پینتیسواں سبب: علماء کی تنقیص
حضرت عبادہ بن صامت رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
ليس من أمتي من لم يجل كبيرنا ويرحم صغيرنا ويعرف لعالمنا حقه1بروایت احمد ۔ شیخ البانی نے حسن قرار دیا
”وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کا حق نہ پہنچانے۔“
ہمارے اہل علم سلف نے بھی علماء کو گالی دینے اور ان کی عزت پامال کرنے سے خبردار کیا ہے۔ امام احمد بن اذرعی سے مروی ہے:
”اہل علم کی عیب جوئی، خصوصاً اکابر اہل علم کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔“
حافظ ابن عساکر نے ایک ایسے شخص کو جس نے علماء کے خلاف بولنے کی جرأت کی کہا:
”ہم تمہارا اس وقت تک احترام کریں گے جب تک تم ائمہ کا احترام کرتے رہو۔ “
سلف صالحین میں علماء کی تعظیم و توقیر کی مثالیں
حضرت شعبی فرماتے ہیں کہ : حضرت ابن عباسؓ نے حضرت زید بن ثابت ؓ (کی سواری) کا رکاب2رکاب: زین میں لگے ہوئے لوہے کے اس حلقے کو کہتے جس میں پیر رکھا جاتا ہے۔ نیز سواری والے اونٹ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ رکاب پکڑنے سے مراد کسی سوار کی سواری کو پکڑ کر خود اس کے ہمراہ پیدل چلنا ہے۔ یعنی سوار کی عظمت اور توقیر ہے۔ پکڑا اور فرمایا:
” علماء کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے۔“
حضرت ثوری حضرت مغیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ:
”ہمیں ابراہیم (یعنی حضرت ابراہیم نخعی ) سے ایسی ہیبت رہتی جیسے کسی حکمران سے ہوتی ہے۔ “
اسی طرح امام مالک کے ساتھیوں کا امام مالک کے ساتھ معاملہ تھا۔
اسی کو شاعر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
”جب وہ جواب نہ دیں تو ان کی ہیبت کے سبب پوچھنے والوں کو دوبارہ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ان کے سامنے سوالی اپنے چہرے نیچے کر لیتے ہیں۔ یہ وقار کا ادب اور سلطانِ تقوی کی عزت ہے۔ گویا وہی حکمران ہے اگرچہ صاحب اقتدار نہیں۔
امام شافعی کے شاگرد حضرت ربیع مرادی فرماتے ہیں:
”واللہ، امام شافعی کے دیکھتے ہوئے ان کی ہیبت سے مجھے پانی پینے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔“
اور حضرت امام احمد امام شافعی کو رخصت کرتے ہوئے ان کا رکاب پکڑ کر خود پیدل چل دیے۔
مشہور امام ابو داود صاحب سنن فرماتے ہیں:
”میں نے کبھی کسی کو لعنت نہیں دی۔ ما سوائے جسے میں سنتا کہ وہ امام مالک کی تنقیص کرتا ہے۔“
نیز امام احمد نے امام مالک کی تنقیص کرنے والے سے قطع تعلقی کا حکم دیا تھا۔
علماء کی عزت کو پامال کرنا اور انہیں اذیت دینا در حقیقت شعائر اللہ کی تعظیم سے روگردانی اور خود ان شعائر کی تنقیص ہے۔
بعض علماء نے کیا خوب بیان کیا کہ:
”علماء کی عزت سے جہنم کا ایک گڑھا ڈھانپ دیا گیا ہے۔“3یعنی جو ان کی عزت پامال کرے گا خود گڑھے میں گر جائے گا۔
امت کے اِن روشن میناروں کو ایذا دینا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے؟اس کے لیے یہ حدیث قدسی ہی کافی ہے جسے امام بخاری نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا:
من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب
”جو میرے دوست سے دشمنی کرے گا تو اس کے خلاف میرا اعلان جنگ ہے۔“
امام ابن عساکر نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”میرے بھائی ، اللہ مجھے اور تجھے اپنی رضا جوئی کی توفیق عطا کرے، اور ان میں سے بنائیں جو اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرتے ہیں جیسے کے تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے۔ خوب جان لو ، علماء کا گوشت زہریلا ہے ۔ یہ معلوم بات ہے کہ جس نے بھی ان کی تنقیص کی تو اللہ تعالی نے ہمیشہ اسی کا پردہ چاق کیا۔ جو شخص علماء کے بارے میں زبان درازی کرتا ہے اللہ تعالی اس کا دل مرنے سے پہلے مردہ کر دیتا ہے۔“
پھر آیت نقل کرتے ہیں:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ
”جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیئے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو۔“
عالم با عمل مجاہد امام حضرت عبد اللہ بن المبارک نے فرمایا:
”جس نے علماء کا استہزا کیا اس کی آخرت برباد ہوئی۔“
شیخ علوان ، اللہ انہیں رہائی نصیب کرے، فرماتے ہیں:
”کسی مسلمان کی ہتکِ عزت کرنا اور اس کے ساتھ زیادتی کرنا اللہ ، رسول اور مومنوں کے نزدیک انتہائی خطرناک بات ہے۔ یہ کبیرہ گناہوں اور منافقوں کی مشابہت میں سے ہے۔ تو اہل علم پر اپنی زبانوں اور تحریروں سے چوٹ لگانا ، ان کی قدر و منزلت کو بے جا شکوک و شبہات سے کم کرنے کی کوشش کرنا ، ان کی نیتوں اور ارادوں تک کو نہ بخشنا، ان سے لوگوں کو دور کرنا اور ان کے حقوق کی نا قدری کرنا اس سے بھی بڑھ کر ہے۔“
شیخ بکر ابو زید اپنی کتاب (تصنیف الناس) میں لکھتے ہیں:
”ملت اسلامیہ اس پر متفق ہے کہ کسی ایک صحابی پر طعن کرنا صریح زندقہ ہے۔‘‘
امام ابو زرعہ رازی فرماتے ہیں:
’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کسی بھی صحابی کی تنقیص کر رہا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ حق ہیں، قرآن حق ہے، اور جو ہدایت آپ لائیں ہیں وہ حق ہے۔ اور یہ سب کچھ صحابہ نے ہم تک پہنچایا ہے۔ اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں پر جرح کریں تاکہ قرآن و سنت کی حجیت ختم ہو جائے۔ الٹا خود ایسے لوگوں پر جرح کی جانی چاہیے کیونکہ وہ زنادقہ ہیں۔“4امام ابو زرعہ کا یہ قول امام ابن العربی المالکی نے اپنی کتاب العواصم من القواصم میں بھی نقل کیا ہے۔ أخبرنا أبو منصور محمد بن عيسي الهمذاني، حدثنا صالح بن أحمد الحافظ قال: سمعت أبا جعفر أحمد بن عبدل يقول: سمعت أحمد بن محمد بن سليمان التستري يقول: سمعت أبا زرعة يقول: (إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق، لأن الرسول صلى الله عليه وسلم عندنا حق، والقرآن حق، وإنما أدى إلينا هذا القرآن والسنن أصحاب رسول الله، وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة، والجرح بهم أولى، وهم زنادقة العواصم من القواصم (ص: 34)
امام دورقی فرماتے ہیں کہ :
”جسے سنو کہ وہ امام احمد بن حنبل کو برے الفاظ سے یاد کر رہا ہے تو خود اس کے دین کے بارے میں سوال اٹھاؤ ۔ “
یہ مقولہ امام احمد نے حضرت یحیی بن معین کے بارے میں فرمایا تھا۔ اور یہی حضرت ابو زرعہ اور حضرت عکرمہ رحمہم اللہ کے بارے میں بھی کہا گیا۔
حضرت سفیان بن وکیع فرماتے ہیں:
”امام احمد ہمارے لیے آزمانے کا معیار بن گئے۔ جو ان کی عیب جوئی کرے وہ ہمارے ہاں فاسق ہے۔ “
چنانچہ امام احمد کے بارے میں یہ شعر کہے گئے:
”ابن حنبل آزمانے کا محفوظ معیار بن گئے۔ ان کی محبت سے دیندار کا پتہ چلتا ہے۔ اور جسے ان کی تنقیص کرتا ہوا پاؤ تو جان لو کہ خود اس کے پردے چاق ہونے والے ہیں۔“
اہل سنت کی محبت سے آزمایا جاتا ہے۔ پس ان کی محبت سے سنت کے پیروکار اور ان کے بغض سے اہل بدعت واضح معلوم ہو جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے علماء کی منزلت اونچی رکھی ہے اور انہیں عزت دی ہے۔ اور حکم دیا ہے کہ ان کا احترام اور قدر دانی کی جائے۔ ان کا مرتبہ بھی بلند کیا ہے اور انہیں ہیبت بھی عطا کی ہے۔ یہ تمام فضیلت و منزلت اس کے لیے بھی ہے جو ان کے مشن کو اپنائے۔ ان کا مشن آسمانی شریعت کی تبلیغ اور اس کے نفاذ کا مطالبہ ہے۔ اس شریعت کو چھپانے اور تبدیل و تحریف سے بچانا ہے۔ باہر سے جو اس شریعت میں گھس آئے اسے نکالنا ہے۔ ہر اجنبی فکر اور من گھڑت فیصلے سے شریعت کو پاک رکھنے کی کوشش میں رہنا ہے۔
لیکن ان کے لیے جو احترام واجب ہے اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ انہیں مقدس ٹھہرا دیا جائے۔ اور انہیں کھلی چھٹی دی جائے کہ وہ جو چاہیں کہیں اور جو چاہیں کریں۔
بلکہ وہ تو دوسروں کے مقابلے میں بہ طریق اولیٰ شریعت کے دائروں کے پابند ہیں۔ اگر وہ شریعت کی حدیں پھلانگیں، اس کی خدو خال سے چھیڑ چھاڑ کریں، اس کی زیب و زینت کو پامال کریں، تو وہ ان کی حیثیت آقا سے بدکے ہوئے غلام کی ہو گی۔ علماء تو ایسے لوگ ہوتے ہیں جو حق کو پہچانے، نہ یہ کہ حق ان سے پہچانا جائے۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
” حق لوگوں سے نہیں پہچانا جاتا۔ بلکہ حق کو پہچانو تو اہل حق معلوم ہو جائیں گے۔ “
علامہ جمال الدین قاسمی [ف:1332ھ]نے فرمایا:
”ارسطو کا جب اس کے اپنے استاد افلاطون سے اختلاف ہوا تو اس نے کیا خوب کہا کہ: حق اور افلاطون آپس میں جھگڑے۔ حالانکہ دونوں میرے دوست ہیں۔ البتہ حق افلاطون سے زیادہ سچا ہے ۔“
حضرت ابن مبارک فرماتے ہیں:
”جو علماء کو ہلکا جانے اس کی آخرت برباد ہوئی۔ اور جو حکمرانوں کو ہلکا جانے اس کی دنیا برباد ہوئی۔ اور جو اپنے بھائیوں کو ہلکا جانے اس کی مروت ختم ہو جاتی ہے۔ “
٭٭٭٭٭
- 1بروایت احمد ۔ شیخ البانی نے حسن قرار دیا
- 2رکاب: زین میں لگے ہوئے لوہے کے اس حلقے کو کہتے جس میں پیر رکھا جاتا ہے۔ نیز سواری والے اونٹ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ رکاب پکڑنے سے مراد کسی سوار کی سواری کو پکڑ کر خود اس کے ہمراہ پیدل چلنا ہے۔ یعنی سوار کی عظمت اور توقیر ہے۔
- 3یعنی جو ان کی عزت پامال کرے گا خود گڑھے میں گر جائے گا۔
- 4امام ابو زرعہ کا یہ قول امام ابن العربی المالکی نے اپنی کتاب العواصم من القواصم میں بھی نقل کیا ہے۔ أخبرنا أبو منصور محمد بن عيسي الهمذاني، حدثنا صالح بن أحمد الحافظ قال: سمعت أبا جعفر أحمد بن عبدل يقول: سمعت أحمد بن محمد بن سليمان التستري يقول: سمعت أبا زرعة يقول: (إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق، لأن الرسول صلى الله عليه وسلم عندنا حق، والقرآن حق، وإنما أدى إلينا هذا القرآن والسنن أصحاب رسول الله، وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة، والجرح بهم أولى، وهم زنادقة العواصم من القواصم (ص: 34)