخصوص سیاسی و نظریاتی (لیکن شخصی) ڈھانچوں پر استوار تھا، جب کہ جدید ’ریاست‘ (State) اس کے برعکس ’غیر شخصی‘ (Impersonal) کردار کی حامل ہے۔ یہ غیر شخصی مجرد کردار (حاکمیت) ریاست کے جواز میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ یہ مجرد تصورِ حاکمیت اس بات کا متقاضی ہے کہ ریاست کو متفرق اداروں کے ساتھ ساتھ ایک نظریاتی ڈھانچے کے طور پر بھی سمجھا جائے۔ سیاسی اور نظریاتی طور پر حاکمیت (Sovereignty) کا مذکورہ تصور، ارادۂ نمائندگی (Will of Representation ) کے تصور سے نکلا ہے۔ حاکمیت(Sovereignty) کا یہ تصور اس سوچ سے تشکیل پایا ہے کہ ریاست کی تجسیم (Embodiment)کرنے والی قوم اپنے ارادے اور تقدیر کی واحد خالق ہے۔ اس ارادے کو عملی شکل دینے کےلیے کسی بھی بالاتر ہستی،جبر یا غلبے کی نفی کرنا ضروری ہے۔عملی طور پر جبر کی یہ نفی فرانسیسی و امریکی انقلابات میں ظہور پذیر ہوئی۔ 2جبر و استبداد سے مراد ہر قسمی خارجی اثر ہے، جس میں مذہب بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابِ فرانس مذہب و ریاست کی جدائی میں اہم سنگ میل شمار ہوتا ہے۔
خارجی استبداد کی نفی ایسی لازمی جو ہری شرط ہے جس کے بغیر حاکمیت بے معنی رہتی ہے۔ لہٰذا جدید ریاست کا تذکرہ حاکمیت کی جوہری صفت فرض کرنا اور عوامی ارادے (popular will) کو اپنی اجتماعی تقدیر کا مالک سمجھنا ضروری ہے۔ عوامی اور اجتماعی ارادہ (collective will) دراصل انفرادی طور پر عملی اور فعال شرکت کو پہل سے موجود نہیں گردانتا، بلکہ اپنی اجتماعی طاقت کا دعویٰ اسی وجہ سے کرتا ہے کہ وہ ایک فرضی تصور ہے۔ یہاں تک کہ اگر غیر جمہوری طاقت بر سر اقتدار آجائے تو بھی اس تصور کی قوت میں کچھ کمی نہیں آتی کیوں کہ روایتی جمہوری روایات کی غیر موجودگی میں بھی ہر ریاست (قومی ریاست پڑھا جائے) توقع کرتی ہے کہ اس کا ارادۂ حکم (sovereign will) اس کے حکمرانوں کے اقوال و افعال میں متشکل ہو گا، خواہ وہ شیطانوں کی جماعت ہی کیوں نہ ہو۔ ارادۂ جمہور سے آمریت اورآمریت سے جمہوریت میں تبدیلی کے دوران ریاست کی صفتِ حاکمیت محفوظ رہتی ہے، اور یہ اقتدار اعلیٰ کی مالک ریاست کے تصور میں مطلق بادشاہتوں سے جمہوری اقتدار میں تاریخی تبدیلیوں کا درست اظہار ہے۔
حاکمیت کے اس تصور کی مقامی و بین الاقوامی ، دو جہتیں ہیں۔ بین الاقوامی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام ریاستیں اپنی اپنی سرحد ات کے اندر دیگر ریاستوں کی اتھارٹی تسلیم کرتی ہیں اور بین الریاستی معاملات میں ہر ریاست اپنی قوم کی جائز نمائندہ تصور کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ریاست، خواہ وہ استبدادی ہی کیوں نہ ہو، اپنی عوام کی ’جائز نمائندہ‘ تصور کی جاتی ہے۔ حاکمیت کی اس بین الاقوامی جہت کی تشکیل یورپ کے معاہدۂ ویسٹ فیلیا (1648ء) سے ہوئی اور یہ بین الاقوامی جہت، حاکمیت کی مقامی جہت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس طرح، کہ کسی ریاست کی سرحدی حدود کے اندر اس ریاست کی اتھارٹی سے اعلیٰ اتھارٹی کوئی نہیں ہوتی۔ ریاست کی حدود میں ریاست کا ہی قانون چل سکتا ہے۔ کوئی غیر ریاستی طاقت اس قانون کو چیلنج نہیں کرسکتی، نہ ہی ریاستی حدود کے اندر اس (ریاستی قانون) کو کسی برتر اتھارٹی کے سامنے چیلنج کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ قانون ہی ریاست کے ارادۂ حاکمیت (Sovereign Will) کا اظہار ہوتا ہے۔
اس طرح قانون کو چیلنج کرنا عوامی ارادے (popular will) کو چیلنج کرنا ٹھہرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی شہری یا گروہ کا اپنی ریاست کے قانون کو چیلنج کرنا یا تو منطقی تناقض ہے [کیوں کہ اس سے وہ اپنی ہی مرضی (ارادہ) کو چیلنج کر رہے ہوں گے یا پھر یہ کسی متبادل اجتماعی ارادے (متبادل اقتدار اعلیٰ) کی نمائندگی کرنے والا متشدد اور انقلابی عمل ہے]۔ ریاستوں کی معروضی دنیا میں اس چیلنج کی قبولیت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس چیلنج کے جواز کا انحصار سابقہ حکومت کو تبدیل کرنے کی مسلح جدوجہد کی کامیابی پر ہے۔ اس (کامیابی)کے بغیر متبادل آئین کا وجود ممکن نہ ہوگا۔
تشدد پر اجارہ داری (Monopoly on Violence) ریاست کی حاکمیت کے مقامی و بین الاقوامی دونوں پہلوؤں کا جوہری عنصر ہے۔ طاقت کے خالص اظہار کے طور پر تشدد ریاست کی لازمی صفت اور اس کی مقامی حاکمیت اور قانونی ارادے (Legal Will) کے اظہار کا ذریعہ ہے۔
وجود میں آنے کے لیے حاکمیت کو نہ صرف ایک ریاست چاہیے ہوتی ہے بلکہ تخیلاتی بنیاد (Imagined Construct) یعنی قوم کی عمومی شرط بھی درکار ہوتی ہے ۔ مقتدر اعلیٰ ہونے کے ناطے ”قومی ریاست کسی ذات کے اعمال کی پیداوار نہیں ہوتی بلکہ خود اپنی تخلیق ہوتی ہے ۔“ کیوں کہ یہ آئینی تشدد کے اسی تخیلاتی تصور کی بنیاد پر وجود میں آئی ہوتی ہے اور باقاعدہ قانون کا نفاذ بھی جاری رکھتی ہے۔ پال کا ہن (Paul Kahn) کا یہ تجزیہ درست ہے کہ مقتدر ریاست خود اپنی تعمیر کے لیے قادر مطلق تصور کی جاتی ہے، ”بالکل ویسے ہی جیسے خدا کسی چیز کو عدم سے وجود بخشتا ہے“اور ریاست ” اپنا ارادہ رکھنے یا اس کا اظہار کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے“۔اپنے مقصود کے لحاظ سے ریاستی حاکمیت (Sovereignty) اور توحید میں متعدد مشترکات ہیں جیسا کہ پال کاہن لکھتا ہے:
’’اول، یہ قادرِ مطلق ہے،تمام سیاسی شکلوں میں سے جو چاہے منتخب کرسکتی ہے۔ دوم، اس کا وجود زمان و مکان سے ماورا ہے، یہ قوم کی زندگی کے ہر لمحے اور اس کی سرحدوں کے اندر ہر مقام پر یکساں طور پر موجود ہوتی ہے۔ سوم، ہم اسے صرف اس کی قدرت کے اظہار سے جان سکتے ہیں، ہم پہلے عوامی حاکمیت سے واقفیت حاصل کر کے نہیں پوچھتے کہ اس نے کیا حاصل کیا ہے، (بلکہ) ہم یہ (ایمان) رکھتے ہیں کہ عوامی حاکمیت لازم ہے کیونکہ ہم ریاست کو اسی (عوامی حاکمیت) کی مرضی کا اظہار سمجھتے ہیں۔ ہم کسی ذات کے وجود کا اندازہ اس کے فعل کے تجربے سے کرتے ہیں۔ آخر ی، ہم اس مقتدر سے واقف نہیں ہو سکتے جب تک کہ اسے ایک معیاری دعوے3معیاری دعویٰ (Normative Claim) : کسی چیز کے لازم ہونے کا ’اخلاقی‘ دعویٰ۔ کے طور پر محسوس نہ کرلیں جو خود ہی اپنی شناخت کی دلیل ہوتا ہے، ہم خود کو اس مقتدر کا ایک حصہ اور اسی کی تخلیق سمجھتے ہیں، اور اسی مقتدر میں خود کو دیکھتے ہیں۔‘‘
First, it is omnipotent: all political forms are open to its choice. Second, it wholly fills time and space: it is equally present at every moment of the nation’s life and in every location within the nation’s borders. Third, we know it only by its product. We do not first become aware of the popular sovereign and then ask what it has accomplished. We know that it must exist, because we perceive the state as an expression of its will. We deduce the fact of the subject from the experience of its created product. Finally, we cannot be aware of this sovereign without experiencing it as a normative claim that presents itself as an assertion of identity. We understand ourselves as a part, and as a product, of this sovereign. In it, we see ourselves.4Paul W. Kahn, Putting Liberalism in Its Place, 267
اس طرح ریاست کے تناظر میں اپنی ذات کی شناخت کا مطلب یہ ہے ریاستی حاکمیت کی خواہشات کے مطابق اپنی ذات کا ادراک کرنا اور اس کے مطابق ڈھل جانا، پھر اسی حاکمیت کو قانون اور قوم دونوں کا مصدر تصور کیا جاتا ہے اور قوم اپنی اجتماعیت میں قانون کے آئینے میں منعکس ہوتی ہے۔
قانون مقتدرہ کے ارادے کا عکس ہے، لہٰذا جو ارادہ ذات کی تخلیق کرتا ہے اور اسے اپنی صورت پر بناتا ہے وہ دراصل قریب قریب ارادہ خداوندی کا مذہبی (مسیحی)تصور ہی ہے۔ ما قبل روشن خیالی (Enlightenment) کے بہت سے جدید تصورات کی طرح حاکمیت (Sovereignty) کی جدید شکل میں بھی مذہبی حاکمیت کی کچھ صورتیں بعینہٖ باقی ہیں۔
جدید ریاست کے تمام اہم تصورات اپنی تاریخی نمو اور اپنے انتظامی ڈھانچے کی وجہ سے دینی تصورات کی ہی سیکولر شکل ہیں۔ تاریخی ارتقا میں یہی دینی تصورات ریاست کے تصور اور تھیوری میں منتقل ہوگئے جن میں ریاست کی قادرِ مطلق مقننہ کو قادر مطلق خدا کی جگہ دی گئی۔ ریاست جس طرح قادر مطلق خدا کی طرح قانون تخلیق کرنے کا اختیار رکھتی ہے، اسی طرح اپنے تخلیق کردہ قوانین کو معطل کرنے کا بھی مکمل اختیار رکھتی ہے۔ قانون کی یہ معطلی معجزے کے مذہبی تصور سے مشابہہ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح معجزے کے ذریعے خدا اپنی لامحدود طاقت سے قوانین قدرت کو معطل کرکے اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے بعینہٖ اسی طرح استثنائی حالات(مثلاً آفت یا جنگ وغیرہ) میں اپنے ہی قوانین معطل کرنا ریاستی قوت و حاکمیت کا مظہر ہوتا ہے ۔5Carl Schmitt, Political Theology, 36
قانون سازی و جبر (Legislation & Violence)
حاکمیت کے بعد ریاست کی تیسری جوہری صفت قانون سازی ہے جو دراصل ریاست کے ارادۂ حاکمیت (Sovereign Will) ہی سے پھوٹتی اور اسی ارادے کا اظہار ہوتی ہے۔ قانون سازی کی صفت کے بغیر کوئی ریاست صحیح معنوں میں ریاست نہیں کہلا سکتی۔ اس لیے کہ ارادۂ حاکمیت (Sovereign Will) کے اظہار کے طور پر ریاست خدا کی طرح احکامات جاری کرنے والا وجود بن جاتی ہے ۔
کیلسن (Kelson) نے ریاست (State) کے تین جوہری عناصر شمار کیے ہیں:6Hans Kelsen, General Theory of Law & State, 207
- مخصوص جغرافیہ (Territory)
- (مخصوص)آبادی (Population)
- طاقت (Power)
مذکورہ بالا خصوصیات تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی طاقت دو چیزوں پر مشتمل تسلیم کرنا ہوگی:
- قانون بطور ارادۂ سیاسی (Political Will)
- اس قانون کے مقامی و بین الاقوامی سطح پر نفاذ کےلیے درکار استبدادی قوت (تشدد یا جبر)۔
قانونی نقطۂ نظر سے بھی ریاست (State) اجتماعیت کی ایسی مخصوص شکل ہے جو قانونی و انتظامی شکل سےتشکیل پاتی ہے اورریاست ایسا قانونی فرد ہوتا جو اس اجتماعیت کا معاشرتی و قانونی اظہار ہوتا ہے۔ ریاست اور اس کا قانونی نظام دونوں ایک ہی ہیں۔ بقول کیلسن: ”ریاست نامی اجتماعیت خود ہی قانون ہے“۔ سادہ لفظوں میں: ”ریاست کی تشکیل اگر حاکمیت (Sovereign Will) سے ہوئی ہے تو قانون اس حاکمیت کا اظہار، اور اس قانون کا نفاذ اس حاکمیت (Sovereign Will)کا عملی اظہار ہے“۔ جیسا کہ ریاست (اور قانون) اپنی تشکیل کی وجہ سے خود ہی اپنا مقصود ہے، اس لیے قانون کے نفاذ کےلیے جبر و استبداد کی حدود بھی ریاست خود ہی متعین کرتی ہے۔ حتیٰ کہ کسی خدائی حکم کا نفاذ کر بھی دیا جائے تو وہ دراصل ریاست کے اس حکم کو نافذ کرنے کی خواہش سے ہی مشروط ہو تا ہے۔7دوسرے لفظوں میں ریاست اگر شریعت نافذ کربھی لے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نہیں بلکہ ریاستی حاکمیت (Sovereign Will) کا اظہار ہوتا ہے۔ سادہ لفظوں میں ریاست خدائی احکام کی محتاج نہیں بلکہ احکام خداوندی ریاست کے محتاج بن جاتے ہیں، زیادہ واضح کریں تو: ”زمین پر ریاست فرعون کی طرح انا ربكم الأعلیٰ کا دعوے دار وجود ہوتی ہے‘‘۔8Wael Hallaq, Impossible State, 27-29
ادارہ جاتی انتظام (Bureaucratic Management)
ادارے وہ ثابت شدہ ساختیں ہوتی ہیں جو سماجی دائرے کی تشکیل کرتی ہیں۔ ادارے نہ صرف سماج کے افراد کے باہمی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں، بلکہ سماج میں ایک مربوط نظام فکر کا ذریعہ بن کر سماجی ترجیحات کا تعین بھی کرتے ہیں۔ ان اداروں کے استحکام کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک پائیدار سماجی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ ادارے جہاں بعض سماجی رویوں کی تشکیل اور نشونما کا باعث بنتے ہیں وہیں بعض رویوں کی نفی بھی کرتے ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں سماج میں ایسی نئی ترجیحات اور اعمال بھی وجود میں آتے ہیں جو پہلے اس سماج میں موجود نہیں تھے۔9Hodgson, Geoffery M., What are institutions?, Journal of Economic Issues, volume 40, issue 1, 2016, New York, Routledge, 1-5 جیسا کہ ماہر معاشیات ڈگلس نارتھ اداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ادارے کسی سما ج میں کھیل کے قواعد ہوتے ہیں، یا، زیادہ رسمی طور پر کہا جائے تو، انسانوں کی اختراع کردہ ایسی پابندیاں ہوتی ہیں جو انسانی تعامل کی تشکیل کرتی ہیں۔ نتیجتاً وہ انسانوں کے سیاسی، سماجی یا معاشی باہم تبادلے میں انسانی رجحانات کو منظم کرتی ہیں۔‘‘
“Institutions are the rules of the game in society or, more formally, are the humanly devised constraints that shape human interaction. In consequence they structure incentives in human exchange, whether political, social, or economic”.10North, Douglass C. Institutions, Institutional Change, and Economic Performance. Cambridge: Cambridge University Press, 1990, Cambridge, pp 12
یہ ادارے اگرچہ کسی سماج کے افراد ہی کی فکر اور عمل کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں تاہم یہ ادارے ان پر منحصربھی نہیں ہوتے۔ اس لیے کہ ادارے کسی مشین کے کل پرزوں کی طرح نہیں ہوتے بلکہ ایک جداگانہ وجود اور تشخص کے حامل ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے بھی اپنے مفادات، بقا اور توسیع کے جذبات ہوتے ہیں جن کے تحت یہ ادارے معاشرے میں مخصوص اقدار کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔11Javaid, Omar, Methodology of Institutional Analysis and its Implication on Expectations from the Contemporary Framework of Islamic Banks, Humanomics, Vol. 31 No. 2, 2015, Leeds, UK: Emerald Publishing, pp. 183-200
ریاست کے سماجی، سیاسی و معاشی ادارہ جاتی انتظام کی خصوصیت (بیوروکریٹک)انتظام ہے۔ ادارہ جاتی انتظام سے ہماری مراد محض اداروں کی تنظیم (Organization) نہیں بلکہ ان کا ’غیر شخصی‘ (Impersonal) قواعد پر مبنی ایک مخصوص انتظامی ڈھانچہ ہے جس میں ملازمین پہلے سے طے شدہ عقلی قواعد اور حاکمیت کی ایک درجہ بندی کی پاسداری کے پابند ہوتے ہیں۔یہ ادارہ جاتی ساخت، یورپی سماج کے نشاۃ ثانیہ اور تحریک تنویر کے انقلابات کے نتیجے میں بدلتی ہوئی سماجی اقدار کے تحت ایک سیکولر اور سرمایہ دارانہ معاشرہ بننے کے مراحل میں تشکیل پائی، کہ جب قدیم روایتی سماجی ڈھانچہ شکست و ریخت کے عمل سے گزر رہا تھا اور اسکی جگہ مارکیٹ سوسائٹی کی شکل میں ایک مادہ پرست سرمایہ دارانہ سماج تشکیل کے مراحل میں تھا۔ جدید ریاست کے ادارے دراصل یورپی سماج کے اسی اخلاقی خلا (Vacuum) کو پُر کرنے کےلیے تشکیل دیے گئے۔بعد ازاں یورپی استعمار نے ان یورپی الاصل اداروں کو دنیا بھر میں اپنی نوآبادیات (Colonies) میں بزور طاقت پھیلایا ۔ اس طرح جہاں ایک طرف ادارہ سازی کے ذریعے مغربی اقدار نوآبادیاتی خطوں میں پھیلائی گئیں وہیں استعمار نے ریاستی ڈھانچے کی بنیاد بھی اسی ادارہ سازی کے عمل سے رکھ دی۔
ادارہ جاتی نظم کا ایک دوسرا پہلو ان اداروں کی تنظیم (Systemization) اور اس کے نتیجے میں ریاست پر منظم کنٹرول ہے۔ بیوروکریسی کی تمام ذیلی شاخیں اعلیٰ سے اعلیٰ کی نگرانی میں ہوتی ہیں اس طرح ایک طرح اعلیٰ سے اسفل تک منظم کنٹرول کا ایک انتظامی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح بیوروکریسی بیک وقت ریاستی انتظام کا آلہ اور آلۂ کار دونوں کہی جاسکتی ہے۔ جدید ریاست میں انتظامیہ درحقیقت حاکمیت اور جبر کی تنظیم کا نام ہے۔ اپنے اس اثر و نفوذ کی وجہ سے بیوروکریسی ریاستی انتظام میں دخیل ہوتی ہے، بلکہ سماج کی ریاستی تعقل کے مطابق تشکیلِ نو کےلیے ثقافتی نفوذ بھی حاصل کرتی ہے۔ بنیادی انتظامی نظم و نسق سے لےکر قوانین کے جال کے ذریعے معاشرے کے افراد کی نجی زندگی تک پر اپنے اثر و رسوخ کے باعث ریاست ہمہ وقت معاشرے کے افراد کی ایک نئی اجتماعی ذات (Subjectivity) یا انفرادیت، یعنی ’شہری‘ (Citizen) کے طور پر تشکیل کرتی رہتی ہے۔12Hallaq, Impossible State, 30-31
مخصوص انفرادیت (Citizenship)
ریاست کے ارادۂ حاکمیت (Sovereign Will) کے ریاست کا تشکیلی جزو ہونے کا لازمی نتیجہ ریاست کا ثقافتی نفوذ اورریاست کی حدود میں ہرقسمی خود مختار سماجی یا سیاسی اکائیوں کا خاتمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ریاست جیسے جیسے مضبوط ہوتی گئی مذہب، خاندان، قبیلہ و برادری کی سماجی صف بندیاں کمزور ہوتی چلی گئیں۔ اس لیے کہ ریاست اپنی حدود میں کسی قسم کی خودمختار اکائی برداشت نہیں کرسکتی۔13Hallaq, Impossible State, 32-34 یہی وجہ ہے کہ استعمار کی جانب سے گزشتہ صدی میں ’تیسری دنیا‘ میں قائم کردہ ریاستیں برائے نام ریاستیں ہیں، اس لیے کہ وہاں خاندان، قبیلے اور مذہبی اکائیاں سماجی سطح پر وفاداریوں کا محور ہیں اور ریاست سے جداگانہ گہرے نفوذ کی حامل بھی ہیں۔
شہری(Citizen) اپنی تعریف کے لحاظ سے قومیائی گئی اکائی ہے جو اپنی شناخت’قوم‘ (Nation) سے جوڑتا ہے۔ اس طرح اگر ریاست قوم کی علامت اور نیشنل ازم سیاست کی معینہ شکل تسلیم کرلی جائے تو پھر شہری (Citizen) کوسیاسی وجود قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شہری اپنی ذات یعنی شہریت کو ریاست کی ملکیت سمجھتا اور ریاست کے لیے خود کو قربان کرنے پر تیار رہتا ہے۔ ریاست کی خاطر قربان ہونے کا یہ تصور ویسا ہی ہے جیسا کہ پال کاہن (Paul Kahn) کہتا ہے:
”زندگی اور موت کا اختیار صرف اور صرف سیاسی طاقت (یعنی ریاست)کے پاس ہے،حقیقی سیاسی عمل14یعنی شہری میں ریاستی شناخت کا راسخ ہونا اس وقت مکمل ہوتا ہے جب شہری ریاست کی خاطر قتل کرنے اور قتل ہونے پر تیار ہوتا ہے۔ لہٰذا جدید ریاست حقیقی معنوں میں اس وقت ہی کامل ہوتی ہے جب یہ اپنے شہری (Citizen) سے قربانی طلب کرے اور شہری اس کےلیے قربانی دینے پر تیار ہوجائے۔ اس طرح شہریت کا مفہوم جائے پیدائش سے کامل نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تکمیل شہریوں میں ریاست کی خاطر قربانی کے اس جذبے سے ہوتی ہے‘‘۔15Kahn, Putting Liberalism, 238–239.
ریاست کےلیے قربانی کا یہ جذبہ شہریوں میں قوم پرستی (Nationalism)، ڈسپلن اور تعلیم کے مسلسل پراپیگنڈے کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔ جس کے لیے ابتدائی عمر سے ہی تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے ہمہ وقت پراپیگنڈے سے شہریوں میں قومی یا ریاستی شعائرکی تعظیم اور وطن پر قربان ہونے کے جذبات انڈیلے جاتے ہیں۔
خلاصۂ کلام
جدید قومی ریاست (State)بحیثیت ادارہ دراصل یورپ کے مخصوص حالات میں وجود میں آنے والی سیاسی صف بندی کی شکل ہے جو تحریک نشاۃ ثانیہ (Renaissance) سے تحریک تنویر (Enlightenment Movement) کے عرصے میں رونما ہونے والے متعدد عوامل کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئی۔ اپنی اصل کے اعتبار سے ریاست یورپ میں کلیسا اور بادشاہتوں کی باہمی چپقلش، کلیسا کے جبر اور نااہلی کے ردعمل میں مذہب و حکومت کی مکمل جدائی اور خدا کی بجائے انسانی حاکمیت کی مظہر سیاسی اجتماعیت ہے۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ ریاست کا خمیر ہی سیکولرازم سے اٹھا ہے تو بےجا نہ ہوگا۔ اپنی صفتِ حاکمیت (Sovereignty) کے اعتبار سے ریاست ایک خالص الحادی وجود ہے۔
ریاست اگر کلمہ پڑھ کر اسلام کا لبادہ اوڑھ لے تو اس نام نہاد ’اسلامی ریاست‘ کا نفاذِ اسلام بھی اپنی اصل میں حاکمیتِ الٰہیہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا نہیں بلکہ ارادۂ عمومی (Collective Will) کا مظہر ہی رہے گا۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے سے ریاست اور اسلامی حاکمیت (یعنی خلافت یا امارت) میں ایک اساسی فرق یہ بھی ہے کہ ریاست اپنی حاکمیت کا نفاذ ارادۂ حاکمیت کے اظہار کے طور پر کرتی ہے جبکہ خلافت، نیابتِ رسولﷺ کے طور پر شریعت کے تحت مسلمانوں کے دینی و دنیوی امور کی نگہبانی ہے۔ نیز ریاست اپنا تسلط بیوروکریسی کے منظم نظام کے تحت ہمہ گیروبے لچک قوانین کے تحت نافذ کرتی ہے۔16شریعت و قانون (Law) ہر لحاظ سے دو علیحدہ تصورات ہیں۔ شریعت (یا فقہ) اگر نصوص کا فہم ہے تو قانون ریاست(باالفاظِ دیگر انسان) کے ارادۂ حاکمیت کی علامت ہے۔ قانون انسانی ذہن کی پیداوار، یکساں اور غیر مقدس ہوتا ہے جس کا اخلاقی ہونا ضروری نہیں۔ جب کہ اس کے برعکس، شرعی احکام کا ماخذ وحی الٰہی ہے ، جو مقدس اور انسانی حالات کی رعایت کے ساتھ ہمہ وقت اخلاقی ہوتے ہیں۔ قانون و اخلاق کی اسی دوئی کی وجہ سے ریاست اخلاقی جواز سے محروم ہوتی ہے، نتیجتاً ریاستی حکمرانی ادارہ جاتی نفوذ اور طاقت کی محتاج ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شریعت کا نفاذ تاریخی طور پر طاقت سے زیادہ اصلاح نفس کے ذریعے فرد اور معاشرے کی اخلاقی اصلاح کے ذریعے ہوتا آیا ہے۔ قانون و اخلاق کی اس دوئی اور اصلاح نفس (Technologies of the Self) کی تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیں: ”Impossible State“ جبکہ اسلامی حکومت شریعت مطہرہ کی پابند اور احکام شریعت میں اختلاف و تنوع کی رعایت کرتی ہے۔ ریاستی نظم کے تحت شہریت (Citizenship) کی اجتماعی ذات (Subjectivity) پروان چڑھتی ہے اور دیگر سماجی اکائیاں، یعنی خاندان، برادری و قبیلے کی شناختیں مٹ جاتی ہیں یا کمزور ہوجاتی ہیں۔ اس طرح ایک انفرادیت پسند و لادین معاشرے کی بنا پڑتی ہے جو اسلامی طرز معاشرت کے یکسر متضاد ہوتا ہے۔
ریاست اپنی فکری بنیادوں، ساخت، ادارہ جاتی انتظام اور اثرات، الغرض ہر لحاظ سے اسلامی حکومت کے یکسر متضاد سیاسی صف بندی کی شکل ہے جو غلبۂ دین کے داعیان تو کجا، عام دینی فہم رکھنے والے مسلمان کےلیے بھی ناقابل قبول ہونا چاہیے۔ تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب اپنے تمام تر سیاسی، سماجی و معاشی اداروں اور تصورات کو انسانی تہذیبی ’ارتقاء‘ کے طور پر پیش کرکے دھوکہ دیتی ہے جس سے عام ذہن تو کیا بڑے بڑے صاحبِ فکر حضرات تک مغالطے میں پڑ سکتے ہیں۔ انہی مغالطوں کا نتیجہ ہے کہ سیاسی اجتماعیت یا حکومت کا تصور کرتے ہی آج ہمارے ذہن فی الفور ’ریاست‘ نامی اجتماعیت کا ہی تخیل کرتے ہیں جبکہ خلافت، امارت اور ان کی ماقبل از جدید دور کی حکومتی شکلیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ غلبۂ اسلام اور اقامتِ دین کا درد رکھنے والے حضرات بھی ریاست کی ماہیت ، فکری بنیادوں اور اثرات پر غور کرنے اور خلافت و امارت کے تصورات کا حقیقی معنوں میں احیاکرکے حقیقی اسلامی حکومت اور معاشرت کا احیاء کرنے کی بجائے دین پسند عوام میں ’اسلامی ریاست‘ کے خواب سجانے پر تُلے ہیں۔
آخر میں قارئینِ کرام سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس ٹوٹی پھوٹی تحریر کی کمی بیشی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسے فقط غلبۂ دین کے داعی حضرات کےلیے ریاستی تحکیم پر دعوتِ فکر سمجھیں ۔ جس سے مقصود محض بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہوئے اس موضوع پر سنجیدہ مطالعے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔
٭٭٭٭٭
- 1Wael Hallaq, Impossible State, 26; مندرجہ بالا خصوصیات فاضل مصنف سے مع معمولی ترمیم منقول ہیں۔
- 2جبر و استبداد سے مراد ہر قسمی خارجی اثر ہے، جس میں مذہب بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابِ فرانس مذہب و ریاست کی جدائی میں اہم سنگ میل شمار ہوتا ہے۔
- 3معیاری دعویٰ (Normative Claim) : کسی چیز کے لازم ہونے کا ’اخلاقی‘ دعویٰ۔
- 4Paul W. Kahn, Putting Liberalism in Its Place, 267
- 5Carl Schmitt, Political Theology, 36
- 6Hans Kelsen, General Theory of Law & State, 207
- 7دوسرے لفظوں میں ریاست اگر شریعت نافذ کربھی لے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نہیں بلکہ ریاستی حاکمیت (Sovereign Will) کا اظہار ہوتا ہے۔
- 8Wael Hallaq, Impossible State, 27-29
- 9Hodgson, Geoffery M., What are institutions?, Journal of Economic Issues, volume 40, issue 1, 2016, New York, Routledge, 1-5
- 10North, Douglass C. Institutions, Institutional Change, and Economic Performance. Cambridge: Cambridge University Press, 1990, Cambridge, pp 12
- 11Javaid, Omar, Methodology of Institutional Analysis and its Implication on Expectations from the Contemporary Framework of Islamic Banks, Humanomics, Vol. 31 No. 2, 2015, Leeds, UK: Emerald Publishing, pp. 183-200
- 12Hallaq, Impossible State, 30-31
- 13Hallaq, Impossible State, 32-34
- 14یعنی شہری میں ریاستی شناخت کا راسخ ہونا
- 15Kahn, Putting Liberalism, 238–239.
- 16شریعت و قانون (Law) ہر لحاظ سے دو علیحدہ تصورات ہیں۔ شریعت (یا فقہ) اگر نصوص کا فہم ہے تو قانون ریاست(باالفاظِ دیگر انسان) کے ارادۂ حاکمیت کی علامت ہے۔ قانون انسانی ذہن کی پیداوار، یکساں اور غیر مقدس ہوتا ہے جس کا اخلاقی ہونا ضروری نہیں۔ جب کہ اس کے برعکس، شرعی احکام کا ماخذ وحی الٰہی ہے ، جو مقدس اور انسانی حالات کی رعایت کے ساتھ ہمہ وقت اخلاقی ہوتے ہیں۔ قانون و اخلاق کی اسی دوئی کی وجہ سے ریاست اخلاقی جواز سے محروم ہوتی ہے، نتیجتاً ریاستی حکمرانی ادارہ جاتی نفوذ اور طاقت کی محتاج ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شریعت کا نفاذ تاریخی طور پر طاقت سے زیادہ اصلاح نفس کے ذریعے فرد اور معاشرے کی اخلاقی اصلاح کے ذریعے ہوتا آیا ہے۔ قانون و اخلاق کی اس دوئی اور اصلاح نفس (Technologies of the Self) کی تفصیل کےلیے ملاحظہ فرمائیں: ”Impossible State“