ہماری اولادیں، والدین، مال و اسباب اور یہ روح و بدن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہزار ہزار بار قربان۔ یہ آپؐ کی محبت ہے جو صدیوں سے آپؐ کا حلیہ مبارک مختلف شکلوں میں اہلِ علم و اہلِ عشق میں بیان کرواتی رہی ہے اور اصل شئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک شریعت اور آپ ؐ کی مبارک سنتوں کا اتباع ہے۔ رنگ کالا ہو، ہونٹ موٹے موٹے، نسل کا حبشی ہو اور ذات کا غلام، لیکن اتباع میں کامل ہو تو ماہِ نبوت کا ہالہ ’سیّدنا بلالؓ‘ ہو جاتا ہے۔ حضورِ پر نور کا حلیہ بھی حفظ کرتے ہیں اور آپؐ کی شریعت کی اتباع کا عزم بھی! (مدیر)
شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرتِ حسانِ ابنِ ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وأحسن منك لم ترقط عیني
وأجمل منك لم تلد النساء
خلقت مبرئاً من کل عیبٍ
کأنك قد خلقت کما تشاء
’’تیرے جیسا حسین، میری آنکھ نے نہیں دیکھا۔ تیرے جیسے جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے۔ آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا۔ ‘‘
علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن و جمال میں سے بہت تھوڑا سا ظاہر فرمایا، اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اس کو برداشت نہ کر سکتیں۔ یوسُف علیہ السلام کا سارا حُسن ظاہر کیا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن کی چند جھلکیاں دکھلائی گئیں، باقی سب مستور رہیں۔ کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس جمال کی تاب لا سکتی۔ ‘‘
امِ معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’میں نے ایک نوجوان دیکھا، بڑا صاف ستھرا۔ حسین سفید چمکتا چہرہ گویا نوخیز کَلی ہو (کلیوں میں جو رونق ہوتی ہے، وہ پھول میں نہیں ہوتی)۔ نہ ایسے موٹے تھے کہ نظروں میں جچیں نہیں اور نہ ایسے کمزور اور دُبلے تھے کہ بے رُعب ہو جائیں۔ وسیمٌ قسیمٌ تھے……(وسیم یعنی وہ حسین جس کو جتنا دیکھیں، اس کا حُسن اتنا بڑھتا چلا جائے، جسے دیکھتے ہوئے آنکھ نہ بھرے اور قسیم یعنی جس حسین کا ہر عضو الگ الگ حُسن کی ترجمانی کرتا ہو، جس کا ہر عضو حسن میں کامل اور اکمل ہو)۔اُس کی پلکیں بڑی دراز۔ اُس کی آنکھیں بڑی حسین، موٹی، سیاہ۔ اس کی داڑھی بڑی خوبصورت اور گھنی۔ اس کی گردن صراحی دار اور لمبی۔ آواز میں کشش اور رعب۔ ‘‘
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’حضورﷺ نہ زیادہ لمبے تھے، نہ کوتاہ قد، ہتھیلیاں اور دونوں پاؤں پُر گوشت تھے (یہ صفات مردوں کے لیے محمود ہیں اس لیے کہ قوت اور شجاعت کی علامت ہیں۔ عورتوں کے لیے مذموم ہیں) حضورﷺ کا سر مبارک بھی بڑا تھا اور اعضاء کے جوڑ کی ہڈیاں بھی بڑی تھیں۔ سینہ سے لے کر ناف تک بالوں کی ایک باریک دھاری تھی۔ جب حضورﷺچلتے تھے تو گویا کہ کسی اونچی جگہ سے نیچے کو اتر رہے ہیں۔ میں نے حضورﷺ جیسا نہ پہلے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔ ‘‘
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ :
’’میں نے کسی کو سرخ جوڑے میں حضور اقدسﷺ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا، آپﷺ کے بال مونڈھوں تک رہے ہیں، اور آپﷺ نہ زیادہ لمبے تھے نہ پست قد۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’حضور اقدسﷺ نہ بہت لمبے قد کے تھے نہ پستہ قد بلکہ آپﷺ کا قدمبارک درمیانہ تھا نیز رنگ کے اعتبار سے نہ بالکل سفید تھے چونے کی طرح، نہ بالکل گندمی کہ سانولا بن جائے (بلکہ چودھویں رات کےچاند سے زیادہ روشن، پُرنور اور کچھ ملاحت لیے ہوئے تھے) حضوراقدسﷺ کے بال نہ بالکل سیدھے تھےنہ بالکل پیچ دار (بلکہ ہلکی سی پیچیدگی اور گھونگریالا پن تھا ) چالیس برس کی عمر ہوجانے پر حق تعالیٰ جل شانہ نے آپﷺ کو نبی بنایا اور پھر دس برس مکہ مکرمہ میں رہے (اس میں کلام ہے جیسا کہ فوائد میں آتا ہے)۔ ‘‘
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے کہ :
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم درمیانہ قد تھے، نہ زیادہ طویل نہ پست، نہایت خوب صورت معتدل بدن والے، حضور ﷺ کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے نہ بالکل سیدھے (بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی اور گھونگریالا پن تھا) نیز آپﷺ گندمی رنگ کے تھے۔ جب حضورﷺ راستہ چلتے تو آگے کو جھکے ہوئے چلتے۔‘‘
نواسۂ رسولؐ حضرت حسن ابنِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے حضوراکرمﷺ کا حلیہ مبارک دریافت کیا اور وہ حضورﷺ کے حلیہ مبارک کو بہت ہی کثرت سے اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے۔ مجھے خواہش ہوئی کہ وہ ان اوصافِ جمیلہ میں سے کچھ میرے سامنے بھی ذکر کریں تاکہ میں ان کے بیان کو اپنے لیے حجت اور سند بناؤں۔ (اور ان اوصافِ جمیلہ کو ذہن نشین کرنے اور ممکن ہوسکے تو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کروں، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر حضورﷺ کے وصال کے وقت سات سال کی تھی۔ اس لیے حضورﷺ کے اوصافِ جمیلہ میں اپنی کم سنی کی وجہ سے تامل اور کمال تحفظ کا موقع نہیں ملا تھا ) ماموں جان نے حضورﷺ کے حلیہ شریف کے متعلق یہ فرمایا کہ:
’آپﷺخود اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے شاندار تھے اور دوسروں کی نظروں میں بھی رتبہ والے تھے، آپﷺ کا چہرہ مبارک ماہِ بدر (چودھویں کے چاند) کی طرح چمکتا تھا۔ آپﷺ کا قد مبارک بالکل متوسط قد والے آدمی سے کسی قدر طویل تھا لیکن لمبے قد والے سے پست تھا، سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک کسی قدر بل کھائے ہوئے تھے۔ اگر سر مبارک میں اتفاقاً خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے، ورنہ آپﷺ خود مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے۔‘
(یہ مشہور ترجمہ ہے اس بنا پر یہ اشکال پیش آتا ہے کہ حضورﷺ کا قصداً مانگ نکالنا روایات سے ثابت ہے۔ اس اشکال کے جواب میں علماء یہ فرماتے ہیں کہ اس کو ابتدائے زمانہ پر محمول کیا جائے کہ اول حضورﷺ کو اہتمام نہیں تھا، لیکن بندۂ ناچیز کے نزدیک یہ جواب اس لیے مشکل ہے کہ حضورﷺ کی عادتِ شریفہ مشرکین کے مخالف اور اہل کتاب کی موافقت کی وجہ سے مانگ نہ نکالنے کی تھی، اس کے بعد پھر مانگ نکالنی شروع فرمادی، اس لیے اچھا ترجمہ جس کو بعض علماء نے ترجیح دی ہے وہ یہ کہ اگر بسہولت مانگ نکل آتی تو نکال لیتے اور اگر کسی وجہ سے بسہولت نہ نکلتی اور کنگھی وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو اس وقت نہ نکالتے، کسی دوسرے وقت جب کنگھی وغیرہ موجود ہوتی نکال لیتے)۔
جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’حضور اکرمﷺ فراخ دہن تھے، آپﷺ کی آنکھوں کی سفیدی میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے، ایڑی مبارک پر بہت کم گوشت تھا‘‘۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ:
’’میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضوراقدسﷺ کو دیکھ رہا تھا۔ میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپﷺ کو، بالآخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ حضورﷺ چاند سے کہیں زیادہ جمیل و حسین اور منور ہیں۔‘‘
ابو اسحاق کہتے ہیں کہ:
کسی شخص نے حضرت براء سے پوچھا کہ کیا حضور اقدسﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح شفاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ بدر کی طرح روشن گولائی لیے ہوئے تھا۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’حضور اقدسﷺ اس قدر صاف شفاف، حسین و خوب صورت تھے کہ گویا کہ چاندی سے آپﷺ کا بدن مبارک ڈھالا گیا ہے۔ آپﷺ کے بال مبارک قدرے خم دار گھونگریالے تھے۔‘‘
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ
’’مجھ پر سب انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام پیش کیے گئے یعنی مجھے دکھائے گئے۔ پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کو میں نے دیکھا تو ذرا پتلے دبلے بدن کے آدمی تھے گویا کہ قبیلہ شنوئیہ کے لوگوں میں سے ہیں، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو ان سب لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں عروہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) ان سے زیادہ ملتے جلتے معلوم ہوئے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں سے میں خودہی ان کے ساتھ مشابہ ہوں، ایسے ہی اسرائیل (یعقوب) علیہ السلام کو دیکھا تو ان کے ساتھ زیادہ مشابہ ان لوگوں میں سے جو میری نظر میں ہیں وہ دحیہ کلبی ہیں۔ ‘‘
سعید جریری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ:
’’حضور اقدسﷺ کو دیکھنے والوں میں اب روئے زمین پر میرے سوا کوئی نہیں رہا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے حضورﷺ کا کچھ حلیہ بیان کیجیے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضورﷺ سفید رنگ تھے ملاحت کے ساتھ یعنی سرخی مائل اور معتدل جسم والے تھے۔ ‘‘
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’حضور اقدسﷺ کے اگلے دانت مبارک کچھ کشادہ تھے ، گنجان نہ تھے جب حضوراقدسﷺ تکلم فرماتے تو ایک نور سا ظاہر ہوتا جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا۔‘‘
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’حضورﷺ میانہ قد تھے۔ آپﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان اوروں سے قدرے زیادہ فاصلہ تھا (جس سے سینہ مبارک چوڑا ہونا بھی معلوم ہوگیا) گنجان بالوں والے ، جو کان کی لو تک ہوتےتھے، آپﷺ پر ایک سرخ دھاری کا جوڑا یعنی لنگی اور چادرتھی۔ میں نے آپﷺ سے زیادہ حسین کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘
ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں (یعنی پوتے ہیں) وہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضورﷺ کے حلیہ مبارک کا بیان فرماتے تو کہا کرتے تھے کہ :
’’حضورﷺ نہ زیادہ لمبے تھے، نہ زیادہ پستہ قد بلکہ میانہ قد لوگوں میں تھے ۔ حضورﷺ کے بال مبارک نہ بالکل پیچ دار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لیے ہوئے تھے۔ نہ آپﷺ موٹے بدن کے تھے نہ گول چہرہ کے البتہ تھوڑی سی گولائی آپﷺ کے چہرہ مبارک میں تھی (یعنی چہرہ انور نہ بالکل گول تھانہ بالکل لانبا بلکہ دونوں کے درمیان تھا) حضورﷺ کا رنگ سرخی مائل سفید تھا۔ حضورﷺ کی مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں اور پلکیں دراز، بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں (مثلاً کہنیاں اور گھٹنے اور ایسے ہی دونوں مونڈھوں کے درمیان کی جگہ بھی موٹی اور پُر گوشت تھی، آپﷺ کے بدن مبارک پر( معمولی طور سے زائد) بال نہیں تھے (یعنی بعض آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بدن پر بال زیادہ ہوتے ہیں حضورﷺ کے بدن مبارک پر خاص خاص حصوں کے علاوہ جیسے بازو پنڈلیاں وغیرہ ان کے علاوہ اور کہیں بال نہ تھے) آپﷺ کے سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی لکیر تھی آپﷺ کے ہاتھ اور قدم مبارک پُر گوشت تھے۔
جب آپﷺ تشریف لے چلتے تو قدموں کو قوت سے اُٹھاتے گویا کہ پستی کی طرف چل رہے ہیں، جب آپ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن مبارک کے ساتھ توجہ فرماتے تھے (یعنی یہ کہ صرف گردن پھیر کر کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے کہ اس طرح دوسروں کے ساتھ لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات متکبرانہ حالت ہوجاتی ہے، بلکہ سینہ مبارک سمیت اس طرف رخ فرماتے۔ بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بھی فرمایا ہے کہ جب آپﷺ توجہ فرماتے تو تمام چہرہ مبارک سے فرماتے، کن اکھیوں سے نہیں ملاحظہ فرماتےتھے۔)آپﷺ کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپﷺ سب سے زیادہ سخی دل والے تھے۔ او ر سب سے زیادہ سچی زبان والے تھے۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت والے تھے۔ اور سب سے زیادہ شریف گھرانے والے تھے۔ (غرض آپﷺ دل و زبان، طبیعت، خاندان، ذاتی اور نسبتی اوصاف ہر چیز میں سب سے زیادہ افضل تھے) آپﷺ کو جو شخص یکایک دیکھتا مرعوب ہوجاتا تھا (یعنی آپﷺ کا وقار اس قدر زیادہ تھا کہ اول میں دیکھنے والا رعب کی وجہ سے ہیبت میں آجاتا تھا) اول تو جمال اور خوبصورتی کی وجہ سے بھی رعب ہوتا ہے، اس کے علاوہ جب کمالات کا اضافہ ہوتو پھر رعب کا کیا پوچھنا۔ اس کے علاوہ حضورﷺ کو جو مخصوص چیزیں عطا ہوئیں، ان میں رعب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا۔ اور جو شخص پہچان کرمیل جول کرتا تھا وہ (آپﷺ کے اخلاق کریمہ و اوصاف جمیلہ کا گھائل ہوکر) آپﷺ کو محبوب بنالیتا تھا۔ آپﷺ کا حلیہ بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتاہے کہ میں نے حضورﷺ جیسا باجمال و باکمال نہ حضورﷺ سے پہلے دیکھا نہ بعد میں دیکھا۔‘‘
اللھم صلِّ وسلّم علیٰ نبیّنا محمد و علیٰ آلِ محمد
٭٭٭٭٭