ایک بار پھر، ہماری قوم اخلاقیات کے دوراہے پر کھڑی ہے۔ پاکستانی حکام نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے ’’امیکس بریف‘‘1امیکس کیوریائی بریف (Amicus Curiae Brief) ایک قانونی دستاویز ہے جو کسی تیسرے فریق کی طرف سے عدالت میں پیش کی جاتی ہے، جو نہ تو مدعی ہوتا ہے اور نہ ہی مدعا علیہ، لیکن اس کیس میں دلچسپی رکھتا ہے یا اس میں کوئی اہم معلومات پیش کرنا چاہتا ہے۔ امیکس بریف کا مقصد عدالت کو اضافی معلومات، قانونی دلائل یا عوامی مفاد کے نقطۂ نظر سے آگاہ کرنا ہوتا ہے جو کیس کے فیصلے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ یہ اکثر اس وقت پیش کیا جاتا ہے جب کیس کے نتائج کا معاشرے یا کسی خاص طبقے پر بڑا اثر پڑ سکتا ہو۔ (ادارہ) (Amicus Brief) پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے، جو کہ ایک سادہ قانونی قدم ہے جو میری بہن، ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کے لیے انصاف کے حصول میں با معنی طور پر مؤثر ثابت ہو سکتا تھا۔ عافیہ کے ساتھ بار بار عوامی سطح پر اظہار یکجہتی کے باوجود اس انکار کو صرف انتظامی غفلت کہنا درست نہیں، یہ ایک سنگین اخلاقی ناکامی ہے۔ برسوں ہم نے پارلیمنٹیرینز، وزراء، اور حکومتی اہلکاروں کے جذباتی بیانات سنے ہیں جو فخر سے عافیہ کو ’’قوم کی بیٹی‘‘ کہتے رہے ہیں۔ مگر جب عملی قدم اٹھانے کا موقع آیا، یعنی صرف ایک قانونی دستاویز پر دستخط کر کے اْس کے حق میں آواز بلند کرنے کا، تو سب نے خاموشی اختیار کر لی۔ میں واضح کر دوں یہ خاموشی غیر جانبداری نہیں ہے، یہ جرم میں شراکت کے مترادف ہے۔
عرب اور جنوبی ایشیائی روایات کے مطابق ’’کسی قوم کی عزت، اْس کی عورتوں کی حرمت میں ہوتی ہے‘‘۔ ہر ثقافت، ہر مذہب، ہر دور میں عورت نہ صرف اپنی ذات کی نمائندہ رہی ہے بلکہ اپنے خاندان، اپنی قوم اور اپنی تہذیب کی بھی۔ تو اگر ہماری بیٹیاں اغوا کی جائیں، تشدد کا نشانہ بنیں، اور غیر ملکی جیلوں میں سڑتی رہیں، اور ہم کچھ نہ کریں، تو ہم بطور قوم کس اخلاقی مقام پر کھڑے ہیں؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حالیہ حکم، جس میں حکومت کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر اس کی بے عملی کی وضاحت نہ کی گئی تو توہین ِ عدالت ہو گی، ہمارے اداروں کی ناکامی کو عیاں کرتا ہے۔ اور اس تکلیف دہ حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ ہماری عدالت انصاف کی تلاش میں ہے، جبکہ ہمارے حکام خوف اور ٹال مٹول کا شکار ہیں۔ اور اب تو ایک غیر ملکی عدالت بھی ہمارے عوامی نمائندوں کو جوابدہ قرار دے رہی ہے، کیونکہ ہم خود کبھی ان کا احتساب نہ کر سکے۔ یہ صرف قانونی ناکامی نہیں، یہ ہمارے قومی کردار پر ایک داغ ہے۔ یہ ایک گہرے مرض کو ظاہر کرتا ہے کہ بیوروکریسی انسانیت سے زیادہ دفتری طریقہ کار کو اہمیت دیتی ہے، اور ایک سیاسی طبقہ ہے جو معصوم پاکستانی عورت کے دفاع کو اپنی ذمے داری نہیں بلکہ بوجھ سمجھتا ہے۔ جبکہ ہمارے دین اور ثقافت میں عورت گھر، برادری اور ملک کی عزت کی علامت ہے۔ جب اس کی حرمت پامال ہو، جب وہ زنجیروں میں جکڑی جائے، ذلیل کی جائے اور جلا وطن ہو، تو اْس کا دکھ ہم سب کے لیے اجتماعی شرمندگی بن جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے کبھی بھی کسی عورت کی عزت پر حملہ ہونے پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ انہوں نے فرمایا، تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہے۔ ہمارا معیار یہ ہے اور کردار کچھ اور تو ہم کس قدر گر چکے ہیں؟ جو قوم اپنی عورتوں کو ذلیل ہونے دے، اسمگل ہونے دے، اور بے یار و مدد گار چھوڑ دے، وہ صرف سیاسی شکست نہیں کھاتی وہ اخلاقی طور پر تباہ ہو جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وقت آ گیا ہے پاکستان کو اب حقیقی معنوں میں بیدار ہونا ہو گا کھوکھلے نعروں سے نہیں، جلسوں میں جھنڈے لہرا کر نہیں، بلکہ حقیقی جرات اور عمل کے ساتھاپنے سبز و سفید پرچم کی طاقت کے ساتھ اٹھنا ہو گا، نہ کہ کسی سرخ، سفید یا نیلے غیر ملکی جھنڈے کے دباؤ میں خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ جانا۔ تاریخ میں سلطنتیں صرف بیرونی حملوں ہی سے تباہ نہیں ہوئیں بلکہ جب ان کا اخلاق تباہ ہوا تو ان کا حوصلہ ختم ہو گیا، اور وہ خود ہی بکھر گئیں۔
عافیہ کا کیس ایک آئینہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم واقعی کون ہیں اور ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ کیا اس حال میں ہم خدا کی رحمت کے طلب گار بن سکتے ہیں کہ جب ہم اپنی ہی بیٹیوں پر رحم نہ کریں؟ کیا ہم اپنی بیٹیوں کو غیر ملکی جیلوں میں بھلا کر عالمی برادری میں عزت کے خواہش مند ہو سکتے ہیں؟ ہر دن جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کسی غیر ملکی قید خانے میں گزارتی ہیں، اور ان کی قوم خاموش رہتی ہے وہ صرف قوم کی نہیں، بلکہ ہمارے ہر اس اصول کی تذلیل کا دن ہے جس کے ہم دعویدار ہیں۔ اب کچھ کرنا ہو گا، یہ ہمارا فرض بھی ہے اور عافیہ کا قرض بھی ہے۔ ایسے میں کچھ کرنے سے انکار، جبکہ قانونی اور سفارتی راستے بھی موجود ہیں، حوصلہ نہیں، بزدلی ہے۔ اور یہ عافیہ پر مظالم میں شرکت ہے، ہماری قومی غیرت کے زوال میں، ایک خاندان کے ٹوٹتے دل میں جو بہت طویل انتظار کر چکا ہے۔ میں تمام اختیار رکھنے والوں سے کہتی ہوں اگر آپ میں انصاف کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں، تو کم از کم ان لوگوں کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں جن کے دل میں کوشش کا جذبہ ابھی باقی ہے۔
یاد رکھیں تاریخ دیکھ رہی ہے، عدالتیں دیکھ رہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں، اور تاریخ کو آپ کے بیانات یاد نہیں رہیں گے، تاریخ کو آپ کی خاموشی یاد رہے گی۔ تاریخ سوال کرے گی: جب ایک بہن نے مدد کے لیے پکارا، تو اس کے محافظ کہاں تھے؟ جیسا کہ میں ہمیشہ کہتی آئی ہوں، جب ایک عورت کی حرمت پامال ہو اور اْس کی قوم خاموش رہے، تو وہ شرمندگی اْس عورت کی نہیں اْس قوم کی ہے۔ ہمیں اب اٹھنا ہو گا۔ کل نہیں، آج، تاکہ اپنی بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو واپس لا سکیں۔ کیونکہ اگر ہم نے اْنہیں کھو دیا، تو ہم صرف اْنہیں نہیں کھوئیں گے، ہم خود کو کھو بیٹھیں گے۔
[یہ مضمون ایک معاصر روزنامے میں شائع ہو چکا ہے۔ اس مضمون میں محترمہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صاحبہ کی تمام آراء سے اتفاق لازمی نہیں۔ (ادارہ)]
٭٭٭٭٭
- 1امیکس کیوریائی بریف (Amicus Curiae Brief) ایک قانونی دستاویز ہے جو کسی تیسرے فریق کی طرف سے عدالت میں پیش کی جاتی ہے، جو نہ تو مدعی ہوتا ہے اور نہ ہی مدعا علیہ، لیکن اس کیس میں دلچسپی رکھتا ہے یا اس میں کوئی اہم معلومات پیش کرنا چاہتا ہے۔ امیکس بریف کا مقصد عدالت کو اضافی معلومات، قانونی دلائل یا عوامی مفاد کے نقطۂ نظر سے آگاہ کرنا ہوتا ہے جو کیس کے فیصلے میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ یہ اکثر اس وقت پیش کیا جاتا ہے جب کیس کے نتائج کا معاشرے یا کسی خاص طبقے پر بڑا اثر پڑ سکتا ہو۔ (ادارہ)