یہودیوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کا رجحان
شوشنا سٹروک (Shoshana Strook) کیس
اسرائیلی بستیوں کی وزیر اورٹ سٹروک (Orit Strook) کی بیٹی شوشنا سٹروک (Shoshana Strook)نے اپنے والدین اور ایک بھائی پر بچپن میں اس کے ساتھ زیادتی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس نے ایک ویڈیو شائع کی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اس کی عصمت دری کو چائلڈ پورنوگرافی کے طورپر استعمال کرنے کے لیے فلمایا اور ویڈیو کی اشاعت کی دھمکی دے رہے ہیں۔ سٹروک نے اپنے الزامات کا انکشاف کرنے کے لیے اٹلی کا سفر کیا لیکن اب وہ اسرائیل واپس آگئی ہیں، جہاں اس نے اسرائیلی پولیس سے کہا ہے کہ وہ اسے اپنے والدین اور بلیک میلرز سے محفوظ رکھے۔
اسرائیلی آباد کار بستیاں: ’پیڈوفائلز‘ کی پناہ گاہیں
اسرائیلی سائیکو تھراپسٹ اور صدمے کی ماہر اور بار–ایلان یونیورسٹی (Bar-Ilan University)کے ٹراما تھراپی پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر انات گور (Dr. Anat Gur) نے کہا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل میں بچوں سے منظم عصمت دری بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ بچوں کا منظم ریپ ان سب سے ہولناک چیزوں میں سے ایک ہے جس کا میں نے سامنا کیا ہے۔ یہ ممکنہ طور پر ہمارے خیال سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ یہ ان جگہوں پر ہو رہا ہے جن کی ہم توقع نہیں کرتے۔ بچوں کے تحفظ کے گروپ ہیومینیم (Humanium)کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اسرائیلی بستیاں دوسرے ممالک بالخصوص امریکہ میں انصاف سے بھاگنے والے پیڈیوفائلز کے لیے ’پناہ گاہ‘ بن چکی ہیں۔1Exposing pedophilia and legal failures in Israel – Humanium (22 October 2024)
بہت سے جنسی مجرموں کو مغربی کنارے میں الٹرا آرتھوڈوکس بستیوں میں پناہ ملتی ہے۔2Emmanuel, the town in Israel where pedophiles find safe haven – The Jewish Independent (4 March 2024) ان علاقوں میں سات لاکھ سے زیادہ اسرائیلی آباد کار مقیم ہیں، جو فلسطینیوں کی زمین پر 150 سرکاری امدادی بستیوں کی صورت میں قابض ہیں، جنہیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ حکومتی فنڈنگ غیر مجاز چوکیوں تک کے علاقوں کو بھی ملتی ہے جس سے سزا یافتہ مجرموں کو کم سے کم مداخلت کے ساتھ رہنے کی اجازت ملتی ہے۔3Who are Israeli settlers, and why do they live on Palestinian lands? – AlJazeera (6 November 2023)
نتیجے کے طور پر، مغربی کنارے کی بستیوں کو بچوں کے جنسی استحصال، بشمول عصمت دری اور چائلڈ پورنوگرافی کے سنگین الزامات پر طویل جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ کیسز، جن میں آن لائن استحصال اور ذاتی حملوں کی وسیع پیمانے پر مثالیں شامل ہیں، ایک سنگین رجحان کو اجاگر کرتے ہیں، کیونکہ یہ بستیاں طویل عرصے سے جنسی جرائم کے ملزمان کو پناہ دینے کے لیے مشہور ہیں۔4Exposing pedophilia and legal failures in Israel – Humanium (22 October 2024)
مالکہ لیفر (Malka Leifer)کیس
مالکہ لیفر(Malka Leifer)جو ایک انتہائی قدامت پسند یہودی کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھی اور ایڈاس اسرائیل اسکول(Adass Israel School)، جو میلبرن، آسٹریلیا میں ایک الٹرا آرتھوڈوکس یہودی اسکول ہے، کی پرنسپل تھی۔ مالکہ لیفر پر ایڈاس اسرائیل اسکول میں زیرِ تعلیم کم عمر طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات عائد کیے گئے۔ اس پر کل 74 الزامات تھے، جن میں ریپ، غیر اخلاقی حملہ، اور بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی جیسے جرائم شامل تھے۔ یہ الزامات تین بہنوں، ڈاسی ایرلک(Dassi Erlich)، ایلی ساپر (Elly Sapper)، اور نیکول میئر (Nicole Meyer)، نے عائد کیے، جو اس وقت اسکول کی طالبات تھیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ لیفر نے 200۱ء سے 2008 ءکے دوران اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی۔ جب 2008ء میں ان الزامات کی تحقیقات شروع ہوئیں، مالکہ لیفر آسٹریلیا سے فوراً اسرائیل فرار ہو گئی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اسرائیل کے ایک قدامت پسند یہودی علاقے، ایمانوئل(Emmanuel) سیٹلمنٹ، میں روپوش ہو گئی۔ آسٹریلوی حکام نے 2011ء میں اسکے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا اور اسرائیل سے اس کی حوالگی (extradition) کا مطالبہ کیا۔ تاہم، لیفر نے اسرائیل میں اپنی حوالگی سے بچنے کے لیے متعدد قانونی حربے استعمال کیے جس نے حوالگی کے عمل کو طویل کر دیا۔
اس دوران، اس کے کیس نے آسٹریلیا اور اسرائیل دونوں میں تنازع کھڑا کر دیا، کیونکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ دانستہ طور پر قانون سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مالکہ لیفر کی گرفتاری ایک طویل اور پیچیدہ عمل کے بعد ممکن ہوئی۔ 2014ء میں آسٹریلوی حکام نے اسرائیل سے باضابطہ طور پر اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا، لیکن اسرائیلی عدالتوں میں لیفر کے وکلاء نے مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے۔ آسٹریلیا واپسی کے بعد، مالکہ لیفر پر 74 الزامات کے تحت مقدمہ چلا۔ 2023ء میں، میلبرن کی ایک عدالت نے اسے 29 الزامات میں قصوروار پایا، جن میں سے کچھ سنگین جرائم جیسے کہ ریپ شامل تھے۔ اگست 2023ء میں، مالکہ لیفر کو 15 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
برطانوی حکومت میں نابالغوں سے جنسی زیادتی کے مجرمین
برطانیہ میں جنوری ۲۰۲۵ء میں یہودی لیبر موومنٹ کے سابق سربراہ آئیور کیپلن (Ivor Caplin)کو بھی نابالغوں کے ساتھ جنسی زیادتی، یا منصوبہ بند جنسی زیادتی کے شبے میں گرفتار کیا گیا۔ 2023ء میں ہیکنی، لندن کے سابق لیبر کاؤنسلر تھامس ڈیوی (Thomas Dewey)کو تشدد اور حیوانیت سمیت بچوں کی عصمت دری کی تصاویر رکھنے کا اعتراف کرنے کے باوجود صرف 150 گھنٹے کی کمیونٹی سروس کی سزا سنائی گئی۔لیبر پارٹی کے سربراہ اور بعد میں برطانیہ کے وزیر اعظم بننے والے کیئر سٹارمر (Keir Starmer) نے تھامس ڈیوی کی گرفتاری کے بعد بھی مقامی انتخابات میں امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کی اجازت دی اور وہ گرفتاری کے ایک ہفتے بعد بطور کاؤنسلر منتخب بھی ہو گیا۔ برطانوی میڈیا اور سیاستدان ایسے الزامات کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔
ٹرو نیوز(TruNews) کے بانی رک وائلز (Rick Wiles) کے الزامات
رک وائلز ٹرو نیوز ویب سائٹ کے بانی ہیں، انہوں نے یہ الزام لگایا کہ یہودی امریکی سیاستدانوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مبینہ اسرائیلی موساد کے زیر اہتمام بلیک میلنگ آپریشن کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہودی، خاص طور پر صیہونیوں کے ذریعے، امریکی سیاستدانوں کو جنسی اسکینڈلز میں پھنسایا جاتا ہے، جن کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں تاکہ انہیں بلیک میل کیا جا سکے اور وہ اسرائیل کے مفادات کی حمایت کریں۔ مثال کے طور پر، انہوں نے دعویٰ کیاکہ جفیری ایپسٹین(Jeffrey Epstein) ایک اسرائیلی ایجنٹ تھا جو امریکی سیاستدانوں اور کاروباری افراد کو نابالغ لڑکیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی پیشکش کرتا تھا تاکہ انہیں بلیک میل کیا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ’’قبالہ‘‘ (Qabalah/Kabbalah) جادو کا استعمال کرنے والے صیہونی ہیں جنہوں نے امریکی معاشرے کو کنٹرول کر لیا ہے۔ حال ہی میں جب ایلون مسک اور ٹرمپ کے مابین کشیدگی ہوئی تو ایلون مسک نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ سرکاری دستاویزات میں ٹرمپ کے فنانسر کے طور پر بدنام زمانہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین(Jeffrey Epstein) کا حوالہ دیا گیا ہے۔
بچوں کے قتل کی حریص اسرائیلی فوج
فرانس 24 کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی یہودی سرجن ڈاکٹر مارک پرلمٹر (Dr. Mark Perlmutter)نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی اسنائپرز غزہ میں جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پرلمٹر نے کہا کہ جب وہ اس سال کے شروع میں جنوبی غزہ میں خان یونس کے یورپی ہسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کر رہے تھے تو انہوں نے ’’دو بچوں کو دیکھا جنہیں دو بار گولی ماری گئی تھی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا:’’کسی بچے کو غلطی سے دو بار گولی نہیں لگ سکتی۔ میں اپنا سٹیتھو سکوپ بچے کے سینے پر سو فیصد صحیح جگہ نہیں رکھ سکتا، جہاں اسرائیلی سنائپرز نے پرفیکشن کے ساتھ گولی ماری ۔ یونیسیف کے مطابق، اسرائیل نے 2023ء سے غزہ میں پچاس ہزار سے زیادہ بچوں کو شہید اور زخمی کیا ہے۔ یہ مسلسل 575 دنوں تک ہر 45 منٹ میں ایک بچے کی شہادت کے برابر ہے!
کیا بچوں سے جنسی زیادتی اور پورنوگرافی کا تعلق شیطان پرستی سے ہے ؟
ٹریسا (Teresa) کیس
مشہور صحافی آئن لیسلی(Ian Leslie) نے 1989ء میں ’’60 منٹس آسٹریلیا‘‘(60 Minutes Australia) کے پروگرام ’’شیطان چلڈرن‘‘ (Satan’s Children) میں ایک 15 سالہ برطانوی لڑکی ٹریسا (Teresa) کا انٹرویو کیا تھا۔ یہ انٹرویو ایک انتہائی چونکا دینے والے خوفناک انکشافات پر مبنی تھا، جس میں ٹریسا نے اپنے ساتھ ہونے والے Satanic Ritual Abuse (SRA) کے تجربات کی تفصیلات بیان کیں۔ آئن لیسلی نے اسے اپنے 27 سالہ صحافتی کیریئر کی ’’سب سے تکلیف دہ اور پریشان کن کہانی‘‘ قرار دیا۔
انٹرویو میں ٹریسا نے بتایا کہ وہ دو سال کی عمر سے اپنی دادی کے ساتھ رہ رہی تھی، جو ایک شیطانی کلٹ کی سرغنہ تھی۔
اس نے اس کلٹ کی عجیب و غریب، خوفناک اور دل دہلا دینے والی رسومات اور منظم جنسی استحصال (systematic sexual abuse) کی تفصیلات بیان کیں، جو اس کے ہوش سنبھالنے سے قبل کم عمری سے ہی اس کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گئے تھے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اسے 12 سال تک اس کلٹ میں پھنسائے رکھا گیا، جہاں اسے خوفناک رسومات اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ دو سال کی عمر سے یہ بچی اپنے سامنے دوسرے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد و زیادتی دیکھتی اور یہی اس کے ساتھ بھی ہوتا۔ کئی بچوں کو ذبح کیا گیا ۔ بچوں کو اذیت دینے کے لیے ان پر زہریلے بچھو اور سانپ بھی چھوڑے جاتے ۔ ان سے جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کروایا جاتا۔ ٹریسا نے اس کلٹ کے شکنجے میں رہتے ہوئے 7 بچوں کو جنم دیا۔ یہ بنیادی طور پر اسقاط حمل ہوتا تھا ۔ پیدا ہونے والے بچوں کو اس کے سامنے قتل کیا جاتا۔ ایک دفعہ اس کے نومولود بچے کو قتل کے بعد ٹریسا کو اسے کھانے پر مجبور کیا گیا۔ ٹریسا نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس پر کتے چھوڑ دیے گئے ۔ پکڑے جانے پر اسے کئی دنوں تک باندھ کر رکھا گیا۔ ٹریسا کے بقول اسے شہر سے دور کسی قلعہ نما بڑی عمارت میں لے جایا جاتا تھا جہاں بہت امیر لوگ اس شیطانی کلٹ کی تقریب میں شرکت کرتے۔ شیطان کو لوسیفر (Lucifer)کہا جاتا تھا۔ اسے بتایا گیا کہ لوسیفر بچوں کے قتل سے بہت خوش ہوتا ہے۔ آئن لیسلی نے پوچھا کہ وہ قتل کیے جانے والے بچوں کا کیا کرتے تھے تو ٹریسا نے بتایا کہ انہیں ایک بڑے سے ڈرم میں تیزاب ڈال کر ختم کر دیا جاتا تھا جو ہڈیوں تک کو گلا دیتا تھا۔5یہ بالکل وہی طریقہ کار تھا جو پاکستان میں سو بچوں کو قتل کرنے والے جاوید اقبال نے اختیار کیا تھا۔
آئن لیسلی نے، جو 60 منٹس آسٹریلیا کے ابتدائی رپورٹرز میں سے ایک تھے، اپنی رپورٹنگ میں بچوں سے متعلق مسائل پر ہمدردانہ انداز کے لیے جانے جاتے تھے۔ آئن لیسلی نے ٹریسا کی میڈیکل رپورٹس بھی چیک ہیں جس میں اس پر ہونے والے جنسی تشدد، زچگی اور اسقاط حمل کی تصدیق کی گئی تھی ۔ آئن لیسلی نے ٹریسا کی کہانی کی صداقت کو جانچنے کے لیے ان رپورٹس اور ٹریسا کی ریکارڈنگ کے ہمراہ مشہور ماہر نفسیات رے وائر (Ray Wyre) سے مشاورت کی، جو Satanic Ritual Abuse (SRA) کے متعلق معلومات رکھتے تھے اور اس موضوع پر ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ وائر نے ٹریسا کی کہانی کی تصدیق کی اور بتایا کہ انہوں نے دو سال کے عرصے میں 21 دیگر SRA متاثرین سے بھی اسی طرح کی کہانیاں سنی تھیں۔ آئن لیسلی نے پوچھا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ یہ بچوں کا نفسیاتی مسئلہ ہو یا یہ سب خواب دیکھا ہو۔ تو رے وائر نے بتایا کہ ایسا ممکن نہیں کہ تین چار سال کے بچے اس طرح کے جنسی عمل کے متعلق بات کریں۔ یقینی طور پر ان بچوں نے یہ سب مشاہدہ کیا تھا ۔ آئن لیسلی نے اس کیس کی تفتیش کرنے والے تفتیشی افسر سے بھی انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہیں ٹریسا کی آپ بیتی پر یقین ہے کہ وہ سچ کہہ رہی ہے؟ تو اس کا جواب ہاں میں تھا ۔ اس افسر نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایسے دوسرے کیسز کی بھی تفتیش کررہے ہیں ۔ آئن لیسلی اس کلٹ کے رہنماؤں سے بھی انٹرویو کرنے میں کامیاب ہوا ۔ جس میں سے ایک نے اپنے کلٹ کے حوالے سے تو انکار کیا کہ وہ بچوں کو قتل کرنے کی کوئی رسم ادا کرتے ہیں لیکن اس نے اس بات کا اقرار ضرور کیا کہ ایسے شیطانی گروپ یقیناً موجود ہیں جو یہ فعل سر انجام دیتے ہیں ۔ اس کلٹ کے دوسرے ممبران نے قدرے مبہم انداز میں بات کرتے ہوئے اسے حق آزادی قرار دیا کہ انہیں اس کی بھی آزادی ہونی چاہیے۔ انہوں نے بچوں سے جنسی تعلق کے حق کی بھی حمایت کی۔ اتنے ٹھوس ثبوتوں کے باوجود اس کیس کے متعلق دوسرے چینلز اور اخبارات نے رپورٹنگ نہیں کی اور خاموشی اختیار کی۔ اور اکثر جگہوں پر ان واقعات کو سازشی تھیوری کہہ کر رد کر دیا گیا۔ اس کیس کے متعلق اور اس سے ملتے جلتے دوسرے سکینڈلز جن میں شیطانی کلٹ اور بچوں سے جنسی زیادتی اور ان کے بطور رسم قتل کے متعلق جب مختف پلیٹ فارمز کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس سسٹمز سے رہنمائی لینا چاہی تو سب نے کیس کو سازشی نظریہ قرار دیا گیا، صرف اس بنیاد پر کہ شیطانی ٹیمپلز کے ترجمان ان الزامات کی نفی کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ وہ ایسا قانونی گرفت سے بچنے کے لیے کرتے ہیں۔
شیطان پرستی سے منسلک اہم کیسز اور افراد
شیطان پرستی سے منسلک افراد پر بچوں سے جنسی زیادتی یا قتل کے الزامات اکثر 1980ء کی دہائی میں سامنے آئے۔ کچھ اہم کیسز اور افراد درج ذیل ہیں:
میک مارٹن پری اسکول (McMartin Preschool) کیس (۱۹۸۳ء):
لاس اینجلس، کیلیفورنیا میں، میک مارٹن پری اسکول کے سات اساتذہ، جن میں سکول کی بانی ورجینیا مک مارٹن (Virginia McMartin) کی بیٹی پیگی مک مارٹن بکے (Peggy McMartin Buckey)، اس کے نواسے رے بکے (Ray Buckey) اور نواسی پیگی این بکے (Peggy Ann Buckey)شامل تھے، پر 300 سے زائد بچوں سے جنسی زیادتی اور شیطانی رسومات کے الزامات لگے۔ یہ مقدمہ امریکی تاریخ کا سب سے طویل اور مہنگا مقدمہ تھا۔ ساتھ سال سے زائد عرصے پر محیط اس مقدمے پر ۱۶ ملین ڈالر کی لاگت آئی۔ تاہم، تمام الزامات 1990ء میں خارج کر دیے گئے، اور ملزمان کو بری کر دیا گیا کیونکہ ثبوت ناکافی تھے اور بچوں کے بیانات میں تضادات پائے گئے۔
لوئی الفریڈو گاراویٹو کوبیلوس (Luis Alfredo Garavito Cubilos)
یہ لاطینی امریکی سیریل کلر تھا، جسے ’’حیوان‘‘ (The Beast) کہا جاتا تھا۔ اس پر ۳۰۰ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر قتل کے الزامات تھے۔ ۱۸۰ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر قتل کے الزامات ثابت ہوئے جس کے بعد اسے سزا سنا دی گئی۔ لوئی نے دعویٰ کیا کہ اس کے جرائم کی وجہ ’’شیطان کا اثر‘‘ تھا۔
ویست ممفس تھری (West Memphis Three) کیس
۱۹۹۴ء کے ویسٹ مفس تھری کیس میں تین نوجوانوں ڈیمین ایکولز (Damien Echols)، جیسی مسکیلی جونیئر (Jessie Misskelley Jr.) اور جیسن بالڈون (Jeson Baldwin) پر شیطانی رسومات کی ادائیگی کرتے ہوئے تین آٹھ سالہ لڑکوں سٹیو برانچ (Steve Branch)، مائیکل مور(Michael Moore)، اور کرسٹوفر بائیرز (Christopher Byers) کو قتل کرنے کے الزامات لگے۔ اس کیس میں ڈیمین اکیلز کو سزائے موت جبکہ باقی دونوں کو عمر قید کی سزا ہوئی۔ لیکن ۱۸ سال بعد ۲۰۱۱ء میں انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔
امریکہ شیطان پرستی کا مرکز
امریکہ میں جدید شیطان پرستی (Satanism) کی ابتدا 1966ء میں ہوئی جب انٹن زینڈر لاوی (Anton Szandor LaVey) نے چرچ آف سیٹن (Church of Satan) کی بنیاد سان فرانسسکو، کیلیفورنیا میں رکھی۔ یہ تنظیم جدید شیطان پرستی کی سب سے نمایاں شکل سمجھی جاتی ہے، جو لاوین شیطانیت (LaVeyan Satanism) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ لاوی نے 1969ء میں شیطانی بائبل (The Satanic Bible) شائع کی، جس نے شیطان پرستی کو ایک منظم فلسفے کے طور پر متعارف کرایا۔ یہ فلسفہ شیطان کو ایک علامتی شخصیت کے طور پر پیش کرتا ہے جو انفرادیت، خود مختاری، اور مادی لذتوں کی ترجمانی کرتا ہے، نہ کہ ایک لفظی شیطانی ہستی کی عبادت۔ اس کے علاوہ، 2013ء میں دی سیٹانک ٹیمپل (The Satanic Temple) کی بنیاد رکھی گئی، جو ایک الگ تنظیم ہے اور سیاسی و سماجی ایکٹوازم پر زیادہ توجہ دیتی ہے، خاص طور پر مذہبی آزادی اور سائنسی عقل پر مبنی نظریات کو فروغ دینے کے لیے۔
اس سے قبل، شیطان پرستی کے تصورات امریکہ میں زیادہ تر عیسائی روایات کے تناظر میں منفی طور پر دیکھے جاتے تھے، لیکن کوئی منظم شکل موجود نہیں تھی۔
موجودہ شیطانی کلیساؤں یا ٹیمپلز کی تعداد
دقیق اعداد و شمار کے مطابق موجودہ شیطانی کلیساؤں یا ٹیمپلز کی تعداد کا تعین مشکل ہے کیونکہ یہ تنظیمیں اکثر نجی طور پر کام کرتی ہیں، اور ان کی شاخیں یا ممبرشپ عوامی طور پر مکمل طور پر ظاہر نہیں کی جاتی۔ تاہم، کچھ اہم تنظیمیں یہ ہیں:
چرچ آف سیٹن (Church of Satan):
یہ تنظیم اب بھی فعال ہے، لیکن اس کی شاخوں کی تعداد عوامی طور پر واضح نہیں ہے۔ اس کے ممبران دنیا بھر میں ہیں، لیکن کوئی مخصوص ’’چرچ‘‘ کی عمارتوں کی تعداد رپورٹ نہیں کی جاتی۔
دی سیٹانک ٹیمپل (The Satanic Temple):
یہ تنظیم امریکہ میں زیادہ نمایاں ہے اور اس کی کئی شاخیں (Chapters) ہیں۔ 2023ء تک، دی سیٹانک ٹیمپل کی کم از کم 30 شاخیں امریکہ کے مختلف شہروں میں فعال تھیں، جیسے کہ بوسٹن، سیئٹل، اور ڈیٹرائٹ۔ یہ شاخیں اکثر کمیونٹی سینٹرز یا آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے کام کرتی ہیں۔
شیطان پرستوں کا اجتماع
۲۰۲۳ء میں شیطان پرستوں کا سب سے بڑا اجتماع امریکہ کے شہر بوسٹن میں میریئٹ ہوٹل میں ہوا۔ اس اجتماع میں شرکت کرنے والے ایک شخص نے نیوز رپورٹر کو بتایا کہ ایک شیطان پرست نے مجھے اس رسم کو اس شرط پر دیکھنے کی اجازت دی تھی کہ یہاں موجود کسی فرد کا نام یا شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی۔ ان افراد نے چہروں پر ایک کالا ماسک اور بدن پر لمبا چوغا پہن رکھا تھا جو زمین کو چھو رہا تھا۔ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے تھے جسے کاٹ کر اُن کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل سے صفحے پھاڑ کر علامتی طور پر ان افراد کی مسیحی مذہب سے وابستگی ختم کر دی گئی۔ امریکی حکومت ’دی سیٹانک ٹمپل‘ کو ایک مذہب کے طور پر تسلیم کرتی ہے جس کے اجتماعات امریکہ کے علاوہ یورپ اور آسٹریلیا میں بھی منعقد ہوتے ہیں۔ مسیحی مذہب کے ماننے والوں کے لیے یہ مذہب کی سنگین توہین ہے۔ اور دی سیٹانک ٹمپل کے میڈیا تعلقات کے ماہر ڈیکس ڈس جارڈنز (Dex Desjardins) نے اس سے اتفاق کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہماری بہت سے چیزیں توہین آمیز ہیں۔ اس کے بقول ہمارے بہت سے لوگ الٹا کراس پہنتے ہیں۔ ہماری ابتدائی رسم میں بائبل کے صفحے پھاڑے جاتے ہیں کیوں کہ اسے ’ایل جی بی ٹی کیو‘ اور خواتین پر ظلم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہوٹل کے باہر احتجاج کرنے والے بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک، قدامت پسند کیتھولک گروہ کے رکن مائیکل شیولر (Michael Shivler)، نے اندر موجود افراد کو تنبیہ کی کہ ہم خدا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم اس توہین کو نہیں مانتے اور یہ کہ کیتھولک لوگ عوامی مقامات شیطان پرستوں کے حوالے نہیں کرنے دیں گے۔ ’دی سیٹانک ٹمپل‘ کی شناخت کا ایک لازمی جزو سیاسی عمل میں شرکت ہے۔ موجودہ سیکولر جمہوری نظام کے دلدادہ افراد کی طرح ان کا بھی ماننا ہے کہ مذہب اور ریاست کو الگ ہونا چاہیے اور یہ اکثر امریکہ میں اس معاملے پر عدالتوں میں کیس دائر کرتے رہتے ہیں۔ اوکلوہوما ریاست میں انہوں نے شیطان کا آٹھ فٹ کا مجسمہ نصب کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی آئین میں لکھا ہوا ہے کہ تمام مذاہب سے یکساں سلوک ہو گا۔ اس شیطانی کلٹ میں اسقاط حمل کے حق کی بھی حمایت کی جاتی ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ہر کسی کو اپنے جسم پر اختیار ہونا چاہیے۔ نیو میکسیکو میں ان کی جانب سے ایک آن لائن کلینک کا آغاز کیا گیا جو ڈاک کے ذریعے اسقاط حمل کی گولیاں فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے اسقاط حمل کی ایک رسم بھی ایجاد کی ہے جو ایسے افراد کے لیے ہے جو حمل گرانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس تنظیم کا ایک اور منصوبہ سکول کے بعد کلبوں کا انقعاد ہے جن کو شیطان کے ساتھ تعلیم کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو یہ مذہب کو تعلیم اور سکول سے باہر رکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ماننے والے مذہبی گروہوں سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں جو ان کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک آفٹر سکول شیطان کلب شروع کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں جہاں توجہ کمیونٹی سروس، سائنس، دستکاری اور تنقیدی سوچ پر مرکوز ہو گی۔ اس کلٹ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ بچوں کو شیطان پرست بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے ایک گانا ’میرا پال شیطان‘ بنایا ہے، جس میں ایک اینیمیٹڈ بکری ہے، اور یہ سطور ہیں کہ ’شیطان کوئی برا آدمی نہیں ہے، وہ چاہتا ہے کہ تم سیکھو اور سوال کرو کہ کیوں؟ وہ چاہتا ہے کہ تم مزہ کرو اور جیسے چاہو ویسے رہو اور کوئی جہنم وغیرہ نہیں ہے‘۔
کیلیفورنیا سےاس اجتماع میں شرکت کے لیے یہاں آنے والی آراسیلی روز(Arcely Rose) کا کہنا تھا کہ اس کو لگتا ہے کہ ان کے اصول اس کے لیے ہیں اور ان پر عمل کرنا آسان ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ میں ہمیشہ سے ایک شیطانی فرد رہی ہوں، مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ وہ کہتی ہے کہ اس نے اس گروہ کے بارے میں پہلی بار 2020ء میں ٹک ٹاک کے ذریعے جانا تھا۔ ٹائسن نیکولز(Tyson Nichols)، جس کی عمر 30 سال سے زیادہ ہے، اس کلٹ کے بہت سے ممبروں میں سے ایک تھا اس کا کہنا ہے کہ وہ حال ہی میں لادینیت سے شیطان پرستی کی طرف راغب ہوا ہے۔
میڈیا کا کردار
شیطان کی پرستش کرنے والوں پر جو الزامات لگائے گئے اور جن کیسز میں ٹھوس ثبوت بھی میسر تھے اور ان پر عدالتوں میں کیس چلے، یہ سب مین سٹریم عالمی میڈیا نظر انداز کرتا رہا۔ لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے کہ شیطانی رسومات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ہر چینل اور اخبار نے اس کو شائع کیا۔ ایک خبر پاکستانی چینل آج ٹی وی کی بھی نظر سے گزری جس میں شیطان پرستوں پر لگنے والے الزامات کی تردید کی گئی تھی۔
کیا پاکستان میں بھی شیطان پرستی کا وجود ہے؟
یہ بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ شیطانی کلٹ سے وابستہ لوگ دنیا بھر میں بچوں کے جنسی استحصال اور پورنوگرافی کا کام نہایت منظم انداز سے کر رہے ہیں جس میں لوگوں کو بچوں سے جنسی زیادتی کی ویڈیو بنا کر آن لائن بیچنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ گزشتہ سال کراچی میں ایک ایسا ہی کیس منظر عام پر آیا تھا جس میں طاہر عباس نامی شخص اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ کی گئی غیر فطری حرکات اور زیادتیوں کی ویڈیو بنا کر انہیں آن لائن بیچ رہا تھا ۔ واقعے کی رپورٹ متاثرہ خاتون کی بہن کی جانب سے جمع کروائی گئی تھی ۔ جس کے بعد گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ قصور میں 2015ء میں بچوں سے زیادتی کا ایک سکینڈل سامنے آیا جس کے مطابق 2006ء سے 2014ء تک سینکڑوں بچوں سے جنسی زیادتی کی ویڈیو بنا کر بیچی گئی ۔ یہ معاملہ یہیں تک نہیں رکتا ہے بلکہ ان جرائم میں ملوث افراد متاثرہ بچوں کے والدین کو سالوں تک بلیک میل کر کے لاکھوں روپے بٹورتے رہے۔ ایسا ہی کیس کرم میں بھی سامنے آیا تھا۔ گرفتار شخص سے سینکڑوں ویڈیو برآمد ہوئیں ۔ سب سے اہم بات اس کیس میں ایک اعلی فوجی افسر کا بھی نام لیا جاتا رہا شاید یہی وجہ تھی کہ چند دن سوشل میڈیا پر رہنے کے بعد یہ کیس دب گیا۔ پاکستان میں بچوں کی نازیبا ویڈیوز کو ڈارک ویب پر بیچنے کا مکروہ دھندا کرنے والے گینگ کے کارندے کو حال ہی میں مظفر گڑھ سے گرفتار کیا گیا، اسکول ٹیچر سے 14 سو سے زائد ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات کے علاوہ پاکستان اور بھارت میں ایسے کیسز کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جس میں کالے جادو کے عامل نے یا تو خود بچوں کو قتل کیا یا ان کے کہنے پر لوگ بچوں کو قتل کرتے رہے ۔ بہرحال پاکستان میں ان شیطانی تنظیموں اور نیٹورکس کا بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں کتنا شئیر ہے اس موضوع کو ایک طرف رکھتے ہیں اور اسے مجموعی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حال ہی میں سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (SSDO) نے پاکستان کے 4 صوبوں پنجاب ، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پر مبنی 5 سالہ رپورٹ جاری کی ہے، جو 2019ء سے 2023ء تک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق 5سال کے عرصے میں بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے 5398 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے 62 فیصد واقعات صوبہ پنجاب سے رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 3323 ہے۔ یہ تعداد دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ بچوں سے جنسی زیادتی کے خیبرپختونخوا میں 1360 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 25.1 فیصد ہیں۔ اسی طرح سندھ میں 458 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 8.5 فیصد ہے جب کہ بلوچستان سے 257 واقعات رپورٹ ہوئے جو کہ 5فیصد ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 5برس کے دوران 2019ء سے 2023ء میں رپورٹ ہونے والے واقعات میں 220 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔پنجاب کے ضلع لاہور میں بچوں سے زیادتی کے سب سے زیادہ 1176 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ خیبرپختونخوا کے کم آبادی والے ضلع کولائی پالس کوہستان ،جہاں 18 سال سے کم عمر افراد کی آبادی محض 1لاکھ 58ہزار ہے ، جس میں 84 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اگر ہم ان جرائم کی جڑ تک پہنچنا چاہیں تو مذکورہ بالا اعداد و شمار اس جڑ کی نشاندہی بھی کر رہے ہیں۔ بعض احباب اس بات پر ممکن ہے تعصب کا لیبل لگا دیں کہ پنجاب کو ہر معاملے میں ناجائز تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے لیکن آپ کسی بھی ایسے شخص سے اس متعلق دریافت کر لیں جس نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں وقت گزارا ہو۔ بے حیائی کا جو لیول پنجاب میں نظر اتا ہے پاکستان کے دوسرے صوبے اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے ۔ جس طرح ایک بدبو دار کمرے میں رہنے والے افراد بدبو کے عادی ہو جاتے ہیں اسی طرح ایسا لگتا ہے بہت سی چیزیں معاشرے کا جزو بن چکی ہیں۔ جن پر لوگوں کو ناگواری بھی محسوس نہیں ہوتی ۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر گھر کی خواتین اور بچوں کے ہمراہ بیٹھ فحش نیم برہنہ عورتوں کا ناچ گانا دیکھنے والے اپنے گھر کی خواتین اور بچوں کو کیا پیغام اور تربیت دے رہے ہیں؟ پھر سوشل میڈیا کی بیہودگی معاشرتی اقدار کی جڑوں کو جس طرح اکھاڑ کر پھینک رہی ہے معاشرے کا درندوں سے بھرے جنگل کا منظر پیش کرنا اب اچنبھے کی بات نہیں۔ اگرچہ میڈیا یہ سیلاب پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی پہنچا رہا ہے جس کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ایسے کیسز میں ملوث مجرموں میں زیادہ تر نشے کے عادی افراد ہوتے ہیں۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں ان مسائل سے انفرادی حیثیت میں نمٹا جا سکتا ہے ؟ جبکہ موجودہ حکمران اس جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے کبھی ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دلوانے کے لیے ٹرانس جینڈر بل پاس کرواتے ہیں تو کبھی کم عمری کی شادی کی روک تھام کا بل ۔ اور بے حیائی کے فروغ کے لیے سینما اور شوبز انڈسٹری کو مراعات اور ٹیکس سبسڈی ۔ ہمارے پاس دو ہی راستے بچے ہیں ۔ یا تو اس غلیظ نظام سے بچتے بچتے اس کا ایندھن بن جائیں اور قسمت کو قصور وار ٹھہرائیں یا پھر اس غلیظ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور شریعت کے پاکیزہ نظام کے نفاذ کے لیے اپنی زندگی کھپا دیں۔ اگر اس ملک میں شریعت کے نفاذ کا ہدف ہماری زندگیوں میں پورا نہ بھی ہو سکا تو ہمیں اللہ سے امید رکھنی چاہیے کہ ہماری اس کوشش، جدوجہد اور قربانی کے سبب اللہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو گندگی کے اس سیلاب سے محفوظ فرمائے گا۔
٭٭٭٭٭
- 1Exposing pedophilia and legal failures in Israel – Humanium (22 October 2024)
- 2Emmanuel, the town in Israel where pedophiles find safe haven – The Jewish Independent (4 March 2024)
- 3Who are Israeli settlers, and why do they live on Palestinian lands? – AlJazeera (6 November 2023)
- 4Exposing pedophilia and legal failures in Israel – Humanium (22 October 2024)
- 5یہ بالکل وہی طریقہ کار تھا جو پاکستان میں سو بچوں کو قتل کرنے والے جاوید اقبال نے اختیار کیا تھا۔