فلسطینی صحافی انس الشریف کی وصیت

انس الشریف ایک فلسطینی صحافی اور غزہ میں الجزیرہ کے نمائندہ تھے۔ وہ ۱۹۹۶ء میں غزہ میں جبالیا کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے جامعہ الاقصیٰ سے ماس کمیونیکیشن میں بیچلررز کی ڈگری حاصل کی، اور ابتدائی طور پر الشمال میڈیا نیٹ ورک سے بطور رضاکار جڑنے کے بعد الجزیرہ میں شمالی غزہ کے نمائندے، ویڈیو گرافر اور رپورٹر کے خدمات انجام دیں۔

انس الشریف نے اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ جنگ کے دوران مشرقی غزہ میں رہتے ہوئے خطرناک حالات میں رپورٹنگ جاری رکھی۔ ان کی بہادری اور بے باک رپورٹنگ نے انہیں غزہ کا ایک معروف اور نمایاں چہرہ بنا دیا۔ ۲۸ سالہ انس الشریف نے شمالی غزہ سے زمینی صورتحال کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور اسرائیلی بمباریوں، جنگی جرائم اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کی وسیع کوریج کی، جس کی وجہ سے انہیں اسرائیل کی طرف سے متعدد بار نشانہ بنانے کی دھمکیاں دی گئیں اور اسرائیلی فوج نے ان کی کردار کشی کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ ان کے والد کو دسمبر ۲۰۲۳ء میں ایک فضائی حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔

۱۰ اگست اور ۱۱ اگست ۲۰۲۵ء کی درمیانی رات اسرائیلی جہازوں نے الشفاء ہسپتال کے باہر صحافیوں کے خیمے کو ہدف بنا کر بمباری کی، جس کے نتیجے میں انس الشریف اپنے دیگر چار صحافی ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔ اسرائیل نے پوری ہٹ دھرمی سے انس الشریف کو ہدف بنانے کی ذمہ داری قبول کی اور جھوٹا دعویٰ کیا کہ انس حماس کاایک یونٹ چلا رہے تھے جو راکٹ حملوں میں ملوث تھا۔

شہادت سے چند لمحے قبل ہی وہ غزہ شہر پر اسرائیل کی شدید بمباری کی کوریج کر رہے تھے۔

اللہ تعالیٰ انس الشریف کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کا شمار شہداء و صالحین میں فرمائے، آمین۔

ذیل میں انس الشریف کی وصیت کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے جو انہوں نے اپریل ۲۰۲۵ء میں لکھی، جسے ان کے ادارے نے ان کی شہادت کے بعد ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر نشر کیا۔

(ادارہ)


یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے۔ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جان لیجیے کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔

سب سے پہلے، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اللہ جانتا ہے کہ جب سے میں نے جبالیہ پناہ گزین کیمپ کی سڑکوں اور گلیوں میں آنکھ کھولی، میں نے اپنی قوم کا سہارا اور آواز بننے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش اور پوری طاقت لگا دی۔ میری خواہش تھی کہ اللہ میری عمر بڑھا دے تاکہ میں اپنے گھر والوں اور عزیزوں کے ساتھ اپنے اصل قصبے مقبوضہ عسقلان (المجدل) واپس جا سکوں۔ لیکن اللہ کی مشیت پہلے آ گئی، اور اس کا فیصلہ اٹل ہے۔ میں نے درد کو اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ جیا ہے، کئی بار دکھ اور نقصان کا ذائقہ چکھا ہے، لیکن کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی سچ کو ، بلا کسی تحریف یا بگاڑ کے،جیسا ہے ویسا ہی پہنچانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، تاکہ اللہ ان پر گواہ بن جائے جو خاموش رہے، جو ہمارے قتل کو قبول کر گئے، جنہوں نے ہماری سانسیں گھونٹ دیں، جن کے دل ہماری عورتوں اور بچوں کے بکھرے جسموں کو دیکھ کر بھی نہ پگھلے اور جنہوں نے اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے کچھ نہ کیا جو ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے سے ہماری قوم کو سہنا پڑ رہا ہے۔

میں فلسطین کو آپ کے سپرد کرتا ہوں، جو عالمِ اسلام کا تاج ہے، دنیا کے ہر آزاد انسان کے دل کی دھڑکن ہے۔ میں اس کے لوگوں کو آپ کے سپرد کرتا ہوں، اس کے مظلوم اور معصوم بچوں کو، جنہیں خواب دیکھنے یا امن و سکون میں جینے کا وقت ہی نہ مل سکا، ان کے پاکیزہ جسم ہزاروں ٹن اسرائیلی بموں اور میزائیلوں تلے کچلے گئے، چیر دیے گئے اور دیواروں پر بکھر گئے۔

میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ نہ تو زنجیریں آپ کو خاموش کروا سکیں اور نہ ہی سرحدیں آپ کو روک سکیں۔ آپ اس زمین اور اس کے باسیوں کی آزادی کے لیے پل بن جائیں، یہاں تک کہ عزت اور آزادی کا سورج ہمارے چرائے گئے وطن پر طلوع ہو۔

میں اپنے گھر والوں کو آپ کی امانت میں دیتا ہوں کہ ان کا خیال رکھیں۔ میں اپنی پیاری بیٹی شام کو آپ کی امانت میں دیتا ہوں، جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، جسے میں اس طرح بڑا ہوتا نہ دیکھ سکا جیسا میں نے خواب دیکھا تھا۔

میں اپنے پیارے بیٹے صلاح کو آپ کی امانت میں دیتا ہوں، جسے میں زندگی میں سہارا دینا اور اس کا ساتھ دینا چاہتا تھا، یہاں تک کہ وہ اتنا مضبوط ہو جاتا کہ میرا بوجھ اٹھا کر میرا مشن جاری رکھ سکتا۔

میں اپنی پیاری ماں کو آپ کی امانت میں دیتا ہوں، جن کی بابرکت دعاؤں نے مجھے یہاں تک پہنچایا، جن کی دعائیں میرا قلعہ تھیں اور جن کا نور میری رہنمائی کرتا رہا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں ہمت دے اور میری طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔

میں اپنی شریکِ حیات، اپنی پیاری بیوی ام صلاح (بیان) کو آپ کی امانت میں دیتا ہوں، جس سے جنگ نے مجھے طویل دنوں اور مہینوں تک جدا رکھا، لیکن وہ ہمارے رشتے سے وفادار رہی، زیتون کے اس تنے کی مانند جو کبھی نہیں جھکتا۔ صابرہ، اللہ پر بھروسہ رکھنے والی، اور میری غیر موجودگی میں تمام ذمہ داری اپنے ایمان اور ہمت سے اٹھانے والی۔

میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں، اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا سہارا بنیں۔ اگر میں مر جاؤں تو اپنے اصولوں پر ثابت قدم ہو کر مروں گا۔ میں اللہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کے فیصلے پر راضی ہوں، اس سے ملاقات کا یقین رکھتا ہوں، اور مطمئن ہوں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔

اے اللہ! مجھے شہداء میں شامل فرما، میرے گزشتہ اور آئندہ کے گناہوں کو معاف فرما، اور میرے خون کو میری قوم اور میرے گھر والوں کے لیے آزادی کی راہ کو روشن کرنے والا نور بنا دے۔

اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دیں اور میرے لیے رحمت کی دعا کریں کیونکہ میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے، نہ کبھی بدلا ہوں اور نہ ہی خیانت کی ہے۔

غزہ کو کبھی مت بھولیں…… اور مجھے میری مغفرت اور قبولیت کے لیے اپنی صالح دعاؤں میں یاد رکھیں۔

انس جمال الشریف

۶ اپریل ۲۰۲۵ء

٭٭٭٭٭

Exit mobile version