یومِ حشر کے دیگر نام
آج ہم ایک نیا باب شروع کریں گے جس میں ہم قیامت کے دن کے دیگر ناموں سے متعلق گفتگو کریں گے۔ یوم حشر کے بہت سے نام ہیں اور یہ اس لیے کہ یہ بہت اہم دن ہے۔ عربی زبان بلکہ دنیا کی اور بھی بہت سی زبانوں میں کسی بھی اہم چیز کو بہت سے نام دیے جاتے ہیں۔ مثلاً عربوں کے یہاں گھوڑوں کے لیے بہت سے نام ہیں، گھوڑوں کی اقسام، ان کے رنگوں کے حساب سے اور محض گھوڑے کے لیے بھی بہت سے نام ہیں۔ اسی طرح جیسے انگریزی زبان میں شراب کے بہت سے نام ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے بہت اہم ہے، جبکہ چونکہ مسلمان یہ جانتا ہے کہ شراب حرام ہے لہٰذا اس کے لیے اس حرام چیز کی اتنی اہمیت اور نام ہونا ابہام کا باعث ہے۔ البتہ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں ان کے لیے یہ اہم ہے اور اسی وجہ سے اس کی بہت سی قسمیں اور بہت سے نام ہیں ۔ قبل از اسلام عرب میں خمر یعنی شراب خصوصی اہمیت کی حامل تھی اس لیے اس کے اسّی نام تھے ۔
یوم حشر کی اہمیت کی وجہ سے اسے بھی بہت سے نام دیے گئے ہیں اور یہ تمام نام دراصل اس دن واقع ہونے والے حالات و واقعات کی مناسبت سے ہیں۔
-
یوم القیامۃ:
سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نام قیامت ہے۔ القیامۃ، قیام سے ہے جس کا معنی کھڑے ہونا ہے۔ یوم حشر کو کھڑے ہونے والا دن اس لیے کہا جاتا ہے کہ :
﴿ يَوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ (سورۃ المطففین: ۶)
’’ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔‘‘
یہ وہ دن ہو گا کہ جب لوگ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے کھڑے ہوئے ہوں گے، اس دن کوئی بھی لیٹا یا بیٹھا ہوا نہیں ہو گا بلکہ تمام لوگ کھڑے ہوں گے۔ قیامت کے دن، یعنی پچاس ہزار سال تک لوگ کھڑے رہیں گے۔ اسی لیے اس دن کو کھڑے ہونے کا دن کہا گیا ہے۔
﴿ اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۭ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ ۭ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا﴾ (سورۃ النساء: ۸۷)
’’ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تمہیں لازماً جمع کرے گا قیامت کے دن، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں اور اللہ سے بڑھ کر اپنی بات میں سچا کون ہو گا ؟ ‘‘
پس یوم حشر کا ایک نام قیامت ہے ۔
-
یوم الآخرۃ:
یوم حشر کے لیے دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نام یوم آخرت ہے۔ الیوم الآخر کا معنی ہے آخری دن کہ جس کے بعد اور کوئی دن نہیں ہو گا۔ یہ اس دنیا میں آخری دن ہو گا۔
﴿ لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ﴾ (سورۃ البقرۃ: ۱۷۷)
’’ نیکی بس یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لائیں۔‘‘
پس یہ یوم آخرت ہے، آخرت جس کا معنی ہے اختتام ۔
-
الساعۃ:
اگلا نام الساعۃ ہے یعنی وہ لمحہ یا وہی لمحہ، تخصیص کے ساتھ۔ یہ سب سے اہم لمحہ ہے۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں :
’’عربی زبان میں الساعۃ کو جب غیر محدود طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے غیر معینہ وقت۔ یعنی یہ لفظ غیر معینہ وقت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وہ وقت کم بھی ہو سکتا ہے اور زیادہ بھی۔ اس لفظ کو مخصوص طور پر دن بھر کے چوبیس میں سے ایک گھنٹے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پس اس کا معنی وہی گھنٹہ بھی ہو سکتا ہے اور وہی لمحہ بھی، یعنی غیر معینہ وقت۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ الساعۃ، یعنی الف اور لام کے ساتھ، جس کے معنی اس لمحے یا اس گھنٹے کے ہیں، کا معنی ہوگا: یہ لمحہ۔ لہٰذا ان کا یہ کہنا ہے کہ قیامت کے لیے الساعۃ کا نام اس لیے استعمال کیا گیا کہ وہ اس قدر قریب ہے گویا بس یہی لمحہ ۔ یہ ایک تشریح ہے۔
دوسری تشریح اس کی یہ ہے اس گھڑی کو الساعۃ کا نام اس لیے دیا گیا کہ یہ وہ سب سے اہم لمحہ ہے جس میں سب سے اہم واقعہ رونما ہو گا۔
اور اس کا یہ نام اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ گھڑی اچانک بس ایک لمحے میں آ جائے گی۔
یہ تینوں تشریحات امام قرطبیؒ نے بیان فرمائی ہیں۔
الساعۃ یوم حشر کے ان ناموں میں سے ہے جو یوم قیامت کے لیے قرآن و حدیث میں بار ہا استعمال ہوئے ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ ﴾( سورۃ الحج: ۱)
’’ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (کیونکہ) قیامت (کے دن) کا زلزلہ بڑی بھاری چیز ہے۔‘‘
-
یوم البعث:
یعنی دوبارہ اٹھائے جانے کا دن۔ اور یہ نام اس دن کو اس لیے دیا گیا ہے کہ اس دن ہمیں ایک نئی زندگی عطا کی جائے گی اور ہمارے جسموں کو دوبارہ تخلیق کیا جائے گا۔ ہم دوسری مرتبہ تخلیق کیے جائیں گے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ﴾ (سورۃ الحج: ۵)
’’ اے لوگو اگر تم (دوبارہ) جی اٹھنے کی طرف سے شک میں ہو تو (اس میں غور کر لو کہ) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔‘‘
اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم تمہیں دوبارہ تخلیق کرنے پر قادر نہیں ہے تو پھر ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ کیسے تخلیق کیا تھا؟
-
یوم الخروج:
اسے باہر نکلنے کا یا ظاہر ہونے کا دن اس لیے کہا گیا کہ اس دن انسان اپنی قبروں سے باہر نکلیں گے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ يَّوْمَ يَسْمَعُوْنَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوْجِ ﴾(سورۃ ق: ۴۲)
’’ جس دن اس چیخ کو بالیقین (سب) سن لیں گے وہ (قبروں سے)نکلنے کا دن ہو گا ۔‘‘
-
القارعۃ:
اس کا معنی ہم قہر سے کرسکتےہیں۔ تَقْرَعُ القُلوب، ایسی چیز جو دلوں پر چوٹ لگائے گی، دل دہلا دے گی، لہٰذا یہ ایک آفت ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ اَلْقَارِعَةُ مَا الْقَارِعَةُ Ąوَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُ ﴾ (سورۃ القارعۃ: ۱ تا ۳)
’’ (یاد کرو) وہ واقعہ جو دل دہلا کر رکھ دے گا۔ کیا ہے وہ دل دہلانے والا واقعہ ؟ اور تمہیں کیا معلوم وہ دل دہلانے والا واقعہ کیا ہے ؟ ‘‘
-
یوم الفصل:
فیصلے کا دن۔ یوم الفصل وہ ہے کہ جس دن تمام نزاعات کا فیصلہ ہو گا۔ اختلاف آراء ختم ہو جائیں گے اور اللہ رب العزت انسانیت اور جو کچھ انسانوں نے کہا اور کیا ہو گا کے مابین فیصلہ فرمائیں گے۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ هٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ ۚ جَمَعْنٰكُمْ وَالْاَوَّلِيْنَ ﴾ (سورۃ المرسلات: ۳۸)
’’ یہ ہے فیصلہ کا دن ہم نے جمع کرلیا تم کو اور اگلوں کو ‘‘۔
-
یوم الحسرۃ:
حسرت و ندامت کا دن۔ اس روز پچھتاوے ہی پچھتاوے ہوں گے۔ کافر اپنے ایمان نہ لانے پر نادم ہوں گے اور مسلمان پچھتاتے ہوں گے کہ کاش مزید اور بہتر اعمال لے کر پیش ہوتے۔ ہر طرف حسرت سی حسرت ہو گی۔ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا﴾ (سورۃ الفرقان: ۲۷)
’’ اور جس دن ظالم انسان (حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا، اور کہے گا : کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کر لی ہوتی۔‘‘
تصور کریں کہ حسرت، ندامت اور دکھ و ملال کی وجہ سے اس روز انسان اپنے دونوں ہاتھ، نہ کہ صرف انگلیاں، اپنے منہ میں ٹھونسے گا اور اپنی انگلیاں چبائے گا ۔
﴿ وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ (سورۃ مریم: ۳۹)
’’ اور ڈرائیے انہیں حسرت کے دن سے، جب فیصلہ ہو جائے گا سارے معاملے کا، جبکہ آج یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ۔‘‘
-
یوم الحساب:
جانچ پڑتال اور حساب کتاب کا دن۔
﴿ وَقَالَ مُوْسٰٓى اِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ﴾ (سورۃ غافر: ۲۷)
’’ اور کہا موسیٰ نے میں پناہ لے چکا ہوں اپنے اور تمہارے رب کی، ہر غرور والے سے، جو یقین نہ کرے حساب کے دن کا ۔‘‘
یہ حساب کتاب کا دن ہے اور حساب بھی ایسا دقیق کہ ہر چیز سامنے لائی جائے گی، حتی کہ ذرہ برابر چیز بھی نہ چھوڑی جائے گی خواہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿…اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ…﴾
پس اللہ عز و جل ہمارے ہر قول و عمل کو لا حاضر کرے گا۔ جو کچھ جب بھی ہم نے کہا ہو گا وہ سامنے آ جائے گا اور جو عمل بھی ہم نے کبھی کیا ہو گا وہ بھی سامنے آ جائے گا۔
﴿ يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ ﴾ (سورۃ الحاقۃ: ۱۸)
’ ’ اس دن تمہاری پیشی ہو گی، تمہاری کوئی مخفی سے مخفی بات بھی چھپی نہیں رہے گی۔‘‘
-
الواقعۃ:
وہ واقعہ، وہ حادثہ، سب سے اہم واقعے کا بپا ہونا۔
-
الحاقۃ:
اٹل حقیقت، ناگزیر حق۔
﴿ اَلْحَاۗقَّةُ مَا الْحَاۗقَّةُ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الْحَاۗقَّةُ﴾ (سورۃ الحاقۃ: ۱ تا ۳)
’’ وہ حقیقت ہو کر رہے گی۔ کیا ہے وہ حقیقت جو ہو کر رہے گی ؟ اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ حقیقت کیا ہے جو ہو کر رہے گی ؟ ‘‘
-
یوم التلاق:
ملاقات کا دن۔
﴿رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ﴾ (سورۃ غافر: ۱۵)
’’ وہی ہے اونچے درجوں والا، مالک عرش کا، اتارتا ہے بھید کی بات اپنے حکم سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں سے، تاکہ وہ ڈرائے ملاقات کے دن سے۔‘‘
اسے ملاقات کا دن کیوں کہا جاتا ہے؟ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اسے ملاقات کا دن اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس دن آدمؑ اپنے آخری بیٹے سے ملاقات کریں گے۔
آدمؑ کی تمام اولاد اس روز آمنے سامنے ہو گی۔ جبکہ قتادہؒ اور السُدّیؒ فرماتے ہیں کہ یہ وہ دن ہو گا کہ جب زمین کی مخلوق آسمان کی مخلوق سے ملے گی اور خالق اپنی مخلوق سے ملاقات فرمائے گا۔
اور میمون بن مہران کہتے ہیں کہ اس روز ظالم مظلوم کے سامنے آئے گا۔
-
یوم التناد:
پکار کا دن۔
﴿وَيٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ﴾ (سورۃ غافر: ۳۲)
’’ اور اے میری قوم ! مجھے تم پر اس دن کا خوف ہے جس میں چیخ و پکار مچی ہوگی۔‘‘
اسے چیخ و پکار کا دن اس لیے کہا گیا ہے کہ اس روز ہر طرف پکار بلند ہو رہی ہو گی۔ ہر ایک فرداً فرداً پکارا جائے گا، نیز مظلومین ظالموں کو پکارتے ہوں گے اور بندے اپنے ان معبودوں کو پکاریں گے جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔
ہم نے حشر کے دن کے مختلف معانی کے بارے میں بات کی۔ اس دن کے لیے سب سے زیادہ قیامت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اور ہم نے جانا کہ قیامت کے دن کا یہ نام اس لیے بھی ہے کہ وہ کھڑے ہونے کا دن ہو گا۔ اس روز کوئی بیٹھنا، لیٹنا، کوئی آرام نہ ہو گا۔ اس پچاس ہزار برس کے برابر طویل دن میں بہت سے حوادث رونما ہوں گے اور ان میں سے سب سے اہم حادثہ یا واقعہ حساب کتاب ہے۔
حشر کے دن کے بہت سے مرحلے ہیں جن میں سے ایک کائنات کا انقلاب بھی ہے اور اسی مرحلے سے قیامت کے دن کا آغاز ہو گا۔ پھر ایک مرحلہ لوگوں کے جمع ہونے کا، یعنی حشر ہے۔ پھر شفاعت بھی ایک علیحدہ مرحلہ ہے۔ پھر حساب کا مرحلہ ہے جو قیامت کے دن کا سب سے اہم اور ممتاز واقعہ ہے۔ حساب کتاب ہی کے لیے تو قیامت قائم ہو گی۔ اس مرحلے میں لوگوں کے اعمال ناموں کی پڑتال ہو گی اور اسی کی بنیاد پر کسی شخص کے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ ہو گا۔ اللہ رب العزت یوم حساب کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَعُرِضُوْا عَلٰي رَبِّكَ صَفًّا (سورۃ الکہف: ۴۸)
’’ اور وہ سب کے سب صف بستہ تیرے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے۔‘‘
لوگ اپنے رب کے سامنے حساب کتاب کے انتظار میں صف در صف کھڑے ہوں گے۔
آئندہ حصے میں ہم ان شاءاللہ یوم حشر کے چند اصولوں یا اساس پر بات کریں گے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی صحبہ وسلم
٭٭٭٭٭