حربِ ظاہری کا حربۂ باطنی

ایک بالکل بدیہی بات ہے کہ کوئی بھی مکان (علاقہ، سلطنت وغیرہ) اور زمان (صدی، دہائی وغیرہ) کی ترجمانی کرنے کا اصل مظہر انسانی معاشرہ ہوتا ہے۔ انسانی معاشرے کی ترجمانی کرنے والی زبان اس معاشرے کے افراد و اشخاص ہوتے ہیں اور افراد کی ترجمانی کرنے والی شے باطنی فکر ہوتی ہے۔

ایک فکر کی بنیاد دیکھا جائے تو ایک معمولی سے خیال کی کیفیت ہوتی ہے، لیکن وہی خیال نتیجتاً ایک معاشرہ و ثقافت ترتیب دیتا ہے، ایک مسلک تدوین کر دیتا ہے یہاں تک کہ کبھی صالح انقلاب برپا ہو جاتا ہے تو کبھی فتنہ پرور شیطانی مذہب وجود میں آ جاتا ہے۔

بطور مثال ڈارون کی تھیوری ’’نظریہ ارتقاء‘‘ (Theory of Evolution) کو ہی دیکھ لیں، اس کی تائید میں تو کوئی نقلی اشارات تو درکنار (خواہ کتب و صحائف محرَّفہ ہوں یا غیر محرفہ) عقلی اثر بھی موجود نہیں، بلکہ متاخرین سائنسدانوں کی بڑی تعداد جیسے ڈاکٹر مائیکل بیہی (Dr. Michael Behe ) اسی طرح ڈاکٹر سٹیفن میئر ( Dr. Stephen Meyer) وغیرہ نے مذکورہ نظریے کی پر زور تنقید کی یہاں تک کہ اسے خرافاتی و بے اصل ثابت کر دیا، محقق و مدلل انداز میں، مگر پھر بھی تاثیرِ خیال کو سمجھنے کے لیے اندازہ کریں کہ آج تک یہ تھیوری باقی ہے، موضوعِ چرچہ ہے، نظرِ اہمیت سے دیکھی جاتی ہے، اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے، بسا اوقات امتحانات میں موقوف علیہ سوال کے طور پر پوچھی بھی جاتی ہے، تو باوجود اپنی بے ڈھنگی اور بے تکی بنیاد کے اس نے معاشرے پر غیر معمولی اثر ڈالا اور نظریہ الحاد کو تعجب خیز تقویت دی۔

الغرض، تاثیرِ فکریہ تکوینِ معاشرہ کی اہم ترین اساس کی حیثیت رکھتی ہے، اسی بات کو مغربیوں اور صہیونیوں نے گہرائی سے بھانپا، چنانچہ پھر انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد آنے والی دجالی جنگ میں، جو ان کا اِس وقت مغزِ حیات ہے جسے وہ نسلاً بنسلٍ اپنا مقصد مان کر پروان چڑھاتے ہیں اور اسی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے نقشے مرتب کرتے ہیں، اسی تکوین فکر کے حربے کو اس جنگ کا بنیادی ہتھیار قرار دیا، اور ’’تعمیر فکر‘‘ (Ideological Development) کے نام سے مستقل و باضابطہ ایک تربیتی نظام کے غیر متناہی سلسلے کا آغاز کیا، جس کو غالباً اپنی ترجیحاتی فہرست میں سب سے ابتدائی اہمیت کا حامل اثاثہ قرار دیا اور اس پر جتنا سرمایہ و ڈالر خرچ کیا (سرمایہ دارانہ نظام، الحاد، فحاشیت، انفرادیت وغیرہ جیسے مغربی مفادات و نظریات کو فروغ دینے کے لیے) شاید ہی اتنا سرمایہ کسی اور جنگی و عملی مشن پر لگایا گیا ہو۔

اسی ’’تعمیرِ فکر‘‘ کے ذریعے سے لوگوں کو اپنا ذہنی غلام بنایا گیا، اپنا تہذیبی حامی بنایا گیا اور دنیا کو نظریاتی لائن سے اپنا اتحادی بنایا گیا جس کا واضح ثبوت روس اور امریکہ کے درمیان 45 سالوں تک جاری رہنے والی مشہور زمانہ جنگ ہے جسے سرد جنگ(cold war) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کا مرکزی پہلو سوائے اس کے اور کیا تھا کہ وہ جنگ ایک ’’تعمیرِ فکر‘‘ (Ideological development) کا وسیلہ و کردار تھی؟

پھر اس حربے کے لیے بھرپور مکر و منافقت سے کام لیا گیا، اس بناء پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے کی جنگ و سیاست کا رکنِ اعظم منافقت و مخادعت ہے ویسے تو ’’الحرب خدعۃ‘‘ (جنگ کی حقیقت دشمن کو دھوکا دینا ہے)، یہ چال ہر زمانے کی جنگ کا جزو لازم رہی ہے، لیکن فی زمانہ یہ چال جزو لازم سے بڑھ کر اصلِ کامل کا درجہ لے گئی ہے۔ غالباً اسی طرف صادق و مصدوق آقا ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے:

سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ، يُصَدَّقُ فِيهَا الْكَاذِبُ، وَيُكَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ، وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ، وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ، وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ “. قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ ؟ قَالَ الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ1أخرجه الإمام أحمد في مسنده-7912،و ابن ماجة في سننه-4036، والحديث حسن كما قال الأرنؤوط

’’ یقیناً لوگوں پر مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا مانا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں ’رويبضة‘ بات کرے گا، آپ ﷺ سے سوال کیا گیا: ’رويبضة‘ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا‘۔“

ایک ادنی صاحب فہم بھی شاید اس حدیث کی صداقت میں تردد نہیں کر سکتا، کیونکہ جس وضاحت سے یہ روایت عیاناً سامنے آ رہی ہے وہ ناقابل انکار ہے۔

بہر حال،تو یہ ہے تعمیر فکر کا حربہ۔ اب ہم بات کرتے ہیں کہ اس حربے کے کیا مراحل و عوامل ہیں جس کے ذریعے باطل قوتوں نے اپنے اس منصوبوں میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اور نتیجتاً انڈونیشیا تا مراکش سب جگہ بسنے والی امت مسلمہ جو امت واحدہ تھی اس امت کو وطنیت کے فرقوں میں بانٹ دیا نیز کئی طرح کے ذہنی ارتداد میں پھنسا دیا۔ حتیٰ کہ اب لبرلزم و سیکولرزم کے ذریعے صراحتاً ایک بڑا طبقہ زندیقیت کی راہ اختیار کر رہا ہے۔ پاکستانی ٹی وی سیریلز اور ان کے ایکٹرز اس کا مثالی و عملی ثبوت ہیں، پھر ہندوستانی فلموں ، ان کے اداکاروں اور نام نہاد فلمی ستاروں کا تو ذکر ہی کیا۔ پھر اس افسوس و رنج کی تعبیر میں تو الفاظ بھی نہیں ملتے کہ ان ایمان و عقل کے قلاشوں پر کیا آنسو ٹپکائے جائیں جو ان مرتدین و فاسقین، زندیق اور کرایے کے ہیروں کی اتباع کو نمونہ اور باعث فخر جانتے ہیں (الی اللہ المشتکی)

تو آئیے ان آلوں اور جالوں پر بات کرتے ہیں جن کو مغربی قوم نے بطور اسٹریٹیجی اپنایا اس منصوبے (تعمیر فکر) کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے۔

ویسے تو پانچ طرح کی جد و جہد قائم کی گئیں اس ’’تعمیرِ فکر‘‘ (Ideological development) کے سلسلے میں، لیکن ان میں دو کاوشیں بہت ہی عام مقبولیت اور عظیم افادیت حاصل کر گئیں۔

  1. تعلیمی نظام میں تعلیم کو مغربی جامہ پہنانے (Westernization of Knowledge) کے ذریعے، حتیٰ کہ کہا جانے لگا کہ علم(Education) کی زبان اصل انگریزی زبان ہے، پس اس زبان کا جاننے والا بڑا تعلیم یافتہ و تہذیب یافتہ سمجھا جاتا ہے، چاہے حقیقت میں اس سے Education کا ذرہ بھی مفقود ہو۔

  2. میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کے توسط سے ذہن سازی اور پروپیگنڈے کے ذریعے، حتی کہ ڈرامے اب محض ڈرامے نہیں بلکہ حقائق سمجھے جانے لگے، یوں کہا جانے لگا کہ ڈراموں میں ہوتی تو اداکاری و نقالی ہے لیکن دکھایا وہ جاتا ہے جو حقیقت ہے، اس طرح ڈرامے کی خرافات کو اب ذہن سنجیدہ جان کر قبول کرنے لگا۔

ان شاء اللّٰہ آنے والی قسطوں میں ان دونوں حکمت عملیوں (Strategies) کا مفصل جائزہ لینے کی اور ان کے حقائق پر سیر حاصل گفتگو کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

واللہ الموفق والمعین

٭٭٭٭٭

Exit mobile version