جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے

ایک عظیم بے حسی، ایک عظیم فراموشی اور ایک عظیم خیانت کا مظاہرہ ہم صبح و شام دیکھ رہے ہیں۔ نجانے کیا کیا باتیں ہیں جو دل میں آتی ہیں، لیکن زبان و قلم ان کو بیان کرنے کا یارا نہیں رکھتے۔ شیخ محمود حسنات کی بات یاد آتی ہے جو خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور یہ کہہ کر منبر سے اتر گئے کہ ’جس امت کو غزہ کے لوگوں کا قتلِ عام اور ان کی لاشیں بیدار نہیں کر سکیں ان پر میرے بیان و خطبے کا کیا اثر ہو گا؟‘ ۱۸ جولائی کی مجاہد قائد ابو عبیدہ کی خونچکاں پکار ذہن میں گردش کرتی ہے کہ ایک عالی شان امت ایسی حالت سے دو چار ہے کہ وہ غزہ میں بستے اپنے ہی لوگوں کو دوا، پینے کا پانی اور خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ ابو عبیدہ نے اس امت، اس امت کے عوام و اشرافیہ کو، اس امت کے علماء و حکام کو، اس امت کے فوجیوں اور مجاہد ہونے کے دعوے داروں کو، اس امت کے شاعروں، ادیبوں، صحافیوں کو، اس امت کے اہلِ خیر و مال دار افراد ، کاروباری شخصیات کو مخاطب کیا، لیکن ہائے افسوس کے سناٹا طویل سے طویل تر اور گہرے سے گہرا ہی ہوتا گیا۔

ہم میں سے کچھ لوگ اپنے دل کو یہ جھوٹی تسلیاں دیتے رہےکہ ہماری زندگی کے کچھ شغل ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچا لیں گے۔ لیکن غزہ کا ہر ہر فرد اعلانیہ کہہ رہا ہے کہ جس محمد ؐرسول اللّٰہ کا کلمہ تم پڑھتے ہو، اب بروزِ قیامت ہم تم کو اسی محمدؐ رسول اللّٰہ کے سامنے گھسیٹیں گے، تم پر فردِ جرم ہم یہاں عائد کرتے ہیں اور روزِ قیامت تمہارے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر، ساقیٔ کوثر (علیٰ صاحبہ ألف صلاۃ وسلام) کے سامنے تم کو رسوا کریں گے۔

یہ سطور لکھتے ہوئے ہم نے کئی کئی بار سوچا کہ ہمارے قلم سے کوئی زیادہ سخت بات نہ نکل جائے۔ لیکن غزہ کے بچوں کی حالت، غزہ کی عورتوں کی حالت، وہاں کے بوڑھوں اور بے یار و مدد گار مردوں کی حالت دیکھ کر، یقین جانیے، یہ سخت الفاظ نرم ہی لگتے ہیں۔

ایک با شرف، پردہ دار قوم کی بیٹیاں جب بھیک مانگنے والیاں ہو جائیں، ان کی عزتیں لٹ جائیں، سہاگ اجڑ جائیں۔ نازوں میں پلنے والے بچے جب بھکاری بن کراس حالت کو پہنچ جائیں کہ وہ امداد پہنچانے والے غیر مسلموں کے ہاتھوں کو چوم کر شکریہ ادا کرنے والے ہوں۔ بھوک و پیاس سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے بزرگ قطاروں میں کھڑے ہو کر جب غش کھا کر زمین پر گریں اور وہیں مر رہیں۔ لیکن ہم اپنے آرام کمروں میں ہوں، زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ، روشنیوں اور شہنائیوں کے ساتھ رواں ہو، تو اہلِ غزہ کیا اس بہترین امت کو بد ترین امت قرار نہیں دیں گے؟

ہم نے سقوطِ غرناطہ کی تاریخ جب پڑھی، تو اس کے حکمرانوں کی لعنت و ملامت پر مبنی تاریخ کے ساتھ کئی کئی بار یہ بھی سوچا کہ اس وقت کے دیگر لوگ کیسے لوگ تھے، جنہوں نے اس سب بیتنے والے معاملے کو برداشت کر لیا تھا، کہنے کو تو تاریخ کے چند کردار شکست خوردہ یا فاتح ٹھہرتے ہیں۔ کہنے کو ایک ابو عبد اللّٰہ برا تھا، اور کہنے کو ایک صلاح الدین اچھا ہوا کرتا ہے، لیکن سنجیدہ مطالعہ بتاتا ہے کہ ابو عبد اللّٰہ اور صلاح الدین ایک ٹھاٹھیں مارتی قوم کے ضمیر کے عکاس ہوا کرتے ہیں۔ جہاں ضمیر مردہ اور ان کے دل غیرت و جہاد سے عاری ہوتے ہیں، تو ایسی قوم کے نمائندے ابو عبد اللّٰہ اور جس قوم کا ضمیر بیدار، دل غیرت و جہاد سے معمور و مزین ہو تو اس قوم کو صلاح الدین جیسے پادشاہ ملا کرتے ہیں۔ لازمی نہیں ہوتا کہ ہر با ضمیر و غیرت مند و مجاہد معاشرہ اور اس کے پادشاہ ہمیشہ کامیاب ہوں، وہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان بھی ہوتے ہیں، موت کو گلے لگاتے ہیں اور تاریخ میں ہارے ہوئے ’فاتحین‘ قرار پاتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ غزہ نے کل فتح یاب ہو جانا ہے، اللّٰہ کا کلمہ سر بلند ہونا ہے، لیکن جو نسل یہ کام کرے گی وہ نسل کل، ہمیں آج کی نسل کو ،لعنت ملامت کرے گی اور کہے گی کہ دو ارب کی امت تھی، یہاں علم و فن والے بھی تھے، مال و جلال والے بھی تھے، لیکن ہائے کیسے برے تھے ہمارے اسلاف کہ امت ان کے سامنے کٹتی رہی، لیکن یہ اپنے آرام کدوں میں محوِ عیش رہے۔ ہائے افسوس!

دل میں اگر کوئی غیرت کی چنگاری فروزاں ہو گئی ہو، تو آئیے چند اجمالی نکتوں میں اپنا فرض سمجھتے ہیں:

’’فمن لم يجاهد فهو إما قاعد، أو منافق، أو خاذل، أو معذور، فما ثم غير.‘‘

’’پس کون ہے جو جہاد نہیں کرتا، تو جان لیجیے یا تو وہ پیچھے بیٹھ رہنے والا ہے، یا منافق ہے، یا بے توفیقا ہے یا وہ معذور شخص ہے جس کا مقبول عذر اللّٰہ کی شریعت میں بیان کیا گیا ہے ، پس اس کے علاوہ جہاد نہ کرنے والے کی اور کوئی قسم نہیں ہے!‘‘

پس کل نہیں آج نکلیے، تاریخی کارنامے رقم کرنے کے لیے نہیں، اس بلا کو اپنے سر سے ٹالنے کے لیے، جو اہلِ غزہ کی بد دعاؤں اور سسکیوں اور آہوں کے سبب عنقریب ہم پر مانندِ صاعقہ گرنے والی ہے۔

جان لیجیے، جہاد تو اس امت کے کسی مخصوص گروہ یا جماعت کا کام نہیں۔ جہاد تو ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ جب ہم فرضِ عین جہاد کی پکار لگاتے ہیں تو اس کا معنیٰ یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ ہم ادائیگیٔ صلاۃ و زکاۃ کو، دعوت الی اللّٰہ اور تزکیہ و احسان کویا دین کی کسی اور خدمت کو ہیچ قرار دے رہے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ تبوک جیسا زمانہ ہے، نفیرِ عام ہے، جہاد فرضِ عین ہے، سبھی لوگ آئیں، میدانِ جہاد میں پیش ہوں، فرضِ عین جہاد کی ادائیگی باقی فرائضِ دینیہ اور واجبات کے معطل ہونے کا نام ہر گز نہیں ہے، بلکہ ایسے شبہات تو شیطان و نفس کی شرارتیں ہیں۔

آبروئے دینِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سوال ہے۔ امتِ محمدیہؐ کی بیٹیوں کی عزتوں کا سوال ہے۔ یتیموں، بیواؤں اور بھوک سے مرتے بوڑھوں کی پکار پر لبیک کہنے کا سوال ہے۔ اسرائیلی یہودی علی الاعلان رسالت پناہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کر رہے ہیں۔ وہ ہماری اور آپ کی غیرت کو للکار رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ اہلِ غزہ اگر امتِ محمدؐ سے ہیں تو محمدؐ اس دنیا میں ان کو بچانے کی خاطر موجود نہیں۔

کیا ہم محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اور آپؐ کے عشق کا دم بھرنے والے ایسے طعنوں اور ایسی دریدہ دہنیوں کو برداشت کرتے رہیں گے؟

یہ اُنؐ کے ’دین‘ کی حرمت، ادھر یہ سر سلامت بھی!؟
جگر کے خوں سے اب یہ داغ دھونے کی تمنا ہے!

یاد رکھیے کہ اس وقت، وقت کا اولین اور اہم ترین تقاضا بہر صورت و بہر قیمت اہلِ غزہ کا قتلِ عام بند کروانا اور ان کی ناکہ بندی کوتڑوانا ہے۔ اس کے لیے مؤثر عسکری کارروائیاں، صہیونی ممالک کے سفارت خانوں کا گھیراؤ، دیگر سفارتی و سیاسی کوششیں اور بڑی سطح پر فریڈم فلوٹیلا اور قافلۃ الصمود جیسی کوششیں اور کاوشیں کی جائیں۔ان سب اعمال و افعال کو کرتے ہوئے یہ نکتہ ذہن نشین رکھا جائے کہ اہلِ غزہ کی نصرت عملاً تب تک نا ممکن ہے، جب تک ہم اپنی جانوں سے اس طرح پیار کرتے رہیں گے کہ جس طرح ’اہلِ دنیا‘ اس جان کو عزیز رکھتے ہیں۔ اہلِ غزہ کی حقیقی نصرت ویسے ہی ایمان اور شوقِ شہادت کے ذریعے ممکن ہے، جیسا ایمان اور شوقِ شہادت اہلِ غزہ کے سینوں میں موجزن ہے۔یہ نصرت ’’حب الدنیا وکراھیۃ الموت‘‘ کی جگہ ’’حب الموت وکراھیۃ الدنیا‘‘ کے ذریعے ہو گی۔ عسکری کارروائیاں تو خاص مجاہدین، فدائین و استشہادیین کا کام ہے۔ لیکن سفارت خانوں کے گھیراؤ سے لے کر فریڈم فلوٹیلا تک کے اقدامات بھی فدائیت اور شوقِ شہادت کے بنا ناممکن ہیں۔ مکرر! یاد رکھیے! اس وقت، وقت کا اولین اور اہم ترین تقاضا بہر صورت و بہر قیمت اہلِ غزہ کا قتلِ عام بند کروانا اور ان کی ناکہ بندی کوتڑوانا ہے۔

اللھم اهدنا فيمن هديت وعافنا فيمن عافيت وتولنا فيمن توليت وبارك لنا فيما أعطيت وقنا شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضی عليك وإنه لا يذل من واليت ولا يعز من عاديت تبارکت ربنا وتعاليت!

اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم اهدنا لما اختلف فيه من الحق بإذنك. اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version