الحمد لله الذي لا يحب المعتدين و لا يهدي كيد الخائنين ، والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين، وعلى آله وصحبه أجمعين، ومن اهتدى بهديه إلى يوم الدين.
أما بعد:
رابطۃ علماء المسلمین خطے میں صہیونی ریاست اور ایرانی نظام کے درمیان جاری عسکری تصادم کے باعث پیدا ہونے والی سنگین صورتِ حال کا بغور جائزہ لے رہی ہے، اس موقع پر یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ ہمارے اوپر عائد شرعی فریضے اور سیاسی شعور کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے سامنے سچ و حق بیان کیا جائے اور امت کو خبردار کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے ان دونوں دشمنوں میں سے کسی ایک کے ساتھ صف بندی کے جال میں نہ پھنسیں۔ کیونکہ یہ دونوں دشمن مسلمانوں کا خون بہانے، ان کے ملکوں کو تقسیم کرنے اور ان کے اہم ترین معاملات کو تہہ تیغ کرنے کو اپنا مشترکہ ہدف بنا چکے ہیں۔
اوّل: صہیونی ریاست کی بابت: صہیونی قابض ریاست ابتدا ہی سے امتِ مسلمہ کے ان بدترین دشمنوں میں سر فہرست رہی ہے جو اس غاصب ریاست کے فلسطین کی مبارک سرزمین کےقلب میں گھونپے جانے سے لے کر اب تک امت کو تباہ کر رہا ہے۔
غزہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، یعنی اجتماعی نسل کشی، منظم طریقے سے ہسپتالوں، سکولوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بمباری، عام شہریوں کی جبری ہجرت اور فلسطینی شناخت کو مٹانے کی کوشش، یہ سب صلیبی حمایت کے ساتھ انجام پا رہا ہے، اور یہ جدید دور کے بدترین جرائم اور دہشت گردی کی ہولناک مثال ہے۔ یہ اس کھلے دشمن کی سفاکی کا زندہ نمونہ ہے جو کسی مومن کے ساتھ نہ کوئی رحم کرتا ہے اور نہ ہی عہد کی پاسداری۔
لہٰذا امت کا فلسطین کے ساتھ ہر ممکن طریقے سے کھڑا ہونا ایک شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے، جس میں نہ کسی تاویل یا لیت و لعل کی گنجائش نہیں۔ اور یہ امر ہرگز جائز نہیں کہ اس موقف سے توجہ ہٹانے کے لیے کسی دوسری خطرناک مجرمانہ کارروائی کا استعمال کیا جائے، جس کا ارتکاب بھی امت کے خلاف کیا جا رہا ہے۔
الله تعالىٰ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ(سورۃ الحج: ۳۹)
’’وہ لوگ جنہیں (ناحق) مارا جائے انہیں اذن جہاد دیا جاتا ہے کیونکہ مظلوم ہیں اور بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
دوم: ایرانی صفوی رافضی منصوبے کی بابت: ایرانی صفوی رافضی منصوبہ اس دور کے اُن خطرناک فتنوں میں سے ہے جو امت مسلمہ پر مسلط ہیں، اور یہ بات اب سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ یہ منصوبہ بظاہر مزاحمت اور جدوجہد کی آڑ میں چھپتا ہے، مظلومیت اور رواداری جیسے دل فریب نعروں کا لبادہ اوڑھتا ہے، جبکہ در حقیقت یہ امت کی پشت میں گھونپا گیا زہریلا خنجر ہے، اور راکھ میں دبی وہ چنگاری ہے جو موقع ملتے ہی مسلمانوں کے دارالحکومتوں میں بھڑک اٹھتی ہے۔
یہ ایک تاریخی تسلسل ہے جو کینہ، نفرت اور اعتقادی و سیاسی نفاق پر مبنی ہے۔ موجودہ دور میں بالخصوص خمینی انقلاب کے بعد سے یہ منصوبہ ایک تباہ کن، توسیع پسندانہ اور فرقہ وارانہ ایجنڈا رکھتا ہے جو سرحدوں سے ماورا ہے۔ اس کا مقصد اسلام کی بنیادوں کو منہدم کرنا، مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا، خرافات اور شرکیہ عقائد کی ترویج کرنا، صحابۂ کرامؓ پر طعن و تشنیع کرنا اور ہر دور میں اسلام دشمن قوتوں سے گٹھ جوڑ کرنا ہے۔
اس منصوبے نے اپنی ملیشیاؤں اور پراکسی مسلح گروہوں کے ذریعے عراق، شام، لبنان اور یمن میں مسلمانوں کے خلاف انتہائی بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
اور جو قتل و غارت، تباہی، فرقہ وارانہ بنیاد پر بھرتی، دشمنانِ اسلام سے گٹھ جوڑ اور ان کے ساتھ اتحاد کی صورتیں ہم آئے روز دیکھتے ہیں، وہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ بالکل واضح اور حقائق ہیں۔ ان کے اثرات سب دیکھ رہے ہیں اور ان کے اپنے اعترافات اس کی گواہی دیتے ہیں۔
امام ابن تیمیہ کے اس قول پر غور کریں جو انہوں نے صدیوں پہلے کہا تھا:
’’ روافض کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ قول، دوستی، مدد، قتال اور دیگر معاملات میں، مسلمانوں سے منہ موڑ کر یہود، نصاریٰ اور مشرکین کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ تو کیا ایسے لوگوں سے بڑھ کر کوئی گمراہ ہو سکتا ہے، جو مہاجرین و انصار جیسے سابقینِ اوّلین صحابہ کے دشمن ہوں اور کافروں و منافقوں سے دوستی رکھتے ہوں؟
اور رافضیوں سے بڑھ کر کسی دیگر گروہ میں اس قدر نفاق نہیں پایا جاتا بلکہ رافضیوں میں ہر ایک کے اندر نفاق کی کوئی نہ کوئی شاخ ضرور موجود ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک ایک الگ قسم (گروہ) شمار ہوتے ہیں۔
جب مسلمان ان کے خلاف ساحلِ شام کے ایک پہاڑ پر لڑے، جہاں وہ مسلمانوں کا خون بہاتے، ان کا مال لوٹتے اور راستے بند کرتے تھے اور وہ یہ سب دین(نیکی) سمجھ کر کرتے تھے تو ترکمانوں کے ایک گروہ نے ان سے قتال کیا، تو وہ کہنے لگے: ہم مسلمان ہیں، مگر ترکمان جواب دیتے تھے: نہیں، تم(مسلمانوں سے) الگ کوئی گروہ ہو۔ چنانچہ ان(ترکمانوں) کے دلوں کی سچائی اور صفائی کے باعث، وہ اس حقیقت کو جان گئے کہ یہ لوگ ایک الگ قوم ہیں، جو اپنے امتیازی رویّوں کی وجہ سے مسلمانوں سے خارج ہیں۔‘‘1منهاج السنة لابن تيمية: ٣٧٤/٣
اور جو بات ابن تیمیہ نے صدیوں پہلے بیان کی تھی، وہی آج کے دور میں ایک نہایت بھیانک شکل میں عراق، شام، یمن، لبنان اور اس سے پہلے افغانستان میں دوبارہ دہرائی گئی ہے۔
سوم: ہم رابطہ علماء المسلمین کی طرف سے، امت کے تمام افراد کو خواہ وہ حکمران ہوں یا عوام، علماء ہوں یا دانشور حضرات، خبردار کرتے ہیں کہ وہ ان دونوں خطرناک منصوبوں میں سے کسی کے فریب میں نہ آئیں۔ صہیونی منصوبہ ایک کھلا ہوا دشمن ہے، جبکہ صفوی نفاق ایک چھپا ہوا دشمن ہے۔ اور دونوں امتِ مسلمہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بلکہ چھپا ہوا دشمن بعض اوقات زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ امت مسلمہ خاص طور پر علمائے کرام، دانشور حضرات اور باخبر طبقے اس دھوکہ دہی کے پردے کو چاک کریں اور گمراہی و فریب کے اس گرداب سے باہر نکل آئیں۔
نہ تو فلسطینی قضیہ کا نعرہ لگا کر امت کو اندر سے زک پہنچانے کی اجازت دی جا سکتی ہے، اور نہ ہی ایرانی نظام اور اس کی فرقہ وارانہ ملیشیاؤں کے خونریز ماضی کو اس لیے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس وقت صہیونی دشمن کے خلاف کھڑے ہیں۔
چہارم:رابطہ علماء المسلمین ان حقائق کو واضح کرتے ہوئے، حق گوئی اور برأتِ ذمّہ کے طور پر درج ذیل سفارشات پیش کرتی ہے:
-
ان دونوں خطرناک منصوبوں (صہیونی اور ایرانی) کے شر سے باخبر رہنا واجب ہے اور صہیونی ریاست یا ایرانی نظام کے ساتھ کسی بھی قسم کے اتحاد کو مکمل طور پر مسترد کیا جائے، کیونکہ یہ دونوں اللہ، اُس کے رسول ﷺ، اور اہل ایمان کے کھلے دشمن ہیں۔
-
جھوٹے نعروں کے پیچھے نہ بھاگا جائے، چاہے وہ ’’دوستی اور امن‘‘ کے نام پر ہوں، یا ’’مزاحمت‘‘ کے عنوان سے، یہ سب در حقیقت تسلط اور استعمار کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والے ہتھکنڈے ہیں۔
-
امت مسلمہ کے قضیوں کی حمایت ایک خالص اسلامی بنیاد پر ہونی چاہیے، ایسی بنیاد پر جو کسی بیرونی محور یا غیروں کے ایجنڈے کی تابع نہ ہو۔
-
علماء، داعیانِ دین اور ہر آزاد آواز کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ بیداری اور شعور پیدا کرنے والے پیغامات کو عام کریں، چھپی ہوئی سازشوں کو بے نقاب کریں اور میڈیا کی طرف سے کیے جانے والے فریب، دھوکہ دہی، اور افکار کو پراگندہ کرنے کی کوششوں کا شکار نہ ہوں۔
-
قرآن و سنت کی بنیاد پر قائم حقیقی اسلامی اتحاد کو مضبوط کیا جائے، نہ کہ کسی فرقہ واریت، قوم پرستی یا دیگر گمراہ کن نعروں کی بنیاد پر۔ تمام مخلص مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا متحدہ اسلامی منصوبہ تیار کریں جو کسی دشمن کے ایجنڈے کے تابع نہ ہو اور اسی میں اللہ کی مدد و توفیق کے بعد ان کی نجات اور موجودہ مصائب سے خلاصی ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ امت مسلمہ سے غم و اندوہ کی چادر ہٹا دے، منافقوں کے چہروں سے نقاب کھینچ دے، اپنے مومن بندوں کو فتح و نصرت عطا فرمائے، امت کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اشرار کے مکر و فریب سے بچائے۔
والله غالب على أمره، ولكن أكثر الناس لا يعلمون.
جاری کردہ:
مجلس اعلیٰ برائے رابطہ علماء المسلمین
٢٠ ذي الحجہ ١٤٤٦ ھ
بمطابق ١٦ جون ٢٠٢٥ء
- 1منهاج السنة لابن تيمية: ٣٧٤/٣