اصلاحِ معاشرہ | آٹھویں قسط

سورۃ الحجرات کی روشنی میں

غیبت

تیسری بیماری جس کا آیت شریفہ میں ذکر ہے وہ غیبت ہے، ارشاد ہوتا ہے:

وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا

’’اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو۔‘‘

غیبت کہتے ہیں پیٹھ پیچھے کسی کی برائی بیان کرنا، حدیث میں اس کی وضاحت و تفسیر موجود ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

أتدرون ما الغیبۃ؟ قالوااﷲ ورسولہ أعلم۔ قالذکرک أخاک بما یکرہ۔ قیلأفرأیت إن کان فی أخی ما أقول؟ قالإن کان فیہ ما تقول فقد اغتبتہ وإن لم یکن فیہ فقد بہتہ1صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب تحریم الغیبۃ، ابوداود، باب فی الغیبۃ

’’تم جانتے ہو کہ غیبت کیاہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اوراس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے بھائی کا ایسا تذکرہ جواس کو ناپسندہو۔ دریافت کیاگیا کہ اگرمیرے بھائی میں وہ (ناپسندیدہچیز موجود ہو جومیں کہہ رہا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگراس کے اندروہ چیز موجود ہے تب ہی تو تم نے غیبت کی اوراگر وہ چیز موجود ہی نہیں ہے توتم نے اس پرتہمت لگائی (جوغیبت سے بڑا گناہ ہے)۔‘‘

عام طور پر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ اگر کسی ایسی برائی کو بیان کیا جائے جو موجود ہے تو یہ غیبت نہیں ہے، اس حدیث میں بات صاف کر دی گئی کہ غیبت تو جب ہی ہے کہ برائی موجود ہو، اور اگر برائی موجود نہیں ہے تب تو یہ بہتان طرازی اور الزام تراشی ہے جو بدترین گناہوں میں سے ہے۔

غیبت کے اسباب

عام طور پر سوءِ مزاج کے نتیجہ میں آدمی غیبت میں مبتلا ہوتا ہے، بعض لوگ تو صرف عاقبت نا اندیشی کی بنا پر یہ کام کرتے ہیں ، ان کو یہ خیال ہی نہیں رہتا کہ دنیا و آخرت میں اس کے نقصانات کیا ہیں ، ایک بڑی تعداد انانیت پسند لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو کسی کو اٹھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، ان کے سامنے اگر کسی کی تعریف کی جانے لگے تو فوراً وہ برائیاں تلاش کر کے بیان کرنے لگتے ہیں ، جب کہ اسلامی مزاج کا تقاضا یہ تھا کہ دس برائیوں میں اگر ایک نیکی بھی ہے تو نیکی کا چرچا کیا جائے اور برائیوں کا تذکرہ نہ ہو، تاہم یہ بھی خیال رہے کہ اگر کہیں گواہی دینے کا مسئلہ ہے یا کوئی کسی کے بارے میں مشورہ کر رہا ہے تو اپنے علم کے مطابق صحیح رائے کا اظہار ضروری ہے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے لیے دو لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوری وضاحت فرما دی اور جو نقص تھا وہ بھی بیان کر دیا تاکہ آدمی دھوکہ میں نہ پڑے اور بعد میں اس کو پچھتاوا نہ اٹھانا پڑے، محدثین کے یہاں جرح و تعدیل کا مستقل فن اسی لیے وجود میں آیا کہ غلط لوگوں سے روایات نقل کرنے میں احتیاط برتی جائے اور بے اصل روایات معاشرہ میں پھیل نہ جائیں ، یہ ایک دینی شرعی مصلحت و ضرورت تھی اور اب بھی اگر ضرورت پڑے تو بالکل دو ٹوک انداز میں بات صاف کر دی جائے تاکہ نہ افراد دھوکے میں پڑیں اور نہ ہی امت کسی دھوکہ کا شکار ہو، لیکن یہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس میں حدود قائم رکھے جائیں ، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس میں انانیت شامل ہو جاتی ہے اور اس پر ضرورت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔

اس گناہ کی شدت

موجودہ دور میں یہ بیماری اچھے اچھے دیندار حلقوں میں پیدا ہو گئی ہے، جب کہ حدیث میں اس کو بدترین گناہوں میں شمار کیا گیا ہے، بیہقی کی ایک روایت میں آتا ہے:

الغیبۃ أشد من الزنا۔ قالوا یا رسول اللّٰہوکیف الغیبۃ أشد من الزنا؟ قال إن الرجل لیزنی فیتوب فیتوب اللّٰہ علیہ، وإن صاحب الغیبۃ لا یغفر لہ حتیٰ یغفرہا لہ صاحبہ۔2بیہقی فی شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید علی من اقترض

’’غیبت زنا سے زیادہ سخت ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کے رسولغیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی زنا کرتا ہے پھر وہ توبہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں اور غیبت کرنے والے کی اس وقت تک مغفرت نہیں ہوتی جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔‘‘

ظاہر ہے جس کی غیبت کی گئی ہے معاشرہ میں اس کو گرانے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ اس کا ایک بہت بڑا نقصان ہے، اسی لیے غیبت کو بھائی کے مردار گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، جب تک اس سے معافی نہ مانگ لی جائے، اس وقت تک اس گناہ سے معافی مشکل ہے اس لیے کہ یہ بندوں کے حقوق میں سے ہے، اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف فرما دیں گے لیکن بندوں کے حقوق اس وقت تک معاف نہیں فرمائیں گے جب تک وہ ادا نہ کردیے جائیں یا معاف نہ کرا لیے جائیں ۔

اگر معافی نہ مانگی جا سکے

کبھی ایسی صورت حال بھی پیش آتی ہے کہ جس کی غیبت کی گئی اس کا انتقا ل ہو گیا یا اس کا خطرہ ہے کہ اگر معافی مانگنے کے لیے غیبت کا تذکرہ بھی ہوا تو فریق ثانی کی طرف سے سخت رد عمل ہو گا اور اس کے نتیجہ میں حالات مزید بگڑ جائیں گے اور فتنہ پیدا ہو گا ایک حدیث میں ایسی صورت حال کا علاج بتایا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

إن من کفارۃ الغیبۃ أن تستغفر لمن اغتبتہ تقول اللّٰہم اغفر لنا ولہ3بیہقی فی شعب الایمان، فصل فیما ورد من الاخبار فی التشدید

’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی تم نے غیبت کی ہو اس کے لیے استغفار کرو اورکہو کہ اے اللہ ہماری اوراس کی مغفرت فرمادے۔‘‘

بظاہر یہ حدیث ان ہی حالات کے لیے مخصوص ہے کہ جب معافی نہ مانگی جا سکتی ہو یا اس سے فتنہ کا خدشہ ہو، اس لیے کہ بیہقی کی اس سے پہلی والی روایت میں یہ صراحت ہے کہ جب تک معافی نہ مانگ لی جائے اس وقت تک اس گناہ کا معاف ہونا مشکل ہے، اس لیے اس دوسری حدیث کو مخصوص حالات پر محمول کرنا ہی مناسب ہے۔

مجالس غیبت میں شرکت کا وبال

جس طرح غیبت کرنا سخت گناہ ہے غیبت کا سننا اورایسی مجالس میں شریک ہونا بھی گناہ ہے، حدیث میں آتا ہے:

من اغتیب عندہ أخوہ المسلم فنصرہ نصرہ اﷲ فی الدنیا والآخرۃ، وإن لم ینصرہ أدرکہ اﷲ فی الدنیا والآخرۃ۔4مصنف عبدالرزاق،کتاب الجامع للامام معمر بن راشد،باب الاغتیاب والشتم، شرح السنۃ، باب الذب عن المسلمین

’’جس کسی کے پاس اس کے مسلمان بھائی کی غیبت کی گئی اور وہ اس کی مدد پر قادر ہے اس نے اپنے بھائی کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی مدد فرمائیں گے اور اگر قدرت کے باوجود اس نے مدد نہ کی تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پکڑ کریں گے۔‘‘

حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کبھی ایسی مجلسوں میں شرکت ہو بھی جائے اور کسی کی غیبت کی جائے تو شریک ہونے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے اس کا دفاع کرے، یہ اس کے لیے بڑے اجر کی بات ہے کہ وہ اس کی عزت رکھ رہا ہے اور اس مجلس میں اس کو ذلیل ہونے سے بچا رہا ہے، اللہ تعالیٰ بھی دنیا و آخرت میں اس کی مدد فرمائیں گے اس کو عزت بخشیں گے اور وہ ذلت سے محفوظ رہے گا، اس کے برخلاف اگر وہ مجلس میں پوری طرح شریک رہا، غیبت سنتا رہا اور اس پر ذرا بھی ناپسندیدگی ظاہر نہ کی تو اس کے لیے وبال ہے، اس کا خطرہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی ذلت اٹھائے ۔

اسی آیت میں غیبت کی برائی مزید وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے، اوراس میں نفسیات کواپیل کی جا رہی ہے ارشاد ہوتا ہے:

اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ

’’کیا تم میں کسی کو اچھا لگے گا کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے، اس سے تو تم گھن کرو گے ہی۔‘‘

غیبت کا ایک علاج

عجیب بات یہ ہے کہ عام طور پر مجلسوں میں غیبت کا سلسلہ جب چلتا ہے تو کسی کو خیال بھی نہیں رہتا اور اس میں مزہ آنے لگتا ہے، آیت شریفہ میں اس کا ایک نفسیاتی علاج بھی کیا گیا ہے، غیبت کے موقع پر اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے در حقیقت اس کا سڑا ہوا گوشت کھایا جا رہا ہے تو اس تصور سے ہی طبیعت اِبا کرنے لگے گی اور غیبت سے کراہت سی پیدا ہو جائے گی، ظاہری طور پر آدمی خواہ اس کو محسوس نہ کر سکے لیکن یہ ایک حقیقت ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعجاز ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مرتبہ اللہ کے حکم سے ایسی چیزیں محسوس بھی کرا دیں۔ حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک مرتبہ دو عورتوں نے روزہ رکھا، روزہ ان دونوں کو اتنا لگا کہ وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ ان کے پاس بھیجا اور ان دونوں کو اس میں قے کرنے کا حکم فرمایا، دونوں نے قے کی تو اس میں گوشت کے ٹکڑے اور تازہ کھایا ہوا خون نکلا، لوگوں کو حیرت ہوئی تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال روزی سے تو روزہ رکھا اور حرام چیزوں کو کھایا کہ دونوں عورتیں لوگوں کی غیبت کرتی رہیں ۔5بیہقی، دلائل النبوۃ، شعب الایمان

اس حدیث سے ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ غیبت کرنے والے کے لیے نیکیاں مشکل ہو جاتی ہیں ، اور اس کا ذہن غلط کاموں اور غلط باتوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔

غیبت سے روکنے والے کا اجر

جس طرح حدیث میں غیبت کرنے والے کو مردار بھائی کا گوشت کھانے والا کہا گیا ہے، اسی طرح اگر کوئی غیبت کرنے والے کو اس کے اس برے عمل سے باز رکھتا ہے تو وہ اپنے بھائی کی حفاظت کرنے والا شمار ہو گا، حدیث میں آتا ہے:

من ذب عن لحم أخیہ بالغیبۃ کان حقاً علی اﷲ أن یعتقہ من النار6بیہقی، شعب الایمان

’’غیبت کی وجہ سے اگرکسی کا گوشت محفوظ نہیں رہا اورکوئی اس کی حفاظت (غیبت کرنے والے کو غیبت سے روک کرکر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو جہنم سے خلاصی عطا فرمائیں گے۔‘‘

اللہ کی طرف سے یہ بدلہ اس کو اس کے عمل کے مطابق مل رہا ہے، وہ دوسرے کے گوشت پوست اور اس کے جسم کی حفاظت کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے جسم کی جہنم سے حفاظت فرمائیں گے۔

خیر کی کنجی

یہ تین وہ باطنی امراض ہیں جو اندر ہی اندر پنپتے رہتے ہیں اور کینسر کی طرح ایمان والے کی ہلاکت کا ذریعہ بن جاتے ہیں ، بد گمانی اس کا سب سے پہلا زینہ ہے اس کے نتیجہ میں تجسس اور غیبت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور یہ سب چیزیں بے احتیاطی کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں اسی لیے اخیر میں تقوی کی تاکید کی جا رہی ہے ارشاد ہوتا ہے:

وَاتَّقُوا اللّٰهَ

’’اور اللہ سے ڈرو۔‘‘

یہ ہر خیر کی کنجی ہے، جس کے اندر تقویٰ کا مزاج بن گیا وہ دین کے سانچے میں ڈھل گیا، اس کے لیے نیک اعمال کا کرنا بھی آسان اور برائیوں سے بچنا بھی آسان، اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے نیک صحبت سے اسی لیے ایک جگہ ارشاد ربانی ہے :

یٰآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲ َ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (سورۃ التوبۃ۱۱۹)

’’اے ایمان والوتقویٰ اختیارکرو اورسچوں کی صحبت اٹھاؤ۔‘‘

توبہ وسیلۂ رحمت

آیت کا اختتام اللہ کے بندوں کے لیے مسک الختام ہے، جواب تک کوتاہیوں میں مبتلا رہے، یہ اندر کی بیماریاں ان کو گھن کی طرح چاٹتی رہیں ، اب بھی ان کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، توبہ کرنے والوں پر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے، جو بھی اپنے عمل پر شرمندہ ہو کر بارگاہ الٰہی میں ملتجی ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کو رحمت کی نگاہ سے دیکھیں گے ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِيْمٌ؀

’’بلاشبہ اللہ توبہ قبول فرماتا ہے، رحم فرماتا ہے۔‘‘

ضرورت ہے اپنا جائزہ لینے کی اور درِ رحمت کی طرف پلٹنے کی۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version