علاماتِ کبریٰ: [دوسری نشانی]نزولِ عیسیٰ ﷤ | گیارھواں درس

آج ہم ترتیب کے اعتبار سے قیامت کی دوسری بڑی نشانی، نزول عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام پر بات کریں گے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور ان کا نزول دمشق میں ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام کی نشاندہی بھی فرمائی جہاں وہ نازل ہوں گے، عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ، شرقی سفید مینار کے قریب۔

مقام نزول عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے جو حدیث ہے وہ ترمذی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذْ هَبَطَ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بِشَرْقِيِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَائِ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَی أَجْنِحَةِ مَلَکَيْنِ۔

’’…جب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہلکے زرد رنگ کا جوڑا پہنے (جامع مسجد) دمشق کے سفید مشرقی مینارہ پر اس حالت میں اتریں گے کہ ان کے ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے۔ ‘‘

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا اس وقت تو دمشق میں سرے سے کوئی مسجد تھی ہی نہیں، دمشق تو اس وقت مسلمان بھی نہ تھا بلکہ عیسائی رومی سلطنت کا حصہ تھا ، تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام دمشق میں شرقی سفید مینار کے قریب نزول فرمائیں گے۔

مسجدِ امَوی دمشق کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے اور یہ مسجد مسلم دنیا کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اموی دور خلافت میں اسلامی خلافت کا دارالخلافہ قریباً ایک سو سال تک دمشق میں رہا اور اس وقت وہاں بڑی جامع مسجد جامع الاموی یعنی مسجدِ اموی تھی اور یہ بہت بڑی مسجد تھی اور اس کا رنگ سفید نہیں تھا۔ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ چند صدیوں بعد اس کے مینار دوبارہ تعمیر کیے گئے اور اس تعمیر میں جو رقم استعمال ہوئی وہ نصرانیوں کی تھی۔واللہ اعلم، ابن کثیر نے اس کی وجہ بیان نہیں کی اور نہ یہ مجھے ڈھونڈنے سے معلوم ہوئی، البتہ ابن کثیر نے فرمایا کہ میناروں کی دوبارہ تعمیر پر آنے والا خرچہ نصرانیوں نے ادا کیا اور اس نئی تعمیر میں میناروں کا رنگ سفید رکھا گیا۔ اس کی اولین تعمیر کے وقت اس کا رنگ سفید نہیں تھا مگر اب یہ سفید ہے، سفید سنگ مرمر۔ سبحان اللہ! ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ ایک معجزہ ہے کہ مسجد اموی کی تجدید کا خرچہ نصرانیوں نے اٹھایا اور یہ وہ مسجد ہے جہاں عیسی ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گےاور عیسائیوں کے اعمال پر نکیر کریں گے اور انہیں اسلام کی دعوت دیں گے۔ یہ تاریخ کی بہت دلچسپ بات ہے ۔

نیز رنگوں کی بات کریں تو اس کی ایک اور عجیب مثال بھی ہے کہ مسجد نبوی سب سے پہلے گارے سے تعمیر کی گئی تھی لہٰذا اس کا رنگ بھورا تھا۔ یہ رنگ اسی طرح رہا یہاں تک کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اس کی تعمیر نو ہوئی اور پھر اس کے بعد سے پوری مسلم تاریخ میں اس کی تجدید کی جاتی رہی مگر سعودی حکومت کی حالیہ تعمیر نو سے پہلے کبھی کسی دور میں بھی اس کا رنگ سفید نہیں رہا ۔ اب انہوں نے میناروں کو سفید سنگ مرمر سے بنایا ہے۔ درحقیقت یہ مختلف رنگوں کا امتزاج ہے مگر ان سب رنگوں میں ایک رنگ یا اسی رنگ کے مختلف درجات حاوی دکھائی دیتے ہیں، مکہ میں میناروں کی رنگت کچھ سرمئی دکھائی دیتی ہے جبکہ مدینہ میں یہ قریباً سفید ہی نظر آتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کی تعمیر کے دوران اس حدیث کو مدنظر رکھا گیا ہوگا کیونکہ تعمیر کا کام تو ایک تعمیراتی کمپنی نے کیا، البتہ ان کا مقصد یہ ضرور ہوگا کہ یہ مینار خوبصورت نظر آئیں۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ دجال چونکہ مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا لہٰذا وہ کوہ احد پر کھڑا ہوکر اپنی فوج سے کہے گا: ’’کیا تمہیں وہ سفید محل دکھائی دے رہا ہے؟ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا محل ہے‘‘، اور وہ مسجد نبوی کی جانب اشارہ کرے گا۔ خیر یہ مسجد نبوی کے رنگ سے متعلق ایک دلچسپ بات تھی اس لیے اس کا ذکر یہاں آگیا۔

صحت احادیث کا مختصر تعارف

واپس اپنے نقطے کی طرف لوٹتے ہیں۔ نزول عیسیٰ سے متعلق احادیث کی سند متواتر ہے۔ متواتر کا معنی ہے مسلسل، تواتر کے ساتھ نقل کی گئی احادیث جن سے متعلق ذہن میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ ایک چیز ہوتی ہے ’موضوع‘، یعنی گھڑی ہوئی، پھر ایک ہوتی ہے ’ضعیف‘ یعنی کمزورروایت، پھر اس سے بہتر درجہ ’حسن‘ ہے یعنی قابل قبول اور پھر اس سے بہتر ’صحیح‘ یعنی معتبر اور مستند اور صحیح کی بھی سب سے قوی قسم ’متواتر‘ ہے۔ متواتر حدیث اتنی زیادہ سمتوں سے روایت کی گئی ہوتی ہے کہ اس میں شک و شبہہ پیدا ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ متواتر یقینی علم سے متعلق ہے۔ ہم مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام یقینی ہے، یعنی ہم یہ نہیں کہتے کہ ساٹھ ستر فیصد امکان ہے کہ عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے ، نہیں! بلکہ ان کا نزول حتمی ہے، یقینی ہے اور یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ قرآن کی بعض آیات اور متعدد احادیث میں نزول عیسی علیہ السلام کا مضمون وارد ہے لہٰذا اس میں کسی قسم کے شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں۔

قرآن میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر

آیات قرآنی میں اس حوالے سے بالخصوص سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نام موجود نہیں ہے مگر آیت کا معنی انہی کے نزول پر دلالت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ الزخرف میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ﴾ (سورۃ الزخرف: ۶۱)

’’ اور بےشک وہ قیامت کے علم کا ذریعہ ہیں۔ ‘‘

اور ایک اور قراءت کے مطابق اس آیت کا ترجمہ ہے:

’’ اور یقین رکھو کہ وہ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام) قیامت کی ایک نشانی ہیں۔ ‘‘

یعنی نزول عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ مذکورہ آیت کی تفسیر کے ذیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مسند امام احمد کی ایک صحیح روایت ہے :

’’هُوَ خُرُوجُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔ ‘‘

’’ قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول وخروج قیامت کی علامات میں سے ہے‘‘۔ یہ ابن عباس کی تفسیر ہے آیت مذکورہ کے حوالے سے۔

ایک اور آیت ہے:

﴿وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا﴾ (سورۃ النساء: ۱۵۹)

’’ اور نہیں ہوگا اہل کتاب میں سے کوئی بھی مگر اس پر ایمان لا کر رہے گا اس کی موت سے قبل، اور قیامت کے دن وہی ان کے خلاف گواہ (بن کر کھڑا) ہوگا ‘‘۔

الطبری کی ایک روایت ہے جس کی سند ابن جریر سے ابن عباس تک چلتی ہے کہ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ اہل کتاب ان کی (فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی) وفات سے پہلے ایمان لے آئیں گے‘‘۔ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے قبل یہ ہوگا۔ اللہ کی قسم! وہ ابھی زندہ ہیں اور وہ نازل ہوں گے۔ جب وہ نازل ہوں گے تو وہ سب ان پر ایمان لائیں گے‘‘۔ پس یہ تو قرآن کے دلائل ہوئے۔

احادیثِ مبارکہ میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر

اب احادیث میں وارد ہونے والے دلائل کا ذکر کرتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک متفق علیہ حدیث ہے ، یعنی ایسی حدیث جو بخاری اور مسلم دونوں میں وارد ہوئی ہے:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِکَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيکُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَيَکْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّی لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّی تَکُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا۔

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عن قریب ابن مریم (علیہ السلام) تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے، اس وقت مال و دولت کی فراوانی ہوگی حتیٰ کہ اسے کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ دنیا اور اس کی ساری نعمتوں سے قیمتی ہوگا۔ ‘‘

پس عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے اور وہ صلیب توڑ دیں گے جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ اپنے نام پر ہونے والے شرک کی تردید کریں گے، اور وہ اپنے آپ کو اللہ کا بیٹا قرار دیے جانے پر ناراضگی کا اظہارکریں گے اور عیسائیوں کے ان اعمال کے رد کے لیے صلیب توڑ دیں گے۔ نیز وہ خنزیر کو قتل کردیں گےاور زمین کو خنزیر کے وجود سے پاک کردیں گےاور وہ جزیہ ختم کردیں گے۔

جزیہ وہ محصول ہے جو اہل کتاب ( عیسائی اور یہودی) اسلامی خلافت کو اپنی حفاظت کے بدلے ادا کرتے ہیں۔ جب اہل کتاب اسلامی خلافت کے ماتحت رہتے ہیں تو انہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہوتی ہے، نیز چونکہ زکوۃ ایک عبادت ہے جو مسلمانوں پر واجب ہے، مگر اہل کتاب سے زکوۃ نہیں لی جاتی کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں اور چونکہ ان کے مذہب میں زکوۃ نہیں ہے تو مذہب پر عمل کی آزادی میں سے یہ بھی ہے کہ ان سے جبری طور پر مسلمانوں کے مراسم عبادت کی تکمیل کا مطالبہ نہ کیا جائے، مگر دوسری طرف مسلمان اسلامی خلافت کو زکوۃ کی رقم ادا کرتے ہیں، جبکہ عیسائی اور یہودی اسلامی خلافت کے ماتحت رہتے ہوئے انہی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں جن سے کہ مسلمان فائدہ اٹھاتےہیں لہٰذا انہیں ان سہولیات کے بدلے کچھ ادائیگی ضرور کرنی چاہیے اور یہی ادائیگی جزیہ کی شکل میں وصول کی جاتی ہے۔ اور یہ وہ محصول ہے جو فی کس وصول کیا جاتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام جزیہ ختم کردیں گے۔وہ اسے وصول کرنے سے انکار کردیں گےکیونکہ وہ لوگوں کے سامنے صرف دو راستے پیش کریں گے، اسلام یا جنگ۔ وہ جزیہ کا اختیار کسی کو نہیں دیں گے، وہ ان سے صرف اسلام ہی قبول کریں گے ورنہ دوسری صورت میں انہیں عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جنگ لڑنی پڑے گی، لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں جزیہ باقی نہیں رہے گا اور یہی معنی ہے حدیث میں مذکور وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ کا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: َيَفِيضَ الْمَالُ،یعنی مال کی بہتا ت ہوگی۔ اس قدر مال ہوگا کہ لوگ دستیاب مال سے بےنیازی برتیں گے اور کوئی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہوگی کہ لوگ آسودہ حال ہوں گے اور مال پہلے ہی وافر ہوگا لوگوں کے پاس، کوئی مال کی خاطر بھیک نہیں مانگے گا،کوئی مال کی خاطر اپنے وقار کا سودا نہیں کرے گا کیونکہ مال کی بہتات ہوگی نیز دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ دور قیامت سے اس قدر نزدیک ہوگا کہ لوگوں کو مال جمع کرنے کی پروا بھی نہیں رہے گی، یہی وجہ ہے کہ اس دو رمیں ان کی نگاہ میں ایک سجدہ بھی دنیا و مافیہابہتر ہوگا کیونکہ وہ جان جائیں گے کہ یہ دنیا اپنے خاتمے کے قریب آلگی ہے۔

ایک اور متفق علیہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

کَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيکُمْ وَإِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔

’’ تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تمہیں میں سے ہوگا۔ ‘‘

جب ابن مریم نازل ہوں گے تو مسلمان نماز کے لیے تیار ہوں گے اور اقامت کہی جاچکی ہوگی۔ دمشق کی مسجد میں وہ اتریں گے اور مسجد میں نمازی نماز کے لیے تیار ہوں گے اور اقامت کہی جاچکی ہوگی کہ جب امام مہدی انہیں دیکھیں گے اور ان کے لیے امامت کی جگہ چھوڑ دیں گےاور ان سے نماز کی امامت کی درخواست کریں گے مگر عیسیٰ علیہ السلام ان سے فرمائیں گے کہ اقامت آپ کے لیے کہی گئی ہے لہٰذا آپ ہی نماز کی امامت کروائیں۔ یہ اس امت کے لیےبہت بڑا اعزاز ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی کی امامت میں نماز ادا فرمائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس نماز کے بعد عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام منصب امامت اور امت کی قیادت کی ذمہ داری سنبھال لیں گے۔ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ یہ احادیث متواتر ہیں۔

عیسیٰ علیہ السلام کون سی شریعت نافذ کریں گے؟

جب عیسیٰ علیہ السلام امت مسلمہ کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالیں گے تو وہ کون سی شریعت نافذ کریں گے؟کیونکہ جب عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کی تھی یعنی تورات کی۔ اب جب وہ آخر الزمان میں نازل ہوں گے تو کون سی شریعت نافذ فرمائیں گے؟____ وہ شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نافذ کریں گے۔ یہ تمام شریعتیں جو اللہ رب العزت نے نازل فرمائیں سب اسلام ہی ہیں، جو موسی علیہ السلام لائے وہ بھی اسلام تھا، جو عیسیٰ علیہ السلام لائے وہ بھی اسلام تھا اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے وہ بھی اسلام ہی ہے مگر مختلف ادوار اور مختلف قوموں کی مناسبت سے اسلام کی تعبیر مختلف رہی ہے۔ مگر اب جب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے تو شریعت محمدی کی پیروی کریں گے اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ایک اعزاز ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور حدیث میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو وہ بھی میری ہی پیروی کرتے۔

یہ کیسے ہوگا؟ اللہ اعلم! امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے آگاہ فرما دیں گے، وہ شریعت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، شریعتِ قرآنی، اور یوں وہ زمین پر اسے نافذ کریں گے۔

جزیہ کیونکر موقوف ہوجائے گا؟

کوئی کہہ سکتا ہے کہ جزیہ وصول کرنا بھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا حصہ ہے، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اسے وصول نہ کریں؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیہ کی اجازت مرحمت فرمائی اور اسے لاگو کیا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اسے قبول کرنے سے انکار فرما دیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ جزیہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد تک جاری رہے گا اور اس کے بعد موقوف ہوجائے گا۔ لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام کا جزیہ موقوف کرنا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پیروی ہی ہوگا، یہ حدیث ہم نے اوپر پڑھی جس میں وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ کے الفاظ ہیں۔

عیسیٰ علیہ السلام حج ادا کریں گے

جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور دنیا میں قیام فرمائیں گے تو وہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ حج بیت اللہ بھی ادا فرمائیں گے۔ مسلم کی ایک حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُهِلَّنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَائِ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ لَيَثْنِيَنَّهُمَا

’’ اس ذات اقدس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ابن مریم (علیہ السلام) (زمین پر دوبارہ آنے کے بعد ) فج روحاء (کے مقام ) سے حج کا یا عمرے کا یا دونوں کا نام لیتے ہوئے تلبیہ پکاریں گے۔ ‘‘

عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے دور میں دنیا کے حالات کیسے ہوں گے؟

مسلم کی حدیث میں ہے:

ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَکُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّی يَتْرُکَهَا کَالزَّلَفَةِ

(یاجوج ماجوج کے بعد، اور اس کا ذکر ہم اگلی نشانی کے طور پر کریں گے) پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کوئی گھر، اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ )، اوٹ مہیا نہیں کرسکے گا۔ وہ زمین کو دھوکر شیشے کی طرح (صاف) کر چھوڑے گی۔ ‘‘

واللہ اعلم! یا تو زمین پر اس قدر پانی ہوگا کہ وہ آئینے کی طرح دکھائی دے گی یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا معنی یہ ہے کہ زمین کی سطح دھل کر ایسی شفاف اور چمکدار ہوجائے گی گویا آئینہ۔ بارش یاجوج ماجوج کے مردہ جسموں کی گندگی کو دھو دے گی (اس کے بارے میں ہم آگے بات کریں گے)، آگے بیان فرماتے ہیں:

ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَکِ وَرُدِّي بَرَکَتَکِ

’’ پھر زمین سے کہا جائے گا۔ اپنے پھل اگاؤ اور اپنی برکت لوٹالاؤ ۔ ‘‘

اس کا مطلب ہے کہ برکت زمین میں پہلے سے موجود ہے مگر ہمارے گناہوں نے اسے ڈھانپ رکھاہے، کیونکہ اللہ رب العزت زمین کو حکم فرمائیں گے : رُدِّي بَرَکَتَکِ،یعنی اپنی برکت لوٹاؤ، اپنی برکت نکالو، لہٰذا زمین میں برکت موجود ہے مگر ہماری وجہ سے وہ ظاہر نہیں ہورہی۔ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ۔ ہمارے اعمال کی وجہ سے نا صرف زمین میں فساد برپا ہوگیا بلکہ سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ تمام تر فساد ہمارے اپنے ہاتھوں کا مچایا ہوا ہے۔ یہ برباد شدہ ماحول، زمین کے بے جا استعمال ، فساد اور انسانوں کے گناہوں کی وجہ سے ہے، لیکن عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں اللہ رب العزت زمین کو حکم فرمائیں گے کہ اپنی برکتیں ظاہر کرے۔ پھرفراوانی کا کیا حال ہوگا؟

فَيَوْمَئِذٍ تَأْکُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا

’’ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی‘‘۔

یعنی ایک انار یا ایک پھل اس قدر بڑا ہوگا کہ بہت سے لوگ اسے کھائیں گے اور اس کا چھلکا ان کے لیے سایہ فراہم کرے گا۔زمین اس قدر بابرکت ہوجائے گی، نیز

وَيُبَارَکُ فِي الرِّسْلِ حَتَّی أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَکْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَکْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَکْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ

’’ اور دودھ میں (اتنی ) برکت ڈال دی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا اور گائے کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلے کو کافی ہوگا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا ‘‘۔

سیدنا عیسیٰ ﷤کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور ان کا حلیہ مبارک

مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے:

قَالَ الْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ وَأَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ لِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ نَبِيٌّ

’’ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام انبیاء کرام (علیہم السلام) علاتی بھائیوں (جن کا باپ ایک ہو مائیں مختلف ہوں) کی طرح ہیں ان سب کی مائیں مختلف اور دین ایک ہے اور میں تمام لوگوں میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ ‘‘

دوسرے لفظوں میں تمام انبیاء بھائی بھائی ہیں خواہ انہیں علیحدہ علیحدہ شریعت عطا کی گئی۔ شریعت یعنی قانون سب کا مختلف ہے مگر دین سب کا ایک ہے۔آگے فرماتے ہیں:

وَإِنَّهُ نَازِلٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَاعْرِفُوهُ رَجُلًا مَرْبُوعًا إِلَى الْحُمْرَةِ وَالْبَيَاضِ عَلَيْهِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ كَأَنَّ رَأْسَهُ يَقْطُرُ وَإِنْ لَمْ يُصِبْهُ بَلَلٌ

’’ اور عن قریب وہ زمین پر نزول بھی فرمائیں گے، تم جب انہیں دیکھنا تو (مندرجہ ذیل علامات سے )انہیں پہچان لینا: وہ درمیانے قد کے آدمی ہوں گے، سرخ وسفید رنگ ہوگا، گیروے رنگے ہوئے دو کپڑے ان کے جسم پر ہوں گے، ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپکتے ہوئے محسوس ہوں گے گو کہ انہیں پانی کی تری بھی نہ پہنچی ہو ۔ ‘‘

بعض لوگوں کے اس قدر خوبصورت بال ہوتے ہیں، یا اس قدر گہرے رنگ کے اور سیاہ کالے بال ہوتے ہیں کہ وہ یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کہ وہ نم ہوں۔سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بال ایسے ہوں گے کہ جب آپ انہیں دیکھیں گے تو سمجھیں گے کہ ان کے بال گیلے ہیں گویا ان کے بال بہت گہرے رنگ کے ہوں گے۔ یہ کچھ تفصیلات ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حلیہ مبارک کے حوالے سے بیان فرمائی ہیں۔ آگے فرمایا:

فَيَدُقُّ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَيَدْعُو النَّاسَ إِلَى الْإِسْلَامِ فَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمِلَلَ كُلَّهَا إِلَّا الْإِسْلَامَ وَيُهْلِكُ اللَّهُ فِي زَمَانِهِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ وَتَقَعُ الْأَمَنَةُ عَلَى الْأَرْضِ حَتَّى تَرْتَعَ الْأُسُودُ مَعَ الْإِبِلِ وَالنِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ وَيَلْعَبَ الصِّبْيَانُ بِالْحَيَّاتِ لَا تَضُرُّهُمْ فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ

’’پھر وہ صلیب کو پیس (کر خاک میں ملا) دیں گے [پہلے ہم نے پڑھا تھا کہ وہ صلیب توڑ دیں گے اور اس حدیث میں ہے کہ صلیب کو پامال کردیں گے] ، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ موقوف کردیں گے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے ۔ان کے زمانے میں اللہ اسلام کے سوا تمام ادیان کو مٹا دے گا اور ان ہی کے زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک کروائے گا اور روئے زمین پر امن وامان قائم ہوجائے گا [ اس طرح کہ گویا امن لوگوں کے ساتھ زمین پر موجود ہوگا کہیں معلق نہیں ہوگا] حتی کہ شیر اونٹ کے ساتھ چیتے گائے کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ ایک گھاٹ سے سیراب ہوں گے اور بچے سانپوں سے کھیلتے ہوں گے اور وہ سانپ انہیں نقصان نہ پہنچائیں گے[زمین پر اس قدر امن ہوگا کہ کوئی کسی دوسرے کو تکلیف دینا اور نقصان پہنچانا نہیں چاہے گا] اس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس سال تک زمین پر رہ کر فوت ہوجائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے۔ ‘‘

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے درخواست فرمائی کہ وہ زمین پر جاکر فوت ہوں کہ اللہ رب العزت نے ہمیں اس زمین سے پیدا کیا، ہم اسی زمین پر رہتے بستے ہیں اور اسی پر ہمیں موت آتی ہے۔عیسیٰ علیہ السلام ابھی فوت نہیں ہوئے۔ اللہ انہیں زمین پر بھیجے گا تاکہ ان کے ہاتھوں اسلام کو مکمل فتح حاصل ہو۔

عیسیٰ علیہ السلام کا پہلا اعزاز یہ ہے کہ انہیں اسلام کی کامل فتح حاصل ہوگی اور ان کے دور میں دین اسلام کے سوا کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا۔ دوسرا اعزاز یہ کہ ان کے دور میں دجال کا خاتمہ ہوگا۔اور تیسرا یہ کہ ان کے دور میں مثالی امن قائم ہوجائے گا۔

سبحان اللہ! یہ امت بہت ہی بابرکت ہے۔ اس کا آغاز بھی نبی سے ہےاور اس کا خاتمہ بھی نبی کے ساتھ ہے، ابتدا ایک رسول کے ساتھ اور اختتام بھی ایک رسول کے ساتھ۔

سیدنا عیسی علیہ السلام کا زمین پر قیام کتنی مدت تک ہوگا؟

جب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فوت ہوجائیں گے تو مسلمان ان پر نماز جنازہ ادا کریں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ زمین پر چالیس سال تک زندہ رہیں گے۔لیکن ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اس زمین پر سات سال تک رہیں گے اور یہ دونوں حدیثیں ہی صحیح ہیں۔دونوں ہی مسلم شریف میں مذکور ہیں۔ علماء نے ان کی تطبیق اس طرح کی ہے کہ چالیس سال ان کی کل عمر ہے، تینتیس برس وہ زمین پر گزار چکے اور اب جب آئیں گے تو مزید سات برس اس امت کے ساتھ گزاریں گے۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

ثُمَّ يَمْکُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ

’’پھر لوگ سات سال اسی طرح گزاریں گے کہ کسی بھی دو اشخاص کے درمیان کوئی عداوت نہ ہوگی‘‘، اس قدر امن ہوگا دنیا میں……

ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّأْمِ فَلَا يَبْقَی عَلَی وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ

’’ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجے گا جس سے زمین پر کوئی بھی ایسا آدمی باقی نہیں رہے گا کہ جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی بھلائی یا ایمان ہوگا، مگر اس کی روح قبض کرلی جائے گی ‘‘، اور یہ دنیا کے اس قصے کا اختتام ہوگا جو شروع ہوا آدم علیہ السلام سے اور منتج ہوگا پوری دنیا پر اسلام کے کامل غلبے پر، پس تاریخ دنیا کی کتاب کا آخری باب اسلام کی کامل فتح پر مبنی ہوگا جسے کے لیے اللہ رب العزت فرماتے ہیں لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ، تاکہ اس کو غلبہ دے ہر دین پر۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ﴾ (سورۃ الاعراف: ۱۲۸)

’’ یقیناً یہ زمین اللہ کی ہے ، وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے ، لیکن عاقبت (آخرت) تو تقویٰ والوں کے لیے ہی ہے ۔‘‘

باطل اور حق کے درمیان مسلسل ایک کشمکش ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے ہی شروع ہوگئی تھی اور پوری تاریخ انسانیت اس پر گواہ ہے۔ کارل مارکس کہتا ہے کہ دنیا کی تاریخ معاشی اصطلاحات کے ذریعے بیان کی جاسکتی ہے۔یہ لوگوں کے مابین وسائل کی کمیابی پر تصادم کی تاریخ ہے۔ مگر ایمان والوں کے یہاں تاریخ کی یہ تشریح نہیں ہے۔ دنیا کی تاریخ حق و باطل کے مابین پیہم جدال و تصادم کی تاریخ ہے۔اس تصادم میں اونچ نیچ بھی ہے، کبھی اہل ایمان غالب آجاتے ہیں تو کبھی وہ شکست بھی کھا جاتے ہیں، کبھی یہ امت ابھرتی ہے اور کبھی پھر زوال پذیر ہوجاتی ہےمگر بالآخر وہ انجام ہے کہ جو معنی رکھتا ہے، وہ نتیجہ ہے جو اصل معنی رکھتا ہے اور انجام اور نتیجہ یہ ہے کہ بالآخر اسلام تمام ادیان پر غالب آکررہے گااور یہ اس دنیا کا سب سے بابرکت دور ہوگا، اس قدر بابرکت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر تم کسی چٹان پر بھی بھیج بکھیر دو گے تو وہ اگ جائیں گے۔ اور یہ خاتمہ ہوگا…… اس دنیا کا انجام ، تاریخ عالم کا اختتام اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ حق و باطل کے مابین کشمکش کا انجام، اس کے بعد اہل ایمان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی اور زمین پر منافقین اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے ، وہ فسادی ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ یوں برسرعام جماع کریں گے جیسے گدھے، يَتَهَارَجُونَ کَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ ، زمین پر بہت فساد پھیل جائے گا اور یہ وہ بدترین مخلوق ہوگی جن پر قیامت قائم ہوگی۔اور قریباً چالیس سال زمین پر اس طرح گزریں گے کہ زمین پر ایک بھی اہل ایمان موجود نہیں ہوگا، زمین پر فساد، ظلم، قتل اور ہر قسم کی برائی کی جائے گی اور پھر قیامت قائم ہوجائے گی۔

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے متعلق گفتگو مکمل ہوئی، آئندہ ان شاءاللہ قیامت کی اگلی بڑی نشانی یاجوج ماجوج کے ظاہر ہونے کے حوالے سے بات کریں گے۔

وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم

Exit mobile version