فوز المبین

اللہ نے کامیاب ہونے کی جستجو سب میں رکھی ہے۔ ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ کوئی بھی اپنے لیے ناکامی پسند نہیں کرتا۔ لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ کامیابی کے مختلف مفہوم تراش لیے گیے ہیں۔ مختلف لوگ کامیابی کو مختلف عنوانات سے تعبیر کرتے ہیں۔ کفار اور منکرین کا تو معاملہ ہی جدا ہے، ان کے ہاں دنیا کی اہمیت اور وقعت حد درجے سے تجاوز کرتی نظر آتی ہے۔ اکثر تو اخروی اور ابدی حیات سے یکسر ناآشنا ہیں۔ کچھ صلیبیوں و یہودیوں میں اگرچہ تصور تو ہے لیکن اسے برائے نام حیثیت حاصل ہے یہ اس قدر کمزور تصور ہے کہ ایمان کی حدود سے دور ایک مدھم سا خاکہ ہے جو کسی طور بھی فکر آخرت پیدا کرنے اور اعمال صالحہ کی ترغیب دینے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کفار میں خیر کا وجود ہی معدوم ہو چکا ہے۔ بس دنیا اور مادیت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہے۔

ہمیں تو مقصود ہے اہل ایمان کا تذکرہ کرنا۔ اہل ایمان جو تمام تر اعلیٰ عقائد و نظریات سے نوازے گیے ہیں۔

افسوس صد افسوس اہل ایمان کے اس طبقے پر جو کفار اور دولت ایمان سے محروم لوگوں کی ڈگر پر چل نکلا ہے۔ عالیشان گھر ، محلات ، کوٹھیاں ، بنگلے، فارم ہاؤس یا زرعی اراضیاں کیوں کامیابی کا معیار بننے لگی ہیں؟ کب سے کامیابی کا فیصلہ اچھی اور مہنگی گاڑیوں کی بنیاد پر ہونے لگا؟ گاڑی تو گاڑی اگر ذاتی جہاز یا ہیلی کاپٹر بھی میسر ہوں تو ایک بندہ مومن کے لیے یہ کامیابی کی ضمانت ہرگز نہیں ہو سکتے۔ کیونکر ایک صاحب ایمان اتنا کم عقل ہو کہ ساٹھ یا ستر سال کی زندگی کو دائمی آخروی حیات جاوداں پر ترجیح دے؟

اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

مَنْ يُّصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَىِٕذٍ فَقَدْ رَحِمَهٗ ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ؀ (سورۃ الانعام۱۶)

’’جس کسی شخص سے اس دن وہ عذاب ہٹا دیا گیا ، اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا ، اور یہی واضح کامیابی ہے۔‘‘

گویا مومن کی تو پہلی فکر ہی یہی ہوتی ہے کہ یوم حساب پر بخشش کیسے حاصل ہو۔ وہ جہنم کی ہولناکیوں سے خوب واقف ہوتا ہے۔ قرآن کے مضامین اسے عذاب الہی سے ڈرانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔

سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ (۱۱)آیات میں مومنین کی بعض صفات کا ذکر کیا گیا جن کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۝ الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ۝ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۝ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ۝ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ۝ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۝ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ ۝ وَالَّذِيْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَ۝ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلٰي صَلَوٰتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ۝ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ ۝ الَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ۭ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ؀

’’ان ایمان والوں نے یقیناً کامیابی حاصل کرلیجن کی نمازوں میں خشوع و خضوع ہے۔ جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں۔ جو زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جو اپنی شرم گاہوں کی (اور سب سےحفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو اُن کی ملکیت میں آ چکی ہوں، کیونکہ ایسے لوگ قابلِ ملامت نہیں ہیں۔ ہاںجو لوگ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی پوری نگرانی رکھتے ہیں۔ یہ ہیں وہ وارث جنہیں جنت الفردوس کی میراث ملے گی، یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

اسی طرح سورۃ احزاب کی آیت 35 میں بھی کامیاب ہونے والوں کی صفات بیان کی گئیں ہیں:

اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّاۗىِٕـمِيْنَ وَالـﮩـىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا؀ (سورۃ الأحزاب: 35)

’’بیشک فرمانبردار مرد ہوں یا فرمانبردار عورتیں ، مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں ، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں ، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں ، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں ، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں ، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘

گویا بینک بیلنس بنانے سے یا مال جمع کرنے سے، سونے چاندی کے انبار لگانے سے یا درہم و دینار کے اور ہیرے و جواہرات کے ذخائر جمع کرنے سے کچھ اسباب تو مہیا کیے جا سکتے ہیں لیکن کامیابی کے ضابطے الگ ہیں۔

عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ زندگی بھی خالق و مالک کی رضا والی ہو اور اہم بات یہ ہے کہ خاتمہ بالخیر ہو۔

بلاشبہ حالت ایمان میں موت آنا بخشش کی لازمی شرط ہے لیکن کیا کہنے ان خوش نصیبوں کے جنہیں موت آئے ہی مالک دو جہاں کے راستے میں شہادت کی موت۔ وہ موت جو زندگی سے قوی تر زندگی ہے لیکن ہمیں اس کا شعور نہیں۔ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شہادت کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔

یہی وہ راز تھا جسے حضرات صحابہ نے حاصل کر لیا تھا۔

چنانچہ حضرت حرام ملحان ﷜جو غزوہ بدر میں شریک صحابی اور قاری کے لقب سے ملقب تھے۔ شروع میں ہی انہوں نے اپنی بہن حضرت ام سلیم ﷞کے ساتھ اسلام قبول کر لیا تھا ۔ سریہ بئر معونہ میں جام شہادت نوش کیا۔ جب ان پر تلوار سے وار کیا گیا تو زخم پر سے خون کو ہاتھ میں لے کر انہوں نے اپنے چہرہ اور سر پر لگا لیا اور کہا ربِ کعبہ کی قسم! میری مراد حاصل ہو گئی۔ (فزت و رب الکعبہ )

مجاہدین کے لیے خصوصاً اور راہ حق کے متلاشی ہر مسلمان کے لیے بالعموم یہ جاننا ضروری ہے کہ شہادت ہی وہ کامیابی ہے جس کے بعد ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہی وہ کامیابی کی پختہ سند ہے جس کی وقعت روز محشر بے انتہا ہو گی۔

بڑے سے بڑے عمل کے بعد میں ضائع ہونے کا ہمیشہ ڈر رہتا ہے کہیں ریاکاری یا گناہوں کی کثرت یا کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہونا ہمیں ہمارے اعمال سے محروم نہ کر دے ۔ دوسری طرف ایمان کی سلامتی بھی آخری سانس تک لازم ہے ورنہ تمام اعمال غارت ہو جائیں گے۔ لیکن شہادت ایسا عظیم عمل ہے جسے یہ امتیاز حاصل ہے جب ایک دفعہ بندہ اخلاص سے اپنی جان اپنے رب کے لیے نچھاور کر دیتا ہے تو پھر یہ عمل کبھی ضائع نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ اسے دنیاوی زندگی سے حسین تر زندگی عطا کر دی جاتی ہے لیکن نہ تو اس کے ایمان کے ضائع ہونے کا ڈر باقی رہتا ہے نہ اعمال کے ضائع ہونے کا بلکہ قیامت تک جب بھی کوئی شہدائے حق کو ایصال ثواب کرے گا اس کا پورا پورا حصہ اسے بھی ملتا رہے گا یوں بلندی اور ثواب میں اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا ان شاءاللہ ۔

کامیابی کی اصل لذت کیا ہوتی ہے اس تک کسی علوم و فنون کی ڈگری حاصل ہونے پر اپنی ٹوپیاں اچھالتے عصر حاضر کے نوجوان اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک وہ خود وقت شہادت دیدار باری تعالیٰ کی لذت بے کراں سے فیضیاب نہ ہو جائیں۔

غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے برسرِ پیکار مجاہدین میں بھی نظریاتی پختگی کا ہونا ضروری ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ راہ خدا میں ایک صبح یا ایک شام کا لگا دینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے کیونکہ:

عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:” لغدوة او روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها1سنن ابن ماجہ (2757) صحیح البخاری/الجہاد 5 (2792)، صحیح مسلم/الإمارة 30 (1880)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 17 (1651) (صحیح) ‏‏‏‏

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام (کا وقت گزارنادنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے۔“

لیکن اگر ہم پوری تاریخ کا جائزہ نہ بھی لیں اور صرف ماضی قریب کا ہی جائزہ لیں تو ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو ہمارے لیے سراسر سامان عبرت ہیں۔

کئی ایسے لوگ جو اخلاص سے مصروف جہاد تھے تقوی و طہارت اور للہیت بھی خوب تھی۔ لیکن اچانک اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر دین و شریعت کے نام پر خون ناحق بہانے لگے۔ کئی لوگ جن کو عظیم مجاہدین سے نسبت حاصل تھی اچانک وحشی خوارج کا روپ دھار گیے پھر ذہن ایسا بہکا کہ اسلام کو خوب نقصان پہنچایا اور کفار کی آنکھوں کا تارا بن گیے۔ جو کل تک راہ خدا کے مسافر تھے جانے انجانے میں مختلف ملکوں کے استخباراتی اداروں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گیے اور انہیں پتہ بھی نہ چلا۔ ایسے گمراہ گروہوں میں آج بھی ایسے نوجوان کثرت سے ہیں جنہیں قائدین کی در پردہ خیانتوں کا کچھ پتہ نہیں اور وہ اس سارے فساد کو کار ثواب سمجھے بیٹھے ہیں۔ لیکن حقیقتاً وہ جنت کے راستے سے کب کا اپنا رخ موڑ چکے۔ خوارج کی راہ کی منزل سیدھا جہنم کی عمیق گھاٹیاں ہیں۔ ایسی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں جب مجاہدین دشمن سے لڑ کر جب فارغ ہوئے تو بجائے اعلائے کلمۃ اللہ کے وہ وار لارڈز بن بیٹھے اور ظلم و عدوان کا بازار گرم کر دیا۔ الغرض یہاں تو ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں ہجرت و جہاد کی سعادتیں سمیٹنے والے اچانک وطنیت کے بت کو پوجنے لگے اور عالمی جہاد سے رخ موڑ بیٹھے۔ شریعت کا اس کی روح کے مطابق اللہ کی زمین پر نفاذ گویا انکے ذہن سے یوں محو ہو گیا جیسے کبھی وہ جہاد اور اسلام سے آشنا ہی نہ تھے۔ کئی کفار کی خوشنودی ڈھونڈنے لگے۔ کئی قید و بند کی صعوبتوں کے سامنے ڈھیر ہو گیے اور دولت ایمان کا سودا کر بیٹھے۔ کئی ایسے ہیں جن کی تلواریں دعویٰ تو اللہ کے دین کی سربلندی کا کرتی ہیں لیکن تابع فرمان فاسق اور غدار ریاستوں کے رہتی ہیں۔ جب حکام اپنے مفادات کے لیے کہتے ہیں تو جہاد شروع، اور جب حکام کو ان کے کفار آقاؤں کا سخت حکم آئے جہاد بند۔ معاذاللہ اور بھی ایسی کتنی ہی مثالیں ہیں جہاں لوگ شیطان کے دام و فریب کا شکار بن گیے۔ لیکن شہادت ایسی سعادت ہے کہ

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
‏‏‏‏ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

اس سعادت کو نہ شیطان چھین سکتا ہے نہ نفس نہ کوئی چور چرا سکتا ہے نہ کسی ڈاکو کا بس چلتا ہے۔

بعض مجاہدین فتح کو حتمی نصب العین سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن جہاد سے مقصود اول حکم خداوندی بجا لانا ہوتا ہے۔ اگر شریعت کے احکام ہی کو پس پشت ڈال کر فتح حاصل کرنا تھی تو قابض گروہ سے کیا جھگڑا تھا؟ مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانا اگرچہ مقاصد جہاد میں سے ہوتا ہے لیکن اس کا درجہ وہ نہیں کہ اس کا تقابل بھی نفاذ شریعت جیسے اولین مقصد سے کیا جا سکے۔ اور آزمودہ بات ہے کہ شریعت سے روگردانی کر کے کبھی امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

پھر بالفرض اگر حکومت حاصل ہو بھی جائے تو یہ خود ایک امتحان ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھی بھری پڑی ہے جہاں لوگ اقتدار کے نشے میں ڈوب کر غرق ہو گئے۔

زندگی تو ایسا امتحان ہے جہاں آ خری لمحے تک شیطان کے حملے جاری رہتے ہیں۔ اسی لیے مجاہدین کو شہادت ہی کی تمنّا دل میں رکھنی چاہیے۔ علامہ اقبال نے شاید اسی راز سے ان اشعار میں پردہ اٹھایا:

یہ غازی، یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنھیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی

خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر تمنائے شہادت رکھتے تھے کہ اس شدت کا مکمل اندازہ بھی محال ہے تاہم اس حدیث پاک سے کچھ سمجھنا آسان ہو گا۔

حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قالاخبرني سعيد بن المسيب، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قالسمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:” والذي نفسي بيده لولا ان رجالا من المؤمنين لا تطيب انفسهم ان يتخلفوا عني، ولا اجد ما احملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله، والذي نفسي بيده لوددت اني اقتل في سبيل الله، ثم احيا، ثم اقتل، ثم احيا، ثم اقتل، ثم احيا، ثم اقتل2صحیح البخاری

’’ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےاگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکل جاؤں اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے چلوں تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ رکتا جو اللہ کے راستے میں غزوہ کے لیے جا رہا ہوتا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہےمیری تو آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کر دیا جاؤں۔‘‘

پس ثابت ہوا کہ حقیقی کامیابی مرتبہ شہادت ہی کو سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ شہید رب کی رضا کے انتہائی بلند درجے کو پا لیتا ہے۔

مجاہدین کی دعاؤں میں شہادت کی دعا کو خاص دخل حاصل ہے لیکن ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں تمنائے شہادت اور محض شہادت کی دعا کی وجہ سے سے دنیا کے مشغلوں میں ڈوبے لوگوں کے لیے اسباب پیدا ہوتے گئے اور وہ ان کو محاذوں تک لے آئی یہاں تک کہ انہوں نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔

اللہ ہمیں بھی شہادت کا عظیم رتبہ عطا فرمائے۔ آمین

٭٭٭٭٭

Exit mobile version