سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط

معاصر جہاد کے لیے سیرتِ رسول ﷺ سے مستفاد فوائد و حِکَم!

غزوۂ حمراء الاسد

تمہید

اَلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ ۢ بَعْدِ مَآ اَصَابَھُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْھُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ؁ اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ؁ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوْۗءٌ ۙ وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ؁ اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاۗءَهٗ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ؁ (سورۃ آل عمران۱۷۲– ۱۷۵)

’’ وہ لوگ جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار کا فرمان برداری سے جواب دیا، ایسے نیک اور متقی لوگوں کے لیے زبردست اجر ہے۔ وہ لوگ جن سے کہنے والوں نے کہا تھا یہ مکہ کے کافرلوگ تمہارے مقابلےکے لیے (پھر سےجمع ہوگئے ہیں، لہٰذا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس (خبرنے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بول اٹھے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ نتیجہ یہ کہ یہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل لے کر اس طرح واپس آئے کہ انھیں ذرا بھی گزند نہیں پہنچی، اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔ درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔ ‘‘

ان آیات کا مصداق وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں جنہیں اُحد کے جاں گسل معرکے کے فوراً بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک اور معرکے طرف بلایا، اس حال میں کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین زخموں سے چُور تھے، حالیہ جنگ میں موت کے منہ سے بمشکل بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے، ابھی اس دھچکے کے اثرات سے بھی پوری طرح نہیں نکلے تھے، اپنے پیاروں کو اس جنگ میں کھونے کا غم بھی تازہ تھا، شہادتوں کی وجہ سے تعداد میں بھی کمی آئی تھی، بدن پر آنے والے زخم اس پر مستزاد تھے۔

سید قطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہی حضرات کو سفرِ جنگ کا حکم دیا کہ صرف یہی شرکائے اُحد نکلیں ،جو اس معرکے میں شریک نہ ہو سکے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت نہیں ،حالانکہ دیگر حضرات کو ساتھ لے چلنے کا بھی ایک معقول سبب موجود تھا کہ شہادتوں کی کثرت کی وجہ سے تعداد میں نمایاں کمی آئی تھی، لیکن قربان جائیے حضرات صحابہ کرام کے شوقِ شہادت پر کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی پکار پر فورا لبیک کہا، کیونکہ یہ پکار تو در حقیقت اللہ کی پکار تھی ، جیسا کہ قرآن کریم کی متذکرہ بالا آیات میں گزرا اور حضرات صحابہ کرام ﷢ بھی سمجھتے تھے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی پکار اللہ جل جلالہ کا مطالبہ ہے ۔لہذا وہ تکلیفوں ،نقصانات اور زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے اللہ و رسول کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے۔‘‘1فی ظلال القرآن

[عشق میں اُن کے کوہِ غم سرپرلِیا ، جو ہو سو ہو
عیش و نشاطِ زندگی چھوڑدیا، جو ہو سو ہو]

یہ آیاتِ کریمہ غزوۂ حمراء الاسد کے پس منظر میں نازل ہوئیں اور آج کی نشست میں ہم اسی پر بات کریں گے، ان شاء اللہ۔ یہ غزوہ بھی بلاشبہ دُروس و بصائر سے پُر غزوہ ہے ،جس کی بڑی دلیل مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ ہیں ۔

غزوے کے اسباب

غزوۂ اُحد میں آخری وقت میں مسلمانوں کو جو زک پہنچی تو اس کی وجہ سے مشرکین بھاگ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ یہ اچھا کام نہیں کیا کہ ان مسلمانوں پر اتنی کاری ضرب لگا کر ان کی قوت توڑنے کے بعد انہیں یونہی جانے دیا اور ان کا خاتمہ نہیں کیا، حالانکہ مسلمانوں کے بڑے باقی ہیں اور وہ دوبارہ تمہارے خلاف لشکر جمع کر لیں گے، لہٰذا چل کر ان کا قلع قمع کر دیتے ہیں ،ویسے بھی وہ زخموں سے چُور ہیں۔ رسول اللہ ﷺ تک مشرکین کی اس بات کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے عام اعلان کروا کے لوگوں کو دشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ’’ہمارے ساتھ بس وہ شخص اس سفر میں ساتھ نکلے جس نے جنگ میں بھی شرکت کی ہو‘‘، تمام تکالیف اور خطرات کے باوجود تمام مسلمانوں نے آپ ﷺ کی پکار پر لبیک کہا اور سرِ تسلیم خم کیا۔

ابن اسحاق ﷫فرماتےہیں:

’’رسول اللہﷺ دشمن پر رُعب ڈالنے کی خاطر نکلے تھے، کہ ان کے تعاقب کرنے کی خبر جب دشمن تک پہنچے تو انہیں لگے ابھی مسلمانوں کے پاس قوت ہے اور اس زک نے انہیں اتنا کمزور نہیں کیا کہ وہ دشمن کا سامنا نہ کر سکیں۔‘‘

اللہ و رسول ﷺ کے فرمان کی تعمیل میں تکالیف کی پروا نہ کرنے والے

دیگر جنگوں کی طرح اس جنگ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل سے آپ کی جنگی قائدانہ صلاحیتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو نکلنے کا کہا اور پہلے نکلنے والے آپ خود تھے۔ حضرات صحابہ کرام ﷢ زخموں سے چُور تھے، لیکن ان کے لیے بھی رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ والاصفات ایک نمونہ تھی کہ آپ ﷺ بھی اس حال میں نکلے کہ روئے انور، پیشانی مبارک اور دندانِ اقدس مجروح تھے، نچلے ہونٹ پر بھی اندر کی جانب زخم آیا، ابن قمئہ بدبخت کے وار سے دایاں شانہ مبارک متاثر تھا، دونوں زانو شریف پر بھی گہری خراشیں آئیں تھی۔

ہر قائد کے لیے لازم ہے کہ ساتھیوں کو جس کام کا کہے خود بھی اس کو کر کے دِکھائے، تاکہ ساتھی آگے بڑھ کر وہ کام کریں اور سخت و مشکل حالات میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

صحابہ کرام علیھم الرضوان نے بھی گہرے گھاؤ اور بہتے لہو کے باجود تعمیلِ فرمان کی زریں مثالیں رقم کر دیں ۔

ایک صحابی فرماتے ہیں :

’’میں اور میرا بھائی ہم دونوں رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوۂ اُحد میں شریک ہوئے اور زخمی ہو گئے ،پھر جب معرکہ ختم ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے منادی نے دشمن کا پیچھا کرنے کے حکم کا اعلان کیا تو میں نے اپنے بھائی سے کہا (یا پھر اُس نے مجھ سے کہا):کیا ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک اور غزوے میں شرکت کی سعادت سے محروم رہیں؟ اللہ کی قسم! ہمارے پاس سواری کا کوئی جانور نہیں تھا اور ہمارے زخم ایسے تھے کہ پیدل چلنا ہمارے لیے مشکل تھا، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے، میرے زخم نسبتاً ہلکے تھے، لہذا جب میرا بھائی چل کر نڈھال ہو جاتا تو میں اسے لاد کر لے چلتا۔ یہاں تک کہ ہم وہاں تک پہنچے جہاں مسلمانوں نے پڑاؤ ڈالا تھا۔‘‘

جب یہ اعلان ہوا تو حضرت سعد بن معاذ ﷜اپنی قوم کے پا س گئے ،حالت یہ تھی کہ بنو عبد الاشہل کے اکثر بلکہ سارے لوگ زخمی تھے، آپ نے آکر رسول اللہ ﷺ کا حکم سنایا، آپ فرماتے ہیں کہ اُسید بن حضیر ﷜کے جسم پر سات زخم لگے تھے اور وہ ان کی مرہم پٹی کرنے کا ارادہ کر رہے تھے، لیکن حکم سنتے ہی مرہم پٹی کا سامان چھوڑ کر اٹھے اور ’اللہ و رسول کا حکم ہم نے سنا اور مانا‘ کہتے ہوئے اپنے ہتھیاروں کی طرف لپک کر انہیں اٹھا لیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے ۔

حضرت سعد بن عبادہ ﷜اپنی قوم بنو ساعدہ کے پاس گئے اور انہیں نکلنے کا کہا، تو یہ بھی اسلحہ لے کر حاضرِ خدمت ہوئے، حضرت ابوقتادہ ﷜خُربیٰ والوں کے پاس گئے ،وہ بھی اپنے زخموں کی مرہم پٹی چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی تعمیل میں لگ گئے ،بنو سلمہ کے چالیس زخمی اس غزوے میں نکلے۔

دلوں کے زخم

غزوہ اُحد میں مسلمانوں پر آنے والی آزمائش صرف جسم کے زخموں تک محدود نہیں تھی، بلکہ فتح حاصل کرنے کے بعد ان پر جو آزمائش آئی تھی اس سے ان کے دل بھی چھلنی ہو گئے تھے، دل کے زخم جسم کے زخموں سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں ،جسم کے زخم تو وقت گزرنے کے ساتھ بھر جاتے ہیں ،لیکن دل کے زخموں کا بر وقت علاج نہ کیا جائے تو پھر یہ ہرے ہی رہتے ہیں ۔

پھر جب دل زخمی ہونے کا معاملہ فرد کی سطح کا نہیں، بلکہ امت کی سطح کا ہو تو اس مسئلے کی حساسیت اور سنگینی بڑھ جاتی ہے،یہ زخم محض زخم نہیں رہتے، بلکہ موت کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں، دنیا میں بھی اصل زندگی تو دل کے زندہ ہونے سے ہے نہ کہ محض جسم کے زندہ رہنے سے، اصل موت بھی دل کی موت ہے نہ کہ جسم کا مرنا۔ سو رسول اللہ ﷺ نے ان دلی زخموں پر مرہم رکھنے [اور حوصلوں کی بلندی کے لیے] فوراً اس غزوے میں نکلنے کا اعلان کیا۔

جو قوم بھی دوا کے درد اور علاج کی تکلیف کے خوف سے اپنے زخموں اور ٹوٹے حوصلوں کی شفایابی کا اہتمام نہیں کرتی وہ علاج کی تکلیف سے بدرجہا بڑی تکلیفیں سہنے پر مجبور ہوتی ہے ،اس کے زخم اس کوتاہی کی وجہ سے ناقابلِ علاج ناسور بن جاتے ہیں، مجروح اعضاء بھی گل سڑ کر جسم سے کٹ جاتے ہیں اور اس قوم میں شکست کے باوجود زندگی کی جو رمق باقی تھی، وہ بھی جاتی رہتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ امت ِمسلمہ نے بھی جب پے درپے ہزیمتوں (جن میں سے اکثر سازش کا نتیجہ تھیں) کے دھچکوں کا سدِباب اور علاج نہیں کیا تو اس پر [نبوی پیشین گوئی کے مطابق]ایسی ذلت و خواری چھا گئی کہ کئی دہائیوں [بلکہ کچھ صدیوں] سے امت مردہ ہو کر کارزارِ حیات میں اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہے۔ مصلحین کے لیے اس کی اصلاح اور طبیبوں کے لیے اس کا علاج مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ امت کا حوصلہ پست ہو چکا ہے، ارادہ جنگ ٹوٹ چکا ہے، دشمن کا رعب کچھ اس طرح حاوی ہو گیا ہے کہ بہت سے مسلمانوں کی دانست میں ان کفار کو شکست دینا مسلمانوں کے لیے ممکن ہی نہیں، وہ اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں کہ یہ اسی امت مسلمہ کے مجاہدین تھے جنہوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کا غرور خاک میں ملا دیا، بلکہ وہ اسے محض ایک خیال و خواب سمجھتے ہیں [یا سازشی نظریے کی عینک سے اسے دیکھتے ہیں]، حتیٰ کہ بعض بڑے بڑے اہلِ علم بھی (جنہیں نبوت کی وراثت کی بنا پر سب سے زیادہ با حوصلہ ہونا چاہیے) بھی موت کے ڈر اور دنیا کی محبت کی وجہ سے جہاد کے معنی میں طرح طرح کی باطل تاویلیں کرنے لگے ہیں [فالی اللہ المشتکیٰ]،اگر اللہ نے اپنی رحمت سے اس امت کو اس کے حوصلوں کو بلند کرنے اور زخموں پر مرہم رکھنے والے جہادی محافظ نہ عطا کیے ہوتے تو [ خاکم بدہن] یہ امت کافی عرصہ پہلے ہی صفحہ ہستی سے مٹ کر ایک افسانہ بن چکی ہوتی۔

صرف جنگ کے شرکاء سے نکلنے کے مطالبے کے اسباب

سید قطب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’رسول اللہ ﷺ نے صرف غزوۂ اُحد کے شرکاء کے نکلنے کا اعلان کروایا، اس تخصیص میں کئی باتیں ہیں اور عظیم حقائق کی طرف اشارہ ہے ،بعض کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں :

شاید رسول اللہ ﷺ کا منشا یہ ہو کہ جنگ کے اختتام پر مسلمانوں کا آخری احساس یہ نہ ہو کہ ہمیں زک پہنچی اور زخم لگے، رسول اللہ ﷺ نے انہیں قریش کے تعاقب میں لگایا ،تاکہ دلوں میں یہ بات بیٹھے کہ یہ تکلیف محض ایک آزمائش تھی ،کوئی آخری اور فیصلہ کن انجام نہیں ،پلہ ابھی بھی انہی کا بھاری ہے ،ان کا دشمن وقتی غلبے کا باوجود کمزور و شکست خوردہ ہے ،اطاعتِ رسول ﷺ میں کوتاہی کی وجہ سے یہ آزمائش آئی اور اس کوتاہی کو دور کر کے وہ دوبارہ غالب آ جائیں گے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہﷺ کا مقصد اس کے ساتھ یہ بھی ہو کہ قریش فتح کے نشے میں مست واپس نہ ہوں ،سو آپ انہی شرکائے معرکہ کو لے کر ان کے تعاقب میں نکلے ،تاکہ قریش کو اندازہ ہو کہ وہ مسلمانوں کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکے اور وہ ابھی بھی ا س قابل ہیں کہ ان کا پیچھا کر سکیں اور ان پر حملہ آور ہو سکیں۔

یہ بھی امکان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی غرض یہ ہو کہ مسلمان اور ساری دنیا زمین پر موجود ایک نئی حقیقت کو جان لے کہ اسلام وہ نظریہ ہے جو اپنے ماننے والوں کے لیے سب کچھ ہے ،وہ اسی کی خاطر جیتے ہیں ،اس کے علاوہ انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں، اس کی خاطر کوئی بھی قربانی دینے سے مسلمان دریغ نہیں کرتے۔

یہ بات اُس وقت روئے زمین پر ایک بالکل نئی بات تھی،اور لازم تھا کہ مسلمانوں کے علاوہ باقی ساری دنیا کو بھی اس عظیم حقیقت کا پتہ چلتا۔‘‘

انہی شرکائے جنگ کے ساتھ دشمن کا تعاقب کرنے میں اور بھی بڑی حکمتیں ہو سکتی ہیں ،ایک حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ یہ حضرات صحابہ کرام علیھم الرضوان دشمن کے مقابلے میں صبر کرنے اور تنگی و مصائب کے باوجود آگے بڑھنے میں اپنے بعد والوں کے لیے ایک زندہ مثال اور منارۂ نور بنیں۔

شاید رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو یہ سکھانا چاہتے ہوں کہ جنگ تو دراصل حوصلے کے بل بوتے پر لڑی جاتی ہے اور حقیقی شکست جسم پر آنے والے زخموں سے نہیں ہوتی بلکہ حوصلہ ٹوٹنے سے ہوتی ہے۔

ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مدینہ میں موجود مسلمانوں میں جانے سے پہلے لشکر کے حوصلے بلند ہو چکے ہوں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ آزمائش کے اثرات کی وجہ سے دیگر مسلمان کم ہمت نہ ہو جائیں، کیونکہ کم ہمتی بھی طاعون کی طرح متعدی وبائی مرض ہے۔

چوٹ کھانے کے بعد اٹھ کھڑے ہونے اور صبر کی مثالیں اس امت میں بہت ہیں اور آج بھی دہرائے جانے کے قابل ہیں ،مجھے امید ہے کہ امت کو پہنچنے والی پے در پے ہزیمتوں کے بعد جن حضرات نے جہاد کو زندہ کیا وہ ان آیات کا مصداق ہیں اور ان کی مشابہت شرکائے غزوہ حمراء الاسد کے ساتھ ہے ،یہی امید ان حضرات کے بارے میں بھی جنہوں نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے سقوط کے بعد جہاد کو از سرِ نو کھڑا کیا، تکلیف دہ زخم کھا کر بھی جو اہلِ وفا صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہِ جہاد پر مستقل گامزن ہیں ان کے بارے میں بھی مجھے اللہ سے یہی امید ہے اور اللہ جل شانہ بڑے فضل والا ہے ۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Exit mobile version