نبیﷺ کا راز کی حفاظت پر صحابہ کی تربیت کرنا
اس موضوع میں احادیث کثرت کے ساتھ ہیں جن کا عمومی طور پر تمام مسلمانوں کو اور خصوصی طور پر مجاہدین کو اہتمام کرنا چاہیے۔ یہاں میں اللہ کی حمد کے ساتھ کچھ عملی مثالیں ذکر کرتا ہوں جو کہ نبی ﷺ کے غزوات و سرایا سے مستنبط ہیں تاکہ مجاہدین( اللہ ان کی حفاظت فرمائے) یہ جان لیں کہ اللہ کے نبی ﷺ کیسے عسکری اعمال میں راز داری کا اہتما م فرمایا کرتے تھے۔ پس اس میں عمل کرنے والے کے لیے نصیحت ہے۔
اکثر جنگوں میں نبی ﷺ نے راز کی حفاظت کا بہت ہی اہتمام فرمایا یہاں تک کہ آپ نے اپنے ساتھ ہمیشہ رہنے والے اصحاب کو بھی ان کی خبر نہ دی سوائے غزوہ تبوک کے، کیونکہ اس میں مشقت بہت زیادہ تھی جو بہت زیادہ تیاری و سامان کی محتاج تھی۔ اس لیے بھی کہ تبوک سے خبریں پہنچنا مشکل تھا جبکہ غزوہ خندق کے بارے میں نبی ﷺ کو اپنے مکہ میں موجود جاسوسوں کی ذریعے پہلے سے مشرکین اور عرب قبائل کی نیتوں کا علم تھا۔ مسلمانوں نے مدینہ کے ارد گرد خندق کھودی اور جب مشرکین وہاں پہنچے تو اس نئی چال سے بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ایسی چال چلنا عرب کی عادات میں سے نہیں!
یہ واقعہ نبی ﷺ کی کامیاب انٹیلی جنس کی دلیل ہے جس میں آپ ﷺ نے نہ صرف قبل از وقت دشمن کی نیتوں کا پتہ چلا لیا بلکہ آپ نے اس راز کو چھپائے رکھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کے چھپانے کی تعلیم دی۔ باجود اس کے کہ اس خندق کو کھودنے میں بیس دن صرف ہوئے اور یہودیوں اور قریش کے لیے کافی وقت تھا کہ وہ اسے جان جاتے!
اسی طرح نبی ﷺ نے ہجرت کے دوسرے ہی سال ”رازداری“ کے اصول پر عمل درآمد شروع کر دیا جب آپ ﷺ اپنے اصحاب کی معیت میں نکلے اور جونہی بدر کے میدان کے قریب پہنچے تو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ وہ اپنے اونٹوں کے گلوں کی گھنٹیاں کاٹ دیں تاکہ ان کی آواز سے کوئی انہیں پہچان نہ لے۔
جیسے کہ آپ ﷺ نے عبد اللہ بن جحش الاسدی کی قیادت میں بارہ مہاجرین کا لشکر روانہ فرمایا اور انہیں علاقے کی معلومات لینے کا کام سونپا۔ یہ سریہ اپنے ہدف کی جانب بڑھا اور ان کے ساتھ نبی ﷺ کا ایک بند خط تھا اور آپ ﷺ نے حکم فرمایا تھا کہ اس خط کو نہ کھولا جائے مگر دو یوم کے بعد! پس جب انہوں نے کھولا تو وہ اپنے لشکر کے کسی بھی فرد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔ اس رسالہ کا مضمون یہ تھا کہ:
’’جب تم میرے اس خط کو دیکھو تو سیدھا چلتے جانا یہاں تک کہ ”نخلہ“ تک پہنچ جاؤ (جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے) اور قریش کی خبریں لینے کے لیے بیٹھ جاؤ اور ان کی خبریں حاصل کرو!‘‘
پس مسلمانوں کے بیس کیمپ مدینہ منورہ سے عبد اللہ بن جحش لشکر لے کر چلے اور اپنے ساتھیوں کو آپ کے خط کی اطلاع دی اور انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے ہر ایک کو بغیر کراہت ان کے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ پس ان میں سے ایک بھی آدمی پیچھے نہ رہا اور وہ سب اس امر کی تنفیذ کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ یہاں ایک ملاحظہ و اشارہ ہے جس کا ذکر کرنا اور سیرت کے اس گہرے سبق پر توقف کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں۔ کیا ہمارے عسکری اعمال کی تنفیذ اور خصوصا ً جہادی اعمال اسی شکل میں انجام پاتے ہیں جیسے عبد اللہ بن جحش الاسدی نے اپنے کام کی تکمیل کی؟
اس کا جواب ہم مجاہد بھائیوں پر چھوڑتے ہیں۔
جنابِ رسول اللہﷺ نے خطوط و رسائل کی حفاظت و رازداری کا بہت ہی اہتمام کیا اور یہ اس لیے تھا تاکہ دشمن مسلمانوں کے اعمال کے متعلق کوئی بھی معلومات حاصل نہ کر سکے۔ اسی لیے آپ ﷺ دشمن اور دوست سے اپنی نیتوں کو مکمل مخفی رکھتے تھے۔ پس مسلمان باریک بینی سے رازداری اور اس کی حفاظت کے اس اسلوب میں پہل کرنے والوں میں سے ہیں۔ جبکہ جرمنی نے اس اسلوب کو بہت بعد میں دوسری جنگِ عظیم۱۹۴۵–۱۹۳۹ میں استعمال کیا۔1جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنے خطوط و پیغامات کی رازداری و حفاظت کے لیے ’انیگما مشین‘ (Enigma Machine) کا استعمال کیا تھا۔ یہ ایک پیچیدہ انکرپشن کا آلہ تھا جو پیغامات کو خفیہ کوڈ میں تبدیل کرتا تھا۔ انیگما مشین کو اس وقت کی جدید ترین انکرپشن کے طریقوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، اور اسے جرمن فوج، بحریہ اور دیگر اداروں نے مواصلات کو خفیہ رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ (ادارہ)
اسی طرح صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بنی اسد کے ساتھ غزوہ میں بھی ”چھپانے اور رازداری“ کے بہت سے اسباق ہیں جب آپ ﷺ نے انہیں رات کے وقت چلنے اور دن کو چھپ جانے اور عام رستے سے ہٹ کر چلنے کا حکم دیا تاکہ ان کی خبروں اور نیتوں کے بارے میں کوئی بھی جان نہ سکے۔ تو انہوں نے بنی اسد پر اچانک ایسے وقت میں حملہ کیا جس میں وہ حملہ کی توقع نہ کر سکتے تھے۔ اس میں انہیں بہت سی غنیمت بھی حاصل ہوئی۔ پھر اسی طریقہ کو نبی ﷺ نے دومۃ الجندل کے غزوہ میں استعمال فرمایا جس سے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
اسی طرح غزوۂ احزاب( خندق) میں نبی ﷺ نے نعیم بن مسعود کے اسلام قبول کرنے کو چھپایا اور انہیں بھی چھپانے کا حکم دیا اور فرمایا ”کہ تو ایک ہی آدمی ہے پس ہماری طرف سے کافروں کو ذلیل کر، کہ جنگ دھوکے سے عبارت ہے“، تو نعیم نے لشکروں کے درمیان تفریق ڈال دی اور ان کا اعتماد ختم کر دیا۔
آپ ﷺ کی راز داری میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ جب بھی غزوہ کا ارادہ فرماتے تو اس کے علاوہ کسی اور بات کا اظہار فرماتے۔ اسی طرح آپ نے غزوہ بنی لحیان میں یہ ظاہر کیا کہ آپ شام کی طرف جانا چاہتے ہیں لیکن پھر آپ ﷺ نے جنوب کی طرف رخ پھیر لیا اور انہیں اچانک جا لیا۔
نبی ﷺ نے ذی الحجہ، محرم، صفر اور ربیع کے دونوں مہینوں میں قیام فرمایا اور جمادی الاولیٰ میں آپ بنو لحیان کی طرف نکلے (فتح بنی قریظہ کے چھ ماہ بعد) اور ان سے آپ نے ”اصحابِ الرجیع“ کو طلب کیا،.خبیب بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو رضوان اللہ علیہم، آپ ﷺ نے ظاہر کیا کہ آپ شام کی طرف جا رہے ہیں تاکہ قوم کو اچانک جا لیں۔ آپ ﷺ مدینہ سے نکلے اور غراب (ایک پہاڑ ہے جو مدینہ کی جانب ہے )کے رستے پر ہولیے جو کہ شام کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ پھر محیص کی طرف پھر البتراء پھر صفق اور پھر آپ ﷺ بائیں جانب مڑے اور آپ مدینہ کے قریب ایک وادی کی طرف ہولیے پھر یمام کے ٹیلوں کے طرف ہو گئے۔ پھر آپ سیدھے مکہ کے رستے کی طرف ہو گئے یہاں تک کہ آپ غران میں اترے اور یہ بنی لحیان کا علاقہ تھا۔
اسی طرح فتح مکہ المکرمہ: یہ ایک بہت بڑی مہم تھی یہاں تک کہ نبی ﷺ کی بیوی ام المومنین سیدہ صدیقہ عائشہ مطہرة اور ان کے والد ابوبکر کو بھی معلوم نہ تھا کہ آپ ﷺ کا کدھر کا ارادہ ہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے سب کو خبر دی جس سے باقی سارے لشکر نے تیاری شروع کر دی کہ جنگ قریش کے ساتھ ہے۔
اسی طرح ابولبابہ کے نبی ﷺ کا راز افشا کرنے کے قصہ میں ہے کہ جب ابولبابہ بنوقریظہ گئے تاکہ وہ نبی ﷺ کے حکم پر راضی ہو جائیں اور اس میں ان کی معاقبت کا بیان ہے اور راز کے چھپانے اور اس کے افشاء نہ کرنے کی اہمیت کا بیان ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورۃ الانفال: 27)
’’اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے بے وفائی نہ کرنا، اور نہ جانتے بوجھتے اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا۔ ‘‘
عبد اللہ بن ابی قتادہ اور الزہری کہتے ہیں کہ یہ آیت ابو لبابہ بن منذر کے بارے میں نازل ہوئی جب انہیں رسول اللہ ﷺ نے بنی قریظہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ اللہ کے رسول کا حکم ان پر جاری کروائیں تو یہودیوں نے ابو لبابہ سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے اشارہ دیتے ہوئے اپنے ہاتھ کو حلق پہ رکھا یعنی کہ” ذبح“ کا فیصلہ تو اس کے بعد ابولبابہ پریشان ہو گئے اور انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خیانت کا ارتکاب کیا ہے تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ ہر گز کسی چیز کا ذائقہ نہ چکھیں گے یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کی توبہ قبول فرما لے۔ پھر وہ سیدھے مسجد میں گئے اور اپنے آپ کو ایک ستون کے ساتھ باندھ لیا اور اس حال میں انہیں نو مسلسل دن گزر گئے یہاں تک نویں دن وہ بھوک سے غشی کھا کے گر گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں تو صحابہ ان کے پاس بشارتیں لے کر آئے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی ۔صحابہ نے چاہا کہ ان کی رسیاں کھول دیں تو ابو لبابہ نے قسم کھا کے کہا کہ انہیں صرف اللہ کے رسول ہی کھولیں گے۔ یہاں تک کہ آپ نے رسیاں کھولیں پھر وہ کہنے لگے یا رسول اللہ میں نے نذر مانی ہے کہ سارا مال صدقہ کر دوں تو آپ نے فرمایا تجھے یہی کافی ہے۔2تفسیر ابن کثیر، جلد ۳، صفحہ۳۳۳
یہ آپ کی سیرت سے چند ایک مثالیں ہیں وگرنہ آپ کی سیرتِ مبارکہ میں ایسے واقعات بہت ہیں جو راز کی اہمیت اور اس کے چھپانے پر شاہد ہیں۔
خلفائے رسول اللہ کا اور راز کی حفاظت
خلفائے رسول اللہ کی اپنے کمانڈروں کو کی جانے والی وصیتیں راز کی حفاظت کی اہمیت سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں سے اہم ترین ابو بکر کی وصیت یزید بن ابی سفیان کے لیے ہے جب آپ نے انہیں شام کی طرف روانہ فرمایا، اسی طرح آپ کی قائد جرنیل ِ اسلام خالد بن ولید کو اہل ردة سے قتال کے بارے میں وصیت اور امیر المومنین عمر بن الخطاب کی سیف الاسلام سعد بن ابی وقاص کو وصیت۔
اے میرے مجاہد بھائی اپنی جنگ میں رازوں کی حفاظت پر حریص رہو کیونکہ اس سے تم اللہ کے اذن کے ساتھ اپنی تدبیروں کو انجام تک پہنچانے کے قابل ہو جاؤ گے اور تم دشمن کی چال کا توڑ کر سکو گے۔ پس اپنی زبان کو ہر ما فی الضمیر کے بارے میں قابو میں رکھو جو تمہارے راز کو کھول دے اور اسے افشا کر دے۔ یہ بات یاد رکھو بعض اوقات بڑی خوش الحانی کے ساتھ رازوں کے قلعے ٹوٹ جاتے ہیں۔ کسی چھوٹے کے چھوٹے ہونے کی بنا پر اور کسی اجنبی کے اجنبی ہونے کی بنا پر تم راز نہ کھولو کہ کتنے ہی محفوظ راز ایسے ہیں جن کی دشمن اطلاع پا لیتے ہیں اور اسے پھیلا دیتے ہیں۔
امام المجاہد عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں:
’’اپنی زبان کی حفاظت کر کیونکہ زبان آدمی کو بہت تیزی سے قتل کرواتی ہے، یہ زبان دلوں کو پھیر دیتی ہے، اور آدمیوں کو عقل مندی کی راہیں دکھاتی ہے۔‘‘
جیسے کہ کہا جاتا ہے:
قلوب الابرار قبور الاسرار
’’نیک لوگوں کے دل رازوں کے قبرستان ہوا کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح کہا جاتا ہے کہ:
’’احمق کا دل اس کے منہ میں ہوتا ہے اور عقل مند کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے۔‘‘
کسی سے کہا گیا کہ راز کو کیسے چھپاتے ہو تو اس نے کہا:
’’میں اسے چھپاتا ہو ں اور اس بات کو چھپاتا ہوں کہ اسے کہاں چھپاؤں۔‘‘
اے میرے مجاہد بھائی! تم پر واجب ہے کہ اپنی جماعت کے رازوں اور اس کے اعمال کی پردہ داری کرو اور کوئی بھی چیز ان میں سے ظاہر نہ کرو۔ پس کافروں کو مومنوں کے راز دینا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
لاَّ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّهِ فِي شَيْءٍ (سورۃ آل عمران: 28)
’’مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یار و مددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
بعض حکماءکا قول ہے:
کفیٰ بالمرءخیانة ان یکون امینا للخونة
’’آدمی کے خائن ہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ وہ کسی خائن کا امین ہو۔‘‘
اور حکماء کہتے ہیں:
سرك من دمك
’’تمہارا راز تمہارے خون سے ہے۔‘‘
اس مضمون کو میں ”محمود شیت خطاب“ کے رازداری کے متعلق قول پر ختم کرتا ہوں۔ وہ کہتا ہے:
’’نبی ﷺ کا اپنے ارادوں کو چھپانا یہاں تک کہ اپنے قریبی لوگوں سے چھپانا، اسی طرح حرکت کے وقت کتمان یعنی چھپنے کا اہتمام کرنا اپنی لشکر کی تنظیم، اسلحہ اور تعداد کے بارے میں، پس یہی وہ اصل اسباب ہیں جو آپ ﷺ کی فتوحات کا واضح سبب ہیں۔‘‘3بحوالہ :دروس فی الکتمان
پس رازوں کو چھپانا فتح کے عظیم اسباب میں سے ہے اور رازوں کا افشاء کرنا شکست کے اسباب میں سے ہے!
آخر میں، میں اپنے آپ کو اور تمام مجاہد بھائیوں کو اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ رازوں کے پھیلانے کے کام سے اجتناب کریں۔ کثرت کے ساتھ ایسے امور کے متعلق سوالات نہ کریں جو ان کے لیے اہم نہیں ہیں اور نہ ہی دوسروں کو تنگی میں مبتلا کریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
منْ حُسنِ إسلامِ المرءِ تركُه ما لا يَعنيه4مشکوۃ شریف:جلد۴:حدیث ۷۷۷
’’آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر فضول کام کو چھوڑ دے جو اس سے متعلق نہیں۔‘‘
جب ہم یہ باتیں ذکر کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ نہیں کہ مجاہد بھائی جاسوس ہیں یا ان پر کوئی شبہ ہے بلکہ ہر وہ مجاہد جو صحابہ کے منہج کو علماً و عملاً اپنانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ ان امور کا اہتمام کرے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ راز کے آداب سے ناواقف ہو اور ہماری نقل کردہ باتیں اس کے علم میں اس سلوک کا اضافہ کر دیں ( واللہ اعلم )۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
- 1جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران اپنے خطوط و پیغامات کی رازداری و حفاظت کے لیے ’انیگما مشین‘ (Enigma Machine) کا استعمال کیا تھا۔ یہ ایک پیچیدہ انکرپشن کا آلہ تھا جو پیغامات کو خفیہ کوڈ میں تبدیل کرتا تھا۔ انیگما مشین کو اس وقت کی جدید ترین انکرپشن کے طریقوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، اور اسے جرمن فوج، بحریہ اور دیگر اداروں نے مواصلات کو خفیہ رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ (ادارہ)
- 2تفسیر ابن کثیر، جلد ۳، صفحہ۳۳۳
- 3بحوالہ :دروس فی الکتمان
- 4مشکوۃ شریف:جلد۴:حدیث ۷۷۷