چند یادیں

اس تحریر میں چند ایسے واقعات ہیں جو مجھے کبھی نہیں بھولتے ان میں سے چند تو میرے ساتھ پیش آئے یعنی میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور چند دوسروں سے سنے۔ یہ واقعات کسی خاص موضوع سے تعلق نہیں رکھتے: ان میں مجاہدین کے ایثار، بہادری، تقویٰ وغیرہ کے واقعات ہیں، چند انصار کے مہاجر مجاہدین کے ساتھ محبت کے قصے ہیں اور چند کافروں کے مظالم کی داستانیں بھی۔ بس ملے جلے واقعات ہیں ، اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس تحریر کو اپنے حضور قبول فرما لے، آمین۔ (ابرار احمد)


یہ واقعہ استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے مجاہدین کی ایک محفل میں وزیرستان کے ایک انصار کی تعریف کرتے ہوئے سنایا تھا۔

یہ شیخ احسن عزیزؒ کے دور کا وقت تھا۔ وزیرستان کے اندر مجاہدین کے لیے عوام نے اپنے گھروں کے اندر جگہیں بنائی تھیں تاکہ دشمن کے جاسوسوں سے بچا جاسکے۔ اس طرح مجاہدین کئی کئی سال اپنے خاندان کے ساتھ انصاروں کے گھروں کے اندر بنے علیحدہ حصّے میں رہتے تھے جہاں پر پردے کا انتظام بھی اچھا ہوتا تھا، مگر باہر کے کسی بندے کو اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ گھر کے اندر ایک اور بھی گھر ہے۔

اسی طرح استاد احمد فاروقؒ بھی اپنے اہلِ خانہ سمیت اپنے انصار موسیٰ کے گھر میں رہتے تھے۔ ان کے پاس بیت المال کی امانت تھی جو دس دس تولے کی سونے کی تین اینٹوں پہ مشتمل تھی۔ ایک دفعہ استاد احمد فاروقؒ کو کسی کام سے جانا پڑا تو وہ وہاں سے چلے گئے اور ان کا ایک بیگ جس میں سونے کی اینٹیں تھیں وہیں گھر میں ہی رہ گیا۔ جب استاد احمد فاروقؒ واپس آئے تو بیگ کے اندر سے تینوں اینٹیں غائب تھیں۔ وہ بہت پریشان ہوئے کیونکہ بہت قیمتی سامان تھا اور تھا بھی بیت المال کی امانت۔ استاد احمد فاروقؒ کے گھر والوں کو پریشان دیکھ کر موسیٰ کی والدہ، جن کو ہم ’آدے‘ (ماں جی) کہتے تھے، نے کہا آپ کیوں پریشان ہیں۔ جواباً انہوں نے کہا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ماں جی نے کہا نہیں! کوئی بات ہے لیکن تم مجھے نہیں بتا رہی ہو۔ استاد احمد فاروقؒ کے گھر والوں نے کہا کہ ہمارے پاس بیت المال کی امانت تھی اور وہ بیگ سے غائب ہو گئی ہے۔ ان کی بات سنتے ہی ماں جی ایک دم بہت زیادہ پریشان ہو گئیں اور کچھ کہے بغیر خاموشی سے چلی گئیں۔ اس کے بعد استاد احمد فاروقؒ کو بھی کسی دوسری جگہ جانا پڑا اور وہ اہلِ خانہ سمیت شمالی وزیرستان کی طرف منتقل ہو گئے۔

استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ایک دفعہ موسیٰ کے گھر گیا تو ماں جی بھی مجھ سے ملنے آ گئیں اور مجھ سے کہا کہ میں نے چور کو پکڑ لیا ہے جس نے سونا چرایا تھا، اور کہنے لگیں جس دن سے اس واقعے کا مجھے علم ہوا ہے میں صحیح سے سو نہیں سکی۔ استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے کہا کہ چور کون ہے؟ تو کہنے لگی کہ میری یہ بیٹی!۔۔۔ پردے کے پیچھے اپنی بیٹی کو بھی بلایا جو کہ بیوہ تھی اور اپنی ماں کے گھر میں ہی رہتی تھی۔ میرے سامنے اس کو برا بھلا کہنے لگی اور مجھ سے کہا کہ میں نے اس سے ایک اینٹ بھی برآمد کی ہے اور ان شاء اللہ باقی بھی میں پورا کروں گی۔ پھر ماں جی نے تھوڑے تھوڑے کر کے پیسے جمع کرنا شروع کیے اور بیت المال کو واپس کرنا شروع کیے۔ ماں جی نے اپنے پاس ایک کاغذ رکھا ہوا تھا جس میں انہوں نے سارا حساب لکھا تھا کہ کتنے پیسے ادا ہو گئے۔ جو بھی ساتھی ان کی طرف جاتا اس کو ماں جی پیسے بھی دیتی اور لکھواتی بھی کہ کتنے ادا ہو گئے۔ میرے پاس بھی وہ کاغذ کئی بار آیا اور ماں جی نے مجھ سے لکھوایا۔

استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے بتایا کہ اسی طرح موسیٰ کے پاس ہماری ایک کلاشنکوف تھی جو اسے شیخ احسن عزیزؒ نے دی تھی اور اس کو شیخ احسن عزیزؒ بھی بھول گئے تھے اور فاروق بھائی کے علم میں بھی نہیں تھا کہ اس کے پاس بیت المال کی ایک کلاشنکوف ہے۔ ایک دن ماں جی آئیں اور مجھ سے کہنے لگیں کہ موسیٰ کے پاس بیت المال کی ایک کلاشنکوف ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ آپ لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ پھر کہا کہ میں ایسا کروں گی کہ جب آپ اگلی بار آئیں گے تو موسیٰ کو بھی بلاؤں گی اور کلاشنکوف کا ذکر کروں گی۔ جب میں اگلی بار گیا تو ماں جی نے موسیٰ کو بھی بلا لیا، اور اس دوران ماں جی نے اسلحے کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے بھی کہہ دیا کہ ماں جی ہم نے بھی بہت سے لوگوں کو اسلحہ دیا ہوا ہے جیسے ایک کلاشن موسیٰ کو دی ہوئی ہے۔ یہ سننا تھا کہ موسیٰ کا رنگ فق ہو گیا۔ ماں جی اس کو اشارہ کرکے کہنے لگیں میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ ان کو علم ہے اور تم میری بات نہیں مانتے تھے۔ پھر کچھ دن بعد مجھ سے کہنے لگیں کہ اس سے کلاشنکوف لے لو، اس سے کہو کہ ہمیں کلاشنکوف دے دے ہم اس کے بدلے تمہیں کچھ اور دے دیں گے۔ پھر اسی طرح ہوا، ہم نے کچھ دن بعد اس سے کلاشنکوف بھی لے لی۔

یہ دونوں واقعات سنانے کے بعد استاد اسامہ محمود حفظہ اللہ نے کہا کہ اس ماں جی کے پاس علم نہیں تھا مگر اس کے ایمان نے اس کو عمل کی توفیق دی تھی۔

اسی طرح کا ایک واقعہ میرے سامنے پیش آیا، وہ بھی آپ لوگوں کو سنائے دیتا ہوں۔ ’سرحدی‘ ہمارا ایک انصار تھا جس کا گھر افغانستان کی ولایت (صوبے) پکتیکا میں تھا۔ ساتھی اکثر اس کے گھر آیا جایا کرتے تھے، اپنا سامان بھی ہم اس کے پاس رکھواتے تھے کیونکہ اُن دنوں ڈرون بہت زیادہ ہوتا تھا، اس لیے اپنا اسلحہ جو ضرورت سے زائد ہوتا تھا وہ ہم انصاروں کے گھروں میں رکھواتے تھے۔ سرحدی کے گھر میں ایک دفعہ قاسم بھائی (کماندان خرم سعید کیانیؒ )نے ایک کلاشنکوف رکھوائی اور اس کلاشنکوف کو وہ بھی بھول گئے کیونکہ کلاشنکوفیں صرف ایک نہیں تھی پہلے بھی ہماری کچھ کلاشنکوفیں اس کے گھر میں رکھی ہوئی تھیں۔ وہ تو ساتھیوں نے اٹھا لیں لیکن ایک کلاشنکوف رہ گئی تھی، جو کماندان خرم سعید کیانیؒ نے رکھوائی تھی۔

تقریباً ایک سال بعد میں کماندان خرم سعید کیانیؒ کے ساتھ سرحدی کے گھر گیا تو وہ کھانے کے بعد وہی کلاشنکوف لے کے آ گیا اور کماندان خرم سعید کیانیؒ سے کہنے لگا کہ میں نے بہت انتظار کیا کہ آپ لوگ اس کا مطالبہ کریں گے لیکن خود اس لیے نہیں کہتا تھا کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ میں چھاپے سے گھبراتا ہوں اور اس لیے کلاشنکوف سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔ لیکن اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ لوگ یہ کلاشنکوف بھول گئے ہیں اس لیےآج یہ لے کے آیا ہوں۔ اور حقیقت یہی تھی کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ کلاشنکوف یاد نہیں تھی۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version