صبر اور مقامِ صدّیقین | پہلی قسط

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ

فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ؁ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ؁ اُولٰىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ ؁1

وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطٰی وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُسَمًّی فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ صحیح البخاری: ۱/۱۲۵ (۱۲۸۵)، باب یعذب المیت ببکاء اھلہ علیہ، المکتبۃ المظھریۃ2

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اور اس کے مخاطب صحابہ بھی ہیں اور قیامت تک آنے والی امتِ مسلمہ بھی۔ تفسیر روح المعانی میں علامہ عالوسیؒ فرماتے ہیں کہ اوّل خطاب تو صحابہ سے ہے، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ میں ضمیر كُمْ حاضر کی ہے، مگر صحابہ کے واسطے سے قیامت تک کے ایمان والوں کو خطاب ہے کہ ہم ضرور ضرور تمہارا امتحان لیں گے۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ کے معنیٰ امتحان لینے کے ہیں، جیسا کہ سورۂ ملک میں فرمایا کہ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا3 اے انسانو! تم کو زندگی ہم نے اس لیے دی ہے تاکہ ہم تمہیں آزمائیں کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے اور زندگی کے بعد موت دیتا ہوں تاکہ تم واپس آکر مجھے اپنا حساب کتاب پیش کرو۔

ابتلاء و امتحان کا مفہوم

علامہ آلوسیؒ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ حقیقتِ امتحان، حقیقتِ ابتلا، حقیقتِ اختبار کا عام مفہوم تحصیلِ علم ہے کہ جس کا امتحان لیا جائے اس کے بارے میں علم حاصل کیا جائے کہ اس کے اندر کیا قابلیت ہے۔ جیسے مدرسوں کے ممتحن اور مہتمم اسی لیے امتحان لیتے ہیں کیونکہ ان کو خبر نہیں ہوتی کہ طالب علم میں کتنی قابلیت ہے، اس کو سبق یاد ہے یا نہیں اور یہ پاس ہوگا بھی یا نہیں۔ تو یہاں قابلیت کا علم حاصل کرنے کے لیے امتحان لیا جاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف اس مفہوم کی نسبت کرنا محال ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ! اللہ تعالیٰ یہ علم حاصل کرنے کے لیے امتحان لیتے ہیں کہ کون کس درجے کا صابر اور کس درجے کا وفادار ہے اور اللہ کے لیے محال ہے کہ وہ اپنے بندوں کی قابلیت سے بے خبر ہو کیونکہ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ4۔ وَهُوَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ5، وہ لطیف ہے، خبیر ہے، علیم ہے، ہمارے سینوں کے بھیدوں کو بھی جانتا ہے۔ لہٰذا یہاں امتحان کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اللہ ایمان والوں کی قابلیتِ صبر جاننے کے لیے امتحان لیتا ہے کیونکہ اللہ کو ہمارے امتحان کی کوئی ضرورت نہیں، وہ بغیر امتحان جانتا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے، ہماری طاقتِ دست و بازو سے وہ باخبر ہے، لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ کا لفظ امتحان اور ابتلا استعمال فرمانا تحصیلِ علم کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کو استعارۂ تمثیلیہ کہتے ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ ہم تو اپنے عاشقوں کے مقامات کو جانتے ہی ہیں کہ وہ ہر حال میں صابر اور میرے وفادار رہیں گے۔

عاشقانِ خدا کے امتحان کا مقصد

لیکن اس امتحان سے سارے عالَم کو دکھانا چاہتے ہیں، سارے عالَم میں اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی تاریخ سازی کرتے ہیں کہ میرے عاشق ایسے باوفا ہوتے ہیں کہ مصائب میں بھی مجھ کو نہیں بھولتے اور نعمتوں میں بھی مجھے فراموش نہیں کرتے لہٰذا یہاں امتحان سے تحصیلِ علم کا مفہوم محال ہے، یہ تو بندوں کے لیے ہے کیونکہ ہم تو محتاج ہیں، ہم امتحان کے ذریعے دوسروں کی قابلیت کا علم حاصل کرتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ امتحان سے بے نیاز ہے، وہ بغیر امتحان ہمیں خوب جانتا ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ ضرور ضرور ہم تمہارا امتحان لیں گے یعنی ان آزمائشوں سے، ان مجاہدات سے تمہیں گزاریں گے تاکہ سارے عالَم میں اے ایمان والو! تمہاری وفاداری کی تاریخ روشن ہو جائے اور تمہاری وفاداری بھی ہمارے فضل سے ہوگی، ہماری امداد سے ہوگی۔ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ6 جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر اللہ کی مدد کا محتاج ہے تو امت کہاں سے صبر لائے گی؟ ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ سے صبر مانگنا چاہیے۔

شرح حدیث اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا…الخ

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ صَبُوْرًا وَّاجْعَلْنِیْ شَکُوْرًا وَاجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا7

اے اللہ! مجھے بہت زیادہ صبر کرنے والا اور بہت زیادہ شکر کرنے والا بنا دیجیے اور میری نظر میں آپ مجھ کو چھوٹا دکھائیے اور مخلوق کی نظر میں آپ مجھ کو بڑا دکھائیے۔ میری نظر میں مجھ کو صغیر رکھیے لیکن بندوں کی نظر میں کبیر کر دیجیے تاکہ ہم جب کوئی دین بات پیش کریں تو وہ سرآنکھوں پر قبول کر لیں۔ اس لیے دین کے خادموں کو یہ دعا ضرور مانگنی چاہیے کیونکہ امت میں اگر ان کی عزت و منزلت نہیں ہوگی تو پھر ان کی بات کی اہمیت نہیں ہوگی لہٰذا جب مخلوق تعریف کرے تو شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرما لی کہ مخلوق میں ہمیں بڑا دکھا رہا ہے لیکن اپنے آپ کو بڑا سمجھنا حرام ہے، اس لیے روزانہ اللہ تعالیٰ سے کہو کہ اے اللہ! میں ساری دنیا کے مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال اور کافروں اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل کیونکہ ابھی معلوم نہیں کہ خاتمہ کس حال پر ہونا مقدر ہے۔

اللہ تعالیٰ کے امتحان کے منصوص پرچے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ ہم ضرور ضرور تمہارا امتحان لیں گے مگر امتحان جو ہوگا بہت ہلکا ہوگا۔ شَيْءٍ میں جو تنوین ہے وہ تقلیل کے لیے ہے، شَيْءٍ کے معنیٰ ہیں تھوڑا اور ب داخل کر دیا جس کے معنیٰ ہوئے کہ شَيْءٍ کا بھی کچھ جزو یعنی قلیل ترین بہت تھوڑا، بہت ہلکا پرچہ ہوگا لہٰذا زیادہ گھبراؤ مت، اور کس چیز میں امتحان ہوگا؟ آگے پرچۂ مضمون بھی بتا دیا۔ علامہ عالوسیؒ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اگر امتحان لینے والا سوالات کو پہلے ہی سے بتا دے تو بتائیے کہ کتنا آسان پرچہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے امتحان کے پرچوں کو بتا رہے ہیں کہ فلاں فلاں مضامین میں تمہارا امتحان ہوگا، اس لیے امتحان کے پرچوں سے آگاہ فرما دیا اور تفسیر روح المعانی میں ایک وجہ اور بیان فرمائی کہ مصیبت فجائیہ یعنی جو مصیبت اچانک آجاتی ہے وہ زیادہ محسوس ہوتی ہے اور اگر معلوم ہوجائے کہ یہ مصیبت آنے والی ہے تو اس کے لیے فیلڈ تیار ہو جاتی ہے، صبر آسان ہو جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے آگاہ فرما دیا کہ فلاں فلاں مصیبت تم لوگوں پر آئے گی اور ان ان مصائب میں تمہارا امتحان ہوگا۔ تو پہلے سے علم ہوجانے سے پرچہ اور آسان ہوگیا اور اسی لیے اکثر مریض کافی دن تک بیمار رکھے جاتے ہیں تاکہ اس کے متعلقین دھیرے دھیرے اس مصیبت کے لیے تیار ہو جائیں، جب دیکھتے ہیں کہ میرے ماں باپ یا قریبی عزیز چارپائی پر پیشاب پاخانہ کر رہے ہیں تو جن کی موت سے ڈر رہا تھا وہ خود ہی دعا مانگنے لگتا ہے کہ یا اللہ! میرے اماں ابا کو یا بیوی کو یا شوہر کو یہ تکلیف نہ دیجیے، اب تحمل نہیں کہ اگر اب زیادہ دن تک فالج رہے گا تو میرے ماں باپ کی کھالیں سڑ جائیں گی، زخمی ہو جائیں گی اور تمام بدن سڑ جائے گا۔ کروٹ نہ لینے سے بدن سڑ جاتا ہے، یہ حرکت جو ہے ہماری حفاظت ہے، جو ہم چلتے پھرتے رہتے ہیں، اگر ایک طرح لیٹے رہیں تو کھال زخمی ہونے لگتی ہے۔

تاثیر صحبتِ اہل اللہ

جیسے اصحابِ کہف کو اللہ نے سلا دیا اور تقریباً تین سو برس تک وہ سوتے رہے اور زندہ بھی رہے، اللہ نے ان پر صرف نیند طاری کردی تھی، جب ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچنے کے لیے وہ غار میں گئے، ایک کتا ان کے ساتھ جانے لگا، یہ اصحابِ کہف اس کو پتھر مار رہے تھے کہ تُو کہاں آرہا ہے منحوس! تجھ کو پالنا بھی جائز نہیں۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو زبان دے دی۔ اس نے کہا میں کتا تو ہوں لیکن مجھے عام کتوں کی طرح نہ سمجھیے، میں آپ کی حفاظت کروں گا۔ علامہ عالوسیؒ لکھتے ہیں کہ اس کا نام قِطْمِیْرْ ہے اور ان اولیاء اللہ کی برکت سے وہ بھی جنت میں جائے گا۔ علامہ عالوسیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کی صحبت کی تاثیر تو دیکھو کہ کتے جیسا نجس جانور جس کا لعاب دہن پیشاب کے برابر ناپاک، اس ناپاک کو بھی اللہ تعالیٰ پاک کرکے جنت میں بھیج دیں گے۔ یہ ہے صحبتِ اہل اللہ، جس کی بعض نادان اپنے تکبر کی وجہ سے حقارت بیان کرتے ہیں کہ اللہ والوں کی صحبت سے کچھ نہیں ہوتا۔ دیکھ لو اصحابِ کہف کو۔ قرآنِ پاک ناطق ہے اور اس منطوق کا، اس مفہوم کا جو میں نے پیش کیا کہ اصحابِ کہف کی برکت سے وہ کتا جنت میں جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصحابِ کہف میرے اولیاء تھے اور ان کو چونکہ کئی سو برس تک سلانا تھا تو ان کو کروٹ کون دیتا تھا؟ فرماتے ہیں وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ8 ہم خود اپنی رحمت سے ان کو دائیں بائیں کروٹ دیا کرتے تھے۔ جیسے ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے تاکہ زمین پر لگنے سے ان کی کھالیں زخمی نہ ہو جائیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم دیکھو۔ جو لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم اللہ والے ہو جائیں گے، اگر ہم داڑھی رکھ لیں گے، اگر ہم خاندان کی رسومات شادی بیاہ میں اور ناچ گانے میں شرکت نہیں کریں گے تو ہمیں کون پوچھے گا، ہم معاشرے سے کٹ جائیں گے، سوسائٹی ہمیں نہیں ہوچھے گی تو ہمارا کیا ہوگا؟ میں کہتا ہوں کہ وہی ہوگا جو اصحابِ کہف کے ساتھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائیں گے۔ وہ اپنے اولیاء کو دوسروں کے حوالے نہیں کر دیتے کہ جاؤ! تم ہمارے دوست تو ہو لیکن ہمیں تمہاری پروا نہیں ہے۔ آہ! اللہ تعالیٰ بہت پروا کرتے ہیں اور واہ واہ بھی دلاتے ہیں، ہر طرف عزت دیتے ہیں دنیا میں بھی آخرت میں بھی۔

اللہ تعالیٰ کے امتحان کا پہلا پرچہ

تو اللہ تعالیٰ امتحان سے آگاہ فرما رہے ہیں وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ تمہیں ضرور ضرور آزمائیں گے اور اس آزمائش اور امتحان کا پہلا پرچہ خوف ہے یعنی خوف میں ہم تمہارا امتحان لیں گے لیکن گھبرانا نہیں، یہ پرچہ بھی بہت آسان اور ہلکا ہوگا۔ بِشَيْءٍ کا استعمال میں تقلیل کے لیے ہے اور تنوین بھی تقلیل کے لیے اور مِنْ بھی تبعیضیہ ہے یعنی بہت ہی قلیل خوف سے تمہاری آزمائش ہوگی جو دشمنوں سے یا نزولِ حوادث یا مصائب کی وجہ سے پیش آئے گا۔ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں اَلْمُرَادُ بِالْخَوْفِ خَوْفُ الْعَدُوِّ9 خوف سے مراد دشمن کا خوف ہے۔

انبیاء علیہم السلام پر مصائب کی وجہ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِيْنَ10 ہر نبی کے لیے ہم نے دشمن بنایا، یہ جَعَلْ تکوینی ہے، انبیاء کی ترقیٔ درجات و تربیت کے لیے۔ پس جس کا کوئی دشمن نہ ہو سمجھ لو یہ شخص عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ نہیں ہے ورنہ اس کے بھی دشمن ہوتے، اگرچہ امتی کا پرچہ نبیوں سے آسان ہوتا ہے کیونکہ بڑے لوگوں کا امتحان بھی بڑا ہوتا ہے۔ اس لیے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جتنے مصائب مجھے دیے گئے کسی نبی کو ان مصائب سے نہیں گزارا گیا کیونکہ آپ سیّد الانبیاء تھے، لہٰذا

؏جن کے رتبے ہیں سِوا ان کو سِوا مشکل ہے

اسی طرح صحابہ کو دشمن کا خوف رہتا تھا۔ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ یہاں تک کہ بعض وقت کلیجے منہ کو آگئے۔ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِيْدًا11 اور سخت زلزلے میں ڈالے گئے، ان کو ہلا دیا گیا، لیکن پھر بھی وہ حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ12 کہتے تھے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ غرض وہ خوف میں مبتلا کیے گئے۔

اولیاء اللہ پر مصائب کی وجہ

بات یہ ہے کہ اللہ جس کو اپنا مقبول بناتا ہے، بڑے درجے کی عزت دیتا ہے تو اس کو ذرا خوف سے بھی گزارا جاتا ہے تاکہ اس کا دل مضبوط ہوجائے اور اتنا غم پہنچایا جائے کہ جب اس کو ساری دنیا میں عزت اور خوشی ملے تو اس کے سابقہ غم تکبر سے اس کی حفاظت کریں، اس کی عبدیت کا زاویہ قائمہ ۹۰ ڈگری قائم رہے، ایسا نہ ہو کہ چاروں طرف سے واہ واہ ہو تو اس کی آہ ختم ہوجائے۔ جس متبع سنت بندے کو اللہ تعالیٰ بڑا رتبہ دینا چاہتے ہیں اس کو اتنا غم دیتے ہیں کہ اس کی آہ نہ باہ سے ضائع ہوتی ہے نہ جاہ سے ضائع ہوتی ہے اور نہ واہ واہ سے ضائع ہوتی ہے۔ سارا عالَم اس کی تعریف کرے لیکن اس کی بندگی اور اس کی عاجزی، اس کی آہ وزاری، اس کی اشکباری ہمیشہ قائم اور تابندہ درخشندہ اور پائندہ رہتی ہے، اس لیے غم سے گھبرانا نہیں چاہیے، ایسے حالات سے اللہ تعالیٰ گزار دیتا ہے۔ دیکھ لو! صحابہ کو خطاب ہو رہا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ اور جنگِ بدر وغیرہ میں کیسے کیسے مصائب سے گزرے لیکن انبیاء کو جو مصائب دیے جاتے ہیں وہ ان کی بلندیٔ درجات کے لیے ہوتے ہیں۔ انبیاء کو عجب وکبر سے حفاظت کے لیے نہیں دیے جاتے کیونکہ نبی معصوم ہوتا ہے، اخلاقِ رذیلہ اس کے اندر پیدا ہی نہیں ہو سکتے، اس لیے انبیاء کے مصائب ان کی رفعتِ شان اور بلندیٔ درجات کے لیے ہوتے ہیں لیکن اولیاء اللہ کو خوف اور مصیبت جو پیش آتی ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ عجب و کبر سے ان کی حفاظت رہے۔

امتحان کا دوسرا پرچہ

اور خوف کے بعد دوسرے امتحان سے آگاہ فرما رہے ہیں وَالْجُوْعِ تمہارے امتحان کا دوسرا پرچہ بھوک ہے۔ علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں کہ یہاں بھوک سے مراد قحط ہے، اصل میں بھوک مسبب ہے، اس کا سبب قحط ہے لہٰذا اس کی تفسیر قحط سے کی کہ بارش نہیں ہوگی تو غلّہ کم ہو جائے گا اور روٹی نہیں ملے گی تو بھوک لگے گی تو یہ تسمیۃ السبب باسم المسبب ہے۔ اس کو بلاغت کے علم میں مجاز مرسل کہتے ہیں۔ اس نبی اُمّی کی زبان سے مجاز مرسل کا استعمال جس نے کبھی مکتب کا منہ نہ دیکھا ہو، نہ مختصر المعانی پڑھی ہو، نہ مجاز مرسل کا نام سنا ہو، یہ دلیل ہے کہ یہ نبی اپنی طرف سے کلام نہیں بناتا۔ بکریاں چرانے والا پیغمبر اپنی بلاغت سے تمام عالَم کو عاجز کر رہا ہے۔ اس اُمّی کی زبان سے ایسا فصیح و بلیغ کلام جاری ہونا خود دلیل ہے کہ یہ نبی کا کلام نہیں بلکہ سینۂ نبوت پر کلام اللہ نازل ہو رہا ہے اور کلام اللہ کوآپ کے قلب مبارک میں جمع کرنے اور آپ کی زبان مبارک سے پڑھوانے اور بیان کرانے کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی۔ جب قرآنِ مجید نازل ہوتا تھا تو آپ ڈر کی وجہ سے جلدی جلدی دہراتے تھے کہ کہیں بھول نہ جاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں آیت نازل فرمائی کہ اے نبی! نزولِ وحی کے وقت آپ جلدی جلدی دہرایا نہ کیجیے کیونکہ آپ کے قلب مبارک میں اس کا جمع کرا دینا اور آپ کی زبان مبارک سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ13 پھر لوگوں کے سامنے اس کا بیان کرا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا آپ کیوں گھبراتے ہیں۔

امتحان کا تیسرا پرچہ

تو امتحان کے دو پرچے ہوگئے۔ پہلا پرچہ خوف ہے اور دوسرا پرچہ بھوک اور تیسرا پرچہ ہے وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ اور کبھی کبھی تمہارے مال میں بھی نقصان ہوگا اور کس طرح سے ہوگا؟ کبھی تجارت میں گھاٹا ہوگا اور صاحبِ تفسیر روح المعانی لکھتے ہیں کہ کبھی باغات میں پھل نہیں آئیں گے۔ تو پھلوں کی کمی سے مال کی کمی ہو جائے گی۔

امتحان کا چوتھا پرچہ

اور چوتھا پرچہ ہے وَالْاَنْفُسِ اور کبھی کبھی تمہارے پیاروں کی ہم جان لے لیں گے یعنی ذَھَابُ الْاَحِبَّۃِ لِسَبَبِ الْقَتْلِ وَالْمَوْتِ14 کسی کا قتل ہوگا، کسی کو موت آئے گی، اس طرح اللہ کی طرف جانا ہوگا۔ موت چاہے قتل سے ہو یا طبعی ہو کبھی تمہارے پیارے اٹھائے جائیں گے تو اس میں بھی تمہارا امتحان ہوگا۔ علامہ عالوسیؒ فرماتے ہیں کہ پرچہ آؤٹ کرکے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا کہ یہ مصیبت اچانک نہیں ہوگی کیونکہ ہم تو پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ ان مضامین میں تمہارا امتحان ہوگا۔ اچانک مصیبت آنے والی ہو تو آدمی اس کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور پھر بتانے والا اللہ جہاں تخلّف نہیں ہو سکتا، جہاں جھوٹ کا امکان نہیں ہے۔

امتحان کا پانچواں پرچہ

اور پانچواں امتحان ہے وَالثَّمَرٰتِ اور کبھی اللہ تعالیٰ پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔ اس کی تفسیر بعضوں نے یہ بھی کی ہے کہ اس سے مراد اولاد کا انتقال ہے کہ اولاد ماں باپ کے لیے پھل ہوتے ہیں۔ بہرحال ظاہر تفسیر یہی ہے کہ باغات میں پھل نہیں آئیں گے۔

مصیبت اور لفظ بشارت کا ربط

کیوں صاحب! اگر مصیبتیں، بلائیں اور تکالیف بری چیز ہیں تو بری چیز پر بھی بشارت دی جاتی ہے؟ آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ اے محمدﷺ! آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجیے، خوشخبری سنا دیجیے۔ کسی کو تکلیف ہو اور آپ کہیں مبارک تو اس کو کس قدر غم ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمدﷺ! اس امتحان میں جب کوئی مبتلا ہو تو آپ بشارت دے دیجیے۔ کس کو بشارت دیجیے؟ صبر کرنے والوں کو۔ معلوم ہوا کہ مومن کے لیے مصیبت اگر بری چیز ہوتی تو یہاں اللہ تعالیٰ لفظ بشارت نازل نہ فرماتے اور بشارت دینے والا اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ہے اور جس کے ذریعے سے بشارت دلا رہے ہیں وہ رحمۃ للعالمین ہے یعنی سب سے بڑے پیارے نے مخلوق میں سب سے بڑے پیارے یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بشارت دلوائی ہے لہٰذا یہ بشارت بھی کتنی پیاری ہے۔ یہ بشارت دلیل ہے کہ یہ مصیبت زحمت نہیں رحمت ہے، نعمت ہے اور کوئی عظیم الشان چیز ملنے والی ہے جیسے کوئی کسی سے موٹر سائیکل چھین لے اور مرسڈیز دے دے تو بتائیے کیا یہ مصیبت ہے؟ پس مصیبت مومن کے لیے بری چیز نہیں ہے کیونکہ صبر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کو مل جاتے ہیں اور

؏متاعِ جانِ جاناں جان دینے پر بھی سستی ہے

پس صبر اتنی بڑی نعمت ہے جس پر معیتِ الٰہیہ کا انعامِ عظیم ملتا ہے۔

صبر کی تین قسمیں

اور صبر کے تین معنیٰ ہیں، سن لو:

مصیبت میں صبر کرنا

اَلصَّبْرُ فِیْ الْمُصِیْبَۃِ مصیبت میں صبر کرنا یعنی اللہ کی مرضی پر راضی رہے، دل سے شکایت اور اعتراض نہ کرے۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے، حج فرض ہے، زکوٰۃ فرض ہے، جہاد فرض ہے اتنا ہی اللہ کی مرضی پر راضی رہنا بھی فرض ہے جس کا نام رضا بالقضاء ہے۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا یہ صرف سنت اور مستحب اور واجب نہیں بلکہ فرض ہے کہ دل میں اعتراض نہ پیدا ہو اور دل سے شکایت نہ کرے گو آنکھیں اشکبار ہو جائیں۔ اشکبار ہونا اور غم کا اظہار کرنا یہ صبر اور رضا بالقضاء کے خلاف نہیں۔ میرا ایک شعر ہے ؎

حسرت سے میری آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں
دل ہے کہ اُن کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہے

بعض نادان کہتے ہیں کہ دیکھو! اتنے بڑے عالم ہو کر رو رہے ہیں۔ وہ نادانی سے سمجھتے ہیں کہ رونا خلافِ سنت ہے حالانکہ خلافِ سنت تو کیا ہوتا عین اتباعِ سنت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ صحابہ کے سوال پر آپ نے فرمایا کہ یہ دلیلِ رحمت ہے، یہ بے صبری نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ اپنے پیاروں کے انتقال پر رونا خلافِ صبر نہیں لہٰذا جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ گئے اس نے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ادا کی۔ بعض لوگوں نے ضبط کیا اور نہیں روئے، آہ بھی نہیں کی تو کیا ہوا کہ برداشت نہ کر سکے اور حرکتِ قلب بند ہوگئی لہٰذا اتباعِ سنت میں ہماری حیات ہے، ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔ اس لیے غم میں کچھ آہ کرلو، کچھ رو لو، کچھ مرنے والے کا تذکرہ بھی کر لو، یہ دلیلِ رحمت ہے، دلیلِ تعلق ہے اور اس سے دل ہلکا ہو جاتا ہے، یہ خلافِ صبر نہیں۔ بے صبری یہ ہے کہ اعتراض کرنے لگے یا زبان سے شکوہ کرے کہ میرے عزیز کو ابھی سے کیوں اٹھا لیا وغیرہ۔

طاعت پر صبر کرنا

اور صبر کی دوسری قسم کا نام ہے اَلصَّبْرُ عَلی الطَّاعَۃِ یعنی جو نیک اعمال کرتا ہے، دین کا جو کام کرتا ہے جیسے نماز، روزہ، ذکر و تلاوت سب پر قائم رہے۔ فرماں برداری و طاعت پر قائم رہنا بھی صبر ہے۔

گناہوں سے صبر کرنا

اور تیسری قسم ہے اَلصَّبْرُ عَنِ الْمَعْصِیَۃِ جب گناہ کا تقاضا ہو تو نفس کو گناہ سے روکنا اور نفس پر کنٹرول رکھنا اور اس گناہ سے رکنے میں دل پر جو غم اور دکھ آئے اس کو برداشت کرنا یہ صبر سب سے اعلیٰ ہے، یہ وہ صبر ہے جس سے انسان ولی اللہ بن جاتا ہے۔ جس کا دل گناہ کے لیے بے چین ہو رہا ہو، جو شخص گناہوں کے شدید تقاضے دل میں رکھتا ہو، اگر کوئی حسین شکل سامنے آجائے تو اسے دیکھنے کا شدید تقاضا ہوتا ہے مگر یہ تقاضے پر عمل نہیں کرتا اور چونکہ تقاضا شدید ہے، اس کی وجہ سے اس کے بچنے میں اس کو مجاہدہ شدید ہوگا اور جب مجاہدہ شدید ہوگا تو اس کو مشاہدہ بھی شدید ہوگا یعنی اللہ کی تجلی اس کے قلب پر قوی تر ہوگی۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)


1 البقرۃ: ۱۵۵۱۵۷

2 صحیح البخاری: ۱/۱۲۵ (۱۲۸۵)، باب یعذب المیت ببکاء اھلہ علیہ، المکتبۃ المظھریۃ

3 الملک: ۲

4 الملک: ۱۴

5 الحدید: ۶

6 النحل: ۱۲۷

7 مسند البزار: ۱۰/۳۱۵ (۴۴۳۹)، مکتبۃ العلوم والحکم، مدینۃ المنورۃ

8 الکھف: ۱۸

9 روح المعانی: ۲/۱۲۲ البقرۃ(۱۵۵)، مکتبۃ دار احیاء التراث، بیروت

10 الفرقان: ۳۱

11 الاحزاب: ۱۰۱۱

12 آل عمران: ۱۷۳

13 القیامۃ: ۱۹

14 روح المعانی: ۲/۱۲۲ البقرۃ(۱۵۵)، مکتبۃ دار احیاء التراث، بیروت

Exit mobile version