اونچے اونچے پہاڑوں کے عین وسط میں واقع وادیٔ کشمیر امت کا ایک ایسا عظیم محاذ ہے جہاں ۱۹۴۷ء سے آج تک کفار کے خلاف جہاد مسلسل جاری ہے۔
ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جہاد بلاشبہ جاری ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے کوئی ثمرات دکھائی نہیں دیتے، اس کے برعکس، کفار کا قبضہ روز بروز مضبوط ہوتا چلا گیا، اور ہم بس خاموش تماشائی بنے رہ گئے۔
کشمیر کا جہاد کوئی نئی تحریک نہیں، اگر ڈوگروں کے خلاف تحریک کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تقریباً ۹۰ سال سے جاری ہے، لیکن اس طویل جدوجہد کا حاصل بظاہر کچھ نظر نہیں آتا۔
جب بھی جہادِ کشمیر کے بارے میں سوچتا ہوں تو ریحان خان بھائی کے الفاظ اکثر یاد آتے ہیں:
’’میرے محترم بھائیو! جس طرح نماز ایک عبادت ہے، روزہ رکھنا ایک عبادت ہے، زکاۃ دینا ایک عبادت ہے اور حج کرنا ایک عبادت ہے، اسی طرح جہاد بھی ایک عبادت ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین عمل جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ جس طرح نماز، روزہ، زکاۃ اور حج کا طریقہ اور شرائط واضح ہیں، اسی طرح جہاد کا طریقہ اور شرائط واضح ہیں، جس طرح نماز کا قبلہ واضح ہے اسی طرح جہاد کا بھی قبلہ واضح ہے۔ اگر نماز کا قبلہ اور طریقہ صحیح ہو تو یہ عبادت ہے اور اگر نماز کا قبلہ بدل دیا جائے اور طریقہ بدل دیا جائے تو یہ نماز نہیں بلکہ اللہ سے بغاوت ہے۔ شریعت کا نعرہ انسانی باطل نظاموں کو مسترد کرتا ہے اور خالقِ حقیقی کے حکم کو تسلیم کرتا ہے، بے شک اللہ رب العزت کا نظام انسانوں کے لیے عدل کا نظام ہے اس نظام میں تمام مسلمانوں کے لیے سچائی کا راستہ ہے۔ میرے محترم بھائیو! ہمارا جہاد ہر سمت واضح ہونا چاہیے، اس جہاد کا قبلہ اور طریقہ واضح ہونا چاہیے۔ میرے محترم مجاہدین بھائیو! ہم آپ کے لیے ہمیشہ دعا کرتے ہیں، ہم آپ کو دین حق کے راستے میں اپنا بھائی سمجھتے ہیں، ہمارے دلوں میں آپ کے لیے کوئی رنجش یا کوئی بغض نہیں، ہمارے دلوں میں لیکن ہر لمحہ ہر گھڑی ایک فکر اور غم ضرور ہے کہ ہماری عبادت صحیح ہو، ہمارا جہاد صحیح ہو اور خاص کر ہمارا جہاد محفوظ ہو۔‘‘
ریحان خان بھائی نے جو الفاظ فرمائے تھے، ان میں انہوں نے جہاد کی روحانی اور ایمانی حیثیت کو انتہائی خوبصورتی سے واضح کیا ہے، ان کی بات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جہاد، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی طرح ہی ایک عظیم عبادت ہے، اور اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہترین عمل ہے۔
ریحان خان بھائی کی باتوں کی روشنی میں، یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ جہاد کا عبادت ہونے کے لیے اس کا مقصد اور طریقہ کار انتہائی واضح، خالصتاً شرعی، اور اللہ کی رضا کے عین مطابق ہونا چاہیے۔
اگر کسی جدوجہد کا ’’قبلہ‘‘ (مقصد) یا ’’طریق‘‘ (اصول) اس راستے سے ہٹ جائے جو اللہ نے دین کی سربلندی اور عدل کے قیام کے لیے مقرر کیا ہے، یا وہ کسی ملکی یا سیاسی مقصد مثلاً کسی ریاست سے الحاق، کے حصول کے لیے اپنے حقیقی روحانی مقاصد سے منحرف ہو جائے تو وہ حقیقی جہاد کے زمرے میں نہیں آتا جسے اللہ کی عبادت سمجھا جاتا ہے۔
ایسی صورت میں، یہ جدوجہد اپنے بنیادی شرعی مقاصد سے ہٹ کر محض ایک سیاسی یا زمینی جدوجہد بن جاتی ہے، اور اس کا وہ مقام نہیں رہتا جو ’’اللہ کے نزدیک سب سے بہترین عمل‘‘ کا ہے۔
لہٰذا، جہاد کی روح کو برقرار رکھنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس کی سمت، اس کا مقصد اور اس کا طریقہ کار ہر لحاظ سے اللہ کے دین اور شریعت کے مطابق ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جہادِ کشمیر نے کئی دوراندیش قائدین اور بے شمار مخلص مجاہد دیکھے ہیں، چاہے وہ غازی بابا ہوں، برہان وانی ہوں یا ذاکر موسیٰ ین، سب ایک ہی جذبے کے مالک تھے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں لڑنے والا ہر مجاہد خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے نکلا تھا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی تنظیم سے کیوں نہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم لاکھوں قربانیاں دے کر بھی آج کیوں کفار کے شکنجے میں مزید سختی سے جکڑے ہوئے ہیں؟ دہائیوں سے جاری اس جہاد کے ثمرات کیوں نہیں مل رہے؟ اتنے مخلصین کی شہادت کے باوجود ہم کیوں سرخرو نہیں ہوتے؟
جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دانش و بصیرت کا حامل ہو، اس کے ذہن میں یہی سوالات اٹھتے ہیں، اس کی نظر ایک طرف ہندو مشرکوں کی طرف اٹھتی ہے اور دوسری طرف اس منافق کی طرف جو اسلام کے لبادے میں چھپ کر منافقت کا ارتکاب کر رہا ہے، اور ستم ظریفی یہ کہ کچھ اپنے اپنے مفادات کی خاطر اس منافقت کو برداشت کرتے رہے ہیں اور اگر کبھی کسی نے اس منافقت کے سیاہ چہرے سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی، تو اس پر بہتان لگائے گئے کہ وہ دشمن کا ایجنٹ ہے، اور پھر اُسے شہید کروا دیا گیا، کبھی زہر دے کر، کبھی تحفے دے کر، اور کبھی کسی کی معلومات دشمن کو دے کر۔
آج، جہادِ کشمیر ایک نہایت کٹھن، بلکہ شاید اپنی تاریخ کے سب سے نازک موڑ سے گزر رہا ہے، ان پرآشوب حالات میں، داعیانِ جہاد پر، یعنی اس پکار کو بلند کرنے والوں اور اس مشن کے پرچم برداروں پر ایک انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کی دعوت نہایت واضح اور دو ٹوک ہونی چاہیے۔ یہ وہی پکار ہو جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے خود متعین فرمائی ہے، اسے ہرگز ہرگز کسی بھی ملک کے عارضی سیاسی مفادات یا قوم پرستانہ خواہشات کے تابع نہیں ہونا چاہیے، اور نہ ہی اسے ان کے ہاتھوں کھیل بننے دیا جانا چاہیے، یہ جہاد تو صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔
حقیقی جہاد فی سبیل اللہ نہ تو علاقائی قبضے کے لیے ہوتا ہے، نہ قوم پرستی کے لیے، اور نہ ہی ذاتی شہرت، نام و نمود یا دنیاوی مال و دولت کے فریب زدہ حصول کے لیے، بلکہ یہ خالصتاً صرف اللہ کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کے الٰہی نظام کو قائم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آپ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مالِ غنیمت کے لیے، شہرت کے لیے یا دکھاوے کے لیے لڑتا ہے، ان میں سے کون اللہ کی راہ میں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے، بے شک، اللہ کی راہ میں صرف وہی ہے جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے لڑتا ہے۔
لہٰذا، یہ داعی حضرات پر لازم ہے کہ وہ یہ بات یاد رکھیں کہ کشمیر میں ہماری قربانیاں، صرف اور صرف اللہ کی واحدانیت اور اس کی رضا کے لیے ہے۔
جیسا کہ ہمارے عظیم پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا يُلدَغُ المؤمنُ من جُحرٍ واحدٍ مرتينِ
’’مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔‘‘
نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہمارے لیے سبق ہے اور آگے کا لائحۂ عمل بھی۔ ہمارا یہ جہاد آج ایک نہایت اہم مرحلے پر کھڑا ہے، جہاں ہر قدم انتہائی سوچ سمجھ کر،حکمت اور دور اندیشی کے ساتھ اٹھانا ہوگا۔ ہمیں نہ صرف ہندو مشرکین کے غاصبانہ مظالم کے خلاف اس مبارک جہاد کو از سرِ نو مضبوط اور توانا کرنا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، اس ’امُّ الفَرائض‘ یعنی جہاد فی سبیل اللہ کو منافقین کے مکروہ شکنجے سے بچانا ہے۔
ہم ان غدار اور بے ایمان منافقین پر بھروسہ کر کے بہت کچھ گنوا چکے ہیں، بہت بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے جب بھی اپنی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسیوں اور علاقائی تسلط کے مکروہ عزائم میں مفاد دیکھا، ہمیں اسلحہ فراہم کیا، مگر جونہی انہیں ہندوستان سے دوستی میں اپنا فائدہ نظر آیا، تو بے رحمی سے ہماری سپلائی لائنیں کاٹ دی اور ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ ہمیں یوں تنہا کر دیا گیا، جیسے کسی معصوم بچے کو اس کے والدین نے بازار کے بیچ یہ تسلی دے کر چھوڑ دیا ہو کہ ’ہم بس ابھی آئے‘ مگر وہ بچہ اس ہجوم اور شورش میں کچھ سمجھ نہ پایا، بھٹکتا رہا، اور بالآخر شکاریوں کی نظر ہو گیا۔ اور یہ المیہ صرف ایک واقعہ نہیں، بے شمار دلخراش واقعات ہیں جب انہوں نے ہمارے بھائیوں کی اطلاعات دشمنوں تک پہنچا کر انہیں شہید کروا دیا، صرف اس جرم کی پاداش میں کہ انہوں نے ان کی منافقت کو بے نقاب کرنے کی اور ان کے غدارانہ ارادوں پر سوال اٹھانے کی جرأت کی تھی۔
کیا یہ وہی نہیں جو اپنی فوج کے تکبر اور وقار کے تحفظ کے لیے فضاؤں پر حاوی ہوتے ہیں،اور کشمیری مسلمانوں کے قریب الوقوع صفایا کیے جانے کے منظر سے بے حس خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟ ایسی فوج یا حکومت سے ہم کس خیر کی توقع رکھ سکتے ہیں جو خود شریعت سے بغاوت کر چکی ہو؟
یہ وہی ہیں جو ’’غزوۂ ہند‘‘ کو، (جو کہ در حقیقت ان کے لیے صرف اپنی تصویر کو نکھارنے کا ایک طریقہ بن چکا ہے)، ٹرمپ کی ایک فون کال پر منسوخ کر دیتے ہیں۔ یہ حرکتیں منافقت کی بدترین مثال ہیں، جو ان کے بظاہر بلند بانگ دعوؤں کی حقیقت کو بے نقاب کر دیتی ہیں۔
اگر بابری مسجد کے انہدام کا مرتکب سزا یافتہ ہے، تو لال مسجد کے انہدام کے قصورواروں پر کیا حکم ہوگا؟ آپریشن سائلنس کے منصوبہ سازوں کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا؟ اس فوج کی سزا کیا ہو گی جس نے وزیرستان اور دیگر مسلم علاقوں کو بمباری کا نشانہ بنایا؟ اس فوج کے بارے میں کیا کہا جائے جو امریکیوں کو اپنے فضائی اڈے استعمال کرنے دیتی ہے اور جو مسلمانوں کے خلاف میں استعمال ہوتے ہیں؟
ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جنہوں نے قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بیچا، جنہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو امریکہ کے ہاتھ بیچا، جن میں سے بہت سے اب بھی قید میں ہیں؟
لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم پاکستان سے آنے والے مہاجر بھائیوں کے خلاف اپنی زبانیں دراز کریں۔
معزز و مکرم مہاجرین بھائیو!
میں آپ کی عظمت اور قربانیوں کی خاک کے برابر بھی نہیں،میرے اندر اتنی تدبیر یا جُرأت نہیں کہ آپ کی تقصیر یا اصلاح کے معاملات کی نشان دہی کر سکوں۔ بے شک ہم آپ کے احسان مند ہیں، آپ نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس جہاد کو زندہ رکھا ہے، آپ کی ماؤں اور بہنوں نے اپنی قیمتی متاع تک قربان کر دی تاکہ یہ مشعل فروزاں رہے۔ آپ اس راہ میں ہمارے رہنما و استاد ہیں، آپ کی موجودگی سے ہی اس جہاد کی بنیاد ہے، آپ اس جہاد کے احیاء کے دہندہ ہیں۔ میں اس ذاتِ باری تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں جس نے مجھے تخلیق فرمایا کہ میرا دل آپ کی محبت اور احترام سے سرشار ہے، اور میں آپ کی رہنمائی و عنایت کا طالب ہوں۔
آج ہم سب کشمیر کی موجودہ حالت سے بخوبی آگاہ ہیں۔آپ کے کندھوں پر ایک نہایت عظیم و سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اس بات سے یہ مراد نہیں کہ آپ اپنی جماعتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں، لیکن اصل اہمیت اس میں مضمر ہے کہ آپ آزاد جہاد کی لو اپنے سینوں میں فروزاں رکھیں اور اسے دوسروں کے قلوب میں بھی منتقل کریں۔ منافقین کے مکروہ حربوں سے اس کی حفاظت کے لیے آپ جانفشانی سے کام لیں، ابو دجانہ اور مفتی وقاص جیسے عظیم مجاہدین کے نقش قدم پر چلیں۔ ہماری اشک بار آنکھیں آپ کی راہ تک رہی ہیں، اور دل آپ کے دیدار کے لیے بے تاب ہیں، ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں، مگر اس حالت میں کہ آپ ان خفیہ اداروں کے شکنجے سے آزاد ہو چکے ہوں، جنہوں نے ہمیں اور آپ کو اغیار کے ہاتھوں فروخت کر ڈالا۔
اور یہاں کے مقامی مجاہدین بھائیوں سے بھی عاجزانہ التماس ہے، براہ کرم تاریخ کے اوراق سے ان اسباق کو کشید کریں جو ہم نے سیکھے ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ اپنی صفوں کو از سر نو منظم کریں اور خود کو ان غداروں کے شکنجوں میں جکڑنے سے بچائیں جو اپنی ذاتی اغراض کی خاطر آپ کو بیچ ڈالتے ہیں۔
خود سے سوال کریں:
- استاد المجاہدین شہید عادل میر المعروف غازی سرفراز کو زہر کیوں دیا گیا، جب وہاں ہندوستانی فوج کے مخبر کے روابط فاش کرنے والے تھے جو سرحد پار بیٹھے ایجنٹوں کے ساتھ ساز باز کر رہا تھا؟
- شہید برہان وانی کو وہ سیٹلائٹ فون کس نے تحفے میں دیا، جبکہ یہ سب جانتے تھے کہ اس کے ذریعے ان کا سراغ لگانا ممکن ہے؟
- امیر شہید ذاکر موسیٰ کے قافلے پر اتنے سنگین الزامات کیوں لگائے گئے؟ انہیں غدار اور ایجنٹ جیسے القابات سے کیوں نوازا گیا؟
یقیناً آپ کے دل ان سوالات کا جواب ضرور دیں گے۔
تو اِدھر اُدھر کی نہ بات کر،
یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں،
تیری رہبری کا سوال ہے
دل غم سے بوجھل ہے اور آنکھیں اشکبار ہیں، میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ اس تحریر میں موجود خیر آپ کے دلوں کو چھو جائے، اور اگر اس میں مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو تو اللہ مجھے معاف فرمائے۔
میں اس وادی کی حالت زار دیکھتا ہوں تو میرا سینہ دکھ سے بھر جاتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مجھے شہداء و قیدیوں کی قربانیاں اور ان کے اہل خانہ کی حالت زار یاد آتی ہے۔ میں گڑگڑا کر آپ سب سے التجا کرتا ہوں کہ ان کے خاندانوں کی مدد کریں، وہ مصیبت میں ہیں، جس قدر ہو سکے ان کی مدد کریں۔
اس گنہگار کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، کچھ باتیں دل میں ہی رہ جاتی ہیں، باقی پھر کبھی۔
٭٭٭٭٭