امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

مجاہدین اخیار کو خبریں اور راز چھپانے کی ترغیب

الحمد للہ والصلاة والسلام علی رسول اللہﷺ وعلیٰ آلہ وصحبہ

اما بعد

یہ موضوع ایسے اعلیٰ اخلاق و فضائل کا موضوع ہے جو کسی نیک انسان کی نیکی و شرافت کی علامت ہے۔یہ انسان کی عقل اور اس کے رشد کی علامت ہے اور یہ موضوع ہے ”رازداری اور راز کو چھپانے میں مبالغہاور اس کی حفاظت کرنے کی حرص“!

اے مجاہد بھائی! تمہارے لیے اس عادت کے اچھا ہونے کی یہی دلیل ہی کافی ہے کہ یہ خصلت جس آدمی میں پائی جائے تو لوگ اس کی مدح و ستائش کرتے ہیں اور اسے عقل والوں میں شمار کرتے ہیں۔پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ راز کی حفاظت کی نسبت اموال کی حفاظت پر زیادہ قادر ہیں ۔پس ہر مال کی حفاظت کرنے والا راز کی حفاظت کرنے والا نہیں ہوسکتا۔اس لیے ایسا آدمی جس کو کوئی راز سونپا جائے تو اس کی حفاظت کے لیے اپنی اَن تھک کوشش کرنا پڑتی ہے جبکہ اسے اگر مال دیا جائے تو ایسی کوشش کوئی زیادہ جہد کی متقاضی نہیں ہوتی ، وہ راز کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کوشش کا دسواں حصہ ہوتی ہے۔اسی لیے انسان مال کے ضائع ہونےکی نسبت راز کے افشاں ہونے سے زیادہ ڈرتا ہے ۔کیونکہ مال تو آنی جانی چیز ہے جبکہ راز تو کسی کی جان لے سکتا یا کسی کی عزت کو مجروح کرسکتا ہے!

دیکھنے میں آیا ہے کہ مجاہدین میں عادتاً عام و خاص دونوں میں رازوں کو چھپانے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتا اور بالآخر اس کے نتیجے میں مجاہدین اور ان کے اہل و عیال کوشدید اذیت پہنچتی ہے اور یہ لوگ جو ہمارے انصار و معاونین ہیں، ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہمیں جہاد و دین کے مصالح سے غفلت برتے بغیر یہ بات سوچنی چاہیے کہ محض ایک معمولی غفلت سے کتنے ہی اہم کام معطل ہوگئے اور مجاہدین کی قوت کمزور ہوگئی اور یہ معمولی غفلت ہے: ” خبروں کو برے انداز میں پھیلادینا“ ۔ کتنے ہی مجاہد بھائیوں کو، جو کارروائی وہ کرنے جا رہے تھے ،اس راز کے افشاہوجانےکے سبب اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر کبھی کوئی مجاہد بھائی مجھ سے سوال کرتا ہے کہ اس کا سبب کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔

لیکن مطالعہ، سیر حاصل بحث اور تحقیق کے بغیر اس سوال کا جواب دیناممکن نہیں۔ لیکن جو میرے لیے ممکن ہے وہ ان سطور میں راز کے ساتھ تعامل کے شرعی آداب کا ذکر کرنا ہے جن سے ہر مجاہد کو متصف ہونا چاہیے۔اس لیے میں نے چاہا کہ رازوں سے متعلق ان اقوال کو یہاں ذکر کروں اور رازوں کے ساتھ تعامل کی کیفیت اوران کا تحفظ کرنے کے حوالے سے مجاہد کی مسئولیت کو بیان کروں۔

اے مجاہد بھائی! تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر وہ بات جو معرفت و علم میں آجائے اسے کہہ دینا ضروری نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَإِذَا جَاءهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ (سورۃ النسآء: 83)

’’اور جب ان کو کوئی بھی خبر پہنچتی ہے، چاہے وہ امن کی ہو یا خوف پیدا کرنے والی، تو یہ لوگ اسے (تحقیق کے بغیرپھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ ‘‘

آپ ﷺ کا فرمان ہے:

كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِباً أَنْ يُحَدِّث بِكُلِّ مَا سَمِعَ1صحیح مسلم: جلد ۱: حدیث ۹

آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کردے۔

’’السر‘‘اور ’’الکتمان ‘‘کی تعریف

شروع میں میں آپ کے لیے راز(السر) اور چھپانے(الکتمان) کے لفظوں کی تعریف نقل کرتا ہوں۔

الکتمان(چھپانا) سے مراد اپنے نفس کوان اسباب کے خلاف ضبط میں رکھنا جو کسی معاملہ میں خلجان پیدا کردیں اور یہ صبر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔2 الاخلاق الاسلامیہ، جلد ۲، صفحہ۳۵۸

السر( راز)ہر وہ چیز جسے تم اپنے دل کے اندر چھپاؤ اور اسے خفیہ رکھو اور کسی کو بھی کسی مصلحت یا ضرر کی بنا پر اس سے مطلع نہ کرو وہ راز کہلاتا ہے یا اسے کسی قابلِ اعتما د شخص کے ساتھ خاص کر لے وہ راز ہے۔3المنہاج، جلد ۲، صفحہ ۴۸

راز وہ ہے جسے انسان اپنے سینے میں چھپاتا ہے۔ سِر کی جمع ہے اسرار اور اسی طرح السریرة اور اس کی جمع السرائر ہے۔4الاخلاق فی الاسلام، صفحہ۲۰۱

کتمان یعنی راز کو چھپانا یہ ہے کہ انسا ن اپنے مافی الضمیرمیں موجود بات پر ضبط رکھے اور اس کا اظہار نہ کرے اور اسے وقت سے پہلے ظاہر نہ کرے۔5فضل اللہ الصمد،صفحہ۴۸

کتمان السر سے مراد ایسی چیز کے اظہار سے اجتناب برتنا ہے جس کا اظہار اچھا نہ ہو۔6عدة الصابرین وذخیرة الشاکرین لابن القیم، صفحہ۱۷

راز: قرآن کریم میں

اللہ عزوجل کی کتاب میں ایسی آیات وارد ہیں جو راز کی حفاظت پر دلالت کرتی ہیں اوربہت سی آیات ان لوگوں کے تذکرے میں ہیں جنہوں نے رازوں کی حفاظت کی جو ان کی نجات کا باعث بنی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس عمل میں بہت عظیم فوائد پِنہاں ہیں۔اس کے علاوہ بہت سی آیات انسان کو کثرتِ کلام سے منع کرتی ہیں اور بیان کرتی ہیں کہ انسان ہر خیر و شر کے کلمے کا، جو وہ منہ سے نکالتا ہے ، جوابدہ ہے۔ ہم یہاں کچھ آیات ذکر کرتے ہیں جو رازوں کی حفاظت اور انہیں چھپانے کا حکم دیتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ عہد کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَأَوْفُواْ بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْؤُولاً (سورۃ الإسراء: 34)

’’اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تمہاریباز پرس ہونے والی ہے۔‘‘

اور راز بھی ایک عہد ہے جس کو صاحبِ راز نے چھپانے کے وعدہ کے ساتھ آپ کے حوالے کیا ہے۔

اسی طر ح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اُس کی پکڑ فرمائی ہے جس نے راز کو افشا کردیا۔ یہ نبیﷺ کا اپنی ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہن کے ساتھ واقع ہے جس کی وجہ سے سورۃ التحریم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ (سورۃ التحریم: 3)

’’اور یاد کرو جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے راز کے طور پر ایک بات کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے وہ بات کسی اور کو بتلا دی اور اللہ نے یہ بات نبی پر ظاہر کردی تو انہوں نے اس کا کچھ حصہ جتلا دیا اور کچھ حصے کو ٹال گئے۔ پھر جب انہوں نے اس بیوی کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو یہ بات کس نے بتائی ؟ نبی نے کہا کہ مجھے اس نے بتائی جو بڑے علم والا، بہت باخبر ہے۔‘‘

جبکہ ان لوگوں کے قصے جنہوں نے رازوں کی حفاظت کی، اللہ نے کتاب میں ذکر کیے ہیں۔ان کا یہ راز چھپانا ان کے لیے راحت و سعادت کا باعث تھا اور ان کے اعمال کی کامیابی کا ضامن تھا۔ پس یہ بہت ہیں ا ن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

یوسف ﷤کا اپنا خواب چھپانا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب انہوں نے خواب دیکھا تو ان کے والد یعقوب ﷤نے فر مایا:

قَالَ يَا بُنَيَّ لاَ تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَى إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُواْ لَكَ كَيْدًا إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (سورۃ یوسف: 5)

انہوں نے کہا بیٹا اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ بتانا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے لیے کوئی سازش تیار کریں، کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

اسی طرح لوط ﷤کا اپنی قوم اور اپنی بیوی سے فرشتوں کو اور قوم و بیوی کے انجام کی خبر چھپانے کا قصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

قَالُواْ يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَن يَصِلُواْ إِلَيْكَ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَلاَ يَلْتَفِتْ مِنكُمْ أَحَدٌ إِلاَّ امْرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ (سورۃ ھود: 81)

’’(ابفرشتوں نے (لوط سےکہا اے لوطہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ (کافرلوگ ہرگز تم تک رسائی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ لہٰذا تم رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے روانہ ہوجاؤ، اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ ہاں مگر تمہاری بیوی تمہارے ساتھ نہیں جائے گیاس پر بھی وہی مصیبت آنے والی ہے جو اور لوگوں پر آرہی ہے۔ یقین رکھو کہ ان (پر عذاب نازل کرنےکے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ کیا صبح بالکل نزدیک نہیں آگئی۔‘‘

اسی طرح مریم علیہا السلام کا قوم سے معاملے کو چھپانا ۔ اللہ فرماتے ہیں:

فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا (سورۃ مریم: 26)

’’اب کھاؤ، اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی رکھو۔ اور اگر لوگوں میں سے کسی کو آتا دیکھو تو (اشارے سےکہہ دینا کہ آج میں نے خدائے رحمٰن کے لیے ایک روزے کی منت مانی ہے، اس لیے میں کسی بھی انسان سے بات نہیں کروں گی۔‘‘

خضر ﷤کااپنے عمل کے سبب کو موسیٰ ﷤سے چھپانا اور اس میں عظیم سبق ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:

قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًاوَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاء اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًاقَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا )سورۃ الکھف: 70-67)

’’انہوں (خضرنے کہا مجھے یقین ہے کہ آپ میرے ساتھ رہنے پر صبر نہیں کرسکیں گے۔ اور جن باتوں کی آپ کو پوری پوری واقفیت نہیں ہے، ان پر آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں؟ موسیٰ نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ انہوں(خضرنے کہا اچھا اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو جب تک میں خود ہی آپ سے کسی بات کا تذکرہ شروع نہ کروں، آپ مجھ سے کسی بھی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں۔‘‘

اس کے علاوہ متعدد آیات ہیں جن میں سے ہم نے اوپر مذکور پر ہی اکتفا کیا ہے اور ”سر“ یعنی راز کا لفظ قرآن میں بتیس مرتبہ مختلف صورتوں میں وارد ہوا ہے۔

راز“احادیثِ نبویہ میں

بہت سی احادیث ِ نبویہ مسلمانوں کو رازداری اور رازوں کو چھپانے کے باب میں وارد ہوئی ہیں۔ ان میں آپ نے راز کو افشا کرنے سے خبردار فرمایا ہے۔ یہاں ہم چند ایک احادیث پیش کرتے ہیں۔اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا:

اسْتَعِينُوا عَلَى إِنْجَاحِ حَوَائِجِكُمْ بِالْكِتْمَانِ، فَإِنَّ كُلَّ ذِي نِعْمَةٍ مَحْسُودٌ 7اسے بیھقی نے ’’شعب الإیمان ‘‘میں روایت کیا ہے اور اسے البانی نے ’’صحیح الجامع ‘‘ (۹۴۳) میں صحیح کہا ہے۔

’’اپنے معاملات کی تکمیل میں رازداری کا سہارا لو کیونکہ ہر نعمت والے کے لیے ایک حاسد ہے۔‘‘

حضرت جابر ﷜سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ8اسے احمد، ابو داود اور ترمذی (جامع ترمذی: جلد ۱: حدیث ۲۰۴۴) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا (صحیح سنن ترمذی میں)۔

’’جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیےدائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے ۔‘‘

پس جب بھی کسی کے پاس کوئی راز امانت ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی حفاظت کرے اور اگر کوئی راز کو افشاءکرتا ہے تو یہ صفت منافقین کی صفات میں سے ہے۔ابو ہریرة ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

آية المنافق ثلاثإذا حدَّث كذب، وإذا وعَدَ أخلف، وإذا ائتُمِنَ خان9کنزالعمال:جلد ۱:حدیث۸۳۹

’’منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلاف کرے اور جب اسے امانت دی جائے تو وہ خیانت کرے۔‘‘

اور رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

الْمَجَالِسُ بِالْأَمَانَةِ10اسے البانی نے ’’صحیح الجامع ‘‘میں حسن کہا ہے، ۶۶۷۸)۔

’’مجالس امانت کے ساتھ ہیں۔‘‘

اسی طرح معتمر بن سلیمان اور التیمی کہتے ہیں کہ:

’’نبی ﷺ نے انہیں کوئی راز کی بات کہی۔‘‘11 باب حفظ السر ایٔ ترک افشاء ، فتح الباری ، جلد ۱۱، صفحہ ۸۲ ۔

مسلم کی ایک روایت میں انس ﷜سے مروی ہے کہ:

’’نبیﷺ نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا تو میں اپنی ماں کے سامنے خاموش رہا اور جب میں آیا تو آپ نے فرمایا تجھے کس چیز نے روک لیا تھا۔‘‘

اسی مسند احمد اور ابن سعد نے حمید کے طریق سے انس ﷜ سے روایت کیا کہ:

’’آپ ﷺ نے مجھے پیغام دے کر بھیجا تو ام سلیم کہنے لگیں تجھے کس چیز نے روکا؟‘‘

تو انس ﷜ کہتے ہیں:

’’میں نے کسی کوبھی اس کے بعد خبر نہیں دی اور مجھ سے ام سلیم نے سوال بھی کیا تھا۔‘‘

اسی طرح ایک ثابت روایت میں کہ:

’’وہ کہنے لگی ان کا کیا کام ہے؟تو میں نے کہایہ راز ہے تو اس پر انہوں نے کہا:

لَا تُخْبِر بِسِرِّ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا

تم اللہ کے رسول کا راز کسی کو بھی نہ بتانا۔‘‘

اور حمید بن انس کی روایت میں ہے:

اِحْفَظْ سِرّ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کی حفاظت کرنا۔

اور ایک روایت میں ہے:

’’اللہ کی قسم اے ثابت اگر میں یہ بات کسی کو بیان کرنے والا ہوتا تو میں تجھے ضرور بیان کردیتا۔‘‘

اس پر بعض علماءکہتے ہیں گویا کہ یہ آپﷺ کا راز تھا اوراگر یہ علم ہوتا تو انس ﷜ کبھی اس کو نہ چھپاتے۔ ابن بطّال کہتے ہیں کہ اہلِ علم کا موقف یہ ہے کہ کسی کا راز نہیں کھولنا چاہیے جبکہ اس سے صاحبِ راز کو کوئی تکلیف پہنچتی ہو۔لیکن جب ایسا شخص فوت ہوجائے تو پھر اس کا چھپانا لازمی نہیں جیسا کہ اس کی زندگی میں لازم تھا۔میں کہتا یہ ہوں جو بات اس تقسیم میں مستحب ہے وہ یہ کہ موت کے بعد اس راز کے ظاہر کر دینے میں کوئی حرج نہیں چاہے یہ صاحبِ راز کے لیے مضر بھی ہو۔مثلاً اس میں کسی کا تزکیہ ہو یا کسی کی عزت ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ جو بالکل مکروہ ہے اور اس کا چھپانا حرام ہے اور جس کی طرف ابن بطال نے بھی اشارہ کیا ہے مثلاً جب اس میں کسی کا کوئی حق ہو تو ایسی صورت میں اس امید سے اسے افشا کیا جائے کہ وہ صاحبِ حق کی طرف لوٹ جائے گا۔پس کسی کے لیے جائز نہیں کہ کسی صاحبِ راز کو ضرر پہنچانے والی بات کو افشاکرے۔

٭٭٭٭٭

Exit mobile version