وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

بھوک،ایک ایسی قطعی حقیقت ہے کہ جس کا تجربہ ہر ذی روح کو ہے۔ یہ بڑی ظالم شے ہے اور انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا دینے کا ایک بڑا محرک بھی بن سکتی ہے۔ حدیث میں اس سے پناہ مانگی گئی ہے اور اسے بہت برا ہم نشین قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اگر نگاہ بلند ہو تو بلند کردار انسان اس بھوک کا سامنا پامردی سے کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں اس کی شدت تکلیف نہیں دیتی یا انہیں اپنے پیاروں کے مرجھائے ہوئے چہروں کی پروا نہیں ہوتی، مگر ان کے سامنے ایک بلند مقصد سر اٹھا کر کھڑا ہوتا ہے جو ان کے قدموں کو رکنے نہیں دیتا۔ ان کو متحرک رکھنے والی چیز ان کے رب کی رضا اور اس رضا کے نتیجے میں ملنے والا دائمی امن و آسودگی ہے۔ اسلام کے اس سنہرے دور میں، جب نبوت کا سورج اپنی روشن کرنیں ہر جانب بکھیر رہا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود بھوکے رہ کر یا کم درجے کی چیز پر گزارا کرکے اپنے کافر قیدیوں کو پیٹ بھر کر بہتر سے بہتر میسر خوراک مہیا کرتے تھے۔ پھر انہی صحابہ کرام نے کئی کئی غزوات و سرایا کے لیے سفر بھوکے پیٹ کیے۔ نبی کریم ﷺ نے خود غزوۂ خندق کے دوران بھوک کی شدت سے دو دو پتھر پیٹ پر باندھے۔ کیوں؟ کیونکہ انہیں اللہ کے وعدوں پر یقین تھا،ان وعدوں پر کہ جن پر کفار نے آپ کو طنز کا نشانہ بنایا کہ کھانے کو کچھ ہے نہیں، بھوک سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں اور بشارت دے رہے ہیں قیصر و کسری کے محل فتح کرنے کی۔ اور دنیا نے جاگتی آنکھوں سے اللہ کے وعدوں کو چند سالوں کے اندر اندر پورا ہوتے پایا۔ آج اہل غزہ اپنے پیارے نبی اور ا ن کے مانند نجوم صحابہ کی سنت زندہ کررہے ہیں۔ کٹ رہے ہیں، مر رہے ہیں، بھوک سے نڈھال ہیں، اپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے ایڑیاں رگڑتے دیکھنے پر مجبور ہیں مگر باذن اللہ ثابت قدم ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ انہیں اللہ کے وعدوں پر یقین ہے۔ کیا ان کے لیے اس آزمائش سے گزرنا آسان ہے جو دو سال سے اپنی پوری شدت کے ساتھ ان پر مسلط ہے؟ نہیں! ہم ان کے عزم و استقلال اور صبر و ہمت کی داد دیتے ہیں مگر کیا یہ داد ان کی دادرسی کے لیے کافی ہے؟ وہ دادرسی جو ہم پر واجب ہے!۔ ایک معصوم بچی نے کہا Stop romanticizing Gaza، غزہ کی حقیقت کو مسخ کرنا بند کردو، اہل غزہ کے حالات کو ایک دیومالائی غیر حقیقی داستان کی طرح پیش کرنا بند کردو۔ حقیقت ہے کہ ہمارا یہی حال ہے کہ ہم ان کے صبر و ثبات کی شان میں قلابے ملاتے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جس آزمائش سے گزر رہے ہیں وہ حقیقی ہے، خیالی نہیں اور اس آزمائش میں انہیں تعریف و توصیف کی نہیں بلکہ حقیقی اور فوری مدد کی ضرورت ہے، اور یہ مدد ان پر امت کا احسان نہیں کہ کریں تو احسان اور نہ کریں تو کوئی مواخذہ نہیں…… بلکہ اہل غزہ کی یہ مدد امت پر واجب ہے۔ آج زمین کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ہر ٹکڑے کا ایک الگ حاکم بن بیٹھا ہے اور وہ اپنے اوپر ان لوگوں کی خدمت بھی واجب نہیں سمجھتا جن پر وہ حاکم بنا بیٹھا ہے کجا کہ اس کے پڑوس میں بنیادی انسانی ضروریات کے لیے ترستے بلکتے کروڑوں لوگ ہوں اور وہ ان کی پروا کرے۔ عوام کی پروا کا خاصہ تو خاصانِ خدا میں ہی ہوتا ہے کہ فرات کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوکا مرجائے تو وہ اس کی جوابدہی کی فکر کریں۔دنیا میں کوئی جوابدہ ہو یا نہ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ اہل غزہ کے قتل میں پوری امت کا ہر وہ فرد شریک ہے جو کچھ کرنے کی استطاعت رکھتا تھا مگر اس نے نہ کیا اور اس کے لیے وہ اپنے رب کے سامنے اس روز جوابدہ ہوگا جب اہل غزہ اس کا گریبان پکڑ کر سوال کریں گے کہ ہمارے بچے بھوک سے مررہے تھے تو تم کہاں تھے۔

غزہ سینے میں سلگتا وہ زخم ہے جو ہر لمحہ تڑپاتا ہے لہٰذا نوک زبان پر کوئی بات آتی ہی نہیں مگر غزہ کا ذکر کیے بغیر۔ اگست کا مہینہ ہے، اہل اسلام سے منسوب دو پڑوسی ممالک کی آزادی دہائیوں کے فرق سے اسی مہینے کے ایک ہی عشرے میں عمل میں آئی۔ ایک پر شریعت حاکم ہے اور دوسرے پر جرنیلییت۔ جہاں شریعت حاکم ہے وہاں نصف صدی کی جنگ اور مغربی پابندیوں کے صدقے غربت اور پسماندگی ہے مگر وہ مادی صورت حال ہے، یہ قوم ذہنی پسماندگی اور غیر کی نقالی اور مغرب سے مرعوبیت کے امراض میں مبتلا نہیں۔ اس پر جو حکمران ہیں ان پر ان کے عوام کا اطمینان ہے کہ وہ چور نہیں ہیں، منافع خور نہیں ہیں، کرپٹ نہیں ہیں اور وہ ان کے خیر خواہ ہیں۔ وہ تنگی اور کشادگی ہر حالت میں ان کے ساتھ ہیں۔ عوام کو یقین ہے کہ وہ عوام کے مال پر شاہانہ زندگیاں بسر نہیں کرتے اور نہ ہی مشکلات دیکھ کر عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ کر مغربی ممالک کا رخ کرنے والے ہیں۔ اور جہاں جرنیلیت غالب ہے وہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ مقصد و منشا صرف اور صرف اپنے پیٹ، اپنے بینک اکاؤنٹ بھرنا اور حاکمیت جتانا ہے۔ انسانی جان کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں ہے الا یہ کہ وہ جرنیلوں کے منظور نظر کی ہو یا فوج کی گڈ بک میں موجود سیاست دانوں ، صنعت کاروں، بیوروکریٹ وغیرہ کی ہو۔ رہ گئے عوام تو وہ تو کسی کھاتے شمار میں ہی نہیں ہیں کیونکہ وہ تو صرف اعداد و شمار ہیں جن کی ضرورت ووٹوں کی گنتی کے وقت پڑتی ہے۔ رہ گئی معیشت تو ملکی معیشت کا گراف نیچے سے نیچے، عوام کی معاشی حالت خط غربت کے قریب یا اس سے بھی نیچے اور حکمران طبقے اور فوج کی معیشت کا گراف دن دوگنی و رات چوگنی ترقی دکھا رہا ہے۔ ایک ایسا ملک کہ جسے اللہ رب العزت نے بیش بہا وسائل سے نوازا ہے، اگر درست ڈگر پر چلایا جائے تو امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے مگر اس کے اخلاقی انحطاط کا حال یہ ہے کہ اس کی ایک بیٹی پردیس میں جرم ناکردہ کی سزا بھگت رہی ہے، ہر طرح کا تشدد اور اذیت برداشت کررہی ہے اور اس ملک کے حکمران کہتے ہیں کہ جو جرم کرے گا وہ سزا بھگتے گا! اگر یہی اصول ہے تو سب سے پہلے انہی حکمرانوں اور فوجی قیادت کا گریبان پکڑ کر کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے کہ ان سے بڑھ کر مجرم اس ملک میں اور کون ہے۔ چور یہ ہیں، غاصب یہ ہیں، قاتل یہ ہیں، دین دشمن یہ ہیں اور ملک و ملت و عزت فروش بھی یہی ہیں، پس سب سے پہلے پھر انہی کو اپنے اعمال کی سزا بھگتنی چاہیے۔

۱۹۷۱ء میں پاکستان دولخت ہوا۔ ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ اقلیت اکثریت سے جدا ہوتی ہے مگر پاکستان کے معاملے میں اکثریت اقلیت سے جدا ہوئی اس ظلم و ناانصافی کی وجہ سے جو ان کے ساتھ روا رکھی گئی۔ وہی ظلم اور وہی ناانصافی آج بلوچستان کے عوام سہہ رہے ہیں ۔ پاکستان اپنی غلط پالیسیوں اور مفاد کی سیاست کی بنا پر بلوچستان کو اپنا دشمن تو بنا ہی چکا ہے مگر حالات نہ سدھارے گئے تو بعید نہیں کہ پاکستان کو اپنے اس بازو سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین، خواہ وہ لاپتہ افراد مجاہدین ہوں، اسلام سے محبت رکھنے والے ہوں یا قوم پرست بلوچ و دیگر، نہ زندوں میں ہیں نہ مردوں میں۔ سالہا سال سے اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے اسلام آباد کی سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ یہی خاک چھانتے چھانتے معصوم بچے جوان ہو گئے مگر ان کے باپوں کی کوئی خیر خبر نہ ملی۔ بوڑھے ماں باپ اپنے بیٹوں کی خبر پانے کی امید لیے لیے ہی قبر کو جاپہنچے اور بیویاں سالہا سال سے بیواؤں اور بچے یتیموں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ ریاست کہ جس کی رٹ بات بات پر چیلنج ہوجاتی ہے، کیا اس ریاست کے کچھ فرائض بھی ہیں؟ اس ریاست کے مجاور صرف اپنے دامن بھرنے کے لیے ہی مجاوری کرتے ہیں، کسی کی ضرورت و حاجت پوری ہو نہ ہو انہیں پروا نہیں ہے۔

ایک طرف غزہ ہے کہ جہاں اس قدر مشکل حالات میں بھی لوگ انسانیت سے عاری نہیں ہوئے۔ وہ نہتے ہاتھوں سے بغیر کسی مشینری کے ملبے تلے دبے انسانوں کو نکالنے اور بچانے کی کوشش کرتے ہیں اس حال میں کہ جو ملبے تلے دبے ہیں وہ بھی بھوک سے بے تاب ہیں، جو انہیں نکال رہے ہیں وہ بھی بھوکے ہیں، جو ان کی خبر دے رہے ہیں وہ بھی بھوکے ہیں ، جو انہیں ہسپتال لے جا رہے ہیں وہ بھی بھوکے ہیں اور جو ان کا علاج کررہے ہیں وہ بھی بھوکے ہیں اور جو انہیں دفنا رہےہیں وہ بھی بھوکے ہیں،مگر پھر بھی ان کے اندر انسانیت زندہ ہے اور وہ ملبے تلے دبے بلیوں اور کتوں تک کو نکالنے کے لیے وقت اور محنت صرف کرتے ہیں اور ایک جانور کی جان بچا کر بھی تسکین پاتے ہیں۔دوسری طرف یہ جرنیلیت زدہ ملک ہے جس میں بلڈی سویلین کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ تمام تر وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دسیوں انسان سیلاب کی نذر ہوجاتے ہیں اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انسان کی زندگی اس قدر ارزاں ہوگئی اور نفسا نفسی اس قدر غالب ہوگئی کہ لوگوں کو مرے مہینوں گزر جاتے ہیں اور پڑوسیوں کو خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوسی زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگست کا مہینہ اہل پاکستان کے لیے جشن کا مہینہ نہیں ہے،کس بات کا جشن منائے کوئی؟ کیا پایا ہے قریباً اسّی سالہ زندگی میں اس کے عوام نے؟ ہاں البتہ اسے سود و زیاں کے حساب کا مہینہ بنا لیا جائے تو کچھ فائدہ ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ قریباً اسّی سالہ تاریخ پاکستان زیاں ہی زیاں سے عبارت ہے، پاکستان کا مطلب کیا آج وہ سوال ہے جو اس کے ایک ایک شہری کے لب وذہن میں گونج رہا ہے۔ گر پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہوتا تو پاکستان اسی کی تفسیر ہوتا۔ لا الہ الا اللہ کی رسی تھام کر وہ چلتا تو آج امت کی سیادت اس کے ہاتھ میں ہوتی مگر اس نے اللہ سے بڑھ کر مضبوط سہارے ڈھونڈنا چاہے، نتیجتاً وہ اللہ کی مدد و نصرت سے محروم کردیا گیا اور اس پر وہ طبقہ مسلط کردیا گیا جس کا اللہ اور اس کےرسول سے دور دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اس قوم و ملک کی فلاح کا ضامن آج بھی لا الہ الا اللہ ہے، خواہ وہ فرد کی زندگی میں ہو یا معاشرے و قوم کی۔ یہی لا الہ الا اللہ نجات کی کنجی ہے، کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟

٭٭٭٭٭

Exit mobile version