سوات میں ڈوبنے والے سیاح ایک گھنٹے سے زائد ریسکیو کے منتظر رہے مگر بالآخر موجوں کی نذر ہو گئے۔ اس واقعہ نے ایک دفعہ پھر عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان کی جانوں کی قیمت ان ریاستی اداروں کے نزدیک کیڑے مکوڑوں کے برابر بھی نہیں، جو عوام کے خون پسینے کی کمائی کا ایک بڑا حصہ ٹیکس کی صورت میں ہڑپ کرنے کے باوجود، قدرتی آفات، سیلاب، زلزلوں اور ریسکیو کے نام پر قائم اداروں کے لیے بھاری بجٹ پاس کرواتے ہیں مگر عملی اقدام صفر رہتا ہے۔
اس واقعہ پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں جس انداز سے رپورٹنگ کی گئی اس سے بخوبی ظاہر تھا کہ بظاہر بے باک اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنانے والے ادارے بھی محتاط انداز میں اور ریڈ لائن سے دور رہتے ہی واقعہ کو رپورٹ کر رہے ہیں، اور اسی میں بال کی کھال اتار رہے ہیں۔ مثلاً ریسکیو 1122 کیوں بر وقت نہ پہنچ سکی؟ ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل کے بیان کے مطابق آپریٹر سے معلومات لینے میں غلطی ہوئی یا شاید بتانے والے نے صحیح نہیں سمجھایا جس سے آپریٹر نے اسے طبی معاملہ سمجھا اور ایمبولنس روانہ کر دی گئی۔ بعد میں جب صورتحال واضح ہوئی تو دیر ہو چکی تھی۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بالائی تحصیلوں خوازہ خیلہ، مٹہ، چارباغ اور بابوزئی نے مینگورہ کے حکام کو بر وقت خبردار کیوں نہیں کیا؟ سانحہ کی شام، خیبر پختونخوا حکومت نے بابوزئی اور خوازہ خیلہ کے اسسٹنٹ کمشنرز کو تاخیر سے رد عمل دینے اور قبل از وقت وارننگ جاری کرنے میں ناکامی پر معطل کر دیا جبکہ انتظامات میں ناکامی پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریلیف) کو بھی معطل کر دیا گیا۔
صحافی لحاظ علی کے مطابق سوات میں ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ افسر کی سرکاری گاڑی کو، تحریک انصاف کے صوبائی وزیر نیک محمد داوڑ کا بیٹا، نومبر کے احتجاج میں شرکت کے لئے اسلام آباد لے گیا تھا۔ آج بھی وہ گاڑی اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق جس جگہ پر سیاح ڈوبے وہ دریا کا قدرتی راستہ تھا مگر اس جگہ قبضہ مافیا نے دریا کے ایک حصے پر معمولی سا بند بنا کر دریا کا رخ موڑا تھا لیکن جب بہاؤ تیز ہوا تو وہ معمولی سا بند ٹوٹ گیا اور پانی اپنے قدرتی راستے پر سیلاب کی صورت میں آگیا۔ سانحے کے بعد دریا کے قریب آپریشن میں غریبوں کی املاک تجاوزات کے نام پر بغیر کسی نوٹس کے مسمار کر دی گئیں، جبکہ حکومتی اشخاص کے بڑے ہوٹلوں کو جو عین دریا پر ہی تعمیر کیے گئے ہیں انہیں چھوڑ دیا گیا۔
خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے ایک اہلکار نے یہ کہہ جان چھڑا لی کہ ہیلی کاپٹر سے بچاؤ پر غور کیا گیا تھا لیکن خراب موسم کی وجہ سے اسے نہیں بھیجا گیا۔ ویسے کے پی کے حکومت کے پاس ایک یا دو عام ہیلی کاپٹر ہیں۔ اصل سوال تو فوج سے ہی ہونا چاہیے تھا جن کے پاس صرف خیبر پختونخواہ میں ایک رپورٹ کے مطابق پچاس جدید ہیلی کاپٹر ہیں۔ سوات کے اسی علاقے میں 2009ء میں مجاہدین کے خلاف آپریشن میں فوج نے جیٹ طیاروں کے ساتھ کوبرا ہیلی کاپٹر استعمال کیے۔ اور ویسے بھی خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں ہیلی کاپٹروں کا ہر وقت منڈلاتے رہنا اب تو روٹین بن چکا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے تو چلو فوجی بیانیے کے مطابق ہی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس سانحے کی ساری ذمہ داری مقامی سول انتظامیہ اور صوبائی حکومت پر تھوپی، مگر سوشل میڈیا پر عام عوام تو گہرائی میں جانے کے بجائے اس واقعہ کی فوٹیج کے ساتھ امارت اسلامیہ افغانستان کی ریسکیو فوٹیج شئیر کرتے رہے جس میں انہیں سیلاب میں پھنسے افغان شہریوں کو ریسکیو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ویڈیو میں تو افغان اہلکار بکتر بند گاڑی دریا میں پھنسے بچوں کو بچانے کے لیے لے جاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں ۔ برفباری کے دنوں میں ایک دفعہ چند افغان شہری اپنے مال مویشیوں کے ساتھ پھنس گئے تو افغان انتظامیہ نے انہیں مال مویشیوں سمیت ریسکیو کرنے کے انتظامات کیے۔ اور یہ سب کچھ افغان انتظامیہ اس وقت کرنے کے قابل ہو گئی جب امریکیوں کے انخلاء کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا۔ افغان حکومت اس وقت ان بچوں کی بھی سرپرستی اور مالی امداد کر رہی ہے جن کے والد یا گھر کے سربراہ فورسز کا حصہ تھے اور طالبان کے خلاف جنگ میں مارے گئے۔
ویسے تو پاکستان کے تمام سرکاری محکموں میں اہلکاروں کے کام کرنے کا عمومی رویہ کیا ہوتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔ جب سرکاری محکموں میں سب سے نچلے درجے کی معمولی نوکری کے لیے لوگ لاکھوں روپے رشوت دیتے ہوں، اور یہ خیال ہو کہ کام کم ہی کرنا ہے، چھٹیاں جب دل چاہے کریں اور کام کرنے کے لیے بھی جب موقع ملے تو رشوت کے مطالبے۔ اس کے علاوہ ایک وہ تعداد ہوتی ہے جو گھوسٹ ملازمین کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی انہوں نے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرنی ہے ۔ اس ماحول اور ذہن کے ساتھ کیا ممکن ہے کہ ریسکیو جیسے ادرے میں ایسے اشخاص بھرتی ہوں جو دوسروں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے سے نہ ہچکچائیں؟
سانحہ سوات کے وقت ایک اور ویڈیو وائرل رہی جس میں بلال نامی ایک مقامی شخص کو اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو ریسکیو کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کتنی دفعہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جس میں کوئی فرد اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کو ریسکیو کرتا ہے۔ سوات کا رہائشی فرمان علی سعودی عرب میں 2009ء میں آنے والے سیلاب میں چودہ افراد کی جانیں بچاتا ہے اور پھر مزید کو بچانے کی کوشش میں خود موجوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اسے سعودی عرب کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا جاتا ہے ۔ اصولی طور پر تو ایسے کردار کے لوگ ہی ریسکیو کے اداروں میں نوکری کے حقدار ہیں۔
یہاں ایک اور واقعے کی تفصیل سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ دو سال قبل اگست 2023ء میں خیبر پختونخواہ کے ضلع بٹگرام میں آلائی جھنگڑئے پشتو کے علاقے میں کیبلز ٹوٹنے سے نویں جماعت کے آٹھ طلباء چئیر لفٹ میں پھنس گئے۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا ہے اور ایس ایس جی کمانڈوز ہیلی کاپٹر سے ان بچوں کو ریسکیو کرنا چاہتے ہیں پورے دن بھر کی تگ و دو میں صرف ایک بچہ ریسکیو ہو پاتا ہے اور پھر مغرب کے بعد اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ اس ساری تگ و دو کے دوران چند افراد جو چئیر لفٹ کے کام سے ہی وابستہ تھے ایک ڈولی نما چارپائی اور متعلقہ سامان کی تیاری میں مصروف رہے تاکہ اگر وہ بچے ہیلی کاپٹر سے ریسکیو نہ ہو سکیں تو یہ اپنے طریقہ کار کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کریں گے ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ صاحب خان نامی اس شخص نے اپنی ٹیم کی مدد سے باقی تمام بچوں کو کم وقت میں ریسکیو کر لیا۔ صاحب خان نامی یہ شخص ہیرو بن چکا تھا ۔ اس موقع پر فوج جو حرکت کرتی ہے اس سے ان کی اخلاقیات، خودغرضی اور پروجیکشن کی ہوس کا اندازہ لگائیں۔
اس واقعے کے حوالے سے معروف خاتون صحافی نسیم زہرہ کا آڈیو کلپ بھی وائرل ہوا جس میں وہ کسی بریگیڈئر صاحب کو جواب دیتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ آخر اس میں ایسا کیا ایشو ہے کہ فیکٹ کے مطابق کہا جائے کہ مقامی افراد نے ریسکیو کیا۔ جبکہ بریگیڈئر صاحب کا الزام تھا کہ اس انداز سے خبر پیش کرنے کا مطلب ہے کہ لوگ کسی ایجنڈے کے تحت کوئی مخصوص بیانیہ بنانا چاہتے ہیں۔ بہرحال اگلے روز کے اخبارات نے اس واقعے کو جس انداز سے پروجیکٹ کیا اس سے یہ بات بخوبی واضح تھی کہ سب نے فوج کی ڈکٹیشن کے مطابق ہی اسے فوج کا ریسکیو آپریشن قرار دیا جس میں ان مقامی افراد کا کردار ثانوی تھا اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ فوج کی مدد کے بغیر ناممکن تھا۔
فوج اس جھوٹی پروجیکشن کے لیے کتنی حریص ہے اور اس کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، اس کا اندازہ ایک اور واقعے سے لگائیں۔ جب 2005ء میں کشمیر میں زلزلہ آیا تو میرے ایک عزیز نے کشمیر کی ایک سوشل ویلفیئر تنظیم کے لیے کچھ عرصہ رضا کارانہ طور پر کام کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس این جی او کو بیرون ملک سے خیموں کی شپمنٹس آئیں جو فوج نے ائیر پورٹ پر روکے رکھی اور اس دوران تنظیم پر بہت عرصے تک دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ وہ اس کی تقسیم فوج کے ذریعے کروائیں تب ان خیموں کی شپمنٹس کسٹم سے چھوٹ سکیں گی۔
ایک سوال یہ بھی ذہن میں اٹھتا ہے کہ پاکستان میں کوہ پیماؤں کو سخت موسم میں اونچے پہاڑوں پر خطرناک ترین جگہوں پر بہت مشکل ترین آپریشن کر کے ریسکیو کیا جاتا ہے، تو پھر یہاں کیوں نہ کیا گیا؟ اس سوال کا جواب بی بی سی کی 2018ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے ملا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کوہ پیما کسی بھی حادثے کی صورت میں یا تو اپنے ساتھیوں کو اطلاع کرتا ہے جو بیس کیمپ میں ہوتے ہیں یا پھر اپنے ٹور آپریٹر کو۔ ٹور آپریٹر کبھی خود اور کبھی پاکستان میں کوہ پیمائی کے ادارے الپائن کلب کے ذریعے عسکری ایوی ایشن کو اطلاع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ہیلی کاپٹر کو ریسکیو کے لیے روانہ کرے۔ عسکری ایوی ایشن بظاہر ایک نجی ادارہ ہے لیکن یہ ہیلی کاپٹر فوج کا ہی استعمال کرتا ہے۔ کوہ پیما مہم پر روانہ ہونے سے قبل عسکری ایوی ایشن کو 15 ہزار ڈالر اسی لیے ادا کرتا ہے کہ وہ حادثے کی صورت میں فوراً کام شروع کر دے۔ بصورت دیگر اس کے ملک کا سفارت خانہ عسکری ایوی ایشن کو ریسکیو کے عمل میں تمام اخراجات ادا کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔ اس ادارے کے ہیلی کاپٹرز جان بچانے والوں کو لے کر کوہ پیماؤں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ عام طور کسی کوہ پیما کو کسی مقام سے اٹھا کر بیس کیمپ یا سکردو لانے میں 17 ہزار ڈالرز تک خرچہ آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیلاب میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے جیسے سادہ اور آسان کام سے فوج نے اس لئے منہ پھیرے رکھا کیونکہ یہاں ڈالر نہیں مل رہے تھے اور اونچی خطرناک چوٹیوں اور گلیشیئرز میں خطرناک ریسکیو آپریشن اس لئے اہم ہے کیونکہ وہاں بھاری رقم مل رہی ہوتی ہے اور غیرملکی کوہ پیماؤں کی وجہ سے عالمی میڈیا میں پروجیکشن بھی۔
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارہ این ڈی ایم اے بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس ادارے کی سربراہی ایک حاضر سروس جرنیل کر رہا ہے ۔ اس کا مطلب ہوا کہ اس ادارے کے بھاری بھرکم بجٹ ایک طرف اور یہ جرنیل خود ایک طرف۔ اس بھاری بھرکم بجٹ کے ساتھ یہ ادارہ اب تک صرف موسمی الرٹ ہی جاری کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوارڈی نیشن کا منزہ حسن کی صدارت میں اجلاس ہوا، جس میں بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک فرماتے ہیں کہ ان کا ادارہ قدرتی آفات کے حد سے بڑھ جانے کی صورت میں میدان عمل میں آتا ہے۔ قدرتی آفت پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ ضلعی سطح پر انتظامیہ کی پہلے ذمہ داری بنتی ہے۔ ممبر کمیٹی شگفتہ جمانی نے سوال اٹھایا کہ ’آنے والے دنوں میں بھی بارشیں متوقع ہیں۔ تو اس کے لیے این ڈی ایم اے کا کیا لائحہ عمل ہے؟‘ چیئرمین این ڈی ایم اے نے جواب دیا کہ ’18ویں ترمیم کے بعد یہ سبجیکٹ صوبائی نوعیت کا ہے۔ ہم صوبوں کو بر وقت معلومات فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ حفاظتی اقدامات اٹھا سکیں۔
یعنی ذمہ داری سے جان چھڑانی ہے اس کے لیے بھی راستہ مزید جھوٹ ہے اور بغیر کچھ کیے کریڈٹ لینا ہو، پروجیکشن کروانی ہو، خود کو مسیحا ثابت کرنا ہو تو اس کے لیے بھی راستہ مزید جھوٹ ہے۔ لیکن یہ دجل و فریب آخر کب تک ان کا ساتھ دے پائے گا؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ (سورۃ النحل: ۲۶)
’’ ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کے منصوبے بنائے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ ( منصوبوں کی) جو عمارتیں انہوں نے تعمیر کی تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں بنیاد سے اکھاڑ پھینکا، پھر ان کے اوپر سے چھت بھی ان پر آ گری، اور ان پر عذاب ایسی جگہ سے آ دھمکا جس کا انہیں احساس تک نہیں تھا۔‘‘
٭٭٭٭٭