قبلۂ اوّل سے خیانت کی داستان – مراکش

مراکش (المغرب)

المملکۃ المغربیۃ جسے عرفِ عام میں المغرب جبکہ اردو میں مراکش کے نام سے جانا جاتا ہے، اردن کے بعد وہ دوسرا عرب ملک تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور روابط استوار کر کے عالم اسلام کی تاریخ میں ایک اور شرمناک باب رقم کیا۔ اگرچہ مراکش کی مسئلۂ فلسطین سے غداری سنگین نوعیت کی تھی لیکن شمالی افریقہ کے مغربی کنارے پر موجود ایک دور دراز افریقی ملک ہونے کے سبب مراکشی حکمرانوں کے شرمناک کرتوت میڈیا پر اس طرح اجاگر نہیں ہوئے جتنا ان کی سنگینی کے لحاظ سے ان کا اجاگر ہونا ضروری تھا۔

پس منظر

اسرائیل اور مراکش کے درمیان زمینی طور پر بہت زیادہ فاصلہ ہونے کے باوجود مراکش کے اسرائیل کے ساتھ ابتدائی عرصے میں ہی تعلقات استوار کرنے کے پیچھے کچھ محرکات تھے:

سلطان محمد پنجم (۱۹۲۷ء تا ۱۹۶۱ء)

مراکش میں یہودیوں اور بعد میں اسرائیل کےساتھ تعاون کا آغاز محمد پنجم کے دور سے ہوتا ہے۔ محمد پنجم ۱۹۲۷ء میں مراکش کا سلطان بنا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے اتحادی افواج کا ساتھ دیا۔ لیکن ۱۹۴۰ء میں مراکش نازی نظریات رکھنے والی ’وچی‘ (Vichi) فرانسیسی حکومت3وچی حکومت ۱۹۴۰ء میں نازی جرمنی کے ہاتھوں فرانس کی شکست کے بعد بچے ہوئے علاقے میں قائم فرانسیسی حکومت کو کہتے ہیں جس کا دارالحکومت ’وچی‘ شہر تھا۔ اس حکومت نے نازی جرمنی کے ساتھ معاہدہ کیا اور اگلے دو سال، اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست کھانے تک، نازی جرمنی کی ہی پالیسیوں کے مطابق حکومت چلائی۔ کے زیر تسلط چلا گیا۔ اس دور میں سلطان محمد پنجم نے وچی حکومت کی یہود مخالف پالیسیوں کی مخالفت کی اور انہیں مراکش میں پوری طرح سے لاگو ہونے سے روکا4A History of Modern Morocco by Susan Gilson Miller (2013) ۔جس کی وجہ سے اس کی مراکش کی یہودی برادری اور عالمی یہودی تنظیموں میں قدر میں اضافہ ہوا۔ ۱۹۴۲ء میں ’وچی‘ فرانسیسی حکومت کو شکست ہوئی اور مراکش اتحادی افواج کے قبضے میں اور اس کے ذریعے اتحادی فرانسیسی حکومت کے قبضے میں چلا گیا۔

۲۲ جنوری ۱۹۴۳ء کو سلطان محمد پنجم کاسا بلانکا میں منعقد ہونے والی انفا کانفرنس کے دوران نجی طور پر امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ (Franklin Roosevelt) اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل (Winston Churchill) سے ملا۔ اس ملاقات میں روزویلٹ نے سلطان کو یقین دہانی کروائی کہ مراکش اب سے دس سال بعد آزاد ہو جائے گا۔5A History of Modern Morocco by Susan Gilson Miller (2013)

۱۹۴۸ء میں جب اسرائیلی ناجائز ریاست کا قیام عمل میں آیا تو پوری دنیا سے یہودیوں کو اسرائیل لا کر آباد کرنے میں کار فرما ایجنسیاں، یہودی ایجنسی (Jewish Agency)، موساد لعلیہ بیت (Mossad LeAliyah Bet) اور ان کی زیر سرپرستی مراکش سے یہودیوں کو اسرائیل ہجرت کروانے کے عمل کو منظم کرنے والی تنظیم کاڈیما (Cadima) مراکش میں کسی درجے میں خفیہ طور پر اور کسی درجے میں کھل کر کام کر رہی تھیں۔6Immigrants, by period of Immigration, Country of Birth and Last Country of Residence. CBS, Statistical Abstract of Israel, Government of Israel. 2009 کسی درجے میں خفیہ طور پر اس لیے کہ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد عرب لیگ کی طرف سے اسرائیل کا بائیکاٹ کیا گیا تھا اور مراکش سرکاری طور پر اس میں شامل تھا اس لیے سرکاری طور پر مراکش کے یہودیوں کو اسرائیل ہجرت کرنے کی اجازت نہیں تھی، اس کے ساتھ کسی درجے میں کھل کر اس لیے کہ یہودیوں کو ہجرت کرنے کے لیے سہولت فراہم کرنے والی ایجنسیوں کا کام ایسا ڈھکا چھپا بھی نہیں تھا کہ سلطان کو اس کی خبر نہ ہوتی۔ اگر وہ ان کے کاموں کو روکنا چاہتا، تو روک سکتا تھا، لیکن سلطان نے ان کے کاموں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک طرح سے انہیں اپنے کام کرنے کی کھلی چھوٹ دیے رکھی۔7یہاں کسی کو یہ شبہہ ہو سکتا ہے کہ شاہ محمد پنجم کی جانب سے مراکش سے یہودیوں کی ہجرت کو نہ روکنے کا سبب اپنے ملک کو یہودی وجود سے پاک کرنا بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان اقدامات سے مراکش تو یہودیوں سے پاک نہیں ہوا لیکن ناجائز اسرائیلی ریاست کو خوب تقویت ملی۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پوری دنیا سے کسی ایک بھی یہودی کی اسرائیل کی جانب ہجرت، مزید فلسطینی سرزمین اسرائیلی قبضے میں جانے، کسی فلسطینی کے بے گھر ہونے اور اپنی زمین سے بے دخل ہونے اور ناجائز صہیونی ریاست کی مضبوطی کا باعث ہوتی ہے اور مراکش کے شاہ محمد پنجم کے یہ اقدامات انہیں چیزوں کا سبب بن رہے تھے۔ اس کی وجہ سے آنے والے سالوں میں مراکش کی چالیس فیصد یہودی آبادی اسرائیل ہجرت کر گئی۔

شاہ حسن ثانی(۱۹۶۱ء تا ۱۹۹۹ء)

شاہ محمد پنجم کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا شاہ حسن ثانی تخت نشین ہوا۔ مراکشی یہودیوں کی اسرائیل ہجرت کے معاملے میں جہاں شاہ محمد پنجم کا کردار نظر انداز کرنے کی حد تک ہی تھا، شاہ حسن ثانی نے اس معاملے کو کہیں زیادہ آگے بڑھایا، یہی وجہ ہے کہ تاریخ مراکش سے اسرائیل کے تعلقات کاآغاز شاہ محمد پنجم سے نہیں بلکہ شاہ حسن ثانی سے ہی بتاتی ہے۔

آپریشن یاخین

اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کی جانب سے شاہ حسن ثانی کی قیادت میں مراکشی حکومت کے تعاون کے ساتھ شروع کیے اس آپریشن یاخین کا مقصد خفیہ طور پر مراکشی یہودیوں کو اسرائیل ہجرت کروانا تھا۔ مراکشی حکومت کی حمایت کے باوجود یہ آپریشن خفیہ اس لیے رکھا گیا کہ ایک طرف تو عرب لیگ کی طرف سے اس پر پابندی تھی کہ مراکش سے یہودیوں کو اسرائیل ہجرت کی اجازت دی جائے، دوسرا مراکش کے اندر عوامی جذبات بھی اس کے مخالف تھے، اگر یہ کام کھل کر کیا جاتا تو مراکشی حکومت کو عوام کی جانب سے سخت ردّ عمل کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہ آپریشن نومبر ۱۹۶۱ء میں شروع ہوا اور ۱۹۶۴ء کی بہار تک جاری رہا۔ اس آپریشن سے قبل اسرائیلی خفیہ ادارے موساد، مراکشی حکومت، ایک امریکی تنظیم Hebrew Immigrant Aid Society” (HIAS) کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کو اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان اور مراکشی شاہ حسن ثانی کی منظوری حاصل تھی۔ اس معاہدے کے تحت شاہ حسن ثانی کو پانچ لاکھ امریکی ڈالر ایڈوانس، اس کے علاوہ پہلے پچاس ہزار یہودیوں کی ہجرت کے لیے ہر یہودی کے بدلے ۱۰۰ ڈالر (کل 50 لاکھ ڈالر) اور اس کے بعد ہر یہودی، جن کی تعداد 47 ہزار کے قریب تھی، کی ہجرت کے بدلے ۲۵۰ ڈالر (کل ۱۱ کروڑ ۷۵ لاکھ ڈالر) کی ادائیگی کی جانی تھی۔8۱۹۶۱ء میں ایک گرام سونا 1.125 امریکی ڈالر کا تھا، جبکہ آج ایک گرام سونا 108 امریکی ڈالر کا ہے، یعنی آج کے حساب سے سمجھا جا سکتا ہے کہ شاہ حسن نے 4 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ایڈوانس، پھر پہلے پچاس ہزار یہودیوں کی ہجرت کے لیے ہر ایک یہودی کے بدلے 9600 امریکی ڈالر (کل 48 کروڑ ڈالر) جبکہ اس کے بعد باقی یہودیوں کی ہجرت کے لیے ہر ایک یہودی کے بدلے 24,000 امریکی ڈالر ( کل 1ارب 12کروڑ 80 لاکھ ڈالر، اگلے 47 ہزار یہودیوں کی ہجرت کے لیے) وصول کیے۔ شاہ حسن ثانی کو یہ تمام ادائیگیاں امریکی تنظیم HIAS نے کیں جو ہجرت کے اس سارے عمل کا خرچہ برداشت کر رہی تھی۔ اس تنظیم نے مراکشی یہودیوں کی اسرائیل ہجرت کی مد میں پانچ کروڑ ڈالر فراہم کیے تھے۔ اس عرصے میں تقریباً ۹۷ ہزار یہودیوں نے مراکش سے اسرائیل ہجرت کی۔9In Ishmael’s House: A History of Jews in Muslim Lands by Martin Gilbert.

اسرائیل سے اسلحے کی خریداری، فوجی تربیت اور انٹیلی جنس شیئرنگ

شاہ حسن ثانی مصری صدر جمال عبد الناصر کے عرب قوم پرستانہ اور اشتراکیت پسند نظریات سے خائف تھا اس کے علاوہ مراکش کے الجزائر کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ چل رہے تھے۔ دوسری طرف اسرائیل اپنی پیری فیری ڈاکٹرائن (Periphery Doctrine) کے تحت ان تمام ممالک سے اسٹریٹیجک شراکت داری چاہتا تھا جن کے جمال عبد الناصر کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں تھے۔ ان مشترکہ مفادات نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان تعاون کی راہ ہموار کی۔

شاہ حسن ثانی کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد مراکش نے شاہِ ایران کے تعاون سے اسرائیل سے خفیہ طور پر ہتھیار خریدے۔ ان میں چھوٹے ہتھیار اور جاسوسی آلات شامل تھے۔

اس کے علاوہ اسرائیل نے اسی عرصے میں مراکشی فوج کو تربیت بھی فراہم کی۔ اس مقصد کے لیے اسرائیل نے موساد اور آئی ڈی ایف کے مشیر فراہم کیے جنہوں نے مراکشی فوج کو بغاوت کچلنے، ٹیکٹیکل آپریشنز اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں پر تربیت فراہم کی۔10Israel-Morocco Deal Follows History of Cooperation on Arms and Spying by Ronen Bergman – The New York Times

اسی عرصے میں اسرائیل اور مراکش کے درمیان الجزائر اور مصر کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کا بھی آغاز ہوا۔ شاہ حسن ثانی نے موساد کو مراکش میں خفیہ اڈے بنانے کی بھی منظوری دی۔ اس انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے میں سب سے مشہور معاملہ شاہ حسن ثانی کی طرف سے اسرائیل کو عرب لیگ کے اجلاس کی خفیہ ریکارڈنگز فراہم کرنے کا تھا۔

عرب لیگ کا خفیہ اجلاس اور شاہ حسن ثانی کی خیانت

۱۹۶۵ء میں مراکش کے شہر کاسابلانکا میں عرب لیگ کا خفیہ اجلاس ۱۳ ستمبر سے ۱۷ ستمبر تک منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ کیا عرب ممالک اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہیں اور کیا اس مقصد کے لیے ایک متحدہ عرب فوجی کمان بنانے کی ضرورت ہے؟

شاہ حسن ثانی نے اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیز موساد اور شین بیت کو اس اجلاس کی جاسوسی کرنے کی اجازت دے دی۔ اس اجازت کے تحت موساد اور شین بیت کے ایک مشترکہ یونٹ ’دی برڈ‘ (The Bird) کو کاسابلانکا ہوٹل، جس میں یہ اجلاس ہونا تھا، کی ایک مکمل منزل حوالے کر دی گئی۔ اس یونٹ نے ہوٹل میں جاسوسی آلات نصب کیے تاکہ عرب رہنماؤں اور ان کے انٹیلی جنس سربراہان کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا جا سکے۔

لیکن اجلاس سے ایک دن قبل شاہ حسن نے راز افشا ہو جانے کے خوف سے اس یونٹ کو ہوٹل سے چلے جانے کا کہہ دیا اور اجلاس کے اختتام پر خود تمام ریکارڈنگز اسرائیل کے حوالے کر دیں۔11Morocco tipped off Israeli intelligence, ‘helped Israel win Six Day War’, by Sue Surkes – The Times of Israel

اسی اجلاس سے حاصل ہونے والی معلومات کا نتیجہ تھا کہ ۱۹۶۷ء میں دوسری عرب اسرائیل جنگ کے آغاز پر عرب ممالک کی جانب سے کسی حملے سے پہلے ہی اسرائیل نے مصر اور اردن کی مکمل اور شام کی آدھی فضائی طاقت کا خاتمہ کر دیا اور دوسری عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی فتح کو یقینی بنا لیا جس کے نتیجے میں مصر سے صحرائے سینا اور غزہ، اردن سے مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس جبکہ شام سے گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے میں آ گئیں۔

شاہ حسن ثانی نے اس تعاون کے بدلے میں موساد سے مراکشی حزب اختلاف کے رہنما مہدی بن برکہ کے قتل میں مدد مانگی تھی۔ اس اجلاس کے چند ہفتے بعد اکتوبر ۱۹۶۵ء میں موساد نے مہدی بن برکہ کو پیرس سے اغوا کر کے لاپتہ کر دیا جس کا اس کے بعد کبھی سراغ نہ مل سکا۔ بعض ذرائع کے مطابق موساد نے اس کو قتل کرنے کے بعد اس کے جسم کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا تھا۔12History: 1965, when the Mossad helped Morocco murder Ben Barka by Mohammed Jaabouk – YaBiladi

۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ (یوم کپور جنگ) میں مراکش کی شمولیت

۱۹۷۳ء میں مصر اور شام کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کیے جانے پر مراکش کے لیے اپنی ظاہری اور عوامی ساکھ، جس میں وہ عرب لیگ کے ساتھ، فلسطینی کاز کا حمایتی اور اسرائیل کا مخالف تھا، اور اسرائیل کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہو گیا۔ اس لیے عرب لیگ میں اپنی ساکھ اور مراکشی عوام کے درمیان اپنی عزت بچانے کے لیے شاہ حسن ثانی نے دو سے تین ہزار فوجیوں پر مشتمل اپنا فوجی دستہ شامی افواج کی مدد کے لیے گولان کی پہاڑیوں کی جانب روانہ کیا۔

اس جنگ کے دوران مراکشی فوجی دستہ کسی بڑی کارروائی میں شریک نہیں ہوا، اور اس کا کردار زیادہ تر دفاعی نوعیت کا ہی تھا۔ اس طرح سے مراکش نے عرب افواج کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کر لیا اور عرب لیگ اور مقامی عوام کو راضی بھی کر لیا اور اسرائیل کے ساتھ اپنے خفیہ تعلقات خراب بھی نہیں ہونے دیے۔ اسرائیل بھی جانتا تھا کہ مراکش کے فوجی دستے کی شمولیت سے جنگ کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا اور بعض ذرائع کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق موجود تھا کہ یہ اقدام مراکش کے لیے عالمِ عرب میں اپنا مقام قائم رکھنے کی خاطر ضروری ہے۔

القدس کمیٹی کا قیام اور سربراہی

جولائی ۱۹۷۵ء میں جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے چھٹے اجلاس میں القدس کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جسے اسرائیل فلسطین تنازع کے نتیجے میں بیت المقدس میں پیدا ہونے والے ثقافتی، سیاسی، سماجی، مذہبی اور انسانی حقوق سے متعلق مسائل کےحل کے لیے ایک قائمہ کمیٹی کی حیثیت دی گئی۔ اس کمیٹی کے مقاصد درج ذیل ہیں:

اس القدس کمیٹی کی چیئر مین شپ شاہ حسن ثانی کی سربراہی میں مراکش کو دی گئی۔ اور یہ فیصلہ ۱۹۷۹ء میں مراکش میں منعقد ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے دسویں اجلاس میں کیا گیا۔

کیسا المیہ اور کیسی منافقت ہے کہ جس نے ۱۹۶۵ء میں عرب لیگ کے اجلاس کی جاسوسی کر کے اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کی جنگ جیتنے میں اور بیت المقدس،اور دیگر فلسطینی علاقوں کو اسرائیل کے قبضے میں جانے میں، ہزاروں مسلمانوں کی شہادت اور لاکھوں فلسطینیوں کی جلا وطنی میں براہ راست مدد کی وہی مسجدِ اقصیٰ کا پاسبان اور فلسطینیوں کے حقوق کا علمبردار ٹھہرا۔

مصر اسرائیل تعلقات قائم کرنے میں مراکش کا کردار

اکتوبر ۱۹۷۶ء میں اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین نے مراکش کا خفیہ دورہ کیا۔ خود کو خفیہ رکھنے کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم سر پر ’وِگ‘ ، بڑی بڑی نقلی مونچھیں، اور نظر کی نقلی عینک پہن کر گیا ۔ مراکش میں اسرائیلی وزیر اعظم نے شاہ حسن ثانی سے ملاقات کی اور اسرائیل کے عرب ریاستوں کے ساتھ ممکنہ امن عمل اور مراکش کی جانب سے اس عمل میں سہولت کاری کے حوالے سے بات کی۔ اس ملاقات نے آنے والے وقت میں اسرائیل اور مصر کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لیے زمین ہموار کی۔13Morocco-Israel normalization: Rabat’s latest political betrayal by Abdelkader Abderrahmane, Middle East Eye

اس ملاقات کے بعد شاہ حسن ثانی نے اسرائیل اور مصر کے درمیان خفیہ رابطہ کاری قائم کرنے کے لیے سہولت کاری فراہم کی۔ اگست ۱۹۷۷ء میں موساد کے سربراہ اسحاق حوفی نے مراکش کا دورہ کیا اور شاہ حسن ثانی سے ملاقات کی۔ اس دورے کے دوران شاہ حسن ثانی نے اسرائیلی وزیر اعظم کو مصری صدر انور سادات کی جانب سے خفیہ پیغام دیا جس میں مصر کی جانب سے مراکش کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا۔14The Moroccan connection – The Jerusalem Post

۱۶ ستمبر ۱۹۷۷ء کو اسرائیلی وزیر خارجہ موشے دیان اور مصر کے نائب صدر حسن التہامی کے درمیان مراکش کے دار الحکومت رباط میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کو اس قدر خفیہ رکھا گیا تھا کہ مصر میں صرف تین لوگ، صدر انور سادات، نائب صدر حسن تہامی اور وزیر خارجہ اسماعیل فہمی، اس ملاقات سے واقف تھے۔ حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو بھی اس ملاقات کا علم نہیں تھا۔ اس ملاقات میں حسن التہامی نے اسرائیلی وزیر اعظم میناخم بیگن سے انور سادات کی ملاقات کی رائے پیش کی اور ساتھ میں مطالبہ رکھا کہ اسرائیل جزیرہ نما سینا سے انخلا پر رضامندی ظاہر کرے۔ اس ملاقات میں اسرائیل اور مصر کے تعلقات کی بحالی پر بات ہوئی اور حسن تہامی نے سینا سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے پانچ سال کے اندر مصر اسرائیل تعلقات مکمل طور پر بحال کرنے کا وعدہ کیا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ موشے دیان نے اسرائیلی وزیر اعظم بیگن اور مصری صدر سادات کی ملاقات پر تو رضا مندی کا اظہار کیا لیکن سینا سے انخلا کے حوالے سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔15September 16, 1977 – Moshe Dayan – Hassan Tuhami Secret Morocco Meeting about Direct Israel-Egyptian Negotiations – The Institute for Intelligence and Special Operations – Center for Israel Education

شاہ حسن ثانی نے حسن التہامی پر تنقید کی کہ وہ ’لچک‘ کا مظاہرہ نہیں کر رہا اور مذاکرات میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ اس کے نزدیک جزیرہ نما سینا سے انخلاء کی شرط میں تہامی کو نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ یہ ملاقات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔ اس کے دو ماہ بعد انور سادات نے یروشلم کا دورہ کیا اور میناخم بیگن سے ملاقات کی اور مصر اسرائیل مذاکرات کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ۱۹۷۹ء میں اسرائیل اور مصر کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے مراکش کا پہلا سرکاری دورہ

۲۱ جولائی ۱۹۸۶ء کو اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پریز نے مراکش کا پہلا سرکاری دورہ کیا اور وہاں شاہ حسن ثانی سے ملاقات کی۔ یہ کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کا کسی مسلم ملک کا دوسرا سرکاری دورہ تھا۔ اس سے قبل مینخم بیگن نومبر ۱۹۷۷ء میں مصر کا دورہ کر چکا تھا اور بالواسطہ طور پر اس کا سہرا بھی شاہ حسن ثانی کو ہی جاتا ہے کہ جس کی ثالثی میں اسرائیل اور مصر کے تعلقات قائم ہوئے۔

اس دورے کا مقصد کسی موضوع پر مذاکرات کرنا نہیں تھا بلکہ یہ ایک علامتی اور تجرباتی دورہ تھا جس کا مقصد اس طرح کھلے تعلقات پر مقامی سطح پر اور عالم اسلام کا رد عمل دیکھنا تھا۔

علامتی طور پر ہی اس دورے میں شاہ حسن ثانی نے فلسطینی ریاست کے قیام اور پی ایل او سے مذاکرات کا مطالبہ رکھا جسے شمعون پریز نے رد کر دیا۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر کوئی بات نہ ہوئی۔

مراکش میں مقامی سطح پر سرکاری میڈیا کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم کے دورے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا لیکن پھر بھی اس دورے کی اطلاع ہر طرف پھیل چکی تھی۔لیکن مقامی آبادی کی طرف سے اس پر کوئی خاص احتجاج سامنے نہیں آیا۔ عالم عرب میں شام نے اس دورے کو مراکش کی غداری قرار دیا اور مراکش سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ اس کےعلاوہ الجزائر، لیبیا اور عراق نے صرف اس پر تنقید کرنے پر اکتفا کیا جبکہ اردن اور سعودی عرب نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

اگرچہ اس دورے میں کیے جانے والے مذاکرات میں کسی بھی چیز پر اتفاق نہیں ہوا پھر بھی اس دورے کو ایک کامیاب دورہ تصور کیا گیا کیونکہ دورے کا اصل مقصد اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے عمل کو آگے بڑھانا تھا اور مقامی اور عالمِ اسلام کی سطح پر دیے جانے والے رد عمل کو دیکھتے ہوئے یہ دورہ اسرائیل کے لیے کافی امید افزا ثابت ہوا۔

اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کا مراکش کا دورہ

۱۳ ستمبر ۱۹۹۳ء کو واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی (PLO) کے درمیان اوسلو اوّل معاہدہ طے پایا جس میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کیا، اور مغربی کنارے کے کچھ حصوں اور غزہ کو ملا کر ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق ہوا۔ اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے ’معتدل‘ عرب ریاستوں کی حمایت کی کوشش شروع کی اور اس سلسلے میں سب سے پہلے امریکہ سے یروشلم واپسی پر مراکش کا دورہ کیا۔ اس دورے میں وزیر اعظم اسحاق رابین کے ساتھ وزیر خارجہ شمعون پریز بھی شامل تھا۔

شاہ حسن ثانی نے اسحاق رابین کا گرم جوشی سے استقبال کیا، اسے عبرانی زبان میں نئے یہودی سال کی مبارکباد دی اور اسے وہ تمام پروٹوکول دیے جو کسی بھی ملک کے سربراہ کے سرکاری دورے پر اسے دیے جاتے ہیں اور اس طرح اشارہ دیا کہ اب مراکش کھل کر اسرائیل سے تعامل کر سکتا ہے۔اس دورے کے دوران اسرائیلی وفد نے کاسابلانکا میں ایک سیناگاگ(یہودی عبادت گاہ) کا اور پھر جامعہ مسجد حسن ثانی کا بھی دورہ کیا۔ یہ دورہ بہت محدود وقت کے لیے تھا۔ چند گھنٹے قیام کے بعد یہ وفد اسرائیل روانہ ہو گیا۔16Rabin Makes Surprise Visit to Morocco: Diplomacy: Israeli officials say recognition is virtually certain in wake of symbolic meeting with King Hassan, by Michael Parks, 15 September 1993 – Los Angeles Times اسرائیل واپس پہنچنے کے بعد اسحاق رابین نے اپنے دو مشیر شاہ حسن ثانی سے ملاقات کے لیے مراکش روانہ کیے، جس کا مقصد شاہ حسن ثانی کو اوسلو معاہدے کی تازہ صورتحال سے آگاہ کرنا تھا کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ سکیورٹی انتظامات کے معاملے میں اختلاف پیدا ہو گیا تھا اور اسرائیل شاہ حسن ثانی کی حمایت حاصل کرنا چاہتا تھا۔

وفد سے ملاقات میں شاہ حسن ثانی نے فلسطینی اتھارٹی کے رہنما یاسر عرفات پر سخت تنقید کی اور کہا کہ اس کی محمود عباس سے ملاقات ہوئی تھی اور محمود عباس یاسر عرفات سے شدید خائف تھا۔ شاہ حسن ثانی کے بقول محمود عباس نے اسے کہا:

’’اسرائیلیوں کا مؤقف درست ہے اور ہمارا غلط ہے۔ عرفات ایسی پوزیشن سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جیسے یہ ایک ’فلسطینی ریاست‘ ہے، جبکہ ہم، جو اس کے قریبی ہیں، اسے واضح طور پر بتاتے ہیں کہ یہ صرف ایک عبوری مرحلہ ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، بنیادی مسئلہ راہداریوں کا ہے۔ اور اس معاملے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیلیوں کا مؤقف درست ہے۔ جس کے پاس بھی راہداریوں کا کنٹرول ہو گا اس کے پاس سکیورٹی کا کنٹرول ہو گا۔ جو کوئی راہداری سے داخل ہوتا ہے وہ گویا تل ابیب میں داخل ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘

پھر شاہ حسن ثانی نے کہا کہ ’’عرفات ان سب کے لیے ایک آمر ہے اور وہ کسی بھی پیش رفت کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص شدید دماغی خلل کا شکار اور خود پسند بن چکا ہے۔ وہ ہر وقت دوسروں پر چیختا ہے۔ اس نے اپنے تمام وفاداروں، حنان اشراوی، فیصل حسینی، حیدر عبد الشافی اور محمود عباس، کو خود سے دور کر دیا ہے‘‘۔ اس نے مزید کہا کہ ’’عرفات کو پی ایل او سے الگ کرنا چاہیے‘‘ اور یہ کہ ’’اسحاق رابین اور عرفات کے درمیان ملاقات مقررہ وقت پر نہیں ہونی چاہیے، اس معاملے کو تھوڑا کھینچیں، اس پر دباؤ ڈالیں، بغیر (پی ایل او) سے تعلقات خراب کیے‘‘۔ شاہ حسن ثانی نے یہ بھی کہا کہ اگر اسرائیل چاہے تو وہ (شاہ حسن ثانی) یاسر عرفات کے ’’کان کھینچنے‘‘ کے لیے اپنا پیغام رساں بھیج سکتا ہے۔

اس کے بعد شاہ حسن ثانی نے وفد کی ملاقات محمود عباس سے کروائی۔ اس ملاقات میں شاہ حسن سمیت مراکش کا کوئی بھی نمائندہ موجود نہیں تھا، اسرائیلی وفد نے محمود عباس سے اکیلے میں ملاقات کی۔ محمود عباس نے شاہ حسن کی بتائی گئی باتوں کی تصدیق کی اور یاسر عرفات کے اقدامات سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے کو غلط انداز میں سمجھا ہے۔ محمود عباس نے مزید کہا کہ یاسر عرفات نے اسے اوسلو جانے کا کہا ہے لیکن وہ نہیں جائے گا کیونکہ اس کے پاس مکمل اختیار نہیں ہے۔ وہ پس پردہ رہ کر کام کرے گا۔ اس نے مزید کہا کہ اسحاق رابین اور یاسر عرفات کے درمیان ابھی ملاقات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اوسلو معاہدے کے بعد سے کچھ سکون کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔ اگر تناؤ کی صورتحال پیدا ہو جائے تو یاسر عرفات پر دباؤ پڑ سکتا ہے اور اسرائیل اس سے اپنے مطالبات منوا سکتا ہے۔17An Israeli Official’s Meeting with Moroccan King Hassan II in 1993 by Col (ret.) Dr. Jacques Neriah – Jerusalem Center for Security and Foreign Affairs

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا معاشی سربراہی اجلاس (MENA Summit)

اوسلو معاہدے کے بعد جب اکتوبر ۱۹۹۴ء میں اسرائیل اور اردن کے درمیان بھی امن معاہدہ ہو گیا تو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہ حسن ثانی نے امریکہ اور روس کے تعاون سے ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۴ء کو مراکش کے شہر کاسابلانکا میں ایک سربراہی اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں امریکہ، روس، اسرائیل، اردن، مصر، تیونس، مراکش سمیت ۶۱ ممالک سے آنے والے دو ہزار سے زائد نمائندوں نے شرکت کی، جن میں امریکی صدر بل کلنٹن، اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین، اور فلسطینی اتھارٹی کے رہنما یاسر عرفات بھی شامل تھے۔

اس سربراہی اجلاس کو ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ اسرائیلی اور عرب راہنما کسی عوامی فورم پر اکٹھے ہوئے تھے۔ اس اجلاس کا مقصد اوسلو معاہدے اور اردن اسرائیل امن معاہدے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسرائیل اور دیگر مسلم ممالک کے درمیان معاشی تعلقات کو فروغ دینا تھا۔18Casablanca Declaration – Mideast/North Africa Economic Summit, Ministry of Foreign Affairs, Government of Israel

اسرائیل کے قیام سے ہی عرب لیگ نے اپنے رکن ممالک پر اسرائیل سے براہ راست تجارتی تعلقات قائم کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی اور ۱۹۵۰ء کی دہائی میں عرب لیگ نے یہ پابندی بڑھاتے ہوئے ان تمام کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی شامل کر دیا تھا جو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتی ہیں۔ اس سربراہی اجلاس میں یہ موضوع بھی زیر بحث رہا اور خلیج تعاون تنظیم کے ممالک بحرین، کویت، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اجلاس کے آغاز سے قبل ہی ان کمپنیوں کا بائیکاٹ ختم کر دیا جو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتی ہیں۔19GCC announces end to boycott of Israel – Middle East business intelligence سربراہی اجلاس کے اختتام پر ۱۹۹۵ء میں عمان میں اگلا سربراہی اجلاس منعقد کرنا طے پایا۔

مراکش اور اسرائیل کے درمیان جزوی سفارتی تعلقات کا آغاز

اس سربراہی اجلاس کے اختتام پر مراکش اور اسرائیل جزوی سفارتی تعلقات قائم کرنے پر متفق ہو گئے۔20Israel and Morocco Take Fledgling Step Toward Diplomatic Relations, by Clyde Haberman, 2 September 1994 – The New York Times مراکش نے اپنا سفارتی رابطہ دفتر یروشلم میں کھولا جسے کچھ عرصے بعد تل ابیب منتقل کر دیا گیا جبکہ اسرائیل نے اپنا سفارتی رابطہ دفتر رباط میں کھول لیا۔ ان دفاتر کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سیاحت اور ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ تھا۔ مصر اور اردن کے بعد مراکش تیسرا ملک تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ کسی درجے میں سفارتی تعلقات قائم کیے۔ مراکش کے کچھ ہی عرصہ بعد قطر اور تیونس نے بھی اسرائیل کے ساتھ جزوی سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ ان دفاتر کے قیام کی وجہ سے مراکش اور اسرائیل کے اعلیٰ سطحی وفود آزادانہ طور پر ایک دوسرے کے ممالک میں آنے جانے لگے۔ ان سفارتی تعلقات کے نتیجے میں ۱۹۹۹ء تک مراکش میں اسرائیلی سیاحوں کی تعداد پچاس ہزار سالانہ تک پہنچ گئی جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات پانچ کروڑ ڈالر سالانہ تک پہنچ گئے۔21Morocco, Israel: 6 decades of secret ties, cooperation, by Ahmed bin Taher, 20 December, 2020 – Anadolu Agency Turkey

شام اور لبنان کے علاوہ کسی اسلامی ملک نے مراکش کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی مخالفت نہیں کی۔

۲۲ جولائی ۱۹۹۹ء کو شاہ حسن ثانی کی نمونیہ کی وجہ سے موت واقع ہو گئی۔ اس کے جنازے میں پوری دنیا سے سربراہان مملکت اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی جن میں اسرائیل سے وزیر اعظم ایہود بارک، سابق وزیر اعظم شمعون پیریز اور وزیر خارجہ ڈیوڈ لیوی بھی شامل تھے۔

شاہ محمد ششم (۱۹۹۹ء تا حال)

شاہ حسن ثانی کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے شاہ محمد ششم نے مراکش کا اقتدار سنبھالا اور اسرائیل کے حوالے سے اپنے باپ کی پالیسیوں کو ہی جاری رکھا۔

دوسرا انتفاضہ اور سفارتی تعلقات کا خاتمہ

جولائی ۲۰۰۰ء میں امریکہ میں کیمپ ڈیوڈ سربراہی اجلاس ہوا جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہونا تھا۔ لیکن یہ مذاکرات ناکام ہو گئے اور اجلاس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا۔ اس کی وجہ سے بیت المقدس اور اسرائیلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر فلسطینی مظاہرین نے احتجاج شروع کیا جس پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے کھلی فائرنگ کر کے سو سے زائد مظاہرین کو شہید کر دیا۔اسی عرصے میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے مسجد اقصیٰ کا دورہ کیا جس نے فلسطینیوں کو مشتعل کر دیا یہ واقعات دوسرے انتفاضہ کا نقطۂ آغاز بن گئے۔22The Second Intafada: Background and Causes of the Israeli-Palestinian Conflict by Jeremy Pressman, 21 February 2006 – Journal of Conflict Studies فلسطینی مسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اضافے نے ان تمام مسلم ممالک کو، جو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کی طرف بڑھ رہے تھے، اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی لانے بلکہ ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔ مراکش بھی ان ممالک میں شامل تھا۔ مقامی اور عالمِ عرب کے دباؤ کی وجہ سے مراکش نے اسرائیل کے ساتھ جزوی سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔ مراکش میں اسرائیلی سفارتی رابطہ دفتر اور تل ابیب میں مراکش کا سفارتی رابطہ دفتر بند کر دیا گیا۔23Morocco’s envoy arrives in Israel to reopen Liaison office, 9 February 2021 – The Times of Israel

سفارتی تعلقات ختم ہونے کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان غیر رسمی تعلقات جاری رہے۔ اسرائیلی سیاحوں کو مراکش کا سفر کرنے کی مکمل اجازت تھی۔ ۲۰۰۰ء کے بعد کے عرصے میں اوسطاً پچاس ہزار سیاح سالانہ مراکش کا سفر کرتے تھے۔24Israel, Morocco agree to normalize relations in US-broked deal, 18 December, 2020 – Al Jazeera اس کے علاوہ اس عرصے میں مراکش اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ اور سکیورٹی کے شعبوں میں تعاون بھی جاری رہا۔

ایران اور لبنانی حزب اللہ کے خلاف تعاون

ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد سے مراکش اور ایران کے تعلقات کبھی بھی دوستانہ نہیں رہے۔ ۱۹۸۱ء میں ایران نے مراکش سے تمام سفارتی تعلقات اس وقت منقطع کر لیے جب شاہ حسن ثانی نے جلا وطن کیے گئے شاہ رضا پہلوی کو مراکش میں پناہ دی۔ اس کی ایک دہائی کے بعد سفارتی تعلقات بحال کر دیے گئے۔25Moroccan Premier ends visit to Iran – BBC News پھر مارچ ۲۰۰۹ء میں مراکش نے ایران کے ساتھ تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بیان دیا کہ ایران کو بحرین پر حقِ تسلط حاصل ہے۔26Morocco cuts ties with Iran over Bahrain – Reuters ۲۰۱۴ء میں سفارتی تعلقات پھر بحال کر دیے گئے لیکن ۲۰۱۸ء میں مراکش نے پھر سے تعلقات یہ کہتے ہوئے منقطع کر دیے کہ ایران اور لبنانی حزب اللہ الجزائر کی مدد سے مغربی صحرائے کبریٰ میں علیحدگی پسند تحریک پولیساریو فرنٹ کو تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ یہ تعلقات تاحال بحال نہیں ہوئے۔

اس طرح ایران اور حزب اللہ کے اسرائیل اور مراکش کے مشترکہ دشمن ہونے کی وجہ سے اور الجزائر کے مراکش کے پرانے حریف ہونے اور ایران اور حزب اللہ کے ساتھ مبینہ تعاون کی وجہ سے مراکش اور اسرائیل کے درمیان ان ممالک کے خلاف انٹیلی جنس تعاون مستقل جاری رہا۔27Morocco security officials: ‘Iran, Hezbollah undermining stability with Algeria’s help’, Middle East Monitor

اسرائیل مراکش ’نارملائزیشن‘

مئی ۲۰۱۹ء میں اس وقت کےامریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر نے ابراہیمی معاہدوں کے لیے زمین ہموار کرنے کی خاطر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا دورہ شروع کیا جس کے تحت اس نے مراکش کا بھی دورہ کیا۔ کشنر کی شاہ محمد ششم سے ملاقات کے دوران شاہ نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ’نارملائز‘ کرنے کے لیے شرط رکھی کہ اگر امریکہ مغربی صحرائے کبریٰ پر مراکش کا حقِ تسلط تسلیم کر لیتا ہے تو اس کے بدلے مراکشی عوام کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارملائز کرنے پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے بھی مراکش کے اس مطالبے کی حمایت کی اور امریکہ پر زور دیا کہ وہ اس مطالبے کو تسلیم کرے۔ لیکن جیرڈ کشنر نے فوری طور پر یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا اور پھر یہ معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا کیونکہ ٹرمپ کا قومی سلامتی کا مشیر جان بولٹن اور بعض سینیٹر مراکش کےاس مطالبے کے مخالف تھے۔28Inhofe slams Trump administration on Western Sahara policy, 6 February, 2021 – Politico

اس حوالے سے مذاکرات دو سال تک جاری رہے جبکہ ۲۰۲۰ء میں ان میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ دسمبر ۲۰۲۰ء میں معاہدے کو ابراہمی معاہدوں کے ایک حصے کے طور پر حتمی شکل دے دی گئی۔ ۱۰ دسمبر ۲۰۲۰ء کو ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ کی جانب سے مغربی صحرائے کبریٰ پر مراکش کے حقِ تسلط کو تسلیم کرنے کے بدلے مراکش اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر رہا ہے۔

۲۲ دسمبر ۲۰۲۰ء کو رباط میں اسرائیلی اور مراکشی حکام کے درمیان نارملائزیشن کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ اس طرح مراکش باضابطہ طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا چھٹا عرب ملک بن گیا۔

اس معاہدے کے تحت آغاز میں مراکش اور اسرائیل نے اپنے سفارتی رابطہ دفاتر کو دوبارہ فعال کرنا تھا، پھر بتدریج دونوں ملکوں میں سفارت خانے قائم کیے جانے تھے۔ اس کے بدلے میں امریکہ نے مغربی صحرائے کبریٰ پر مراکش کے حقِ تسلط کا دعویٰ قبول کر لیا اور مغربی صحرائے کبریٰ کو مراکش کی ملکیت قرار دے دیا۔29Morocco, Israel normalize ties as US recognizes Western Sahara, 16 March 2021 – The Jerusalem Post

واضح رہے کہ امریکہ گزشتہ تیس سال سے مغربی صحرائے کبریٰ کے مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کروانے کو کہتا آیا تھا، اور صرف اسرائیل اور مراکش کے تعلقات کی بحالی کی خاطر امریکہ اپنے تیس سالہ مؤقف سے پیچھے ہٹ گیا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مراکش اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا نارملائزیشن معاہدہ کرتے وقت شاہ محمد ششم کے تحت ایک اسلامی جمہوری پارٹی ’’حزب العدالۃ والتنمیۃ‘‘ (Justice and Development Party) کے وزیر اعظم سعد الدین عثمانی کی حکومت تھی جو حکومت میں آنے سے قبل مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر سخت تنقید کرتی تھی اور ان تعلقات کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی تھی۔30Morocco: Ruling party okays Israel normalization deal, 24 December 2024 – Anadolu Agency Turkey

اس نارملائزیشن سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا۔ ۲۰۲۳ء تک دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ۱۱ کروڑ ۶۷ لاکھ ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی تھی۔ اس کے علاوہ سائبر سکیورٹی اور دفاع کے شعبوں میں بھی مزید معاہدے کیے گئے اور اب اسرائیل مراکش کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل مراکش تعلقات

طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی جنگ کے دوران اگرچہ مراکش میں عوام کی جانب سے سخت احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن مراکش حکومت نے واضح اعلان کیا کہ ۲۰۰۰ء میں دوسرے انتفاضہ کے وقت کے برخلاف اب مراکش اسرائیل سے اپنے تعلقات کسی صورت بھی منقطع نہیں کرے گا۔

تعلقات ختم کرنا تو دور کی بات اس عرصے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کہیں زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ۲۰۲۴ء کی پہلی ششماہی میں دونوں ملکوں کے درمیان پانچ کروڑ ۳۲ لاکھ ڈالر کی تجارت ہوئی جو کہ گزشتہ برس کی نسبت ۶۴ فیصد زیادہ تھی۔ ۲۰۲۴ء میں ہی اسرائیل نے مراکش کے اندر ایک ڈرون بنانے والی فیکٹری کا افتتاح کیا۔ اسی سال مراکش نے اسرائیل سے ایک ارب ڈالر کی مالیت کا جاسوسی سیٹلائٹ ایران کی جاسوسی کے لیے خریدا۔31How the Gaza war brought Morocco and Israel closer by Sarah Zaaimi, 21 January 2025 – Atlantic Council

غزہ جنگ میں مراکش کی طرف سے اسرائیل کو براہ راست مدد

صرف یہی نہیں کہ غزہ میں جاری جنگ کے دوران مراکش نے اسرائیل کے ساتھ باہمی مفادات جاری رکھے بلکہ مراکش نے غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی براہ راست مدد بھی کی۔ اس جنگ کے دوران اسرائیل کو جانے والے تمام اسلحے کے بحری جہازوں کو مراکش کی بندر گاہوں پر سہولت فراہم کی جا تی رہی ہے جو کہ اب تک جاری ہے ان میں وہ بحری جہاز بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے F-35 لڑاکا جیٹ طیاروں کے پرزے لے کر جا تے ہیں۔32Fuelling the ‘machinery of genocide’: Morocco’s backdoor support for Israel’s war on Gaza by Caroline Dupuy, 1 July 2025 – Middle East Eye

گولانی بریگیڈ جو کہ غزہ کی حالیہ جنگ میں نہتے شہریوں، عورتوں، بچوں اور بڑی تعداد میں طبی عملے کو ہدف بنا کر شہید کرنے کے حوالے سے بدنام ہے،اس بریگیڈ کے سپاہیوں نے مئی ۲۰۲۵ء میں مراکش میں ہونے والی فوجی مشقوں African Lion 2025” میں شرکت کی۔ جہاں ’شہری جنگ‘، ’غیر روایتی جنگ‘، اور ’زیر زمین سرنگوں میں آپریشنز‘ کے لیے مشقیں کروائی گئیں۔ بالفاظِ دیگر مراکش اسرائیلی فوجیوں کو غزہ میں اپنے مظالم اور نسل کشی کو زیادہ بہتر انداز میں جاری رکھنے کے لیے تربیت حاصل کرنے میں سہولت فراہم کر رہا ہے۔33Golani Brigade in Morocco: How the Rabat Regime is Complicit in Gaza Genocide by Robert Inlakesh, 28 May 2025 – The Palestine Chronicle

واضح رہے کہ ان مشقوں میں شامل چالیس ممالک میں اسرائیل کے علاوہ مصر، لیبیا، موریطانیہ، مراکش، تیونس، متحدہ عرب امارات، الجزائر، قطر اور ترکی بھی شامل تھے۔34African Lion 25: Largest U.S.-led military exercise in Africa begins in four nations, 10 April 2025 – Military Africa

اختتامیہ

مراکش کی قبلۂ اوّل سے خیانت کی یہ داستان دل دہلا دینے والی ہے۔ شاہ حسین ثانی ہو یا شاہ محمد ششم، مراکش کے یہ حکمران ہمیشہ سے اپنے مفادات کے لیے فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگتے آ رہے ہیں۔ ڈالروں کے عوض مراکشی یہودیوں کو اسرائیل ہجرت کروانے، عرب لیگ کے اجلاس کی جاسوسی کر کے اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں جتوا کر فلسطینی اور مسلم علاقوں کو اسرائیل کے قبضے میں دینے، مصر کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر قائل کرنے، فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیلی مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے، اور اسلامی ممالک کے خلاف اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ کرنے سے لے کر آج غزہ میں جاری نسل کشی کے لیے اسلحے اور فوجی تربیت کے لیے سہولت کاری کرنے تک، مراکش کے ان حکمرانوں نے بارہا ثابت کیا ہے کہ ان کے لیے اقتدار اور دولت مظلوموں کی پکار اور مسجدِ اقصیٰ کی حرمت سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ آج جب غزہ میں مظلوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا خون بہہ رہا ہے، جب وہ بمباری اور بھوک سے اپنی جانیں دے رہے ہیں، مراکش کی بندر گاہیں اور تربیتی میدان اس ظلم کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ یہ صرف ایک ملک کی خیانت کی نہیں بلکہ پوری امت کی بے حسی کی داستان ہے۔ اس پر مزید منافقت یہ کہ یہی خائن آج تک خود کو مسجد اقصیٰ کے پاسبان اورفلسطینی مسلمانوں کے حقوق کے علمبردار کہتے ہیں۔ یہ عالم اسلام کے حکمرانوں کی سب سے بڑی منافقت ہے کہ جنہوں نے مسجد اقصیٰ کے ساتھ سب سے بڑی خیانت کی (اردن اور مراکش) انہیں ہی مسجد اقصیٰ کے پاسبان ہونے کا درجہ حاصل ہے۔

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اس خیانت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں؟ کیا فلسطین کا درد ہمارا درد نہیں؟ آئیں اس سیاہ تاریخ کو پلٹ دینے کا عزم کریں، ان خائنین کو اور ان کے آقاؤں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا عزم کریں۔

کیونکہ خیانت کے مقابل یہ خاموشی اور بے عملی بذاتِ خود ایک خیانت ہے!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version