اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

اس تحریر میں مختلف موضوعات پر کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کی آرائ پیش کی جاتی ہیں۔ ان آراء اور کالم نگاروں و تجزیہ کاروں کے تمام افکار و آراء سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ادارہ)


آرمی چیف کا ٹرمپ کے ساتھ لنچ اور ٹرمپ کی نوبل امن ایوارڈ کے لیے نامزدگی

جون میں امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کا ۱۸ جون کو پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں لنچ پر مدعو کرنا ایک اہم موضوع رہا۔ چونکہ امریکی صدر نے روایت سے ہٹ کر حکومتی سربراہ کو نہیں بلکہ صرف فوجی سربراہ کو مدعو کیا (کیونکہ ٹرمپ کو علم ہے کہ پاکستان کا اصل حکمران فوج کا سربراہ ہوتا ہے)، اور اس غیر معمولی ملاقات کے بعد ٹرمپ نے عاصم منیر کی میڈیا پر تعریف بھی کی اور کہا کہ اس کے لیے جنرل عاصم منیر سے ملنا ’’اعزاز‘‘ کی بات ہے۔ لیکن یہ غیر روایتی اور غیر معمولی ملاقات ،ایک ایسے موقع پر جبکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ جاری تھی، موضوع بحث بن گئی۔ وائٹ ہاؤس میں دیا گیا نہ تو کوئی لنچ مفت کا ہوتا ہے اور نہ ہی کی گئی کوئی تعریف بے مقصد۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو یہ دیکھا گیا کہ اس دورہ کے فوراً بعد پاکستان نے ٹرمپ کو سرکاری طور پر (پاک انڈیا جنگ رکوانے پر) ’’امن کے نوبل انعام‘‘ کا حقدار ٹھہرا دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جس کے ہاتھ ہمارے فلسطینی بھائیوں کے خون سے رنگین ہیں، جس نے اسرائیل کی فلسطینی نسل کشی میں نہ صرف معاونت کی بلکہ فلسطینیوں کو غزہ کی سرزمین سے نکال کر غزہ پر قبضہ کرنے کا آئیڈیا بھی پیش کیا۔ کس بے شرمی اور بے غیرتی سے حکمرانوں نے ’’امن‘‘ کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا، جس کے بعد ناجائز ریاست اسرائیل نے بھی ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا۔ پاکستانی حکمرانوں میں اور نیتن یاہو میں بھی کیا قدر مشترک نکلی!

اس متعلق صحافی حضرات کیا کہتے ہیں ایک جھلک ملاحظ فرمائیں:

گڈ بائی ٹرمپ| حامد میر

’’ میں نے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ ٹرمپ کی شخصیت اور کردار کو صرف پاک بھارت جنگ رکوانے کے تناظر میں نہ دیکھا جائے، انہوں نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر صرف آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کی تجویز بھی پیش کر دی، اب انہوں نے ایران پر حملہ کر دیا ہے اور عالمی امن کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے، وہ امن کے نہیں جنگ کے پیامبر بن چکے ہیں۔

اُن کی سیاسی و اخلاقی ساکھ بُری طرح مجروح ہو چکی ہے اور اب وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کے بھی قابل نظر نہیں آتے۔ پاکستان کو ٹرمپ سے کوئی اچھی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور اپنے گھر کے معاملات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، ٹرمپ نے جس بین الاقوامی لاقانونیت کو فروغ دیا ہے وہ بھارت کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی، پاکستان نے اس خطے کو ایک نئی جنگ سے بھی بچانا ہے اور بھارتی سازشوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ نیتن یاہو کا دوست اور اتحادی پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا، ٹرمپ سے کسی اچھے کی اُمید نہ رکھیں اپنی ایٹمی صلاحیت بچائیں۔‘‘

[روزنامہ جیو نیوز]

دوست ہوتا نہیں……| محترمہ عامرہ احسان صاحبہ

’’غزہ کے بعد ایران جا گھسا۔ پہلے دو ہفتے کی حتمی تاریخ دی کہ ایران پر حملہ کرنے، نہ کرنے کا فیصلہ ایرانی سفارتی تعاون کے مطابق ہو گا۔ دو ہفتے کے بیچ یکا یک 30 ہزار پاونڈ کے 14بلاک بسٹر بم گرا کر کہانی تمام کی۔ یہ صلاحیت اسرائیل کے پاس نہ تھی لہٰذا یکایک دماغ میں کیڑا سر سرایا، دو ہفتے کی ڈیڈ لائن فراموش کر دی اور 3 منٹ کی پریس کانفرنس میں دنیا کو اپنے تازہ ترین کارنامے سے آگاہ کر کے چلتا بنا۔ ایرانی ایٹمی تنصیبات تباہ کرنے کے بعد 22 جون کو قوت کے نشے میں دھت امریکی سیکریٹری دفاع اور سینئر جرنیل نے قوم اور دنیا بھر کو تکبر، فخر و ناز سے بھری بریفنگ دی۔ (جس کام کے لیے دس بارہ جہاز بھی درکار نہ تھے، 120 جہاز اڑا کر اپنے جنگی تجربات اور مہارت کو آزمایا)۔ گفتگو گلوب یا امریکہ نہیں اس سیارے (Planet Earth) پر اپنی حکمرانی اور ہیبت جتانے کے پیرائے میں تھی! پھر دو دن بعدٹرمپ نے اسرائیل ، ایران جنگ بندی اور مذاکراتی عمل کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ تمام تر تباہی برسانے کے بعد امن قائم کرنے کا ایک اور سہرا!

یہ ہے دیوانہ ٹرمپ اور اس کا خونخوار بغل بچہ (پراکسی) اسرائیل ! کمزور قوموں پر دنیا کے وسائل لوٹ کر سائبر، خلائی قوت کا رعب گانٹھنا صرف فرعونی قارونی تکبر ہے! حالانکہ دو ہفتے کی ڈیڈ لائن کا اعلان کرتے ہوئے پریس سیکریٹری نے کہا تھا:’ صدر ہمیشہ سفارتی حل چاہتے ہیں۔ وہ بہت بڑے امن پسند، امن جو، امن خو ہیں!‘ اور اب؟ صرف بموں کی خو بو باقی ہے!

غزہ میں بھی سفارتی امن جوئی نہیں، امدادی خونخواری جاری ہے۔ تاریخ ِ عالم میں بے رحمانہ بھوک مسلط کر کے، خوراک کی تلاش میں آنے والوں پر گولیاں کب کسی نے برسائیں! ایک ہی ماں کے سات ننھے بچے یک لخت اور ایک اور ماں کا شوہر اور 9 بچے یک لخت، بہ چشم زدن مارنے کی امن جوئی اور امن خوئی دنیا میں کہاں ملے گی! یہ سارے کمالات مشترکہ اثاثہ ہیں ٹرمپ اور نتین یا ہوکے۔ سو امنِ عالم کے ان دونوں امینوں کو مشترکہ نوبل امن انعام ملنا چاہیے۔ تاہم انگریزی میں ’پیس ‘‘(امن) کے ہجے درست کر کے Peace‘کی بجائے نوبل Piece‘ پرائز ہو۔ (اس میں بائیڈن بھی شریک ہو۔’Piecesجو ہم نے خود دیکھے۔ باپ جو اپنے شہید چھوٹے بیٹے کے جسم کے ٹکڑے تھیلے میں (جس سے خون رس رہا ہے) اٹھائے لارہا ہے۔ ایک نو عمر لڑکا۔ گلے میں بستہ ڈالے اسے محبت سے سینے سے لگائے ہے۔ پوچھنے والے کو بتاتا ہے، یہ ٹوٹا ہوا میرا شہید منا بھائی ہے۔ سو پریس سیکریٹری درست فرماتے ہیں۔ ٹرمپ عالمی امن کا سب سے بڑا ہیرو ہے۔‘‘

[روزنامہ نئی بات]

آئیے شیطان کو امن کا نوبل انعام دلاتے ہیں| شاہنواز فاروقی

’’ اقبال نے اپنی ایک نظم میں ابلیس کی زبان سے یہ شعر کہلوایا ہے:

ابلیس کے جمہور ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہِ افلاک

اقبال کا یہ شعر ویسے تو عہد حاضر کے اکثر سیاست دانوں کے لیے درست ہے مگر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو ایک چلتا پھرتا شیطان ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی شیطنت ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود جنرل عاصم منیر کی بادشاہت میں حکومت پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اس نامزدگی کے لیے جواز جوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ پاک بھارت جنگ کو رکوانے کے سلسلے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ حالانکہ پوری پاکستانی قوم گواہ ہے کہ جنگ میں جب تک بھارت کا پلڑا بھاری تھا امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو فرما رہے تھے کہ ہمیں پاک بھارت تصادم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی پاکستان نے بھارت کی ٹھکائی شروع کی ڈونلڈ ٹرمپ میدان میں کود پڑے اور انہوں نے بھارت کو مزید پٹائی سے بچانے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ’’جنگ بندی‘‘ کا اعلان کردیا۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے پاکستان کو خوش کرنے کے لیے یہ بھی فرما دیا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان ’’ایک ہزار سال‘‘ پرانے مسئلہ کشمیر کو بھی حل کرا دیں گے۔

یہ حقیقت ساری دنیا کے سامنے ہے کہ اسرائیل تقریباً دو سال سے امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ وہ اب تک 56 ہزار فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔ ان میں 20 ہزار سے زیادہ بچے اور 15 ہزار سے زیادہ خواتین ہیں۔ اسرائیل اب تک ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو زخمی کر چکا ہے۔ ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ غزہ کی 95 فی صد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے مظلوم لوگوں پر غذا اور پانی کے دروازے تک بند کر دیے ہیں۔ ٹرمپ اتنے حساس ہیں کہ انہیں چار دن میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا خیال آ گیا مگر فلسطین کے سلسلے میں ان کی شیطنت کا یہ عالم ہے کہ انہیں دو سال کے بعد بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی یقینی بنانے کا خیال نہیں آیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر حماس اسرائیل پر بھاری پڑنے لگے تو ٹرمپ ایک دن میں غزہ میں جنگ بندی کرا دیں گے۔ ایسے شخص کو جنرل عاصم منیر کے پاکستان نے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔ کیا یہ عملاً ایک شیطان کو امن کا نوبل انعام دلانے کی خواہش اور کوشش نہیں ہے؟ سوال یہ ہے کہ جو لوگ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دلانا چاہتے ہیں ان کا باطن، ان کی روح، ان کا دل اور ان کا دماغ کیسا ہو گا؟‘‘

[روزنامہ جسارت]

پاکستان کی ابراہیمی معاہدوں میں ممکنہ شمولیت

ایک اور بات جو عاصم منیر کے دورہ کے بعد میڈیا پر زیر بحث آ رہی ہے وہ پاکستان کے ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ میں شمولیت ہے۔ حالانکہ غزہ میں جاری ناجائز ریاست اسرائیل کی قصداً فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی کو بیس ماہ ہو گئے ہیں لیکن ظلم رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ اور امریکہ اس کا پشتی بان بنا ہوا ہے۔ بار بار اسے موضوع بحث بنایا جا رہا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر وزراء کے بیانات سامنے آ رہے ہیں کی اگر پاکستان پر ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے لیے دباؤ آیا تو پاکستان اپنے قومی مفادات کو ترجیح دے گا۔ یہ باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی پاکستان پر اس سلسلے میں دباؤ ڈال رہا ہے۔

اس وقت پاکستانی میڈیا پر بیٹھے نجم سیٹھی جیسے تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ معاہدے کا مقصد تمام مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروانا ہے اور پاکستان کو بھی یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر مسلم ممالک اسے قبول کر لیں تو پاکستان کو بھی تیار رہنا ہو گا۔

نجم سیٹھی نے ایک پاکستانی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ:

’’میرا خیال ہے کہ ہماری طرف سے یہ جواب دیا گیا ہو گا کہ جب وقت آئے گا، اگر باقی سب مسلمان ممالک تیار ہیں تو ہم تو بہت دو ر بیٹھے ہیں، اگر وہ لوگ جن کے وہاں مفادات ہیں، وہ تیار ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟

دراصل ہمیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے کہ اسرائیل نے انڈیا کے ساتھ اتنے اچھے تعلقات بنائے ہوئے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ بھی ہو رہا ہے ، مدد بھی ہو رہی ہے، ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ تو کب سے کہہ رہی تھی کہ کسی طریقے سے یہ انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات کمزور کیے جائیں، ورنہ ہمارا بہت نقصان ہو گا، یہاں بڑے لوگ ہوں گے جو یہ سوچتے ہوں گے کہ اگر سعودی عرب ، اسرائیل کو تسلیم کر لیتا ہے تو ہم بھی ان کے ساتھ مل کر کھڑے ہو جائیں گے ، ایسی کیا بات ہے، اب ظاہر ہے اگر جن کے مسائل ہیں، وہ تسلیم کر لیتے ہیں تو ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ اب تو یہ بھی سننے میں ا ٓرہا ہے کہ مزاحمتی تحریکوں کو بھی کسی نہ کسی سٹیج پر تیار کر لینا ہے کیونکہ بالآخر ان تنظیموں کو بھی عرب ممالک سے وسائل ملنے ہیں ، خاص طور پر ایران سے، اگر ایران مانے یا نہ مانے لیکن اگر باقی مسلمان ممالک مان لیتے ہیں تو آپ کس کھاتے میں کھڑے ہیں، آپ کا مسئلہ کشمیر ہے، فلسطین نہیں۔ بنیادی طور پر فلسطین مسلمانوں کا مسئلہ بھی نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کمٹمنٹ ہم کر آئے ہیں یا یہ اشارہ کر آئے ہیں کہ جب وقت آئے گا توہم دوسرے مسلمان ممالک کی لائن میں ہوں گے ، آپ ان کو منا لیں، ہمارا ایشو نہیں۔‘‘

امریکہ کی طرف سے سعودی عرب اور پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی وفاداری کو خریدنے کی بولی لگ رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنے ’’مفادات‘‘ میں بکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تاریخ میں نقش ہوا ایک ایسا سیاہ باب ہو گا ، کہ آئندہ آنے والی نسلیں اس پر شرمندہ ہوں گی اور چاہ کر بھی وہ یہ دھبا نہیں مٹا سکیں گی کہ مسلمان ممالک نے ایک ایسے دشمن کے ساتھ اس وقت ساز باز کی جبکہ وہ قبلہ اول کی مقدس سرزمین پر معصوم مسلمانوں کا علی الاعلان قتل عام کر رہا تھا ۔

ایران اسرائیل جنگ!

۱۳ جون ۲۰۲۵ء کو ناجائز ریاست اسرائیل نے ایران پر بھر پور فضائی حملہ کیا جس میں نہ صرف ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت کو نشانہ بنایا بلکہ ایران کی جوہری و عسکری تنصیبات اور جوہری سائنس دانوں کو بھی نشانہ بنایا۔ بارہ دن جاری رہنے والی جنگ میں اگرچہ ایران کو خاطر خواہ نقصان ہوا لیکن ایران کی طرف سے جوابی ہائیپر سونک میزائیل حملوں میں اسرائیل نے بھی نقصان کا کافی مزہ چکھا۔

خطے میں ایران کا کردار اور ماضی میں ایران اور اس کی پراکسیز کی جانب سے شام ، عراق اور یمن میں کیا جانے والا ظلم ایک علیحدہ سے موضوع ہے اس لیے اسے ہم یہاں زیر بحث نہیں لا سکتے۔ لیکن فی الوقت جو بارہ روزہ جنگ ہوئی یہ خطے کے حال اور مستقبل میں بننے والے حالات کے لیے بہت اہم موڑ تھا ۔ جس میں امریکہ نے بھی اپنا حصہ ڈال کر جنگ بندی کی نوید سنا دی جس کی وجہ سے تینوں ممالک کو فیس سیونگ کا موقع مل گیا۔ یہ جنگ اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اگر اسرائیل ایران کو شکست دے دیتا تو اس کا پورے خطے کے حالات پر بہت گہرا اثر پڑتا۔ پورے خطے پر اسرائیل کی دھاک بیٹھ جاتی اور یہاں انڈیا کے ساتھ مل کر پھر باری پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی آنی تھی۔ اور صہیونی ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی جانب ایک اور قدم بڑھ جاتا۔

اس جنگ کے متعلق پاکستانی میڈیا پر متضاد آراء پائی جا رہی تھیں۔ لیکن یہاں چند ایک کا ہی انتخاب یا گیا ہے:

مشرق وسطیٰ میں اب کیا ہو گا؟| ڈاکٹر عبد اللہ محسن

’’تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ 12 دن کے حملوں کے بعد جنگ بندی سے امریکہ، اسرائیل اور ایران تینوں کو فیس سیونگ مل گئی ہے اور اچھا ہے۔ اب سب فریقوں کے پاس اپنی اپنی کامیابیوں کا اعلان کرنے کا موقع ہے۔ ٹرمپ نے تو اپنا اعلان کرتے ہوئے ’’گاڈ بلیس ایران‘‘ بھی کہہ دیا ہے۔……

……اسرائیل نے بھی جنگ کا مزہ اچھی طرح چکھ لیا ہے۔ اس کی آبادیوں اور شہریوں کا اچھا خاصا نقصان ہوا ہے۔ آئرن ڈوم سسٹم کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ صہیونی ریاست کے شہریوں نے مالی و نفسیاتی نقصان بھی اٹھایا ہے۔ جب کوئی میزائل اسرائیل کی دھرتی پر گرتا ہے تو دل کو سکون ملتا ہے کہ بد معاش ریاست کو بھی بارود کا مزہ تو چکھایا ہے۔ اسے بھی پتا چلے کہ اس کے ہاتھوں تباہ ہونے والوں پر کیا بیتی ہے۔ صرف سویلین عمارتوں کے نقصان کا اندازہ ڈیڑھ سے دو بلین کا لگایا گیا ہے۔ نشانہ بننے والی فوجی مقامات اور تیل کی تنصیبات کے نقصانات کا اندازہ سنسر ختم ہونے کے بعد لگے گا۔ معیشت کا بے اندازہ نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے حفاظتی میزائلوں کا ذخیرہ تقریباً ختم ہو چکا ہے جن کو دوبارہ بنانے کے لیے کثیر رقم درکار ہو گی۔ اسرائیل سے لاکھوں یہودیوں کے فرار ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مختصر یہ کہ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور ناکام ہو چکا ہے۔

……اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایران کی موجودہ رجیم مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ایران کا خوف پیدا کر کے ہی امریکہ اپنا قیمتی اسلحہ عرب ممالک کو بیچ کر اپنی معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے۔ ایرانی حکومت کا خاتمہ وہ واحد معاملہ ہے جس پر امریکہ اور اسرائیل کے درمیان واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اسرائیل موجودہ ایرانی حکومت کا فوری خاتمہ چاہتا ہے جبکہ امریکہ اس کو قائم رکھ کر اپنے فائدے اٹھانا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع کا جنگ بندی کے بعد بیان آیا ہے کہ ہمیں ایران کے سپریم لیڈر کو قتل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ نے سپریم لیڈر کی جان لینے کی اجازت نہیں دی اور اسرائیل کو ان کے ٹھکانے کی اطلاع فراہم نہیں کی۔‘‘

[روزنامہ جسارت]

پس ثابت ہوا جھوٹ کے بھی پاؤں ہوتے ہیں| وسعت اللہ خان

’’حالانکہ ایران کا کوئی میزائل یورپ اور امریکہ تک مار نہیں کر سکتا، مگر یورپ اس لیے خوش ہے کیونکہ رائے عامہ کے بوجھ سے مجبور ہو کر برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کی اسٹیبلشمنٹ نے فلسطینیوں کے بارے میں جو ہمدردانہ زبانی جمع خرچ شروع کر دیا تھا اور نسل کشی بند کرنے کے لیے ممکنہ اقتصادی پابندیاں حرکت میں لانے کی اسرائیل کو جو نیم دلانہ دھمکیاں دی جا رہی تھیں،اب ایران کی صورت میں نیا ولن مل جانے کے بعد یورپ کو ’’ ضمیر ‘‘ کے بوجھ سے نجات مل گئی ہے اور وہ پہلے کی طرح آنکھ بند کر کے اسرائیل کی حمایت کر سکتا ہے۔ کہاں دو ہفتے پہلے تک فرانس اسرائیل کو فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا اور کہاں اب صدر میخواں ایرانی خطرے کے سدِباب کے لیے اسرائیل کے ’’ پیشگی حقِ دفاع ‘‘ کے وکیل بن چکے ہیں۔

اسرائیل کو فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ ایران سے جنگ پر مرکوز ہو گئی اور غزہ فی الحال پس منظر میں چلا گیا۔ وہاں اسرائیلی امداد کے متلاشی بھوکے فلسطینیوں کو روزانہ سو دو سو کے حساب سے اطمینان سے ختم کر رہا ہے۔

طویل المیعاد فائدہ یہ ہوا کہ لبنان میں حزب اللہ کے خاتمے ، شام میں حکومت کی تبدیلی اور عراق کے معلق ہونے کے نتیجے میں لبنان تا ایران جو اسرائیل دشمن ہلال (کریسنٹ) قائم تھی اس کے ٹکڑے ہو گئے۔ اب اگر اسرائیلی خواہش کے مطابق ایرانی حکومت بھی معزول ہو جا تی ہے تو خطے میں اسرائیل کو زک پہنچانے والا ایک بھی قابلِ ذکر ملک باقی نہیں بچے گا۔

یوں اسرائیلی اثر و نفوذ زاہدان کی سرحد تک آ جائے گا۔ اگلی منزل پاکستان ہے جو اسرائیل سے خوفزدہ مشرقِ وسطی اور بھارت کے درمیان سینڈوچ کے کباب میں آخری ہڈی ہے۔‘‘

[روزنامہ ایکسپریس]

فریڈم فلوٹیلا اور کاروان صمود کی ناکامی!

غزہ میں جاری ظلم و ستم نے دنیا کے با ضمیر انسانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ غزہ کے محاصرے کو توڑنے اور وہاں کے لوگوں تک غذا اور بنیادی سہولیات پہنچانے کے لیے پہلا قدم فریڈم فلوٹیلا کولیشن (FFC) کے زیر اہتمام میڈلین جہاز کی روانگی تھی۔ یکم جون کو بنیادی خوراک، طبی سامان اور ادویات لے کر بارہ امدادی کارکنوں کے ہمراہ روانہ ہوا۔ جن میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ (Greta Thunberg)، فرانسیسی رکن یورپی پارلیمنٹ ریما حسن (Rima Hassan)، اور دیگر ممالک (برازیل، آئرلینڈ، نیدرلینڈز، سپین وغیرہ) سے تعلق رکھنے والے کارکن شامل تھے۔ یہ لوگ جان کی پرواہ کیے بغیر غزہ کی غیر قانونی ناکہ بندی توڑنے کی غرض سے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن غزہ سے ۱۸۵ کلومیٹر دور ہی صہیونی فوج نے حملہ کر کے تمام عملے کو حراست میں لے لیا اور امداد کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اور انہیں زیر حراست رکھنے کے بعد وقفے وقفے سے واپس ان کے ممالک میں روانہ کر دیا ۔

جبکہ جون ہی میں تیونس سے قافلۃ الصمود (کاروان استقامت) کا بھی آغاز ہوا جس میں ۱۵۰۰ عام افراد اور مغربی انسانی حقوق کے کارکن شامل تھے، جن کا ہدف رفح بارڈر پر پہنچ کر غزہ کی ناکہ بندی پر احتجاج کرنا اور امدادی سامان وہاں روانا کروانا تھا۔ اس کے ساتھ ہی غزہ کی طرف گلوبل مارچ (Global March to Gaza) شروع ہوا۔ جو مصر کے شہر قاہرہ سے رفح بارڈر تک مارچ تھا۔ جس میں شرکت کے لیے دنیا کے مختلف کونوں سے لوگ قاہرہ پہنچنا شروع ہوئے۔ اس کاروان نے ۱۵ جون کو رفح کی طرف مارچ کرنا تھا۔ لیکن مصری حکومت نے چار سو کے قریب افراد کو حراست میں رکھنے کے بعد ڈی پورٹ کر دیا۔ بہت سوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے اور بزور طاقت اس کاروان کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اور اس طرح مصر نے ثابت کیا کہ غزہ پر ظلم اور امدادی ناکہ بندی میں مصر بھی پورا پورا شریک جرم ہے۔

اگرچہ عوام الناس کی یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں لیکن یہ امید بن گئی کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں گی، اور باضمیر لوگوں کو عمل پر ابھاریں گی۔ تازہ تریں اطلاعات کے مطابق اگلی فریڈم فلوٹیلا ۱۳ جولائی کو اٹلی کے ساحل سے غزہ کے لیے روانہ ہو گی جس کا نام ’’حنظلہ‘‘ ایک فلسطینی بچے کے کارٹون پر مبنی ہے اور یہ امدادی جہاز فلسطین کے بچوں کے نام ہو گا۔

غزہ ہیومینی ٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کی قتل گاہیں!

امریکہ اور ناجائز ریاست اسرائیل کے باہمی تعاون سے چلنے والی یہ تنظیم ، جس نے اقوام متحدہ کے توسط سے چلنے والی تنظیموں انروا UNRWA اور ریڈ کراس کو اس لیے کام سے روک دیا اور ان کے غزہ میں موجود ۴۰۰ مراکز تباہ کر دیے تاکہ غزہ کی آبادی کو بھوکا مار کر ان کے حوصلے توڑ دیے جائیں، جب دنیا میں ہر طرف سے اسرائیل کے خلاف صدائیں بلند ہونے لگیں تو اس تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔ امداد اور خوراک کی آڑ میں کام کرنے والے اس ادارہ نے ۲۷ مئی کا کام شروع کیا اور امداد تقسیم کرنے کے پورے غزہ میں چار مراکز بنائے۔

جس کا بنیادی مقصد غزہ کے لوگوں کو بنیادی خوراک مہیا کرنا نہیں بلکہ ایک موت کا پھندہ (death trap) ہے جہاں بے بس و مظلوم فلسطینیوں کو آٹا اور امداد کی لالچ میں بلایا جاتا ہے، کنسنٹریشن کیمپس کی طرح خار دار تاروں سے بنی تنگ راہداریوں سے گزار کر ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے لیے چند سو امدادی کارٹن رکھ کر امداد کی چھینا جھپٹی سے ’’محظوظ‘‘ ہوا جاتا ہے جس کے بعد تاک تاک کر انہیں قتل کیا جاتا ہے ۔ اس قدر تکلیف و تذلیل صرف شیطان کے صہیونی پجاری اور دجال کے آلہ کار ہی کر سکتے ہیں۔

۲۷ مئی سے کام شروع کرنے والی اس تنظیم نے اب تک امدادی اڈوں پر ۷۵۰ سے زائد لوگوں کو شہید کیا ہے جبکہ چار ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ابتداء میں یہ تنظیم اس بات سے بالکل ہی انکار کرتی رہی کہ امدادی جگہوں پر فلسطینیوں کو قتل کیا گیا ہے لیکن ویڈیو شواہد اور اسرائیلی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے ان جھوٹے دعووں کی قلعی کھول دی۔ جس میں خود قابض فوج نے اقرار کیا ہے کہ کس طرح انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ امداد کے لیے آئے ہوئے نہتے شہریوں کو براہ راست نشانہ بنائیں۔ اور کس طرح ’’انجوائے‘‘ کرنے کے لیے وہ معصوم لوگوں کو تاک تاک کر نشانہ بناتے ہیں۔ ذیل میں اس موضوع پر میڈیا پر آنے والے کالموں میں سے چند کے اقتباس پیش کیے جاتے ہیں:

Gaza’s hunger crisis is not a tragedy – it’s a war tactic | Fuad Abu Saif

’’کسی قوم کا عزم توڑنے کے لیے انہیں خوراک کے حصول کی صلاحیت سے محروم کرنا کوئی ضمنی نقصان نہیں بلکہ پالیسی ہے۔ آزاد بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، غزہ کی ۹۵ فیصد سے زیادہ زرعی زمین تباہ یا ناقابل استعمال ہو چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف معاشی نقصان نہیں ہیں، یہ خوراک کی خودمختاری کو دانستہ طور پر ختم کرنے اور اس کے ساتھ مستقبل میں آزادی کی کسی بھی امید کو چھیننے کا عمل ہے۔

یہ ایک منظم تباہی ہے۔ بیجوں تک رسائی روک دی گئی ہے۔ واٹر انفرا سٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ماہی گیروں اور کسانوں پر، جو پہلے ہی شدید محاصرے میں کام کر رہے ہیں، بار بار بار حملے کیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات بے ترتیب نہیں ہیں، یہ اسرائیل کے طویل مدتی اسٹریٹیجک مقاصد کے مطابق غزہ کے آبادیاتی اور معاشی مستقبل کو دوبارہ سے ترتیب دینے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہیں: یعنی (غزہ پر) مکمل کنٹرول اور (اہل غزہ کی مکمل) سیاسی تابعداری۔

عالمی برادری کی ملی بھگت اسے اور بھی تشویشناک بنا دیتی ہے، خواہ وہ خاموشی کے ذریعے ہو یا مبہم سفارتی بیانات کے ذریعے جو صورتحال کو ’انسانی بحران‘ قرار دیتے ہیں، عالمی کرداروں نے بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کو معمول کی بات بنانے میں مدد کی ہے۔ ان اقدامات کو ان کے اصل نام، ’نسل کشی کے طور پر کیے گئے جنگی جرائم‘، سے نہ پکارنے سے اسرائیل کو یہ سب بغیر کسی سزا کے جاری رکھنے کا بہانہ مل گیا ہے۔

غزہ کو مکمل طور پر بیرونی امداد پر منحصر کرنے پر مجبور کر کے اور مقامی طور پر زندہ رہنے کے ذرائع کو منظم انداز میں ختم کر کے اسرائیل نے ایک جال بنا ہے جس میں فلسطینیوں سے ہر طرح کی سیاسی و معاشی خود مختاری چھین لی گئی ہے۔ انہیں ایک ایسی آبادی میں تبدیل کیا جا رہا ہے جسے کنٹرول اور سودے بازی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

غزہ سے ملنے والے تمام اعداد و شمار کو اب اسی عدسے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں کی ۱۰۰ فیصد آبادی جو غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے یہ صرف افسوس ناک بات نہیں ہے، بلکہ یہ اس حکمت عملی میں پیش رفت کی ایک علامت ہے۔ معاملہ اب بھوکوں کو کھانا کھلانے کا نہیں ہے، یہ ایک قوم کے جذبے کو توڑنے اور انہیں قابض کی شرائط پر نئے حقائق کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔

لیکن پھر بھی غزہ کی مزاحمت برقرار ہے۔ محاصرے اور بھوک کے باوجود یہ مزاحمت عالمی نظام کے اخلاقی زوال کو بے نقاب کر رہی ہے، جو سیاسی جوابدہی کی بجائے منظم بحرانوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ قحط کسی خشک سالی کا نتیجہ نہیں، یہ کسی ناکام ریاست میں انتشار کی وجہ سے نہیں، یہ ایک مستقل جاری جرم ہے، جو پورے ہوش و حواس کے ساتھ عالمی لاتعلقی کے تحفظ میں انجام دیا جا رہا ہے۔

غزہ میں جو ہو رہا ہے، تاریخ اسے یاد رکھے گی، یہ ان لوگوں کو بھی یاد رکھے گی جنہوں نے خاموش رہنے کا انتخاب کیا۔ انصاف میں تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن وہ آ کر رہے گا، اور وہ پوچھے گا کہ جب بھوک کو ایک قوم کو توڑنے کے لیے استعمال کیا گیا تو کون خاموش تماشائی بنا رہا۔‘‘

[Al Jazeera English]

Food aid or firing squad: How the Gaza Humanitarian Foundation became Gaza Assasination Trap | Jamal Kanj

’’غزہ میں آج، بھوک کی ایک قیمت ہے، اور بہت سے شہریوں کے لیے یہ قیمت موت ہے۔ اسرائیلی اخبار ہارٹز نے غزہ ہیومینی ٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے تقسیم مراکز کو ’قتل گاہ‘ قرار دیا ہے، جہاں اسرائیلی فوجیوں کو معمولی امداد کے لیے قطار میں کھڑے شہریوں پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا۔ مائیں، باپ، بچے اور بزرگ، غیر مسلح شہری جو ضروری خوراک کے راشن حاصل کرنے کی کوشش میں مارے گئے، وہ آٹا یا کھانے کا ایک تھیلا لینے آتے ہیں، لیکن لاشوں کے تھیلوں میں چلے جاتے ہیں۔

…… ایسے حملے صرف جسمانی نقصان سے کہیں زیادہ نقصان دیتے ہیں، یہ گہرے نفسیاتی زخم، ذلت، خوف اور مایوسی پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ جب بنیادی خوراک حاصل کرنے کا سادہ سا عمل ہی جان لیوا بن جاتا ہے، تو یہ انسانی نفسیات کو توڑ کر رکھ دیتا ہے اور ساری امیدیں ختم کر دیتا ہے۔ بھوکوں کو نشانہ بنانا صرف تشدد نہیں، یہ انسانی روح کو توڑنے، ان کی عزت نفس چھیننے اور صرف بقا کو ہی ایک نہ ختم ہونے والی، خوفناک جدوجہد بنانے کی کوشش ہے۔ امداد اور ہمدردی فراہم کرنے والی جگہوں کو اسرائیل زہر اور صدمے کے مقامات میں تبدیل کر رہا ہے۔ بھوک کی اس مہم کو گھروں، پناہ گاہوں، تعلیمی نظام، صحت کی سہولیات اور پانی و بجلی کے انفراسٹرکچر کی دانستہ تباہی کے ساتھ ملائیں، یہ اقدامات نفسیاتی صدمے اور معاشرتی انہدام کو بڑھانے کے لیے ہیں۔ یہ حربے شہریوں کی نسلی تطہیر کی راہ ہموار کرتے ہیں، تاکہ مزید یہودیوں کے لیے خصوصی کالونیاں بنائی جا سکیں، جنہیں خوشنما انداز میں ’ہجرت‘ یا ’ٹرمپ کا ویژن‘ کہا جاتا ہے۔

غلط نام کے حامل ’غزہ ہیومینی ٹیرین فاؤنڈیشن‘ عملی طور پر بھوکوں کو اپنے دام میں پھنسانے کا ایک موت کا پھندہ بن چکا ہے۔ اس نے انسانی امداد کی تقسیم کو زندگی بچانے والے سے ’فائرنگ سکواڈ‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ غزہ میں غذائی قلت کے شکار بچوں کے والدین کے لیے تلخ انتخاب اب کھانا یا قحط نہیں رہا، بلکہ بھوک سے موت یا امریکی فنڈز سے چلنے والے، اسرائیل کے تیار کردہ ’غزہ قتل کے پھندے‘ میں گولی سے موت ہے۔‘‘

[Middle East Monitor]

قحط، بھوک، بارودی اور کیمیائی ہتھیاروں سے تباہی، امدادی مراکز پر امداد لینے کے لیے آنے والوں کا قتل عام، صہیونی درندوں کے لیے یہ سب کام ابھی کافی نہیں تھے تو انہوں نے امداد کے نام پر بھیجے جانے والے آٹے میں نشہ آور دوا Oxycodone کی گولیاں ملانا شروع کر دی ہیں۔ اس حوالے سے ایک کالم سے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

Oxycodone laced flour is not ‘Humanitarian Aid’ it is bioterrorism | Dr. Emma Keelan

’’بھوک سے مرتی ہوئی شہری آبادی کو نامعلوم مقدار میں آکسی کوڈون ملا ہوا آٹا فراہم کرنے کو صرف حیاتیاتی دہشت گردی کی ایک شکل کےطور پر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک انتہائی نشہ آور درد کی دوا کا دانستہ طور پر، نامعلوم مقدار میں، آٹے کے پیکٹوں میں چھپا کر استعمال کے لیے چھوڑنا، جو بھوک سے نڈھال اور مایوس آبادی کھائے گی۔ اوپی ایٹس (Opiates) کے مضر اثرات میں متلی، الٹی، فریب نظر، قبض، چکر آنا وغیرہ شامل ہیں، بالخصوص بچوں، بوڑھوں اور حاملہ خواتین کے لیے اس میں حساسیت زیادہ ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حمل کے دوران آکسی کوڈون کے استعمال سے جنین کی نشونما میں تبدیلی اور قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جبکہ بزرگ افراد یا سانس کی مرض کا شکار افراد میں سانس کی کمی کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔

……حتیٰ کہ کم مقدار میں بھی اگر اس کا کوئی استعمال کرے تو وہ سست جذباتی رد عمل یا مکمل بے حسی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، ایک ایسی حقیقت جس پر اسرائیلی حکام فلسطینی آبادی کے عزم کو توڑنے کی کوشش میں بھروسہ کر رہے ہوں گے، جو اپنی زمین چھوڑنے کے بارے میں شدت سے انکاری ہے۔

……افراد کی جسمانی، ذہنی اور مجموعی طاقت کے منظم زوال کے ذریعے حاصل ہونے والی اجتماعی معاشرتی ’بے حسی‘، ناکام قابض فوج کی طرف سے فلسطینی مزاحمت کو دبانے کی ایک مایوس کن کوشش ہے، جسے وہ پچھلے ۲۱ ماہ میں عسکری طور پر شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسی حکمت عملیاں اسرائیلی ریاست کی عمر جتنی پرانی ہیں، اسرائیلی ریاست ۱۹۴۸ء میں بھی فلسطینیوں کی نسلی تطہیر مکمل کرنے کی کوشش میں حیاتیاتی دہشت گردی آزما چکی تھی، تب اس نے فلسطینی آبادی کے کنوؤں میں ٹائیفائڈ کرنے والا زہر ڈال دیا تھا۔‘‘

[Middle East Monitor]

جنگ بندی معاہدے کی بازگشت

اس وقت غزہ کی جو صورتحال ہے وہ اس قدر ابتر ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ غاصب صہیونی فوج روزانہ کے حساب سے ۱۰۰ سے ۲۰۰ فلسطینیوں کو شہید کر رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر ہے جہاں ٹرمپ نے ایک اور جنگ بندی معاہدہ حماس کو پیش کیا ہے اور اس پر دونوں اطراف سے قطر میں مذاکرات شروع ہیں۔ ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی پلان۶۰ روزہ جنگ بندی پر مشتمل ہے جس دوران مکمل جنگ بندی پر مذاکرات، اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ اور غزہ میں امداد کی ترسیل پر بات کی گئی ہے۔ اس متعلق حماس اور دیگر جہادی تنظیموں کی جانب سے مثبت اشارہ دیا گیا ہے لیکن حماس نے تین بنیادی مطالبے رکھے ہیں:

  1. شہریوں کا قتل عام کرنے والی غزہ ہیومینی ٹیرین فاونڈیشن (GHF) کا خاتمہ اور بغیر کسی روک ٹوک کے غزہ میں اقوام متحدہ کے اداروں کی سر پرستی میں امداد کے ترسیل

  2. قابض فوج کا غزہ سے مکمل انخلاء

  3. مستقل جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی برادری کی گارنٹی

تجزیہ نگاروں کی نظر میں اس جنگ بندی منصوبے کی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ قطر یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر عدنان ہیاجنہ کے مطابق:

’’اسرائیل جو چاہتا ہے وہ بالکل واضح ہے: ایک ایسی زمین جہاں لوگ نہ ہوں، لہذا فلسطینیوں کو تین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا: بھوک سے مرنا، قتل ہونا یا زمین( علاقہ) خالی کر دینا (چھوڑ دینا)۔ لیکن فلسطینیوں نےاب تک ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر زمین نہیں چھوڑیں گے‘‘ (الجزیرہ)

ایک طرف جنگ بندی معاہدے کی باتیں تو دوسری طرف نیتن یاہو وائٹ ہاوس میں ٹرمپ سے مل کر غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے طریقوں پر غور کر رہا ہے۔ لہذا نہ تو امریکہ نہ ہی ناجائز قابض اسرائیل سے کسی بھی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ غزہ کے حالات بد ترین ہو چکے ہیں۔ خوراک ادویات اور بنیادی ضروریات کی قلت نے ایک ایسا بحران کھڑا کر دیا ہے کہ اگر ہم ابھی بھی اٹھ کھڑے ہوں تب بھی اس کا مداوا کرنے میں سالوں لگ جائیں۔ لیکن وہاں کے مجاہدین اس بے سر و سامانی کی حالت میں بھی جس طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور حتی المقدور دشمن کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں، یہ شہید یحی سنوارؒ کے شیر ہیں، یہی امت کا سرمایہ ہیں اور اللہ کے بعد انہی سے امید ہے کہ آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک ڈٹے رہیں گے۔ اللہ امت مسلمہ میں جہاد و شہادت سے محبت رکھنے والوں کو غزہ کے بہادر مجاہدین کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑنے اور غزہ سمیت قبلہ اول کو صہیونیوں کے ناپاک وجود سے آزاد کروانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (آمین)

اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے ہر خطے سے جہاد و شہادت کی صدا بلند کرتے مجاہدین کے دستے اپنے علماء و قائدین کے قیادت میں غاصب صہیونیوں اور اس کے چوکیدار امریکہ کو جہاں ممکن ہو نشانہ بنائیں، اپنے فلسطینی بھائیوں کے ہاتھ مضبوط کریں اور اللہ کے اس حکم ک تعمیل کریں:

وَاقْتُلُوْھُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ وَاَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (سورة البقرة: 191)

’’اور تم ان لوگوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انھیں اس جگہ سے نکال باہر کرو جہاں سے انھوں نے تمہیں نکالا تھا، اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین برائی ہے۔‘‘

اب وقت ہے کہ انہیں دوبارہ خیبر کی وہی شکست یاد دلائیں:

خیبر خیبر یا یہود
جیش محمد سوف یعود!

٭٭٭٭٭

Exit mobile version