مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

چونتیسواں سبب: اہل بدعت کے شبہات میں پڑ جانا

جب شیطان مجاہد کے دل میں شکوک و شبہات ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، خصوصاً فتنوں کے دور میں، تو ایسے میں مجاہد از سر نو اپنا جائزہ لینا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اپنی اصلاح یا کمزوری اور کوتاہی کے سد باب کی غرض سے نہیں، بلکہ اس لیے کہ اب اس کے نظریات اور ارادے ہی بدل چکے ہوتے ہیں۔ حالانکہ اس کے پاس کوئی واضح اور صحیح دلیل نہیں ہوتی۔

ہمارے سچے نبی ﷺ ، صادق و مصدوق، نے ہمیں پہلے سے یہ خبر دے رکھی ہے کہ ایسا زمانہ آئے گا کہ شخص رات کو مومن سوئے گا لیکن صبح ہوتے ہی وہ کافر ہو جائے گا۔ اور جو شخص صبح کو مومن تھا وہ رات ہوتے ہی کافر ہو جائے گا۔ ایسا شخص دنیا کے فانی مال و متاع کے بدلے اپنا دین فروخت کرتا رہتا ہے۔

تو اے مجاہد خبردار رہو! ایسا نہ ہو کہ متزلزل ایمان والے یہ لوگ تمہیں بھی تمہارے نبی ﷺ کے منہج کے بارے میں فتنے میں ڈال دیں۔ اور میں ان لوگوں کو بھی ایسی حرکتوں سے باز رہنے کا کہتا ہوں۔

یہ وہی حالت سے جس کا اندیشہ فتنوں سے با خبر حضرت حذیفہ بن یمان ﷜ کو تھا۔ جب ان سے حضرت ابو مسعود انصاری ﷜ نے فرمایا: ”مجھے نصیحت کریں“۔ تو حضرت حذیفہ نے فرمایا:

اصل اور حقیقی گمراہی یہ ہے کہ تم اس چیز کو اچھا سمجھنے لگو جسے تم برا جانتے تھے۔ اور اسے برا مانوں جسے تم اچھا سمجھتے تھے۔ خبردار دین کے معاملے میں اپنے رنگ نہ بدلتے رہنا۔ کیونکہ اللہ کا دین تو ایک ہی ہے۔“

حضرت ابن مسعود ﷜نے فرمایا:

ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اتنا پکا کرے کہ اگر دنیا میں بسنے والے تمام لوگ کفر اختیار کر لیں تب بھی وہ کافر نہ ہو۔ اور اسے چاہیے کہ وہ امعہ (اناڑی) نہ بنے۔“

ان سے پوچھا گیا کہ امعہ کون ہوتا ہے؟ فرمایا:

جو یہ کہے میں تو لوگوں کا ساتھ دوں گا۔ کیونکہ شر اور برائی میں کسی دوسرے کو اپنا قابل تقلید نمونہ نہیں بنانا چاہیے۔“

حضرت محمد بن سیرین ﷫ حضرت عدی بن حاتم﷜ سے روایت کرتے ہیں کہ :

تم لوگ اس وقت تک خیر سے رہو گے جب تک تم جسے برا جانتے تھے اسے اچھا نہ جاننے لگو۔ اور جسے اچھا جانتے تھے اسے برا نہ ماننے لگو۔ اور جب تک تمہارے علماء تم لوگوں کے درمیان بلا خوف و خطر بولتے رہیں۔ “

امام مالک ﷫ نے فرمایا:

انتہائی پیچیدہ بیماری یہ ہے کہ شخص اپنا دین ایمان بدلتا رہے۔ “

امام ابن القیم ﷫ اپنی کتاب (مفتاح دار السعادہ) میں فرماتے ہیں:

جب میں شیخ الاسلام (ابن تیمیہ) کے سامنے ، اللہ ان سے راضی ہو، ایک کے بعد دوسرا اشکال پیش کرتا رہا تو انہوں نے مجھ سے کہا: ’اشکالات و شبہات کے لیے اپنے دل کو ایسا اسفنج نہ بنانا جو شبہات کو اندر جذب کر لے اور پھر جب نچوڑا جائے تو شبہات ہی نکلتے رہیں۔ بلکہ اُسے ایسے ٹھوس اور شفاف شیشے کی طرح بناؤ جس میں شبہات پھنسنے کے بجائے اُس پر سے گزر جائیں۔ پس دل اپنی شفافیت کی بدولت ان شبہات کو واضح دیکھ بھی لے اور اپنی مضبوطی کی بدولت انہیں رد بھی کر دے۔ بہ صورت دیگر اگر ہر شبہ جس پر تمہارا گزر ہو تمہارے دل میں جذب ہوتا رہے تو اس طرح تمہارا دل شبہات کا ٹھکانہ بن جائے گا‘۔ شیخ الاسلام کے الفاظ کم و بیش اسی طرح تھے۔ شبہات کے رد میں ان کی اس نصیحت کے علاوہ مجھے نہیں یاد کہ کسی اور نصیحت نے زیادہ فائدہ پہنچایا ہو۔“

حضرت عباس ﷜ نے فرمایا:

ہوائے نفس کے پیروکاروں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو۔ کیونکہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے دل بیمار ہو جاتے ہیں۔ “

حضرت ابو قلابہ ﷫ ، جنہوں نے ایک سے زیادہ صحابی رسول ﷺ کو پایا، فرماتے ہیں:

ہوائے نفس کے پیروکاروں(یا فرمایا) جھگڑنے والوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو۔ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ یا تو یہ لوگ تمہیں اپنی گمراہیوں میں ڈبو دیں گے۔ اور یا جسے تم بھلا جانتے ہو اس میں سے تمہارے لیے کچھ ضرور گڈ مڈ کر دیں گے۔ “

ہوائے نفس کے دو پیروکار حضرت محمد بن سیرین ﷫ کے ہاں داخل ہوئے اور ان سے کہنے لگے: اے ابو بکر، کیا ہم آپ کو ایک حدیث نہ سنائیں۔ تو حضرت ابن سیرین نے جواب دیا: ”نہیں“۔ انہوں نے کہا : چلیں ہم آپ کے سامنے اللہ تعالی کی کتاب کی ایک آیت ہی پڑھ دیتے ہیں۔ اس پر بھی حضرت ابن سیرین نے جواب دیا : ”نہیں۔ یا تم دونوں یہاں سے اٹھ جاؤ۔ اور یا میں اٹھ جاتا ہوں“۔ چنانچہ یہ دونوں شخص ان کے ہاں سے نکل گئے۔ پھر حاضرین میں سے کسی نے کہا: اے ابو بکر ، اس میں بھلا کیا مسئلہ تھا کہ وہ آپ کو کتاب اللہ کی کوئی آیت سنا دیتے۔ تو محمد بن سیرین نے فرمایا: ”مجھے خدشہ تھا کہ وہ کوئی آیت پڑھتے اور اس میں تحریف کر ڈالتے ۔ پھر وہ میرے دل میں بیٹھ جاتی۔ “

اہل بدعت میں سے ایک شخص نے حضرت ایوب سختیانی ﷫ سے کہا: اے ابو بکر !میں آپ سے ایک لفظ کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔ تو حضرت ایوب منہ موڑ کر چل دیے اور اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ نہیں، آدھے لفظ کے بارے میں بھی نہیں۔

حضرت ابن طاوس ﷫ نے اپنے ایک بیٹے سے کہا جو اہل بدعت کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا: ”اے بیٹے، اپنے کانوں میں انگلیاں دے دو تاکہ تم اس کی بات سننے ہی نہ پاؤ“۔ اور پھر کہا: ”اور زور سے بند کرو۔ اور زور سے“۔

حضرت عمر بن عبد العزیز ﷫ نے فرمایا:

جو شخص اپنے دین کو جھگڑنے کا موضوع بنائے تو وہ ہمیشہ اپنا دین ایمان بدلتا رہے گا۔ “

اما شاطبی ﷫ نے اپنی کتاب (الاعتصام) میں لکھا ہے:

نجات پانے والے گروہ کو ، جو کہ اہل سنت ہے، حکم ہے کہ وہ اہل بدعت سے دشمنی رکھیں، انہیں جلا وطن کریں اور جو ان کی ارد گرد جمع ہوں انہیں عبرت ناک سزا دیں ۔ علماء نے اہل بدعت کی صحبت اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھے سے خبردار کیا ہے، جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے، کیونکہ اس طرح ان کی دشمنی اور بغض ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔“

محمد بن النضر الحارثی ﷫ نے فرمایا:

جو کوئی ایسے شخص کی بات غور سے سنے جب کہ وہ جانتا بھی ہے کہ وہ صاحب بدعت ہے، تو اس سے عصمت1ایک خداداد یا وہبی صفت جو انسان کو بدی پر قدرت کے باوجود اس سے باز رکھتی ہے۔ کی صفت نکال دی جاتی ہے اور اس کے اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ “

حضرت عمرو بن قیس ملائی ﷫ نے فرمایا:

جب میں کسی جوان کو جوانی کے آغاز میں ہی اہل سنت کے ساتھ پلا بڑھتا دیکھتا ہوں تو اس سے امید رکھتا ہوں۔ اور اگر اسے اہل بدعت کے ساتھ پلا بڑھتا دیکھوں تو اس سے مایوس ہو تا ہوں۔ کیونکہ جوان اپنے آغاز کے مطابق ہی بڑا ہوتا ہے۔“

حضرت یحیی بن کثیر ﷫ فرماتے ہیں :

جب تم کسی صاحب بدعت کو ایک راستے میں دیکھو تو تم دوسرا راستہ اختیار کرو۔ “

٭٭٭٭٭

Exit mobile version