میرے پیارے اماں بابا کے نام!
السلام علیکم!
کل رات مجھے نیند نہیں آئی۔نجانے کیوں بار بار آپ لوگوں کا ہی خیال آتا رہا۔ میں رات بھر آپ لوگوں کے بارے میں سوچتی رہی اور بار بار یہی خیال آتا رہا کہ آپ بھی تو یقیناً میرے بارے میں ہی سوچتے ہوں گے اور نجانے کتنی راتیں یوں ہی آنکھوں میں کاٹتے ہوں گے۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ مجھے کتنا یاد کرتے ہوں گے……مجھے آپ سے ملے آٹھ سال بھی تو ہوگئے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں آپ کی کتنی لاڈلی ہوں۔اور میرے بغیر آپ کی زندگی کتنی خالی خالی محسوس ہوتی ہوگی۔ جب بھی خاندان میں کوئی بھی خوشی کا موقع ہوتا ہوگا آپ میرے بارے میں سوچتے ہوں گے۔ہر خوشی میرے بغیر ادھوری محسوس ہوتی ہوگی۔جب بھی دوسروں کے بچوں اور نواسے نواسیوں کو دیکھتے ہوں گے آپ کی آنکھیں میرے بارے میں سوچ کر نم ہوجاتی ہوں گی۔آخر میں آپ کا غم کیسے نہیں سمجھ سکتی۔میں بھی ماں ہوں اور جانتی ہوں کہ والدین کی اپنے بچوں سے محبت کیسی ہوتی ہے!
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرا بچپن آپ کی محبتوں میں کیسے گزرا۔مجھے آپ کی شفقت کی ایک ایک ادا یاد ہے۔مجھے یاد ہے کہ آپ دونوں نے مجھ پر کتنی محنت کی ہے۔مجھے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے کیسے تربیت فراہم کی ہے۔اماں آپ کو یاد ہی ہوگا کہ سکول میں پیپروں میں اگر میری فرسٹ پوزیشن نہ آتی تو میرے سے زیادہ غم آپ کو ہوتا تھا۔مجھے تب بڑی حیرت ہوتی تھی کہ فرسٹ میں نہیں آئی مگر دکھ اماں کو ہورہا ہے۔چہ معنی دارد؟ مگر اب خود ماں بننے کے بعد اس جذبے کا ادراک ہوتا ہے۔اسی طرح راتوں میں ہمارے کمرے میں ہمارے ساتھ لیٹ کر ہمیں کہانیاں سنانا ، دنیا میں رہنے کے گر سکھانا ،دین کو مضبوطی سے تھام کررکھنے کی نصیحتیں کرنا اور بڑے ہوجانے کے باوجود اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر ہمارے منہ میں ڈالنا ……میں آخر کیسے بھول سکتی ہوں؟!
اور بابا ……میرے پیارے بابا! ……اللہ گواہ ہے کہ آپ نے ہمیں قیمتی موتیوں کی طرح پالا ہے۔مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی آپ نے ہمیں سختی سے کسی بات پر ڈانٹا بھی ہو۔مجھے ابھی بھی یاد ہے اگر آپ میری کسی خواہش کو پورا نہ کرپاتے اور میں کسی بھی ضد کے بغیر خاموشی سے آپ کی بات مان لیتی تو میرے سے زیادہ آپ کو میری خواہش پوری نہ ہونے کا غم ہوتا تھا اور جیسے بھی ہوپاتا آپ اس کو پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
میرے اماں بابا آپ کی شہزادی اب آپ سے بہت دور بیٹھی ہے۔اور شاید مستقبل قریب میں ایک دوسرےسے ملنے کے مواقع بہت کم ہیں۔ میں نے آج یہ قلم ایک بات کہنے کے لیے اٹھا یا ہے۔یہ بات بہت عرصے سے سوچ رہی ہوں ……اور وہ یہ کہ میرے والدین اور میرے والدین جیسے دیگر مجاہدات کے والدین!……آپ نے اس دور میں اور ایسی جنگ میں جس میں بڑے بڑے مرد خوف کھاتے ہیں۔آپ نے اپنی لاڈلی اور نازک اور قیمتی متاع بیٹیاں اس راہ میں خوشی خوشی اور ہمت اور حوصلے سے دے دیں۔ لوگ تو اپنے بیٹوں کو اس راستے پر جاتا دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں ۔آپ نے اپنی بیٹیاں بھی اس راہ میں دے دیں۔حالانکہ آپ جانتے تھے کہ ایک مجاہد سے شادی کر کے آپ کی بیٹی کی زندگی کیسی ہوگی۔آپ کو پتہ تھا کہ آپ کی بچی کسی بھی وقت بیوہ ہوکر آپ کے در پر آسکتی تھی۔کسی بھی پل اس کا شوہر گمشدہ ہوسکتا تھا۔کسی بھی پل اس کے بچے یتیم ہوسکتے تھے۔اپنی اولاد کے لیے یہ برداشت کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔
مجھے پتہ ہے مجھے جنگ زدہ علاقے میں بھیج کر اے میری ماں آپ کے دل کی کیا حالت ہوتی ہوگی۔مجھے معلوم ہے آپ کو طرح طرح کے خدشات ستاتے ہوں گے۔پھر میرے بچے ہوجانے کے بعد میرے بچوں کی کتنی فکر رہتی تھی۔کہیں کسی کو ٹھنڈ نہ لگ جائے۔نجانے ان کے پاس سردیوں میں گرم رکھنے کو ایندھن اور کپڑے ہوتے ہوں گے کہ نہیں!؟ کہیں کوئی بیمار نہ ہوگیا ہو! نجانے کیسے گھروں میں رہتے ہوں گے!؟نجانے کھانا ملتا ہوگا کہ نہیں!؟نجانے پانی کا بندوبست ہوتا ہوگا کہ نہیں!
مگر یقین جانیں اللہ نے ہمیں ہمیشہ بہت اچھی حالت میں رکھا ہے!ہمیشہ اچھا کھلایا ہے……ہمیشہ اچھا پہنایا…… ہمیشہ اچھا ٹھکانہ دیاہے!اس کے علاوہ جو کچھ مشکلات ہیں وہی تو اس راستے کا حسن ہیں!
مجھے معلوم ہے کہ جب میں آپ سے دور رہتی ہوں تو آپ ایک ایک لمحہ کس طرح انگاروں پر گزارتے ہیں۔ہر روز کا اخبار کس خوف سے پڑھتے ہیں۔کہیں بھی ڈرون یا بمباری کی خبر سن لیں تو کیا کچھ سوچتے ہوں گے۔
پھر مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب آپ نے مجھے افغانستان کے لیے روانہ کیا تھا……آپ دونوں کی آنکھیں مجھ سے نظریں چرارہی تھیں مگر آپ دونوں بہت ہمت اور حوصلے سے میری ہمت بڑھا رہے تھے۔
ہم تاریخ کے اوراق میں بہت سی ایسی مائیں دیکھتے آئے ہیں جنہوں نے اللہ کے راستے میں اپنا ایک ایک بیٹا نہیں تمام کے تمام بیٹے دے دیے تھے۔مگر آج کی تاریخ ایک بہت ہی اچھوتی تاریخ ہے۔جس میں کتنے ہی ماں باپ نے اپنی ایک ایک بیٹی نہیں ،تمام کی تمام بیٹیاں اس راستے میں دے دی ہیں۔اپنی آئندہ کی نسل کو محفوظ رکھنے کے لئی ، اپنی بیٹیوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لئی ہتھیلی جان پر رکھنے والے مجاہد کو دے دی ہیں۔جن کے ساتھ وہ ہر طرح کے حالات کا شکار ہوتی ہیں۔اللہ آپ سب کو اور آپ جیسے تمام ماں باپ کو ڈھیروں اجر عطا فرمائے۔
اماں بابا! آپ کی تربیت کا شکریہ! ایک ایک لمحے پر حوصلہ بڑھانے اور ایمان کو مضبوط رکھنے کا شکریہ! ہم سے جدائیاں برداشت کرنے اور اس بڑھاپے میں دروازے کو تکتے ہمارے انتظار میں صبر سے دن گزارنے کا شکریہ۔ہر ہر پل ہمارے لئی دعا گو رہنے کا شکریہ!ہمارا آپ کی خدمت نہ کرسکنے پر خوشی خوشی معاف کردینے کا شکریہ!
اللہ کی قسم اگر یہ کافر اور ان کے غلام ہمارے راستے کی رکاوٹ نہ ہوتے تو میں آپ کے قدموں میں حاضر ہوتی اور آپ کی خدمت خود اپنے ہاتھوں سے کرتی!
مگر اللہ کا یہ راستہ اور یہ سفر بہت طویل ہے……اور آپ بھی اس راستے پر مجھے بھیجنے سے پہلے یہ بات جانتے تھے۔آپ جانتے تھے کہ آپ کی بچی آج آپ سے جدا ہورہی ہے تو پھر نجانے اس دنیا میں اس سے ملاقات ہو بھی سکے گی کہ نہیں!مگر ہم کبھی بھی مایوس نہیں ہوئے……یہ ایام اور سال بدلتے لمحے نہیں لگتے……جب بھی اللہ کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا۔یہ جدائیاں اور راہ کی مشکلات لمحوں میں ختم ہوجائیں گی اور ہم ان شاء اللہ اس دنیا میں بھی اس دین کی سرفرازی دیکھیں گے۔
مگر اے میرے والدین! آپ کو یہ بات کہنے کی ضرورت تو نہ ہوگی مگر پھر بھی صرف آپ کا حوصلہ بڑھانے کو یہ باتیں بتا رہی ہوں۔ابھی ہمارا فرض پورا نہیں ہوا……افغانستان کی فتح کے بعد ابھی ہمارے بہت سے مسلمان ممالک رہتے ہیں……ابھی ہمارے اپنے ملک میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں زندانوں میں موجود قیدیوں کے رشتے دار ان کی راہ تک رہے ہیں!قیدی ابھی تک اذیتوں کا شکار ہیں! ان کو ابھی تک ٹارچر کیا جارہا ہے… …انڈیا میں ابھی بھی مسلمانوں کو زندہ جلایا جارہا ہے…مسلمان بہنوں کی عزتیں ابھی بھی غیر محفوظ ہیں……کشمیر میں ابھی بھی ہمارے مسلمان بھائیوں کو کاٹا جارہا ہے……ان کو زندانوں میں بھرا جارہا ہے……ان کے ناخن اکھیڑے جارہے ہیں……ان کی کھالیں جلائی جارہی ہیں!
میرے اماں بابا! فلسطین ابھی بھی ہمیں پکار رہا ہے ……مسجد اقصی ابھی بھی رو رہی ہے……چیچنیا پر ابھی بھی روس قابض ہے……برما میں ابھی بھی خون بہہ رہا ہے……دریا میں لاشیں پھینکی جارہی ہیں……مسلمانوں کے ابھی تک گھر جلائے جارہے ہیں……مشرقی ترکستا ن میں ابھی بھی چینی ظلم جاری ہے……ان کے گلے ابھی تک کاٹے جارہے ہیں……ان کے بچے ان سے ابھی تک چھینے جارہے ہیں……ان کا دینی تشخص ابھی تک پامال ہورہا ہے!
میرے اماں بابا! یمن ابھی بھی تڑپ رہا ہے……اس کی ناکہ بندی ابھی تک جاری ہے……وہاں کے مسلمان ابھی بھی بھوک و پیاس سے تڑپ رہے ہیں……شام کے مسلمان ابھی بھی ثابت قدم ہیں……سردی کی شدت سے ابھی بھی وہ مر رہے ہیں……خیمہ بستیاں ابھی بھی قائم ہیں……بھوک اور پیاس ابھی بھی موجود ہے……قید میں ابھی بھی مسلمان پڑے ہیں!
میرے اماں بابا!ابھی تک اندلس کی مساجد نوحہ کناں ہیں……وہ ابھی بھی کسی طارق بن زیاد کو ہی پکار رہی ہیں!
شاید ابھی سننے والوں کو ہماری بات بہت دور کی کوڑی لگے مگر ہمیں اپنے رب پر یقین ہے کہ ہم نہیں تو ہماری کوئی نسل ان شاء اللہ …آپ کے شہر میں بھی اسلام کا جھنڈا لہرائے گی……جیسے افغانستان کے کابل پر کلمے والا جھنڈا لہرا رہا ہے ……اسی طرح اسلام آباد پر اور دہلی پر بھی ایک دن اسلام کا جھنڈا لہرا رہا ہوگا!
اللہ ہمیں آپ کے لیے صدقۂ جاریہ بنادے، آمین!
والسلام
آپ کی مہاجرہ بیٹی
٭٭٭٭٭