وہ اس ٹھنڈے اور برفیلے کمرے میں داخل ہوا تو اس کو اپنے دل کی کیفیت سمجھ نہیں آرہی تھی۔اس کا دل لگتا تھا جیسے ہر قسم کے جذبات سے بالکل عاری ہوگیا ہو۔وہ زندہ لاش بنا اپنے سامنے موجود شخص کو دیکھ رہا تھا جو شاید اس جگہ کا منتظم تھا۔
’’آئیں بابا جی …آپ ہی ہارون شریف ہیں؟‘‘وہ شخص پیشہ ورانہ انداز میں بولا۔
’’جی میرا نام ہی ہارون شریف ہے!‘‘
’’ٹھیک ہے …آجائیں!‘‘
وہ اس کے پیچھے بڑھا تو اس کے قدم اس کا ساتھ نہ دیتے تھے۔اس کا پورا جسم کپکپاتے ہوئے بمشکل اپنے پیروں پر گھسٹ رہا تھا۔
’’ ۱۱۲ نمبر خانہ کھولو!…بابا جی اس کو وصول کرنے آئے ہیں!‘‘
منتظم یہ کہہ کر واپس چلا گیا جبکہ وہاں موجود شخص کچھ دیر تاسف سے اپنے سامنے کھڑے سفید ریش بزرگ کو دیکھتا رہا، پھر ایک لاکر کی طرف بڑھا اور اس کا دروازہ کھول دیا۔
ہارون شریف کا دل دھڑکنا بھول گیا۔
٭٭٭٭٭
آج جمعہ تھا اس لیے سکول سے جلدی چھٹی ہوگئی تھی۔وہ اپنے دونوں بہن بھائیوں کے ساتھ خوشی خوشی سکول سے باہر نکلا ۔
’’دادا ابو!‘‘اپنے دادا کو سکول کے گیٹ کے باہر ہی کھڑا پاکر وہ خوشی سے ان کی طرف دوڑے ۔
’’السلام علیکم کیسے ہومیرے شہزادو ؟‘‘دادا ابو نے تینوں کو باری باری پیار کیا۔
’’بالکل ٹھیک ٹھاک!‘‘وہ مسکرایا’’دادا ابو…ایک چھلّی لے دیں! …آج تو جمعہ ہے نا!‘‘
سکول کے باہر کھڑے چھلّی والے کو دیکھ کر تینوں کے منہ میں پانی آگیا تھا۔
’’موسیٰ ! آپ کی اماں ڈانٹیں گی!‘‘دادا ابو نے اس کو ڈرایا’’پھرعیسیٰٰ اور منال صحیح طرح کھانا بھی نہیں کھاتے!‘‘
’’دادا ابو! وعدہ ہم صحیح کھانا کھائیں گے!…اس بار پکّا وعدہ کررہے ہیں!‘‘
دادا ابو نے ان کی منت سماجت کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور چھلّی لینے ریڑھی والے کے پاس چلے گئے جبکہ وہ تینوں گاڑی میں جاکر بیٹھ گئے۔
’’دادا ابو کتنے پیارے ہیں ناں!‘‘منال کو آج شاید اپنے دادا پر بہت ہی پیار آرہا تھا۔
اس کے دادا تھے بھی واقعی بہت خوبصورت۔شلوار قمیض میں ملبوس ، سفید داڑھی اور کندھےپر سفید رومال رکھے وہ خالص دیہاتی انداز میں کھڑے تھے مگر ان تینوں بچوں کو اپنے دادا کا یہ انداز بھی بہت پیارا لگتا تھا۔مگر ان کی گہری آنکھوں میں ہر وقت چھائی غم کی پرچھائیاں ان کو ہمیشہ بے چین کر دیتی تھیں۔
’’شاید ہمارے بابا بھی دادا جیسے ہی ہوں!‘‘موسیٰ دھیرے سے بولا۔
’’ہوسکتا ہے!‘‘عیسیٰ بھی کھوئے کھوئے انداز میں بولا،’’کاش ہمارے پاس اپنے بابا کی کوئی تصویر ہوتی!‘‘۔
’’موسیٰ بھائی! آخر ہمارے بابا ہیں کہاں؟ کیا آپ نے کبھی نہیں سوچا؟‘‘،منال اس کی جانب مڑی۔
’’اماں نے بتایا تو تھا کہ وہ دبئی گئے ہوئے ہیں…‘‘،عیسیٰ نے جلدی سے کہا۔
’’مجھے نہیں لگتا!‘‘،منال آنکھیں مٹکا کر بولی،’’میں دادا ابو سے پوچھو ں گی!‘‘۔
’’یہ غلطی نہ کرنا!‘‘،موسیٰ تیزی سے بولا۔
’’کیوں؟‘‘،عیسیٰ اور منال اس کے انداز پر چونک گئے۔
’’ان کو بابا کی طرف سے کوئی بہت گہرا دکھ پہنچا ہے …وہ ان کا ذکر بھی نہیں سن سکتے!‘‘۔
’’مگر…‘‘،ابھی منال کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ ان کو دادا گاڑی کی طرف بڑھتے نظر آئے۔
’’چپ ہوجاؤ اور سارا راستہ بابا کے بارے میں کوئی بات بھی نہ کرنا!‘‘،موسیٰ نے ان کو تنبیہ کی۔
’’ٹھیک ہے!‘‘،دونوں نے اثبات میں سر ہلادیے۔
اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا۔اپنے باپ کو گھر کے منظر نامے سے غائب پایا تھا۔اس نے اپنے دادا اور دادی کو بے حد غمزدہ اور اپنی ماں کو بھری جوانی میں بیواؤں والی زندگی گزارتے دیکھا تھا۔ ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل نہ تھی بلکہ وہ ایک اوسط درجے کے شہری تھے۔ان کے دادا دادی قریب کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتے تھے اور شاید چند سال پہلے ہی یہاں شہر میں شفٹ ہوئے تھے۔تینوں بچے اچھے سکولوں میں پڑھتے تھے اور شہری زندگی کے عادی تھے۔
باپ کا گھر میں نہ ہونا اور ان کا کسی قسم کا ذکر ن
ہ کیا جانا حتیٰ کہ خاندان بھر میں ان کے بارے میں کوئی بات نہ کرنا ان تینوں کے لیے ایک معمہ بن چکا تھا۔وہ تینوں اب اتنے چھوٹے نہ تھے کہ باپ کی کمی محسوس نہ کرتے۔دس سالہ موسیٰ،اس سے ایک سال چھوٹاعیسیٰ اور دو سال چھوٹی منال نے اپنے باپ کے بارے میں جاننے کی ہر کوشش کرکے دیکھ لی تھی مگر وہ ابھی تک ناکام ہی رہے تھے۔
گھر پہنچ کر آج وہ تینوں کچھ اداسی محسوس کر رہے تھے۔دادا ابو بھی تھکے ہوئے لگ رہے تھے اس لیے فوراً ہی سونے چلے گئے۔یہ معمول کے خلاف تو تھا مگر ان تینوں نے کوئی توجہ نہ دی اور اپنے اپنے کمروں میں آگئے۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ موسیٰ کچھ ڈھونڈنے اپنی اماں کے کمرے میں آیا……اس کے رنگوں کا ڈبہ گم ہوگیا تھا اور اپنے کمرے میں تلاش کے بعد بھی نہ ملا تو وہ اماں کی الماریاں کھول کر دیکھنے لگا۔ اماں کی الماریاں اور دراز کھنگالنے کے بعد اس کو آخر رنگوں کا ڈبہ مل ہی گیا۔ڈبہ ہاتھ میں لے کر اس نے الماری کا پٹ بند کیا ہی تھا کہ کاغذات کا ایک بریف کیس باہر آگرا۔شاید امّاں کچھ دیر پہلے ہی رکھ کر گئی تھیں کیونکہ بریف کیس صحیح طرح بند نہ تھا جس کے نتیجے میں اس میں سے کاغذات نکل کر زمین پر بکھر گئے۔
موسیٰ گھبرا گیا۔اس کی اماں آگئیں تو سخت ناراض ہوں گی۔وہ جانتا تھا کہ اماں ان کاغذات کی بہت حفاظت کرتی تھیں اور کبھی بھی کسی بچے کو ہاتھ نہ لگانے دیتی تھیں۔وہ جلدی سے جھک کر کاغذات سمیٹنے لگا۔
اچانک تیزی سے حرکت کرتے اس کے ہاتھ رک گئے۔اس نے جو دیکھا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔یہ کاغذ کا ٹکڑا، اس پر لکھا نام اور نیچے درج ایف آئی آر سب کچھ ناقابل فہم تھا۔
اس نے جلدی سے وہ کاغذ کا ٹکڑا اپنی جیب میں ڈال لیا۔
اس کے ہاتھ بری طرح کپکپانے لگے۔جلدی جلدی بریف کیس بند کیا اور اپنے کمرے میں آگیا۔
اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
٭٭٭٭٭
ہسپتال میں بے شمار لو گ ادھر سے اُدھرآ جارہے تھے۔ملاقاتیوں کا بھی ہجوم تھا۔اس سرکاری ہسپتال کے بے تحاشہ رش میں ایک جانب کو ایک خوبصورت نوجوان اور اس کی بوڑھی ماں بھی بیٹھی تھیں۔وہ بے چینی سے ہسپتال کے ویٹنگ ایریا میں بیٹھے ایک ایک منٹ گن رہے تھے۔
’’امی ایک گھنٹہ ہوگیا ہے…ثمینہ کو اندر گئے…ابھی تک کوئی ڈاکٹر باہر کیوں نہیں آیا؟‘‘،نوجوان نے بہت بے چینی سے اپنے پہلو میں بیٹھی اپنی بوڑھی ماں سے پوچھا ۔
’’بیٹا اتنا وقت تو لگنا نارمل ہے…بس اللہ سے دعا کرو کہ اس دفعہ اللہ تجھے بیٹے کی نعمت سے نواز دے!‘‘،بوڑھی ماں تسبیح پر نجانے کون کون سے وظیفے پڑھ رہی تھی۔
’’اللہ جو بھی دے اس کی نعمت ہی ہے امی!‘‘،وہ دھیرے سے بولا،’’اللہ بس نیک اور صحت مند بچہ دے!‘‘۔
’’چل! کبھی منہ سے دعا بھی کر لیا کر!‘‘،بوڑھی ماں کچھ ناراض ہوکر بولی۔’’کیا حرج ہے اگر مالک سے بیٹا مانگ لے!…‘‘۔
وہ خاموش ہوگیا اور ہسپتال کے کاریڈور میں میٹرنٹی وارڈ میں داخل ہو تے اور باہر نکلتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔میٹرنٹی وارڈ میں معمول کی طرح خوب گہما گہمی تھی۔باقی ہسپتال کے برعکس یہاں آنے والے لوگ ہسپتال کے اس شعبے سے اکثر خوشیاں ہی سمیٹتے تھے۔آج بھی دنیا میں آنے والی نئی پود اپنے گھر والوں کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیر رہی تھی۔
اچانک سامنے والے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک برقع پوش خاتون تیزی سے ان کی طرف آتی نظر آئی۔وہ اور اس کی ماں بھی بے تابی سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھے۔
’’کیا ہوا آپا؟‘‘،اس نے بے تابی سے پوچھا۔
’’مبارک ہو ہارون!…اللہ نے تمہاری شکر گزاری کا صلہ دیا ہے!‘‘۔
’’کیا ہوا؟کیا بیٹا ہوا ہے؟‘‘،بوڑھی ماں بے ساختہ خوش ہوکر بولی۔
’’جی امی!‘‘آپا خوشی سے چہکی۔
’’اللہ تیرا شکر! تو نے میرے بیٹے کو اپنی نعمت دے دی!‘‘،بوڑھی ماں اب ہارون کی بلائیں لینے لگی تھیں۔
’’ثمینہ کیسی ہے؟بچہ کیسا ہے؟‘‘،
’’ثمینہ بالکل ٹھیک ہے…البتہ‘‘،آپا کچھ کہتے ہوئے رک گئیں۔
’’کیا ہوا سلمیٰ ؟جلد ی بول!‘‘،بوڑھی ماں تیزی سے بولیں۔
’’بچے کو سانس لینے میں دقّت ہورہی تھی…ڈاکٹر اس کو نرسری میں لے گئے ہیں…وہاں آکسیجن لگا رہے ہیں!‘‘۔
اسی لمحے گائناکالوجسٹ بھی کمرے سے باہر نکل آئی۔
’’اللہ مبارک کرے ماں اور بچہ بالکل ٹھیک ہیں…بس بچے کو آکسیجن لگا رہے ہیں…اس کو سانس لینے میں کچھ مشکل پیش آرہی ہے!‘‘،ڈاکٹر صاحبہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ سجائے ان کو بتا کر چلی گئیں۔
بظاہر تو ڈاکٹر ان کی تسلی کرواکر ہی گئی تھی مگر ہارون کو نجانے کیوں لگا تھا کہ وہ بچے کے لیے پریشان تھی۔
’’امی! کچھ صدقہ کردیتے ہیں!‘‘۔
’’ہاں ! تم صحیح کہہ رہے ہو!‘‘،
اس کی ماں اپنے دوپٹے کے پلو میں بندھے پیسے ڈھونڈنے لگی۔
’’یہ لو بیس روپے ہیں…وہ جو چوکیدار کھڑا ہے اس کو دے آؤ!‘‘۔
ہارون نے بھی اپنی جیب سے ٹوٹے پیسے نکالے اور پیسے لے کر چوکیدار کی طرف بڑھ گیا۔
’’کیسی ہو ثمینہ؟‘‘،ہارون دھیرے سے اپنی بیوی کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
وہ بے حد تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔چہرے کا رنگ بالکل پیلا پڑ گیا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں…مگر کاکا کہاں ہے؟‘‘،ثمینہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
’’کاکے کو بس لے کر آتے ہی ہوں گے فکر نہ کرو!‘‘،ہارون کی بجائے اس کی بوڑھی ماں بولی۔
’’عائشہ اور حریم بھی ہسپتال آنے کے لیے ضد کررہی ہیں…میں نے اجمل سے کہہ دیا تھا کہ آپا کو گھر چھوڑ دے اور ٹیکسی پر بچیوں کو لے آئے!‘‘،ہارون ثمینہ کی جانب دیکھ کر بولا۔
’’وہ بھائی کو دیکھنے کو بے چین ہوں گی نا!‘‘،ثمینہ مسکرائی۔
وارڈ میں ان کے علاوہ بھی دس بستر لگے ہوئے تھے۔ملاقاتیوں کا وقت تھا اس لیے ہر بستر کے گرد پردے کھنچے ہوئے تھے۔
اچانک ان کے بستر کا پردہ ہلا اور ایک ڈکٹر اورایک نرس ان کے پاس آگئی۔
’’بچہ بھوکا ہے…ہم نے ماں کو نرسری لے کر جانا ہے‘‘،ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا تو ہارون خاموشی سے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
بوڑھی ماں ثمینہ کو اٹھا نے لگی۔وہ دونوں نرس کے ساتھ نرسری کی طرف بڑھ گئیں، ڈاکٹر اپنے کمرے کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ وہ بے اختیار ہی ان کی طرف لپکا۔
’’ڈاکٹر صاحبہ! بچہ کیسا ہے؟‘‘،
’’بچہ اب کافی بہتر ہے…اگر شام تک خود سے سانس لینے کے قابل ہوگیا تو اس کو کمرے میں منتقل کر دیا جائے گا!‘‘۔
وہ یہ کہہ کر چلی گئیں۔جبکہ ہارون کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
’’یا اللہ میرے بچے کو بچا لےتو…ہمیں اس آزمائش میں نہ ڈال…دیا بھی تو نے ہی ہے …واپس بھی تو لے سکتا ہے مگر…تو ہم پر اپنا رحم فرما دے!‘‘۔
اس نے نجانے کتنی تڑپ سے مانگا تھا کہ شام تک بچے کی طبیعت بحال ہوگئی اور اس کو وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا۔
’’ہائے امّی جی کاکا کتنا پیارا ہے ناں!‘‘، دونوں بڑی بہنیں کاکے پر جھکی ہوئی تھیں۔
’’چل پیچھے ہٹ ‘‘،دادی نے پیار سے ان کو ڈپٹا،’’بھائی پہلے ہی بیمار تھا…اب کوئی اور مرض نہ لگا دینا!‘‘۔
دونوں مایوسی سے پیچھے ہٹ گئیں۔
’’ابو جی! کاکے کو کب گھر لے جائیں گے؟‘‘،دونوں میں سے جو بڑی تھی نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’بس عائشہ بیٹی دعا کر و کہ بھائی بالکل ٹھیک ہوجائے تو ہم کل ہی گھر آجائیں گے!‘‘۔
’’اللہ کرے بھائی ٹھیک ہوجائے!‘‘،دونوں نے ایک ساتھ ہاتھ اٹھادئیے۔
ہارون نے بھی بچے کو پہلی دفعہ ہی دیکھا تھا۔وہ کتنا پیارا اور ننھا منا سا تھا۔گلابی چہرے پر وہ آنکھیں مٹکا مٹکا کر سب کو دیکھ رہا تھا۔ایک گھنٹہ قبل ہی نرس اس کو ان کے پاس لے آئی تھی۔دو دن نرسری میں رہنے کے بعد اب بچہ صحت مند ہوچکا تھا۔
’’نام کیا رکھیں گے؟‘‘اس نے اس کے ہاتھ چوم کر پوچھا۔
’’ابوبکر!‘‘،عائشہ فوراً چلّائی۔
’’نہیں عثمان!‘‘،حریم بولی۔
دونوں نے آج کل میں اپنی اپنی اردو کی کتاب میں جس صحابی کی سیرت پڑھی تھی اس کا نام رکھنا چاہتی تھیں۔
’’ابوبکر تو ہمارےخاندان میں پہلے بھی ہیں…عثمان ہی رکھ لیتے ہیں!‘‘۔
’’عثمان! ‘‘وہ دونوں خوش ہوگئیں۔
’’اچھا اب میں ان دونوں کو واپس گھر چھوڑ آتا ہوں…کل سکول بھی تو جانا ہے!‘‘،ہارون اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔
دونوں بچیوں کے چہرے پر مایوسی بہت واضح تھی۔وہ اتنی جلدی جانا نہیں چاہتی تھیں۔
’’اچھی بچیوں کی طرح رہنا…چچی کو تنگ نہ کرنا‘‘،دادی نے دونوں کو چمکارا،’’اور چچا کی بچیوں سے لڑائی نہ کرنا…کل تک میں بھی گھر آجاؤں گی ان شاءاللہ!‘‘۔
’’چلو اٹھو چلیں!‘‘،ہارون بولا۔
دونوں بادل نخواستہ اٹھ گئیں۔
آج ان کے گھر میں گویا عید کا سماں تھا۔اور کیوں نہ ہوتا۔ان کے گھر میں پہلے بیٹے کی آمد جو تھی۔ہارون اپنے ماں باپ کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔وہ سات بہن بھائی میں سب سے بڑا تھا اور فیصل آباد کے قریب ہی ایک قصبے میں اس کی کریانے کی دکان تھی۔ہارون کے تین بھائی شادی شدہ تھے اور وہ ایک ساتھ ہی رہتے تھے۔تینوں کی ہی ابھی تک نرینہ اولاد نہ تھی۔جس کی وجہ سے ہارون کی بوڑھی ماں آئے دن پریشان رہتی تھی۔ہارون کو البتہ اپنی بچیاں بھی اتنی عزیز تھیں کہ اس کو کبھی محسوس ہی نہ ہوا تھا کہ اس کا بیٹا نہیں تھا۔مگر اب جو گھر میں بیٹے کی آمد پر خوشی کا سماں تھاتو ہارون بھی سرشار ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔
’’لے ثمینہ! یہ مٹھائی تو کھا…کاکے کی پریشانی میں تمہارا منہ تومیٹھا ہی نہیں کروایا!‘‘،ہارون نے مسکرا کر مٹھائی کا ڈبہ اس کے سامنے پھیلایا۔
ثمینہ نے مسکرا کر ایک برفی اٹھا کر منہ میں ڈال لی۔
’’محلّے میں بھی بھجوادی؟…‘‘،ثمینہ نے پوچھا تو ہارون نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’مسجد کے امام صاحب اور مدرسے کے مہتمم صاحب کو بھی بجھوادیتے!‘‘۔
’’ٹھیک ہے!‘‘ہارون نے اثبات میں سر ہلایا۔
اچانک گھر میں شور سا مچ گیا۔شاید مہمان پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ان کی گھر آمد کی اطلاع یقیناً رشتہ داروں کو پہنچ گئی تھی۔
’’ابوجی!امی جی!‘‘،عائشہ اور حریم اچھلتی کودتی کمرے میں داخل ہوئیں۔
’’پھپھو اور چھوٹے ماموں آگئے ہیں!‘‘۔
ان کے جملہ مکمل کرنے سے پہلے ہی ہارون کی بہن اور ثمینہ کا بھائی کمرے میں داخل ہوگئے ۔
’’کہاں ہے بھئی ہمارا بھتیجا!…کہاں چھپا کر رکھا ہے!‘‘۔
’’یہ کیا ؟سلام نہ دعا؟ …بھتیجے کی خوشی میں ہمیں بھی بھول گئیں؟‘‘،ہارون مسکراتے ہوئے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
’’السلام علیکم!‘‘،بچوں کی پھپھو ذرا سا جھینپی،’’آپ لوگ تو پرانے ہوگئے ہیں…ہم تو اپنے بھتیجے کی خوشی میں آئے ہیں…اللہ مبارک کرے!‘‘۔
وہ ثمینہ کے برابر میں لیٹے ننھے سے وجود پر جھکتے ہوئے بولی ۔پھر اپنے دوپٹے کے پلو میں سے چند نوٹ نکالے۔
’’یہ لے…میرے بھتیجے کی رونمائی!‘‘،اس نے پیسے اس کے سر پر ایسے گھمائے گویا اس کو کسی چیزی کی دھونی دے رہی ہو۔
’’اور یہ میری طرف سے…‘‘،ماموں بھی آگے بڑھے اور بچے کو سلامی دینے لگے۔
دو تین دن تک تو یہی معمول چلتا رہا۔مہمان آتے رہے۔رونق چلتی رہی۔مبارک بادیں ملتی رہیں۔
٭٭٭٭٭
وقت پلک جھپکتے گزر نے لگا۔عثمان گھر بھر کا لاڈلا تھا۔اور اس کے لاڈلے ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے تین سال کے ہوجانے تک بھی ان کے گھر میں کسی لڑکے کی آمد نہ ہوئی۔اس کے بعد دونوں چچاؤں کے گھر میں بیٹے پیدا تو ہوگئے مگر جو اہمیت عثمان کو حاصل تھی وہ کسی دوسرے کی آمد سے کم نہ ہوسکی ۔ہارون اور ثمینہ کا تو وہ لاڈلا تھا ہی۔دادی کی بھی اس میں جان تھی۔اور تو اور ،چچا اور چچی بھی اس کو کسی بات پر جھڑکنے نہ دیتے تھے۔اگر کسی شرارت یا گڑبڑ پر ثمینہ اس کو ایک آدھ چپت لگا دیتی اور وہ روپڑتا تو اس کو چپ کروانے اور ثمینہ کو ڈپٹنے تقریبا ً پورا گھر ہی پہنچ جاتا۔
اتنے لاڈ اور پیار کے باوجود عجیب بات یہ تھی کہ عثمان کا مزاج بالکل بھی نہ بگڑا تھا۔شاید ہارون اور ثمینہ کی اس کے لیے بہت خاص دعائیں تھی جو اللہ نے ان کو ایسی سعید اولاد دی تھی۔وہ پانچ سال کا ہوا تو اس کو قصبے کے ہی ایک سرکاری سکول میں داخل کروادیا گیا۔
’’گرمی بہت ہے ناں!‘‘،ہارون نے اپنے ماتھے پر سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’جی ابو جی! آج گرمی بہت ہی غضب کی پڑرہی ہے…ہماری کلاس کا آج پنکھا بھی خراب ہوگیا تھا!‘‘،عثمان اس کو بتانے لگا۔
’’ابو جی!…آج ہماری مِس نے ہمیں مضمون لکھنے کو کہا ہے!‘‘،عائشہ بھی اس کو بتانے لگی۔
وہ تینوں بچوں کو سکول سے واپس لے کر آرہا تھا۔سکول سے گھر تک فاصلہ اچھا خاصا تھا۔ان کو گھر تک پہنچنے میں ایک پکی سڑک اور بہت سے کھیتوں سے گزرنا پڑتا تھا۔
’’یاا للہ میں تو تھک گیا ہوں…کچھ دیر یہاں بیٹھ جاتے ہیں!‘‘،ہارون ایک برگد کے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
وہ تینوں بچو ں کو لے کر درخت کے سائے میں بیٹھ گیا۔تینوں بچے برگد کے درخت کی شاخوں پر کھیلنے لگے۔ہارون ان کو دلچسپی سے دیکھنے لگا۔
’’کیسا عجیب اور ڈراؤنا سا درخت ہے ناں آپا!‘‘،عثمان درخت کی شاخ پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا تھا۔
’’احتیاط سے عثمان کہیں گر ہی نہ جانا!‘‘،ہارون اس کو بے ڈھنگے طریقے سے چڑھتے دیکھ کر بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا ۔
’’ابو جی ! کچھ بھی نہیں ہوگا…یہ دیکھیں میں چڑھ بھی گیا!‘‘۔وہ ہنس کر بولا اور ایک پل میں وہ شاخ پر چڑھ کر بیٹھ گیا’’اب ابوجی دیکھیے گا کہ میں کتنی بڑی چھلانگ لگاتا ہوں!‘‘۔
’’یا اللہ عثمان! تو لگتا ہےمیرا کلیجا نکال لینے کا ارادہ رکھتا ہے!‘‘،آٹھ سال کے بچے کو اتنی اونچائی سے چھلانگ لگانے کی تیاری کرتے دیکھ کر اس کا دل دہل گیا تھا۔
’’اللہ اکبر!‘‘،عثمان نے چھلانگ لگا دی۔
ہارون جلدی سے اس کی طرف لپکا۔دونوں بہنیں خوشی سے اس کی پیٹھ ٹھونکنے لگیں۔ان کا چھوٹا بھائی تو ان سے بھی زیادہ بہادر نکلا تھا۔
’’دیکھا ابو جی!‘‘،عثمان نے سیدھا کھڑے ہوکر باپ کی داد سمیٹنا چاہی۔
’’چل …تو بس اب گھر چل!‘‘،ہارون کی طرف سے اس کو داد تو نہ ملی بلکہ ہلکی سی چپت پڑ گئی،’’اگر تیرے کو کچھ ہوجاتا تو میں کیا کرتا؟ کیوں میری جان کا دشمن ہوا ہےتُو!‘‘۔
’’ابو جی! میں تو شرفو اور دینو کے ساتھ سارا دن باغ کے درختوں پر چڑھتا اور اس سےبھی بڑی چھلانگیں لگاتا ہوں!‘‘ ،عثمان سینہ تان کربولا۔
ہارون آگے بڑھ گیا تو تینوں بچے بھی اس کے پیچھے لپکتے ہوئے آئے۔
’’ابو جی! گرمی بہت ہے…راستے میں چاچا ملک کی گاڑی کھڑی ہوگی …اس سے گنّے کا جوس تو لے دیں!‘‘،حریم اس کے برابر میں چلنے لگی۔
’’اچھا ٹھیک ہے!‘‘۔
ہارون نے ہامی بھر تو لی مگر جب وہ دکان پر پہنچا اور پیسے نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کو یاد آیا کہ وہ گھر سے نکلتے ہوئے کپڑے تبدیل کرنے کے بعد بٹوہ جیب میں رکھنا ہی بھول گیا۔
’’اوہ میں تو بٹوہ لانا ہی بھول گیا…میرے پاس صرف ایک دو روپے ہی ہیں!‘‘،ہارون نے حریم کی طرف دیکھا،’’ایک روپے سے تو صرف ایک ہی گلاس ملے گا!‘‘۔
’’میرے پاس پانچ روپے ہیں ابو جی!‘‘،عثمان جلدی سے اپنی جیب سے پانچ روپے نکال کر بولا،’’امی جی نے مجھے کھانے کے لیے پیسے دیے تھے مگر میں نے کچھ بھی نہیں کھایا!‘‘۔
’’نہیں تو رہنے دے…‘‘،
’’نہیں ابو جی میں جلدی سے چار گلاس جوس کے لے آتا ہوں!‘‘۔
عثمان اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی دوڑ کر دکان پر چلا گیا اور پھر چار گلاس گنے کے ٹھنڈے شربت کے لے آیا۔
٭٭٭٭٭
موسیٰ دوپہر میں سو کر اٹھ کر باہر آیا تو اس کو خوشگوار حیرت ہوئی۔اس کی پھپھو اپنے بچوں کے ساتھ ملنے آئی تھیں۔عیسیٰ اور منال اس سے پہلے کے اٹھ چکے تھے اور پھپھو کے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
’’امی ! بھائی کے کیس کا کیا بنا؟ ابو جی مجھے آج بہت تھکے ہوئے لگ رہے تھے؟‘‘۔
موسیٰ کو پھپھو کی بات سن کر بہت زور کا جھٹکا لگا۔یہ زندگی میں پہلی دفعہ تھا کہ اس نے اپنے خاندان کے کسی فرد کے منہ سے اپنے باپ کا ذکر سنا تھا۔شاید اس کی وجہ ان کا موسیٰ کی وہاں موجودگی سے لاعلم ہونا تھا۔موسیٰ وہیں جم کر کھڑا ہوگیا اور کمرے کے اندر نہ گیا۔شاید یہیں کھڑے ہوئے اس پر مزید بھی کچھ انکشاف ہوجائے۔
’’کچہری سے آنے کے بعد وہ ہمیشہ ہی تھکے ہوتے ہیں…تمہیں خود ہی اندازہ ہے کہ تمہارا باپ پچھلے سات سال سے ان کچہریوں کے چکر لگا لگا کر اب تھک چکا ہے…اب نئی مصیبت آگئی ہے …جس تھانے میں ایف آئی آر کاٹی گئی تھی وہ تھانے والے ہمارے وکیل کو کیس واپس لینے پر مجبور کر رہے ہیں اور کیس واپس نہ لینے کی صورت میں دھمکیاں دے رہے ہیں!‘‘،دادی دُکھ سے بولیں۔
موسیٰ کے کان اور دماغ دونوں سائیں سائیں کرنے لگے۔وہ دادی کی ایک بات بھی نہ سمجھ سکا۔
کچہری!…سات سال!…تھانہ…وکیل…کیس!
یہ سب کیا تھا؟ کیا اس کے باپ سے متعلق یا پھر کسی اور کی بات ہورہی تھی۔
’’السلام علیکم حریم پھپھو!‘‘،وہ اب مزید وہاں کھڑا نہ رہ سکتا تھا سو کمرے میں داخل ہوگیا۔
حریم پھپھو کا چہرہ ایک دم ہشاش بشاش ہوگیا۔اور وہ اس کی بلائیں لینے لگیں۔
’’جاؤ تمہارے بہن بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں…تم بھی چلے جاؤ!‘‘،دادی نے اس کو بہلا کر باہر بھیجنا چاہا۔
’’میرا دل نہیں چاہ رہا دادی امی!‘‘،موسیٰ بے زاری سے بولا،’’دادا ابو کہاں ہیں؟ کیا سو کر اٹھ گئے؟‘‘۔
’’ہاں ! وہ عصر کی نماز کے لیے وضو کرنے گئے ہیں!‘‘۔
’’پھر میں بھی وضو کرنے جاتا ہوں!‘‘،وہ جلدی سے اٹھ کر وہاں سے باہر نکل گیا۔
٭٭٭٭٭
ہارون دکان سے واپسی پر آج بہت تھک گیا تھا۔اس کا جسم بھی دکھ رہا تھا۔وہ آتے ہی بستر پر ڈھیر ہوگیا۔
’’خیر ہے عثمان کے ابو…آج بہت زیادہ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں!‘‘،ثمینہ کمرے میں داخل ہوئی تو معمول کے خلاف اس کو ہارون بستر پر لیٹا نظر آیا۔
’’ہاں آج دکان کے بعد کھیتوں پر چلا گیا تھا اس لیے زیادہ تھک گیا ہوں…ذرا عثمان سے کہہ کر دکان سے ڈسپرین تو منگوا دو!‘‘۔
’’اچھا میں عثمان سے کہتی ہوں!‘‘،ثمینہ یہ کہہ کر عثمان کو آوازیں دینے لگی۔
’’کتنا چھوٹا سا ہے نا ہمارا بیٹا مگر ابھی سے اس کے ہونے سے کتنی طاقت محسوس ہوتی ہے!‘‘،ہارون دھیرے سے مسکرایا۔
’’اللہ اس کو لمبی زندگی دے…‘‘،اسی لمحے عثمان کمرے میں داخل ہوا۔
’’جی امی جی! ‘‘وہ جلدی سے بولا،’’میں چچا کی طرف گیا ہوا تھا!…اوہ آپ آگئے ابو جی!‘‘،وہ اب جاکر اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔سلام کرکے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
’’ابو کے لیے ڈسپرین لے آؤ عثمان!‘‘،
’’کیوں ابو کو کیا ہوا؟‘‘،
ٹانگوں اور سر میں درد ہورہا ہے!‘‘۔
’’تو میں ہوں نا آپ کی ڈسپرین!‘‘،عثمان چہکا تو ہارون نے اس کے سر پر چپت لگائی۔وہ صحیح ہی تو کہہ رہا تھا۔وہ ان سب کی صرف ڈسپرین ہی نہیں ان کی جان تھا!
’’میں دو منٹ میں لے آتا ہوں!‘‘،وہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔
’’اوہ پیسے تو لے کر ہی نہیں گیا!‘‘،ہارون بڑبڑایا۔
’’وہ اپنے پیسوں سے ہی لائے گا عثمان کے ابا!…جب سے کچھ بڑا ہوا ہے پیسے نہیں مانگتا…میں جو پیسے اس کے جیب خرچ کے لیے دیتی ہوں … گھر کی تمام چیزیں انہی پیسوں سے لاتا رہتا ہے…اپنے اوپر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا!‘‘۔
’’ہائے میرا بچہ…تو خود ہی اس کو کچھ لے دیا کر…آخر اس کا بھی تو دوسرے بچوں کی طرح کچھ کھانے پینے کو جی چاہتا ہوگا!‘‘۔وہ دونوں ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ عثمان واپس آگیا۔
’’یہ لیں ابو جی ڈسپرین!…آپا!…ذرا ایک گلاس پانی کا تو لیتی آنا!‘‘۔
چند لمحوں میں پانی بھی آگیا اور دوا بھی کھالی گئی۔عائشہ تو واپس چلی گئی مگر عثمان وہاں سے ٹلنے پر تیار نہ تھا۔وہ اپنے باپ سے دن بھر کی روداد اور باتیں سننا چاہتا تھا۔
’’چل اب اپنے ابو کو کچھ آرام کرنے دے اور جاکر کچھ پڑھ لے!‘‘،
’’امی جی! میں ابو سے صرف باتیں کر رہا ہوں!‘‘،عثمان جلدی سے بولا پھر اس سے پہلے کہ ثمینہ کچھ کہتی وہ ہارون کے پیر اور سر دبانے لگا۔
’’ابو جی ! مزہ آیا؟‘‘،
’’ہاں ہاں! بڑا اچھا دباتا ہے میرا بیٹا!‘‘،ثمینہ ہنس دی اور کمرے سے نکل گئی۔
’’اچھا ابو جی بتائیں نا …آج دکان پر کون کون آیا؟…‘‘،عثمان روز انہ کی طرح اس سے پوچھنے لگا اور ہارون اس کو بتانے لگا۔
’’اور کھیتوں میں رحیمو سے ملے؟…‘‘،ہارون پھر تفصیل سے بتانے لگا۔
’’ابو جی! کل سے گندم کی کٹائی شروع ہورہی ہے…میں بھی رحیمو چاچا کے بچوں اور شریف الدین کے ساتھ چلا جاؤں؟‘‘،
’’تیری پڑھائی کا حرج نہیں ہوگا؟‘‘،
’’نہیں ابو جی! اکثر بچے اسی وجہ سے چھٹی لے رہے ہیں…استاد نے خود بھی اپنے کھیت دیکھنے ہیں اس لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا!‘‘۔
’’ٹھیک ہے چلے جانا!‘‘۔
’’آپ کے درد کا اب کیا حال ہے؟‘‘،اچانک وہ بولا۔
’’اب بالکل ٹھیک ہے!…‘‘،ہارون مسکرایا۔
’’آپ کی ڈسپرین میں جو ہوں!‘‘،عثمان بڑی ادا سے مسکرایا۔
٭٭٭٭٭
(جاری ہے، ان شاء اللہ)