جمہوریت کا جال | دوسری قسط

جمہوری نظام میں شرکت کی جھوٹی امیدوں کا پردہ چاک کرتی ہوئی تحریر

محمد ابراہیم لَڈوِک (زید مجدہ) ایک نو مسلم عالمِ دین ہیں جنہوں نے عالَمِ عرب کی کئی جامعات میں علم دین حاصل کیا۔ موصوف نے کفر کے نظام اور اس کی چالوں کو خود اسی کفری معاشرے اور نظام میں رہتے ہوئے دیکھا اور اسے باطل جانا، ثم ایمان سے مشرف ہوئے اور علمِ دین حاصل کیا اور حق کو علی وجہ البصیرۃ جانا، سمجھا اور قبول کیا، پھر اسی حق کے داعی بن گئے اور عالَمِ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے حامی اور بھرپور دفاع کرنے والے بھی بن گئے (نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ ولا نزکي علی اللہ أحدا)۔ انہی کے الفاظ میں: ’میرا نام محمد ابراہیم لَڈوِک ہے ( پیدائشی طور پر الیگزانڈر نیکولئی لڈوک)۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں نے علومِ تاریخ، تنقیدی ادب، علمِ تہذیب، تقابلِ ادیان، فلسفۂ سیاست، فلسفۂ بعد از نو آبادیاتی نظام، اقتصادیات، اور سیاسی اقتصادیات امریکہ اور جرمنی میں پڑھے۔ یہ علوم پڑھنے کے دوران میں نے ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کی جو دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں اور اسی دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ایک سیاسی اور اقتصادی نظام ہے جو حقیقتاً اور بہترین انداز سے ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہے اور یوں میں رمضان ۱۴۳۳ ھ میں مسلمان ہو گیا‘، اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بھائی محمد ابراہیم لڈوک کو استقامت علی الحق عطا فرمائے، آمین۔جدید سرمایہ دارانہ نظام، سیکولر ازم، جمہوریت، اقامتِ دین و خلافت کی اہمیت و فرضیت اور دیگر موضوعات پر آپ کی تحریرات لائقِ استفادہ ہیں۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شیخ محمد ابراہیم لَڈوِک (حفظہ اللہ) کی انگریزی تالیف ’The Democracy Trap‘ کا اردو ترجمہ بطورِ مستعار مضمون پیش کر رہا ہے۔ (ادارہ)


جمہوریت کا جواز

جمہوریت کے حوالے سے ہمیں آج جو سنگین ترین مسئلہ درپیش ہے وہ بعض مسلمانوں کی یہ رائے ہے کہ ضرورت و ناگزیریت کے باعث جمہوریت کا استعمال جائز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متبادل ذرائع دستیاب نہ ہونا ، اور یہ احتمال کہ جمہوریت میں عدم شرکت اس میں شرکت کرنےسےزیادہ نقصان دہ اور بد تر نتائج کی حامل ہو سکتی ہے، اس کا جواز فراہم کرتے ہیں ۔

یہ جواز بعض اوقات نفع و نقصان یا ’’مصلحہ و مفسدہ‘‘ کے عنوان تلے پیش کیا جاتا ہے، جس کا جواب عموماً یہی ہوتا ہے کہ شرک سے بڑھ کر مفسدہ کیا ہو سکتا ہے؟ مگر جواباً یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ جمہوری نظام میں شرکت کے ذریعے خلافِ شرع قوانین کو ختم اور تبدیل کر کے اور ایسے قوانین بنا کر جو شریعت کے ساتھ ہم آہنگ ہوں، معاشرے میں شرک کو کم کیا جاسکتا ہے۔ یوں علمی و نظری اعتبار سے ایک ایساعمل جو کہ براہِ راست غیر اللہ کی عبادت میں مشغول ہونے اور اس کی حمایت کرنے پر مشتمل ہے، اس عمل کا نقصان اور مفسدہ ہلکا نظر آتا ہے ۔

اس نقطۂ نظر کے رد میں عموماً یہ جوابی دلیل دی جاتی ہے کہ ’’(دو برائیوں میں سے) کمتر برائی کے انتخاب‘‘ کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب کوئی متبادل موجود نہ ہو۔ اب بھی جواباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں جمہوریت میں حصہ نہ لینا دونوں میں سے بڑی برائی ہے، کیونکہ ہمارے پاس اسلامی نظام حکومت کو قائم کرنے کی قوت موجود ہی نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اکثر صورتوں میں، جمہوریت میں شرکت ہرگز کمتر برائی نہیں ہے اور یہ کہ ایسے کئی قابلِ عمل راستے موجود ہیں جن کے ذریعے نفاذِ اسلام کے لیے درکار مطلوبہ قوت حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن اکثر لوگ ان راستوں کی سختی اور مشکلات کے سبب ان کی طرف بڑھنے سے کتراتے ہیں۔

کفر اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان کا یہ باہمی تضاد نہایت بنیادی سطح سے ہی شروع ہو جاتا ہے، لہٰذا ایک ایسا نظام جو کفر پر مبنی ہو، کبھی بھی ایسے اقدامات کو قانونی جواز نہیں بخشے گا جو اسلام کے قیام کا باعث بن سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لیے اپنائے گئے مؤثر ترین طریقوں کو بھی اللہ کے یہ دشمن جو پوری دنیا کے قانونی نظام کو کنٹرول کرتےہیں، غیرقانونی بنا دیں گے۔ ایسے طریقوں کی پیروی کرنے کا مطلب خود کو اس موجودہ عالمی نظام میں شرکت سے باہر کر دینا ہے۔ لیکن یہ جاننا اہم ہے کہ موجودہ عالمی نظام اپنی طاقت انہی لوگوں سے حاصل کرتا ہے جو اس میں شرکت کرتے ہیں۔ ہر شخص جو خود کو اس نظام سے الگ کرتا ہے، وہ اس کو کمزور کرتا چلا جاتا ہے۔ اور ہر وہ شخص جو اس میں شمولیت اختیار کرتا ہے، وہ اس کی تقویت کا باعث بنتا ہے، چاہے اس میں شمولیت سے ان کا ارادہ اس کے ذریعے اسلام کونافذ کرنا ہی کیوں نہ ہو۔

مسلمان جب جمہوریت میں حصہ لیتے ہیں تو اس سے اسلامی نظام کے قیام میں تعطل پیدا ہوتا ہے، اولاً کفر پر مبنی سیاسی نظام میں شمولیت کے ذریعے اسے تقویت دینے کے سبب اور ثانیاً وسائل کو ان دینی تحریکوں سے دور کر کے، جو حقیقی معنوں میں باطل قوتوں کے لیے خطرہ ہیں۔

ایک بار اس نظریے کو اپنا لینے کے بعد کہ ’’ ایک بڑے اور بہترمقصد کے حصول کی خاطر‘‘(جس کا تعین بھی ہم اپنی محدود عقلوں کی بنیاد پر خود ہی کر تے ہیں) کفر و حرام کا ارتکاب و استعمال کیا جا سکتا ہے، ہم خود پر پہلے سے بڑے اور شدید تر کفر و حرام افعال کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے لیے ایک نہایت اعلیٰ و ارفع مقصدکا تعین کرتے ہیں (یعنی قیامِ شریعت) اور پھر اس مقصد کے حصول کی خاطر جس بھی حرام کا ارتکاب کرنا پڑے ، اس کی شدت و بڑائی کو اس عظیم ترین مقصد کے پیمانے میں تولتے ہیں، جس کے سامنے وہ ہیچ نظر آتا ہے ۔

تاہم ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ راہِ عمل اچھے نتائج و ثمرات نہیں لاتی ۔ جمہوریت کو استعمال کرنے کی مسلمانوں کی ہر کوشش کا انجام تشدد پرہوا ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ کفار محض انہی حکومتوں کو چلنے دیتے ہیں جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہوں۔ حقیقت میں وہ خود بھی ’’ عوامی خواہشات ‘‘کے احترام کے اپنے ہی ایجاد کردہ نعروں پر یقین نہیں رکھتے، اور وہ جمہوری راستے سے منتخب ہونے والے قائدین جو ان کے مفادات کا تحفظ نہ کرتے ہوں، کو بھی گرانے اور برطرف کرنے کی ایک طویل اور ثابت شدہ تاریخ رکھتے ہیں۔1

جس کا مطلب ہے کہ جمہوری نظام میں مراعات حاصل کرنے کے لیے کی گئی لمبی چوڑی محنت اور سرمایہ کاری، لمحوں میں چھِن سکتی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ دلائل اور حجتوں کا وہ پورا کھاتا جو جمہوری نظام میں شرکت کرنے اور اس کی متعدد برائیوں اور قباحتوں میں مبتلا ہونے کو جواز بخشنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس کی حیثیت نرم ترین معیار کے مطابق بھی مشکوک ہے۔

مطلب یہ کہ جمہوری نظام میں مراعات حاصل کرنے کے لیے جو مختلف صورتوں میں سرمایہ درکار ہے وہ لمحہ بھر میں چھِن سکتا ہے۔ یعنی جمہوری نظام میں شرکت کی مختلف قباحتوں کو جواز دینے کیلیے جو اندازے لگائے گئے تھے وہ سرے سے مشکوک ہی ہیں۔

عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْديِّ قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَفِظْتُ مِنْهُ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ (سنن النسائی ۵۷۱۱)

حضرت ابوالحوراء سعدی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت حسن بن علی ؓ سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی فرمان یاد رکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ کا یہ فرمان یاد رکھا ہے:’’مشکوک اور مشتبہ چیز کو چھوڑ کر وہ اختیار کرو جو مشتبہ نہ ہو‘‘۔

سیاست

سیاسی اداروں کو عادات کےبہت بڑے مجموعے کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ انسان عادات کی مخلوق ہے……جتنا زیادہ ہم ایک عمل کو دہراتے ہیں، اتنا ہی وہ ہماری پختہ عادت بنتا جاتا ہے۔ جو اعمال تسلسل کے ساتھ انجام دیے جائیں وہ کبھی کبھار کیے جانے والوں کاموں کی نسبت زیادہ اثر رکھتے ہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

سَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَاعْلَمُوا أَنْ لَنْ يُدْخِلَ أَحَدَكُمْ عَمَلُهُ الجَنَّةَ، وَأَنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ (صحیح البخاری ۶۴۶۴)

’’درستی کا قصد کرو، افراط تفریط کے درمیان اعتدال کرو اور یقین کرو کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ کم ہو۔‘‘

کسی بھی مذہب کا سب سے اہم جزو اس کی رسومات ہوتی ہیں۔ اسلام کی اہم رسومات میں نماز، حج، زکاۃ کی ادائیگی، جہاد، عقیقہ، ولیمہ و جنازہ وغیرہ شامل ہیں۔ جتنا ان کو دہرایا جائے گا، اتنا ہی یہ معاشرے اور افراد کی زندگیوں میں راسخ ہوتے چلے جائیں گے۔

اسی طرح جمہوریت کی رسومات میں شہریت کی تقسیم، انتخابات، عوام کی ذہن سازی، احتجاجی جلسے اور پارلیمانی اجلاس وغیرہ آجاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کوتکرار سے نافذ کیا جاتا ہے اور مسلسل دہرانے سے ان کو قوی اور مزید پختہ کیا جاتا ہے۔ اس پختہ کرنے کے عمل کا ایک سماجی پہلو بھی ہے کہ جتنا لوگ دوسروں کو یہ کام کرتا ہوا دیکھیں گے اتنا ہی وہ خود بھی یہی سب کرنے کی طرف مائل ہوتے چلے جائیں گے۔

جمہوریت کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ انتخابات کی قانونی حیثیت کا تعین اس بات سے کیا جاتا ہے کہ آبادی کی کتنی تعداد نے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ مثال کے طور پر اگر رائے دہندگان کی تعداد بیس فیصد سے کم ہو، تو ایسے انتخابات کو لوگوں کی خواہشات کی صحیح ترجمانی تصور نہیں کیا جاتا اور منتخب ہونے والے نمائندوں کی قانونی حیثیت بھی ادنیٰ و کمتر سمجھی جاتی ہے۔

اس اعتبار سے انتخابات ایک طرح کے معاہدے کی صورت پیش کرتے ہیں…… آپ کے نمائندے کی فتح کی صورت میں ہم اس کے اختیار و اقتدار کا احترام کریں گے اور اگر ہمارا نمائندہ جیتا تو آپ کو اس کے اختیار کو تسلیم کرنا ہوگا۔ پارلیمانی انتخابات میں چونکہ بالعموم مختلف امیدواروں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے، لہٰذا ان کی قانونی حیثیت کے استحکام اور مضبوطی کا دار و مدار لوگوں کی انتخابی عمل میں شمولیت کی تعداد پر ہوتا ہے۔

یوں اگر آپ کسی نام نہاددینی امیدوار کو بھی ووٹ دیتے ہیں تو اس کا نتیجہ بآسانی ایسے امیدواروں کی جیت اور ان کی مدد و نصرت کی صورت میں نکل سکتا جو ہے جو اسلام سے کھلم کھلا عداوت رکھتے ہوں۔

جمہوری نظام میں شرکت کرنے سے ممکن ہے کہ ایک مسلم سیاست دان اور اس کے ووٹر سیاسی نظام کے عین قلب میں کچھ اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں،ممکن ہے کہ وہ کسی حد تک اس پر اثر انداز ہونے کے بھی قابل ہو جائیں، لیکن اس سارے عمل سے وہ مجموعی طور پر جمہوری نظام کی ساکھ کو ہی مضبوط کر یں گے۔ اپنے تئیں ان کا خیال ہو گا کہ وہ اسلامی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں، جبکہ درحقیقت وہ جمہوریت کے غلبے کو تقویت دے رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں پر مغرب کو!

فتح محض علاقوں کی تسخیر کا نام نہیں، بلکہ نظریات و اقدار کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں کو مسخر کرنا بھی فتح کی ایک قسم ہے۔ جمہوری عمل میں ایک مسلمان اگر سیاسی نظام میں آٹھ درجوں تک گھسنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس دوران یہ نظام خود اس کے اندر دس درجوں تک راسخ ہو جاتا ہے، اور پھر اس کے ذریعے اس کے ووٹر حلقے میں بھی۔ یوں مجموعی طور پر کفار اس سلطنت کی معاشرتی و نفسیاتی زمین پر زیادہ علاقہ فتح کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یہ تمثیل میدانِ جنگ میں جا بجا نظر آتی ہےـ جب کسی چال کے چلنے کا بظاہر نتیجہ کسی علاقے کو دشمن کے ہاتھ کھو دینا ہوتا ہے، لیکن درحقیقت اس نقصان کو برداشت کرنے سے کسی ایسے علاقے کی فتح کا امکان ہو جو حکمت عملی کے اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو۔ ایک تبادلہ ہوتا نظر آتا ہے جس میں فریقین اپنے اپنے طور پر زیادہ ثمرات اکٹھے کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔

اس طرز پر جمہوریت کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کو بعض جدت پسند مسلمان یوں بیان کرتے ہیں کہ’’ہم اسلام کو جدید نہیں کر رہے، بلکہ ہم جدیدیت کو اسلامائز کر رہے ہیں‘‘۔ جبکہ درحقیقت یہ ایک دورویہ سڑک ہے…… وہ جدیدیت کو اسلامائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کوشش میں وہ اسلام کا ایک جدید نمونہ تیار کر رہے ہیں، اور اس کا نقصان نفع سے زیادہ ہے۔ مختصراً ، آپ کو نظام پر جتنی دسترس حاصل ہوتی ہے اس کے مقابلے میں نظام کو آپ پر کہیں زیادہ دسترس حاصل ہو گی۔

یہ سوال کہ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ نفع کے مقابلے میں نقصان زیادہ ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جمہوریت اپنی فطرت کے اعتبار سے ہمیشہ اکثریت کو فائدہ پہنچاتی ہے، جبکہ مسلمان ہمیشہ اقلیت ہی رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کا اطلاق مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی ہوتا ہے کیونکہ علاقائی جمہوریتیں بین الاقوامی جمہوریت کے تابع ہوتی ہیں۔

جس کا مطلب یہ ہےکہ اگر آپ کسی مسلمان کو کسی مسلم اکثریتی ملک میں کوئی اہم سیاسی منصب بھی تفویض کر دیں، تب بھی وہ عالمی برادری کی طرف سے ایک مسلسل دباؤ میں رہے گا، جن کی اکثریت اسلام سے واقف ہی نہیں، کجا یہ کہ اس پر عمل پیرا ہوں۔ مزید یہ کہ، سچ تو یہ ہے کہ کفار خود بھی عالمی سطح پر صحیح معنوں میں جمہوریت کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے…… وہ عسکری، معاشی، تہذیبی اور نفسیاتی سمیت متعدد اقسام کے جنگی حربے استعمال کرتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مسلمان ممالک میں صرف کرپٹ مسلم حکمران ہی اقتدار میں آئے، اور تعاون نہ کرنے والے حکمرانوں کو اکثر مسندِ اقتدار سے بزورِ طاقت ہٹا دیتے ہیں۔

جس سے یہ امر یقینی ہو جاتا ہے کہ عالمی جمہوریت میں طاقت کا توازن ہمیشہ کفار کے حق میں برقرار رہے، اور نظام کا مسلمانوں پر اثر و رسوخ اس اثر و رسوخ سے ہمیشہ زیادہ رہے جو مسلمانوں کا نظام پر ہے۔ یوں ایک مسلمان حکمران کی حیثیت صرف خوراک کی نالی کی سی ہے جس کے ذریعے کفار مسلمان عوام کی رگوں میں اپنے اثر و رسوخ کا زہر انڈیلتے رہیں۔

تہذیب

جمہوریت میں حصہ لینا اس بات کا تقاضا کرتا ہے جمہوری روایات سے مطابقت اختیار کی جائے۔یہ مطابقت محض سیاسی زندگی تک محدود نہیں بلکہ لباس، تقریر، رہن سہن حتیٰ کہ سوچ میں بھی درکار ہے۔ یہ تمام رویے جمہوری نظام اور اس پر مشتمل اقدار کو تمدنی معیارات کے طور پر برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

سیاست میں شمولیت کے مختلف درجات ہیں، اور اگر کوئی شخص نظام کے طے کردہ معیارات سے اپنی مطابقت ثابت نہیں کرتا تو اس کو کبھی بھی جمہوریت کے اندر کسی اعلیٰ عہدے تک ترقی نہیں کرنے دی جائے گی۔ ایک متقی و پرہیز گار مسلمان کو ووٹ کا حق تو مل سکتا ہے، لیکن اس کو کبھی بھی کسی اہم منصب پر پہنچنے کا حقیقی موقع میسر نہیں آئے گا، الّا یہ کہ وہ اپنی شناخت اور اقدار پر سمجھوتہ کر لے۔ اگر وہ اپنی اقدار پر سمجھوتہ کر لے، تب وہ ایک رہنما بن جائے گا اور اس کے حمایتی اس کے پیروکار بن جائیں گے، یعنی اس کے پیروکار بھی اپنی اقدار پر سمجھوتہ کر لیں گے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایسے دستر خوان پر نہ بیٹھا جائے جہاں شراب استعمال ہو رہی ہو۔

مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَجْلِسْ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا بِالْخَمْرِ(جامع ترمذی۔۲۸۰۱)

’’جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جہاں شراب کا دور چلتا ہو ۔‘‘

اس نصیحت پر عمل کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ انسان گناہ پر اپنی رضامندی ظاہر کرنے سےبچا رہتاہے، اور اس اصول کا اطلاق اس وقت بھی ہوتا جب خود کو کسی بھی برے عمل سے الگ کرنے کا موقع ہو۔

عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ} [المائدة: 105] ، وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْكَرَ لَا يُغَيِّرُونَهُ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ(سنن ابن ماجہ ۴۰۰۵)

حضرت قیس بن ابو حازم سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ}’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو سیدھا رکھو۔ جب تم ہدایت پر ہوتو گمراہ لوگ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے‘‘۔ اور ہم نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرمارہے تھے: لوگ جب برائی کو دیکھیں اور اسے ختم نہ کریں (اس سے منع نہ کریں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔

صرف گناہ کے موقع پر موجود ہونا، اور اس کو روکنے کی استطاعت بھر کوشش بھی نہ کرنا، بذاتِ خود قابلِ مواخذہ فعل ہے۔ مزید یہ کہ شریر و فاسق لوگوں کی صحبت آپ پر برا اثر ڈالنے کے سواکچھ فائدہ نہیں دیتی ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:

لَا تُجاَلِس أَهْلَ الْأَهْواَءِ, فإِنَّ مُجاَلَسَتَهُم مُمرِضَة لِلقُلُوبِ

’’ہوائے نفس کے پیروکاروں کے ساتھ مت بیٹھو کہ ان کی محفلیں دلوں کا مرض ہیں۔ ‘‘

قَالَ مُسلِمُ بنُ یَسَارٍ: لَا تُمَکِّنُ صَاحِبَ بِدعَۃٍ مِن سَمعِکَ فَیَصُبُّ فِیھَا مَا لَا تَقدِرُ اَن تُخرِجَہُ مِن قَلبِکَ

مسلم بن یسار سے روایت ہے’’کسی بدعتی کو اپنی سماعت تک رسائی مت دو کہ وہ اس میں وہ بات ڈال دے گا جسے تم اپنے دل سے نکالنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوگے۔ ‘‘

عَنْ عَمرِو ابنِ قَيسٍ، قاَلَ: كَانَ يُقَالُ: لَا تُجاَلِس صَاحِبَ زَيغٍ، فَيُزِيغَ قَلبَكَ

عمرو ابن قیس سے روایت ہے، ’’(ماضی میں)یہ کہا جاتا تھاکہ گمراہ شخص کے ساتھ مت بیٹھو کہ وہ تمہارے دل کو گمراہ کر دے گا۔ ‘‘

یعنی کسی انسان کے دل کی خرابی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ خواہشاتِ نفسانی کے پیرو کے ساتھ تعلقات رکھے، وہ لوگ جو سنت کو چھوڑ کر بدعات کے پیچھے چلیں۔ تاہم جن کو ہم پارلیمنٹ میں دیکھتے ہیں، وہ عموماً کھلے کافر، بدعتی اور مرتد ہوتے ہیں۔ ہمیشہ جب بھی مسلمانوں کو ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، معاملات کرتے اور روابط استوار کرتے دیکھا گیا، یہ مشاہدہ کیا گیا کہ وقت کے ساتھ ان (مسلمانوں ) میں بگاڑ پیدا ہوا اور بڑھتا گیا۔

جمہوری نظام میں آگے بڑھنے کا مطلب اکثر ایسے لوگوں سے اتحاد کرنا بھی ہوتا ہے جن سے آپ اختلاف رکھتے ہوں۔ یعنی آپ اس چیز پر رضامند ہوجاتے ہیں کہ آپ اپنے اتحادیوں کی ان معاملات میں بھی حمایت کریں گے جن پر ضروری نہیں کہ آپ ان سے متفق ہوں، اور اسی طرح آپ کے اتحادی ان معاملات میں آپ کی حمایت پر رضامند ہوتے ہیں جن پر وہ متفق نہ ہوں۔ یہ ایک اور سطح ہے جہاں جمہوریت کو دو برائیوں میں سے کمتر برائی کے طور پر قبول کرنے کے فیصلے اور انتخاب کو تجزیے کی ضرورت ہے۔

پھرجمہوری نظام میں شمولیت اختیار کرنے والے مسلمانوں کو بے دین اور واضح طور پر فاسق و فاجر افراد سے اچھا خاصہ رابطہ و تعلق اور گفت و شنید کا موقع ملتا ہے ، اور نہ صرف یہ بلکہ مستقل بنیادوں پر ان کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔ پھر چاہے وہ اخلاص کے ساتھ ہی اس نظام میں کیوں نہ شامل ہوئے ہوں لیکن بالآخر ماحول ان پر اثر انداز ہونے لگتا ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ وَكِيرِ الْحَدَّادِ لَا يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْكِ إِمَّا تَشْتَرِيهِ أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ وَكِيرُ الْحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ أَوْ ثَوْبَكَ أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً (صحیح البخاری ۲۱۰۱)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری والےاورلوہار کی بھٹی کی سی ہے۔ کستوری والےکی طرف سے کوئی چیز تجھ سے معدوم نہ ہوگی، تو اس سے کستوری خرید لےگایا اس کی خوشبو پائے گا۔ اس کے برعکس لوہار کی بھٹی تیرا بدن یا تیرا کپڑا جلا دے گی یا تو اس سے بدبو دار ہوا حاصل کرے گا۔ ‘‘

شناخت

کسی گروہ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس میں شامل افراد کس حد تک اپنے مقصد کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مسلمان قیامت تک حق پر قائم اور غالب رہیں گے کیونکہ وہ حق کے لیے لڑ یں گے اور اپنے مقصد و ہدف پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہوں گے۔ جن کے عقائد میں بگاڑ ہوگا وہ شبہات میں گھر جائیں گے، اورمقصد کے حوالے سے یہ عدم اعتمادی بالآخر ان کا عزم اور قربانی کا جذبہ کمزور کر دے گی ۔

عقیدے سے ہٹ کر، کسی گروہ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک واضح شناخت رکھتا ہو۔ کسی کو عقیدے کی درستگی اور ایمان کی پختگی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اگر وہ دوست اور دشمن کی صحیح تعریف نہ کر سکے۔ اس اعتبار سے یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ مسلمانوں کی ایک مضبوط اسلامی شناخت ہو ۔

یقیناً، اہل ایمان سے اتحاد توحید کا جزو ہے، کیونکہ لا الہ الا اللہ پر ایمان اس چیز کو لازم کرتا ہے کہ ایسے لوگوں کی حمایت و نصرت کی جائے جو عبادات میں توحید پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان لوگوں کی مخالفت کی جائے جو زمین پر شرک کو پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اہل توحید کی مدد و نصرت کیسے کی جائے اگر ہم ان کے اور اہل شرک کے درمیان تمیز ہی نہیں کر پا رہے۔

کسی مقصد پر مضبوط و غیر متزلزل ایمان و یقین ہونے کے لیے ایک واضح و مضبوط پہچان کا ہونا ضروری ہے۔

اگرچہ ہر جگہ بعض علاقائی و ثقافتی اختلافات موجود ہوتے ہیں، لیکن تمام اہل السنۃ کو جوڑنے اور متحد کرنے والی ڈور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ یہ سنت ہی ہے جو متنوع اسلامی ثقافتوں کو ایک مخصوص و یکتا شناخت عطا کرتی ہے۔ گمراہ فرقوں کا آغاز ہمیشہ سنت کے ترک اور دین میں بدعات کی ترویج سے ہوتا ہے۔

سنت کا سب سے اہم پہلو رسمی عبادات کے طریقے ہیں، لیکن طرزِ زندگی بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بلا شبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین طہارت اور لباس جیسے معمولی معاملات میں بھی سنت کی پیروی کو اہم عبادات تصور کرتے تھے۔ ایک ہی ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگ لباس و طعام، گفت و شنید اور معاشرتی معاملات میں اپنے ایک سے رویّوں کے سبب ایک دوسرے سے قربت محسوس کرتے ہیں۔اسی طرح ایک شخص جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی و تقلید کرنے والے سے بھی محبت کرتا ہے، اورایسے شخص کو جو سنت کی جگہ بدعات کو ترویج دیتا ہو، اس کے لیے اس کے دل میں صرف نفرت ہی ہو گی۔

جمہوری نظام میں شرکت کا مطلب بہت سی جگہوں پر سنت کو ترک کرنا ہے۔ جمہوری حکومتیں عموماً اسلامی ثقافت کے ہر پہلو کے بارے میں تنقیدی رویہ رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر، مصر کے محمد مرسی رحمہ اللہ نے اپنی صدارت کے دوران صرف ایک مرتبہ مصر کا روایتی لباس پہنا تو انہیں میڈیا کی جانب سے شدید تنقید و تمسخر کا نشانہ بنایا گیا۔

پس جمہوریت میں شرکت کا مطلب اپنے لباس اور طرزِ زندگی کو کفار کے مشابہ بنا لینا ہے، جس سے اسلام کی اس کی شناخت و پہچان پر اثر پذیری میں کمی آتی ہے۔ اسی کے نتیجے میں آگے چل کر مسلمانوں کی جماعت سے اس کی محبت اور ایک مشترکہ شناخت کے تعلق میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے۔ مزید آگے بڑھیں تو اس سے امّت کا اتحاد کمزور پڑتا ہے اور ہماری آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسلامی تشخص میں کمی کا مطلب اہل ایمان کے مابین اتحاد کی کمی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ توحید کی حقیقت، اس کا اظہار اور اس کی اقامت میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے ۔

یہ اس بات کا ٹھوس مظہر ہے کہ کس طرح شرک کے ماحول میں شرکت براہِ راست توحید کو کمزور کرتی ہے۔ اس پوشیدہ اثر کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا دشوار ہے، اوراسی وجہ سے جمہوریت میں شرکت کے فوائد و نقصانات کے تقابل کے دوران اس امر سے صرفِ نظر ہو جاتا ہے ۔

مسلمان قدرتی طور پر کسی ’’اپنے‘‘ کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں، خصوصاً جب اس اقتدار کو اسلامی تشخص کے مختلف پہلوؤں کی تائید کے لیے استعمال کیا جاتا ہو، جیسے عوامی حلقوں میں حجاب کی موجودگی وغیرہ۔ بہرحال قائدین عوام کے لیے نمونہ ہوتے ہیں، اور اگر وہ اقتدار کے حصول کے لیے وضع قطع میں کفار کی تقلید کریں گے، تو اس کا اثر ان کے پیروکاروں پر بھی نظر آئے گا، جس سے اسلامی تشخص کمزور تر اور کفار کی ثقافتی و تہذیبی قوّت و احترام کو تقویت ملے گی۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 شیخ محمد ابراہیم لڈوک کی اس بات کی ایک بیّن دلیل و مثال مصر میں ’عرب بہار‘ کے بعد ’الاخوان المسلمون‘ کا ’جمہوریت‘ کے ذریعے اقتدار میں آنا اور پھر تشدد کے ذریعے اقتدار سے الگ کردیا جانا ہے۔ (مدیر)

Exit mobile version