منزل | پہلی قسط

وه چھت پر لیٹی چاند کو دیکھے جا رہی تھی۔ آدھا چاند۔ جسے کبھی بادل چھپا لیتے ا ور کبھی وہ سامنے آ جاتا۔ وه بھی اسی چاند کی مانند تھی۔ ادھ کھِلی……کبھی اس کی زند گی بہار ہوتی ا ور کبھی خزا ں……

کہتے ہیں زندگی میں دکھ نہ ہوں تو زندگی اپنا لطف کھو دیتی ہے، لیکن جب دکھ ہوں، خزاں ہو، تب زندگی لطف تو نہیں دیتی البتہ بندۂمومن مطمئن رہتا ہے کہ اس کا رب اس کے حالات سے واقف ہے ا ور اس کو صبر کرنے کا اجر د ے گا ۔

’فاطمہ اٹھو نماز پڑھ لو……‘

’ فاطمہ! اٹھ بھی جاؤ!……‘ ، فاطمہ اٹھ کے وضو کر کے نماز پڑھنے لگی۔

نماز پڑھ کے قرآن مجید پڑھ رہی تھی۔ اتنی دیر میں اسکی امّاں نے ناشتہ بنا دیا۔ برتن اٹھا کے کچن میں رکھنے کے بعد وه یو نیورسٹی کے لیے تیار ہونے لگی۔

’ا وه خدایا! پانچ منٹ ره گئے! ‘ ،جلدی جلدی نقاب کیا ،عبایا پہنا ا ور باہر بھاگی۔

سٹاپ پر تیز تیز پہنچی۔ اتنی دیر میں گا ڑی وہاں آگئی تھی۔ گا ڑی میں سوا ر ہوئی ا ور یہ جا وه جا ۔ فاطمہ ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔اس کی دو بہنیں ا ور دو بھائی ہیں۔ اس کا شمار ایسی لڑکیوں میں ہوتا تھا جو کرنا بہت کچھ چاہتی تھیں لیکن کر نہیں پاتی تھیں۔ جن کانفس ا ن کو زیادہ دیر نیکی پر جمنے نہیں دیتا تھا ا ور استقامت سے کسی بات پر ڈٹنے نہیں دیتا۔

پتہ نہیں لوگ کیسے ا تنے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں…… وه اکثر سوچتی۔کاش میں شہید ہو جاؤں۔کاش مجھے کوئی مجاہد مل جائے۔کاش میں تاریخ کی کتابوں میں زنده رہوں ۔ غرض کتنے ہی کاش تھے، کتنے ہی ارمان تھے جو اس نے پال رکھے تھے لیکن جو دعاؤں سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے۔

’السلام علیکم! کیسی ہو فاریہ! ‘ ۔

’میں ٹھیک ہوں الحمدللہ…… تم کیسی ہو؟ پتہ ہے فاطمہ کل ہمارے یہاں مہمان آئے تھے ا ور میں تو بس کام ہی کرتی رہی سارا وقت…… آٹاگوندھا … …برتن دھوئے…… چاول پکائے…… صفائی کی…… کتاب کھول کے بھی نہیں دیکھ سکی۔ اب ٹینشن ہو رہی ہے ٹیسٹ کی ۔پتہ نہیں کیسے cover ہوگا سلیبس…… ‘ ۔

’ہو جائے گا ان شاءاﷲ……‘ ، ہمیشہ کی طرح فاطمہ نے مختصر سا جواب دیا۔ وه کم بولنا پسند کرتی تھی یا شاید اسے لوگوں سے بات کرنی نہ آتی تھی۔

’چلو لیکچر کا ٹائم ہو گیا……‘ ۔

دونوں کے سیکشن الگ تھے، فاطمہ اپنی کلاس میں چلی گئی ا ور فاریہ اپنی ۔

’السلام علیکم جویریہ!……‘، فاطمہ نے خوش دلی سے اپنی کلاس میں آ کر سلام کیا۔’وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ…… فاطمہ یار پانی پلاؤ……!‘ ،جویریہ ہمیشہ کی طرح پیاسی بیٹھی تھی۔

’لو جی……‘، فاطمہ نے اپنی بوتل لا حا ضر کی۔ لیکچر شروع ہو گیا۔ جویریہ انہماک سے لیکچر سننے لگی ا ور فاطمہ بھی۔ مگر پھر اس کی سوچیں اس کو دور لے جانے لگیں……

ایک بات جو اس نے کہیں پڑھی تھی کہ سیرت کی کتاب سرہانے رکھ کر روز ایک واقعہ پڑھو ا ور پھر کتاب بند کر کے اس وقت میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے جذبات سمجھنے کی کوشش کرو۔ پھر اپنی زندگی میں کسی سچویشن میں ا ن جذبات کو اپلائی کروکہ اگر حضورﷺ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے ،جیسے……

جب پہلی وحی آئی، اقرا ء…… پڑھ! تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے پکڑ کر بھینچا……اقرا ء! میں پڑھاہوا نہیں ہو ں۔ پھربھینچا!…… اقرا ء!

جب انسان کو کوئی کام کرنے کو کہا جائے ا ور اس کو وه نہ آتا ہو تو وه یہی کہتا ہے کہ مجھے نہیں آتا، میں نہیں کر سکتا۔ وه یہ بھول جاتا ہے کہ جو کچھ اس کے ساتھ ہوتا ہے وه اﷲ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ا ور اﷲ کسی کی جان پر اس کی استعداد سےبڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ تو پھر میں بھی اپنے نبیﷺ کی طرح کیوں نہ بنوں۔

فاطمہ خود سے ہم کلام ہوئی۔ مجھ پر بھی جب کوئی سچویشن آئے، کوئی ایسا کام جو مجھے مشکل لگ رہا ہو تو میں بھی ہمت کر کے وه کر ڈالوں گی۔ اس نے خود سے عہد کیا۔ ’کہاں گم ہو؟……‘ ۔

لیکچر ختم ہو چکا تھا ا ور جو یریہ فاطمہ کو اس کے حواس میں لا رہی تھی۔

’ادِھر ہی…… بس کچھ سوچ رہی تھی‘ ۔فاطمہ جو سوچ رہی تھی اس کے گوش گزا ر دیا۔

’ہوں…… صحیح بات ہے۔ اچھا چلو پریکٹیکل کا ٹائم ہو رہا ہے، ا وپر چلیں‘ ۔

یوں ہی سارا دن پڑھائی ا ور سوچو ں میں گزا ر کر فاطمہ گھر لوٹی ۔ تھکی ہاری۔ آ کر ظہر کی نماز پڑھی، کھانا کھایا ا ور تھوڑاآرا م کرنے لیٹ گئی ۔ اٹھ کر عصر پڑھی ا ور کچن میں آ کر برتن دھونے لگی۔ ساتھ ا پنی ماں کو دن بھر کی روداد سنانے لگی۔’ امّاں فاریہ کہتی ہے اس نے ٹیسٹ کے لیے کچھ پڑھا ہی نہیں، بس کام کرتی رہی مہمانوں کے لیے۔ پھر وه پاس کیسے ہو جاتی ہے؟ ‘ ۔

’وه بس فکر زیاده کرتی ہے ……ا ور ہو سکتا ہے اﷲ اس کو مہمان نوا زی کا اجر اسے پاس کروا کے دیتا ہو‘ ۔

’کیاآٹا گوندھنے والا ہے؟‘ ۔

’نہیں وه علیز ه نے گوندھ دیا تھا‘ ۔

اس کی دونوں بہنیں علیز ه ا ور فائقہ اس سے چھوٹی تھیں۔ علیز ه ایم بی بی ایس کے پہلے سال میں تھی ا ور فائقہ گیارہویں جماعت میں پڑھتی تھی۔

’ آج ہماری ایک میم جو موٹی سی ہیں…… میم تنزیلہ ……کرسی سے گر گئیں! ا ن کا کوئی صفحہ ٹیبل سے نیچے گر گیا تھا، اس کواٹھاتے اٹھاتے بیچاری کی چیئر کے ٹائر پھسل گئے ا ور وہ گر گئیں۔ سب سٹوڈنٹس مشکل سے ہنسی دبائے بیٹھے تھے۔ بس را حیلہ اٹھ کےبھاگی انہیں اٹھانے…… ‘ ۔

’اچھاا اا……! چچ چچ چچ بیچاری!…… زیاده چوٹ تو نہیں آئی؟‘ ۔

’نہیں…… کہہ رہی تھیں بچت ہو گئی‘ ، فاطمہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

برتن دھو کر و ه ٹی وی لاؤنج میں جا بیٹھی جہاں اس کی دونوں بہنیں ٹی وی چلا کر بیٹھی تھیں۔

’ کیا ہو رہا ہے بھئی۔ تم دونوں کب سے ادھر بیٹھی ہو، دیکھو! بھائی بھی آگیا …… چلو اٹھو شاباش……روٹی پکاؤ، میں ابھی سارے برتن دھو کر آئی ہوں‘،فاطمہ نے بڑی بہنوں کے مخصوص انداز میں حکم جاری کیا ۔ علیزہ تابعداری جبکہ فائقہ ذرا سا منہ بناتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

فاطمہ کے ابو قطر میں ہو تے تھے ۔ وہاں ان کا ریسٹورنٹ تھا۔ عدیل بھائی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے جہاں ان کا میکینکل انجنیئرنگ کا آخری سمسٹر چل رہا تھا ۔فاطمہ سائیکالوجی پڑھ رہی تھی،اس کا دوسرا سمسٹر تھا۔

٭٭٭٭٭

رات کا آخری پہر تھا ۔ عدیل اﷲ کے آگے کھڑا گریہ وزا ری کر رہا تھا…… چپکے چپکے رو رہا تھا……دل ہی دل میں اﷲ سے فریاد کررہا تھا۔ ساتھ میں سورۃ رحمٰن کی تلاوت کر رہا تھا…… آہستہ آہستہ کہ کہیں کسی کی آنکھ نہ کھل جائے۔ نہایت احترا م ا ور محبت سے دو نفل پڑھ کروه اﷲ کے سامنے ہاتھ پھیلا ئے بیٹھ گیا، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ وه سجدے میں گرپڑا ا ورماتھا ز مین پر رگڑتے ہو ئے اﷲ سے فریاد کرنے لگا۔

’ا ے میرے مالک! میرے ربّ! میرے پاک پر وردگار! ……‘

’میرے رحیم ربّ! میرے کریم ربّ!……‘

’میرے اﷲ! میں بہت گناہگار ہوں! مجھے معاف کر د ے مالک!……‘

’تو غفور و رحیم ہے…… مالک تجھے تو معاف کرنا پسند ہے…… تُو تو توبہ کرنےوالے کو پسند کرتا ہے……! مالک! مجھ خطاکارکو بھی معاف کر د ے! ……مالک! میں نہیں اٹھوں گا جب تک تو مجھے معاف نہیں کر دیتا !……‘

’یونہی تیرے سامنے پڑا رہوں گا، روتا رہوں گا جب تک تو معاف نہیں کر دیتا مالک……!‘

کتنی ہی دیرگریہ و زاری کرنے کے بعد اس کو کچھ سکون ملا ا ور اس نے سر اٹھایا۔ ایک بار پھر ہاتھ پھیلا کر دعا مانگنے لگا ۔

’ مالک! مجھ سے اپنے دین کا کام لے لے……! مجھ حقیر ا ور ذلیل کو اپنے دین کی خدمت کرنے کا موقع د ے د ے……مالک! میری بہنوں کی عزتوں کی حفاظت فرمانا……‘ ۔اس کے ساتھ ہی وه ہچکیوں سے رو نےلگا۔

’میری بہنیں ……!!ا ن کی عزتیں مالک……!! ‘

’مالک میری شا می بہنیں…میری فلسطینی بہنیں! جو یہودیوں کےتسلط میں ره رہی ہیں…… مالک ان کی عزتوں کی حفاظت فرما……!‘،آنسو اس کے گال بھگوتے ہوئے ڈاڑھی میں گم ہونے لگے۔

’…… میرے مجاہد بھائی مالک…… !‘

’ …… میرے بھائیوں کی مدد فرما……!‘۔

’ …… مجھے شہادت کی موت عطا کر د ے مولا! ……‘

کتنی دیر وه روتا رہا…… پھر تھک گیا ا ور جائےنماز پر ہی لیٹ گیا…… دائیں کروٹ کے بل ،آنکھیں بند کر کے… تھوڑی دیر لیٹا ہو گا کہ فجر کی اذا ن سنائی دینے لگی۔ وه اٹھا…… وضو کیا، بہنوں ا ور ماں کونماز کے لیے آوا ز دی ا ور مسجد کی طرف چل پڑا۔ فاطمہ اور حلیمہ بھی اٹھ گئیں۔ مگر فائقہ ا ور علیز ه ا وں آں کر کے پھر سو گئیں۔

عدیل نماز کے بعد مسجد ہی میں تلاوتِ قرآن میں مشغول ہو گیا۔ پھر جب واپس آیا توموبائل پر ’بھائی جان‘ کا میسج آیا ہوا تھا۔ ملنے کو کہا تھا ۔ عدیل نے جواب میں مختصر سا’ا وکے‘ لکھا اور فون بیڈپر اچھال کر کچن میں ناشتہ بنانے چلا گیا۔ یہ اس کا معمول تھا کہ ناشتہ وه بناتا تھا۔ تیار کر کے ماں کے آگے رکھتا ا ور فاطمہ،فائقہ اور علیز ه کو آوا ز دیتا۔ جب فاطمہ یو نیورسٹی کے لیے تیار ہو کر باہر آئی حلیمہ تسبیح کر رہی تھیں۔ فاطمہ جلدی جلدی ناشتہ کرنےلگی۔

’فاطمہ ہزا ر بار کہا ہے کہ بنده جلدی تیار ہو جاتا ہے…… پھر یہ بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی……‘ ۔

’کوئی بات نہیں امّاں !بھائی ہے ناں…… یہ چھوڑ آئے گا‘،فاطمہ نے مسکرا کر بھائی کو دیکھا۔

’ ہاں ا ور میں تو آپ کا غلام ہوں نا۔ مجھے ا ور کون سا کوئی کام ہے‘۔ عدیل مصنوعی خفگی سے بولا تو فاطمہ ہنس دی۔اسے اپنے بھائی سے بہت محبت تھی۔’اچھا امی اﷲ حافظ۔اﷲ حافظ بھائی‘، فاطمہ نقاب چڑھاتی باہر بھاگی۔ ’ السلام علیکم‘، عدیل نے جواب دیا۔

’ امی انہوں نے کالج نہیں جانا۔ سوئی ہیں مزے سے……‘

’کب سے اٹھا رہی ہوں بیٹا۔ اٹھ ہی نہیں رہیں‘ ۔

عدیل نے دونوں کو آوا ز دی تو وه فوراً اٹھ گئیں ۔ بھائی کا کہا نہیں ٹالتی تھیں۔

دونوں تیار ہو کر ناشتہ کرنے لگیں۔ اتنے میں ان کی گا ڑی آگئی ا ور وه بھی بیگ اٹھا کے باہر بھاگیں۔عدیل بھی یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنے لگا۔

’امّاں کچھ لانے والا تو نہیں؟‘،

’ ہاں یہ پرچی پرلکھ دیا ہے میں نے ‘،

’ السلام علیکم امی جان‘، عدیل نے حلیمہ کی پیشانی چومی، گاڑی سٹارٹ کی ا ور چلا گیا۔حلیمہ نے دعاؤں کے ساتھ اپنے سپوت کو رخصت کیا۔

٭٭٭٭٭

عدیل کی کلاس شروع ہونے میں ابھی وقت تھا تو وه قریبی کیفے میں بھائی جان سے ملنے چلا آیا جو اس کےمنتظر تھے۔

’السلام علیکم بھائی……‘۔

’ وعلیکم السلام ورحمۃا ﷲ عدیل !کیسے ہو بھائی؟‘۔

’ ٹھیک…… الحمدللہ ‘۔

’عدیل کام آگیا ہے۔ یہ ر سالے تقسیم کر دینا ا ور سناؤ اپنے حلقے میں کام کیسا چل رہا ہے؟ وه لڑکا کاشف ذرا ٹیڑھا ہے اس کی طرف سے خبردا ر رہنا ا ور ابھی صرف توحید ا ور آخرت کا سبق پکا کرنا ہے……یاد ہے نا……؟ کسی بحث میں مت الجھنا…‘۔

’ جی بھائی سمجھ گیا۔ میرا مضمون بھی چھپا ہے ؟‘،عدیل رسا لے کھول کر دیکھ رہا تھا۔

’جی بالکل اتنے فصیح لکھاری کا مضمو ن ہم ردی کی ٹوکری کو تھوڑا ہی کھلاتے ہیں…… ‘، بھائی جان مسکرا کر بولے۔ مسکرانے سے اس کے چہرے کا نور ا ور دمکنے لگا۔

’ میں کہاں لکھا ری ہوں بھائی۔ یہ تو بس اﷲ کا کرم ہے اس نےلکھنے کی توفیق ا ور آپ جیسے ایمان کے ساتھی عطا کیے ورنہ میں کہاں کا فقیر…… ‘۔

’ بس اﷲ ہم سے ہمارا عمل قبول کر لے ا ور ہمارا نام شہدا ء میں لکھ لے عدیل، ا ور کوئی حاجت نہیں……‘،بھائی جان سنجیدگی سے بولے۔

’ جی بھائی بالکل۔ اچھا بھائی کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے‘۔عدیل گھڑی دیکھتے ہوئے اٹھا۔ بھائی جان بھی اٹےا، ہاتھ آگے بڑھایا ۔

’ ٹھیک ہے دوست! اﷲ تمہاری حفاظت فرمائے۔ ایمان میں اضافہ، دین میں ثبات ا ور جنت میں ہمیں پڑوسی بنائے……‘

’ آمین بھائی……!‘۔

٭٭٭٭٭

علیز ه اپنے امتحان کی تیاری کر رہی تھی۔ ساتھ میں موبائل بھی رکھا تھا ا ور وقفے وقفے سے اسے بھی دیکھ رہی تھی۔ اس کی سٹیج تھی جس کی تیاری میں وہ مصروف تھی ا ور ساتھ میں فرح کے ساتھ chat بھی چل رہی تھی۔

’علیز ه! پڑھتے وقت اس فون کو بند کر دیا کرو، ایسے انسان کا دھیان نہیں رہتا پڑھائی پر‘، امّاں نے دوسری بار علیز ه کو ٹو کا ۔

’امی! میرا دھیان پڑھائی کی طرف ہی ہے۔ میں فون کے بغیر نہیں پڑھ سکتی‘۔

فاطمہ نے امی کی طرف دیکھا کہ اسے سمجھانے کا کوئی فائده نہیں ہے۔ چھوڑ دیں اس کے حال پر۔حلیمہ خاموش ہو گئیں۔ فاطمہ رات کے کھانے کے لیے برتن لگانے لگی۔

’یہ عدیل کہاں ره گیا۔ مغرب کی نماز پڑھنے گیا تھا، عشاء کا وقت ہو گیا ہے‘۔

’ بھائی رسالے تقسیم کرنے گئے ہیں……‘۔فائقہ جو رسالہ آنکھوں سےلگائے پڑھ رہی تھی نے پڑھتے پڑھتے جواب دیا۔

’ امّاں!‘، فاطمہ نے پریشان نظروں سے حلیمہ کی طرف دیکھا۔

’بیٹی اسے معلوم ہے اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ پھر اﷲ مددگار ہے فاطمہ……! جب تک وقت نہیں آجاتا وه اﷲ کی امان میں رہے گاا ور جب وقت آگیا تو پھر وه کسی تہہ خانے میں بھی محفوظ ہو ،اسے امتحان سے کوئی نہیں بچا پا ئےگا……‘۔

’امّاں آپ اتنے اطمینان سے یہ کیسے کہہ سکتی ہیں ، آپ کو خوف نہیں آتا؟! ‘ ۔

’ فاطمہ بچے! مجھے اﷲ پر بھروسہ ہے! وہی مددگار ہے ا ور وہی قادر ا ور رقیب ہے۔ عدیل میرے پاس اﷲ کی امانت ہے۔ میں نےاس راه پر اسے جانتے بوجھتے اﷲ کے سپرد کیا ہے۔ تم اپنے دل کو مطمئن رکھو! ‘ ۔

’السلام علیکم! کیا بنایا ہے فاطمہ؟ مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے! ‘، عدیل گھر میں داخل ہوتے ہی بولا۔

’ دا ل چاول! آپ کے پسندیده…‘ ،فاطمہ نے جلدی سے اپنی آنکھیں رگڑیں ۔

’ ہمم ……! مجھے تو ایک میل سے ہی خوشبو آرہی تھی۔ میں ہاتھ دھو کر آتا ہوں‘۔

٭٭٭٭٭

’ فاطمہ یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ اکیلی اس وقت؟ کیا ہوا ہے ادھردیکھو…… تم رو رہی ہو؟‘۔ عدیل فاطمہ کو ڈھونڈتے ہوئے چھت پرآگیا ،جہاں وه چاند کو دیکھتے ہوئے رو رہی تھی ۔

’کچھ نہیں عدیل بھائی۔ آپ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ آپ کیسے کر لیتے ہیں یہ سب۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا؟ میرے تو دل میں سوچ کے ہی ہول اٹھنے لگتے ہیں۔ آج پھر آپ رسالے تقسیم کرنے گئے تھے…… مت کریں بھائی…… پلیز چھوڑ دیں یہ کا م!…… میں آپ کو کھونانہیں چاہتی!‘، ساتھ ہی فاطمہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’ا رے پاگل لڑکی! ادھر آؤ!‘، عدیل فاطمہ کو چپ کرانے لگا۔

’فاطمہ یہ راستہ ہی تو میری زندگی ہے۔ اس راستے پر چلنا ہی تو مجھے زنده رکھے ہوئے ہے ۔ میں تم لوگوں کی وجہ سےمحاذ پر نہیں جا سکتا تو یہی میرا محاذ ہے۔ یہی میری زندگی ہے فاطمہ۔ مرنا تو سب کو ہے ایک دن۔ تو کیوں نہ ایسے رستے پرچلتے ہوئے جان دیں جو جنت کی طرف لےجاتا ہے۔ جو میرے نبی ﷺا ور صحابہؓ کا محبوب راستہ ہے۔ مجھے اپنے مجاہد بھائیوں کی مدد کرنی ہے جو محاذ پر دشمن سے برسر پیکار ہیں ۔

؎یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

تم میرے لیے بس دعا کیا کرو فاطمہ، پریشان نہ ہوا کرو۔ اﷲوا رث ہے۔ جب میرا وقت آئے گا نا تب ہی آئے گا…… اس سے پہلے کچھ نہیں ہو سکتا مجھے …… ‘ ۔

’ امّاں بھی اتنی مطمئن ہیں عدیل بھائی ۔ لیکن مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں کیسے زنده ره پاؤں گی آپ کے بغیر……‘۔

’ میری پیاری بہن، تمہیں تو فخر ہونا چاہیے……بہنیں تو اپنے بھائیوں کا سہارا ہوتی ہیں۔ تمہیں امّاں کو ہمت، حوصلہ دینا چاہیے، الٹاامّاں تمہیں ہمت دیتی ہیں۔ چلو شاباش چپ کرو…… بس میرے لیے دعا کیا کرو کہ اﷲ مجھے قبول کر لے اپنے راستے میں‘۔

’آمین……‘۔

ساتھ ہی چاند نے بھی مسکرا کر اس بندۂ مومن کی دعا پر آمین کہا ۔

٭٭٭٭٭

زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ فاطمہ کا رشتہ ڈاکٹر ذیشان کے ساتھ طے پا گیا۔ ابھی اس کی منگنی کو دو ہی دن ہوئے تھے ۔ وه مطمئن تھی، ڈاکٹر ذیشان اسی کی طرح شریف النفس ا ورعاجز مزاج آدمی تھا ۔ حلیمہ بھی مطمئن تھیں ۔

عدیل آج کل کچھ پریشان رہنے لگا تھا۔ ان کے دوست ’بھائی جان‘ کو خفیہ ایجنسی والے اٹھا کے لے گئے تھے ا ور اس کا کچھ اتا پتانہ تھا۔ اس کے گھر والے بھی سخت پریشان تھے۔

حالات دیکھتے ہوئے عدیل نے گھر میں موجود رسالے ا ور باقی لٹریچر یا تقسیم کر دیا تھا یا جلا دیا تھا۔ اپنے حلقے کے درس بھی ختم کر دیےتھے۔ زیاده وقت گھر پر ہی رہتا۔ بس یونیورسٹی سے گھر ا ور گھر سے یونیورسٹی۔ اپنے سٹور پر بھی کم ہی جاتا۔ اسے اس کا دوست ا رسلان چلا رہا تھا۔ عدیل کی یہ حا لت دیکھ کر امّاں کی دعاؤں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ فاطمہ بھی ہمہ وقت فکرمند رہتی تھی،اس کی پڑھائی ختم ہو گئی تھی ا ور اب وه گھر پر ہی ہوتی تھی ۔ فائقہ نے انٹری ٹیسٹ میں مطلوبہ نمبر حاصل نہ کر پانے کے بعد سائیکالوجی کا مضمون رکھ لیا تھا اور اب وہ اپنی پڑھائی کو زیاده توجہ دیا کرتی تھی ۔ ہاں سب سے چھپ کے اس نے کچھ رسالے چھپا لیے تھے۔

ا ور آخر دو مئی کی رات بھی آگئی ۔ حلیمہ کا صبح سے بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا۔ وه بس تسبیح پڑھے جا رہی تھیں۔ فاطمہ بھی بےچین تھی۔ کبھی ایک کمرے ا ور کبھی دوسرے کمرے میں جاتی۔ عدیل نماز پڑھنے جاتا ا ور جب تک واپس نہ آ جاتا وه بےچینی سے ٹہلتی رہتی۔ فائقہ کالج سے واپس آگئی تھی۔ علیز ه بھی اپنے کمر ےسے باہر آگئی تھی۔ عدیل اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ پر کچھ کام کررہے تھا۔ ایک ایک کر کے سب سونے چلے گئے۔رات کے دو بجےبیل کی چنگھا ڑتی ہوئی آوا ز سے سب کی آنکھ کھل گئی۔ ساتھ ہی دروا زه بھی دھڑ دھڑ پیٹا جانے لگا۔ عدیل فوراً سے اٹھ کر باہر لپکا۔ پیچھے سے حلیمہ کی آوا ز آئی۔

’یااﷲخیر! یا اﷲ! میرے بچے کی حفاظت فرمانا……‘۔

’کون ہو بھائی؟! دروا زه توڑنا ہے کیا!؟‘، دروا زه مسلسل پیٹا جارہا تھا۔ عدیل نے دروا زه کھولا ا ور دس باره مسلح افراد گھر میں داخل ہوگئے ۔

’ ا رے!! یہ کیا کر رہے ہو! کون لوگ ہو تم!!! ‘،

’ امّاں یہ کیا ہو رہا ہے!! ‘ ،

’ عدیل بھائی یہ کون لوگ ہیں؟!! ‘،

’ یہ کیا بدتمیزی ہے! کیسے میرے گھر میں گھسے چلے آرہے ہو؟!! ‘،

ایک شخص نے عدیل کی آنکھوں کے آگے اپنا کارڈ لہرایا ا ور بولا،’ ہم اینٹی ٹیررزم سکواڈ ہیں……تمہارے متعلق ہمیں کچھ خدشات ہیں جن کا دور کرنا ضروری ہے۔ابھی میری ٹیم تمہارے گھر کی تلاشی لے گی ا ور پھر تمہیں ہمار ے ساتھ چند گھنٹوں کے لیے جانا ہوگا۔ کچھ سوالات پوچھیں گے ا ور پھر تمہیں واپس تمہارے گھر چھوڑ دیں گے…… سمپل! ‘۔

تینوں لڑکیاں ا ور حلیمہ اپنی چادریں ا وڑھے عدیل کے ساتھ سہمی کھڑی تھیں ۔

’آپ ہمارے بھائی کو کہیں نہیں لے کر جائیں گے! جو پوچھنا ہے یہیں پوچھیں۔ میرا بھائی دہشت گرد نہیں ہے!‘،فاطمہ ہمت کرکے آگے بڑھی۔

’کیا خدشات ہیں میرے بچے کے متعلق؟‘۔

’ ہم بھائی کو نہیں لے جانے دیں گے آپ کو!‘، فائقہ گرجی۔

’ دیکھو بچے……امّاں جی! تھوڑی سی دیر کی بات ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ ہم خود عدیل کو ڈراپ کر جائیں گے جیسے لے کر جارہے ہیں۔ بس کچھ خدشات ہیں جن کے بار ے میں آپ کو نہیں بتا سکتے۔ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں ا ور ہم آپ کو تنگ نہیں کریں گے‘۔

اتنی دیر میں جو آدمی اندر تلاشی لینے گھسے تھے وه باہر آگئے۔ ان کے ہاتھوں میں کچھ رسالے، کاغذات ا ور عدیل بھائی کالیپ ٹاپ ا ور فون تھا۔ ’ چلو آجاؤ عدیل بیٹا ہمارے ساتھ…… ٹھیک ہے آنٹی جی…! آپ کا بیٹا ہمارے پاس امانت ہے میں اسے خود واپس چھوڑ جاؤں گا۔ بس ایک دو گھنٹوں کی بات ہے۔ ٹھیک ہے بچو! آپ نے پریشان نہیں ہونا! گڈ بائے!‘۔

ایک فرد عدیل کا بازو پکڑ کر باہر لے جانے لگا ۔ باہر دووویگو ڈالے کھڑے تھے۔ سیاه ر نگ کے، سیاه شیشوں والے۔ عدیل کو اندربٹھایا ا ور ایک دم سے گاڑیاں بھگا کر لے گئے جیسے وه کبھی آئے ہی نہ ہوں۔ سیاه رات کی تاریکی میں حلیمہ کے چاند کو وه ظالم اٹھا کر لے گئے۔ ایک دو گھنٹوں کے لیے، جو کہ چھ ماه میں بدل گئے تھے ا ور ابھی تک عدیل کی کچھ خبر نہ تھی کہ وه کہاں ہے……اور کس حال میں ہے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version