کشمیر، جنت نظیر، پہاڑوں کی آغوش میں سمائی یہ حسین وادی، عرب و عجم میں اپنی بے مثال خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے، لیکن اس کی خوبصورتی صرف قدرتی مناظر تک محدود نہیں۔ یہ سرزمین شہداء کے لہو سے سیراب ہے، یہاں کے بلند و بالا پہاڑ اُن جواں مردوں کی دلیری اور استقامت کی گواہی دیتے ہیں، یہاں کا ہر شہر اور گاؤں حق و باطل کے ان معرکوں کی یاد دلاتا ہے جہاں اللہ کے چند شیر، ایک، دو، تین یا چار، ہزاروں ہندو فوجیوں کے محاصرے میں بھی ڈٹے رہتے یہاں تک کہ جام شہادت نوش کر لیتے۔
کشمیر کی سرزمین پر آج ایک سنگین خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ہندو قابضین، اپنی ہر ممکن کوشش سے، کشمیر کے اسلامی ماضی کو مٹانے اور اس کی شناخت کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ کشمیر کی روشن تاریخ کو تاریکی میں ڈھانپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اس گم شدہ تاریخ کو دوبارہ زندہ کریں، اسے نئی نسلوں تک پہنچائیں۔
کشمیر کی سرزمین نہ صرف شہداء کے خون سے، بلکہ علمائے کرام کے علم و عمل سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں صدیوں سے مفتیان، مفسرین، محدثین، فقہاء، ائمہ، شیوخ، علماء، داعیان، صوفیاء، اور مشائخ جیسے بے شمار رجال پیدا ہوئے ہیں، جن سے دنیا اور خود کشمیری بھی انجان ہیں یا شاید انجان رکھے گئے ہیں۔
مقیم السنہ، اخوند ملا ابو الوفا، بابا محمد محسن کشمیری، حاجی نعمت اللہ نوشہری، شیخ اسلم کشمیری، سید جلال شاہ کشمیری، مفتی محمد قوام الدین کشمیری، اخوند ابو الفتاح کشمیری، مولانا عنایت اللہ شاہ کشمیری، مفتی ملا فیروز کشمیری، یہ صرف چند نام ہیں ایک طویل فہرست میں سے جو علومِ اسلامی کی خدمت میں نام ور ہیں۔ لیکن افسوس، آج ہم ان سے ناواقف ہیں، یہ ہماری کوتاہی ہے، ہماری غفلت ہے۔
کشمیر کی تاریخ کا ایک سنگین جھوٹ، ایک خطرناک پروپیگنڈا، آج ہندو قابضین کے ہاتھوں تیار کیا جا رہا ہے، وہ اپنی وسیع پیمانے کی سوشل میڈیا مہم کے ذریعے ایک جھوٹا بیانیہ پھیلا رہے ہیں، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چودھویں صدی سے پہلے یعنی بلبل شاہ کے آنے سے پہلے کشمیر میں اسلام کا کوئی وجود نہیں تھا، یہ صرف ایک جھوٹ نہیں، بلکہ ایک منظم سازش ہے۔ ایک ایسی کوشش جو کشمیر کی حقیقی تاریخ کو مسخ کرنا چاہتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں یہ زہر گھولنا چاہتی ہے کہ کشمیر ہمیشہ سے ہندوؤں کی سرزمین رہی ہے اور اسے دوبارہ ہندوؤں کو قبضے میں لینا چاہیے۔
یہ دعویٰ کہ چودھویں صدی سے قبل کشمیر میں اسلام کا کوئی اثر نہ تھا، تاریخ کی سنگین توہین اور ایک ناقابل قبول جھوٹ ہے۔ تاریخ کے روشن صفحات گواہ ہیں کہ آٹھویں اور نویں صدی سے ہی عرب تاجر، سیاح اور صوفی کشمیر آتے رہے ہیں۔ کشمیر کے تجارتی راستوں پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں ہمیشہ مسلمان تاجروں، سیاحوں اور گروہوں کا آنا جانا رہا ہے۔ بلبل شاہ سے پہلے کی مسلمانوں کی قبریں اور کتبے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ کشمیر میں اسلام کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ گیارہویں صدی میں راجا ہرش کے دور میں بھی غیر ملکی اثرات، جن میں مسلمان بھی شامل تھے، کشمیر میں موجود تھے۔ غزنوی اور ترک سلطنتوں کے ساتھ کشمیر کے تعلقات نے بھی اسلامی ثقافت کے اثرات کو بہت پہلے ہی کشمیر تک پہنچا دیا تھا۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بلبل شاہ اور ان کے بعد شاہ ہمدان نے اس زمین پر دعوت کا کام کیا جو کچھ حد تک جڑ پکڑ چکا تھا، ان کے آنے سے اسلام کا مکمل پرچار ہوا، لیکن یہ کہنا کہ اس سے پہلے کشمیر میں اسلام کا کوئی وجود نہیں تھا، ایک سنگین تاریخی غلط فہمی ہے، یہ جھوٹا پروپیگنڈا کشمیر کی شناخت کو مٹانے کی ایک سازش کا حصہ ہے۔
اسلامی تاریخ کو مٹانے کے استعماری حربے
کشمیر کی اسلامی تاریخ کو مٹانے اور ہندو شناخت کو مسلط کرنے کی جاری کوششیں ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں۔ یہ حربے الجزائر، لیبیا اور دیگر نوآبادیاتی علاقوں میں استعمال ہونے والی استعماری حکمت عملیوں سے حیرت انگیز طور پر ملتے جلتے ہیں۔ آئیے ان حکمت عملیوں کا جائزہ لیتے ہیں:
اسلام کی سرکوبی:
مذہبی اظہار پر وسیع پیمانے پر پابندیاں اور دینی اداروں پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کی مذموم کوششیں۔ یہ خود ساختہ سنسر شپ کا ماحول پیدا کر رہے ہیں اور دین پر آزادانہ عمل کو محدود کر رہے ہیں۔
ثقافتی ورثے کی تباہی:
کشمیری ثقافتی ورثے کو منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے، اس کے لیے ہندو ثقافت کو جارحانہ انداز میں فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ ثقافتی حملہ عوامی سڑکوں پر ہندو تہواروں کے کھلے عام جشن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، جو مؤثر طریقے سے کشمیری روایات کو دھندلا دیتا ہے اور انہیں کم تر کر دیتا ہے۔ کشمیر کی اسلامی شناخت کو ہندو ثقافت سے بدلنے کی یہ سوچی سمجھی کوشش نوآبادیاتی ادوار میں ہونے والی ثقافتی تباہی کی عکاسی کرتی ہے۔
پروپیگنڈہ اور ’’تہذیب سازی کا مشن‘‘:
اس بیانیہ کو فروغ دیا جاتا ہے کہ کشمیر میں جاری تبدیلیاں ایک ’’تہذیب سازی کا مشن‘‘ ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کشمیری لوگ تہذیبی طور پر پسماندہ ہیں، ان کے پاس نہ کوئی تہذیب ہے اور نہ ثقافت، اور ہم انہیں اپنی مہذب روایتوں سے روشناس کرا رہے ہیں۔ ان کے مطابق، جب ہم سے بندوق اور قلم چھین کر ہمارے ہاتھوں میں مائیک اور چلم تھمائی گئی، جب ہماری بہنوں سے پردہ چھین کر انہیں مغربی طرز زندگی کی طرف مائل کیا گیا، جب ہمارے دلوں میں مادیت پسندی کا زہر بھرا گیا، تب جا کر ہم ’’مہذب‘‘ کہلائے، لیکن ہر عقل مند انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ان دعوؤں کے ذریعے دراصل ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔
ہندی زبان کا زبردستی نفاذ:
بل بورڈز، سرکاری دفاتر اور حکومتی اداروں میں ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنا ایک دانستہ طور پر کیا جانے والا اقدام ہے، جس کا مقصد عوام کو ان کے اسلامی ماضی سے منقطع کرنا ہے۔ یہ لسانی تسلط اردو اور کشمیری زبانوں کو مٹانے کی جانب ایک قدم ہے، تاکہ آئندہ نسلیں اپنی تاریخ سے بے خبر رہیں اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ کشمیر کا کوئی اسلامی ورثہ موجود نہیں بلکہ یہ ایک ہندو تہذیب والا خطہ ہے۔
مذہبی تعصب و جبر:
دینی جماعتوں پر قابض ہندو حکومت کا سخت کنٹرول، کھلے عام تبلیغ و دعوت کے کاموں پر پابندیاں، یہ ظالمانہ اقدامات ایک خوفناک اور جبر کا ماحول پیدا کر رہے ہیں، جو ہماری مسلم شناخت کے آزادانہ اظہار کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔
اوقاف پر کنٹرول:
اوقاف (مذہبی عطیات) پر کنٹرول اور اس میں ہیرا پھیری، دینی اداروں اور برادریوں پر تسلط قائم کرنے کی استعماری حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے، یہ کنٹرول انہیں ہمارے دینی امور میں مداخلت کی اجازت دیتا ہے۔
ان حربوں کا مقصد:
کشمیر میں استعمال ہونے والے حربوں کا بنیادی مقصد وہی ہے کہ کشمیر کی اسلامی شناخت کی منظم تشکیل نو۔
ہم اس وقت ایک سنگین وجودی بحران(existential crisis) کا شکار ہیں، ہندو قابض طاقت ہماری زمین کی آبادیاتی ساخت تبدیل کر رہی ہے، ہماری نظریاتی بنیادیں کمزور کر رہی ہے، ہمارے نوجوانوں کو فحاشی، عریانی، موسیقی، منشیات اور شراب کی طرف مائل کیا جا رہا ہے، ہمیں ہماری اسلامی جڑوں سے کاٹا جا رہا ہے اور ایک جھوٹی کہانی گھڑی جا رہی ہے کہ کشمیر کی کوئی اسلامی تاریخ نہیں، یہ ہندوؤں کی سرزمین ہے جسے انہیں واپس لینا چاہیے۔ ان حالات میں ہمارا کردار کیا ہے؟ یہ صرف نوجوانوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارے ہر طبقے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
مختلف طبقوں کے لیے مخصوص تجاویز
-
علمائے کرام و اسلامی رہنما:
اسلامی تعلیم کو مضبوط بنانا:
علماء کو چاہیے کہ وہ معیاری اسلامی تعلیم کو فروغ دیں، اپنے مدارس میں قرآن، حدیث، فقہ کے ساتھ اسلامی تاریخ کی تعلیم کو عام کریں تاکہ ایمان کو مضبوط کیا جا سکے۔ خاص طور پر طلبہ کو ماضی کی تاریخی جنگوں کے بارے میں پڑھایا جائے، جیسے بدر، احد، خندق، اور معاصر دور میں مسلمانوں کی جدوجہد کی کہانیاں، تاکہ دلوں میں جہاد کی روشنی اور دین کی حفاظت کا شعور پیدا ہو۔
اسلامی ثقافت کی تبلیغ:
علماء کو چاہیے کہ وہ مجالس، اور اجتماعات میں کشمیری اسلامی ثقافت کو اجاگر کریں اور عوام کو اپنے آباؤ اجداد کے عظیم اسلامی ورثہ سے روشناس کرائیں۔
مساجد اور اسلامی اداروں پر علمائے حق کی گرفت مضبوط کرنا:
ہمیں اپنی مساجد اور اسلامی اداروں کو ریاستی سرپرستی والے وقف کے ہاتھ جانے سے روکنا ہو گا اور انہیں اہل حق علماء کی سربراہی اور نگرانی میں دینے کو یقینی بنانا ہو گا تاکہ دین کی صحیح تعلیم اور عمل جاری رہ سکے۔
-
عصری تعلیم سے وابستہ طبقہ (سکولوں، کالجوں کے اساتذہ اور پروفیسر):
جھوٹے بیانیہ کا علمی اور تحقیقی مقابلہ:
عصری تعلیم سے وابستہ طبقے کو چاہیے کہ وہ کشمیری اسلامی تاریخ، ثقافت اور ورثے کی علمی تحقیق اور تدریس میں اپنا کردار ادا کریں، اور جھوٹے پروپیگنڈے کے خلاف تحقیق اور مواد تیار کر کے طلبہ تک پہنچائیں۔ ایسے مضامین اپنے لیکچرز میں شامل کرنے پر کام کریں جو طلبہ میں اپنی شناخت اور حقائق کا احساس پیدا کریں۔
عصری ذرائع کا استعمال:
اساتذہ اور محققین کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا اور دیگر جدید ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے حقائق لوگوں تک پہنچائیں۔
-
والدین کی ذمہ داری:
زبان کا تحفظ:
ہر گھر میں کشمیری زبان بولنے کو یقینی بنایا جائے، والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو مقامی زبان(کشمیری، اردو) میں اسلامی کتابیں، سیرت اور دیگر دینی کتب پڑھائیں۔ یہ ہندی زبان کے بڑھتے ہوئے اثر کو کم کرنے میں مدد گار ہو گا۔
اخلاقی تربیت:
گھریلو ماحول میں اخلاقیات، دینی اقدار اور صحت مند رویوں کی تربیت دینا ضروری ہے تاکہ نوجوان فحاشی، منشیات اور غیر اخلاقی عادتوں اور کاموں سے بچیں۔
-
مسالک اور فرقوں کے مابین اتحاد:
چھوٹے اختلافات کو پس پشت ڈال کر بڑے مقصد کے لیے متحد ہونا ضروری ہے، اس اہم موڑ پر ہم سب کو اپنی نظریاتی تفریق اور فکری اختلافات کو فراموش کر کے ایک مشترکہ فرنٹ بنانا ہو گا تاکہ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ اتحاد میں ہی ہماری طاقت ہے، اور یہی سب کی فلاح و بقاء کا ضامن ہے۔
ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ہمارے دشمن ہمارے درمیان تفرقہ ڈال کر ہمیں کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات کو برداشت کرنا ہو گا اور مشترکہ مقصد کے لیے ایک ہونا ہو گا۔
یہ پیش کردہ حل کوئی حتمی علاج نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ ایک بنیاد ہیں جس پر ایک مضبوط تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے۔ حقیقی اصلاح تب ہی ممکن ہو گی جب ہم یہ سمجھ جائیں کہ یہ کوئی معمولی سیکولر تحریک یا عارضی انقلاب نہیں ہے، بلکہ ایمان اور کفر کا، حق اور باطل کا ایک معرکہ ہے۔ صرف تب اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نصرت سے نواز کر کامیابی عطا فرمائیں گے۔ ہمیں اپنے معاشرے کے ہر گوشے، ہر طبقے اور ہر پہلو کو دوبارہ زندہ کرنا ہو گا۔ اپنی جہادی روح میں نئی جان پھونکنی ہو گی۔ اس کے لیے ایک گہرا ذاتی انقلاب ضروری ہے۔
بقولِ شہید ذاکر موسیٰ :
’’مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے نصرت کا وعدہ کیا ہے اور یقیناً اللہ تعالی کا وعدہ سچا ہے۔ غزوۂ ہند ہماری تقدیر ہے اور جہاد ہمارا راستہ ہے۔ اور یقیناً تلواروں کے سائے میں ہی جنت ہے۔
اسلام میں ہی آپ کے مسائل کا حل ہے اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجیے، اپنے گھروں میں اسلام کی تعلیمات پھیلائیے، خود متقی بنیے، اپنے بچوں کو اسلام سیکھایئے، اور سب سے بڑھ کر جہاد میں اپنا حصہ ڈالیے۔‘‘
یاد رکھیں کہ ہماری ثقافت، زبان، شناخت اور سرزمین کی اصل قدر و قیمت تب ہی ہے جب یہ اسلام کے لیے وقف ہوں، بہت سے لوگ قوم پرستی کے جال میں پھنس کر اصل مقصد کو بھول گئے ہیں۔
ہماری زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ، ہمارے قلم سے لکھی گئی ہر سطر، ہمارے ہاتھ سے پھینکا گیا ہر پتھر، اور ہمارا بہایا گیا، بہایا جا رہا اور بہایا جانے والا ہر قطرۂ خون، یہ سب کچھ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف اس لیے کہ إِنَّ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّٰهِ
یہ نہ تو کسی دُنیاوی آئین اور نہ ہی ایسے کسی ملک کے ساتھ الحاق کے لیے ہے، جس کی ظالم فوج اور جابر حکمران اسلام کے دشمن اور کفر و نفاق کے علم بردار ہیں۔
لہٰذا، اپنے حوصلوں کو تازہ کیجیے، اور اس مقدس جہاد کی آبیاری کے لیے صف آرا ہو جائیے، جس پر ایک جانب ہندو بنیوں کی جارحیت کا سایہ ہے اور دوسری جانب منافقین، اس کی جڑوں کو کاٹنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
لفظوں کی قید میں بند، جذبات کا ایک طوفان برپا ہے، کچھ کہا، کچھ کہہ نہ سکا، باقی پھر کبھی! دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
٭٭٭٭٭