شہیدِ ازل

آٹھویں جماعت کے زمانے ہی سے افغانستان کے محاذ پر آتے جاتے رہے۔جدید تعلیم کے سخت مخالف تھے۔اس لیے ابّاکے اصرارکے باوجود آٹھویں سے آگے پڑھنے پر راضی نہ ہویے۔ماشاء اللہ بلاکے ذہین تھے۔ ابّاکی خوشنودی کی خاطرمیٹرک پرائیویٹ پاس کیا اور ۸۸۸نمبر لیے۔پچھلی جماعت میں ۳۱۳نمبر حاصل کیے تھے۔امتحانات کے حوالے سے ان کے یہ حیران کن نمبرات ابتدا ہی سے ان کی عجیب وغریب زندگی کا پتہ دے رہے تھے ۔حفظ سے فارغ ہوتے ہی دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔مقامی مدارس میں دوتین درجے پڑھنے کے بعدکراچی کے جامعہ بنوریہ کی ایک شاخ میں داخلہ لیا۔یہاں بعض مجاہد ساتھیوں کی ترغیب سےاُن کے دعوتی مجموعے کا حصہ بنے اور مرتے دم تک اس کا حصہ رہے۔تاہم چھٹیوں میں افغانستان کے محاذ کا چکر لگاتے اور صلیبی دشمن کو پچھاڑنے میں بساط بھر حصہ ڈالتے رہے۔ اِس دوران اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے افغانستان کے محاذ پر تاریخی فتح عطا کی توانہوں نے اپنے آپ کو دعوتِ جہاد کی سرگرمیوں کے لیے وقف کردیا۔ وہ مبتدی ساتھیوں کو دعوت دینے کے لیے آڈیو ویڈیوکی بجایے کتب کے مؤثر ہونے کے زیادہ قائل تھے۔شیخ اُسامہ بن لادن ،شیخ ایمن الظواہری ، مولانا عاصم عمراوراستاد احمدفاروق کےتحریری دروس اور کتابیں پرنٹ کرکے تقسیم کرتے۔اپنی پانچ چھ سالہ دعوتی سرگرمیوں کے دوران بلا مبالغہ ہزاروں دعوتی کتب تقسیم کیں اورنہ صرف ہزاروں طلبہ کے دلوں میں جہاد کے بھولے ہوئےا سباق کو تازہ کیا بلکہ کراچی کے بڑے بڑے علماء اور شیوخ کودعوت واعداد کے حوالے سے بنیادی کتب ہدیہ کیں ۔اُن کا ایک اُصول یہ تھا کہ جب تک ایک کتاب خود نہ پڑھتے اُس وقت تک دوسرے کو مطالعہ کے لیے نہ دیتے۔اس لیے جہاداور اس کی تفصیلات کے حوالے سے کوئی کتاب ایسی نہ رہی جو ان کی نظر سے نہ گزری ۔

اپنی شہادت سے ایک سال پہلے دورانِ تعطیلات حافظ صاحب گھر آئے تو ان کے ایک مایہ ناز استادمفتی فواد ؒ اوران کے بڑے بھائی کو سی ٹی ڈی والوں نے بھرے بازار سے اغواء کرکے لاپتہ کردیا۔۳۵،۳۰روزکے ذلت آمیز اور وحشیانہ سلوک کے بعد کوئی ’’جرم‘‘ ثابت نہ ہونے پران کو رہا کیا گیا۔اس واقعہ ے نے حافظ صاحب کی جہادی زندگی کی کایہ پلٹ دی۔جہادِ پاکستان کے حوالے سے ان کا نہ کوئی تجربہ تھا نہ زیادہ مطالعہ نہ کوئی خاص دلچسپی۔لیکن اس واقعہ کے بعدجہادِ پاکستان میں غیر معمولی دلچسپی لینے لگے اورایک شہیدعالمِ دین کے صوتی دروس کی ایک تحریری صورت پر مشتمل ایک کتابچہ نفاذِ شریعت کا شرعی راستہ ایک ساتھی کی وساطت سے حاصل کیا۔سوچ سمجھ کر پہلے خود پڑھا اوربعد میں اس کی فوٹوکاپیاں کرکرکےمدارس کے طلبہ کو جہادپاکستان کی شرعی حیثیت سے آگاہ کرتے رہے۔اس کے علاوہ شیخ ِ صادق حضرت مولانا سیّد مختارالدین شاہ دامت برکاتہم کی تصنیف ’’اسرارالعروج ‘‘کے جمہوریت والے حصے کو الگ سے پرنٹ کرکے کئی طلبہ کو جمہوریت کی حقیقت سے آگاہ کرتے رہے۔

اللہ نے حافظ صاحب ؒ کوتقویٰ و للہیت کی خصوصی دولت سے نوازا تھا۔غیرمحرم رشتہ دار خواتین کی موجودگی میں اپنے گھر آنا بند کردیتے۔ایک بار ابّانے اپنی بہن کےساتھ ان کے لیے بھی عمرہ پرجانے کا پروگرام بنایا۔خبیبؒ خوشی خوشی تیار ہونے لگے لیکن جب ان کو پتہ چلا کہ خالہ کے ساتھ ان کی بہو بھی ان کے ہمراہ ہے تو عمرہ پر جانے سے انکار کردیا کہ میں غیرمحرم خاتون کی موجودگی میں کیونکر سفر کرسکتا ہوں۔امی نے ان کا گھر آباد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو کہنے لگے کہ مجھے تو جلد یا بدیر شہید ہونا ہے پھر کیوں ایک کنواری کو بیوہ کرنا چاہتے ہو ۔جب اماں اصرار کرنے لگی توکہا کہ اگرآپ خواہ مخواہ یہ کام کرنا چاہیں گی تومیں کسی بیوہ خاتون سے شادی کروں گا۔

دنیا سے ان کا کوئی سروکار نہ تھا۔جدید تعلیم اور کوئی ہنر نہ جاننے کی وجہ سے ابّاکو ان کی روزگار کاغم کھائے جاررہاتھا۔ایک دن حافظ صاحبؒ سے کہا کہ میں آپ کے لیے شہد کا کاروبار شروع کرنا چاہتاہوں تاکہ آئندہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔انہوں نے کہا ابّا!آپ میری دنیا کی فکر چھوڑدیں ، بس مجھے آخرت کے لیے وقف کردیں۔وہ قندوزکے محاذپرزیادہ رہے اس لیے وہاں کے کماندانوں سے زیادہ تعلق تھا۔فتح کے بعد ان کے کچھ رشتہ دار کابل گئے تو قندوز کے ذمہ داروں کو پتہ چلا تو دو خصوصی گاڑیاں کابل روانہ کیں اورمنت سماجت کرکے قندوز لے جاکر ان کا غیر معمولی اکرام کیا اور کہا کہ ہم خبیبؒ بھائی کے رشتہ داروں کو بغیر اکرام کیے کیونکر چھوڑ سکتے ہیں۔

اعلیٰ مومنانہ صفات ان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں ۔بڑے سخی اور مہمان نواز تھے۔شہادت سےکچھ عرصہ پہلے جس مسجدمیں امام تھےوہاں ایک دن چند مہمان آگئے۔ان کوزورزبردستی چائے پلانے پر آمادہ کیا اور چائے تیار کرنے لگے تو سلنڈر کو گیس سے خالی پایا۔فوراً دوڑے تومہمانوں نے منع کرنا چاہا اور اصرار کیا کہ ہمارے لیے اتنی تکلیف مت اُٹھاؤ۔حافظ صاحبؒ نے ایک نہ سنی اورآناً فاناً سلنڈربھرنے کے ساتھ شیرینی بھی لے آئے۔جاتے ہوئے مہمانوں کو شہدبھی بطورِ ہدیہ دیا۔ایک دن اسی مسجد میں ایک مہما ن آیا اور کہا کہ بھئ میں تو چائے بالکل نہیں پیوں گا۔حافظ صاحب ؒچپکے سے نکلے اور بازار سے گاجر کا حلوہ ڈھونڈ کر لے آئے۔ حافظ صاحب ؒ کو اللہ کی طرف سے اخلاقِ حسنہ کا وافرحصہ عطا کیاگیا تھا۔میرے علم کے مطابق کبھی کسی سے نہیں لڑے نہ کبھی ہم نے ان کو کسی کی غیبت کرتے سنا۔

امیرمحترم سے ان کا ایک خاص تعلق تھا ۔خط وکتابت کے ذریعے ان کو اپنی دعوتی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے اور ہدایات کی درخواست کرتے۔انہوں نے اپنی دعوتی مہمات کے حوالے امیرصاحب کے نام کئی خطوط لکھے۔کوشش کے باوجودہمیں اپنے شہید بھائی کا کوئی خط نہ مل سکا۔البتہ امیر محترم نے ان کے نام ایک خط کے جواب میں جو ہدایات دیں،ان سے چند نکات قارئین کی نذر ہیں:

’’ بسم اللہ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اللہ ومن والاہ

قابل صد احترام اور پیارے خبیب کے نام ،السلام ُعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کے علم وعمل میں برکت دے ،اُس کی رِضا آپ کے شاملِ حال رہےاورآپ عالمِ ربانی اورعالم باعمل بن کر مرحوم ومظلوم امت کے دکھوں کا مداوا بنیں……

……۱)آپ ان کتب کو اپنے پاس سنبھال کر رکھیں اور بڑی حکمت اور صبر کے ساتھ جس کو مناسب سمجھیں ،بتدریج دیتے رہیں۔

۲)دعوتی کام کرنے والے اگرچہ فطری طور پر حریص ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ کام کرتے ہویےبے جاحرص سے بچنا چاہیے تاکہ کسی نااہل اور بے وقوف شخص کو دعوت دے کر اپنی امنیت کو داؤپر نہ لگائیں۔

۳)آپ کی خدمت میں درخواست ہوگی کہ جب تک ایک کتاب خود نہ پڑھ لیں کسی کوپڑھنے کے لیے نہ دیں۔

۴)خود پڑھنے میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ کتاب جس کے لیے مناسب ہو اسی کودےدی جائے اور جس کے لیے مناسب نہ ہو اس کے لیے کسی دوسری مناسب کتاب کا انتخاب کیا جائے۔

۵)بعض لوگوں کوبعض کتب پڑھنے سے ہمارے کام کے بارے میں غلط فہمی اور شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔اس لیے افراد کا جائزہ لینے کے بعد کتاب سوچ سمجھ کر دی جائے۔

۶)ہمارے دعوتی کام کی بنیاد ذاتی تعلق پر ہے۔جس سے جتنا گہرا تعلق ہوگااتناہی اُس پر دعوت کا اثر زیادہ ہوگا۔اس لیے اجنبی اور غیر سنجیدہ لوگوں کو دعوت دینے احتراز کریں ۔حکیم الامت مولان اشرف علی تھانویؒ کے مطابق تعلق اور دوستی بنانے میں احتیاط برتی جائے اور ہر کسی کو دوست بنانے اور ہرکسی سے تعلق رکھنے سے پرہیزکریں ۔

۷)دعوت دیتے ہویے جوشخص جتنا اہم سمجھیں ،ملاقات سے پہلے اتنے ہی نوافل (صلوٰۃ الحاجات ،استخارہ )کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کریں۔

۸)لوگوں کو اپنی دعوت کا ہدف بناتے ہویے اپنے آپ کو ہرگز نہ بھولیں ۔اپنے آپ کوسب سے زیادہ اللہ کے قرب کا محتاج سمجھیں اور اس کام کو سمجھنے ،ذہن نشین کرنے اور بساط بھر دوڑدھوپ کرنے کے بعد اسی کام کو وسیلہ بناکر اللہ کی قرب اوراس کی محبت کا سوال کیا جائے……‘‘

شیخ احسن عزیزؒ کے مطابق ’’آدمی کے من میں بھی اک محاذ ہوتا ہے‘‘ حافظ صاحب ؒ نے ’’من‘‘ کے اِس محاذ کو فتح کرلیا تھا۔وہؒ مدرسہ پڑھتے پڑھتے جوان ہوگئے تھے۔ گھرسے زیادہ مدارس کے ماحول میں رہے ۔ فرقہ ورانہ بحث ومباحثہ اور گروہی تعصب سے کوسوں دورتھے۔ابّاکی وجہ سے دیوبند مکتبۂ فکر سے جذباتی لگاؤ اور تعلق تھا لیکن کبھی کسی کے سامنے اس کا اظہارنہیں کیا۔اسی مکتبۂ فکرکے طلبہ میں دعوت کا کام کرتے ان کو عالمی جہادی فکر کے حوالے سے کتب دیتے اور جہادی زندگی اختیار کرنے کی ترغیب دیتے۔

ہمارے چھوٹے شیخ حافظ خبیب رحمہ اللہ رحمۃً وَّاسعۃ،’’اشرف الموت‘‘ کی تلاش میں یہ سب کچھ کررہے تھے اور وہ اس موت ( شہادت) کے کتنے خواہش مند تھے۔درج ذیل واقعات ان کی شدید خواہش کا پتہ دے رہے ہیں۔ان کے والدین کے مطابق حافظ صاحب پانچ دفعہ اعتکاف میں اس غرض سے بیٹھے کہ یہ عبادت بطورِ وسیلہ اللہ کے سامنے پیش کریں کہ اے میرے اللہ اس اعتکاف کی حرمت سے مجھے شہادت کی دولت سے نوازدے۔محلے کے ایک بزرگ عمرہ کے سفرپر جانے لگے تولوگ آتے اور اپنی اپنی حاجات پیش کرتے کہ ہمارے لیے وہاں اللہ سے یہ دعا مانگی جایے۔امتحانات کا موسم تھا تو اکثر جوانوں نے امتحان میں پوزیشن لینےکے لیے دعا کی درخواست کی۔حافظ صاحبؒ نے بزرگ سے کہا،’’جی میرے لیے اُن مقدس مقامات پر شہادت کی دعا مانگی جائے‘‘ان کے ابّا جب بھی عمرہ کے سفر پر روانہ ہوتے تو خبیبؒ یہی درخواست کرتے کہ میرے لیے شہادت کی دعا مانگیں۔امّاں ان کواکثر کہا کرتیں کہ بیٹا!علم کی تکمیل کے بعد جہاد کرنا تو ان کی تسلی کے لیے ان سے جہادِ افغانستان کے ان محاذوں کے واقعات سناتے جہاں حافظ صاحب دشمن کی بمباری اور فائر کے باوجود بال بال بچے تھے۔کہتے امّاں!علم اور جہاد تو ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

آخرکارخبیث لشکرکے مقامی آلہ کاردوٹکوں کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرنے والے،اللہ کے دین کو بزعمِ خودکاؤنٹر کرنے والے الموسوم بہ سی ٹی ڈی کو حافظ صاحب کی سرگرمیوں کا پتہ چلا توکتوں کی طرح ان کے درودیوارکو سونگھنے لگے۔ان کے گھر چھاپہ مارا مگر ناکام رہے،نامراد رہے تو پھرکسی بدبخت جاسوس کے ذریعے ان کا ٹھکانہ معلوم کرکے ان کو گرفتارکرایا اور جعلی مقابلے کا ڈھونگ رچا کران کو شہید کرکے لاوارثوں میں دفن کردیاتاکہ امت کےاس بطلِ جلیل پر سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی طرح کوئی رونے والا بھی نہ ہو……امّا حمزۃُ فلا بواکیہ لہ………پانچ روز بعدسی ٹی ڈی کے اعلیٰ حکام، ادنیٰ امریکی غلاموں (Peon Soldiers) کی منت سماجت کرکے ان کے والدین کو ان کی نعش نکالنے کی اجازت دی گئی۔لاش نکالی گئی تو ان کے بد ن سے تازہ خون جاری تھا۔ان کے نرم وملائم اعضائے جسمانی بطورِ کرامت ان کی مقبول شہادت کا پتہ دے رہے تھے۔ ان کی شہادت کے پانچ چھ روز بعدان کے آبائی گاؤں میں ان کا نمازِجنازہ پڑھانے کا سوشل میڈیا اور مقامی مساجد میں اعلان ہواتو ایک دنیا جنازے میں شرکت کے لیے اُمڈ آئی ۔جنازہ نہیں ایک جشن تھا ،بارات تھی ہمارے چھوٹے شیخ کی ۔کیا خواص، کیا عوام کوئی اس سعادت سے محرومی کا روادار نہ تھا۔آخری دیدارکے موقع پر ایک ھُو کا عالم تھا۔ان کا خون آلود کفن کسی گلِ لالہ کے شہید ہونے کا پتہ دے رہا تھا۔آج شہادت کے کھیت میں ایک اورلاش اُگ گئی تھی۔شہادت کے گل دستے میں ایک اور پھول کا اضافہ ہوگیا تھا۔اس حسین اورمبارک گل دستے میں ہر قسم کے پھول تھے مگر آج اس میں ’’شہیدِازل لالہ خونیں کفن ‘‘کا اک اورپھول سج گیا تھا۔ اللہ کے دشمنوں کی تباہی کی منزل مزید قریب آگئی تھی۔اللہ نے اپنے ایک عاجزوناتواں بندے کو سچّاکردیا تھا۔اللہ کا ایک سچا بندہ سچ کی خاطرسچے دیس سدھارگیاتھا۔جھوٹ کے بندے تن کی خاطرسب کچھ ہارکرجہنم کا ایندھن بن چکے تھے۔

مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا۝ (سورۃ الاحزاب:۲۳)

’’مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار انہوں نے خداسے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جواپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کررہے ہیں اورانہوں نے اپنے قول کو ذرابھی نہیں بدلا۔‘‘(ترجمہ:مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ)

اللہ ،اُس کے رسولﷺ،اُس کے فرشتوں اور اُس کی ساری مخلوق کی پھٹکار ہونام نہاد پاک فوج پر،اُس کی سی ٹی ڈی ،اس کی ایف سی ،اس کے رینجرپر اور اس کے تمام منصوبہ سازوں پر،اللہ ان سب کو اپنی رحمت سے مزید دور کردے،اللہ اولیاء و صلحاء کے ان اجرتی قاتلوں سے کبھی راضی نہ ہو۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version